“خوشبو انسان کو ماضی میں لے جاتی ہے۔”
ازقلم ہادیہ نعمان ۔
رات کی خاموشی میں وہ کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ باہر بارش کی بوندیں زمین سے ٹکرا کر وہ مخصوص مٹی کی خوشبو پھیلا رہی تھیں، جو دل کو ایک عجیب سی کیفیت میں ڈال دیتی ہے۔ اس نے گہری سانس لی تو یکدم ایسا لگا جیسے وہ برسوں پیچھے لوٹ گئی ہو، اُس زمانے میں جب بچپن کے دنوں میں بارش کھیل کا بہانہ ہوتی تھی۔ کھیتوں میں دوڑتے ہوئے، مٹی سے لت پت کپڑوں کے ساتھ، قہقہوں کی گونج آج بھی بارش کی خوشبو کے ساتھ زندہ ہو جاتی ہے۔
یہی تو خوشبو کا کمال ہے۔ یہ پلک جھپکتے لمحہ حال سے کھینچ کر انسان کو ماضی کی گلیوں میں لے جاتی ہے۔ خوشبو نادیدہ مگر طاقتور رشتہ ہے، جو یادوں کو وقت کے صندوقچے سے نکال کر دل کے سامنے رکھ دیتی ہے۔
خوشبو اور یادوں کا تعلق
سائنس کہتی ہے کہ خوشبو براہِ راست دماغ کے اُس حصے تک پہنچتی ہے جو یادداشت اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسی لیے جب ہم کسی مانوس خوشبو کو محسوس کرتے ہیں تو یادیں بجلی کی رفتار سے واپس لوٹ آتی ہیں۔ لیکن یہ صرف سائنسی حقیقت نہیں، یہ ایک جذباتی تجربہ بھی ہے۔ خوشبو وقت کے سفر کی وہ سواری ہے جس پر بیٹھ کر انسان اپنے ماضی کے خوبصورت یا کڑوے لمحوں تک پہنچ جاتا ہے۔
بچپن کی خوشبو
کچھ خوشبوئیں صرف بچپن کی ہوتی ہیں۔ جیسے ماں کے کھانے کی خوشبو۔ باورچی خانے سے اُٹھتی روٹی یا سالن کی خوشبو ہمیں سیدھا اُس صحن میں لے جاتی ہے جہاں ہم فرش پر بیٹھے ماں کے ہاتھ کے کھانے کا انتظار کرتے تھے۔ ماں کی خوشبو تو ویسے بھی دنیا کی سب سے محفوظ اور پرسکون خوشبو ہے۔ جب بھی کسی کپڑے میں ماں کا لمس باقی ہو، وہ دل کو سکون بخشتا ہے، چاہے ماں دور ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح اسکول کی کتابوں کی خوشبو بھی دل کو ماضی کی دہلیز پر لے جاتی ہے۔ نئی کتاب کے صفحات الٹنے پر جو خوشبو آتی ہے، وہ پہلی جماعت سے لے کر کالج تک کے سفر کی جھلکیاں دکھا دیتی ہے۔
محبت اور خوشبو
محبت میں خوشبو کا کردار اور بھی گہرا ہے۔ اکثر لوگ اپنے محبوب کی خوشبو کو یاد رکھتے ہیں۔ کوئی خاص پرفیوم یا لباس کی مہک ہمیشہ کے لیے ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ برسوں بعد اگر وہی خوشبو کہیں اور محسوس ہو تو دل خود بخود دھڑکنے لگتا ہے اور گزرے لمحے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ایک لڑکی کو اپنے محبوب کا بھیجا ہوا خط ہاتھ لگا، خط پر اب بھی اُس کی خوشبو بسی تھی، اور خط نے اسے لمحوں میں پرانی ملاقاتوں کی دنیا میں پہنچا دیا۔
غم اور خوشبو
خوشبو صرف خوشی ہی نہیں لاتی، کبھی یہ اداسی کا دروازہ بھی کھول دیتی ہے۔ کسی مرحوم پیارے کے کپڑوں میں بسی خوشبو آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔ یہ مہک ایک طرف اُس کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اور دوسری طرف جدائی کا زخم تازہ کر دیتی ہے۔
معاشرتی و ثقافتی پہلو
دنیا کی ہر ثقافت میں خوشبو کو اہم مقام حاصل ہے۔ عطر، لوبان، اگربتیاں اور گلاب کا پانی… یہ سب خوشبوئیں انسان کو روحانی طور پر بھی ماضی سے جوڑ دیتی ہیں۔ مسجد میں جاتی خوشبو، مزاروں پر جلتے بخور کی مہک یا شادی کے موقع پر لگایا جانے والا عطر، سب یادوں کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں۔
ایک ذاتی کہانی
مجھے یاد ہے ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم نانی کے گاؤں گئے تھے۔ شام کے وقت باغ میں چمبیلی کے پھول کھلتے اور ان کی خوشبو پورے ماحول کو معطر کر دیتی۔ آج جب کہیں چمبیلی کی مہک آتی ہے تو آنکھوں کے سامنے وہی گاؤں، وہی شامیں اور نانی کے ہاتھ کے پکوڑے گھومنے لگتے ہیں۔ خوشبو جیسے نانی کے دروازے پر دستک دیتی ہے اور مجھے واپس اُس آنگن میں لے جاتی ہے۔
خوشبو بطور وقت کی یادداشت
کبھی سوچا ہے کہ یادیں آنکھوں یا کانوں کے بجائے ناک سے بھی محفوظ ہو سکتی ہیں؟ یہ خوشبو ہی ہے جو وقت کو قید کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوشبو کو “یادوں کی زبان” کہا جاتا ہے۔ ایک ایسی زبان جو بغیر لفظوں کے ماضی کی کہانی سنا دیتی ہے۔
نتیجہ
خوشبو صرف ایک احساس نہیں بلکہ ایک سفر ہے۔ یہ دل کو چھوتی ہے، دماغ کو جگاتی ہے اور انسان کو لمحوں میں ماضی میں لے جاتی ہے۔ یہ خوشبو کبھی ماں کے لمس کی صورت، کبھی محبوب کے پرفیوم کی صورت، کبھی بارش کی مٹی میں اور کبھی کسی پرانی کتاب میں چھپی ہوتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقت گزرتا ہے مگر خوشبو کے ذریعے یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
ختم شد۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
