yade

yadein by Amal nooria epsode 3 last ep

یادیں (آخری قسط)

ازقلم امل نوریہ

اتنے میں ڈاکٹر کے آنے کا وقت ہو جاتا ہے اور ڈاکٹر چیک اپ کے بعد انتہائی افسوس کے ساتھ مالا کی پھپھو کو خبر دیتا ہے کہ آپ کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی پھپھو بے ہوش ہو جاتی ہیں، کیوں کہ ان کی صحت بھی کچھ بہتر نہیں ہوتی ہے۔گھر میں باپ کی لاش پڑی ہے اور ماں بے ہوش ہو کر ہسپتال میں پڑی ہے لیکن بیٹے کو والدین کی کوئی خبر نہیں ہے۔مالا اپنی پھپھو ساتھ ہسپتال ہوتی ہے۔ مالا کی پھپھو کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ انہیں ڈاکٹر سے اجازت لے کر کچھ گھنٹوں کے لیے گھر لے جایا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کا منہ دیکھ لیں لیکن انہیں خود کی ہوش تک ہی نہ تھی۔ مالا کے پھوپھا کو سپرد خاک کیا گیا لیکن ان سب کے دوران بیٹا گھر سے بے خبر تھا۔ اس کے بعد پھپھو دوبارہ تین دن سے ہسپتال میں زیر علاج تھیں لیکن ان کی طبیعت میں بہتری نہیں آ رہی تھی۔ وہ بیماری کی حالت میں اپنے بھائی اور شوہر کو یاد کرتی رہتیں اور اپنے بیٹے کی ہدایت کی دعا کرتی رہتی تھیں۔ مالا اور اس کی ماں ہسپتال کے کمرے میں مالا کی پھپھو پاس ہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ تینوں حیران ہوئی کہ اس وقت عیادت کے لیے کون آ سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دروازے کھولا تو معلوم ہوا کہ مبشر اپنی ماں کو دیکھنے کے لیے ہسپتال آیا تھا اور اس نے ماں کی حالت پوچھنے کی بجائے تلخ انداز میں پوچھا

ابا کہاں ہیں؟ مجھے ان سے پیسے لینے ہیں۔ میں گھر سے ہو کر آیا ہوں وہ گھر نہیں ہیں۔ اس پر مالا کی پھپھو نے کہا

بیٹا تمہارے ابا جان اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ تم نے ان کے پیسوں پر جتنی عیش کرنی تھی کر لی اور اگر اب ضرورت ہے تو خود کما لو۔ میری مالا بیٹی میری خدمت کے لیے کافی ہے۔

اسے مالا کا نام سنتے ہی اور اپنی ماں کے دل میں اس کی محبت دیکھتے ہی غصہ آ گیا تھا اور وہ ہسپتال سے واپس چلا گیا۔ بیٹے کی بے رخی دیکھ کر ماں کی حالت مزید بگڑ گئی۔مالا کی پھپھو کے سینے میں درد ہونے لگا۔ مالا کی پھپھو کی حالت پریشانی کی وجہ سے مزید خراب ہوتی جا رہی تھی کیوں کہ ڈاکٹر نے ان کے سامنے پریشان کن بات کرنے سے منع کیا تھا کیوں کہ ان کی یہ حالت بھی شوہر کی وفات کے صدمے کی وجہ سے ہی ہوئی تھی۔ مالا نے اپنی پھپھو کے علاج کے لیے ذرہ بھی کمی نہ کی تھی لیکن ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا اور گھر لے جانے کا کہا تھا۔ مالا اپنی پھپھو کو لے کر گھر آ گئی تھی۔ اسی طرح تین دن وہ بیماری کی حالت میں گھر پڑی رہیں اور تین دن سے ان کا بیٹا گھر نہیں آیا تھا۔ وہ ہر وقت بیٹے کی ہدایت کی دعا کرتی رہتیں اور مالا سے معافی مانگتی رہتیں۔ آج تین دن بعد ان کا بیٹا گھر آیا اور نہایت غصے سے ماں کی حالت کی پرواہ کیے بغیر ماں سے پیسوں کا مطالبہ کرنے لگا۔ اس پر ماں نے جواب دینے کے لیے بولنے کی کوشش کی جس پر فقط ہونٹ ہلے لیکن الفاظ ادا نہ ہو سکے۔مالا نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے مالا کو ان کی پھپھو کے انتقال کی خبر سنائی۔ بیٹے نے جب اپنی ماں کے انتقال کی خبر سنی تو اسے احساس ہوا کہ اس سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے۔ مالا نے اپنے سب رشتہ داروں کو اپنی پھپھو کی وفات کی افسوسناک خبر سنائی۔ اس دفعہ اپنی ماں کے جنازے میں مبشر شامل تھا۔ ان کو سپرد خاک کرنے کے بعد مبشر مالا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا

“میری ماں کی وراثت سے مجھے حصہ دو۔”

:مالا نے جواب دیا

آپ کے والدین کوئی وراثت چھوڑ کر نہیں گئے اور میں نے اپنی پھپھو کا علاج ان کے بھائی کے پیسوں سے کروایا ہے۔ صرف یہ گھر اب تمہارا ہے جس سے ہم کل دیگر رسومات ادا کر کے چلے جائیں گے۔

مالا کی بات نے مبشر کے غصے میں اضافہ کیا اور وہ گھر سے چلا گیا۔ وہ گھر سے نکل کر سیدھا پراپرٹی ڈیلر کے پاس گیا جہاں پر اس نے اپنے گھر کا سودا کیا۔ ابھی مالا اور اس کی ماما پھپھو گھر ہی تھے کہ پراپرٹی ڈیلر آ کر گھر کو دیکھنے لگے۔ اس پر مالا اور اس کی ماں اپنے گھر واپس چلے گئے اور وہ دونوں گھر آ کر بہت روئی کہ ان کے سارے سہارے چھین لیے گئے اور ان کے پیارے بابا اور ان کی بہن اور بہن کا شوہر ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا چکے ہیں۔ اب ہم دونوں کو ہی مل کر اپنی زندگی صبر کے ساتھ گزارنی ہے۔ دوسری طرف مبشر نے گھر کا سودا تو کر لیا تھا لیکن اب اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اب خود کہاں رہے؟ وہ اسی حالت میں تھا کہ اسے ایک کال آئی، جس کے بعد سے اس کی دنیا بدل گئی۔

کال کرنے والے نے بتایا کہ مبشر آپ نے جس کے ساتھ اپنے گھر کا سودا کیا تھا، وہ ایک فراڈیہ تھا۔ وہ پہلے ہی بہت سے لوگوں کے پیسے کھا چکا تھا اور اب اس نے آپ کے گھر کو آپ سے خرید کر بغیر کاغذات کے آگے بیچ دیا ہے اور آپ کو آپ کے گھر کے پیسے بھی نہیں دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب مالک مکان کہتے ہیں کہ ڈیلر نے انہیں بتایا ہے کہ مبشر نے انہیں گھر کے کاغذات نہیں دیے ہیں۔ اب پراپرٹی ڈیلر نے بھی آپ کے خلاف ثبوت دیا ہے کہ آپ نے مکان کے جعلی کاغذات دیے ہیں۔ آپ پر مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ پولیس آپ کی تلاش میں ہے۔ ابھی کال بند ہی ہوئی تھی کہ پولیس نے اسے تلاش کر لیا تھا۔ پولیس نے مبشر کو پکڑا اور اسے جیل میں ڈال دیا۔دوسری طرف خاندان کے کسی فرد سے مبشر کا رابطہ نہ تھا اور نہ ہی کسی کو علم تھا کہ وہ اب کس حال میں ہے اور کہاں ہے؟ اس کا کوئی مخلص دوست بھی نہ تھا کیوں کہ اس کے سارے دوست اس کی طرح خود غرض اور مطلبی تھے۔ جیل میں مبشر کو بہت مار پڑی۔ اب اسے احساس ہوا کہ والدین ہی بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے میں نے زندگی میں ان کی قدر نہ کی اور اگر آج وہ زندہ ہوتے تو مجھے یہ غلط قدم اٹھانے سے روکتے۔ افسوس مجھ پر کہ میری وجہ سے میرے والدین کی دولت میں برکت نہ ہوئی۔میں نے مالا پر بھی مفاد کے تحت بد کردار ہونے کا الزام لگایا۔

اسے چھ ماہ کی قید ہوئی تھی۔ اسے اس دوران اپنی کی گئی تمام غلطیاں بہت یاد آئیں اور وہ اس دوران اللہ سے توبہ کر کے اس کا فرمانبردار بندہ بن چکا تھا۔ اس نے پانچ وقت کی نماز بھی شروع کر دی اور اب وہ قرآن حفظ کرنے لگا تھا۔اس نے جیل کے دوران خود کو ماضی کی تلخ یادوں سے نکال لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف مالا اور اس کی ماں نے بھی خود کو مضبوط کر لیا تھا۔ مالا نے اب ایم۔فل میں داخلہ لے لیا تھا۔ اب وہ اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دیتی تھی لیکن اب بھی اس کے ابا جان اور پھپھو اور پھوپھا اس کی یادوں کا حصہ تھے۔ مبشر کی چھ ماہ بعد رہائی سے ایک دن پہلے کوئی اس سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ مجھ سے چھ ماہ تک تو کوئی ملاقات کے لیے نہ آیا اور اب آخری دن سے پہلے کس کو میری یاد آ گئی تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مالا اپنی ماں کے ساتھ مبشر سے ملنے آئی تھی۔ شاید مبشر کو انتظار تھا کہ مالا آ جائے اور وہ اس سے معافی مانگ لے۔ مالا کو دیکھتے ہی مبشر نے نظریں جھکا لیں اور مالا کے سلام کا جواب دیا۔ مالا کی ماں نے کہا

بیٹا ہمیں تو آج ہی تمہاری حالت کی خبر ملی تو ہم فوراً چلے آئے۔

اس پر مبشر نے کہا

پیاری ممانی جان! مجھے اپنی تمام غلطیوں کا احساس ہو چکا ہے اور علم ہو چکا ہے کہ والدین ہی اولاد کے لیے سب کچھ ہوتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی بھی اپنا نہیں ہوتا ہے۔ مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ بس اگر ہو سکے تو میرے ماضی کی یادوں کو مجھ سے جدا کر دیجئے کیوں کہ اب وہ مجھے جینے نہیں دیتی ہیں کہ تم نے جیتے جی اپنی جنت کی قدر نہ کی۔

پھر مالا کو مخاطب کر کے کہنے لگا

میں آپ سے معافی مانگتا ہوں اور تہہ دل سے شرمندہ ہوں۔ میں اپنے اللہ سے معافی مانگ چکا ہوں اور وہ تو غفور و رحیم ہے وہ معاف کر دیتا ہے اور وہ بندے کو اس کے ماضی کا طعنہ نہیں دیتا ہے۔ آپ بھی اس رحمن کی بہت ہی خوبصورت مخلوق ہیں جو کہ اپنے خوبصورت اخلاق سے دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیتی ہیں اور آپ اعلیٰ ظرف ہیں مجھے امید ہے کہ آپ مجھے ضرور معاف کر دیں گی۔آج آپ مجھے آخری دفعہ دیکھ رہی ہیں شاید اس کے بعد آپ مجھے کبھی نہ دیکھ سکیں گی کیوں کہ میں یہ شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔

:جواب میں مالا کہنے لگی

میں نے کبھی کسی کا قرض نہیں رکھا ہے۔ میں روز رات کو سب کو معاف کر کے اور اللّٰہ سے معافی مانگ کر سوتی ہوں۔الحمد اللہ۔اللہ آپ کو دنیا و آخرت کے ہر میدان میں کامیاب کرے اور متقین کا امام بنائے۔

مالا کی اس دعا پر مبشر نے کہا

الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے میرے والدین اور آپ سب کی میرے حق میں کی گئی ہر دعا قبول کر لی ہے۔

الحمد اللہ اب میں قرآن حفظ کر رہا ہوں اور اب ان شاءاللہ دوسرے شہر جا کر وہاں کے معروف مدرسے میں معلم بننے کا سوچ رہا ہوں۔نبی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا

“مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے”

(ابن ماجہ۔229۔)

اسلام نے استاد کو روحانی والد قرار دے کر ایک قابل قدر ہستی، محترم ومعظم شخصیت، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی ہے۔

یہ سن کر مالا اور اس کی ماں بہت خوش ہوئی اور اسے مبارکباد دے کر واپس گھر آئیں اور دونوں نے سجدہ شکر ادا کیا کہ اللہ نے مبشر کی ماں کی دعا قبول کر لی کہ وہ مرتے دم تک اپنے بیٹے کی ہدایت کی دعا مانگتی رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف ابان اور اس کے والدین مالا کے گھر اس کے رشتے کی بات کرنے آئے تھے۔ ان کی بات سن کر مالا نے انکار کر دیا کہ میں اب بڑھاپے میں اپنی والدہ کو تن تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ اس پر مالا کی خالہ کہنے لگی

بیٹا اب میں اور میری بہن بھی اکٹھے رہیں گی کیوں کہ میں اب اس عمر میں اپنی بہن کو تن تنہا نہیں چھوڑوں گی۔

اس پر مالا اور اس کی ماں مسکرانے لگیں اور دونوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔ مالا اور ابان کے نکاح کے لیے جمعہ کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ تمام تیاریاں سادگی سے اور مالا کی مرضی اور اسلام کے احکامات کے مطابق تھیں۔ اس دفعہ بھی سب کچھ پہلے کی طرح ہی تھا لیکن اس دفعہ مالا کے بابا ان کے ساتھ نہیں تھے لیکن ان کی یادیں ساتھ تھیں۔ آج بھی مالا اس دن کی طرح بہت روئی تھی۔ اس کے ساتھ ہمیشہ کی طرح یادیں تھیں، جو کہ اسے آنسو دیتی تھیں۔

یادیں ہیں ہمارے ساتھ ہم تن تنہا نہیں ہیںاللہ کی ذات ساتھ ہے، ہم بے آسرا نہیں ہیں آج بھی جب نکاح خواں اور گواہ اس کے پاس نکاح نامے پر دستخط کروانے کے لیے آئے تھے تو پہلے کی طرح آج بھی مالا کے بابا موجود نہ تھے، لیکن اس دفعہ ان کو تلاش نہیں کیا جا رہا تھا کیوں کہ سب کو علم تھا کہ اب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے دور جا چکے ہیں۔ مبشر کو بھی اس کی ممانی جان نے دوسرے شہر جانے سے روک لیا تھا اور وہ بھی مالا کی شادی میں شریک تھا اور اس کے نکاح میں گواہ تھا۔ نکاح نہایت سادگی سے ہوا۔ دعوت ولیمہ میں خصوصی اہتمام کیا گیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح دلہن نے شرعی پردہ کیا تھا۔ جب بھی کوئی دلہن کی تصویر لینے لگتا تو دلہن اپنی آنکھوں میں نمی لیے ہوئے پیار سے کہتی کہ

میری پیاری بہن!میرا اسلام مجھے یا آپ کو تصویر بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

تصویر کے نام پر ہی ہمیشہ کی طرح اس کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں، کیوں کہ تصاویر کے ساتھ ہی اس کی تلخ یادیں وابستہ تھیں جنہیں وہ چاہ کر بھی آج تک اپنی سوچوں سے نکال نہیں سکی تھی۔ دعوت ولیمہ کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو چکے تھے۔ تہجد کے وقت مالا کے کانوں میں آواز پڑی۔

!میری پیاری مالا جاگ جائیے”

“رب سے ملاقات کا وقت ہو گیا ہے۔

وضو کرنے کے بعد دونوں نے نماز تہجد ادا کی۔ نماز تہجد ادا کرنے کے بعد دونوں میاں بیوی تلاوت قرآن پاک میں مشغول ہو گئے اور جس آیت پر دونوں رکے تھے وہ یہ تھی

“فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ”

:ترجمہ

” پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟”

دونوں کی آنکھوں میں نمی آ گئی اور پھر دونوں نے سجدہ شکر ادا کیا اور نماز فجر کی ادائیگی اور دیگر امور سے فارغ ہو کر سب ناشتے کی میز پر اکٹھے ہوئے۔ مالا اور ابان کے چہرے پر مسکراہٹ کو دیکھ کر مالا کی ماں اور خالہ خالو بھی مسکرانے لگی۔یوں ہی سب کھانے کے میز پر بیٹھے مسکرا رہے تھے۔

________________

ختم شدہ

 

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *