dastan e ishq

Dastan e ishq Episode 2 Written by siddiqui

 

داستانِ عشق (از قلم صدیقی)

قسط نمبر ۲

ارحان رات کے سنّاٹے میں جب گھر لوٹا تو خاموشی کے عالم میں آ کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا.
چہرہ سپاٹ نگاہیں جھکی ہوئیں
اور چمچ ہاتھ میں تھامے وہ یونہی کھانے کی پلیٹ میں چُپ چاپ گھورتا رہا

اُس کے دونوں بھائی ریحان اور ارشیان اُس کے سامنے بیٹھے تھے
لیکن ڈائننگ ٹیبل پر خاموشی تھی

ارشیان نے آہستگی سے ریحان کے کان میں کہا
بھائی کچھ بول کیوں نہیں رہے؟

ریحان نے سر کو تھوڑا سا جھٹکا دیا اور ہلکی آواز میں کہا
وہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں

اچانک ریحان نے جھجکتے ہوئے ارحان کی طرف دیکھا اور نرمی سے بولا
بھائی… کیا ہوا ہے؟

ارحان نے نظریں نہیں اٹھائیں
بس سپاٹ لہجے میں کہا
کچھ بھی نہیں

ارشیان جھنجھلا گیا
اُس کے لہجے میں التجا تھی
بھائی بتاؤ نا… کیوں ناراض ہو؟ کچھ تو بولو… غصہ بھی نہیں کر رہے؟

ارحان نے چمچ پلیٹ میں رکھا اور کرسی سے اٹھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا
آج سے اور ابھی سے میں تم دونوں کے معاملات میں کچھ نہیں بولوں گا، جو دل چاہے کرو

سوری نا بھائی، غلطی ہو گئی، آئندہ نہیں ہوگا
اب کی بار ریحان کی آواز میں شرمندگی تھی

ارحان نے ایک دم پلٹ کر نگاہ اُن دونوں پر ڈالی
پھر گہری سانس لے کر بولا
غلطی؟ یہ غلطی نہیں تھی۔ مجھے آج یونیورسٹی کے پرنسپل کے سامنے جتنی شرمندگی ہوئی ہے نا، بس مت پوچھو۔ تم دونوں نے مجھے بہت شرمندہ کیا ہے۔ یہ کوئی شرارت نہیں تھی، یہ بدتمیزی تھی۔ ریحان، تم نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی۔ استاد، جو باپ کے برابر ہوتا ہے۔ کیا یہ تربیت کی تھی میں نے تم دونوں کی؟ اپنا گھر، اپنے دادا دادی، چچا چچی کو چھوڑا تاکہ تمہیں ایک بہتر مستقبل دوں، اور تم نے مجھے یہ دن دکھایا؟ اور وہ جو تم نے لکھا، “باہر ملیے” — کیا تم کوئی غنڈے ہو جو ایسی دھمکیاں دیتے ہو؟

کیا سوچیں گے لوگ؟ ارحان ملک اتنا اچھا اور اس کے بھائی؟ یونیورسٹی میں غنڈہ گردی کرتے پھرتے ہیں!

ریحان کچھ کہنے کو ہوا، مگر الفاظ گلے میں اٹک گئے
پھر بمشکل بولا
بھائی… میری بات تو سُنو—

ہاں بھائی، آپ ہم سے پوچھیں تو سہی، ہم نے ایسا کیوں کیا؟
ارشیان نے بھی جلدی سے لقمہ دیا

لیکن ارحان کچھ نہیں بولا
بس ایک خاموش سی نظر دونوں پر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا

بھائی! سنو تو!
دونوں بیک آواز لپکے
مگر ارحان نے پیچھے مڑ کر ایک تیز نگاہ اُن پر ڈالی
مجھ سے بات مت کرنا
یہ کہتے ہی اُس نے دروازہ بند کر لیا

میں نے تجھے کہا تھا، نہ کر! دیکھا؟ بھائی سچ میں ناراض ہو گئے…
ارشیان روندی آواز میں بولا

بھائی! سن لو نا بات، بھائی…
ریحان بھی بےبسی سے دروازے پر ہاتھ مارتا رہا

ارے تُو رونا بند کر، مان جائیں گے بھائی…

مگر
مجھ سے بات مت کرنا

یہ جملہ جو کسی اور کے لیے ایک عام سی بات ہو سکتی تھی
ارحان کے بھائیوں کے لیے زلزلے سے کم نہ تھی

یہ وہ خاموشی تھی جو دل چیر دیتی تھی
اور اب دروازے کے اُس پار صرف سناٹا تھا
اور اس پار دو نادم بھائی

++++++++++

رات کے بارہ بج چکے تھے۔
باہر کی دنیا نیند کی آغوش میں سو رہی تھی،
لیکن رنگ محل…
وہاں تو جاگتی روشنیوں، موسیقی اور خوشبوؤں کا راج تھا۔

محل کے در و دیوار جگمگا رہے تھے،
ہر گوشہ کسی طلسماتی دنیا میں ڈھلا ہوا۔

باریک کام والے غرارے، مہکتی خوشبوئیں، سنہری جھمکے، لہراتی چوٹیاں…
ہر دوشیزہ اپنی دلکشی کے ساتھ موجود،
اور اُن سب کی موجودگی سے رنگ محل کا جادو اور بھی گہرا ہو گیا تھا۔

قہقہوں، سرگوشیوں اور گھنگروؤں کی چھنکار میں
محل کا ایک کونا سب کی نظروں سے ذرا اوجھل مگر سب سے زیادہ اہم تھا۔

وہاں بیٹھی تھیں — جہان آرا بیگم۔

مخملی گاؤتکیوں پر ٹیک لگائے،
سفید و سرخ امتزاج کے لباس میں،
چہرے پر غازہ، آنکھوں میں خمار اور ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ۔

وہ محل کی ملکہ لگ رہی تھیں،
چہرے سے صاف جھلک رہا تھا کہ آج کی کمائی غیر معمولی ہوگی۔

اسی لمحے ایک دبلی سی عورت اُن کے کان میں آہستگی سے کچھ کہہ گئی۔
جہان آرا بیگم کے لبوں کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
وہ عورت سر ہلا کر خاموشی سے محل سے نکل گئی۔

کچھ لمحوں بعد—

گھنگروؤں کی آوازوں سے فضا لرز اُٹھی۔
محل کی ہر روشنی جیسے مزید تیز ہو گئی۔
اور ہر نظر ایک ہی سمت کھنچ گئی۔

وہ داخل ہوئی — ایک نئی لڑکی۔

لباس میں سرخی،
لہجے میں نرمی،
آنکھوں میں وحشت کی مٹھاس۔

سرخ لہنگے میں لپٹی وہ حسن کا قہر بن کر اتری تھی۔
اُس کی آمد کے ساتھ ہی قہقہے رک گئے،
ساز تھم گئے،
اور لمحے بھر کو محل پر ایک خاموش جادو سا چھا گیا۔

جہان آرا بیگم نے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا:
“Welcome… welcome!
آپ کا رنگ محل میں ایک رنگ بننا مبارک ہو۔”

یوں لگا جیسے پورے رنگ محل کی رگوں میں نئی زندگی دوڑ گئی ہو۔
ہر ساز اُس کی چال کے ساتھ بجنے لگا،
ہر دل اُس کے سحر میں جکڑ گیا۔

+++++++++++++

رات کا سنّاٹا تھا۔
کمرے میں محض ایک مدھم بلب جل رہا تھا، مگر ہمدان ملک نیند کی گہری وادی میں ڈوبا ہوا تھا۔

اچانک —

وہی سڑک۔
وہی اندھیرا۔
وہی وحشت ناک خاموشی۔

اور پھر —
وہی لڑکی!

سرخ لہنگے میں لپٹی، کانوں میں جھمکے لرزتے ہوئے، آنکھوں میں آنسو، اور ہونٹوں پر کپکپاتی صدا:

“پلیز… میری مدد کریں!”

ہمدان کا دل ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔
اس بار وہ چاہ کر بھی اپنی جگہ جمی پتھر کی مانند کھڑا نہ رہ سکا۔

“میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا!”
وہ پوری طاقت سے آگے بڑھا۔

مگر —
لڑکی کے گرد اچانک دھند چھا گئی۔
وہ لڑکھڑائی، زمین پر گری، اور چار بھیانک سایے نمودار ہوئے۔
وحشی مرد — ہاتھوں میں خنجر، چھریاں، آنکھوں میں درندگی۔

ہمدان نے چیخ کر کہا:
“رُکو! ہاتھ مت لگانا اسے!”

لیکن جیسے زمین نے اُس کے قدموں کو بیڑیاں پہنا دی ہوں۔
اُس کا جسم بھاری، آواز کمزور۔
وہ دوڑنا چاہتا تھا، مگر بس وہیں جکڑا رہ گیا۔

لڑکی نے آخری بار پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا —
وہ نظر جس میں شکوہ بھی تھا، سوال بھی، اور خاموش التجا بھی۔

“کیوں نہیں بچایا مجھے۔۔۔؟”

یہ صدا ہمدان کی رگوں میں بجلی کی طرح دوڑ گئی۔
اندھیرا مزید گہرا ہوا، لڑکی کا وجود غائب ہوا،
اور صرف اُس کی چیخیں کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجتی رہیں۔

ہمدان جھٹکے سے جاگ اُٹھا۔
پسینہ اُس کے ماتھے سے بہہ رہا تھا، سانسیں بےترتیب، دل جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آنا چاہتا ہو۔

وہ پلنگ پر سیدھا بیٹھا۔
کانوں میں اب بھی وہی آواز گونج رہی تھی:

“کیوں نہیں بچایا مجھے۔۔۔؟”

ہمدان نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
سر تھام کر وہ دیر تک ساکت بیٹھا رہا،
جیسے یہ خواب نہیں، کوئی حقیقت اُس کے پیچھے لگی ہو۔

++++++++++

صبح کے آٹھ بجے تھے۔
الارم بجا، اور ارحان کی آنکھ کھل گئی۔ وہ معمول کے مطابق اُٹھا، شاور لیا، کلف لگے سفید کپڑے زیب تن کیے، بال سنوارے، گھڑی باندھی اور کمرے کا دروازہ کھولا—

اچانک قدم رک گئے۔

سامنے کا منظر چونکا دینے والا تھا۔
کمرے کے عین باہر، دیوار کے ساتھ فرش پر اُس کے دونوں بھائی بیٹھے بیٹھے ہی سو گئے تھے۔
سروں کو دیوار سے ٹکائے، ہاتھ سینے پر بندھے، اور تھکن کے باوجود چہروں پر ایک معصومیت۔

یقیناً وہ پوری رات یہیں بیٹھے رہے ہوں گے… دروازہ کھلنے کے انتظار میں، منانے کی ضد میں، یا شاید پچھتاوے کے بوجھ تلے۔

ارحان کی نظروں میں لمحہ بھر کے لیے نرمی اُتری۔
دل میں ایک چبھن جاگی —
یہ دونوں پوری رات یہیں بیٹھے رہے۔۔۔؟؟ دروازہ کھلنے کے انتظار میں؟

اُس پل اُسے اپنے دونوں بھائیوں پر بےحد پیار آیا۔
دل چاہا ابھی کے ابھی جھک کر انہیں بانہوں میں بھر لے، پیشانی پر بوسہ دے۔
لیکن نہیں… اگر وہ کمزوری دکھا دے تو پھر اُن کی اچھی تربیت کیسے کرے گا؟

وہ دھیرے سے مسکرایا، آہستہ جھک کر ایک نظر ان دونوں پر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا:
سوری… لیکن ابھی جگاؤں گا تو یہ زیادتی تمہارے ساتھ ہوگی، میرے ساتھ نہیں۔

یہ سوچتے ہوئے وہ دبے قدموں نیچے اُتر گیا۔

ناشتہ میز پر لگا ہوا تھا۔ اُس نے کافی کا ایک گھونٹ لیا اور ملازمہ کو ہدایت دی:
میرے نکلتے ہی انہیں اُٹھا دینا، یونیورسٹی جانا ہے دونوں کو۔

ملازمہ نے سر جھکا کر جواب دیا۔
اور ارحان، اپنے بھائیوں کو یوں ہی سویا چھوڑ کر خاموشی سے آفس نکل گیا۔

+++++++++++++++

رات کی رنگ رلیوں کے بعد رنگ محل گہری خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔
ہر طرف تھکن کے سائے تھے۔ سب اپنے اپنے کمروں میں محوِ نیند تھے۔
جہان آرا بیگم بھی رات کی بھاری کمائی کے بعد سکون سے سو رہی تھیں۔

مگر ایک کمرے میں روشنی جل رہی تھی — ریمل جاگ رہی تھی۔

اس نے دروازہ بند کیا اور آہستہ سے کہا:
جلدی کرو… یہ کپڑے پہنو۔

سامنے بیٹھی لڑکی کے آگے اُس نے سیاہ چولی، رنگین لہنگا اور چمکتے زیورات رکھ دیے۔
وہی لباس… جو رنگ محل کی کنیزیں پہنتی تھیں۔

لڑکی نے حیرت سے دیکھا، پھر ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ آ گئی۔
بھوری آنکھوں میں برسوں بعد پہلی بار خوشی اُتری۔
وہ لپکی، کپڑے اٹھائے، اور لمحوں میں بدل آئی۔

ریمل نے اُس کے چہرے پر براؤن پاؤڈر پھیر دیا،
چمکتا دودھیا رنگ ڈھک گیا، اور نقوش بدل گئے۔
پھر اُس نے کچھ عجیب و غریب نشان بنا دیے۔
چند ہی لمحوں میں حسین لڑکی ایک عام، بدصورت سی لگنے لگی۔

ریمل نے سکون کی سانس لی:
اب ٹھیک ہے… چلو۔

وہ دونوں دبے قدموں دروازے تک پہنچیں۔
پہرے دار نے روک کر پوچھا:
کہاں جا رہی ہیں بیگم صاحبہ؟

ریمل مسکرائی:
سامان لینا ہے، اماں نے کہا ہے۔ یہ بھی ساتھ جا رہی ہے۔

گارڈ نے بےفکری سے سر ہلایا اور راستہ دے دیا۔

رنگ محل سے خاصا فاصلہ طے کر کے ریمل رُکی۔ اُس نے لڑکی کی طرف دیکھ کر دھیرے سے کہا:
آزادی مبارک ہو… جہاں جانا ہے جاؤ۔

لڑکی کی پلکیں لرزیں، آنکھوں میں نمی آ گئی۔
لیکن… تم واپس کیسے جاؤ گی؟ وہ میرا پوچھیں گے نہیں؟

ریمل نے بےنیازی سے کہا:
وہ ریمل کا مسئلہ ہے۔

لڑکی کے لب کپکپائے۔
اللہ تمہیں بھی اس جہنم سے نکالے… آمین۔

ریمل کی آنکھیں سخت ہو گئیں۔
یہ جہنم ریمل نے خود چُنی ہے۔ اگر اللہ نے مجھے یہاں سے نکال دیا… تو ریمل کہاں جائے گی؟

لڑکی ساکت رہ گئی۔ پھر دھیرے سے کہا:
تو اللہ تمہیں ایسا اجر دے… اتنا بڑا… کہ تم حیران رہ جاؤ۔

ریمل کے ہونٹوں پر پہلی بار مسکراہٹ اُبھری۔
ہاں… یہ ٹھیک کہا۔ اس پر ریمل بھی کہے گی… آمین۔

لڑکی مسکراتی ہوئی اپنی راہ چل دی۔
ریمل وہیں کھڑی رہی، اُس کی پشت دیکھتی رہی۔

ایک اور قید پرندہ آج اُس کی بدولت آزاد ہوا تھا۔
ریمل نے پھر سے جہان آرا کے رنگ محل کی تاریکیوں میں چھپی ایک اسیر حور کو رہائی دے کر روشنی کا جہاں بخش دیا۔

+++++++++++++

ملازمہ کے آہٹ دینے پر دونوں لڑکے چونک کر جاگ اٹھے
آنکھیں ملتے ہی ان کے لبوں پر ایک ہی سوال تھا دونوں نے ایک ساتھ کہا

بھائی کہاں ہیں وہ چلے گئے؟

ملازمہ نے خاموشی سے ہاں میں سر ہلا دیا
دونوں کے چہرے ایک پل میں بجھ گئے

ارشیان نے بے بسی سے اپنے بڑے بھائی کی خالی کمرے کی طرف دیکھا
بھائی اب کیا کریں گے ہم؟

ریحان نے آہستہ کہا
بھائی کے آنے کا انتظار

ملازمہ نے کہا
ناشتہ تیار ہے آپ دونوں کو یونی جانا ہے

ریحان نے غصے میں کہا
ہم نہیں جا رہے یونی

وہ جملہ ابھی ہوا میں تھا کہ اس کا فون بجا
ریحان نے جھنجلاہٹ سے فون اٹھایا
ہاں ہیلو کون؟

دوسری طرف سناٹا تھا

ریحان کی برداشت جواب دے گئی

ابے او کون  منحوس ہے دماغ مت خراب کر بولتا کیوں نہیں ہے وہ چیخا اور اگلے ہی لمحے کال کٹ گئی

ارشیان نے حیرت سے پوچھا
کون تھا بھائی؟

ریحان نے غصے سے فون میز پر پٹخا
پتا نہیں کوئی مانوس تنگ کر رہا ہے

ارشیان نے شانے اچکائے اور نرم لہجے میں کہا
اچھا چھوڑ چل یونی چلتے ہیں

ریحان نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا
ہم نہیں جا رہے یونی

بھائی چل نا بھائی ناراض ہیں ماننا بھی تو ہے نا، اگر ہم یونی نہیں گئے تو اور ناراض ہو جائیں گے
ارشیان نے ریحان کو سمجھایا

ریحان نے بھڑک کر کہا
تو بھیجنا چاہیے تھا نا یونی آج بھی جیسے روز بھیجتے ہیں

وہ چوبیس سالہ جوان نہیں لگ رہا تھا
وہ بالکل ایک ضدی بچہ لگ رہا تھا جو اپنی ماں سے روٹھ کر بیٹھ جائے اور منانے کی ضد کرے

ارشیان نے آہستہ سے اس کا کندھا تھاما
چل نا پلیز بھائی کو بھی ماننا ہے واپس آ کر ان سے بات کریں گے

ریحان نے لاچاری سے گردن جھکا دی

آخرکار دونوں ناشتے کی میز پر آ کر بیٹھ گئے
چائے کی بھاپ انڈوں کی خوشبو اور دونوں کے دل میں عجیب سا بوجھ

+++++++++++++

ریمال آہستہ سے کمرے میں داخل ہوئی
ہاتھ میں ناشتے کی پلیٹ تھی مگر نظر فوراً اس لڑکی پر جا رکی جو فرش پر پڑی تھی
زخمی نڈھال اور پھر بھی زندہ
رات بھر کے اذیت ناک شکنجے کے بعد بھی وہ سانس لے رہی تھی

ریمال کی آنکھوں میں چبھن اتر آئی
بھاگی کیوں نہیں تُو؟ وہ تیز لہجے میں بولی

تارا نے گردن اٹھائی لبوں پر کٹی پھٹی سی مسکراہٹ تھی
نہیں بھاگ سکی

ریمال نے جھنجلا کر کہا
تو ہر بار نہیں بھاگ پاتی ایک بار مان ہی لے ان کی بات یہ سب نہیں ہوگا پھر تیرے ساتھ

تارا کے لبوں سے سخت جواب نکلا
ہرگز نہیں

ریمال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا
تو پھر مر جا لیکن مر بھی نہیں رہی تُو

تارا نے گہری سانس لی آنکھوں میں عجیب سی روشنی بھر آئی
ڈھیٹ ہوں اس سب سے نہیں مر سکتی

ریمال کے ہاتھ کانپے اس نے پلیٹ زور سے فرش پر رکھ دی
اب تجھے نہیں بھگاؤں گی میں یہاں سے،! مر یہیں پر اور یہ ناشتہ کھا لے

پلیٹ میں ایک پراٹھا تھا اور ایک کپ چائے
نہ سالن نہ پھل نہ کوئی لذت
صرف زندہ رہنے کا بہانہ
ریمال تیز قدموں سے واپس پلٹ گئی

کمرے میں اب صرف تارا تھی
وہ پلیٹ کو دیکھ رہی تھی
آنکھوں کے کناروں پر نمی تھی اور ہونٹوں پر وہی ضدی مسکراہٹ
اس کے اندر اتنی ہمت کہاں تھی کہ وہ نوالہ حلق سے اتار سکے
لیکن اتنی جان ضرور تھی کہ ابھی بھی جیتی رہے

+++++++++++++

آفس کی شیشے کی اونچی کھڑکیوں سے دھوپ اندر آ رہی تھی
ارحان اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر جھکا فائلوں میں الجھا ہوا تھا کہ فون کی بیل بجی
اسکرین پر نام دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر پہلی بار ایک نرم سی مسکراہٹ آئی — دادی جان

ارحان نے کال اٹھائی سر کو کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کیں
السلام علیکم دادی کیسی ہیں آپ؟

اُدھر سے لرزتی مگر محبت بھری آواز ابھری
وعلیکم السلام ہم ٹھیک ہیں تُو کیسا ہے ہمیں تو لگتا ہے اب تجھے ہماری یاد ہی نہیں آتی

ارحان کے لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ آگئی
یاد تو آتی ہے دادی… پر وقت نہیں ملتا کال کرنے کا

وقت نہیں ملتا یا چاہ نہیں ہوتی؟
دادی کی گہری بات پر اُس نے آنکھیں کھول دیں

ایسا نہیں ہے دادی آپ جانتی ہیں نا میں مصروف رہتا ہوں

چند لمحے سکوت رہا پھر دادی کی آواز تھوڑی بھاری ہوئی
بیٹا وہاں تیرا خیال کون رکھتا ہے کھانے کی فکر کون کرتا ہے انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے ماں باپ یا بیوی کے بغیر ادھورا ہی رہتا ہے

ارحان نے مدھم لہجے میں کہا
دادی… میں اب چھوٹا بچہ تو نہیں ہوں اپنا خیال خود رکھ لیتا ہوں

نہیں وقت آگیا ہے بیٹا کہ تُو اپنا گھر بسا لے دادی کی آواز میں فیصلہ چھپا ہوا تھا
شادی کر لے ارحان کب تک اکیلا رہے گا؟

ارحان نے سر کو ہلکا سا دائیں بائیں جھٹکا اور بےساختہ مسکرا دیا
پھر آپ ہی ڈھونڈ لیجیے نہ کوئی لڑکی جسے آپ پسند کریں گی، میں کرلوں گا اُس سے شادی

ہم جس لڑکی سے بولیں گے تو کرلے گا اُس سے شادی ؟

جی دادی آپ ڈھونڈیں میں انکار نہیں کروں گا

ٹھیک ہے پھر ہم ڈھونڈتے ہیں تیرے لیے اچھی سی لڑکی

جی ڈھونڈیں ارحان نے محبت سے کہا

پھر کال کٹ گئی

کمپیوٹر اسکرین پر کھلتے بند ہوتے ای میلز قطار در قطار نمبرز اور چارٹس
اُسے لگ رہا تھا جیسے یہ ساری فائلیں اُس کی آنکھوں کے گرد دائرے بناتی جا رہی ہیں

اُس نے تھکے ہوئے ہاتھوں سے ٹائی ڈھیلی کی اور کرسی سے ٹیک لگا لی
آنکھیں بند کیں تو سب سے پہلے کانوں میں دادی کی آواز گونجی
شادی کر لے ارحان… کب تک اکیلا رہے گا؟

وہ بے ساختہ مسکرایا
اس کی زندگی میں شادیاں کبھی خواب نہیں رہیں
نہ اسے کبھی کسی لڑکی سے خاص دلچسپی رہی نہ وہ محبت کے چکر میں پڑا

اس کے نزدیک شادی بھی دفتر کے دوسرے کاموں کی طرح ایک ذمہ داری تھی —
جیسے بجٹ رپورٹ وقت پر تیار کرنا جیسے ٹارگٹ اچیو کرنا
کرنی ہے کبھی نہ کبھی کرنی ہے

اُس نے دل ہی دل میں سوچا اور گھڑی کی طرف دیکھا
ساڑھے دس بج رہے تھے اگلی میٹنگ الارم بجنے والا تھا
لیکن میٹنگ سے زیادہ دادی کی باتیں دماغ میں گھوم رہی تھیں

دفتر کی بڑی کھڑکی سے باہر جھانکا تو سامنے آسمان پر چمکتی دھوپ کو دیکھ کر وہ مدھم ہنسا
شادی بھی ایک پروجیکٹ ہوگی… دادی کو سکون دینے کے لیے بس ایک اور ڈیل جسے کلوز کرنا ہے

اس کے لیے شادی بس ایک لائن تھی
To-Do List
پر جسے چیک لگانا باقی تھا

++++++++++++

بارہ بجتے ہی واقعی رنگ محل کا نقشہ بدل گیا تھا
جیسے کسی نے مردہ جسموں میں جان ڈال دی ہو…
ہنسی کھنکھناہٹ چوڑیوں کی جھنکار اور خادماؤں کی بھاگ دوڑ سے محل گونج اٹھا

ایک سے ایک حسین دوشیزائیں بھڑکیلے جوڑوں میں اپنے بالوں میں گجرے سجائے ناشتے کی میز پر جلوہ گر تھیں

جہاں آرا بیگم بھی اب اپنے بلند و بالا تخت پر نیم کج کلاہی سے بیٹھی تھیں لبوں پر وہی رعب دار مسکراہٹ جو ایک ساتھ شفقت بھی لگتی اور زہر بھی

اچانک ایک خادمہ ہانپتی کانپتی بھاگتی ہوئی آئی
چہرہ پسینے سے شرابور اور آنکھوں میں دہشت

بیگم صاحبہ… بیگم صاحبہ… وہ گلبہار اپنے کمرے میں نہیں ہے!

جہاں آرا کے چہرے کی مسکراہٹ ایک دم پتھر کی طرح جم گئی
تو کہاں گئی؟ اُن کی آواز میں اتنی سرد مہری تھی کہ پورا ہال لمحے بھر کو ساکت ہوگیا

پ… پتہ نہیں بیگم صاحبہ… کہیں بھی نہیں مل رہی خادمہ کی زبان کانپ رہی تھی

جہاں آرا کے ابرو تن گئے
انہوں نے فوراً اپنی بارعب آواز میں پکارا
ریمل!… نازمین!… نازو!…

اور جیسے ہی اُن کی صدا محل میں گونجی تینوں تیز قدموں سے بھاگتی ہوئی حاضر ہوئیں
جی بیگم صاحبہ… تینوں نے ایک ساتھ سر جھکایا

جہاں آرا نے سخت لہجے میں کہا
یہ گلبہار کو ڈھونڈو… دیکھو کہاں گئی ہے اگر محل کے اندر ہے تو خیر… ورنہ فوراً عالم اور سلیم کو بھیجو

محل کی فضا لمحے بھر میں جشن سے خوف میں بدل گئی تھی
اب ہر آنکھ ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھی
اور ہر دل یہ سوچ رہا تھا کہ اگر واقعی گلبہار رنگ محل کی دیواروں سے باہر نکل گئی ہے
تو آنے والے طوفان سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا

+++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *