تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۴
پریشے کے قدم جیسے زمین پر نہیں، کسی خلا میں پڑ رہے تھے۔
اس نے عشال کو گھر پر چھوڑا، انوشے کو چادر اوڑھ کر سوتے دیکھا، اور باہر نکل آئی۔ دل مسلسل دھڑک رہا تھا — جیسے ہر دھڑکن میں ایک سوال تھا،
پاپا ٹھیک ہوں گے؟ یا اللہ، پاپا کو کچھ نہ ہو…
اسے اب بھی نہیں معلوم تھا کہ اسپتال کون سا ہے۔ آخر کار، عشاء نے کال اٹھائی۔
ہیلو؟
پریشے کی آواز روہانسی تھی۔
پریشے… ہم سٹی ہسپتال میں ہیں، جلدی آؤ…
پاپا کیسے ہیں؟
جواب میں خاموشی ملی۔ بس خاموشی… جو چیخ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
سٹی ہسپتال — شہر کا وہ اسپتال جہاں امید اور بےبسی ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔
پریشے جیسے ہی مین گیٹ سے اندر داخل ہوئی، سامنے سفید یونیفارم میں لپٹی ہوئی خاموش راہداریاں تھیں،
ہر چہرہ پریشے کو اجنبی لگا،
اور ہر اجنبی کے چہرے پر وہی تاثر —
“کوئی کسی کے لیے دعا مانگ رہا ہے، کوئی رو رہا ہے، کوئی بس خاموش کھڑا ہے۔”
ریسپشن پر جاتے ہی اس نے تیزی سے کہا،
احمد رؤف، کار ایکسیڈنٹ… وہ کہاں ہیں؟
ریسپشنسٹ نے اسکرین پر نظریں دوڑائیں،
ایمرجنسی وارڈ، بیڈ نمبر سات۔
پریشے جیسے دوڑ پڑی۔ آنکھوں سے آنسو نکلے بغیر بھی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔
ایمرجنسی وارڈ — بیڈ نمبر سات
زینت بیگم سر پر دوپٹہ رکھے، خاموش بیٹھی تھیں۔
عشاء کھڑی تھی، آنکھیں سرخ…
پاپا بیڈ پر لیٹے تھے، چہرہ سفید، بازو پر پٹی، سر پر پٹی…
سانسیں چل رہی تھیں، لیکن آکسیجن کے سہارے۔
پریشے کے قدم ٹھٹک گئے۔
پاپا…
صفیہ بیگم نے سر اٹھایا،
دعا کرو بیٹا، بس دعا کرو…
پریشے نے ایک پل کو سانس اندر کھینچی، پھر آنکھیں بند کر لیں —
یا اللہ، میرے پاپا کو کچھ نہ ہو۔
ایمرجنسی وارڈ کی روشنی آنکھوں میں چبھتی تھی۔
دیوار پر ٹنگی گھڑی کی سوئیاں، جیسے ہر لمحہ کسی بڑی خبر کی طرف بڑھ رہی تھیں۔
بیڈ نمبر سات پر احمد رؤف لیٹے تھے — بےہوش، کمزور، بےخبر۔
پریشے کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی۔ دل دھڑکنے کے بجائے لرز رہا تھا۔
تبھی ڈاکٹر وارڈ میں داخل ہوا۔
چہرے پر وہی پیشہ ورانہ سنجیدگی، جس سے نہ امید جھلکتی ہے نہ تسلی — صرف حقیقت۔
آپ احمد رؤف کے لواحقین ہیں؟
اس نے پریشے اور عشاء کو باری باری دیکھا۔
جی، میں ان کی بیٹی ہوں۔ پریشے نے بمشکل کہا۔
ڈاکٹر نے ایک پل فائل کو دیکھا، پھر نظریں اٹھا کر بولا
ان کے پاؤں میں بہت گہری چوٹ آئی ہے، خاص طور پر بائیں ٹانگ کے نچلے حصے میں فریکچر اور نَسوں کو نقصان پہنچا ہے۔
پریشے نے یکدم گردن اٹھائی،
کتنا سیریس ہے ڈاکٹر؟
ڈاکٹر کی آواز صاف تھی، لیکن الفاظ بھاری —
اگر فوراً آپریٹ نہ کیا گیا تو ان کے پاؤں میں مستقل فالج ہو سکتا ہے۔ یعنی پیرالائسز۔ وہ کبھی دوبارہ چل نہیں سکیں گے۔
یہ سنتے ہی ایک لمحے کو سب کچھ رک گیا۔
پریشے کو لگا جیسے اردگرد کی آوازیں بند ہو گئیں ہوں۔
صفیہ بیگم نے آہستہ سے قرآن کی تسبیح کو مٹھی میں لے لیا۔
عشاء کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔
اور پریشے…
پریشے نے خود کو سنبھالا، جیسے اچانک کئی سال بڑی ہو گئی ہو۔
کتنے پیسوں کی ضرورت ہے، ڈاکٹر؟
آواز میں وہی لڑکی تھی، جو یونیورسٹی میں فزکس کے ٹیسٹ سے ڈرتی تھی —
مگر آج… زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں کھڑی تھی۔
ڈاکٹر نے جیسے دھماکے سے کم نہیں سنایا
کم از کم بارہ لاکھ… اور جتنی جلدی ممکن ہو۔
پریشے کو لگا جیسے کسی نے زمین کھینچ لی ہو اس کے قدموں کے نیچے سے۔
بارہ… لاکھ…؟
اس کے لب بمشکل ہلے۔
عشاء نے رُندھی ہوئی آواز میں پوچھا،
ڈاکٹر… کوئی گنجائش…؟ کوئی رعایت…؟
ڈاکٹر نے رسمی انداز میں سر ہلایا،
ہم اسپیشلائزڈ نیورو سرجن بلا رہے ہیں، سرجری بہت پیچیدہ ہے۔ اگر تاخیر ہوئی، تو پیر ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو سکتا ہے۔ فیصلہ آپ کا ہے — جلدی کیجیے گا۔
یہ کہہ کر وہ فائل بند کر کے وارڈ سے باہر چلا گیا۔
صفیہ بیگم نے اپنا دوپٹہ مضبوطی سے لپیٹا، جیسے دل کی ٹوٹتی دیوار کو باندھنے کی کوشش ہو۔
اتنی بڑی رقم…
ان کے لب جیسے ہل ہی نہیں رہے تھے۔
پریشے نے ایک گہرا سانس لیا… اندر تک اُترتا ہوا… جیسے حوصلے کو دوبارہ بیدار کر رہا ہو۔
امی… ہماری جتنی بھی سیونگز ہیں… سب لگا دیتے ہیں۔
اس کے لہجے میں بےبسی بھی تھی… اور حوصلہ بھی۔
صفیہ بیگم نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا،
لیکن بیٹا، وہ بمشکل دو لاکھ ہیں…
یہ جملہ کہنے کے بعد وہ چُپ ہو گئیں۔ جیسے انھیں اندازہ تھا، یہ بات پریشے کو پہلے سے معلوم ہوگی۔
پریشے نے ہولے سے سر ہلایا،
ہاں… باقی کے دس کہاں سے آئیں گے، یہی سوال ہے نا؟
ماحول میں خاموشی گونجنے لگی — وارڈ میں مریضوں کی آکسیجن مشینوں کی آواز، اسپتال کی روشنی، دل کی دھڑکن… سب کچھ بہت اونچا لگنے لگا تھا۔
+++++++++++++++
شام کی دھیمی روشنی میں، جب آسمان نے سنہری چادر اوڑھ لی تھی، وہ گھر آیا۔ دروازہ کھولتے ہی اُس کی نگاہ سیدھی لاؤنج میں بیٹھی کائنات پر جا ٹھہری۔
کائنات، پری کے ساتھ لڈو کھیلنے میں مصروف تھی۔
کبھی مسکرا کر پاسا پھینکتی،
کبھی پیادے ہنستے ہوئے آگے بڑھاتی۔
وہ لمحہ پُرسکون تھا، لیکن صرف اُس وقت تک، جب تک اُس کی نگاہ، زیدان پر نہیں پڑی۔
جیسے ہی اُس نے دروازے کی آواز سنی، اُس کی نگاہ اچانک تیزی سے اُٹھ کر باہر کی جانب گئی۔ اگر اُسے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ وہ آ رہا ہے، تو شاید اُس کی نظریں کبھی نہ اُٹھتیں۔
نظر اُٹھی بھی،
تو ٹھہر گئی۔
زیدان کی نگاہوں سے جا ملی۔
زیدان نے کائنات کو دیکھا.
لیکن کائنات نے جلدی سے اپنی نظریں پھیر لیں.
زیدان، ہم لوڈو کھیل رہے ہیں، آؤ، تم بھی کھیلو!
پری نے زیدان کو دیکھتے ہی چہک کر کہا،
لیکن زیدان، ایسے تو آنے والا نہیں تھا۔
لہٰذا پری اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھاگی، اُس کے پاس پہنچی، اُس کا ہاتھ پکڑا —
اور جیسے کسی ضدی بچے کو مناتے ہوئے، اُسے کھینچتی ہوئی قالین کی طرف لے آئی۔
جیسے جیسے وہ پری کا ہاتھ پکڑے قریب آرہا تھا کائنات کی سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں،
زیدان قالین پر آ بیٹھا،
بالکل کائنات کے سامنے۔
نظریں اٹھیں — ہلکی، محتاط، اور پھر فوراً جھک گئیں۔
اُسی لمحے، زارا اپنے کمرے سے باہر نکلی۔
نظر پڑی زیدان اور پری پر، جو اب کھیل کے آغاز کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
زارا کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
یہ لمحہ…
یہ منظر…
اس کے لیے ایک موقع تھا۔
میں بھی کھیلوں گی!
وہ نرمی سے بولی، جیسے اتفاقاً دل کی بات زبان پر آ گئی ہو۔
اور کہہ کر آ کر بیٹھ گئی،
بالکل زیدان کے برابر —
اپنے لیے ہرا باکس چن لیا
ہاں، ٹھیک ہے کھیلیں، اب تو ٹیم پوری ہو گئی!
پری کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
وہ پہلے ہی پرجوش تھی، اب چاروں باکس مکمل تھے، تو جیسے لڈو نہیں، زندگی مکمل ہو گئی ہو۔
کائنات نے لال چُنا تھا،
زارا نے ہرا،
پری اپنی خوشی سے بلیو لے چکی تھی۔
اور زیدان کے سامنے پیلا تھا۔۔۔
کھیل ابھی شروع ہی ہونے والا تھا کہ زیدان کی آواز گونجی:
میں بلیو لوں گا… لڈو گھماؤ۔
کیوں؟ پیلا میں کیا مسئلہ ہے؟
پری نے حیرانی سے پوچھا، جیسے اُس کا بلیو باکس اُس کی سلطنت ہو، اور زیدان اُسے ہتھیانا چاہتا ہو۔
چھوڑو دو، پھر میں نہیں کھیل رہا۔
زیدان کی آواز میں ضد تھی۔
عجیب بچہ بن گیا تھا،
یا شاید… وہ کچھ اور چاہتا تھا۔
کیا وہ واقعی بلیو باکس چاہتا تھا؟
یا وہ یہاں سے جانا چاہتا تھا؟ کیوں کہ پری تو اپنا بکس دینے نہیں والی تھی اور وہ اسی کا فائدہ اٹھا کے یہاں سے جا سکتا تھا؟
پری نے تھوڑی معصومیت، تھوڑی ناراضی سے کہا:
بلیو کے علاوہ جو آپ مانیں وہ آپ کا۔
زیدان کچھ بولے اس سے پہلے زارا بول پڑی
دیکھو، سب نے اپنا فیورٹ رنگ لیا ہے۔ مجھے ہرا پسند ہے، میں نے ہرا لیا۔ کائنات کو لال پسند ہے، اُس نے لال لیا۔ اور پری کو بلیو پسند ہے، تو وہ اُس کا ہے۔ تُمہارا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟
وہ بھی، پری کی طرح، اب اپنا باکس چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔
لگتا تھا سب کے اندر چھپے بچے،
آج لڈو کے ساتھ باہر آگئے تھے۔
زیدان نے غصے سے زارا کو دیکھا، دیکھا زارا کو، ڈر کائنات گئی، وہ جلدی سے بولی
آپ لال لے لیں، یہ ہمیشہ جیتتا ہے۔
پری نے فوراً ہنستے ہوئے کہا
ہنہ! نہیں! لال ہمیشہ للچاتا ہے!
پھر جیتتا کون ہے؟ زارا نے ابرو چڑھا کر پوچھا۔
بلیو! پری نے فاتحانہ ہنسی کے ساتھ کہا، اور ہرا ہمیشہ ہارتا ہے!
جی نہیں، بلیو بھُلاتا ہے۔۔۔ کائنات نے فوراً کہا۔
پھر مجھے کوئی اور رنگ دو، میں نے نہیں لینا ہرا۔ زارا منہ بناتے بولی۔
اور پیلا؟ زیدان نے اچانک سوال کیا۔
زارا نے کچھ بولنے سے پہلے ہی پری بول پڑی، بےساختہ، چہکتی ہوئی
پیلا پلاتا ہے!
زیدان کا ماتھا سکڑا
کیا پلاتا ہے؟
پری ہنسی روکتے ہوئے، گہری سنجیدگی سے بولی:
دام پلاتا ہے یار چاچو!
اوکے مُجھے لال دو پھر۔۔۔ زیدان نے کہا۔
اور مجھے بلیو! زارا پرجوش ہو کر بولی۔
لیکن پری فوراً درمیان میں آئی، اُس کی چھوٹی سی ناک غرور سے تھوڑی اور اوپر ہوئی، اور لہجے میں وہ رعب آ گیا جیسے صِرف وہی بلیو کی اصل وارث ہو:
جی نہیں! میں نہیں دے رہی کسی کو بھی بلیو! اس پر صرف پری کا قبضہ ہے! آپ خاموشی سے ہرا لے لیں، ورنہ نہیں کھیلیں!
ایسا اعلان تو شاید بادشاہ بھی تخت کے لیے نہ کرتے ہوں، جیسے پری نے اپنے رنگ کے لیے کیا تھا۔
اتنا کہہ کر اُس نے لڈو گھمایا — اور کائنات کے پاس پیلا اور زیدان کے پاس لال آگیا۔
چلیں اب گیم شروع کرتے ہیں…
پری نے جیسے ایک نئی دنیا کا اعلان کیا۔
اور ہاں زیدان چاچو…
اُس نے خاص انداز میں آنکھیں سکیڑ کر کہا،
یاد رکھیے گا — لال ہمیشہ للچاتا ہے!
زیدان کے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک مدھم سی لکیر ابھری، لیکن وہ کچھ نہ بولا۔
واللہ وہ مسکراتا بھی تھا ہاں وہ مسکراتا بھی تھا۔۔
پری نے پاسا پھینکا —
اور جیسے کائنات کی بات کو جھٹلا کر، اُس کی گوٹی فوراً کھل گئی!
واؤوو! دیکھیں میری گوٹی کھل گئی!
اُس کی آواز میں وہ خوشی تھی جو صرف پہلی کامیابی پر ملتی ہے اور سب کے چہروں پر لاشعوری مسکراہٹ پھیل گئی۔
گیم اب پوری طرح گرم ہو چکا تھا۔
سب کی گوٹیاں بورڈ پر پھیل چکی تھیں، کسی کی گوٹی آگے، کسی کی پیچھے، لیکن سب کی نظریں اب ایک دوسرے کی گوٹی پر تھیں۔
زارا دو بار پری کی گوٹی مار چکی تھی — اور ہر بار ایسی ہنسی کہ پری کی ناک چڑھ گئی۔
زیدان نے تینوں کی ایک ایک گوٹی مار رکھی تھی — کسی کو موقع نہ دیا، سب پر وار کیا۔
پری نے بھی بدلہ چکایا — زیدان کی اور کائنات کی گوٹیاں ایک ایک بار مار دی تھیں۔
اب اُس کی نظریں زارا پر تھیں — جیسے وہ کوئی بدلہ چکانے کی مکمل تیاری میں تھی۔
اور کائنات؟ وہ پیچھے تھی، اُس کی گوٹی بورڈ پر تو تھی — لیکن جیسے قسمت اُس کی دوست نہ ہو۔ ابھی تک اُس نے کسی کی گوٹی نہیں ماری تھی، موقع ملا تھا، کئی بار ملا تھا، مگر پاسا ساتھ نہ دے سکا۔
یار کائنات! مار دو کسی کو! پری نے کائنات سے کہا، تمہاری گوٹی اندر کیسے جائے گی؟ دیکھو، میری ایک تو چلی بھی گئی!
کائنات بیچاری کی قسمت تو شروع سے خراب ہے! زارا ہنس کر بولی، شروع میں کھول نہیں رہی تھی، اب کھل گئی ہے تو مر نہیں پارہی!
آپ تو میرے سامنے آئیے، میڈم۔ پھر میں آپ کو دکھاتی ہوں! پری نے انگلی لہرا کر شرارت سے کہا۔
پھر زیدان نے چھکا پھینکا، اور کائنات کی گوٹی مار دی۔
نہ مارے! نہ اُس کو! پری نے احتجاج کیا، بچاری کی ویسے ہی نہیں کھل رہی تھی.
میں تو ماروں گا! زیدان نے سرد لہجے میں کہا۔
میں بھی! زارا نے کہا — شاید زیدان کی تائید میں یا شرارت میں۔
لیکن زیدان کا چہرہ جیسے سخت پتھر بن گیا۔
زیدان نے اُسے ایک نظر دیکھا — نظریں نہیں، جیسے خنجر تھا۔ زارا کی ہنسی وہیں سوکھ گئی۔
کیا ہوا؟ وہ گھبرا گئی، لہجہ آہستہ ہوا۔
ابھی بتاتا ہوں تمہیں. زیدان نے دانت بھینچ کر کہا، روک، تُمہاری پکی گوٹ ماروں گا تُم دیکھنا
اب تو گئی باجی آپ! پری نے زیدان کے ساتھ مل کر زارا کو چھیڑا۔ چاچو کی تو ویسے بھی آج قسمت زوروں پہ ہے۔
زارا کچھ نہ بولی، صرف گندا سا منہ بنایا جیسے کہہ رہی ہو دیکھ لونگی۔
اور جس لمحے کا کائنات کو انجانے میں انتظار تھا، وہ آخرکار آ ہی گیا تھا۔
چھ اور چار۔
ایک ایسی چال، جس سے سامنے والی گوٹی مر رہی تھی۔
اور وہ گوٹی کسی اور کی نہیں، زیدان کی تھی۔
کائنات نے ڈائس پر نظریں جمائے رکھی تھیں، لیکن اندر اندر اُس کا دل جیسے مٹھی میں بند دھڑک رہا تھا۔
زیدان کی گوٹی عین اُس کے قدموں میں پڑی تھی — صرف ایک چال، اور وہ اُسے مار سکتی تھی۔
لیکن، زیدان تھا۔
وہی زیدان جس سے وہ اللّٰہ کے بعد سب سے زیادہ ڈرتی تھی، وہی زیدان جس کی ایک نظر پڑنے پر وہ اندر سے کاپ جاتی تھی۔
اور اب، وہی زیدان اُس کی لڈو کی چال پر تھا۔
کائنات کو لگا، وہ گوٹی نہیں مرے گی — وہ خود مر جائے گی۔
اس نے بے ساختہ نظر اٹھا کر زیدان کو دیکھا۔ اور وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک دم سے سہم گئی اور زیدان کی گوٹی مارنے کی جگہ اپنی باندھ گوٹی کھولنے لگی۔
ارے زیدان کی گوٹی مر رہی ہے!
پری اور زارا بیک وقت چیخیں — وہ دونوں سمجھی کائنات نے دیکھا نہیں، پر وہ تو کب کا دیکھ کر بھی ان دیکھا کر چکی تھی۔
اسے بھی نظر آ رہا ہے تم دونوں چیخ کیوں رہی ہو؟
زیدان کی آواز میں عجیب سا ٹھہراؤ تھا، جیسے اسے کچھ پتا ہو، اور وہ پتا نہ چلنے دینا چاہتا ہو۔
نہیں نہ، اُسے نظر نہیں آیا۔ پری جلدی سے بولی،
کائنات! ماروں زیدان کی گوٹی، جلدی جلدی اندر بھاگ رہے ہیں۔
ہاں اور اس کے آگے میری گوٹ ہے، اسے نہیں مرا تو یہ مُجھے مار دے گا، ماروں اسے۔ زارا نے بےچینی سے اپنی گوٹ کا سوچتے کہا۔
کائنات نے آہستہ سے سر ہلایا۔
پر۔۔ مجھے اپنی گوٹی کھولنی ہے۔
بعد میں کھول لینا، پہلے مارو۔ پری نے بےتاب ہو کر کہا۔
اب کائنات پوری طرح پھنس چکی تھی۔
سامنے زیدان کی گوٹی تھی، مارنا بھی چاہتی تھی پر ڈر بھی لگ رہا تھا۔
اتنے میں اسوان بھی گھر کے اندر داخل ہوا۔
گرمیوں کی شام تھی، ہلکی سی ہوا دروازے کے ساتھ اندر آئی اور اس کی نظر سیدھی لاؤنچ کی طرف گئی، جہاں قالین پر بیٹھے چار وجود لڈو کی دنیا میں گم تھے۔
پہلی نظر سب پر گئی،
پھر رُک گئی — زیدان پر۔
اسے لاؤنچ کے بیچوں بیچ قالین پر ان کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر ایک لمحے کو اسوان چونکا، پھر بے اختیار مسکرا دیا۔
کیا ہو رہا ہے؟
اُس کی آواز میں نرمی آئی اور چاروں نے ایک ساتھ سر اٹھایا، جیسے ساری کائنات کے ستارے یکجا ہو گئے ہوں۔
پری تو خوشی سے پھول گئی۔
بابااا!
وہ اچھلتی ہوئی آئی، جیسے برسوں بعد ملی ہو۔
اسوان نے جھک کر اُسے گود میں اٹھا لیا، اُس کے گال پر ایک محبت بھرا بوسہ دیا۔
پری نے اُس کے گلے میں بانہیں ڈال کر کچھ لمحے یوں گزارے جیسے اُس کی دنیا مکمل ہو گئی ہو۔
اور ادھر، جب سب کی نظریں اسوان پر تھیں، زیدان نے موقع غنیمت جانا۔
چپکے سے اپنی ایک گوٹی اندر کر دی، اور بڑی مہارت سے پری اور زارا کی اندر گئی گوٹیاں باہر رکھ دیں —
چہرہ بے نیازی کا، پر دل میں فاتحانہ سا سکون۔
کائنات؟ اُس کے پاس تو ویسے بھی ہار کے سوا کچھ نہ تھا۔
نہ چال، نہ قسمت۔
ہم گیم کھیل رہے ہیں بابا، دیکھيں۔
پری نیچے اُتری اور اسوان کو لے کر واپس کھیل کے دائرے میں آگئی۔
ہاں آجاؤ اسوان! زارا نے خوشدلی سے کہا۔
لیکن ہاؤس تو فل ہے۔ اسوان نے ایک نظر سب کے باکسز پر ڈالی۔
آپ میری جگہ کھیل لیں۔ کائنات نے اسوان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
بابا یہ ویسے بھی ہار رہی ہیں۔ پری نے ہنستے ہوئے کہا۔
تو جیت کون رہا ہے؟ اسوان نے شرارت سے پوچھا۔
میں، اور کون! پری نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
چلو پھر میں کائنات کو جتاتا ہوں۔ اسوان نے ذرا سا مسکرا کر کہا۔
پری کا چہرہ ایسے کھِل اٹھا جیسے کسی نے اُسے فوراً فرسٹ پوزیشن کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہو۔
ہاں بابا، آپ کو پتہ ہے؟ اس نے تو ابھی تک کسی کی گوٹی بھی نہیں ماری، اس کی پٹ بھی نہیں ہوئی۔ پری نے بالکل سنجیدہ انداز میں بتایا، جیسے کوئی عدالت میں گواہی دے رہی ہو۔
اور اوپر سے اِسے نظر بھی نہیں آتا! زارا نے فوراً تائید کی، سامنے پڑی گوٹی بھی ان دیکھی کر دیتی ہے۔
زیدان، جو خاموش بیٹھا سب سن رہا تھا، بےاختیار بولا:
جاؤ بھائی، فرش ہو کر آؤ، پھر آنا۔
ہاں، ہاں۔ اسوان نے ہنستے ہوئے کہا،
تُم لوگ کھیلتے رہو، میں ابھی آتا ہوں۔
تب تک ہم لڈو ختم کر لیتے ہیں، پھر ٹیم اپ کھیلیں گے، ٹھیک ہے بابا؟ پری نے پرجوش ہو کر کہا، اور اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئی۔
مگر جیسے ہی زارا کی نظر لڈو بورڈ پر گئی، وہ ایک دم بولی:
یہ کیااا؟ میری تینوں گوٹیاں باہر ہیں؟ ابھی تو ایک اندر گئی تھی۔
نہیں جی، یہیں تھیں! پری نے فوراً تردید کی،
اب گیم جیتنے کے چکر میں چیٹنگ مت کرو۔
چلو کائنات، مارو چاچو کو۔ پری پھر سے فارم میں آگئی۔
نہیں مار سکتی۔ زیدان نے فوراً بیچ میں کہا،
دیکھو، اُس نے گوٹی ابھی کھولی ہے، تم لوگوں کو تو رولز کا کچھ پتہ ہی نہیں، پہلے بولنا چاہیے تھا۔
اوہو کائنات، میں نے بولا بھی تھا، وہ مر رہی ہے، پر تم ہو کہ سنتی ہی نہیں، تم جیت نہیں سکتی، پکّا ہارو گی۔ پری نے کائنات سے کہا۔
پاگل ہے یہ۔ زارا نے جھنجھلاتے ہوئے ڈائس پکڑا،
لاؤ، میری باری ہے۔
اور اسوان نے آتے آتے… زیدان جیت چکا تھا۔
اب میں جارہا ہوں۔ وہ کہتا اُٹھ کھڑا ہوا۔
نہیں نہ! پری بےساختہ اُس کی طرف لپکی،
بچوں والی بےقراری، بچوں والا مان تھا اُس کی آواز میں۔
ابھی بابا آئیں گے، اُن کے ساتھ ہم ٹیم اپ کھیلیں گے نا؟
زیدان نے اُس کی معصوم انگلیاں اپنے ہاتھ میں محسوس کیں، پھر آہستہ سے ہاتھ چھڑا کر کہا:
ہاں تو میرا والا اُن کو دے دینا، مجھے نیند آ رہی ہے۔
پری کچھ بولنے کو تھی کہ کائنات نے نرمی سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا:
چھوڑ دو، جانے دو پری، وہ ابھی تھک کے آئے تھے پھر تمہارے ساتھ کھیلے بھی، اب جانے دو۔
پری نے پلٹ کر کائنات کو دیکھا۔ چند لمحے خاموشی رہی… پھر اُس کے چہرے پر خفگی اور مان کا امتزاج بکھر گیا۔
اچھا ٹھیک ہے، ابھی جائے۔ جب یہ گیم ختم ہوگا اور بابا آئیں گے نا، تب میں آپ کو بُلا لوں گی۔
وہ کہہ کر دوبارہ بیٹھ گئی —
زیدان نے کچھ نہ کہا۔
نہ شکریہ، نہ مسکراہٹ، نہ ہی کوئی شکر گزاری۔
بس خاموشی سے پلٹا،
اور کمرے کی طرف بڑھ گیا —
نہ لڈو کے میدان میں ہار کا بوجھ،
نہ جیت کی خوشی۔۔۔
بس ایک عجیب سا خالی پن لے کر۔
++++++++++++++
شام کی سرمئی چادر ابھی پوری طرح پھیلی بھی نہ تھی کہ پریشے ہسپتال سے گھر لوٹی۔ قدم جیسے زمین پر نہیں، کسی بوجھ تلے دَبے ہوئے تھے۔
محلے میں داخل ہوتے ہی رشیدہ خالہ، جیسے پہلے سے منتظر بیٹھی تھیں، اُسے دیکھتے ہی فوراً اُٹھ کر اُس کا بازو تھام لیا۔
پریشے! کیا ہوا احمد کو؟ سب خیریت ہے ناں؟
پریشے نے سر جھکا کر صرف اتنا کہا
جی دادی۔۔۔
لیکن چہرے پر وہ سچ لکھا تھا جو زبان چھپا نہ پائی۔
رشیدہ خالہ کی آنکھیں جیسے دل کا آئینہ ہوں، فوراً بولیں بتا ناں، ہم کو کیا ہوا ہے؟
اُسی لمحے فرقان صاحب کی نظر رشیدہ خالہ کے ساتھ کھڑی پریشے پر پڑی، اور وہ اُس کے پاس چلے آئے۔ احمد رؤف کی خرابیِ صحت کی خبر اُن تک بھی پہنچ چکی تھی۔
بیٹا؟ احمد کی طبیعت کیسی ہے؟ کس ہسپتال میں ہے وہ؟ مجھے بتاؤ، میری کوئی مدد چاہیے تو بلا جھجک کہنا۔
پریشے کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ کچھ لمحے وہ خاموش کھڑی رہی، جیسے ہمت اکٹھی کر رہی ہو۔ پھر دھیرے سے بولی:
سب ٹھیک ہے انکل، شکریہ۔
تو ہم سے کچھ چھپا رہی ہے! رشیدہ خالہ نے ہلکے غصے سے کہا۔
تو ہی جا، ہسپتال جا کر پتا کر، کونسے ہسپتال میں ہے وہ۔
پریشے نے دادی۔۔۔ کہہ کر کچھ بولنا چاہا، مگر فرقان صاحب نے بڑی نرمی سے اُس کا کندھا تھپتھپایا۔
دیکھو بیٹا، جو بھی مسئلہ ہے، تُم ہمیں بتا سکتی ہو۔ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔
یہ الفاظ جیسے اُس کے اندر کی دیواریں توڑ گئے۔ وہ رو دی — جیسے برسوں سے تھامی ہوئی ندیا بہنے لگی ہو۔ پھر ٹوٹے الفاظ میں، ہچکیوں میں لپٹی آواز میں سب بتا دیا۔ پیسوں کا مسئلہ، ڈاکٹر کا مطالبہ، ماں کے زیور، سب کچھ۔
امی نے کہا ہے ہمارے پاس صرف دو لاکھ ہیں۔۔۔ میں اُن کے زیور دیکھنے آئی تھی، لیکن وہ بھی زیادہ نہیں۔۔۔ سب مِلا کر پانچ لاکھ بنتے ہیں۔۔۔ اور ڈاکٹر نے بارہ لاکھ مانگا ہے، میں کہاں سے لاؤں اتنے پیسے۔۔
وہ جیسے ایک بے آواز چیخ تھی، جو ہر سُننے والے کے دل پر نقش کر گئی۔
فرقان صاحب نے فوراً کہا:
پریشان نہ ہو بیٹا، ہم انتظام کر لیں گے۔ ہم سب مل کر کچھ نہ کچھ کریں گے۔۔
ہاں، روک! میرے پاس بھی ایک لاکھ رکھے ہیں۔۔۔ میں دیتی ہوں! رشیدہ خالہ نے کہا۔
پریشے نے فوراً انکار میں سر ہلایا:
میں آپ سب سے پیسے کیسے لے سکتی ہوں؟
تو کیا احمد کو ایسے ہی چھوڑ دینا ہے؟ فرقان صاحب کی آواز میں اب وہ شفقت تھی جو باپ کی دعا میں ہوتی ہے۔
جب وسیم کو مدد کی ضرورت پڑی تھی تو ہم سب نے اُس کا ساتھ دیا تھا، اب احمد کی باری ہے۔ ہم کیوں پیچھے ہٹیں؟
پریشے نے کچھ کہنا چاہا، مگر الفاظ اُسے چھوڑ گئے۔ دل، آنکھوں کے راستے بول رہا تھا۔
ابھی لے لو، بیٹا۔ کل جب احمد تندرست ہو جائے گا، وہ خود سب کو واپس کر دے گا، اور اگر نہ کیا، تو کیا ہوا؟ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہو جائے، باقی سب بعد کی بات ہے۔
فضا میں جیسے اُمید کا ایک چراغ جل اٹھا تھا۔ کسی کے دینے سے نہیں، کسی کے ساتھ کھڑے ہونے سے۔
اپنائیت؟ انسانیت؟
یہ الفاظ صرف لغت میں خوبصورت نہیں ہوتے، ان کی اصل شکل اُن دلوں میں نظر آتی ہے جو غربت کی تنگ گلیوں میں بستے ہیں، مگر دل کے دروازے شاہی محل سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔
تمہیں کیا خبر، یہاں اپنوں جیسا سلوک اُن سے بھی کیا جاتا ہے جن کا خون کا نہیں، صرف دکھ کا رشتہ ہوتا ہے۔
ان چھوٹے گھروں کے لوگوں کے بڑے دل ہوتے ہیں۔
جہاں تنخواہ آٹھ تاریخ کو ختم ہو جاتی ہے، مگر کوئی بھوکا واپس نہیں جاتا۔
یہاں اپنائیت کھانے کی پلیٹ میں نہیں، نیت کی چمچ سے پیش کی جاتی ہے۔
یہاں انسانیت روپیہ دیکھ کر نہیں، آنکھوں کے آنسو دیکھ کر جاگتی ہے۔
تو اگر جاننا ہے کہ محبت بے غرض کیسی ہوتی ہے، دل کا دین کیا ہوتا ہے، اور رشتہ وہ کون سا ہوتا ہے جو صرف انسان ہونے کی بنیاد پر جُڑتا ہے —
تو آؤ، کبھی اس غریب محلے کی گلیوں سے گزر کے دیکھو،
جہاں اپنائیت رزق کی طرح نہیں، رَحم کی طرح بٹتی ہے۔
+++++++++++++++
آگلی صبح وہ روم نمبر سات کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قدموں میں کچھ بےچینی تھی، جیسے اچانک، دروازے سے پہلے، نرس ریما اُس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
کیا ہوا ریما؟ اُس نے نرمی سے پوچھا۔
ریما کی آنکھوں میں گھبراہٹ سی تھی،
ڈاکٹر… آپ اندر نہیں جا سکتے۔
وہ دروازے کے سامنے دیوار بن گئی۔
کیوں؟ اُس نے حیرت سے دیکھا۔
کیونکہ یہ ڈاکٹر جمال کے پیشنٹ ہیں۔
تو؟ ڈاکٹر جمال آج چھٹی پر ہیں نا؟ اور میں کونسا اُن کے مریض بھگا رہا ہوں؟ بس چیک کرنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں۔ اگر آج ڈاکٹر جمال نہیں آئیں گے تو پیشنٹ کو چیک کون کرے گا؟
ریما نے نظریں چرا لیں۔
وہ مجھے بتا کر گئے ہیں… میں دیکھ لوں گی سب۔
تم مجھے اندر جانے کیوں نہیں دے رہیں؟
ریما نے بمشکل ہونٹوں کو حرکت دی، جیسے الفاظ زبان پر آنے سے ڈر رہے ہوں۔
ڈاکٹر… مجھے ڈاکٹر جمال نے منع کیا ہے۔
عین اُسی لمحے، پریشے ہسپتال کے داخلی دروازے سے داخل ہوئی اور تیزی سے روم نمبر سات کی طرف آئی۔ وہ ابھی تھوڑی دور پر ہی تھی کہ اُس نے ان دونوں کو دروازے کے پاس کھڑا پایا، تو تیز قدموں سے ان کی جانب بڑھی۔ چہرے پر صاف تشویش تھی۔
Any problem?
اُس نے قریب پہنچ کر نرمی مگر سنجیدگی سے پوچھا۔
ڈاکٹر، جو ریما سے الجھ رہا تھا، اُس کی آواز پر پلٹا اور نگاہوں سے اسے سر سے پاؤں تک جانچتے ہوئے پوچھا،
آپ کی تعریف؟
وہ مکمل نقاب میں ملبوس تھی۔ اُس کے چہرے کا ہر زاویہ کپڑے کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا—سوائے اُس کی گہری سیاہ آنکھوں کے۔ وہ پردہ دار نہیں تھی، کم از کم مذہبی شدت سے نہیں۔ لیکن ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے کے ناطے، اُس کی تربیت میں حیا، حدود، اور نظریں نیچی رکھنے کا سبق رچا بسا تھا۔ اس لیے آتے جاتے عبایا پہننا اُس کی عادت تھی، نہ فیشن، نہ جبر—بس ایک فطری سا پردہ، جو اُس کی شخصیت سے جُڑ گیا تھا۔
پریشے نے بغیر جھجک جواب دیا،
پریشے رؤف، پیشنٹ کی بڑی بیٹی۔
ڈاکٹر کے چہرے پر کچھ لمحے کو نرمی در آئی۔
اوہ… پیشنٹ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا نا؟
پریشے نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا، پھر پلٹ کر وہی سوال دہرایا،
اور آپ کی تعریف؟
میں ڈاکٹر عبدل ہادی ہوں… تو اب جب آپ جان گئیں کہ میں کون ہوں، تو کیا میں پیشنٹ کو ایک بار چیک کر سکتا ہوں؟ اُس نے نرمی سے کہا۔
ابھی پریشے کچھ کہنے کے لیے لب کھول ہی رہی تھی کہ ریما ایک دم بول پڑی، جیسے کسی خطرے کا الارم بج اٹھا ہو۔
ڈاکٹر! آپ کو پیشنٹ کو چیک کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
اس کے لہجے میں عجب سی جلدی، ایک بے موقع مداخلت تھی۔
ڈاکٹر عبدل ہادی کی آنکھیں تنگ ہو گئیں، جیسے اُس نے کچھ غیر معمولی محسوس کر لیا ہو۔ وہ ریما کی جانب متوجہ ہوا۔
نرس ریما، میرا کام ہے پیشنٹس کی حالت دیکھنا، خاص طور پر جب سینئر ڈاکٹر آج موجود نہیں۔ اور… آپ کو مجھ سے یہ سوال کرنے کی اجازت کس نے دی؟
پریشے نے محسوس کیا کہ کچھ تو ہے… جو چھپایا جا رہا ہے۔
ایک دم ایک نوجوان لڑکا ہنگامی قدموں سے عبدل ہادی کی طرف آیا۔ سانس پھولا ہوا، چہرہ پریشانی سے بھرا ہوا تھا۔
یار بات سن؟
ہادی نے چونک کر دیکھا،
ارمان بھائی؟ آپ؟
ارمان نے تیزی سے اُس کا بازو تھاما،
یار اِس کو چھوڑ، پہلے میرے پیشنٹ کو دیکھ، اُن کی حالت کافی سیریس ہے!
کون؟ کہاں؟ ہادی فوراً متوجہ ہو گیا۔
آ جا، تیرے سوا اور کوئی نہیں جو ابھی چیک کر سکے!
دونوں بنا مزید کچھ کہے تیزی سے اُس راہ داری کی طرف بڑھ گئے جہاں زندگی اور موت کے بیچ وقت کی ریس جاری تھی۔
پریشے پیچھے رہ گئی۔ وہ کچھ لمحے خاموش کھڑی رہی، پھر آہستگی سے ریما کی طرف پلٹی۔ اُس کی نگاہوں میں سوال تھے۔
آپ ڈاکٹر کو مریض کو چیک کرنے سے کیوں روک رہی تھیں؟ اُس کی آواز میں اب سرد مہری اور سنجیدگی تھی۔
ریما نے ایک لمحے کو نظریں چرائیں، پھر جلدی سے بولی،
دیکھیں میس، پہلا تو یہ کہ مجھے ڈاکٹر جمال نے منع کیا ہے کہ کوئی بھی جونیئر ڈاکٹر اندر نہ جائے۔ اور دوسرا، یہ… یہ ڈاکٹر عبدل ہادی، ابھی تو اُنہوں نے اپنی ہاؤس جاب ہی کمپلیٹ کی ہے۔
پریشے کی آنکھوں میں الجھن مزید گہری ہو گئی۔
تو آپ کو ایک ایکسپریئنسڈ ڈاکٹر سے زیادہ اپنی پرانی ہدایات پر یقین ہے؟
ریما کے لب سلے رہے۔ کوئی جواب نہ تھا، یا شاید وہ دینے سے ڈر رہی تھی۔
جائیں آپ، چیک کروا لیں ڈاکٹر ہادی سے۔ پھر اگر کچھ بھی ہوا، تو میں ذمہ دار نہیں ہوں! نرس ریما نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔
پریشے نے مایوسی سے سر جھکا لیا۔۔۔ پھر بولی۔۔۔
آپ اپنے ڈاکٹر جمال کو بلا سکتی ہیں؟ میں پیسے لے آئی ہوں۔ مجھے جلد سے جلد آپریٹ کروانا ہے، تاکہ میرے بابا جلدی سے ٹھیک ہو جائیں۔
ریما کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو کچھ چمکا۔ شاید حیرت، شاید مفاد۔
جی، ضرور۔ میں کال کرواتی ہوں۔ اگر وہ آ سکے تو آ جائیں گے…
اُس نے کہا، اور آہستہ سے پلٹی، یہاں سے نکل گئی۔
اور پریشے چُپ چاپ اندر چلی گئی۔
++++++++++
صبح کی مدھم دھوپ آفس کی کھڑکیوں سے اندر آ رہی تھی۔
اسوان اپنی کرسی پر نیم دراز، سوچوں میں گم بیٹھا تھا۔ وہ دن کچھ بوجھل سا تھا۔
تبھی اُس کے فون کی سکرین پر ایک انجانا نمبر جگمگایا۔ اُس نے ہلکی ناگواری سے فون اٹھایا،
ہیلو؟
دوسری طرف کسی نے جلدی سے کہا،
اُس نے پیسوں کا انتظام کر لیا ہے… کہیں سے۔
اسوان کا ماتھا سکڑ گیا۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
کیا؟ کیسے؟ اُس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ گئے؟
پتا نہیں… اچانک ہی لے آئی ہے۔ کہہ رہی ہے آپریشن کروانا ہے فوراً۔
کمرے کی فضا جیسے ایک لمحے کو جمی… اسوان کی نظریں میز پر رکھی فائلوں سے پھسل کر کھڑکی کی طرف جا ٹھہریں۔ سورج کی روشنی اب چبھنے لگی تھی۔
اب بتاؤ، آگے کیا کرنا ہے؟ فون کے دوسرے سرے سے سوال اُبھرا۔
اسوان نے ہلکی، مگر سخت آواز میں کہا،
میں آ رہا ہوں، وہیں رکو۔
فون بند ہو چکا تھا۔
وہ اٹھا، کوٹ کندھے پر ڈالا اور آہستہ سے دروازہ کھولا۔ اُس کے قدموں کی چاپ اُس کے ارادوں کی گواہی دے رہی تھی —
لڑکے شاید ٹوٹ جانا سیکھ جائیں، مگر انکار سنا نہیں۔
چاہے انکار محبت کا ہو، رشتے کا، یا کسی حکم کا — سب سے پہلے اُن کی انا پر ضرب لگتی ہے، دل تو بعد میں لہو لہان ہوتا ہے۔
اور پھر، وہ وہ سب کچھ کر گزرنے پر تُل جاتے ہیں جو کبھی خود اُنہوں نے سوچا بھی نہ ہو۔
چاہے لڑکی سے سچ میں محبت ہو یا محض ضد ہو، انکار کی چبھن اُنہیں اس موڑ پر لے آتی ہے جہاں حدیں مٹ جاتی ہیں، اور انا کی آگ میں نہ صرف تعلق، بلکہ عزت، احساس، یہاں تک کہ زندگی تک جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔
کیونکہ لڑکوں کو انکار سے زیادہ، اپنے اختیار کے ٹوٹنے کا دکھ ہوتا ہے، اور یہی دکھ، اُنہیں خود سے بیگانہ کر دیتا ہے۔
++++++++++++
ڈاکٹر ہادی مریض کو چیک کر کے نکلا ہی تھا کہ اس کی نظریں ارمان کو تلاش کرنے لگیں،
یہ کہاں چلے گئے؟
اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں، مگر ارمان کہیں دکھائی نہ دیا۔ وہ کچھ پریشان سا ہو کر کاؤنٹر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ داخلی دروازے سے ڈاکٹر جمال آتے دکھائی دیے۔
ڈاکٹر ہادی ٹھٹکا۔
ویسے تو یہ چھٹی پر کبھی اسپتال نہیں آتے، آج کیسے؟
اُس کے دل میں جیسے کسی انہونی کا خدشہ ہلچل مچانے لگا۔
یہ کمرہ نمبر نو کا مریض کون ہے؟ نام بتاؤ۔ ہادی نے کاؤنٹر پر کھڑی ریسپشنسٹ سے پوچھا۔
ریسپشنسٹ نے فائلوں میں نظر دوڑائی،
وہ خالد شیخ صاحب۔
اور کمرہ نمبر سات میں کون داخل ہے؟
احمد رؤف صاحب۔
ڈاکٹر ہادی نے ہلکی سی “ہمم” کہہ کر لب بند کیے، جیسے کوئی گہری گتھی سلجھا رہا ہو۔ وہ ابھی اپنے کمرے کی طرف پلٹا ہی تھا کہ داخلی دروازہ ایک بار پھر کھلا…
اور اس بار، اندر آتا ہوا چہرہ دیکھ کر ہادی کے قدم وہیں جم گئے —
اسوان بھائی !
یہ یہاں کیسے؟
ہادی کی نظریں اسوان کا تعاقب کرنے لگیں، جو بغیر کسی توقف کے سیدھا کمرہ نمبر سات کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہادی کی سانس جیسے کچھ لمحوں کے لیے رک گئی ہو۔
کیا؟؟ اسوان کا احمد رؤف سے کیا تعلق ہے؟
دل میں ہلچل، نگاہوں میں سوالات…
+++++++++++++-
وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا وہ تنہا کرسی پر بیٹھی تھی، اور احمد صاحب بستر پر نیم دراز تھے، آنکھیں بند، شاید تھکن یا شاید تکلیف سے۔
اسوان کی آواز جیسے اس خاموشی پر چوٹ بنی۔
پریشے… یہ… یہ کیا ہوا؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟
پریشے نے سر اٹھایا، وہ بس اسے دیکھتی رہی،
کیا بتاتی میں؟
اسوان نے بےچینی سے قدم آگے بڑھائے۔ اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔
تمہارے والدین مطلب… میرے والدین… تم تکلیف میں مطلب میں تکلیف میں، تم پریشان تو مطلب میں پریشان… تم اکیلی تو میں اکیلا۔
وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا، پھر دھیرے سے بولا
پریشے… کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم یہ سب اکیلے سہہ سکتی ہو؟ میں یہ برداشت کر لوں کہ تم درد سہو اور مجھے خبر تک نہ ہو؟ نہیں… یہ ممکن نہیں۔
پریشے نے ہلکی سی کپکپاتی آواز میں کہا،
میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی…
تم اب بھی مجھے غیروں کی طرح سمجھتی ہو، نا؟
جبکہ میں نے تم سے کہا تھا… اگر تمہیں ایک چھوٹی سی خراش بھی لگے گی تو اُس کا درد مُجھے ہوگا۔۔۔۔
پریشے… تم یہ کیوں نہیں مان لیتیں کہ تمہارا دکھ میرا بھی ہے؟
پریشے نے ہچکچاتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔ دل جیسے اپنی ہی ضد کے بوجھ تلے دب گیا ہو۔
میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا درد آپ کے دل کو چھوئے۔ میں نے سوچا، اگر میں سب سہ لوں تو آپ بےفکر رہیں گے۔
اسوان نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا۔
یہی تو غلطی ہے تمہاری، پریشے۔
محبت بےفکری نہیں ہوتی، محبت تو فکر کا دوسرا نام ہے۔ تمہاری خاموشی مجھے بےفکر نہیں کرتی، بلکہ اندر سے توڑ دیتی ہے۔
پریشے کے لب کپکپائے۔ وہ کچھ بول نہ سکی، بس آنکھوں کی نمی نے سب کہہ دیا۔
اسوان دھیرے سے قریب آیا، اُس کی آواز اب مدھم مگر عزم سے بھری ہوئی تھی:
اب وعدہ کرو… تم اپنے درد مجھ سے چھپاؤ گی نہیں۔ کیونکہ تمہاری سانسیں اگر بوجھ اٹھائیں گی تو میری سانسیں بھلا آزاد کیسے رہ سکیں گی؟
آپ کو کس نے بتایا… کہ پاپا اسپتال میں ہیں؟
اسوان نے بےچینی سے سانس کھینچا،
تم یونی نہیں گئیں تو میں پریشان ہو گیا۔ پھر تمہارے محلے گیا، وہاں سے پتا چلا… اور فوراً بھاگتا ہوا یہاں آ گیا۔ کیا ہوا ہے پاپا کو؟ ڈاکٹر نے کیا کہا؟ اور امّی کہاں ہیں؟
(چاہے پریشے اسے اپنا نہ پائے، مگر اسوان دل سے اُسے اور اس کے گھر والوں کو اپنا چکا تھا۔)
امّی نماز پڑھنے گئی ہیں… اور ڈاکٹر نے ابھی دس منٹ بعد آپریشن کا کہا ہے۔ میرے پاپا ٹھیک ہو جائیں گے نا؟
اسوان نے پوری شدت سے سر ہلایا، جیسے اپنے یقین سے اسے بھی سہارا دینا چاہتا ہو
بالکل ٹھیک ہو جائیں گے… ان شاءاللہ۔ میں ابھی جاتا ہوں، ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں۔
وہ پلٹنے ہی لگا تھا کہ اچانک پریشے کے ہاتھ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
لمحہ بھر کو اسوان ٹھٹک گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور دل میں انجانی سی نرمی اُتر آئی۔
میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی ہے، آپ بس میرے ساتھ رہیں۔
اسوان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
اس لمحے اسے لگا جیسے دنیا کے سارے خوف سمٹ کر مٹ گئے ہوں۔
میں کہیں نہیں جا رہا، پریشے۔
اب تمہارے ساتھ ہوں، اور ہمیشہ رہوں گا۔
+++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
