آخری سِحر
قلم از: عمارہ عزیز
قسط نمبر 3
~التَمش اب بازار سے دور ا چکا تھا اچانک، اُس کی نظر ایک طرف پڑی وہاں، ایک بہت ہی خوبصورت اور بڑا محل نظر آیا۔روشنیوں سے جگمگاتا، جادوئی سا التَمش کی نگاہیں اُس پر ٹک گئیں۔ وہ اُسے دیکھ ہی رہا تھا کے اچانک ایک نرم اواز ائی
“آپ ٹھیک ہیں نا؟” التَمش چونکا اور پیچھے مڑا— اُس کے پیچھے ایک لڑکی کھڑی تھی۔
التمش بولا جی اپ کون اُس وقت آپ کے دوست آ گئے تھے، تو مجھے لگا بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
التَمش کو یاد ایا پھر اس نے نے آہستگی سے سر ہلایا:”اب بہتر محسوس کر رہا ہوں۔”
لڑکی بولی”ویسے… آپ کا نام؟”
التَمش نے جواب دیا: اہان التَمش۔”
لڑکی نے دہرایا: اہان التَمش…! بہت مختلف سا نام ہے۔ کیا میں اس کے مطلب جان سکتی ہوں؟”
التمیش نے کہا کیوں نہیں” ؟ ‘اہان’ کا مطلب ہے روشنی… نئی شروعات… یا نئی اُمید۔اور ‘التَمش’… عظمت، رہنمائی، پناہ، اور بردباری کا نشان ہے۔”
لڑکی یہ سن کر چند لمحے خاموش رہی ، اُس کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک آئی۔
التَمش نے کہا: “بُرا نہ مانیے، لیکن ایک بات پوچھوں؟”
لڑکی نے فوراً کہا:”جی، ضرور!” :آپ میرے بارے میں اتنے سوال کیوں کر رہی ہیں؟”
لڑکی ہلکے انداز میں مسکرائی یہ میری عادت ہے…جس سے پہلی بار ملوں، اُس سے بہت کچھ جاننا چاہتی ہوں۔ خاص طور پر… اگر وہ اتنا مختلف لگے۔”
التَمش اور وہ لڑکی بات کر ہی رہے تھے کہ…اچانک، اُس خوبصورت محل کا بلند دروازہ کھلنے کی آواز گونجی۔ وہ دروازہ — جو سُنہرے رنگ کا تھا — آہستگی سے کھلا۔آواز سن کر التَمش نے فوراً اُس سمت دیکھا۔ وہ دروازہ دراصل ملکہ کے لیے کھولا گیا تھا۔ ملکہ، اپنے دائیں بائیں دو دو سِپاہیوں کے ساتھ محل میں داخل ہونے ہی والی تھی — کہ اُس کی نگاہ التَمش پر پڑی۔ ملکہ رک گئی۔
التَمش نے بھی اُسے دیکھا لیکن فوراً بیزاری سے اپنی نظریں ہٹا کر بازار کی طرف موڑ لیں۔ محل کا دروازہ ابھی مکمل طور پر نہیں کھلا تھا،جس کی وجہ سے اندر کا مکمل منظر واضع نہ ہو سکا لیکن اندر سے مزیدار کھانوں کی خوشبو ائی۔ محل کے اندرونی کمروں کی خوشبو…وہ ایسی تھی کہ التَمش نے بے اختیار اپنا ہاتھ اپنی پیٹ پر رکھا۔ اُس کے ساتھ موجود لڑکی نے بھی ایسا ہی کیا ملکہ نے یہ باریکی محسوس کی۔
پھر اُس نے اپنے بائیں طرف کھڑے سپاہی کو حکم دیا: “سنو… جتنے بھی لوگ یہاں آئے ہیں، اُنہیں پیار سے میرے محل میں کھانے کی دعوت دو۔”
سپاہی نے کہا:”جی، ملکہ… جو آپ کا حکم!”
ملکہ محل میں داخل ہونے ہی لگی مگر چند قدم چل کر وہ پھر رکی…پیچھے مُڑ کر بولی: “یاد رہے… پیار سے!”
پھر وہ محل میں داخل ہو گئی،اور سُنہرا دروازہ آہستگی سے بند ہو گیا۔ محل کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ کہ سپاہی، جو ملکہ کے بائیں جانب کھڑا تھا، التَمش کے پاس آیا۔
اُس کی آواز نرم تھی “سنیے… ملکہ کا حکم ہے آپ محل میں کھانے کے لیے تشریف لائیں۔”
پھر اُس نے التَمش کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھا، اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “آپ بھی آئیں… سب مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام ہے۔”
لڑکی نے التَمش کی طرف دیکھا، التَمش کے چہرے پر وہی سنجیدگی تھی۔
اُس نے سپاہی کی طرف دیکھا پھر سرد لہجے میں کہا “نہیں… میں نہیں آ رہا۔”
سپاہی کے چہرے پر حیرت چھا گئی۔وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ
التَمش نے آواز بلند کی: “جا کر اپنی اُس ملکہ سے کہنا یہ سب تماشے بند کرے۔”
ملکہ کے بارے میں اس طریقے سے بات کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے سپاہی کا چہرہ سُن ہو گیا۔
**التمش پھر بلند اواز میں بولا “اور یہ جو پیار سے دعوت دے رہی ہے **اسے جا کر بول دو جہاں سے میں ایا ہوں مجھے واپس وہاں پہنچائیے سپاہی نے دل میں سوچا “
میں آخر کیا ہی کروں…؟ پیار سے دعوت دوں اُن لوگوں کو، جنہیں شاید پیار راس ہی نہیں ؟”
التَمش اُس کے قریب سے گزرا۔اُس کا کندھا، سپاہی کے کندھے سے ہلکا سا ٹکرایا۔سپاہی ایک قدم پیچھے گیا۔ التَمش غصے میں بازار کی طرف **** گیا۔
لڑکی وہیں کھڑی رہی ۔ سپاہی بھی غصے میں وہاں سے چلا گیا۔ ایک شاندار، کشادہ کمرہ ۔ زمین پر سرخ لمبا قالین بچھا ہوا تھا، اور چھت پر لٹکا ہوا فانوس جو سنہری رنگ کا تھا پوری فضا میں اپنی روشنی بکھیر رہا تھا۔کمرے کے دائیں بائیں چند اور کمرے بھی نظر آ رہے تھے، جیسے وہ اسی کے ساتھ جُڑے ہوں۔ اس بڑے کمرے کے بیچوں بیچ ایک لمبا میز رکھا تھا، جس کے گرد کئی کرسیاں ترتیب سے لگائی گئی تھیں۔میز پر بے شمار لذیذ پکوان رکھے تھے اور اُن کی خوشبو نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ میز کے دائیں جانب کمرے کا بڑا دروازہ تھا، اور بائیں طرف ایک خوبصورت تخت نظر آ رہا تھا جو کچھ بلندی پر نصب تھا۔اس تخت تک پہنچنے کے لیے چند سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔ اُسی تخت پر ملکہ بیٹھ ہوئی تھی خوبصورت، خاموش، اور گہری نظروں سے سب کو دیکھتی ہوئی۔ میز کے گرد التَمش کے دوست، وہ لڑکی، اور بے شمار دیگر مہمان موجود تھے۔تمام کرسیاں بھری ہوئی تھیں…
صرف ایک کے سوا۔ وہ کرسی جو سب سے پہلی تھی خالی تھی۔ میز پر موجود تمام مہمان خاموش بیٹھے تھے پکوانوں کی خوشبو سب کو ستا رہی تھی، لیکن… کسی کے ہاتھ ہلنے کی جرأت نہ تھی۔ سب کی نظریں تخت پر بیٹھی ملکہ کی طرف تھیں جیسے اجازت کا اشارہ وہیں سے آنا تھا۔
ملکہ نے آہستگی سے اپنے قریب کھڑے سپاہی سے پوچھا “وہ لڑکا… کہاں ہے؟”
سپاہی نے مؤدبانہ انداز میں سر جھکا کر کہا:”ملکہ معظم… فی الحال مجھے علم نہیں۔ مگر اگر حکم ہو، تو تلاش کے لیے روانہ ہو سکتا ہوں۔”
ملکہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا: “نہیں… کوئی ضرورت نہیں۔اگر اُسے آنا ہوگا… تو وہ خود آ جائے گا۔”
سپاہی نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ملکہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہاچانک محل کا عظیم الشان دروازہ
*آہستہ آہستہ کھلا۔ تمام نگاہیں اُس سمت مڑ گئیں۔ التَمش… دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ ایک پُروقار، سنجیدہ اور مضبوط شخصیت چلتے ہوئے اُس کے قدموں میں اعتماد، چہرے پر بے نیازی، اور آنکھوں میں تھکن چھپی ہوئی تھی۔ اُس نے کسی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا نہ ملکہ کی طرف، نہ دوستوں کی طرف۔ بس سیدھا آ کر اُس پہلی، خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پھر خاموشی سے چمچ اُٹھایا… اور اپنے سامنے رکھے چاول کھانے لگا۔ ایسا لگا جیسے اُسے کسی سے کوئی غرض نہیں نہ کسی شاہی دعوت سے، نہ کسی تخت سےوہ یہاں صرف اپنی بھوک مٹانے آیا تھا۔
دل میں اُس نے بس اتنا ہی سوچا “بھوک… آخر انسان سے سب کچھ کروا ہی دیتی ہے۔”
باقی سب مہمان حیرت سے اُسے دیکھ رہے تھے ایسا ردعمل، ایسی بے نیازی… شاہی محل میںکئی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں، مگر کوئی کچھ نہ بولا۔ ملکہ کے چہرے پر اب بھی سکون تھا ۔
التَمش کے برابر میں بیٹھا افسان، تھوڑا جھک کر بولا “ملکہ کی اجازت کے بغیر… تم یہ کیا کر رہے ہو؟”
التَمش نے بغیر رکے، بغیر نظر اٹھائے، بس ہلکے لہجے میں جواب دیا: “چپ رہو… کھانے دو۔ بھوک لگی ہے۔” ،
ملکہ نے نرمی سے سب سے کہا “آپ سب… کھانا شروع کریں۔” اور یوں محل میں چمچوں کی ہلکی آوازیں گونجنے لگیں۔دعوت… اب واقعی شروع ہوئی تھی۔
تمام لوگ کھانے میں مشغول تھے۔ التَمش نے اپنا کھانا مکمل کر لیا تھا، اور اب وہ خاموش بیٹھا تھا۔ اُس کے چہرے پر سوچ اور تھکن دونوں نمایاں تھیں۔ملکہ اُسے مسلسل دیکھ رہی تھی۔ چند لمحے گزرے، التَمش نے گردن اُٹھائی… اور سیدھا ملکہ کی طرف دیکھا۔ ملکہ کی نظریں جیسے ہی اُس سے ملیں، اُس نے فوراً نظر پھیر لی۔
لیکن التَمش نے بلند آواز میں پکارا: “کیا نام ہے تمہارا…..؟ “
ملکہ چونکی۔ سپاہی بھی حیرت سے اُسے دیکھنے لگے، لیکن وہ سب خاموش تھے — کیونکہ ملکہ کی اجازت کے بغیر کچھ بولنے کی جرأت کسی میں نہ تھی۔ محل میں موجود سب مہمانوں کی نظریں التَمش پر جم گئیں۔ خاموشی چھا گئی۔
ملکہ نے غصے سے، بلند آواز میں کہا: “تمہاری ہمت کیسے ہوئی!… مجھے یوں مخاطب کرنے کی؟”
سارا محل جیسے ساکت ہو گیا۔ التَمش کرسی سے سیدھا کھڑا ہو گیا، اُس کے چہرے پر سنجیدگی اور لہجے میں سختی تھی۔
“ہمت تو بہت ہے مجھ میں… تم یہ بات چھوڑ دو۔ مجھے بس اپنے گھر جانا ہے۔ یہ آخری جگہ ہے جہاں تم جیسے لوگ ہمیں لے آئے ہیں!”
ملکہ بھی غصے سے کھڑی ہو گئی، اور غصے میں بولی شکر کرو میں نے تم جیسے بے حس، احسان فراموش انسانوں کو بچا لیبولیورنہ مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم جیسے بدتمیزوں کے ساتھ رہنے کا!”
التَمش آگے بڑھا “بچایا ہے؟ کیا بچایا ہے؟جب سے یہاں آئے ہیں، نہ سکون ہے نہ سمجھ۔یہ کس شہر میں لے آئے ہو ہمیں؟ یہ کیسا ملک ہے ملکہ نے کہا ** “یہ شہر نہیں… دنیا ہے۔ **دنیاجناتو کی دنیا!”
یہ سن کر تمام مہمانوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ التَمش کے چہرے پر کشمکش کے اثرات نظر ائے اب محل میں مکمل خاموشی چھا گئی۔
ملکہ نے آہستگی سے دوبارہ اپنے تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا “اس بات کو ابھی نہیں سمجھو گے۔یہ ایک لمبی کہانی ہے۔”
التَمش بولا: **”ٹھیک ہے، وہ بات بعد میں۔ ** ویسے بھی ثبوت کے بغیر میں بات پر یقین نہیں کر سکتاپہلے یہ بتاو یہاں سے باہر کب نکلیں گے؟”
ملکہ نے پرسکون لہجے میں کہا: فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتیمجھے معلوم ہے تم لوگ تھک چکے ہو۔” پھر اُس نے اپنے سپاہیوں سے کہا “کھانے کے بعد… سب مہمانوں کو ان کے کمرے دکھا دینا۔”
التَمش نے سپاہی کی طرف دیکھا اور کہا: “میرا کمرہ دکھاو… مجھے آرام کرنا ہے۔” اُس کی تھکن اُس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہی تھی۔
ملکہ نے کہا “تمہارا کمرہ میں خود دکھاؤں گی۔…بس، تھوڑا صبر کرو۔”
التَمش خاموشی سے واپس اپنی کرسی پر آ بیٹھا۔ تمام لوگ کھانے کے بعد جا چکے تھے۔التَمش اور اُس کے دوست اب بھی محل میں موجود تھے، اور وہ لڑکی بھی۔ وہ لڑکی جانے ہی لگی تھی
کہ اچانک ملکہ نے بلند آواز میں کہا “رُکو!” لڑکی چونک گئی۔
اور پیچھے موڑی ملکہ نے نرمی سے کہا “تم… تم یہی رہو گی۔ میرے ساتھ۔”
لڑکی نے حیرانی سے پوچھا “جی؟ میں؟”
ملکہ نے تھوڑا مسکرا کر جواب دیا “ہاں، تم۔ میرے کمرے میں۔ میرے ساتھ رہو گی۔” لڑکی کے چہرے پر حیرت اور ہچکچاہٹ دونوں عیاں تھیں۔
ملکہ نے نرمی سے کہا “ہاں، اگر تم جِجھک رہی ہو، یا نہیں رہنا چاہتیں، تو بتا سکتی ہو۔”
لڑکی نے فوراً کہا کیوں نہیں… ضرور التَمش کی نظر ملکہ پر پڑی تو اُسے پہلی بار مسکراتے ہوئے دیکھا۔
ملکہ نے لڑکی کو دیکھتے ہوئے پوچھا “ویسے، تمہارا نام کیا ہے؟”
لڑکی نے جواب دیا: “مشال فاطمہ۔”
ملکہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا “اچھا نام ہے”
پھر اُس نے سپاہیوں کی طرف دیکھا اور کہا “سنو، میرے کمرے کے ساتھ جو کمرہ ہے، وہ ان لڑکیوں کا ہوگا۔” (وہ زرکا اور ایلمارا کی طرف اشارہ کر رہی تھی)
التَمش نے تھوڑے غصے سے کہا اور میرا کمرہ؟ پتا ہے مجھے… تھوڑا صبر کرو، دکھا رہی ہوں۔التَمش نے آنکھیں گھمائیں اور خاموش ہو گیا۔
اور اُس کے برابر والا جو کمرہ ہے، وہ اِن لڑکوں کا ہو گا ملکہ کا اشارہ اریب افسان اور التمش کی طرف تھا
سپاہیوں نے فوراً سر جھکایا “جی، ملکہ… ہم ابھی بندوبست کرتے ہیں۔”
رات کا وقت تھا۔ تمام مہمان اب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ محل کے بڑے در و دیوار خاموش کھڑے تھے، اور ہر طرف ایک ہلکی سی روشنی اور خامشی چھائی ہوئی تھی۔ ملکہ اپنے کمرے میں تھی — ایک خوبصورت، کشادہ کمرہ، جس کی دیواروں پر سنہری رنگ کی نقش و نگاری کی گئی تھی۔ ایک طرف، اُس کا شاہانہ بستر لگا تھا، اور کمرے کے ایک کونے میں مشال کا بستر رکھا گیا تھا۔ ملکہ ایک بڑی، قدآور آئینے کے سامنے رکھی نفیس کرسی پر بیٹھی تھی۔ وہ آئینے میں خود کو دیکھ رہی تھی، اور اپنے زمین تک آتے، خوبصورت بالوں کو آہستہ آہستہ سنوار رہی تھی۔ ملکہ کا تاج، آئینے کے ساتھ رکھی میز پر رکھا ہوا تھا — چمکتا، نازک، اور جادو سا لگتا ہوا۔ مشال خاموشی سے اپنے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس کی نظریں مسلسل ملکہ پر جمی تھیں۔
دل میں ایک خیال آیا، ایک ہلکی سی تمنا۔ “کتنی خوبصورت ہے یہ … کیا میں بھی اتنی خوبصورت ہوں؟”
اُس نے بے اختیار اپنے فراک کی جیب میں ہاتھ ڈالا… لیکن اندر کچھ بھی نہیں تھا۔ اچانک وہ تھوڑا گھبرا گئی،
اور ہلکی آواز میں بولی “میرا موبائل…!” ملکہ نے آئینے میں سے اُسے دیکھا۔
پھر آہستگی سے، بغیر پلٹے پوچھا: “کیا ہوا؟ کچھ پریشان لگ رہی ہو۔”
مشال نے جلدی سے کہا: “میرا فون… مجھے کہیں نظر نہیں آ رہا۔” اس بار ملکہ نے آہستگی سے پلٹ کر مشال کی طرف دیکھا،
اور مسکرا کر بولی: “وہ… تو تمہارے یہاں آنے سے پہلے ہی غائب ہو چکا ہے۔”
مشال کے چہرے پر الجھن چھا گئی۔ اُس نے پریشانی سے کہا: “لیکن… میں اپنے گھر والوں سے رابطہ کیسے کروں گی؟”
ملکہ نے نرمی سے، پرسکون لہجے میں جواب دیا: “یہ صرف چند ہفتوں یا ایک مہینے کی بات ہے… فکر مت کرو۔” پھر وہ دوبارہ آئینے کی طرف متوجہ ہو گئی، اور اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگی
محل کے طویل اور پُرسکون راہداری میں ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ تین کمروں میں روشنی جل رہی تھی، باقی سب سو چکے تھے۔
انہی کمروں میں سے تیسرے کمرے کے دروازے سے افسان آہستہ قدموں کے ساتھ باہر آیا۔ اُس نے ساتھ والے کمرے کے دروازے پر جا کر ہلکی سی دستک دی۔
“زرکا… ایلمارا… سنو…”اُس نے پھر آہستہ سا کھٹکھٹایا۔ اس بار اندر سے آہٹ آئی اور ایلمارا نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اُسے حیرانگی سے دیکھنے لگی ۔
افسان بنا کچھ کہے اندر آ گیا۔ ایلمارا غصے سے اسے دیکھنے لگی اور سوچا حد ہے یہ اس وقت یہاں کیا کر رہا ہے
ایلمارا اب دروازہ بند کرنے ہی والی تھی کہ اچانک آریب ایا اور اُس نے دروازے کے ایک پلڑے پر ہاتھ رکھا اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا”ارے… ہمیں اندر نہیں آنے دو گی کیا؟”
ایلمارا نے غصے میں کہا”نہیں آنے دوں گی۔”
آریب نے حیرت سے پوچھا”کیوں؟ ہم سے کوئی دشمنی ہے؟”
ایلمارا بیزاری سے بولی”نہیں… لیکن تم ابھی بہت زہر لگ رہے ہو۔”
آریب کے چہرے پر بےساختہ حیرت آ گئی۔”کیوں بھلا؟”
ایلمارا نے فوراً جواب دیا”یہ جو تم دروازے کے ایک پلڑے پر ہاتھ رکھ کر، ٹیک لگا کر کھڑے ہو نا… قسم سے ہیرو نہیں لگ رہے!”
آریب ہلکے قدم آگے بڑھا، ایلمارا کے قریب آیا، اور ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
افسان کمرے میں جیسے ہی داخل ہوا تو اُس نے زرکا کو بستر پر بیٹھا دیکھا۔ زرکا جُڑا باندھ رہی تھی اور سونے کی تیاری میں تھی۔
زرکا نے اُسے دیکھا اور بولی”تم یہاں اس وقت؟ خیریت؟”
افسان بولا، “کچھ نہیں… بس سوچا دیکھ لوں، تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔”
زرکا نے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا اور بولی، “صرف مجھے؟”
افسان جلدی سے بولا، “نہیں… تم دونوں کو۔”
زرکا نے ہلکے سے سر ہلایا، “اچھا، پھر ٹھیک ہے… ہاں، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔”
افسان بولا، “سہی ہے، میں تو بس ذرا کمرے کا ماحول دیکھنے آیا تھا۔” یہ کہہ کر وہ شیشے کے پاس گیا۔ شیشے کے سامنے رکھی میز پر کچھ قیمتی پتھر رکھے تھے۔
افسان نے وہ پتھر ہاتھ میں اٹھا کر دیکھنے لگا اور نرمی سے ہاتھوں میں تھامے رکھا۔
زرکا بولی، “ہاں، ماحول اچھا ہے… تم لوگوں کا کمرہ کیسا ہے؟”
افسان نے جواب دیا، “تم لوگوں کے کمرے سے بُرا ہی ہے۔”
زرکا نے اثبات میں سر ہلایا اور بولی، “تب ہی تم لوگوں کو وہ کمرہ دیا۔”
افسان نے کہا، “ہاں…”
پھر اچانک مُڑ کر زرکا کو دیکھتے ہوئے بولا، “حد ہے!”
زرکا نے ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ دی اور بستر پر پڑی سفید رضائی اپنی ٹانگوں پر لے لی۔
Next Episode on 20th September
INSHALLAH!
NOTE BY AUTHOR:
امید ہے کہ آپ کو میری لکھی ہوئی یہ قسط پسند آئی ہوگی۔ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی رہ گئی ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ باقی اپنی رائے اور قیمتی تبصرے ضرور کمنٹس میں شیئر کیجیے گا.! خدا حافظ
آپ کی رائٹر
عمارہ عزیز
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

2 Comments
Nice 🫀
fantastic novel. i’m waiting for next part