me mera dil or tm

Mai Mera dil Or tum Episode 2 written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی)

باب اول : امن کا نشان قلم کا نشان

قسط نمبر ۲

دروازہ کھلا تو ہلکی سی دھیمی آواز کے ساتھ ایک تھکن زدہ سانس فضا میں گونجی۔ اُس نے سفید ڈھیلی شرٹ پہن رکھی تھی جس کے بٹن بے نیازی سے کھلے تھے اور اندر سے ہلکی سی سفید شرٹ جھانک رہی تھی۔ اس کے ساتھ سیاہ رنگ کی لمبی اسکرٹ تھی جو سادگی کے باوجود نفاست کا تاثر دے رہی تھی۔ سر پر ہلکا سا کالا دوپٹہ بے ترتیب سا لپٹا ہوا تھا۔ کلائی میں چاندی کی گھڑی اور ایک نازک سا کنگن جگمگا رہا تھا جبکہ کندھے پر ٹنگا ہلکا گلابی بیگ اس کے انداز میں تازگی اور نرم چمک بھر رہا تھا۔ یہ حلیہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں ایک معصوم مگر پُر وقار شخصیت کا احساس دلاتا۔ امل نے اندر داخل ہوتے ہی بیگ بے نیازی سے صوفے پر پھینکا اور دوسرے صوفے پر یوں بیٹھ گئیں جیسے کسی میدانِ جنگ سے لوٹ کر آئی ہوں۔

دادی! یار قسم سے، بہت تھک گئی ہوں!
اُس نے تھکے ہوئے انداز میں آنکھیں موندے  ہوئے کہا۔

سامنے بیٹھی انیسہ بیگم نے چشمے کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا،
اے! پہاڑ توڑ کے آئی ہے یونیورسٹی سے؟

اسی لمحے ایک ملازمہ جلدی سے لاؤنچ میں داخل ہوئی، اور نہایت ادب سے ٹرے میں رکھا تازہ جوس کا گلاس امل کے سامنے رکھا، جبکہ دوسری ملازمہ خاموشی سے صوفے پر پڑا بیگ اٹھا کر اس کے کمرے کی طرف روانہ ہو گئی۔

امل نے جوس کا گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے ایک لمبی سانس بھری،
دادی، آپ کو معلوم بھی ہے پڑھنا کتنا مشکل ہے؟ اوپر سے ایک کلاس سے دوسری، دوسری سے تیسری، ایک تو اتنا بڑا یونیورسٹی ہے، بندہ تھکے گا نہیں.

انیسہ بیگم چشمہ اتارا اور بولیں،
اچھا اچھا بس بہت سن لیا، اب جاؤ فریش ہو کے
آؤ امنوا بھی آنے والا ہوگا۔ پھر کھانے کا کہتی ہوں۔

امل نے جوس کا آخری گھونٹ پیا، سر کو ہلکا سا جھٹکا دیا جیسے نیند کو جھٹک رہی ہو،
ہاں ٹھیک ہے۔

یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، اور اپنے نرم قدموں سے زینے کی طرف بڑھ گئی۔

وہ کوئی عام لڑکی نہ تھی—سیّد امل ایمان، سید امن حنان افتخار کی اکلوتی بہن۔ ایک باوقار خاندان کی روشن آنکھ، جس میں ضد بھی تھی، شوق بھی، اور شعور بھی۔ اس کے انداز میں خاندانی رکھ رکھاؤ، اور باتوں میں تعلیم کی جھلک تھی۔ وہ جس محفل میں ہوتی، سب نظریں اسی پر ٹھہر جاتیں—جیسے کسی مکمل داستان کا ابتدائی صفحہ ہو، جو خود کو مکمل کہلانے سے انکار نہ کر سکتا ہو۔

+++++++++++++++

کیا ہے؟ کہا تھا نا،
I am not interested in you!

یسرٰی کے قدم ابھی کمرے کی دہلیز پر ہی تھے جب اس نے یہ الفاظ پتھر کی طرح اچھال دیے۔ اس کا لہجہ سخت، آنکھیں بے رحم اور چہرہ جذبات سے خالی تھا۔ وہ، جو ہر کسی سے نرمی سے بات کرتی تھی، جس کی آواز میں مٹھاس اور چال میں شائستگی تھی—اس وقت ایک جلی ہوئی لکیر کی مانند تیز اور سیدھی تھی۔

یہ تلخی… ہر اُس انسان کے لیے مخصوص تھی، جو اُس میں رتی برابر بھی پسندیدگی کا شائبہ تک لاتا۔

ملک ہاؤس کے یہ وہی چھوٹے صاحب تھے، جن کا نام ہر ملازمہ کی سرگوشیوں میں آہستہ سے لیا جاتا۔ وجیہہ تھے، دولت مند، تعلیم یافتہ، مگر اپنی امیری کے زعم میں ڈوبے ہوئے۔ انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ کوئی عورت ان کی طرف متوجہ نہ ہو، خاص کر کوئی ایسی جو ان کے زیرِ اثر ہو، جیسے یسرٰی۔

وہ چھ ماہ سے ملک ہاؤس میں بطور چیف کُک کام کر رہی تھی۔ ملک ہاؤس، ایک شاندار حویلی، جہاں مسٹر ملک اور مسز ملک کے ساتھ اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی رہتے تھے۔ بڑے بیٹے کی حال ہی میں منگنی ہوچکی تھی، جبکہ چھوٹے صاحبزادے، زریاب، یسرٰی کی شخصیت سے یوں بندھے تھے جیسے پروانہ شمع سے۔

یسرٰی کے ہاتھوں میں واقعی جادو تھا — وہ صرف کھانے پکانے آتی، اور سات بجے شام تک چپ چاپ اپنی ڈیوٹی مکمل کر کے چلی جاتی۔ نہ کسی سے خاص بات، نہ ضرورت سے زیادہ قربت۔ وہ نہ کھانا ٹیبل پر لگاتی، نہ کسی کو پانی کا گلاس پکڑاتی، کیونکہ ہر کام کے لیے اس محل میں الگ ملازم مقرر تھے۔

زریاب کو پہلی بار اس کی طرف کھنچاؤ بڑے بھائی کی منگنی پر ہوا۔ جب وہ ساری ملازمہ کے ساتھ تیار ہو کر کھڑی تھی۔۔۔ تب زریاب کی نظریں، جو ہمیشہ کسی اور دنیا میں رہتی تھیں، یکایک زمین پر — یسرٰی پر — ٹھہر گئیں۔ سکینہ ایسی تو نہیں کہتی تھی وہ اتنی خوبصورت تھی کہ کوئی بھی مرد باآسانی اُس کا دیوانہ ہو سکتا تھا۔۔۔

محبت کا اعتراف بھی اُس نے وہیں کیا، لیکن جواب میں سرد انکار نے جیسے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔

تم بتاؤ نہ، کیا مسئلہ ہے؟
زریاب کی آواز میں بےبسی کی نمی تھی،

میں سارے مسئلے حل کر دوں گا، ممی کا مسئلہ ہے؟ ڈیڈی کا؟ خاندان والوں کا ؟ میں سب سنبھال لوں گا! بس ایک بار، ایک بار تم میرا ہاتھ تھام لو، میں سب کے منہ بند کروانے کی صلاحیت رکھتا ہوں!
اُس کے لہجے میں محبت کم، جنون زیادہ تھا۔ وہ ہر رکاوٹ کو توڑنے پر آمادہ تھا، سوائے یسرٰی کی رضا کے۔

مسئلہ نہ صاحب ہے، نہ بیگم صاحبہ وہ رکی، اُس کی آنکھیں سیدھی زریاب کے دل میں اترتی گئیں،
نہ خاندان ہے، نہ اس سماج کے لوگ، نہ ہمارا اسٹیٹس ہے، نہ تم۔

زریاب کا دل جیسے لرز گیا۔ یہ الفاظ، جیسے کسی چٹان پر لکیر ہو رہے ہوں۔

مسئلہ ہے — یسرٰی کا دل۔
یسرٰی کمیٹڈ ہے..
یسرٰی کسی اور کی ہے۔
یسرٰی صرف اُس کے لیے بنی ہے۔۔
یسرٰی صرف اُس کی ہے۔۔
یسرٰی صِرف اُس سے محبت کرتی ہے۔۔۔
یسرٰی صِرف اُس سے ہی شادی کرے گی۔۔۔
یسرٰی صِرف اُسی سے ہی محبت کرے گی۔۔

یہ کہہ کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ دروازہ دھیرے سے بند ہوا، مگر زریاب کو لگا جیسے اُس کی دنیا کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہو۔

کمرے میں صرف اُس کے الفاظ کی بازگشت رہ گئی۔۔
یسرٰی کسی اور کی ہے۔؟
کس کی ؟؟

++++++++++++

ایک چائے میرا بھی…
مایرا نے اپنے کمرے سے نکلتے ہی کہا،
لہجے میں تھکن بھی تھی، بےزاری بھی۔

ہوالدار اسلم جو ابھی ابھی سب کے لیے چائے لینے جا رہا تھا، فوراً سر ہلا کر پلٹ گیا۔

اوئے کیا بنا؟
دعا نے مایرا کو دیکھتے ہی کہا۔ مایرا جو رشید صاحب کو کیس کے لیے منانے گئی تھی،

اور پورے ایک گھنٹے بعد رشید صاحب کے روم کے بجائے اپنے روم سے باہر نکلی تھی۔

مایرا کا چہرہ سپاٹ تھا، لیکن آنکھیں شعلہ ور تھیں۔
کیا بنے گا؟ وہی… چپ رہو، خاموش رہو، سر جھکاؤ…
اُس کے لہجے میں ایک عجیب سی تلخی گھلی تھی، جیسے اندر کچھ ٹوٹا ہو۔

میں نے کہا ہی تھا…
دعا نے افسوس سے سر جھکا لیا۔

مایرا کا پارہ چڑھ چکا تھا، وہ اب کسی مصلحت کی قائل نہ تھی۔
یہ وردی صرف تنخواہ لینے کے لیے پہنی ہے کیا ہم نے؟

جی، بالکل…
معاذ نے ہنسی دباتے ہوئے کہا۔

مایرا کی نظریں اُس پر بجلی کی طرح گریں،
معاذ!! ابھی مذاق نہ کرو، میں بہت غصے میں ہوں۔
میں نے رشید صاحب کو قائل کر ہی لیا تھا،
اگر وہ ایس پی نہ آ جاتا تو، تم لوگوں نے اُس کے بارے میں بتایا کیوں نہیں؟

یار! بتا دیتے، لیکن ابھی تمہیں آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ اور ویسے بھی، وہ یہاں آتا ہی کہاں ہے؟
آج تو بس اتفاق سے آ گیا
دعا نے صفائی دینے کی کوشش کی۔

مایرا نے جیسے اُس کی بات سنی ہی نہیں،
میرا خدا… وہ انسان بھی بکا ہوا ہے!

یہاں سب کے سب بکے ہوئے ہیں، آفیسر مایرا،
صرف آپ کے سوا معاذ کا لہجہ اب سنجیدہ تھا۔

دعا نے دھیرے سے کہا، ہاں، کچھ لوگ شروع سے ہی خراب ہوتے ہیں، اور کچھ… جیسے ہی انہیں اونچی پوسٹ ملتی ہے، ہار مان لیتے ہیں۔۔۔یہاں بس یہی قانون رہ گیا ہے۔

معاذ نے نرمی سے پوچھا،
تمہاری ایس پی صاحب سے کوئی لڑائی تو نہیں ہوئی؟ وہ بہت کڑک مزاج قسم کے لگتے ہیں، جتنا ہو سکے دور رہو ان سے۔

مایرا نے گہرا سانس لیا،
ہاں، اندازہ ہو گیا تھا اُن کی باتوں سے۔
خیر، میں نے زیادہ بات آگے نہیں بڑھائی،

تو اب کیا کروں گی تُم؟ دعا نے آہستہ سے کہا

مایرا نے ایک پل کو خاموشی اختیار کی۔
پھر سر اٹھا کر مضبوط لہجے میں بولی،
وہی جو پہلے کیا تھا، اپنی طرف سے پوری کوشش، میں اندر کہہ کر آگئی ہوں لیکن میں اس کیس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔۔

دعاء کی آنکھوں میں تشویش ابھر آئی،
تم پھر، سسپنڈ ہونے کا سوچ رہی ہو؟

مایرا نے ایک تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،
اگر سچ بولنے کی سزا سسپنشن ہے،
تو پھر ٹھیک ہے — ایسے ہی سہی۔
بس تم لوگ ساتھ دینا، یہی کافی ہے میرے لیے۔

وہ تو ہمیشہ سے ہے، مایرا۔ تم گرو یا کھڑی رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ دعا نے کہا

مایرا نے پلکیں جھپکائیں،

جیسے اندر کہیں آنکھیں نم ہو گئیں ہوں، مگر چہرے پر وہی وقار، وہی سختی۔
یہ جنگ صرف کرپشن، جھوٹ اور نظام سے نہیں تھی۔
یہ جنگ اُس وردی کی بقاء کی تھی —
جو مایرا کے جسم پر نہیں، اُس کے ضمیر پر لہرائی جاتی تھی۔

+++++++++++++++

دادو کچن سے نکلی تھیں، چہرے پر محنت کی تھکن اور رات کے کھانے کی فِکر۔ مگر جیسے ہی نگاہ صوفے پر پڑی، قدم وہیں رُک گئے۔

یسرٰی ٹانگ پر ٹانگ رکھے، ہاتھ میں ریموٹ تھامے، پوری توجہ سے ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ اسکرین پر ایک سیاست دان جوش میں بول رہا تھا، وعدے، دعوے، اور سچائی کا نعرہ۔

دادو نے دیوار پر لٹکی گھڑی دیکھی — ٹھیک دو بجے تھے۔

تم اتنی جلدی آگئی؟ دادو نے حیرانی سے پوچھا۔

نہیں تو۔
یسرٰی نے ایک لمحے کو دادو کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئی۔

یسرٰی، اس وقت تمہیں اپنے کام پر ہونا چاہیے تھا!
دادو کا لہجہ اب کڑا ہوچکا تھا۔

ہاں، وہ میں نے ملک ہاؤس میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ اُس نے آرام سے بتایا۔

دادو کا چہرہ پل بھر کو سنجیدہ ہو گیا،
کیا چھوڑ دیا؟ وہ کیوں؟

یسرٰی میں تمہیں بتا رہی ہوں، اگر اب کی بار کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا!

یسرٰی نے ریموٹ میز پر رکھا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی، کیا ہوگیا ہے دادو، کام کرنے سے انکار تھوڑی کر رہی۔ بس وہاں نہیں، کسی اور جگہ لگ جاؤں گی۔

وہاں کیا مسئلہ تھا؟ دادو نے حیرانی سے پوچھا

بتایا تھا نا آپ کو، ملک صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مجھ پر مر مٹے تھے۔ اُس نے شوخ انداز میں کہا۔

تو۔۔۔؟ دادو نے آنکھیں سکیڑ کر کہا۔

تو اسی لیے چھوڑا۔ میں نہیں چاہتی اُس کے سوا کوئی اور میرے بارے میں سوچے بھی۔ یسریٰ نے آرام سے کہا

کیا وہ تمہیں لے کر سنجیدہ تھا؟ دادو نے سنجیدگی سے کہا

ہاں دادو، شادی کا کہہ رہا تھا، اب یسرٰی ہے جو اتنی حسین، اُسے سمجھ آگیا تھا، ایسی ہاتھ آنے والی تھوڑی ہے۔ کہتا تھا سب کو منوا لوں گا، بس تم مان جاؤ۔ بتائیں دادو، بھلا میں ایک ملازمہ ہو کر اُس سے شادی کرلوں؟
آخر میں اُس نے آنکھیں جھپکتے ہوئے بہت معصومیت سے کہا۔

دادو نے گہری سانس بھری، اور دل میں سوچا
کاش حسن کے ساتھ تھوڑا شعور بھی ہوتا، تو بات کچھ اور ہوتی۔

وہ اُس کے قریب آ کر بیٹھ گئيں۔

اب ایک بار پھر، دادو اور یسرٰی کے درمیان وہی پرانی گفتگو شروع ہو چکی تھی —
جس کا انجام ہمیشہ ضد پر ہوتا تھا۔

پڑھائی تو تم سے ہو نہیں رہی، کم از کم کسی اچھے لڑکے سے شادی کر کے سیٹل ہو جاؤ…
دادو نے نرمی سے سمجھایا۔ اچھے برے سارے رشتے آئے تھے، لیکن مجال ہے جو اُس کے علاوہ یسرٰی نے کسی کے بارے میں سوچا ہو..

دادو، صرف وہی… وہی، اُس کے علاوہ کوئی نہیں۔ یسریٰ نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا

تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ یا پاگل ہوگئی ہو؟
وہ ایک سیاست دان ہے، وہ تم سے شادی کرے گا؟ دادو نے سختی سے کہا۔

یسرٰی کی آنکھوں میں عزم تھا،
نہ کرے، لیکن میں اُس کے سوا کسی سے شادی نہیں کروں گی۔

دادو نے جیسے آخری دلیل دی،
تمہیں پتا ہے، اُسے جھوٹ سے سخت نفرت ہے۔

تو؟ یسرٰی نے پلکیں جھپکائے بغیر کہا۔

اُسے جھوٹے لوگ بالکل پسند نہیں۔ دادو نے ایک اور وار کیا

تو؟

اُسے چور بھی پسند نہیں۔

ہاں دادو، میں جانتی ہوں۔ میں سب جانتی ہوں اُس کے بارے میں۔
اب یسرٰی کے لہجے میں تلخی تھی،
اور وہ تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

دادو نے پیچھے سے آواز دی،
پہلی بات تو یہ، کہ وہ تمہیں کبھی ملے گا نہیں،
اور اگر مل بھی گیا، اور تمہیں قبول بھی کر لیا،
تو تمہاری اصلیت جاننے کے بعد، وہ تمہیں اپنی زندگی سے ایسے نکالے گا جیسے کبھی جانتا ہی نہ تھا۔ اور تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہو، یسرٰی۔

مگر یسرٰی جا چکی تھی۔

دروازہ بند ہونے کی آواز دادو کے دل پر جیسے ایک چوٹ بن کر لگی۔

خاموشی صحن میں پھیل گئی —
اور سیاست دان کی تقریر کی آواز پسِ منظر میں مدھم ہوتی گئی۔

++++++++++++++++

امن ابھی گھر آیا اور فریش ہو کر ڈائننگ ٹیبل پر سب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ افتخار صاحب نے اس کی طرف دیکھتے سوال کیا کیسی مصروفیات ہیں آج کل؟

امن نے خفیف سا مسکرایا اور شرٹ کی آستین ذرا اوپر کی بہت زیادہ مصروف ہوں دادا، وقت ہی نہیں ملتا

افتخار صاحب نے تنقیدی انداز میں عینک کے اوپر سے اسے دیکھا الیکشن کے دوران ایسا ہوتا ہے، اپنے کام کو وقت دو۔ اگر زیادہ کام ہو تو گھر نہ آیا کرو، الیکشن پر پورا دھیان دو

ابھی ان کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ انیسہ بیگم، جو ہمیشہ کی طرح باتیں سننے میں مصروف تھیں، برتن رکھتے ہوئے بول اٹھیں کیا بول رہے ہیں آپ؟ گھر نہ آیا کرے؟ اے مرے گے ہم تیرے کو اگر تو گھر نہ آیا تو!
انیسہ بیگم نے امن کو گھورتے دھمکی دی
اپنے وقت خود تو سیاست کو سینے سے لگا بیٹھے تھے، اب میرے بیٹے کو بھی ویسا ہی سکھا رہے ہیں؟

امن نے نرمی سے کہا
دادی، آرام سے، مجھے گھر اور کام دونوں سنبھالنے آتے ہیں۔
چاہے وہ کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو، دن میں ایک بار ضرور گھر آتا تھا۔ دادی اگر سارا دن اسے نہ دیکھتیں تو بے چین ہو جاتیں۔ اس لیے وہ چاہے جلسے جلوس میں ہو، چاہے میڈیا ہاؤس میں، کھانے کے وقت ضرور آتا تاکہ دادی کے دل کو قرار آ جائے۔

افتخار صاحب نے انیسہ بیگم کی باتوں کو نظر انداز کیے امن کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا
اچھا، بتاؤ… کہاں مصروف ہو؟

امن نے پانی کا گھونٹ بھرا اور کہا
دادا، آج دو گھنٹے بعد نادیہ فیروز کے ساتھ ایک چینل پر لائیو ڈیبیٹ ہے۔

یہ سنتے ہی افتخار صاحب نے ناک سکوڑ لیا
یہ سب فضول انٹرویوز میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور یہ ڈیبیٹ، سیاست اب تماشہ بن کر رہ گئی ہے۔

امن نے بے زاری سے سر جھٹکا
دادا پلیز، ابھی میں آپ کی طرح صرف دکھاوے کی غیرت میں کچھ چھوڑنے والا نہیں۔ یہ ڈیبیٹ ضروری ہے۔ لوگ تبھی جانیں گے کہ میری سوچ ان سب سے الگ ہے۔

افتخار صاحب کے چہرے پر فکر کی لکیریں ابھر آئیں
تم جانتے ہو نادیہ فیروز کتنی چالاک ہے؟ وہ تمہیں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرے گی۔ تم اس الیکشن کے سب سے کم عمر اُمیدوار ہو۔ وہ اس بات کا پورا فائدہ اٹھائے گی۔

امن نے میز پر کہنی ٹکاتے ہوئے خوداعتمادی سے کہا
آپ کو لگتا ہے کوئی مجھے بحث میں ہرا سکتا ہے؟

پاس بیٹھی امل جو کھانا کھانے میں مصروف تھی کھانے کے دوران ان کی باتیں سن جھنجھلا کر کہا
دادا، بھائی، پلیز… بند کریں یہ سیاست کی باتیں۔ میں بور ہو جاتی ہوں۔

انیسہ بیگم نے بھی تائید کی
اے ہاں، ہم بھی…

خاموشی سے کھانا کھاتے ہیں، پھر بات کریں گے،
امن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ چاولوں کی ٹرے اٹھاتے ہوئے وہ نرمی سے اپنے سامنے رکھی پلیٹ میں چاول ڈالنے لگا۔۔

+++++++++++++

جی سر، آپ نے بلایا؟
کچھ دیر پہلے اسے اطلاع ملی تھی کہ ایس پی ظفر جاوید اُسے اپنے پاس بُلا رہے تھے اور وہ بغیر کسی تاثر کے سیدھے اُن کے پاس کھڑی تھی۔۔۔

ظفر نے مسکرا کر اپنی سامنے والی سیٹ کی طرف اشارہ کیا. آئیے آفیسر، بیٹھیے۔

مایرا دانت پیستے ہوئے سیٹ پر بیٹھی اور بولی. جی، فرمائیے۔

ظفر نے سنجیدگی سے پوچھا آپ کس کیس پر کام کرنا چاہتی ہیں؟

یہ بات آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟
آنکھوں میں غصّہ تھا لیکن وہ ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتی تھی

ظفر نے سخت لہجے میں کہا سوال پر سوال نہیں، مجھے جواب چاہیے۔

مایرا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا پچھلے دنوں ایک بندے کی چھنٹائی کے دوران جان چلی گئی، وہ چور بلاوجہ اسے مار کر چلا گیا، مجھے اسے پکڑوانا ہے، اسے اس کے عبرت ناک انجام تک پہنچانا ہے تاکہ باقی کراچی کے چور ہمیں دیکھ کر ڈریں، ہم سے خوف کھائیں…

ظفر نے طنزیہ انداز میں کہا آج کے زمانے میں اچھے لوگوں سے یہاں کون خوف کھاتا ہے؟ سب ولن سے ہی خوف کھاتے ہیں…

مایرا نے ناگواری سے ظفر کا چہرہ دیکھا، خاموش رہی۔ بولنا تو بہت کچھ چاہتی تھی، مگر اسے اپنی پوسٹ کی پابندیوں نے روک رکھا تھا۔ اس کے لبوں پر الفاظ تھے جو کہیں رہ گئے۔

ظفر نے اس کی خاموشی محسوس کی اور نرم لہجے میں کہا آپ ایسے چپ اچھی نہیں لگتی۔

مایرا نے ناگواری سے اُس کا چہرہ دیکھا، اُسے ایسا کملائمنت بکل پسند نہیں آیا تھا جی سر، آپ کی باتیں ختم ہو گئی ہوں تو میں جا سکتی ہوں؟

ظفر نے مسکراتے ہوئے کہا تم مجھے اجازت نہیں لوگی اس کیس پر کام کرنے کے لیے؟

مایرا کے دل میں غصے کی لہر دوڑ گئی، مگر وہ خود کو سنبھال کر بولی نہیں سر، آپ نے منع کر دیا نا، کہا خاموش رہوں؟ میں خاموش ہوگئی ہوں۔

ظفر نے ہنستے ہوئے کہا وہی تو میں کہہ رہا ہوں، تم خاموش اچھی نہیں لگتی۔

مایرا نے شکایت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا سر…؟

ظفر نے نرم لہجے میں کہا اگر میں تمہیں اجازت دے دوں تو؟

مایرا نے طنز بھرے لہجے میں کہا کس احسان کے بدلے؟

ظفر نے ہنستے ہوئے جواب دیا احسان؟ کافی ہوشیار ہو تم۔

مایرا نے اپنی سچائی پر یقین رکھتے ہوئے کہا میں آپ جیسے لوگوں کو اچھی طرح جانتی ہوں۔

اگر میں کہوں کہ کوئی احسان نہیں چاہیے تو پھر؟
ظفر نے بغور مايرا کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔۔

مایرا نے فوراً کہا ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

ظفر نے مزاح میں پوچھا اتنا یقین کس بات پر؟ ابھی تو ہم ملے ہیں اور تم مجھے اتنا جان گئی ہو؟

مایرا نے سنجیدگی سے جواب دیا میں آپ سے ابھی ملی ہوں، آپ جیسے لوگوں سے تو بار بار ملتی رہی ہوں…

تم میری انسلٹ کر رہی ہو؟
ظفر نے ناگواری سے کہا

میری مجال، سر، میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں؟
لہجے میں صاف طنز تھا۔

ظفر کے لبوں پر یکدم مسکراہٹ آ گئی۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا جاؤ… میں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔ تم اس کیس پر کام کر سکتی ہو، بنا کسی احسان کے بدلے۔

مایرا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

یہ کیسا فیصلہ تھا؟ یہ کیسی نرمی؟ جو شخص لمحہ پہلے طنز برسا رہا تھا، اب راستہ دے رہا تھا — وہ بھی بنا کسی شرط کے؟

تھینک یو سر!
وہ خوشی سے بولی، کرسی سے فوراً اٹھی اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔

مگر پیچھے، ایس پی ظفر جاوید کی آنکھوں میں ایک ان کہی چمک تھی…

اور ہونٹوں پر ایک ایسی شیطانی مسکراہٹ جو مایرا کو دیکھے بغیر بھی اُس کا پیچھا کر رہی تھی…

+++++++++++++

آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا آپ واقعی اس ملک کو سنبھالنے کے قابل ہیں؟
نادیہ فیروز نے پہلا وار کیا

سید امن حنان افتخار کے چہرے پر وہی سکون تھا — وہی سکون جو دوسروں کو اندر سے جلا دیتا تھا، دشمنوں کو بےچین کر دیتا تھا، اور جسے ریپر ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا تھا۔

معذرت کے ساتھ، اس سوال کا جواب میں نہیں دے سکتا۔

نادیہ کے چہرے پر حیرت تھی،
آنکھوں میں تیزی… جیسے تلواروں کی چمک۔
تو پھر اس کا جواب کون دے گا؟

امن نے گردن ذرا سا جھکا کر، گہری آواز میں کہا
وقت دے گا۔

کمرے میں لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی،
پھر نادیہ نے اگلا وار کیا:
آپ کو لگتا ہے عوام کو آپ پر یقین کرنا چاہیے؟

بالکل، آپ پر بھی تو کیا تھا نا۔ اُس نے نارمل انداز میں بہت بڑی بات کہہ دی تھی

نادیہ کا چہرہ لمحہ بھر کے لیے ساکت ہو گیا…
مُجھے لگتا ہے آپ کو ابھی اور محنت کی ضرورت ہے اور کام کرنے کی ضرورت ہے آپ بہت جوان ہو ابھی.

ان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی امن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بات کاٹی:
جوان؟ ہو سکتا ہے۔ مگر کبھی کبھار پرانے بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے لیے نیا ذہن ہی چاہیے ہوتا ہے۔

نادیہ نے پلکیں جھپکیں، جیسے لمحہ بھر کو وہ خود کو سنبھال رہی ہو۔

تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بگاڑ ہے کیا؟

امن کا لہجہ نرم رہا، مگر آنکھوں میں چمک تھی
میں کہہ رہا ہوں آپ کا وقت تھا۔ اب ہمیں ہمارا وقت لینے دیں۔

نادیہ نے ایک لمحے کو کرسی کی پشت سے ٹیک لی۔
مجمع خاموش تھا۔

کیمرے زوم کر رہے تھے۔
سانسیں تھم چکی تھیں۔

پھر نادیہ نے دھیمے لہجے میں کہا
آپ نے کہا تھا کہ کراچی میں امن لائیں گے۔ مگر عوام یہ پوچھتی ہے—بجلی، پانی، گیس؟ یہ سہولتیں کب آئیں گی؟ صرف امن سے پیٹ نہیں بھرتا.

امن نے پرسکون مگر پراثر انداز میں کہا
میں نے امن کا وعدہ اس لیے کیا، کیونکہ میں چاہتا ہوں جب بجلی نہ آئے، تو لوگ کم از کم بغیر ڈر کے، باہر چارپائی ڈال کر سو سکیں۔
میں کراچی کو دبئی بنانا چاہتا ہوں — دبئی جیسی سہولتیں نہیں،
دبئی جیسی سیکیورٹی۔
کیونکہ جہاں جان محفوظ ہو، وہاں خواب خود آنے لگتے ہیں۔
جہاں خوف نہ ہو، وہاں ترقی خود بولنے لگتی ہے۔
پانی، گیس، بجلی — سب آئیں گے۔
لیکن پہلے، خوف جائے گا۔

نادیہ کی آواز میں طنز تھا
تو آپ کہہ رہے ہیں، اگر ہم امن سے سو لیں تو بجلی کی کمی کو بھول جائیں؟
یہی ہے آپ کی ترجیح؟ سیکیورٹی؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ماں جب ٹینکی سے پانی بھر کر لاتی ہے تو اس کے ہاتھ کانپتے ہیں،
اور آپ خواب بیچ رہے ہیں؟

مجمع میں کچھ سر ہلنے لگے۔ کچھ لوگ بول پڑے:
صحیح کہہ رہی ہے!

پہلے پانی لاو، پھر بات کرو دبئی کی!

خالی وعدے!

امن نے سنجیدگی سے ہجوم کی طرف دیکھا۔ پھر خاموشی سے بولنے لگا، آہستہ مگر واضح انداز میں
خواب بیچنے والے کبھی سچ نہیں بولتے،
میں سچ بول رہا ہوں۔
میں نے کہا تھا—سہولتیں آئیں گی، مگر امن پہلے۔
کیونکہ جب آپ کے بچوں کے اسکول پر گولی نہیں چلے گی،
جب آپ کا بھائی موبائل چھننے سے نہیں ڈرے گا،
جب آپ کی ماں آدھی رات کو دوا لینے جا سکے گی،
جہاں ہر غریب کو انصاف ملے گا،
تب بجلی کا بل، پانی کا نل، گیس کی لائن —
یہ سب ہم مل کر ٹھیک کریں گے۔
لیکن پہلے، ڈر ختم کرنا ہو گا۔
یہ شہر صرف سڑکوں اور بل بورڈز سے نہیں بنتا،
یہ شہر لوگوں کی سانسوں سے بنتا ہے۔
اور جب یہ سانس خوف سے آزاد ہو گی۔۔۔
تب کراچی دوبارہ جئے گا!

نادیہ نے بات کاٹ دی، اب وہ سنبھل چکی تھی، اور وار تیار تھا. اور اگر امن نہ آ سکا تو؟
پھر آپ کا خواب بھی باقی نہیں رہے گا۔
لوگ بھوک سے زیادہ، دھوکے سے ڈرتے ہیں، افتخار صاحب۔

امن نے نظریں نیچی کیں، پھر آہستگی سے کہا
اگر امن نہ آ سکا، تو میں وعدہ کرتا ہوں،
میں سب سے پہلے اپنے عہدے سے ہٹوں گا،
اور آخری شخص کے ساتھ کھڑا رہوں گا جسے انصاف نہیں ملا۔

پہلی بار، مجمع میں سے ایک آواز آئی
اگر یہ جھوٹ بول رہا ہے…
تو کم از کم اچھا جھوٹ بول رہا ہے۔

+++++++++++++++

ہاں کیا خبر ہے. وہ فون کان سے لگائے دوسری طرف کسی خوش خبری کے انتظار میں تھا

فکر نہ کرو، ریپر۔ سب کچھ ہمارے کنٹرول میں ہے۔
دوسری طرف سے وہی جواب آیا جو وہ سنا چاہتا تھا۔

میں ٹی وی کھول بیٹھا ہوں اچھی خبر ہی دینا یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور فون بند کر دیا، ایک تو وہ مسکراتا بہت تھا، اور جب بھی مسکراتا، اُس کی آنکھوں میں  ایک ایسا غرور آ جاتا تھا جیسے سب کچھ اس کے نقشے کے مطابق ہو رہا ہو — جیسے دنیا شطرنج کی بساط ہو اور وہ واحد کھلاڑی ہو جس کے سارے مہرے اپنی جگہ پر ہوں۔

ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلنے لگی —

سرخ پٹی، تیز موسیقی، اور اُس اینکر کی جوشیلی آواز
اب سے کچھ دیر قبل نادیہ فیروز کی کار پر حملہ، حالت نازک!

وہ خاموش ہو گیا —
نہ حیرانی، نہ پچھتاوا۔
صرف ایک ہلکی سی سرگوشی جیسے وہ خود سے کہہ رہا ہو
ایک اور پتّا گر گیا۔
اور پھر وہ دوبارہ مسکرایا —
اس بار وہ مسکراہٹ نرم نہیں تھی،

++++++++++++

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *