(مونسٹر(ازقلم مس احمد
جب بات “میسنے” اور “کمینگی” کی ہو، تو اکثر لوگ اس جملے سے واقف ہوتے ہیں کہ “جب میسنا کمینگی پر آتا ہے تو اُس سے بڑا کوئی کمینہ نہیں ہوتا۔” یہ بات سننے میں شاید مزاحیہ یا عام سی لگے، لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کے پیچھے ایک گہری نفسیاتی حقیقت چھپی ہے۔
انسان کے اندر ایک “مونسٹر” چھپا ہوتا ہے، ایک ایسی توانائی، ایک ایسا غصہ، ایک ایسا ردعمل جو وہ روزمرہ کے معاملات میں استعمال نہیں کرتا۔ کچھ لوگ اس مونسٹر کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر باہر نکالتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی کسی کو تنگ کرتے ہیں، کبھی بےعزت، کبھی چالاکی سے بات نکال دیتے ہیں — یعنی اُن کی کمینگی کی سطح ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتی رہتی ہے، جیسے روز تھوڑا تھوڑا زہر نکال دینا۔
ایسے لوگ دراصل اپنی منفی توانائی کو مسلسل نکال کر ہلکے ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ظلم، تضحیک، چالاکی، سازش اور جھوٹ ایک معمول بن چکا ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے اندر کے مونسٹر کو کھلا چھوڑ دیا ہوتا ہے، اور وہ اپنی ہر کمزوری، ہر تکلیف، ہر محرومی کا بدلہ دوسروں کو کاٹ کر لیتے ہیں۔ان کی زبان کاٹتی ہے، ان کی خاموشی طنز بن جاتی ہے، اور ان کی موجودگی ماحول میں بوجھ بن جاتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک وقت پر عادت بن جاتا ہے — اور پھر اُن کی کمینگی کسی کو چونکاتی نہیں، بس تھکا دیتی ہے۔
دوسری طرف، “میسنا” وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ خاموش، شریف، صابر، اور تحمل والا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے اندر کے مونسٹر کو قابو میں رکھتا ہے۔ بولتا کم ہے، دکھاتا کچھ نہیں، سب سہہ لیتا ہے۔ لیکن یہ سہنا ہمیشہ خاموشی نہیں لاتا۔ یہ اندر ہی اندر ایک انرجی جمع کرتا ہے، ایک ردعمل کی طاقت، جو وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ اور جب کبھی وہ شخص حد سے گزرتا ہے، یا کوئی اس کی برداشت کے تمام بند توڑ دیتا ہے، تو وہ اندر چھپا مونسٹر ایک ہی وار میں سب کچھ اُلٹ کر رکھ دیتا ہے۔
ایسے لوگ دراصل اندر سے بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ان کے ضبط کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ وہ ہر ذاتی حملہ، ہر بےعزتی، ہر طعنہ، ہر سازش کو اپنے اندر سمیٹتے رہتے ہیں۔ باہر سے وہ ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں، خاموشی سے گزر جاتے ہیں، لیکن اُن کے اندر ایک دنیا آباد ہوتی ہے — ایک ایسی دنیا جہاں ہر بات لکھی جا رہی ہوتی ہے، جہاں ہر زخم محفوظ ہوتا ہے۔
اور جب وہ زخم ایک مقام پر جمع ہو جاتے ہیں، جب برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے، تو وہ میسنا، جسے سب نے کمزور سمجھا تھا، ایسی شدت سے وار کرتا ہے کہ سارے “چالاک” بےبس نظر آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جو ہمیشہ نرم، شریف اور میسنے لگتے ہیں، جب وہ ردعمل دیتے ہیں تو ان کا طریقہ نہ صرف چونکا دینے والا ہوتا ہے بلکہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ سامنے والے کو اپنی تمام کمینگی ہلکی لگنے لگتی ہے۔ کیونکہ وہ ردعمل کسی وقتی جذباتی کیفیت کا نہیں ہوتا، بلکہ برسوں کی دبی ہوئی توانائی کا طوفان ہوتا ہے۔
اور یہی طوفان تباہ کن بھی ہوتا ہے اور عبرتناک بھی۔ میسنے کا وار ہمیشہ منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں ہوتا — بلکہ وہ اس وقت ہوتا ہے جب احساسات کا سیلاب عقل کی دیواروں کو توڑ دیتا ہے۔ اس کا ایک جملہ، ایک خاموش قدم، ایک فیصلہ ساری پرانی سازشوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ جو لوگ ہمیشہ اسے کمزور، ہار ماننے والا، پیچھے رہنے والا سمجھتے تھے، وہ ایک پل میں اس کے سامنے چھوٹے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب معاشرے کو احساس ہوتا ہے کہ میسنے کو چھوٹا سمجھ کر ہم نے سب سے بڑی غلطی کی ہے۔
اس لئے معاشرے میں یہ بات ایک تجربے کے طور پر رائج ہو چکی ہے کہ “میسنوں کو مت ستاؤ”۔ کیونکہ تم جسے کمزور، چپ رہنے والا، بے ضرر سمجھ رہے ہو، وہ اگر کمینگی پر اُتر آیا، تو تمہاری ساری چالاکیاں، ساری حرکتیں اس کے ایک وار کے سامنے بے بس ہو جائیں گی۔
یہ بات صرف مذاق نہیں، ایک نفسیاتی حقیقت ہے۔
میسنے کی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھو۔اس کی نظریں سب کچھ دیکھتی ہیں، اس کا دل سب کچھ محفوظ رکھتا ہے، اور اس کا صبر وقت کے ساتھ تلوار بن جاتا ہے۔
پس، سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ ہر شخص کا احترام کیا جائے، خصوصاً اُن لوگوں کا جو خاموش رہتے ہیں۔ کیونکہ جو اپنی آواز نہیں اٹھاتے، ان کے اندر ایک آواز ہوتی ہے، جو جب گرجتی ہے تو سب کچھ ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
اور یہ وہ گرج ہوتی ہے، جس کے بعد سب کچھ خاموش ہو جاتا ہے۔ایسی خاموشی، جس میں سبق چھپا ہوتا ہے۔ایسا سبق، جو لفظوں سے نہیں، تجربوں سے سکھایا جاتا ہے۔
