Aakhri sehr

Aakhari sehr Episode 4 written by Amara Aziz


آخری سِحر

قلم از: عمارہ عزیز
قسط نمبر  4

آریب، ایلمارا کے پاس آ کر مسکرا کر بولا،”اچھا، آپ کو جیسے ہیرو لگتا ہوں، ویسے ہی کھڑا ہو جاؤں گا۔”

ایلمارا نے بھنویں اُٹھا کر کہا، “جی جی، کیوں نہیں… ابھی اندر آ جاؤ۔”

آریب ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور چاروں طرف دیکھتے ہوئے بولا،”واہ! ہم سے تو بہت اچھا کمرہ ہے تم لوگوں کا۔”

افسان نے کہا، “ہاں نا… دیکھ لو، سارے ظلم لڑکوں پر ہی ہوتے ہیں!”

زرکا نے سنجیدگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا، “یہ تو سچ ہے۔”

ایلمارا نے بات بدلی، “وہ سب چھوڑو… تم دونوں یہاں اس وقت کیوں آئے ہو؟”

آریب نے شرارت سے کہا، “کمرہ دیکھنے آئے ہیں۔”

ایلمارا نے فوراً جواب دیا، “یہ کوئی سیلیبرٹی کا کمرہ نہیں ہے جو تم لوگ دیکھنے آ رہے ہو!”

افسان نے قہقہہ لگا کر کہا، “بات تو صحیح ہے۔”

ایلمارا نے چھیڑتے ہوئے کہا، “اور بغیر اجازت کے اندر آ گئے۔”

آریب نے فوراً کہا، “میں اجازت لے کر آیا تھا!”

ایلمارا نے اریب کو دیکھتے ہوں کہا، “آپ کو نہیں بولا تھا۔”

آریب نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

زرکا نے تجسس سے پوچھا، “التمش کہاں ہے؟”

افسان نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “وہ سو رہا ہے… گدھے گھوڑے بیچ کر۔”

آریب نے شرارت سے کہا، “اوئے آہستہ بولو… ہم اُسے التمش بول رہے ہیں، کہیں اٹھ کر نہ آ جائے اور کہے (دروازے کی طرف دیکھ کر ڈرامائی انداز میں)”میرا نام اہان ہے، التمش نہیں!”

یہ سنتے ہی سب زور زور سے ہنس پڑے۔ سب کی ہنسی ابھی تھمی بھی نہ تھی کہ کمرے کے باہر سے دھیمی سی دستک کی آواز آئی۔

زرکا نے چونک کر سب کی طرف دیکھا، “اس وقت…؟”

ایلمارا نے کندھے اچکائے، “شاید کوئی نوکر ہوگا۔”

آریب نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا، “ہو سکتا ہے التمش معاف کیجیے… اہان صاحب خواب میں چلتے چلتے یہاں آ گئے ہوں۔”

افسان نے دروازہ کھولا… مگر باہر کوئی نہ تھا۔ صرف لمبے راہداری میں جلتی ہوئی مدھم لالٹینیں اور ہوا کے ساتھ ہلتے پردے۔

“یہ… کیا مذاق ہے؟” افسان بڑبڑایا۔ زرکا

آہستہ سے بولی، “ہوا کی وجہ سے دروازہ بج گیا ہوگا۔”

وہ دروازہ بند کرنے ہی لگے تھے کہ ایلمارا کی نظر زمین پر پڑی ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا پڑا تھا، جیسے کسی نے جلدی میں گرایا ہو۔

ایلمارا نے جھک کر اُسے اُٹھایا۔ کاغذ پر صرف ایک جملہ لکھا تھا “رات کے بعد محل میں مت رُکنا…”

کمرے میں ایک لمحے کو مکمل خاموشی چھا گئی۔ سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔  سب اب تھم سے گئے تھے کہ

آریب نے ایلمارا کے ہاتھ سے وہ کاغذ کا ٹکڑا پکڑا، مروڑ کر کمرے میں پڑی ڈسٹ بن میں پھینک دیا

اور بولا،”تم لوگ بھی نا یار… کسی نے مذاق کیا ہوگا۔”

افسان بولا، “ہاں یار، ایسا ہی ہوگا۔ تم دونوں ڈرو مت۔”

زرکا اور ایلمارا ایک ساتھ بولیں، “ہمیں ڈر نہیں لگتا۔”

آریب نے مسکرا کر کہا، “اچھا اچھا ۔”

ایلمارا نے مذاق میں بولا، “بلکہ تم دونوں کو ڈر لگ رہا ہے۔”

زرکا نے تالی مارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پھر ایلمارا نے زرکا کے ہاتھ پر تالی ماری۔

افسان بولا، “اچھی بات ہے… چل آریب، ہم بھی سونے چلتے ہیں۔”

پھر وہ دونوں سونے چلے گئے۔ چند لمحوں باد چاروں بستر پر لیٹے ہوئے تھے، لیکن دل میں وہی خیال اب تک چل رہا تھا۔ التَمش بستر پر سو رہا تھا۔

کچھ دیر بعد اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلیں۔وہ بیٹھا اور آس پاس دیکھا تو ایک طرف آریب کا بستر تھا اور دوسری طرف، دروازے کے پاس، افسان کا بستر۔ ایک طرف اس کا اپنا بستر تھا اور کونے میں ایک آئینہ لگا ہوا تھا۔ کمرہ دیکھنے میں کوئی خاص نہیں لگتا تھا، مگر رہنے کے قابل تھا۔آریب اور افسان اپنے اپنے بستروں پر سو رہے تھے۔ آریب نے چادر اوڑھی تھی جبکہ افسان کی چادر زمین پر گری ہوئی تھی، اور وہ اس طرح الٹا لیٹا تھا کہ پاؤں والی سائیڈ پر سر اور سر والی سائیڈ پر پاؤں تھے۔

التَمش نے دونوں کو دیکھا اور مسکرایا دل ہی دل میں سوچنے لگا”آریب اتنے تمیز سے لیٹا ہے جیسے کوئی شہزادی ہو… اور افسان ایسے لیٹا ہے جیسے کوئی بھکاری ہو۔”

وہ بستر سے آہستہ آہستہ اٹھا اور محل کی راہداری میں آ گیا۔ وہ محل کے اہم دروازے کے پاس پہنچا۔دروازہ بڑا تھا، وہ خود نہیں کھول سکتا تھا۔ وہ دروازے کے پاس آ کر روک گیا۔ اتنے میں اچانک اسے آواز آئی

“آپ کیا کر رہے ہیں؟”

اس نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا پیچھے مُڑ کر دیکھا تو مشال کھڑی تھی۔

التَمش نے چونک کر کہا،”کچھ نہیں… ویسے، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟”

مشال بولی، “کچھ نہیں، میں بس باہر جانے لگی تھی۔”

التَمش نے اثبات میں سر ہلایا، “اچھا…” اتنے میں ملکہ کے کمرے کا دروازہ کھلا اور ملکہ باہر آئیں۔وہ اتنی حسین لگ رہی تھیں کہ جیسے  اُن کی کوئی مثال ہی نہ ہو۔ اُن کے سر پر سجے تاج نے اُن کی خوبصورتی کو اور نکھار دیا تھا، اور اُن کے لمبے، ریشمی بال اُنہیں سب سے مختلف بناتے تھے۔ ملکہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی التَمش اور مشال کے قریب آئیں۔

وہ چلتے ہوئے بے حد خوبصورت لگ رہی تھی مشال ملکہ کو دیکھ کر ایک طرف ہٹ گئی ۔ 

التَمش نے نظریں دوسری جانب گھما لیں اور دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے بولا”کوئی ہے؟ یہ دروازہ کھولو! مجھے باہر جانا ہے!”

وہ بار بار بلند آواز میں کہہ رہا تھا مگر جیسے اس کی بات کوئی سن ہی نہ رہا ہو۔ التَمش نے جھنجلا کر دروازے پر زور سے ہاتھ مارا۔

اتنے میں ملکہ نے بلند آواز میں کہا،”محل کا یہ بلند دروازہ کھول دیا جائے!”

ملکہ کی آواز سنتے ہی دروازہ کُھل گیا۔ التَمش نے باہر دیکھا تو صبح ہو چکی تھی۔ بازار کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ پھر اُس نے پلٹ کر ملکہ کو دیکھا۔ مشال اور ملکہ دونوں محل سے باہر جانے ہی لگی تھیں کہ

ملکہ ایک لمحے کے لیے رُکیں، التَمش کی طرف مُڑ کر دیکھتے ہوئے بولیں: “یہ دروازہ… میرے حکم کے بغیر نہیں کھلتا۔”

اور یہ کہہ کر وہ دونوں آگے بڑھ گئیں۔ التَمش بس ملکہ کو جاتا دیکھتا رہا۔ التَمش ملکہ کو جاتا دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو زرکا اور ایلمارا اپنے کمرے سے باہر آرہی تھیں۔

التَمش اُن کے پاس گیا اور بولا:”کیسی ہو دونوں؟” ایلمارا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،”ہم تو ٹھیک ہیں… لیکن آج تمہیں ہمارا خیال کیسے آ گیا؟”

التَمش نے مسکراتے ہوئے کہا،”اچھا جی! مجھے خیال نہیں آیا تو پھر تم دونوں کو کب آیا؟ ہاں؟”

زرکا نے فوراً جواب دیا،”میں نے تو آریب سے کل ہی تمہارا پوچھا تھا… لیکن تم سو رہے تھے۔”

التَمش نے ہنستے ہوئے کہا،”ہاں بس یار، کل بہت تھک گیا تھا۔”

یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ آریب اور افسان بھی اپنے کمرے سے باہر آگئے۔

افسان بولا،”اوہ! التَمش صاحب… ہم تو آپ کو ہی ڈھونڈ رہے تھے!”

التَمش نے مذاق میں کہا،”واقعی؟ تم لوگ کب سے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہی مجھے ڈھونڈتے پھر رہے ہو؟ باہر آنے کی توفیق نہیں ہوئی؟”

آریب نے ہنستے ہوئے کہا،”یار! ہم بھی تیار ہو رہے تھے۔”

زرکا نے بات کاٹتے ہوئے کہا،”چلو یار، ہم بھی بازار گھومنے چلتے ہیں۔”

افسان نے فوراً کہا،”ہاں بھئی، مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے… چلو کچھ کھاتے بھی ہیں۔”

یوں سب ایک ساتھ محل سے باہر آگئے۔  پانچوں دوست بازار کی گہماگہمی میں چل رہے تھے۔

افسان نے سب کو دیکھ کر کہا،”چلو اب کھانے پینے کے لیے کسی دکان پر چلتے ہیں۔”

زرکا نے فوراً جواب دیا،”یار، کھانے پینے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟”

آریب نے کہا،”ہاں، پیسے تو نہیں ہیں”

ایلمارا نے سنجیدگی سے کہا،”پھر بھی… چل کر پوچھ تو لیتے ہیں۔ پتا تو چلے۔”

سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آخرکار ہامی بھر لی۔یوں وہ کچھ دکانیں چھوڑتے ہوئے ایک چھوٹی سی دکان پر جا رُکے۔ دکان پر تَلتی ہوئی مرغی، گوشت اور تازہ نان پکنے کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔دکان چھوٹی تھی مگر باہر ایک میز اور چھ کرسیاں رکھی تھیں۔

دکاندار نے اُنہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا”جی بتائیے، کیا کھانا پسند کریں گے؟”

التَمش آگے بڑھا اور صاف صاف بولا،”ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں… اور نہ ہی ہم اُدھار کر رہے ہیں۔اگر ہو سکے تو جو سالن ابھی بنا ہے اور چند نان ہمیں دے دیجیے۔دراصل جب سے ہم یہاں آئے ہیں، کچھ خاص کھانے کو نہیں ملا۔اگر آپ مدد کر دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔”

یہ سن کر دکاندار کے چہرے پر اور گہری مسکراہٹ آ گئی۔وہ بولا،”جی جی، کیوں نہیں! بلکہ جب چاہیں، آپ اس دکان سے یا اس بازار کی کسی بھی دکان سے کھانا کھا سکتے ہیں۔”

افسان حیران ہوا،اس نے منہ میں بڑھبرایا ”  کیا؟ پیسے کے بغیر… ایسا کیوں؟”

پانچوں دوست خوشی خوشی ہنستے ہوئے اس میز پر جا بیٹھے

آریب نے مسکراتے ہوئے کہا،”یار! بڑے ہی کھلے دل کے مالک ہیں یہ سب لوگ۔”

التَمش نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا،”ہاں… مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اُس نے یہ کیوں کہا کہ کسی بھی دکان سے بغیر پیسوں کے کھا لو؟”

زرکا نے فوراً تائید کی،”بالکل، یہ واقعی سوچنے کی بات ہے۔”

ایلمارا نے ہنستے ہوئے کہا،”ارے یار! انہیں پیسوں کی کیا ضرورت؟”

آریب نے حیران ہو کر پوچھا،”کیوں بھلا؟”

افسان نے کندھے اچکائے،ہاں بھلا ایسا کیوں۔

زرکا آہستگی سے بولی،”جیسے وہ ملکہ کہہ رہی تھی نا… کہ یہ جنّات کی دنیا ہے… تو جنّات کو بھلا پیسوں کی کیا ضرورت؟”

التَمش کچھ بیزاری سے بولا،”مجھے اس بات پر بالکل یقین نہیں ہے۔”

افسان نے سنجیدگی سے کہا”ہاں، ویسے کوئی ثبوت تو نہیں ہے۔”

زرکا نے آہستہ آواز میں کہا”ہو سکتا ہے لوگ اس سے سوال نہ کریں… اسی لیے اُس نے یہ بات کہہ دی ہو۔”

افسان نے بات ختم کرتے ہوئے کہا”پتا نہیں کیا ہے… خیر اس وقت تو بس بھوک لگی ہے۔ سوچنے کی ہمت نہیں۔”

یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ اچانک دکاندار گرم گرم کھانا لے آیا۔کھانے میں آٹھ نان، گوشت اور مرغی کا سالن رکھا تھا۔

دکاندار نے خوش دلی سے برتن میز پر رکھتے ہوئے کہا،”یہ لیجیے! بلا تکلّف کھائیے۔ اور اگر مزید چاہیے تو ضرور بتائیے گا۔” یہ کہہ کر وہ پلٹنے ہی لگا تھا کہ

التَمش نے اسے پکارا،”سنیے!” دکاندار رُک گیا اور الٹ کر التَمش کی طرف دیکھنے لگا۔ التَمش نے پوچھا،”آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ پیسوں کے بغیر کھانا بھلا کون دیتا ہے؟”

دکاندار نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،”دراصل ملکہ کا حکم ہے… کہ مہمانوں کو کھانے پینے کی کوئی کمی نہ ہو۔ یہاں ملکہ جو کہے، وہی ہمارے لیے حکم ہوتا ہے۔ اور ہم وہ کام خوشی سے کرتے ہیں۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔

التَمش نے دل ہی دل میں سوچا،“اچھا… تو سب کچھ ملکہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اگر وہ حکم نہ دے… تو شاید محل کا دروازہ بھی نہ کھولے…” اس کے آنکھوں میں سوچ کی ایک لہر دوڑ گئی۔

آریب نے اسے دیکھ کر کہا،”چھوڑ یار! تُو بس کھانا کھا۔”

التَمش نے آہستہ سے سر ہلایا اور سب کے ساتھ کھانے میں مصروف ہو گیا۔ محل کے اندر ملکہ کے کمرے میں ایک خوبصورت میز سجی تھی۔میز پر کئی قسم کے کھانے رکھے تھے اور پاس ہی دو کرسیاں رکھی تھیں۔جن کرسیوں پر ملکہ اور مشال آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔

ملکہ نے مسکرا کر کہا،”چلو مشال، کھانا شروع کرو۔”

مشال نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،”جی۔”پھر دونوں نے کھانا شروع کر دیا۔ کچھ لمحے بعد

ملکہ نے اچانک پوچھا،”وہ لڑکا کون ہے؟ تم اُسے جانتی ہو؟”

مشال نے چونک کر کہا،”کون لڑکا؟”

ملکہ آہستگی سے بولی،”جس سے تم بات کر رہی تھیں۔”

مشال نے فوراً کہا،”اچھا… آپ اہان التمش کی بات کر رہی ہیں؟”

ملکہ نے سرد لہجے میں کہا،”مجھے اس کا نام نہیں پتا۔”

مشال نے وضاحت کی،”اس کا نام اہان التمش ہے۔”

ملکہ نے بیزاری سے کندھے اچکائے،”خیر… جو بھی نام ہے۔ تم اُسے جانتی ہو؟”

مشال نے نرمی سے کہا،”نہیں، بس سرسری سی ملاقات ہوئی تھی بازار میں۔ پھر میں نے اس سے نام وغیرہ پوچھ لیا تھا۔ اچھی بات چیت ہو گئی تھی۔”

ملکہ نے گہری نظر سے دیکھا اور کہا،”اچھا… ٹھیک ہے۔”

مشال نے جھجکتے ہوئے کہا،”برا نہ مانیں، ایک بات پوچھوں؟”

ملکہ نے کہا،”ہاں، پوچھو۔” مشال آہستگی سے بولی،”آپ اُس کے بارے میں کیوں پوچھ رہی ہیں؟ کوئی خاص بات ہے کیا؟”

ملکہ فوراً بولی،”نہیں… بس وہ سب سے الگ ہے۔”

مشال نے چونک کر کہا،”الگ؟”

ملکہ نے سپاٹ لہجے میں کہا،”یعنی وہ بدتمیز ہے۔”

مشال نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،”اچھا… مگر مجھے تو وہ بدتمیز نہیں لگا۔”

یہ سنتے ہی ملکہ نے غصے سے مشال کی طرف دیکھا۔مشال نے نظریں جھکا لیں۔ملکہ نے بھی خاموشی سے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔

کمرے میں خاموشی پھیل گئی  پانچوں دوست زرکا اور ایلمارا کے کمرے میں تھے۔ سب ایک ہی بستر پر بیٹھے تھے۔

التَمش بولا،”شکر ہے کھانے کو تو مل گیا۔”

افسان نے کہا،”ہاں یار، اب دل کر رہا ہے سو جائیں۔”

زرکا بولی،”میری دل کی بات چھین لی۔”

ایلمارا نے سنجیدگی سے کہا،”اتنی سب کو نیند آ رہی ہے تو اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو جاؤ نا۔”

آریب فوراً بولا،”نہیں، ابھی باتیں کرنی ہیں۔ کل کا پورا دن اتنا مشکل تھا… اُف!”

التَمش نے سر ہلا کر کہا،”ہاں، صحیح بولا۔ خیر، میں تو جا رہا ہوں سونے۔”یہ کہہ کر وہ بستر سے اترنے لگا۔

آریب نے روکتے ہوئے کہا،”رُک نہ یار!”

التَمش نے جھنجھلا کر کہا،”چُپ کر، سونا ہے مجھے۔” وہ یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔

ایلمارا چونک کر بولی،”یہ کیا؟ کل رات کی طرح پھر؟”

التَمش رُک گیا، “کیا مطلب کل کی طرح؟”

افسان نے آہستہ کہا،”کل بھی دروازے پر دستک ہوئی تھی… جب کھولا تو کوئی نہیں تھا وہاں۔”

التَمش نے ہلکا سا طنزیہ کہا،”ہَد ہے! تم لوگوں بھی نہ… وہ رات تھی، ابھی تو صبح ہے۔” یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور دروازہ کھول دیا۔سامنے مشال کھڑی تھی۔

التَمش نے چونک کر کہا”تم یہاں؟ خیر ہے؟”

مشال نے آہستگی سے جواب دیا،”وہ… ملکہ نے آپ سب کو اندر والے کمرے میں بلایا ہے۔” یہ کہتے ہوئے اُس نے پیچھے کی طرف والے کمرے کی جانب اشارہ کیا۔

التَمش نے بھنویں سکیڑتے ہوئے پوچھا،”کیوں؟ اُس نے کیوں بلایا ہے؟”

مشال بولی”مجھے معلوم نہیں… آپ سب آئیں گے تو خود ہی پتہ چل جائے گا۔”

التَمش نے پلٹ کر سب کو دیکھا۔

زرکا نے کہا”بلا رہی ہے تو چل کر دیکھتے ہیں، کیا بول رہی۔”

التَمش نے دوبارہ مشال کی طرف دیکھا اور کہا،”اچھا ٹھیک ہے… ہم کچھ دیر میں آتے ہیں۔”

مشال نے ہلکا سا سر ہلایا”جی۔” اور پھر وہ وہاں سے چلی گئی۔ ملکہ بازاری سے ایک صوفے پر بیٹھی سامنے موجود اُن کو دیکھ رہی تھی۔ زرکا، افسان، آریب، ایلمارا اور پھر التَمش وہ سب بازاری سے ترتیب سے کھڑے ہوئے تھے۔ کمرہ بڑا اور خوبصورت تھا۔

ملکہ مشال سے بولی: “جاؤ، مشال! لڑکیوں کو کہو لے آئے۔”

مشال نے ہلکا سا سر ہلایا اور چلی گئی۔

التَمش نے مشال کو جاتے ہوئے دیکھا

اور پھر ملکہ کی طرف مُڑ کر بولا “اب کون سا ڈراما ہونے والا ہے؟ اب وہ کیا لانے جا رہی ہے؟”

ملکہ ذرا غصے میں بولی: “ہَد ہے! تم میں ذرا سا بھی صبر نہیں ہے۔”

التَمش بھی غصے میں بولا: “ہاں، نہیں ہے! اور کیوں کروں میں صبر؟ “

ملکہ بولی: “باقی مسئلے کم ہیں کیا، جو تم بھی اب”

التَمش نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے بلند آواز میں کہا: “ہاں تو کس نے کہا تھا ہمیں یہاں لاؤ؟ کیا ہے یہ؟ مجھے اپنے گھر جانا ہے!” وہ ایسے بول رہا تھا جیسے ضد کر رہا ہو۔

ملکہ نے سخت لہجے میں کہا: “لگتا ہے تمہیں اس طرح بات سمجھ نہیں آتی… کہا تھا نا، جلد تم لوگوں کو یہاں سے نکال دوں گی۔”

التَمش بولا “تمہیں کیا احساس ہو گا؟ اتنے سال بعد گریجویشن کمپلیٹ کرنے کے بعد ہم نے کیا کیا کرنے کا سوچا تھا!”

زرکا بھی بولی “سچ کہہ رہا ہے یہ… ہمارے گھر والے کتنے پریشان ہو گئے ہوں گے۔”

ملکہ نے زرکا کو دیکھا۔ کچھ لمحے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ اتنے میں پانچ لڑکیاں اندر آئیں جو دیکھنے میں کنیزیں لگتی تھیں۔ اُن کے ہاتھوں میں کچھ کپڑے تھے۔ وہ باری باری سب کے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور ہلکا سا جھک کر اپنے ہاتھ آگے کر دیے ۔

افسان نہ لڑکی کو دیکھ کر فوراً کہا “استگفرللہ!”

اور آریب نہ لڑکی کو دیکھ کر بولا “ماشاءاللہ”

زرکا اور ایلمارا نے آریب کو گھور کر دیکھا اور افسوس میں سر ہلا دیا۔

التمش نے اُن کنیزوں کے ہاتھوں میں موجود کپڑوں کو دیکھا، پھر بےزار سا چہرہ بنا لیا۔ اُس نے کنیز سے کپڑے لیے۔ باقی سب نے بھی کپڑے تھام لیے اور دیکھنے لگے۔ کنیزیں واپس باہر چلی گئیں۔ لڑکیوں کے لیے کپڑے تو خوبصورت تھے ایک لمبی سی فراک ۔

التمش نے کپڑوں کی تہہ کھولی تو حیرانی سے بولا “یہ تو لگ رہا ہے جیسے کسی سپاہی کے کپڑے ہوں!”

آریب نے ملکہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “واہ… ایک بار پھر لڑکوں کے ساتھ بُرا ہی ہوا!”

افسان نے پریشان لہجے میں کہا “یہ کیا ہے؟”

التمش نے طنزیہ انداز میں کہا “لگتا ہے ہمیں سپاہی بنانا ہے۔”

ملکہ نے دل ہی دل میں سوچا *حد ہے! یہ کبھی راضی نہیں ہو سکتے۔*

افسان بولا “مجھے تو پینٹ شرٹ چاہیے!”

ملکہ نے آریب اور التمش کی طرف دیکھا۔ دونوں نے بھی سر ہلا کر اُس کی تائید کی۔

ملکہ نے مشال کو حکم دیا “جاؤ، اِنہیں پینٹ شرٹ لا دو۔”

مشال بولی “جی۔” کچھ ہی دیر میں وہ ٹوکری میں پینٹ شرٹ لے آئی۔ تینوں نے اپنی پسند کے کپڑے چُن لیے۔

التمش مذاق میں بولا وائٹ والا میرا ہے میں منہ توڑ دوں گا لیا تو

افسان اس کے جواب میں بولا تیرا وائٹ کسی کو پسند بھی نہیں ہے میں تو کالا لوں گا

اریب معصوم بن کر بولا اگے بچہ ہی کیا ہے مجھے تو براؤن ہی لینا پڑے گا

التمش بولا ہاں اتنا تو معصوم .افسان ہنسنے لگا

ملکہ نے سب کو دیکھا اور کہا “جاؤ، اب تم سب جا سکتے ہو۔”

وہ سب کمرے سے باہر چلے گئے۔

ملکہ نے ہلکی سی آہ بھری اور مشال سے کہا “کتنے عجیب ہیں نا یہ انسان…”

مشال مسکرا کر بولی: “انسان تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جیسے آپ اور میں… ہم بھی تو انسان ہیں۔”

ملکہ نے سنجیدگی سے جواب دیا: “ہاں… مگر میں اتنی ناشکری نہیں ہوں۔”

مشال نے شرارت سے کہا: “جی، کیوکہ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔”

ملکہ نے اُسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی۔ “ہاں، سچ کہہ رہی ہو تم۔”

پھر دونوں اپنی باتوں میں مگن ہو گئیں۔ 











 Next Episode on 27th September

INSHALLAH!

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *