آخری سِحر
قلم از: عمارہ عزیز
قسط نمبر 1
امید ہے آپ سب نے آخری سحر کی پہلی قسط پسند کی ہوگی۔ آپ کے کمنٹس، فیڈبیک اور سپورٹ میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔
آج میں آپ کے لیے دوسری قسط لے کر آئی ہوں… جہاں کہانی ایک نئے موڑ پر قدم رکھے گی۔
آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنا فیڈبیک ضرور شیئر کریں، کیونکہ آپ کی رائے ہی میری لکھائی کو بہترین بناتی ہے۔
شکریہ میرے ساتھ اس سفر کا حصہ بننے کے لیے… چلیے، اب چلتے ہیں کہانی کی طرف!”
آپ کی رائٹر
عماره عزیز
یہ سب بہت عجیب سا تھا…اچانک ایسی تیز ہوا چلی کہ سب کو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا — یوں لگا جیسے کوئی بھی لمحہ بھر میں اُڑ جائے گا۔ پھر… جیسے ہوا کے طوفان میں کوئی شکل نظر ائی۔ہوا اچانک ہلکی پڑ گئی، اور اُس کے بیچوں بیچ ایک وجود نظر آنے لگا۔
ایک لڑکی —سرمائی رنگ کی، گہری آنکھیں۔ چہرے پر سیاہ نقاب۔ لباس ایسا کہ سمجھ نہ آئے پینٹ شرٹ ہے یا کوئی پرانا شاہی لبادہ۔ اس کے کھلے کالے بال زمین تک لٹک رہے تھے۔ وہ کوئی عام لڑکی نہیں لگتی تھی۔ اس میں ایک عجیب کشش تھی… ایسی جو آنکھوں سے زیادہ دل پر اثر ڈالے۔
وہ سب کی طرف دیکھ کر بولی — آواز میں ایسی مٹھاس، ایسی جاذبیت کہ سب جیسے پُرسکون ہو گئے۔
“تم سب… میرے ساتھ چلو۔” یہ جملہ سن کر، حیرت انگیز طور پر… سب کو اطمینان سا محسوس ہوا۔
کسی کو کوئی شک یا اعتراض نہ تھا۔ مگر صرف ایک —احان التمش۔ جو باقی سب میں سب سے زیادہ سنجیدہ، سمجھدار اور متوازن تھا —اُس کے چہرے پر سکون کے آثار نہیں تھے۔اس کی آنکھیں — جیسے اُس آواز کے پیچھے چھپی سچائی کو دیکھ رہی ہوں۔وہ خاموش تھا، لیکن اُس کی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی تھی۔
التَمش نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھ کر کہا:”ایسا نہیں ہو سکتا… ہم کسی اجنبی کے ساتھ کیسے جا سکتے ہیں؟”
پھر اُس نے اُس لڑکی کی طرف دیکھا، جو اب بھی سکون کے ساتھ کھڑی تھی۔”ہم تمہیں جانتے بھی نہیں۔ اور نہ ہی تمہارے ساتھ کہیں جائیں گے۔”
لڑکی آہستہ سے چند قدم التَمش کی طرف بڑھی۔ اُس کی ۔ وہ گہری، خاموش آنکھیں…۔ وہ دھیرے سے بولی،
“تم سب کو چلنا ہوگا… ابھی… اسی وقت۔”
” التَمش نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا — اور اُسے ایک عجیب احساس ہوا، جیسے وہ لڑکی انہیں بچانا چاہتی ہو پھر التَمش نے پیچھے مُڑ کر اپنے دوستوں کو دیکھا۔زرکا، ایلمارا، آریب، اور افسان — سب خاموش تھے، لیکن اُن کی آنکھوں میں اعتماد تھا۔اُنہوں نے آہستہ سے سر ہلایا — جیسے وہ تیار ہوں۔
التَمش نے دوبارہ لڑکی کی طرف دیکھا۔”ٹھیک ہے… لیکن ہم کہاں جا رہے ہیں؟”
لڑکی نے دھیرے سے کہا:”میری آنکھوں میں دیکھو…”
التَمش، جو اُس سے قد میں کچھ اونچا تھا، آگے بڑھا۔ ایک لمحے کو رُکا… اور پھر جیسے مجبور ہو کر جھکا، اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ التَمش کی سانسیں رکنے لگیں۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی — مگر نہ نظریں ہٹیں، نہ دل سنبھلا۔
التَمش نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھ کر کہا:”ایسا نہیں ہو سکتا… ہم کسی اجنبی کے ساتھ کیسے جا سکتے ہیں؟”
پھر اُس نے اُس لڑکی کی طرف دیکھا، جو اب بھی سکون کے ساتھ کھڑی تھی۔
“ہم تمہیں جانتے بھی نہیں۔ اور نہ ہی تمہارے ساتھ کہیں جائیں گے۔” لڑکی آہستہ سے چند قدم التَمش کی طرف بڑھی۔ اُس کی ۔ وہ گہری، خاموش آنکھیں…۔ وہ دھیرے سے بولی،”تم سب کو چلنا ہوگا… ابھی…
اسی وقت۔” التَمش نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا — اور اُسے ایک عجیب احساس ہوا، جیسے وہ لڑکی انہیں بچانا چاہتی ہو پھر التَمش نے پیچھے مُڑ کر اپنے دوستوں کو دیکھا۔زرکا، ایلمارا، آریب، اور افسان — سب خاموش تھے، لیکن اُن کی آنکھوں میں اعتماد تھا۔اُنہوں نے آہستہ سے سر ہلایا — جیسے وہ تیار ہوں۔ التَمش نے دوبارہ لڑکی کی طرف دیکھا۔
“ٹھیک ہے… لیکن ہم کہاں جا رہے ہیں؟”
لڑکی نے دھیرے سے کہا:”میری آنکھوں میں دیکھو…”
التَمش، جو اُس سے قد میں کچھ اونچا تھا، آگے بڑھا۔ ایک لمحے کو رُکا… اور پھر جیسے مجبور ہو کر جھکا، اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ التَمش کی سانسیں رکنے لگیں۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی — مگر نہ نظریں ہٹیں، نہ دل سنبھلا۔ التَمش اُس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا — اس کی انکھوں میں جیسے پوری کائنات دیکھ رہی تھی۔پھر…
اچانک وہ چونک گیا۔ اب وہ صرف دیکھ نہیں رہا تھا — بلکہ جیسے اُس کی روح اندر کھینچی جا رہی ہو۔پھر ایک تیز، بےحد چمکتی روشنی اُس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ التَمش نے فوراً اپنی آنکھیں بند کر لیں — نہ صرف روشنی کی شدت سے، بلکہ جیسے کسی انجان خوف نے اُس کے دل میں جگہ بنا لی ہو۔ جب اُس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں…تو منظر مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ وہ ایک خوبصورت، خاموش سرسبز باغ میں کھڑا تھا۔ اتنا دلکش جیسے کوئی خواب ہودور دور تک صرف نرم گھاس، اور ہر طرف گلابی پھول تھے۔ کوئی آواز نہیں…کوئی پرندہ نہیں…بس خاموشی۔
التَمش نے حیرت سے ادھر اُدھر دیکھا۔ کچھ دیر وہ آہستہ چلا — پھر دوڑنے لگا۔جیسے کچھ تلاش رہا ہو… یا کسی انجانی بےچینی میں بھاگ رہا ہو۔ پھر —اُس کی نظر ایک درخت پر پڑی۔ یہ درخت باقی سب سے مختلف تھا۔گھنا، سبز، اور اس پر لگے بہت گہرے سرخ رنگ کے سیب — جیسے خون سے رنگے گئے ہوں۔درخت کے گرد ہلکی سی روشنی تھی ۔ التَمش کے پیٹ میں جیسے درد سا اٹھا — یا شاید بھوک تھی؟یا اُس سیب میں کوئی کشش چھپی تھی؟ وہ تیز قدموں سے درخت کی طرف بڑھا۔
جب قریب پہنچا تو اُس کی نظریں صرف اُن سیبوں پر جمی تھیں۔ اُس نے ایک سیب توڑنے کی کوشش کی — مگر وہ اونچا تھا۔اب وہ زمین پر کچھ تلاش کرنے لگا… کوئی پتھر، جس سے سیب کو توڑا جا سکے۔ التَمش جب پتھر تلاش کر رہا تھا، اُس کی نظر ایک طرف پڑی — درخت کے ایک کونے میں، زمین کے قریب ایک پودا اُگا ہوا تھا۔ وہ پودا باقی سب سے مختلف تھا —
نہایت روشن، وہ سب سے خوبصورت لگ رہا تھا اس کا یہ لال رنگ جس میی جسے کوئی روشنی تھی وہ بے حد دلکش تھا ایک لمحے کے لیے التَمش جیسے سب کچھ بھول گیا۔ اُس کی گھبراہٹ، الجھن، اور تناؤ — سب ایک دم ختم ہو گئے۔ اس کے چہرے پر ایک سکون بھری مسکراہٹ ابھری۔ وہ آہستہ آہستہ اُس پودے کے قریب گیا۔ جھک کر ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ خوبصورت پھول توڑ سکے۔ مگر جیسے ہی اُس نے اپنی انگلی اُس کی نازک ٹہنی پر رکھی —
ایک باریک، مگر نوکیلا کانٹا اُس کی انگلی میں چُبھ گیا۔
“آہ!” التَمش نے چونک کر فوراً ہاتھ پیچھے کھینچا۔ اُس کے چہرے پر درد کی ایک ہلکی سی پرچھائیں اُبھر آئی۔ اس نے اپنی انگلی کو دیکھا — جہاں کانٹا چبھنے کے نشان سے گہرا، سرخ خون بہنے لگا۔
اب التَمش اپنی انگلی سے بہتے خون کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر درخت کے تنے پر پڑی — وہاں ایک آئینہ سا چمک رہا تھا۔ اُس نے چونک کر آئینہ غور سے دیکھا۔ آئینے میں کوئی جھلک تھی… اور وہ جھلک کسی اور کی نہیں، خود التَمش کی تھی — مگر جیسا وہ اس باغ میں آیا تھا، ویسا نہیں۔ وہ آہستہ آہستہ آئینے کے قریب گیا، اور جب اس نے خود کو غور سے دیکھا…
تو وہ جیسے حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ سفید رنگ کے کُرتا شلوار میں ملبوس تھا، جس پر سفید اور سنہری رنگ کے نفیس امتزاج سے بنی ویسٹ کوٹ زیب تن کر تھی۔ پاؤں میں سنہری جوتے تھے، مضبوط اور دھیمے… جیسے کسی لمبے سفر کے لیے بنے ہوں۔ بال گہرے سیاہ، آنکھیں نیلے سمندر جیسی — گہری، پُرکشش ۔ چہرے کی رنگت سفید تھی، اور ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ اُس نے آہستہ سے مسکرا کر خود کو دیکھا — اور ایک لمحے کو جیسے **سارا درد، ** بھول گیا۔
التَمش نے دوبارہ درخت کی طرف دیکھا — وہی درخت، وہی سرخ سیب… اور اب وہ پھول جس کا کانٹا اُس کی انگلی میں چبھ گیا تھا۔ اُس نے اپنی انگلی کو دیکھا — خون اب بھی بہہ رہا تھا، پھر اُسے ایک دم چکر آنے لگا۔ چاروں طرف کا منظر دھندلا سا ہونے لگا — گھاس، پھول، آسمان… سب جیسے دھند میں لپٹ گئے ہوں۔ آئینہ بھی اب دھندلا سا نظر آ رہا تھا۔
“کیا ہو رہا ہے…” التَمش نے ہلکی آواز میں کہا، اور اُس کا توازن بگڑنے لگا۔ اُسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا — جیسے دماغ میں شور ہو، جیسے کوئی صدائیں آ رہی ہوں… پر صاف کچھ نہ سنائی دے۔ پھر اچانک — اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ بس ایک لمحے میں — جیسے کسی نے ساری روشنی چھین لی ہو۔ اُس کے قدم لڑکھڑائے — اور وہ زمین پر گر گیا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔
خاموشی… جیسے ساری دنیا تھم گئی ہو۔ التَمش کی آنکھ آہستہ آہستہ کھلی۔اُسے لگا جیسے اُس کے آس پاس بہت سے لوگ ہوں — کہیں سے ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں، جیسے کسی بھیڑ میں کسی کے کپڑوں کی سرسراہٹ، یا قدموں کی چاپ۔ مگر اُس کی نظروں کے سامنے بس ایک ہی منظر تھا —ایک سفید آسمان… جس میں ہلکا سا نیلا رنگ پھیل رہا تھا، ۔ پھر اچانک، اُس کے سامنے بہت سے اجنبی چہرے آ گئے —
لوگ، جو اُسے گھیرے کھڑے دیکھ رہے تھے۔ان کے چہروں پر تجسس تھا، خاموشی تھی… جیسے وہ اُسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ التَمش کو اچانک احساس ہوا —وہ زمین پر لیٹا ہوا ہے۔شرمندگی سی ہوئی، جیسے وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اُسے اس طرح بے بس حالت میں دیکھے۔ وہ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے زمین کا سہارا لیا، اور دوسرے سے اپنی پیشانی کو تھام کر گہری سانس لی۔
“یہ… کہاں ہوں میں؟”اُس کے لب ہلے، مگر آواز نہ نکلی۔ التَمش کے پاس لوگوں کا خاصا ہجوم جمع تھا۔وہ ابھی بھی مکمل طور پر ہوش میں نہیں آیا تھا، نظریں دھندلا دیکھ رہی تھیں۔
اچانک، بھیڑ میں سے ایک لڑکی نظر آئی — وہ لڑکی جو التَمش کی طرف جھکی ہوئی تھی، جیسے اُس کی حالت کا جائزہ لے رہی ہو۔ وہ جوان لگ رہی تھی، اُس نے سفید رنگ کا، ٹخنوں تک آتا ہوا فراک پہن رکھا تھا۔ رنگت بھی سفید، اور اُس کے سرمئی بال کندھوں سے کچھ نیچے تک لٹک رہے تھے۔
وہ نرم لہجے میں بولی،”آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ سنیے… کیا آپ مجھے سن پا رہے ہیں؟”
التَمش نے اُس کی طرف دیکھا، مگر کچھ بول نہ سکا۔ ہجوم کے پیچھے سے چند لوگ سامنے آنے لگے ان سب کے چہرے پر پریشانی کے اثرات نظر ا رہے تھےدرمیان سے راستہ بنتا گیا…
اور وہ لوگ کوئی اور نہیں، بلکہ ایلمارا، آریب، زرکا اور افسان تھے۔ التَمش اُنہیں دیکھ کر حیران رہ گیا — وہ بالکل ویسے نہیں لگ رہے تھے جیسے اس نے انہیں اخری بار دیکھا تھا۔ جیسے اُس کا حلیہ بدل چکا تھا، ویسے ہی اب اُن سب کا بھی بدل چکا تھا۔ ایلمارا کے کمر تک آتے لمبے، ہلکے بھورے بال ہوا میں نرم انداز میں لہرا رہے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں لگا گہرا کاجل اور ہلکے گلابی لب — سب کچھ نہایت سلیقے سے نمایاں ہو رہا تھا۔ اُس کی دودھیا سفید رنگت سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی۔ اُس نے سبز رنگ کا ٹخنوں کو چھوتا فراک زیب تن کر رکھا تھا، جو اُس کی شخصیت میں ایک نئی شان بھر رہا تھا۔
آریب ہلکی سبز شلوار قمیض میں ملبوس تھا — جو اُس پر حیرت انگیز حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔ اُس کے بال ہلکے براؤن تھے، آنکھیں شہد رنگ کی، اور چہرہ جیسے ایک خاص کشش رکھتا ہو۔ ۔ افسان سیاہ قمیض شلوار میں تھا، ایسا لگتا تھا جیسے یہ لباس اُسی کے لیے بنا ہو۔ اُس کا رنگ گندمی تھا، مگر اُس کے گندمی رنگ میں بھی ایک کشش تھی۔ اُس کی سیاہ آنکھیں اور سیاہ بال تھے، اُسے دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ وہ سیاہ رنگ کا شوقین ہے
زرکا نے سیاہ رنگ کا ایک لمبا فراک پہن رکھا تھا جو ٹخنوں تک آ رہا تھا۔ اُس کے ہونٹ سرخ تھے، آنکھیں ہلکی براؤن، اور سیاہ بال کندھوں تک آ رہے تھے۔ اُس کی رنگت بھی گندمی تھی… لیکن وہ گندمی رنگت اُس پر بے حد جچ رہی تھی۔ وہ واقعی خوبصورت لگ رہی تھی ۔
افسان اور آریب فوراً التَمش کی طرف بڑھے اور اُسے سہارا دے کر اٹھانے لگے۔
مگر التَمش نے تھوڑا سا ہاتھ اٹھا کر خود کو سنبھالا اور بولا،”میں خود اُٹھ جاؤں گا۔”
وہ آہستہ آہستہ کھڑا ہوا، اور اپنے کپڑوں کو آگے پیچھے سے جھاڑنے لگا۔
زرکا نے فکر مندی سے پوچھا،”تم ٹھیک ہو نا؟ تم پریشان لگ رہے ہو۔”
التَمش نے ایک پُرسکون انداز میں جواب دیا،”ہاں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم سب کو تو کوئی چوٹ نہیں آئی؟”
سب نے باری باری نفی میں سر ہلایا۔ پانچوں دوست آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ وہ نوجوان لڑکی، جو پہلے التَمش کے قریب آئی تھی، انہیں دور سے دیکھتی ہوئی چپ چاپ واپس پلٹ گئی۔
افسان نے پوچھا،”تمہیں واقعی کچھ نہیں ہوا؟”
التَمش نے چند لمحے خاموشی اختیار کی، پھر اچانک اپنی انگلی کی طرف دیکھا۔ حیرت سے اُس کی آنکھیں پھیل گئیں، اور اُس نے بے اختیار دونوں بھنویں اُچکا دیں۔ اُس نے دل میں سوچا،
“یہ کیسے ہو گیا؟ وہ کانٹا… وہ زخم… کہاں گیا؟ ابھی تو بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔” وہ آہستہ سے بولا،”میری انگلی پر کانٹا چبھ گیا تھا، لیکن اب زخم بالکل غائب ہے۔
” یہ سن کر باقی سب نے بھی چونک کر اپنی اپنی انگلیوں کی طرف دیکھا۔
التَمش نے اُن سب کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا،”تم سب بھی… اپنی انگلیاں کیوں دیکھ رہے ہو؟”
ایلمارا بولی،”کیوں کہ میری انگلی میں بھی کانٹا چبھا تھا… اور اب وہاں کچھ بھی نہیں۔”
سب نے یک زبان ہو کر کہا،”ہاں، ہم سب کے ساتھ یہی ہوا!”
التَمش نے گہری سانس لی اور آہستہ سے کہا،”یعنی یہ سب کچھ… ہم سب کے ساتھ ہوا۔”
اب آس پاس کے لوگ جو حیرت سے اُنھیں دیکھ رہے تھے، واپس اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہونے لگے۔ اسی لمحے، ایک اور لڑکی اُن کی طرف بڑھتی نظر آئی۔ وہ اکیلی نہیں تھی — اُس کے دائیں بائیں دو دو سپاہی چل رہے تھے، جن کے لباس شاہی شان و شوکت کے عکاس تھے۔ دور سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کوئی اہم شخصیت ہے۔ بازار میں موجود لوگ اُسے دیکھ کر رک گئے، اور مودبانہ انداز میں جھک کر بولے،
“سلام، ملکہ صاحبہ!” پانچوں دوستوں نے اُس لڑکی کو دیکھا جسے سب “ملکہ صاحبہ” کہہ کر پکار رہے تھے۔
وہ واقعی سب سے الگ، سب سے منفرد لگ رہی تھی — جیسے عرش سے کوئی حور اُتر آئی ہو۔ اُس نے سرخ رنگ کا لمبا فراک پہن رکھا تھا جو ٹخنوں کو چھو رہا تھا۔ اُس کے لباس پر سنہرے دھاگے سے نہایت نفیس کام ہوا تھا، جو دھوپ کی روشنی میں جگمگا رہا تھا۔ اُس کے لمبے، کالے بال اتنے گھنے اور چمک دار تھے زمین کو چھو رہے تھے۔ سر پر ایک خوبصورت، نازک تاج تھا — جو سنہری روشنی بکھیر رہا تھا، جیسے اُس کی شان و شوکت میں مزید اضافہ کر رہا ہو۔ اُس کا رنگ سفید تھا — مگر ایسا سفید، جیسے اُس کے اندر سے روشنی ا رہی ہو۔ اُس کی پلکیں لمبی، آنکھیں گہری تھیں۔ وہ بےحد دلکش، اور مضبوط شخصیت کی حامل دکھائی دیتی تھی۔
وہ دھیرے دھیرے ان کی طرف آئی اور نہایت شیریں آواز میں بولی: “خوش آمدید… آپ سب کو میری دنیا میں “
اُس کی آواز میں جیسے کوئی جادو تھا۔ پانچوں دوست ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
پھر وہ بولی: “مجھے معلوم ہے کہ یہ سفر آپ کے لیے عجیب، شاید تھوڑا پریشان کن بھی رہا ہوگا… لیکن مجھے امید ہے کہ یہاں آپ سب کو سکون ملے گا۔” اُس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، جو بےاختیار دل کو چھو جاتی تھی۔ “
آپ کو کچھ ہفتوں کی مہلت دی گئی ہے… اس کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوگا۔ آہستہ آہستہ سب کچھ آپ کو سمجھا دیا جائے گا۔ اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔”
التَمش نے آخرکار خاموشی توڑتے ہوئے کہا،”میری بات سنیے… جو بھی ہے، ہمیں یہاں کیوں لایا گیا؟”
ملکہ نے ایک لمحے کے لیے اُسے غور سے دیکھا۔ پھر آہستہ آہستہ اُس کے قریب آ گئی۔ وہ رکی، اور ایک نظر التَمش پر ڈالی — سر سے پاؤں تک۔اُس کی نگاہوں میں کچھ عجیب تھا… جیسے وہ صرف التَمش کو دیکھ نہیں رہی تھی، بلکہ پڑھ رہی ہو۔ التَمش کی نظر اُس کی آنکھوں پر جا رکی — سرمئی آنکھیں، گہری، خاموش، مگر جیسے کسی راز سے لبریز۔ وہ نظریں چرانا چاہتا تھا… مگر ان آنکھوں کی کشش اُسے مجبور کر رہی تھی۔ایک پل کو اُس نے منہ موڑ لیا، مگر پھر جیسے خود پر قابو نہ رکھ سکا — دوبارہ اُس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ اور وہیں — وہ اُسے پہچان گیا۔
“یہ وہی ہے… وہی لڑکی جس نے سب کو بچایا تھا…” اُس نے دل میں سوچا۔ ملکہ نے ایک گہری سانس لی، اور خاموشی سے چند قدم پیچھے ہو گئی۔
التَمش نے کہا،”اگر ہمیں اسی دنیا میں بلانا تھا، تو اُس باغ میں کیوں لے جایا گیا؟ وہ سب خواب جیسا کیوں تھا؟”
ملکہ آہستہ اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی: “دراصل… اس دنیا میں آنے سے پہلے تم انسانوں کو یہ منظر اس لیے دکھایا جاتا ہے، تاکہ تم اپنی فطرت کو پہچان سکو۔” “جب تم کسی منزل کو پانے نکلتے ہو، تو ابتدا میں پورے دل و جان سے اُسی کی طرف بڑھتے ہو… مگر پھر؟” “پھر تم وہی ہوتے ہو جو اُس راہ سے ہٹ جاتے ہو — کوئی فریب، کوئی آسائش، کوئی لمحاتی کشش تمہیں اپنی طرف بلاتی ہے… اور تم اپنی اصل راہ چھوڑ دیتے ہو۔” “تمہیں تمہاری ہی کمزوریوں کا سامنا کروایا جاتا ہے… تاکہ جب تم یہاں آؤ، تو خود کو سچ میں جان سکو۔” التَمش سنجیدگی سے بولا: “اچھا… تو یہ تھا تمہارا مقصد؟” “مگر ایک بات یاد رکھو — ہر انسان اپنی منزل کو نہیں بھولتا”
**ملکہ*کی آواز میں اب وہ نرمی نہ رہی، بلکہ ایک چیلنج تھا۔ “اچھا؟ تو پھر… جب تم سب لوگ سیب کو لینے گئے تھے، تو کیا تم سب اُسے لے آئے؟” “یاد ہے وہ پُل؟ وہ شیشہ؟ وہ منظر؟ تم لوگ سیب کو بھول کر اُنہی چیزوں میں کھو گئے۔” “وہ درخت تمہاری منزل تھا۔ وہ سیب تمہارا مقصد۔ مگر تم؟ تم تو راستے میں پڑی ہر چیز میں الجھتے گئے “یہی ہے تم انسانوں کی فطرت۔”
ایلمارا، آریب، زرکا اور افسان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ملکہ کی بات نے جیسے اُن کے دل کی چپ کو زبان دے دی تھی۔
زرکا آہستگی سے بولی،”سچ کہا آپ نے… ہم واقعی اپنی منزل بھول گئے تھے۔”
التَمش اب بھی خاموش کھڑا تھا — گہری سوچوں میں گم۔
ملکہ نے اُسے ایک نظر دیکھا… اور پھر ہلکی سی “ایٹیٹیوڈ بھری مسکراہٹ” اُس کے چہرے پر ابھری۔پھر وہ مڑنے لگی — واپسی کے لیے قدم اٹھا ہی رہی تھی کہ…
التَمش کی آواز گونجی:”سنو!” ملکہ رُک گئی۔ ملکہ التمش کی طرف موڑی التَمش آہستہ آہستہ ملکہ کے قریب آیا۔
ملکہ اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔چند لمحے — بس نگاہیں، اپس میں ٹکرائی۔پھر… التَمش نے اپنی واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا — اور وہی لال سیب نکالا۔ اور ملکہ کی عین انکھوں کے سامنے لا کر اسے دکھایا ملکہ کی انکھیں حیرت سے پھیل گئی التَمش نے آہستگی سے اُس کا سیدھا ہاتھ تھاما، اور اُس کی ہتھیلی پر وہ لال سیب رکھ دیا۔
پھر بغیر کچھ کہے، وہ اُسی کے دائیں طرف سے گزرتا ہوا آگے نکل گیا۔ ملکہ بس وہیں کھڑی رہ گئی — حیرت، خاموشی اور سوچ کے سنگم پر۔ وہ نیچے اپنی ہتھیلی میں رکھے ہوئے سیب کو دیکھتی رہی…
پھر آہستہ سے اُس کے لبوں پر ایک نرمی بھری مسکراہٹ آ گئی۔ ملکہ نے پیچھے مُڑ کر التَمش کو دیکھا —
اور جیسے ہی اُس نے پلٹ کر نظریں جمائیں،اُس کے آگے کے بال ہوا میں لہرا کر پیچھے آ گرے۔ نہ وہ کچھ بولی، نہ التَمش کچھ بولا
Next Episode on 15th September
INSHALLAH!
NOTE BY AUTHOR:
امید ہے کہ آپ کو میری لکھی ہوئی یہ دوسری قسط پسند آئی ہوگی۔ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی رہ گئی ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ باقی اپنی رائے اور قیمتی تبصرے ضرور کمنٹس میں شیئر کیجیے گا.! خدا حافظ
آپ کی رائٹر
عمارہ عزیز

2 Comments
Bhai bhai bhaiiii ufff altamishhhh ka attitude last me uff dil le gya altamish bs mzaaa agya qsmyy or or bht mze ka jldiiii next duuuuuu
very interested novel