antal hyat

Antal Hayat Episode 4 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو

قسط نمبر ۴

دوپہر کے تین بجے کا وقت تھا۔
حیات اپنے موبائل میں گیم کھیلنے میں مگن تھی، آنکھوں میں شوخی، ہونٹوں پہ ہنسی کی جھلک اور انگلیاں اسکرین پر رقصاں تھیں۔ سامنے، امن اپنے لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا کسی اہم فائل میں مصروف تھا، چہرے پہ سنجیدگی کی پرچھائیاں اور ماتھے پر ہلکی سی شکن۔

اچانک، امن نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائیں اور سنجیدگی سے پوچھا:
او ہیلو مس؟

حیات نے حیرانی سے گردن گھما کر اسے دیکھا،
کون، میں؟

جی، آپ۔ وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولا۔

حیات نے موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے آنکھیں سکیڑ کر کہا،
فرمائیے؟

ٹائم کیا ہو رہا ہے؟

تین بج رہے ہیں۔

تو۔۔۔؟

تو؟ وہ آنکھیں پھیلائے ہوئے پوچھنے لگی۔

یہ میری کافی کا وقت ہے۔ امن نے کچھ اس انداز میں کہا جیسے کسی اہم عبادت کا وقت نکل رہا ہو۔

تو میں کیا کروں؟ جا کے پی لیں! وہ لاپروائی سے بولی۔

کیا مطلب ‘پی لیں’ آپ لا کر دیں گی۔

میں؟! وہ ٹھٹھک گئی۔

جی، آپ۔ امن نے پھر کہا، اب کی بار نظریں چبھتی ہوئی سی لگیں۔

میں آپ کی نوکر نہیں ہوں۔ خود جا کے لے لیں! ویسے بھی مجھے کافی وافی بنانا نہیں آتا، خود بنائیں اور خود ہی پی لیں! وہ ہاتھ نچاتے ہوئے بولی۔

تو پھر تم یہاں کیوں ہو؟ امن کا لہجہ سرد ہو گیا۔

میں؟! آپ کو تنگ کرنے کے لیے۔ اُس نے شرارت سے جواب دیا اور مسکرائی۔

حیاااات امن نے اسے گھورا۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟ پیار ہو گیا ہے آپ کو ہم سے؟ وہ ہنسی دباتے ہوئے بولی۔

کیا بکواس ہے یہ؟ وہ جھنجھلایا۔

ارے کچھ نہیں، ابھی ایک رِیل دیکھ رہی تھی، اُس میں ایک لڑکا اپنی ٹیچر کو ایسے ہی بولتا ہے جب وہ اسے گھورتی ہے۔

تو کیا میں تمہارا ٹیچر ہوں؟

او بھائی، معاف کر دیں بس! وہ چڑ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی،
ہاں جاؤ، معاف کیا، اب کافی لاؤ۔

جی جی مالک! میں تو آپ کی نوکر لگتی ہوں۔

ہمم، گوڈ! امن نے مسکرا کر کہا۔

خود جا کے لے لیں! حیات نے چیختے ہوئے کہا۔

واٹ اِز دس بیہیویئر ؟

اور آپ جو میرے ساتھ کر رہے ہیں؟ یہ بڑا اچھا بیہیویئر ہے؟

تم کافی لا کر دے رہی ہو یا نہیں؟

مجھے فائر کر دیں!

میں نہیں کر رہا۔

تو میں بھی کافی نہیں لا رہی!

تو ٹھیک ہے، میں تمہاری فیڈبیک فائل میں لکھ دیتا ہوں کہ ‘حیات بہت غیر ذمہ دار ہے اور باس کے کوئی احکامات نہیں مانتی۔

وہ چونکی۔ لمحے بھر کو خاموش ہوئی، پھر گردن ایک طرف موڑ کر آہستگی سے بولی،
براؤن کافی یا بلیک؟

بلیک کافی! امن نے مسکراتے ہوئے کہا۔

حیات نے کاندھے جھٹکتے ہوئے سرگوشی کی،
اُس میں ایک چمچ زہر بھی ملا دوں گی!

اور یہ کہتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر، کیینٹین کی طرف بڑھ گئی۔

+++++++++++++

کینٹین سے نکلتی حیات، ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے، جیسے ہی کارپٹڈ راہداری میں قدم رکھی، پیچھے سے ایک کچوکے دار آواز اُس کی پشت سے ٹکرا گئی

کیا کر رہی ہو؟

حیات نے پلٹ کر دیکھا،
آپ کو نظر نہیں آ رہا؟ واہیات پارانی کے لیے کافی لے کر جا رہی ہوں

کینٹین کی کافی؟ نتاشا کی آنکھوں میں تنقید کی پرچھائیاں ابھریں۔

تو؟ حیات نے شانے اچکائے۔

امن کو کینٹین کی چیزیں پسند نہیں ہیں۔

حیات رک گئی،
مے بی آپ کے باس نہیں ہیں وہ؟

نتاشا چونکی،
یہ پوچھنے والی بات ہے؟ آف کورس وہ باس ہیں۔

تو پھر آپ اُنہیں ‘امن’ کیوں کہہ رہی ہیں؟ ‘باس’ کہا کریں۔
وہ کپ تھامے، آنکھوں میں بے نیازی لیے بولی
اور ویسے بھی، میں اُن کی پرسنل اسسٹنٹ ہوں۔ مجھے بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے، اور کیا نہیں۔

یہ کہہ کر وہ دلکش استقامت سے چلتی ہوئی وہاں سے رخصت ہو گئی، نتاشا کو وہیں چھوڑ کر—ساکت، حیران اور تلخی میں ڈوبی۔

نتاشا زیرِ لب بڑبڑائی،
What the hell ?
یہ ہے کون۔۔؟

++++++++++++++

حسبِ معمول امن اپنی لیپ ٹاپ اسکرین میں جھکا کام کر رہا تھا۔ دروازہ ہلکا سا کُھلا، اور حیات خاموشی سے اندر داخل ہوئی ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے،

یہ لیں، آپ کی بلیک کافی۔ وہ کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔

تھینک یو۔ امن نے مختصر سا کہا، نظریں اسکرین پر۔

ہممم وہ واپس جا کر اپنے صوفے پر بیٹھ گئی۔

امن نے پلٹ کر دیکھا،
کچھ ہوا ہے؟

نہیں اُس نے پلکیں جھپکائیں کہا

اچھا۔ امن پھر کام میں مشغول ہو گیا، لیکن حیات کا مسلسل اِدھر اُدھر دیکھنا، کیبن کا جائزہ لینا، اُسے بار بار ڈسٹرب کر رہا تھا۔ وہ اب سکون سے ایک جگہ ٹک نہیں رہی تھی کبھی اِدھر جاتی کبھی اُدھر گھوم گھوم کر کیبن کا جائزہ لے رہی تھی۔

کیا کر رہی ہو؟ بیٹھ جاؤ ایک جگہ، سکون سے۔ اُس نے جھنجھلا کر کہا۔

کیا کروں؟ میرے اندر سکون ہی نہیں ہے۔ وہ معصومیت سے بولی۔

ناچتی رہو پھر! آمن کا لہجہ طنزیہ تھا۔

اوکے۔ اُس نے خوشی سے کہا، جیسے اجازت مل گئی ہو۔

امن نے جلدی سے فائل اُس کی طرف بڑھائی،
یہ لو، یہ فائل ری چیک کرو۔

آاااہ۔۔۔ اب یہ تو نہیں لکھا تھا جاب ڈسکرپشن میں کہ فائلیں بھی ری چیک کرنی ہوں گی۔ وہ ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔

آپ نے دھیان سے پڑھا نہیں شاید۔

اچھا، لائیے دیں اُس نے جھپٹ کر فائل لے لی اور پڑھنے لگی۔

دو گھنٹے بعد۔۔۔

حیات مسلسل فائل میں غرق تھی۔ صفحہ در صفحہ، جملہ در جملہ۔ اور امن؟ وہ اپنے لیپ ٹاپ کے پیچھے سے بار بار اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں کچھ نرم، کچھ ان کہی سا جذبہ تھا۔

بالآخر حیات نے اُس کی مسلسل مسکراہٹ محسوس کر لی۔

یہ کون سی بیٹھے بیٹھے آپ کو خوشخبری مل گئی ہے، جو آپ کی بتیسی نکلی جا رہی ہے اتنی؟

کچھ نہیں۔ اپنا کام کرو۔ اُس نے فوراً نظر ہٹا لی۔

آیے بڑے ‘اپنا کام کرو’ اگر نہ کیا تو کیا ہی کر لیں گے آپ؟

ہممم، زیادہ کچھ نہیں، بس آپ کی فیڈبیک فائل- امن کی بات پوری بھی نہ ہوئی اور وہ فوراً بولی
سمجھ گئی! میں اپنا کام کر رہی ہوں۔ آپ بھی کریں۔

اب کے امن نے دل ہی دل میں مسکرا کر سر جھکا لیا۔

حیات نے زیرِ لب کہا،
لگتا ہے اِن کے ساتھ کوئی مینٹلی پرابلم ہے

اور پھر دوبارہ اُس فائل میں کھو گئی۔

++++++++++++

کمرے میں خاموشی تھی، صرف پنکھے کی ہلکی سی آواز اور صفحوں کے پلٹنے کی مدھم سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔

ہمم۔۔۔ ہمم ۔
امن نے گلا صاف کرتے ہوئے اُسے مخاطب کیا۔

حیات، جو اب تک جھکی ہوئی فائل میں کھوئی ہوئی تھی، چونک کر سیدھی ہوئی۔

اب کیا ہے؟
اس کی آواز میں تھکن بھی تھی، تنگی بھی۔

ٹائم۔۔۔؟

وہ بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگی،
مجھے کیا پتا؟ آپ کے پاس گھڑی نہیں ہے کیا، جو ہر دفعہ مجھ سے ہی وقت پوچھتے رہتے ہیں؟

امن نے بھنویں چڑھائیں۔
حیات، بدتمیزی مت کرو

میں نے بدتمیزی کب کی؟ وہ معصوم بن کر بولی، جیسے وہ تو صرف سچ بول رہی ہو۔

فائل چیک کر لی؟

نہیں، ابھی تھوڑا سا باقی ہے۔

امن نے سنجیدگی سے فائل اُس کی طرف بڑھائی،
جاؤ، یہ فائل مسٹر خالد کو دے دو۔

وہ ٹھٹھکی،
لیکن یہ تو میں نے ابھی مکمل چیک نہیں کی

ضرورت بھی نہیں۔ جیسے ہے ویسے دے دو۔

امن نے نظریں واپس اسکرین پر گاڑ لیں، جیسے گفتگو ختم ہو گئی ہو۔

اچھا

وہ بادلِ نخواستہ اُٹھی اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔

اور ہاں، سنو۔
امن کی آواز نے اُسے پھر روک لیا۔

جی، فرمائیے؟
وہ پلٹ کر بولی، آنکھوں میں وہی لاپروائی، جیسے دل میں کہنا ہو اب اور کیا رہ گیا؟

آتے وقت میرے لیے کافی لیتے آنا

وہ اُسے کچھ پل خاموشی سے گھورتی رہی، جیسے دل ہی دل میں کافی کے کپ کے ساتھ کچھ اور ملانے کی ترکیب سوچ رہی ہو۔

ایک بات تو بتائیں آپ مجھے ذرا؟
امن نے پین آہستگی سے میز پر رکھا۔

جی، فرمائیے۔۔
اُس کا لہجہ ایسا تھا جیسے وہ کسی بزنس میٹنگ میں بیٹھا ہو، نہ کہ کسی آتش فشاں لڑکی کے مقابل۔

حیات اُس کے قریب آئی، انگلی اُٹھا کر اُسے مخاطب کیا،
کہیں آپ کا کوئی دماغی مسئلہ تو نہیں ہے؟ میری بات مانیں، جا کر ایک بار دماغ کے ڈاکٹر کو دِکھائیں۔

آمن نے ہلکی سی مسکراہٹ دبائی،
ٹھیک ہے، پھر آپ بھی چلیے گا۔

حیات ہڑبڑا گئی،
ہیں؟ میں کیوں جاؤں بھلا؟

امن نے شانے اچکائے،
کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ خود پاگل ہیں۔

حیات نے زیرِ لب بڑبڑایا، مگر آواز اتنی واضح تھی کہ امن تک پہنچ گئی،
پاگل لوگوں کو سب ہی پاگل لگتے ہیں۔

جی؟ امن نے بھنویں چڑھا کر پوچھا، نظریں اُس پر گاڑ دیں۔

کچھ نہیں!

وہ فوراً پلٹی،
جا رہی ہوں آپ کی قیمتی کافی لانے
لہجہ طنزیہ تھا، جملہ زہریلا۔

آمن نے اُس کی پشت کو جاتے ہوئے دیکھا، ہنسا، اور دھیما سا بولا،
عجیب، پاگل لڑکی ہے۔

+++++++++++

کافی کا کپ دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ اُس کے چہرے پر عجیب سی سنجیدہ شرارت تھی۔

یہ لیں، آپ کی قیمتی کافی۔
وہ میز پر رکھتے ہوئے بولی، جیسے کوئی قیمتی خزانہ حوالے کر رہی ہو۔

امن نے ایک نظر کپ پر ڈالی،
Thank you.

کیاااا؟
وہ جان بوجھ کر حیرانی سے بولی،
دوبارہ بولیں؟

امن نے سر اٹھائے بغیر پھر دہرایا،
Thank you.

کیاااا؟ آواز نہیں آئی، ذرا اونچا بولیں۔
اب کی بار اُس کی آنکھوں میں شوخی واضح تھی۔

امن، جو فائلز کی دنیا میں گم تھا، اب ذرا چونکا۔ اُسے احساس ہوا کہ وہ اُسے چھیڑ رہی ہے۔

وہ کرسی سے اُٹھا، آہستگی سے، مگر نگاہیں اب حیات پر تھیں۔

وہ جیسے ہی اُس کی طرف بڑھا، حیات نے گھبرا کر ایک قدم پیچھے لیا—اور سیدھا جا گری۔۔۔ صوفے پر!

آآآااااہ! میری ٹاااانگ۔۔۔ ٹُٹ گئی۔
وہ چیخی، ایسے جیسے جنگِ عظیم کی زخمی فوجی ہو۔

امن نے ماتھے پر ہاتھ مارا،
پاگل۔۔۔!
بس ایک لفظ، مگر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ بھی تھی، اور بے یقینی بھی۔

وہ اپنا کوٹ پہنتے ہوئے، بٹن بند کرتے، سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا۔

شکر ہے، بچ گئی۔
حیات نے دل ہی دل میں سُکھ کا سانس لیا، پھر اچانک چونکی،
لیکن، ایک منٹ۔۔۔ کافی؟ کافی کون پئے گا؟

وہ تیزی سے اُٹھی، کپ اُٹھایا، اور دروازے کی طرف دوڑی،
میں اتنی محنت سے لائی تھی!!!
پیچھے پیچھے چیختی، بڑبڑاتی وہ امن کے پیچھے لپکی۔

امن پرفیوم ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا اور وہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے داخل ہوئی۔

اوئے! ہیللو، سنیں؟
حیات نے حسبِ معمول شوخی سے پکارا، جیسے وہ کسی بے تکلف دوست کو روک رہی ہو۔

امن نے ایک نظر گھما کر اُسے دیکھا اور سرد لہجے میں بولا،
حیات، کیبن میں جاؤ۔ میں مصروف ہوں۔

وہ تھوڑی حیران ہوئی، مگر پھر بولی
پر میری بات تو سنیں۔

امن کا انداز یکدم سخت ہوا، اب کے اُس کی آواز میں برف بھی تھی، آگ بھی،
میں کہہ رہا ہوں ناں کہ میں بزی ہوں! کیبن میں جاؤ، ابھی، اسی وقت۔
اس بار وہ چیخا تھا۔

حیات کا چہرہ جیسے ایک دم زرد پڑ گیا۔ آنکھوں کی چمک بجھ گئی، ہونٹ ساکت ہو گئے۔
جی۔
وہ پلٹ گئی چپ چاپ۔

کیبن میں آ کر وہ آہستگی سے بیٹھ گئی، مگر اُس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔ آواز اُس کے کانوں میں گونج رہی تھی،
ابھی، اسی وقت۔۔

اور اُس لمحے حیات نے دل میں تہیہ کر لیا تھا—شوخی، ہنسی مذاق اپنی جگہ، مگر دل۔۔۔ وہ اب بچا کر رکھنا پڑے گا.

++++++++++++

آفس کے دیوار گیر کلاک نے چھ بجنے کی گواہی دی، اور جیسے ہی گھنٹی بجی، پورے فلور پر ایک ہلچل سی مچ گئی۔
فائلز بند ہونے لگیں، لیپ ٹاپس شٹ ڈاؤن ہونے لگے، اور اسٹاف ایک ایک کر کے جانے کی تیاری کرنے لگا۔

مگر ایک دروازہ، خاموشی سے کھلا۔
وہ حیات تھی۔

امن کے کیبن کا دروازہ آہستگی سے کھول کر نکلی، جیسے کسی انجان جنگل سے نکل کر شہر کا رُخ کر رہی ہو۔ آنکھوں میں تھکن تھی، لیکن دل میں ایک فیصلہ۔

اُس نے اپنا بیگ مضبوطی سے تھاما اور بنا کسی کی طرف دیکھے تیزی سے قدم بڑھا دیے۔
وہ جانتی تھی امن باہر کھڑا ہے—اُسی پرفیوم سیکشن کے قریب، جہاں اُس نے چند گھنٹے پہلے اُس پر چیخا تھا۔

مگر اُس نے ایک نظر بھی اُس کی طرف نہ ڈالی۔
وہ اس سے پہلے کہ کوئی اور بات ہو، جلدی سے لفٹ میں چلی گئی۔ لفٹ کے دروازے بند ہونے سے پہلے اُس کی آنکھیں ایک لمحے کو امن کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔۔

نہ شکایت تھی، نہ وضاحت—بس ایک خالی پن تھا۔
امن نے اُسے جاتے ہوئے دیکھا۔
سارے الفاظ جو کہنا چاہتا تھا، وہ حلق میں اٹک گئے۔
چہرہ سپاٹ رہا، مگر دل میں کوئی کرب چپکے سے جاگ چکا تھا۔

حیات۔۔
اُس نے صرف دل میں پکارا، زبان پر کچھ نہ آیا۔

پیچھے سے رباب آفس بوائے سے ہنستی ہوئی گزری، مگر امن کو اب کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
صرف ایک چیز تھی—وہ بند ہوتی ہوئی لفٹ، اور اُس میں کھڑی لڑکی، جس کی مسکراہٹ آج پہلی بار غیر موجود تھی۔

+++++++++++++

کمرہ نیم تاریک تھا، اور تھکن حیات کے چہرے پر نمی بن کر ٹھہر گئی تھی۔

ماما، میرے لیے چائے بنا دیں، سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔
وہ تھکی ہوئی سی، پرس ایک کونے میں پھینکتی، سیدھا بیڈ پر آ گری۔

کچھ ہی دیر بعد زینب بیگم چائے کا کپ ٹرے میں رکھے کمرے میں داخل ہوئیں۔

اور بتاؤ کیسا گزرا دن؟
چائے کو سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے، نرمی سے پوچھا۔

بس گزر گیا اُس نے ہلکے فلکِ انداز میں جواب دیا

کیا مطلب؟ زینب بیگم نے حیرت سے پوچھا۔

حیات نے نظریں چرائیں، دل چاہا سب کہہ دے، لیکن زبان خاموش رہی۔

کچھ نہیں۔

خاموشی نے آنکھوں سے بات کی، پر لبوں نے وفا نہیں کی۔

اچھا، کھانا لگواؤں تمہارے لیے؟

نہیں، بس تھک گئی ہوں، چائے پی کر سو جاؤں گی۔ آپ بس میرا کپڑا پریس کروا دیں۔

کون سا کپڑا؟

وہ پنک والا فراک۔

بیٹا، تم آفس جا رہی ہو، کوئی ڈسکو میں نہیں۔
زینب بیگم نے ہنستے ہوئے کہا۔

میں اسکرٹ ہی پہن کے جاؤں گی، آپ کو پریس کروانا ہے تو کروا دیں، ورنہ میں خود کروا لوں گی۔
یہ جملہ تنقید نہیں تھا، بس ایک سپرِنگ تھی جو دل کے اندر دبے غصے سے پھوٹی تھی۔

اچھا اچھا، بھڑک کیوں رہی ہو؟ میں کروا دیتی ہوں۔
زینب بیگم نے نرمی سے جواب دیا اور کپڑا الماری سے نکل کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔

دروازہ بند ہوا، اور حیات نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا۔
مگر وہ تلخی، جو دل میں تھی۔۔۔ وہ اس چائے سے نہیں دھل سکتی تھی۔

++++++++++++

رات گہری ہو چکی تھی، آسمان پر چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، اور حیات کے والدین کا کمرہ روشنی سے نہیں، محبت سے جگمگا رہا تھا۔

ندیم صاحب، اپنے بستر پر ٹیک لگائے، موبائل میں مصروف تھے۔

اسی لمحے زینب بیگم ہلکے قدموں سے کمرے میں داخل ہوئیں، ہاتھ میں حیات کا پنک فراک تھا۔

آگئی حیات؟
ندیم صاحب نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔

ہاں، آ تو گئی ہے،
زینب بیگم نے کپڑا رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا،
مگر ایسا لگ رہا ہے جیسے امن نے کریلا کھلا کر بھیجا ہو، منہ ہی لٹکا ہوا ہے اُس کا۔

ندیم صاحب ہنس پڑے۔
ارے، پہلا دن تھا نا، تھک گئی ہو گی، کچھ دنوں میں عادی ہو جائے گی۔

زینب بیگم نے گہری سانس لی۔
اللہ کرے کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند آجائیں، بس، دل سے دعا ہے۔

ندیم صاحب کی مسکراہٹ نرم ہوئی، اور لبوں سے ایک بے ساختہ
آمین نکل گیا۔

کمرے میں کچھ لمحے کی خاموشی چھا گئی—وہ خاموشی جو صرف اُن رشتوں کے بیچ ہوتی ہے جنہوں نے زندگی ساتھ گزاری ہو۔

چلیں اب سونے کا سوچیں؟ کب سے موبائل میں لگے ہوئے ہیں!
زینب بیگم نے شوخی سے کہا۔

جی جی بیگم، آپ نے کہہ دیا ہے، تو اب رکھنا ہی پڑے گا۔
انہوں نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

++++++++++++

امن کھانے کے بعد فریش ہو کر اپنے کمرے میں لیٹا تھا، لینڈ شدہ لیپ ٹاپ اس کی گود میں، آنکھیں اسکرین پر جمی ہوئیں۔
دن لمبا تھا، لیکن کام کی فہرست لمبی تر۔

اچانک کمرے کا دروازہ کھلا—دانیال، حواس باختہ حالت میں اندر گھسا اور سیدھا امن کے بیڈ پر چڑھ گیا۔

بھائی دیکھو اس کو، دماغ خراب کر رہا ہے! قسم سے، مار دوں گا میں اسے آج!
وہ چلا رہا تھا جیسے میدانِ جنگ میں فتح کا اعلان کر رہا ہو۔

پیچھے پیچھے یوسف بھی ہاتھ میں بیٹ لیے داخل ہوا، جیسے ایک فلمی ولن ہو۔

ہٹ جاؤ بھائی، چھوڑوں گا نہیں آج اس کو!
یوسف کی آنکھوں میں چنگاریاں تھیں۔

امن نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا۔
ارے ہوا کیا ہے؟
لیکن، کوئی سننے والا نہیں تھا۔

دانیال نے چھلانگ مار کر اب امن کے صوفے پر قبضہ جما لیا۔

آ آ کے مار! ہمت ہے تو، مار کے دکھا!
لڑاکا انداز، جیسے ڈبلو ڈبلو عی کی رِنگ ہو۔

یوسف نے بھی کچھ کم نہ کیا، وہ بیڈ پر چڑھ کر صوفے کی طرف باؤنس مارنے والا تھا۔

بس کرو، دونوں!
امن کا صبر اب لبریز ہو چکا تھا۔

ورنہ ایک کان کے نیچے لگاؤں گا! امن غصے سے چلایا

دونوں ایک لمحے کو رُک گئے، یوسف نے بیٹ نیچے رکھا، دانیال نے صوفے سے چھلانگ لگا کر خود کو بچایا۔

+++++++++++

جاری ہے۔۔۔

2 Comments

  1. Next part pls 😭🙏

  2. Bhut acha novel hai I love it

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *