دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۵
مقام: ڈوکلینڈز، ایسٹ لندن
وقت: رات کے 8:00 بجے
ڈوکلینڈز-یہاں کے جدید اسکائی اسکریپرز اور دریائی ٹیمز کے کنارے چلنے والے مہنگے ریستورانوں کے پیچھے، ایک دنیا اور بھی تھی۔ ایک ایسی دنیا جہاں قانون کی کوئی حیثیت نہیں تھی، جہاں طاقت، پیسہ اور دھوکہ سب کچھ تھا۔ ایم ڈی کا گینگ یہاں راج کرتا تھا، ایک ایسا راج جو اندھیرے میں رہ کر قائم تھا۔
سیف ہاؤس کی اندرونی فضا کشیدہ تھی۔ ایم ڈی کے سامنے اس کے آدمی صف باندھے کھڑے تھے، سر جھکائے، خاموش۔ کوئی بھی اس کے غضب کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ۔
“یہ کس کی ہمت ہو گئی؟” ایم ڈی کی آواز گرج دار تھی۔ اس کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔
ایم ڈی نے ایک قدم آگے بڑھایا، نظریں گھمائیں، اور پوری شدت سے دھاڑا،
“یہ کس نے غداری کی ہے؟”
ایم ڈی نے مٹھیاں بھینچیں۔ ” بھوکو! کون ہے وہ؟
یہ کس نے کیا ہے؟ کس نے ذرا سے پیسوں کی لالچ میں آ کر میری نیوز میڈیا کو دے دی؟”
بھوکو !” ایم ڈی کی آواز گرجی۔ “یا میں سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں؟”
سب خاموش۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھ سکے۔
کس کو اوقات سے زیادہ پیسے چاہییں؟” ایم ڈی کی گرجتی ہوئی آواز نے کمرے میں موجود ہر شخص کی دھڑکن تیز کر دی ۔
حامد نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں، گہری سانس لی، پھر قدم آگے بڑھایا بولا۔۔
“باس”
گینگ کے سبھی لوگ سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ایم ڈی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے۔ وہ صرف حامد تھا جو اس گینگ میں ایم ڈی تک بات پہنچا سکتا تھا، باقی سب تو بس حکم کے غلام تھے۔
ایم ڈی مافیا گینگ کے بارے میں سب جانتے تھے، مگر کسی نے انہیں دیکھا نہیں تھا۔ ان کے چہرے راز تھے، ان کی شناختیں اندھیرے میں گم تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ضرور تھے، مگر ملتے تو بھی چہروں پر ماسک چڑھا ہوتا۔ کسی ایک غلطی کی گنجائش نہیں تھی، کیونکہ ایک غلطی سب کچھ ختم کر سکتی تھی۔
مگر ایک شخص تھا جسے سب جانتے تھے، جس پر سب بھروسہ کرتے تھے، جو ان سب کی آنکھیں اور کان تھا- حامد
حامد لڑنے والا نہیں تھا، نہ ہی بندوق اٹھانے والا، مگر اس کا دماغ سب سے زیادہ تیز چلتا تھا۔ وہ وہ شخص تھا جس نے گینگ کے ہر رکن کو دیکھا تھا، ہر چہرے کو پہچانا تھا، مگر خود کسی کی نظروں میں نہیں آیا تھا۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔وہ سب ویسے ہی اُس پر بھروسہ کرتے تھے۔۔۔وہ پردے کے پیچھے رہ کر کھیلنے والا کھلاڑی تھا، وہ جس پر ایم ڈی کو بھی مکمل یقین تھا۔اور وہی دنیا کا وہ واحد انسان تھا ۔۔۔ جس نے ایم ڈی کو دیکھا تھا۔۔۔ وہیں جانتا تھا کہ ایم ڈی کون ہے۔۔۔
“بولو، حامد !” ایم ڈی نے گرجدار آواز میں کہا۔۔
باس، ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔” حامد نے پُرسکون مگر یقین بھری آواز میں کہا۔
ایم ڈی کی نظریں شک بھری تھیں۔ وہ ان سب کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی کی سانسوں سے بھی جھوٹ پکڑ لے گا۔ “تو پھر کون ہے؟” کیا کوئی مافیا دشمن ہمارا ۔۔۔ ؟
حامد نے گہری سانس لی۔ “باس، یہ ہمارے دشمنوں کی چال نہیں لگتی۔ ہمارے مافیا دشمن ایسا بدلہ نہیں لیتے ہم سے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی ان کے کئی راز ہوتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں نقصان پہنچاتے، تو ہم بھی ان کی کمر توڑ دیتے۔ وہ اتنے بےوقوف نہیں ہیں کہ یوں پولیس اور میڈیا کے ذریعے ہمیں نشانہ بنائیں۔”
“تو پھر کون ہو سکتا ہے؟ پولیس؟”
“ہو سکتا ہے،” حامد نے سوچتے ہوئے کہا۔ “لیکن پولیس اتنی چالاکی سے کام کم ہی لیتی ہے۔ یہ کوئی ایجنٹ ہو سکتا ہے، کوئی اندر گھسا ہوا سانپ جو ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔”
ایم ڈی کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ ابھری۔ “ایجنٹ… انٹرسٹنگ۔ ۔ “ڈھونڈو اسے، حامد ۔ اگر کوئی ایجنٹ ہمارے آس پاس ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ اس کا نام، چہرہ اور اس کی آخری سانسیں میرے سامنے ہوں۔”
حامد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ “جی باس، میں کچھ دن میں پتہ لگا لوں گا۔”
“اور باس، وہ نمبر ون…” حامد نے دھیمی آواز میں اطلاع دی، “اُس کی حالت کچھ خاص نہیں لگ رہی۔”
“کیا ہوا؟ ہسپتال تو ٹھیک وقت پر پہنچا دیا تھا نہ ہم نے اُسے؟”
حامد نے ہلکی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ سر ہلایا، “ہاں، پہنچا دیا تھا۔ مگر ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اُس کی ہڈی فریکچر ہوچکی ہے۔ وہ ٹھیک تو ہو جائے گا، لیکن…”
“لیکن کیا؟” ایم ڈی کی نظریں اُس پر جم گئیں۔
حامد نے گہرا سانس لیا، “لیکن وہ دوبارہ لڑ نہیں سکتا۔”
چند لمحے خاموشی طاری رہی۔ گینگ کے باقی لوگ جانتے تھے کہ ایم ڈی کے لیے سب سے بڑی کمزوری بیکار ہونا تھی۔ اور نمبر ون، جو کبھی سب سے طاقتور جنگجو تھا، اب بیکار ہو چکا تھا۔
“کیا…؟” ایم ڈی کی آواز میں حیرت نہیں، بلکہ محض اکتاہٹ تھی، جیسے یہ مسئلہ اس کے لیے معمولی سا ہو۔ “اب وہ ہمارے کسی کام کا نہیں رہا؟”
“نہیں، باس…” حامد کی آواز میں بے بسی تھی۔
“مار دو اُسے۔ ہسپتال میں ہی۔ ہسپتال سے باہر نہیں آنا چاہیے وہ۔” ایم ڈی نے غصے میں کہا
حامد کا دل جیسے بیٹھ گیا۔ “باس، ہم اُسے کیسے مار دیں؟ وہ ہمارا ساتھی ہے!”
ایم ڈی نے ایک نظر اس پر ڈالی، جیسے یہ سوال ہی فضول ہو۔ “ساتھی تھا، ہے نہیں۔ اور جو بول رہا ہوں خاموشی سے وہ کرو۔”
حامد نے احتجاج کرنا چاہا، مگر ایم ڈی نے ہاتھ اٹھا کر اُسے خاموش کروا دیا۔ “جب کوئی انسان کسی کام کا نہیں رہتا، تو اُسے مار دینا چاہیے۔ ایسے دنیا پر بوجھ کم ہوتا ہے۔”
حامد نے ہمت جمع کر کے کہا، “باس، اُسے ٹھیک ہونے دیں، میں اُسے ہیکنگ سکھا دوں گا۔”
ایم ڈی نے اُسے گھورا۔ “حامد، جو کہا ہے وہ کرو۔ اُس کی اب اتنی ہی زندگی تھی۔”
حامد کی نظریں نیچے جھک گئیں۔ وہ جانتا تھا کہ ایم ڈی کا فیصلہ پتھر کی لکیر ہوتا تھا وہ اب نہیں مانے گا۔ اگر ماننے والا ہوتا تو ایک بار کہنے پر ہی مان جاتا۔ اور اگر نہ ماننے والا ہوتا، تو چاہے کچھ بھی ہو جاتا، وہ فیصلہ نہ بدلتا۔ یہ سب اُس کے موڈ پر منحصر تھا۔
ایم ڈی نے کچھ دیر سوچا، پھر کہا، “اور اب اُس کی جگہ تم لوگے۔”
حامد کا دل جیسے حلق میں آ گیا۔ اُس نے حیرت سے ایم ڈی کو دیکھا، جیسے ابھی اُس کی آنکھیں باہر نکل آئیں گی۔ وہ بے یقینی سے بولا، “میں…؟”
ایم ڈی نے مسکراتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں دیکھا، ایک ایسی مسکراہٹ جس میں نہ تو ہمدردی تھی اور نہ ہی شفقت۔ “ہاں، تم۔ مجھے لڑائی کے دوران چھ کے چھ بندے چاہییں۔”
“باس، میں کوئی نیا بندہ لے آؤنگا ؟” حامد نے بمشکل بولا۔۔۔
“مجھے نئے پر بھروسہ نہیں۔” ایم ڈی کا فیصلہ دو ٹوک تھا۔۔۔بدلنے والا نہیں تھا۔۔۔
حامد نے آخری امید کے طور پر کہا، “پھر پولیس، مافیا، دشمن اور ایجنٹ کی رپورٹ کون دے گا آپ کو؟”
ایم ڈی نے سرد لہجے میں کہا، “میں نے کہا ہے اُس کی جگہ لو، یہ نہیں کہا کہ اپنی جگہ چھوڑ کر اُس کی جگہ لو۔”
حامد کے اندر غصہ بھڑکنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لڑ نہیں سکتا۔ ایم ڈی کو بھی معلوم تھا۔ پھر بھی وہ زبردستی اُسے اس میدان میں دھکیل رہا تھا، جہاں موت یقینی تھی۔
ایم ڈی نے جیسے اس کے خیالات پڑھ لیے۔ “لڑنا نہیں آتا نا تمہیں؟ ان سب سے سیکھ لو۔ اور جلدی سے اپنے آپ کو تیار کر لو۔”
گینگ کے ایک اور ممبر نے ہمت کرکے کہا، “باس، ہمارے پاس اُس سے اچھا ایک بندہ ہے، اور اُسے سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اُسے رکھ لیتے ہیں؟”
کیوں کہ سب جانتے تھے۔۔۔کہ حامد سیکھ کر جائے یہ بنا سیکھ کے۔۔وہ لڑنے پہنچا تو مارا جائے گا۔۔۔
ایم ڈی نے اُسے ایک سخت نظر سے گھورا، “تم لوگوں سے پوچھا؟ ہاں بولو، پوچھا میں نے؟ اُوقات بھولو مت، چپ چاپ کھڑے رہو!”
سب خاموش ہوگئے
حامد نے آہستہ سے کہا، “جان مانگنی تھی تو ایسے ہی مان لیتے، بھائی…” بھائی یہ لفظ اپنائیت میں ڈوبا تھا، ایک اپنا پن، جو حامد ایم ڈی کو صرف تب کہتا تھا جب وہ دونوں اکیلے ہوتے تھے۔ اور آج پہلی دفعہ اُس نے سب کے سامنے اُسے بھائی کہا تھا ۔۔
حامد نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری، نظریں جھکا لیں۔ وہ جانتا تھا کہ ایم ڈی کے فیصلے پتھر کی لکیر ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی، شاید دل کے کسی کونے میں امید تھی کہ یہ فیصلہ بدلا جا سکتا تھا
حامد نے ایک پل کے لیے نظریں جھکائیں، پھر آہستہ سے سر اٹھایا اور سیدھا ایم ڈی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا،
“مجھے کچھ وقت دیں، میں خود کو تیار کر لوں گا۔”
حامد کی نظریں ایم ڈی کی آنکھوں میں کسی نرم گوشے کی تلاش میں تھیں۔ شاید ایم ڈی کے دل میں اس کے لیے کوئی احساس ہو، کوئی جھجھک، کچھ بھی
لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔
وہی سرد مردہ نظر، جس میں نہ ہمدردی تھی، نہ پچھتاوا۔ صرف ایک فیصلہ، جو کب کا ہو چکا تھا۔
+++++++++++
وقت: رات کے 8:00 بجے
مقام: لندن، ہسپتال
جون کو ہوش میں آئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ ہسپتال کا کمرہ خاموش تھا، صرف مانیٹر پر چلتی ہلکی بیپ اور دروازے کے پیچھے گزرتے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی۔ اس کے جسم کا ہر حصہ درد سے چُور تھا، جیسے کسی نے اسے بے رحمی سے توڑ کر پھینک دیا ہو۔ وہ جنبش بھی کرنا چاہتا، تو درد کی ایک نئی لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ جاتی۔
دروازہ دھیرے سے کھلا، اور اندر ولید داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر فکرمندی صاف نظر آ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچا، اس نے جھک کر جون کو دیکھا۔
“کیسی طبیعت ہے تمہاری؟” ولید نے نرمی سے پوچھا۔
جون نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ وہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا، اس لیے محض پلکوں کی حرکت سے اشارہ دیا- میں ٹھیک ہوں۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ وہ بالکل بھی ٹھیک نہیں تھا۔
ولید نے گہری سانس لی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ “کتنی بڑی لڑائی ہوگئی تھی تمہاری اُن سے، جو یہ حال کردیا اُن لوگوں نے تمہارا؟”
جون کا دل چاہا کہ وہ چلا کر بولے- یہ سب تمہارے پیارے بھائی نے کیا ہے! لیکن وہ جانتا تھا، اس کے بعد کیا ہوگا۔ حارث کے خلاف ایک لفظ کہنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔
ولید نے نرمی سے کہا، “تم اتنے دن نہیں آئے، میں ڈر گیا تھا۔ مجھے لگا حارث نے کچھ نہ کر دیا ہو تمہارے ساتھ… پر اُس نے نہیں کیا۔”
جون کی سانس جیسے رک سی گئی۔
“اب وہ ایسی تھوڑی نہ کچھ کرتا؟ جب تم نے کچھ کیا نہیں تو وہ کیوں تمہیں کچھ کہے گا؟ میں بھی نہ… بھول گیا تھا… اور اُس پر شک کرنے لگا تھا۔”
۔جون کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آئی، جیسے وہ تلخ حقیقت کو اپنے اندر دفن کر رہا ہو۔ دل میں بس ایک ہی خیال تھا- کس نے کہا میں نے کچھ نہیں کیا؟ کیا تھا میں نے… تمہاری کار استعمال کی تھی!
لیکن یہ وہ کبھی زبان پر نہیں لا سکتا تھا۔
ولید نے اس کے کندھے پر ہلکی سی تھپکی دی اور کھڑا ہوگیا۔ “چلو، میں چلتا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا، اور جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔”
جون نے بمشکل سر ہلایا، لیکن اندر ہی اندر اس کی روح چیخ رہی تھی۔ وہ جو کچھ جانتا تھا، وہ جو کچھ سہہ چکا تھا، وہ سب کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔
دروازہ بند ہوتے ہی جون نے آنکھیں موند لیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب کس کا کیا دھرا ہے۔
اُس کی آنکھوں کے سامنے بار بار وہی منظر گھوم رہا تھا- قید، مار پیٹ، اذیت۔ پر ایک چہرہ تھا جو صاف دکھائی نہیں دیا۔ مگر اُسے پکا یقین تھا کہ یہ سب حارث نے کروایا ہے۔ کیوں نہ ہوتا؟ پوری یونی جانتی تھی کہ وہ کتنا سرپھرا اور جنونی ہے، خاص طور پر اپنے بھائی کے معاملے میں۔ اگر کوئی اُس کے بھائی پر انگلی اٹھاتا، تو حارث اُسے روند کر رکھ دیتا۔ اور یہاں تو بات ولید کی گاڑی کی تھی!
گاڑی… وہی گاڑی جسے جون نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔
۔جون ڈرگز سپلائی کرتا تھا۔۔۔وہ دوست بنتا پھر اُن سے گاڑی مانگتا پھر اُس کار میں مافیا سے مافیا تک ڈرگز سپلائی کرتا اور اِسی دوران اگر سڑک پر پولیس کی ناکابندی ہوتی تو کیا۔۔۔ وہ رولز توڑتا ہُوا کار سپیڈ کے ساتھ بھگا لے جاتا ۔۔۔اور ایسے میں پولیس والے کار کی نمبر پلیٹ نوٹ کرتے لیکن وہ کار تو اُس کی ہوتی ہی نہیں تو وہ پکڑا بھی نہیں جاتا۔۔۔ اور ولید کی کار بھی اسی لیے اس نے مانگی لیکن تھینک ٹو حارث وہ ایسا ہونے نہیں دے سکتا تھا۔۔۔ وہ اپنے اچھے اور سیدھے سادھے بھائی پر ایک بھی داغ لگنے نہیں دے سکتا تھا۔۔۔
++++++++++++++
اگلی صبح
دو کلاسز لینے کے بعد ماہی کینٹین میں بیٹھی حارث اور ولید کا انتظار کر رہی تھی۔ یونیورسٹی ساتھ آنے کے بعد وہ دونوں جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ حارث تو اسے کلاس میں نظر آیا تھا، مگر ولید… وہ تو جیسے تھا ہی نہیں۔ نہ کلاس میں، نہ کہیں اور۔
اب وہ کب سے اکیلی بیٹھی تھی، بوریت حد سے بڑھ چکی تھی۔ نہ اگلی کلاس کا پتہ تھا کہ کون سی ہونے والی ہے، نہ یہ کہ کہاں ہوگی۔ اوپر سے یہاں وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تھی۔ مگر اصل مسئلہ کلاس کا نہیں تھا، مسئلہ تو اس کی اپنی ذات تھی۔ وہ بور ہو رہی تھی، اور یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا۔
وہ اپنے فون میں الجھی ہوئی تھی جب تین لڑکیوں کے سائے اس پر پڑے۔ پہلے تو اس نے دھیان نہیں دیا، مگر جب ایک کھنکتی ہوئی آواز نے کہا،
“Hey, listen.”
ماہی نے چونک کر سر اٹھایا۔
“Yes”
پہلی لڑکی نے سفید کراپ ٹاپ پہنا ہوا تھا، جس پر ایک مشہور برانڈ کا لوگو تھا۔ نیچے ہائی ویسٹڈ بلیو جینز، اور نائیکی کے سنیکرز ۔ اس کی گولڈ چین اور ایپل واچ خاصی نمایاں تھیں، اور براؤن سن گلاسز وہ کبھی ماتھے پر رکھ لیتی، کبھی آنکھوں پر۔
دوسری لڑکی کے انداز میں ایک الگ ہی بولڈنیس تھی۔ بلیک باڈی فٹ شرٹ، اوپر سے چمڑے کی بلیک جیکٹ، اور سلور زِپ ڈیزائن والی سکنی جینز ۔ نیچے لمبے بوٹ، اور کانوں میں بڑے ہوپس والی بالیاں۔ گہری ریڈ لپ اسٹک اور ایک چمکتی مسکراہٹ-جیسے وہ دنیا میں ہر چیز کو کنٹرول کر سکتی ہو۔
تیسری لڑکی کا اسٹائل سب سے مختلف تھا۔ اُس نے اوور سائزڈ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جو ایک کندھے سے نیچے ڈھلک رہی تھی، جیسے یہ اسٹائل جان بوجھ کر رکھا گیا ہو۔ نیچے بائیکر شارٹس اور سفید بڑے سنیکرز۔ اُس کے ہلکے گولڈن بال ایک پونی میں بندھے تھے، اور ہاتھ میں سٹاربکس کا کافی کپ تھا، جیسے وہ دنیا کی سب سے مصروف انسان ہو۔
ماہی نے ان کی امریکن اسٹائل ڈریسنگ کو نوٹ کیا اور دل ہی دل میں حیران ہوئی۔ یہاں تو وہ خود بھی زیادہ تر انگریزی ہی بولتی تھی، لیکن یہ تینوں لڑکیاں؟ ان کی اردو تو کمال حد تک صاف تھی!
“تم حارث اور ولید کی کزن ہو نہ؟
I am right?”
ان میں سے ایک لڑکی نے استفسار کیا۔
ماہی نے انہیں غور سے دیکھا۔ اتنی اچھی اردو؟ وہ برسٹل کی کووینٹری یونیورسٹی میں تھی، مگر وہاں کی لڑکیاں اتنی صاف اردو نہیں بولتی تھیں۔ اور یہ لوگ..
“ہاں۔” وہ بس اتنا ہی بولی۔
“تم نے ولی کو دیکھا ہے؟ کہاں ہے وہ؟
We have to meet him.”
ماہی نے الجھن سے ان تینوں کو دیکھا۔ “کیوں؟ کس لیے ملنا ہے ولید سے؟”
“ہم نے اسائنمنٹ چیک کروانی ہے اس سے۔”
ماہی کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
“ولید سے اسائنمنٹ چیک ؟”
“ہاں۔”
“اوہ، ولید ٹیچر نہیں ہے، یہاں کا سٹوڈنٹ ہے۔” ماہی نے ناگواری سے کہا
“ہمیں پتہ ہے،” پہلی لڑکی نے کندھے اچکائے۔ “بس ہمیں وہ اسائنمنٹ چیک کروانا ہے کہ ٹھیک بنی ہے یا نہیں۔”
“کیوں؟” ماہی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
“تم اس کی کزن ہو، تمہیں نہیں پتہ ولی اس پوری یونی کا سب سے انٹیلیجنٹ سٹوڈنٹ ہے؟ اوپر سے اتنا سویٹ اور کیئرنگ پرسن بھی ہے!
ماہی نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔ “مجھے نہیں پتہ کہاں ہے وہ، اب جاؤ یہاں سے۔”
“تمہیں سچ میں نہیں پتہ یا تم ہم سے جھوٹ بول رہی ہو؟”ایک نے مشکوک نظروں سے گھورا۔
“میں کیوں جھوٹ بولوں گی؟ اچھا، یہ تو بتاؤ تم لوگوں نے اردو کہاں سے سیکھی؟” ماہی نے تجسس سے پوچھا۔
“سیکھی ہے کسی پاکستانی لڑکی سے،” ایک نے مسکرا کر جواب دیا۔ “اور پتہ ہے کس کے لیے سیکھی ہے؟”
ماہی نے ہلکی سی ناگواری سے کہا، “کس کے لیے؟”
“ولی کے لیے!” وہ تینوں چہکیں۔ “کیونکہ وہ اتنا اچھا ہے، اس کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔”
ماہی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ “وہ اور اچھا؟ ایک نمبر کا جاہل انسان ہے! لڑکیوں کی ڈریسنگ سے مسئلہ ہے، لڑکیوں کے بولنے سے مسئلہ، اوپر سے ہر وقت نصیحتیں… اس سے اچھا تو حارث ہے!”
“حارث؟” تینوں نے بیک وقت کہا، جیسے یہ کوئی مضحکہ خیز بات ہو۔ “کیا ہو گیا ہے یار، ہاں وہ بہت ہینڈسم ہے، لیکن اس کا نیچر بالکل اچھا نہیں! ہمیں ہر وقت ذلیل کرتا ہے۔”
ماہی نے کندھے اچکائے۔ “ہاں، کیونکہ جو جیسا ہوتا ہے، حارث اس کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے۔”
“Oh hello, how dare you! “
“تمیز سے! ہٹو، تمہیں نہیں پتہ ولی کا، ہم خود ڈھونڈ لیں گے اسے!” ان میں سے ایک نے تیز لہجے میں کہا اور تینوں مڑ کر جانے لگیں۔
ماہی نے انہیں جاتے دیکھ کر بے اختیار کہا، “ولی نہیں، ولید نام ہے اس کا!”
ایک لڑکی پلٹی اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی، “ہم ولی ہی بولیں گے!” باقی دونوں نے بھی ہنسی میں اس کا ساتھ دیا اور ماہی کو منہ چڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
ماہی نے دانت پیسے۔ “دفع ہو جاؤ، بدتمیزو!” پھر خود ہی کندھے اچکا کر بڑبڑائی،
“ویسے بھی مجھے کیا، ولید بولو یا ولی!”
“اچھا ہے حارث، ان کو ذلیل کر دیتا ہیں!” وہ مسکرا کر بولی، مگر فوراً ہی چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی، “ویسے یہ دونوں ہیں کہاں؟”
یہ کہتے ہی وہ جلدی سے اپنی نشست سے اٹھی اور باہر نکل گئی۔ گراؤنڈ میں ادھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہی، مگر ولید اور حارث کہیں دکھائی نہیں دیے۔ کچھ وقت بعد، آخرکار اُسے ولید نظر آگیا تھا ،
ماہی نے ہاتھ باندھ کر غصے سے پوچھا، “کہاں پر تھے؟ پتہ ہے میں کب سے تم دونوں کو ڈھونڈ رہی تھی؟ کوئی نظر ہی نہیں آ رہا تھا!”
ولید نے بے زاری سے جواب دیا، “پرنسپل آفس میں تھا، دوست کی لڑائی کی وجہ سے۔”
ماہی نے قہقہہ لگایا، “ہاہاہا، اچھا! تمہارے دوست کی بھی لڑائی ہوتی ہے؟ واہ!” وہ طنزیہ بولی، “ورنہ مجھے تو یاد ہے کہ تم ہمیشہ مجھے لڑائی کرنے سے منع کرتے تھے، اور اب تمہارے دوست کی لڑائی!”
ولید نے دل ہی دل میں سوچا، پھر سے وہی، صرف اپنے مطلب کی بات یاد رکھی ہے! مگر بظاہر وہ چپ رہا۔
“وہ میرے دوست نہیں تھے۔ مہربانی سے، وہ وہی لوگ تھے جنہیں تم نے بیچ بازار میں ذلیل کیا تھا۔” ولید نے سخت لہجے میں کہا۔
ماہی نے فوراً تصحیح کی، “بیچ بازار میں نہیں، بیچ گراؤنڈ میں!” مسکراہٹ اب بھی اُس کے چہرے پر قائم تھی۔۔۔
ولید نے ایک لمحے کو ماہی کو دیکھا اور دل میں پھر سوچا، پھر سے اپنے مطلب کی بات پکڑ لی!
وہ قدرے تھکے ہوئے انداز میں بولا، “تم ہمیں ڈھونڈ کیوں رہی تھی؟”
ماہی نے کندھے اچکائے اور لاپرواہی سے کہا، “وہ کچھ لڑکیاں تمہیں بہت یاد کر رہی ہیں، جاؤ پہلے ان سے مل لو۔”
“ہمم، اور حارث میوزک کلاس میں ہے، جاؤ وہاں چلی جاؤ۔”
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ ماہی نے کچھ لمحے حیرانی سے اسے جاتے ہوئے دیکھا، مگر پھر کندھے اچکا کر رہ گئی۔
ولید کے قدم تیز تھے، مگر دماغ میں خیالات کی ایک جنگ چل رہی تھی۔ وہ ماہی کو کیا بتاتا کہ وہ لڑکیاں جو اس کے پیچھے تھیں، اسے وہ بالکل پسند نہیں تھیں؟ وہ تو ہمیشہ انہیں نظرانداز کرتا آیا تھا۔
پھر اسے وہ دن یاد آیا جب اس نے کہا تھا کہ اسے اردو زبان پسند ہے، اور وہ اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہیں کرتا۔ تب سے، وہ لڑکیاں اردو سیکھنے لگی تھیں۔ اسے یہ عجیب لگتا تھا کہ آخر سب کو وہ اتنا اچھا کیوں لگتا ہے؟ اس کی شخصیت میں ایسا کیا تھا جو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا تھا؟
یہ سوال شاید اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ یا شاید، وہ جان بوجھ کر اس کا جواب تلاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔
+++++++++++++++++
رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ ایم ڈی اپنے مقصود جگہ پر بیٹھا تھا۔۔۔روشنی مدھم تھی، اور سگار کا دھواں ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا۔ حامد دروازہ کھٹکھٹائے بغیر اندر آیا، جیسے ہمیشہ آتا تھا۔
“باس۔۔۔” حامد نے دھیمی آواز میں کہا۔
ایم ڈی نے سر اٹھایا اور ایک نظر اس پر ڈالی، جیسے اندازہ لگا رہا ہو کہ وہ کیا کہنے والا ہے۔
“ہاں۔۔۔” ایم ڈی نے سرسری انداز میں کہا۔
“وہ قبضہ مافیا کا ایمیل آیا ہے۔” حامد نے جلدی سے کہا۔
ایم ڈی نے گہری سانس لی، جیسے کچھ سوچ رہا ہو، اور پھر بولا، “تو ڈیل ڈن؟”
حامد ہچکچایا، پھر بولا، “نہیں باس۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ کل ایک لڑکی کا برتھ ڈے فنکشن ہے، اور اس میں اُس لڑکی نے جو ڈائمنڈ کا نیکلیس پہنے گی، وہ اگر انہیں مل جائے تو وہ ڈیل کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔”
ایم ڈی کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے سنجیدگی چھا گئی، پھر وہ سکون سے بولا، “ہاں ٹھیک ہے، کل چلیں گے، تیار رہنا۔”
حامد تھوڑا جھجکا۔
“باس، ایک پروبلم ہے۔”
ایم ڈی نے بھنویں سکیڑیں، “کیا؟”
“وہ میں کل آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا ہوں۔”
“کیوں؟” ایم ڈی کی آواز میں تھوڑی سختی در آئی۔
“آپ نے ہی کہا تھا ٹریننگ لینے کے لیے۔۔۔ ابھی وہ مکمل نہیں ہوئی۔” حامد نے وضاحت دی۔
“اچھا، ٹھیک ہے، مت جانا۔”
حامد نے سر ہلایا،
“ہاں، اور سنو، سب بندوں سے کہہ دو کہ پارٹی کے لیے تیار ہو جائیں، اور پارٹی میں میری جیسی ڈریسنگ کر لیں۔ آنکھوں میں براؤن لینس لگا لیں، جیسے میرے ہیں۔”
حامد نے حیرانی سے پوچھا، “یہ کیوں باس؟”
ایم ڈی مسکرایا، ایک ایسی مسکراہٹ جس میں چالاکی جھلک رہی تھی۔
“ایجنٹس کو گمراہ کرنے کے لیے۔۔۔” ایم ڈی نے اطمینان سے کہا۔
حامد نے سر جھکایا، جیسے سب سمجھ گیا ہو۔ پھر وہ باہر نکل گیا، اور ایم ڈی کھڑکی کے پاس جا کر شہر کی روشنیاں دیکھنے لگا۔ روشنیوں کے اس سمندر میں ایک نیا طوفان اٹھنے والا تھا، اور ایم ڈی اس کے عین درمیان میں کھڑا تھا۔
+++++++++++++++
رات کا وقت تھا، رات کی خاموشی میں چاندنی سڑکوں پر پھیل کر ہر چیز کو ہلکے سا رنگ دے رہی تھی۔ ماہی آئینے کے سامنے کھڑی بالوں میں برش چلا رہی تھی جب دروازہ کھلا اور مہر اندر داخل ہوئی۔
“ماہی، چلیں کیا۔۔۔؟” مہر نے ہلکے آسمانی رنگ کی فراک پہن رکھی تھی، جو کندھوں سے تھوڑی نیچے تک تھی، اور اس پر نرم و نازک رفلز بنے ہوئے تھے۔ اس کی کمر پر بندھی پتلی بیلٹ اس کے سراپے کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔ ہلکی ہوا کے جھونکے میں اس کے کھلے، ہلکے گھنگھر یالے بال لہرا رہے تھے، اور اس کی کلائی میں بندھی سفید بریسلیٹ چمک رہی تھی۔
اس کا معصوم چہرہ کسی گڑیا کی مانند لگ رہا تھا، ہلکی سی گلابی لپ اسٹک اور ہلکے کاجل نے اس کی سادگی میں مزید نکھار پیدا کر دیا تھا۔ وہ بےچینی سے ماہی کا انتظار کر رہی تھی،
ماہی نے آئينے میں خود کو ایک نظر دیکھا اور پھر گردن موڑ کر مہر کو دیکھا۔ “ہاں، چلو۔”
مگر جیسے ہی مہر کی نظر ماہی کے لباس پر پڑی، اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
اس نے ایک سادہ کٹ کی سیاہ جینز چنی تھی، جو اس کے جسم پر بالکل فٹ آ رہی تھی۔ اوپر اس نے ایک بلیو کلر کی ڈینم جیکٹ ڈالی تھی، جو اس کی کمر تک آتی تھی اور اس کے سلیقے کو مزید نمایاں کر رہی تھی۔ جیکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے، اور اس کے نیچے سفید گرافک ٹی شرٹ دکھائی دے رہی تھی جس پر “ربیل” لکھا ہوا تھا۔ اور چھوٹے کٹ بال ہمیشہ کی طرح کھلے پڑے تھے۔۔۔
“آہ ہ ہ ہ! یہ کیا پہنا ہے؟” اس نے حیرت اور بے یقینی سے کہا۔
ماہی نے بے پروائی سے کندھے اچکائے، “کیا؟ کپڑا ہی تو پہنا ہے۔”
مہر نے اپنا ماتھا پیٹا۔ “ماہی، مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے تم نے اپنے نہیں، بلکہ حارث بھائی کے کپڑے پہن لیے ہیں! ایسے کوئی پارٹی میں جاتا ہے کیا؟”
ماہی نے ایک نظر اپنے لباس پر ڈالی، پھر مہر کی تیاری دیکھی۔ وہ خود تو مکمل تیار ہو کر کسی ماڈل کی طرح لگ رہی تھی۔
“مجھے دیکھو، کتنی شاندار لگ رہی ہوں اور تم۔۔۔ تم تو بالکل غنڈی لگ رہی ہو!” مہر نے بے ساختہ کہا۔
ماہی نے بے زاری سے آنکھیں گھمائیں۔ “اچھا ٹھیک ہے، پھر تم اکیلی ہی چلی جاؤ، میں تو ایسی ہی جاؤں گی۔”
مہر نے ایک گہرا سانس لیا اور سر ہلایا، “افف، ماہی! اچھا چلو، ایسی ہی چلو۔”
ابھی وہ جانے کے لیے پلٹیں ہی تھیں کہ مہر نے رک کر سوچا، “اچھا سنو، ماما اس وقت گھر پر نہیں ہیں اور حارث بھائی بھی نہیں۔ ولی بھائی ہیں، لیکن اگر وہ بھی چلے گئے تو، اِسی لیے ہم گھر کی چابی لے کر چلتے ہیں۔”
ماہی نے حیرانی سے پوچھا، “خالہ کہاں چلی گئیں؟”
“وہ اپنی کسی دوست کے گھر گئی ہیں۔” مہر نے جلدی سے جواب دیا۔
ماہی نے اثبات میں سر ہلایا، جبکہ مہر نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ “اچھا سنو، میں گھر کی چابی لے کر آتی ہوں، تم ایسا کرو جا کر ولی بھائی کو بتا دو کہ گھر پر کوئی نہیں ہے، تاکہ اگر وہ کہیں جانے لگیں تو گھر بند کر کے جائیں۔”
ماہی نے سر ہلایا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ “ٹھیک ہے، ولید کو بتا دیتی ہوں۔”
یہ کہہ کر وہ ولید کے کمرے کی طرف بڑھ گئی، جبکہ مہر جلدی سے چابی لینے کے لیے ماما کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ ۔۔
ماہی نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور پھر دھیرے سے اسے کھول کر اندر داخل ہوئی۔ کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔ ولید کہیں نظر نہیں آ رہا تھا-شاید وہ اس وقت واش روم میں تھا۔ ماہی نے ارد گرد نگاہ دوڑائی، کمرے میں ہلکی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی، کھڑکی کے پردے ہوا کے جھونکوں سے ہلکے ہلکے سرک رہے تھے، اور سامنے دیوار پر گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔
وہ آہستہ سے بیڈ کے کنارے بیٹھ گئی۔ ولید کا انتظار کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور کام نہیں تھا۔ وہ گہری سانس لے کر پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور سوچوں میں گم ہو گئی۔
“یہ بھی بس… سارا دن گھر میں ہی پڑا رہتا ہے، نہ کوئی کام، نہ کوئی مصروفیت!” وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
ماہی وہیں بیڈ پر بیٹھی تھی کہ اچانک اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس فرش پر پڑی ایک چیز پر جا ٹھہری۔ ہلکی روشنی میں وہ کوئی معمولی چیز لگی، مگر دل میں جانے کیوں ایک عجیب سا تجسس پیدا ہو گیا۔
یہ کیا ہے؟
اس نے تھوڑا جھک کر غور سے دیکھا، مگر صحیح سے سمجھ نہیں آیا۔ بے اختیار وہ بیڈ سے اٹھی اور آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے پاس جا پہنچی۔ وہ چیز اٹھائی اور جیسے ہی اس پر نظر پڑی، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں-براؤن لینز !
ایک ٹوٹا ہوا، براؤن رنگ کا لینز۔
ماہی کی سانسیں ایک پل کو رک سی گئیں۔ اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔ ولید اور براؤن لینز ؟ اس کا ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو کبھی کوئی لینز استعمال نہیں کرتا تھا، اور نہ ہی ماہی نے اسے اس بارے میں بات کرتے سنا تھا۔ تو پھر یہ یہاں کیسے آیا؟
ایک لمحے کے لیے اس کا دماغ سن سا ہو گیا، جیسے کسی نے کوئی اشارہ دیا ہو، جیسے کچھ غلط ہو رہا ہو۔
یہ لینز یہاں کیوں ہے؟ کس کا ہے؟
ماہی کی نظریں کمرے میں چاروں طرف بھٹکنے لگیں، جیسے کوئی اور سراغ تلاش کر رہی ہوں۔ دل کہہ رہا تھا کہ کچھ تو ایسا ہے جو سامنے نہیں مگر کہیں نہ کہیں چھپا ہوا ہے۔
“ویسے تو کسی کے کمرے کی تلاشی لینا غلط بات ہوتی ہے، مگر اگر شک ہو تو تلاشی لے لینا چاہیے۔۔”
وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
اور ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھولی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ ایک انجانی بےچینی اس پر حاوی ہو رہی تھی۔ دراز میں مختلف چیزیں ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں، مگر ماہی کی انگلیاں ان میں کچھ خاص تلاش کر رہی تھیں۔
کیا وہ سچ میں ولید پر شک کر رہی تھی؟
یہ سوچ ہی اسے بےچین کر رہی تھی، مگر اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ حقیقت جاننا چاہتی تھی۔
+++++++++++++++
جاری ہے ۔۔۔۔
