یادیں (قسط نمبر 2)
ازقلم امل نوریہ
مالا سوچنے لگی کہ اس کی زندگی میں اس کی محبوب ترین چیز کیا ہے؟ اسے احساس ہوا کہ اس کے والدین ہی اس کے لیے سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ اللہ تعالی میرے والدین ہی ہیں میرے لیے سب کچھ اور پلیز ان کا سایہ مجھ پر سلامت رکھنا۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ سے قرآن کو بند کر کے ایک دفعہ اس امید سے کھولا کہ شاید اسے کچھ امید مل سکے تو اس کے سامنے جو آیت آئی وہ یہ تھی
“لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ”
ترجمہ
“اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے۔”
286سورت البقرہ آیت نمبر
اس آیت نے اسے تسلی دی اور وہ پر سکون ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی ماما اس کے کمرے میں آئیں اور اسے ناشتے کے لیے بلایا۔ کھانے کی میز پر کھانا کھانے کے بعد مالا نے ہمت کر کے پوچھا کہ ابا جان آپ نے مجھے رات والی بات کا جواب نہیں دیا۔ اس پر اس کے بابا نے کہا
بیٹا میرا فیصلہ حتمی ہے اور میں اپنی بہن کو انکار نہیں کر سکتا ہوں۔
اس کے ساتھ انہوں نے اسے یہ کہہ کر احساس دلایا کہ جب تم نے شرعی پردہ کیا تھا تب بھی میری تمہاری وجہ سے اپنی بہن سے تین ماہ کے لیے ناراضگی رہے تھی لیکن میں اب اسے دوبارہ سے ناراض نہیں کر سکتا ہوں۔ مالا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے بابا بھی دفتر چلے گئے۔ مالا کی ماں اپنی بیٹی کے پاس آئی۔ ماں کو دیکھتے ہی مالا اپنی ماں کو اپنے پردے کے سفر کی یادیں سنانے لگی
ماما جی! تب بھی پھپھو نے مجھے کہا تھا کہ یہ اس پر چند دن کا جنون سوار ہوا ہے خود ہی اتر جائے گا، لیکن جب بعد میں انہیں پتا چلا کہ میں نہیں چھوڑنے والی تو تب جا کر انہوں نے تین ماہ بعد بابا سے صلح کی تھی۔
آپ خود بتائیں کہ اس میں میرا قصور تھا یا پھپھو کا؟
:اس کی ماں آنکھوں میں نمی لیے ہوئے بولی
:بیٹا میں جانتی ہوں تمہارا ماضی تلخ یادوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اللہ کے وعدے کو یاد رکھو جو کہ قرآن میں کیا ہے
“وَلَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىﭤ”
:ترجمہ
“اور قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔”
5:سورت الضحی آیت نمبر
اپنے پیارے اللہ کے اس وعدے کو سن کر مالا کے چہرے پر مسکان آ گئی۔
__________________________________________
تین ماہ کا عرصہ گزر گیا تھا۔ مالا کی پڑھائی بھی مکمل ہو چکی تھی اور اس کی شادی کا دن بھی قریب آ گیا تھا۔ مالا اور اس کی ماں نے اس تین ماہ میں مالا کے بابا کی ہر بات کو سر تسلیم خم کیا تھا اور دنوں نے ہمیشہ کی طرح اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھا اور اب وہ دونوں بھی مالا اور مبشر کی شادی کے لیے مجبوراً مان ہی گئی تھیں۔ جمعہ کے دن مالا اور مبشر کا نکاح تھا۔ گھر میں سب کچھ سادگی سے طے پایا تھا کیوں کہ مالا کے بابا کو اپنی بیٹی کا وہ وعدہ یاد تھا کہ بابا جان میری شادی جس سے بھی ہو اور جب بھی ہو اس میں خلاف شریعت کوئی بھی کام نہیں ہونا چاہیے۔ آج مالا اپنے گھر میں سب تیاریوں کو اسلام کے مطابق دیکھ کر رونے لگی کہ وہ کتنا خوبصورت بچپن تھا جب وہ اپنے ماں باپ کے سائے میں شہزادیوں کی طرح راج کرتی تھی لیکن آج وہ اس گھر سے رخصت ہو جائے گی۔ اسے اپنی رخصتی کا دکھ نہیں تھا بلکہ اسے سب سے زیادہ دکھ تو اس بات کا تھا کہ اب اسے اپنی ساری زندگی ان لوگوں کے ساتھ گزارنی ہے جو کہ اس کی ماضی کی یادوں کا تلخ حصہ تھے۔ آج مالا صبح سے بات بات پر رو رہی تھی۔ گھر تمام رشتہ دار بھی آ چکے تھے۔ مالا آج جس بات پر سب سے زیادہ روئی وہ اس کا یہ ڈر تھا کہ کہیں کبھی بھی کسی مقام پر اس کی پھپھو اور ان کا بیٹا اسے حکم خداوندی کی خلاف ورزی کرنے کو نہ کہہ دیں۔ سب انتظامات مالا کے بابا نے الحمد اللہ اچھے سے کر لیے تھے۔ برات آ چکی تھی۔ برات میں صرف پندرہ افراد تھے۔ مالا کے بابا اور مالا کے خالو اور ابان نے ان سب کا استقبال کیا۔شادی میں مالا کے کہنے پر بہت کم لوگ تھے۔ صرف قریبی لوگ ہی تھے۔ انہوں نے برات کے لیے بھی بہت کم افراد کو لانے کا کہا تھا اور کہا تھا کہ آپ دعوت ولیمہ میں اپنی مرضی سے جسے چاہے مدعو کر لیجیے گا۔برات کے استقبال کرنے کے بعد کچھ دیر بعد ہی نکاح کے لیے مبشر سے دستخط کروا کر نکاح خواں اور گواہ مالا کے پاس تشریف لائے، لیکن مالا ان سب میں اپنے بابا کو نہ پا کر پریشان ہوئی اور بضد ہو گئی کہ میں اپنے بابا کی موجودگی میں ہی دستخط کروں گی۔ مالا کے بابا کی تلاش شروع کر دی گئی لیکن سوائے چند لوگوں کے کسی کو بھی علم نہ تھا وہ کہاں تھے اور کس حال میں تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔
مالا ابھی تیار نہیں ہوئی تھی لیکن اس نے عبایا پہن رکھا تھا اور اپنے حجاب سے نقاب کیا ہوا تھا۔ اسی حال میں وہ اٹھی اور اپنے بابا کو تلاش کرنے لگی۔اتنے میں وہ اپنی ماں کے پاس پہنچی جو کہ رو رو کر نڈھال ہو چکی تھیں۔ مالا نے اپنی ماما سے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا
بیٹا! مبشر کچھ دیر پہلے میرے پاس آیا تھا اور مجھے کہنے لگا کہ اپنے شوہر کو کہو کہ اپنی آدھی جائیداد اپنی بیٹی کے نام کر دیں اور آدھی جائیداد اپنے داماد کے نام کر دیں۔ اس کی اس بات پر میں نے اسے انکار کر دیا۔
اس پر وہ غصے سے چلا گیا۔مجھے لگتا ہے کہ تمہارے بابا کو اس نے ہی کچھ کیا ہے کیوں کہ وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ تو تمہارے بابا کی جائیداد ہڑپنے کے چکر میں تھا۔اس پر دونوں ماں بیٹی رونے لگی کہ مالا کی ماںکو کسی انجان نمبر سے کال آئی اور فون کرنے والے نے بتایا
میں ہسپتال سے بات کر رہا ہوں۔ کیا آپ نذیر احمد کی بیوی بات کر رہی ہیں؟
مالا کی ماں نے روتے ہوئے تصدیق کی۔
اس پر انہیں بتایا گیا کہ ان کو کسی روڈ ایکسیڈنٹ میں شدید چوٹیں آئی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی حالت بہت نازک ہے۔ آپ فوراً ہسپتال پہنچیں۔
مالا کی ماں نے سب کچھ مالا کو بتایا اور فوراً سے ڈرائیور کے ساتھ ہسپتال پہنچ گئیں۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مالا کے والد محترم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے صرف دعاؤں کا کہا ہے۔
کچھ دیر بعد مالا اور اس کی ماں کو ان سے ملنے دیا جاتا ہے کیوں کہ مالا کے والد محترم اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ مالا جا کر اپنے والد محترم کے گلے لگ کر رونے لگی کہ بابا آپ مجھے بتائیں یہ سب کس نے کیا؟
اس پر مالا کے بابا لڑکھڑاتی آواز میں کہتے ہیں
بیٹا مجھے مبشر نے اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ پھولوں کے گلدستے لینے کے لیے بھیجا تھا۔میں نے کہا کہ داماد کی بات مان لوں۔ میں ابھی کچھ دور ہی پہنچا تھا کہ سامنے سے ایک ٹرک آیا اور میں نے بہت کنڑول کیا لیکن اس نے زبردستی میری گاڑی پر ٹرک چڑھا دیا۔ ساتھ والا رشتہ دار تو موقع پر ہی وفات پا گیا اور میری حالت ہارٹ اٹیک سے مزید بگڑ گئی ہے۔
مالا کی ماں نے اپنی اور مبشر کی ہونے والی گفتگو بھی انہیں بتائی۔ اس پر مالا کے بابا رونے لگ گئے اور مالا کے گلے لگے اور کہنے لگے
بیٹی مجھے معاف کر دوں۔ میں نے تمہاری بات نہ مان کر تمہارے ساتھ غلط کیا ہے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ میری بہن اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر مجھے یوں دھوکہ دے گی۔
ان کی ابھی یہ بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ انہیں سانس لینے میں دشواری ہونے لگی اور وہ اپنی بات کرتے ہوئے اٹکنے لگے۔مالا نے ڈاکٹر کو بلایا۔ انہوں نے گھر والوں کو کمرے سے باہر بھیج دیا۔ پانچ منٹ بعد ڈاکٹر نے مالا کے بابا کی موت کی خبر دی۔ مالا رونے لگی۔ ایمبولینس میں لاش کو گھر پہنچایا گیا۔گھر میں موجود تمام رشتہ دار نذیر احمد کی لاش کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ اتنے میں مالا بھی گاڑی سے اتری اور سب رشتہ داروں کے سامنے بلند آواز سے کہنے لگی
میرے پیارے عزیزو! یہ جو میری پھپھو اور ان کا بیٹا مبشر ہے انہوں نے میرے بابا کو پہلے اپنے جال میں پھنسایا اور مجھ پر بد کردار ہونے کے الزامات لگائے اور پھر رشتہ بھیج دیا کہ آپ کی بیٹی کو کون قبول کرے گا؟ میں اپنی بھتیجی کو قبول کرتی ہوں۔ میرے بابا اپنی بہن کی محبت میں ان کے منافقانہ چہرے کو نہ دیکھ سکے اور ان کی موت بھی ان کی سازش کا ہی حصہ تھا کیوں کہ میری پھپھو اپنے بھائی کی جائیداد لینا چاہتی تھی۔ مبشر نے آج ہی میری والدہ کو بھی ڈرایا دھمکایا اور افسوس کہ ان کے انکار پر انہوں نے میرے بابا کی موت کے لیے حادثے کا ڈرامہ رچایا۔ میں مالا نذیر اپنے بابا کی جائیداد کا آدھا حصہ اپنی پھپھو کو دیتی ہوں اور ساتھ ہی اپنے بابا کا خون معاف کرتی ہوں لیکن میری پھپھو اور ان کے بیٹے کے لیے میرے آخری الفاظ یہ ہیں۔
“یاد رکھیے گا! خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔”
اس کے بعد مالا نے حوصلے اور صبر سے کام لیا اور پھر اپنے بابا کی لاش کو الوداع کیا اور انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
تم میرے حوصلے اور ہمت کی بات نہ کرو یارو!میں نے انہیں الوداع کہا ہے، جو میرا حوصلہ تھے اس کے بعد تمام رشتہ دار اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ اس کے بعد مالا بہت روئی کہ ماما آج تو آپ نے مجھے رخصت کرنا تھا، لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ پھر اس نے اپنی ماما کو بتایا کہ میں نے تین ماہ پہلے پڑھا تھا
“اللہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی محبوب چیز کو قربان کروں۔”
ماما آج مجھ سے میرے محبوب بابا کی قربانی لے لی گئی۔دونوں بہت روئی اور روتے روتے سو گئیں۔ اسی طرح ان دونوں ماں بیٹی نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی تھیں۔ اب کبھی کبھی مالا کی خالہ آ جایا کرتی تھیں اور ان دونوں کے ساتھ مالا کے بابا کی باتیں کرتیں اور پھر تینوں مل کر رونے لگ جاتیں، لیکن مالا کے بابا کی وفات کے بعد اس کی پھپھو کبھی ان کے گھر نہ آئی تھیں نہ کبھی ان کی کال آئی تھی۔ آج مالا کے بابا کی وفات کے تین ماہ بعد اس کی پھپھو کی کال آئی تھی۔ مالا کی ماما نے کال اٹھائی اور اپنی نند کو یوں روتا ہوا دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔
مالا کی ماما کو مالا کی پھپھو نے بتایا کہ ان کے شوہر کو خون کا کینسر ہو گیا اور وہ ہسپتال میں انتہائی تشویش ناک حالت میں ہیں۔ پیاری بھابھی ہمیں آپ کے ساتھ اور تعاون کی بہت ضرورت ہے۔ براہ مہربانی آپ ہمارا ساتھ دیں۔ مالا کی ماں نے اپنی بیٹی کو سب کچھ بتایا جس پر مالا نے ماما کے ساتھ پھپھو گھر جانے کا ارادہ کیا۔ دونوں مالا کی پھپھو گھر پہنچ گئیں۔ مالا کو پھپھو نے گلے لگایا اور کہنے لگی
بیٹا جب ہمیں پتا چلا کہ تمہارے پھوپھا کو خون کا کینسر ہو گیا ہے تو مجھے فوراً تمہاری بات یاد آئی۔
“اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔”
مالا بیٹا میں نے اور مبشر نے جو تمہارے بابا کی جائیداد سے حصہ لیا تھا۔ وہ سب علاج پر خرچ ہو گیا اور اب تمہارے پھوپھا کا کاروبار بھی تباہ ہوگیا۔ ہمارے گھر میں فاقوں تک نوبت آ گئی ہے۔ اب تمہارے پھوپھا کے علاج کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ مجھے احساس ہو چکا ہے کہ حرام میں برکت نہیں ہوتی۔ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا اور آج میں غلط کرنے کا بدلہ چکا رہی ہوں کہ میرا بیٹا غلط صحبت اختیار کر چکا ہے اور اپنے ماں باپ کی اسے کوئی فکر نہیں ہے اور باپ گھر بیمار پڑا ہے کہ علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن بیٹے کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
