dastan e ishq

Dastan e ishq Episode 4 written by siddiqui

داستانِ عِشق ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۴

آج پھر ارحان پرنسپل کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ کمرے کی فضا میں ایک سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔

مجھے بہت شرمندگی ہوئی ہے یہ سن کر۔ کیا آپ کی یونیورسٹی کے سر ایسے ہیں؟ اب یہ سب سننے کے بعد آپ کا ردعمل کیا ہے، سر؟

پرنسپل صاحب نے کرسی پر پہلو بدلا۔
ہم معذرت خواہ ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ریحان کی ایسی حرکتوں کے پیچھے یہ سب کچھ ہے۔ لیکن۔۔۔ وہ سر تو ہمارے پرانے اور بہت اچھے استاد ہیں۔ وہ بچوں کو اس طرح ذلیل نہیں کرتے۔

ارحان کی نظریں برف کی طرح سرد تھیں۔
اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو ابھی بلا لیجیے اُن بچوں کو جو اُس وقت گراؤنڈ میں موجود تھے۔ میں یہاں آنے سے پہلے اُن سب سے بات کر چکا ہوں۔ بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ آپ خود سر کو میرے سامنے بلا لیں، اور ان سے خود ہی سوال کر لیں۔

پرنسپل صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
جی۔۔۔ ہم ابھی بلاتے ہیں۔

کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا اور اندر سر کاشف داخل ہوئے۔ وہ کیمسٹری کے استاد تھے۔ پرنسپل کی سنگین نظریں اُن پر جمی تھیں، اور ارحان اپنی جگہ سے ذرا سا بھی نہیں ہلا۔

کیا آپ نے ریحان سے یہ کہا ہے کہ وہ کہیں سے بھی میرا بھائی نہیں لگتا؟
ارحان کی آواز کمرے کی فضا کو کاٹتی ہوئی نکلی۔

سر کاشف نے بےچینی سے کہا، ہاں۔۔۔ لیکن میں تو اسے موٹیویٹ کر رہا تھا۔

ارحان کی آنکھیں لمحے بھر کو اور سخت ہو گئیں۔
کیا آپ نے ریحان کو یہ کہا کہ مجھے اِدھر اُدھر نظر مت آیا کرو؟ مجھے تمہیں دیکھ کر غصہ آتا ہے؟

سر کاشف نے گڑبڑا کر کہا، ہاں۔۔۔ لیکن—

کیا آپ نے اسے گراؤنڈ میں سب کے سامنے ڈانٹا تھا جب وہ کھیل رہا تھا؟

ہاں۔۔۔ لیکن—

اُس بولنے سے پہلے ہی ارحان پھر بولا
کیا آپ نے یہ بھی کہا کہ تمہیں اساتذہ کی عزت کرنا نہیں آتی؟

ہاں۔۔۔ لیکن۔۔۔ وہ اُن کو پوری بات بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا

اب ارحان کی آواز کاٹ دار خنجر کی مانند تھی۔
مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ جو بات میں نے پہلے آپ سے کی ہے اُس پر جلد از جلد عمل ہونا چاہیے۔

وہ پرنسپل صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، اور پھر کرسی سے اٹھ کر، اللہ حافظ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔

کمرے میں لمحہ بھر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر پرنسپل صاحب کا غصہ برس پڑا۔
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ تم نے ریحان کو یہ کہا کہ ارحان اُس کا سگا بھائی نہیں لگتا؟

سر کاشف نے ہڑبڑا کر کہا، جی، ہاں۔۔۔ لیکن میری پوری بات تو سنیں۔ میں نے اسے موٹیویٹ کرنے کے لیے کہا تھا۔ اور میں اسے فضول کیوں ذلیل کرتا؟ وہ میری کلاس چھوڑ کر گراؤنڈ میں کھیل رہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ کلاس چھوڑ کر اِدھر اُدھر نظر نہ آیا کرو، ورنہ مجھے تمہیں دیکھ کر غصہ آتا ہے۔ اور ہاں، میں نے کہا کہ اپنے بھائی سے کچھ سیکھو۔۔۔ وہ کتنا اچھا ہے۔

پرنسپل صاحب کی آنکھوں میں نم مِسری سی جم گئی، مگر لُطفِ کلام میں سختی برقرار رہی۔
موٹیویٹ کرنا ایک بات ہے اور ذلیل کرنا ایک بات۔ تمہیں یہ فرق سمجھنا چاہیے۔ ارحان اپنے بھائیوں کے معاملے میں کتنے حساس ہیں تمہیں پتا ہے؟

سر کاشف کا چہرہ سنبھلنے لگا، لیکن یہی تو آپ بات سمجھ میں نے اُسے ذلیل نہیں کیا صِرف ڈانٹا تھا اور پھر سمجھایا تھا

تُمہارے اسے سمجھنے اور موٹیویٹ کرنے کی وجہ سے تمہاری نوکری جا چکی ہے

کیا سر کاشف کے چہرے کا رنگ ایک دام سے فقہ ہُوا

پرنسپل نے بیچ میں ہی گفت رکھی اور فیصلہ کن لہجے میں کہا،
ہاں ارحان نے مُجھے صاف صاف کہہ دیا ہے لیکن میں نے تمہارا تبادلہ دوسرے کیمپس میں کر دیا ہے۔

سر کاشف نے فوراً اعتراضی انداز میں کہا، لیکن—

پرنسپل صاحب کی آواز میں اب سختی اور مصلحت دونوں کا سا مرکب تھا۔ وہ آہستگی سے آگے بڑھے، نظریں سیدھی کر کے کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے بولے:
تمہیں پتہ ہے کہ ارحان کس قدر بااثر ہے؟ صرف بزنس مین نہیں، ایک بہت بڑے گھرانے کا نام ہے۔ اس کا ناراض ہونا یونیورسٹی کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ اور اس نے مجھے واضح کہا ہے — تم اب سے یونیورسٹی میں نظر مت آنا۔

کاشف سر نے ضدی مگر کمزور لہجے میں کہا، سر، آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی — یہ سب ریحان کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں یہ سب نہیں چھوڑوں گا۔ میں ارحان کو بات کر کے سمجھو گا

پرنسپل نے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر نرم مگر فیصلہ کن انداز میں کہا، کاشف، تمہارے جذبے کی قدر ہے۔ مگر کبھی کبھی سمجھداری خاموشی میں چھپی ہوتی ہے۔ آج تم یہاں رہ کر معاملہ اور بگھاڑ دو گے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ یونیورسٹی کا امن برقرار رہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کر دیا ہے — تمہارا تبادلہ دوسرے کیمپس بھیج دیا جاتا ہے۔

کاشف نے آنکھیں چمکائیں، زور سے بولا، لیکن

پرنسپل نے بیچ میں ہی بات کاٹ دی، نہیں، ‘لیکن’ نہیں۔ تم جا کر وہاں اپنا فریضہ نبھاؤ۔ اور ہاں، یہ ذاتی الزام نہیں، یہ نظم و ضبط کا تقاضا ہے۔ اگر تمہیں اتنا غرور ہے تو وہاں جا کر دکھاؤ اپنا۔ بس ایک بات یاد رکھو — اگر دوبارہ کوئی شکایت آئی تو پھر معاملہ انتقامی ہوگا، اور میں ایسا قدم اٹھانے پر مجبور نہیں رہوں گا۔

کاشف نے چوڑا سا سانس لیا، چہرے پر غرور اور مایوسی کا ملا جُلا رنگ تھا۔ وہ منہ سے کچھ کہنے لگا تو پرنسپل نے نرم مگر واضح انداز میں کہا، تم سمجھتے ہو کہ ارحان تمہاری بات سنے گا؟ ابھی تم نے خود دیکھ لیا کہ وہ کتنا غصّہ میں تھا۔

کاشف کے ہونٹ کڑے ہو گئے۔ اس نے بالآخر ناچاہتے ہوئے سر ہلایا، اچھا سر، جی۔ میں جا رہا ہوں۔

پرنسپل نے کرسی پر ہاتھ رکھ کر کہا، چلو پھر، خدا حافظ۔
کاشف نے خاموشی کمرے سے باہر نکل گیا —

++++++++++++

اندھیری رات تھی۔ بارش کے قطروں کی جھڑی سڑکوں پر ایک عجیب سا شور برپا کر رہی تھی۔ سگنل کی لال بتی پر گاڑیوں کی قطار جمی ہوئی تھی، اور اسی شور کے بیچ ایک کالی جیپ کے ٹائر اچانک بریک کی چیخ کے ساتھ رُکے۔

دروازہ کھلا، اور جیپ سے ایک شخص اترا۔ لمبا قد، چوڑے شانے، تیز آنکھوں میں بجلی سی چمک۔ وردی کے کندھوں پر چمکتے ہوئے ستارے اس کی پہچان کروا رہے تھے—  ڈی ایس پی بالاج ثقلین

لوگ بے اختیار راستہ دینے لگے۔ بارش کی بوندیں اس کی ٹوپی پر ٹکرا کر پھسل رہی تھیں، مگر اس کے چہرے کی سختی اور آنکھوں کی گیرائی میں ایک ایسی کہانی چھپی تھی جو کسی کو سنائی نہ دیتی مگر سب کو محسوس ہوتی۔

بالاج ثقلین کی موجودگی میں ماحول خود بخود سنجیدہ ہو جاتا۔ وہ صرف پولیس آفیسر نہیں تھا، بلکہ انصاف کی ایک زندہ علامت تھا—سخت گیر، نڈر، اور اپنی ڈیوٹی کے لیے سب کچھ قربان کرنے والا۔

بالاج ثقلین نے تیز قدموں سے علاقے کا جائزہ لیا۔ لوگ سرگوشیوں میں اس کا نام لے رہے تھے، جیسے اس کی شہرت پہلے ہی ان کے دلوں میں نقش تھی۔ اچانک ایک کانسٹیبل دوڑتا ہوا آیا۔

سر! لاش ندی کے کنارے ملی ہے۔۔۔ حالات کچھ عجیب ہیں۔

بالاج نے ایک لمحہ اپنی آنکھیں سکیڑ کر بارش کے پردے کے پار اندھیرے کو دیکھا۔ اس کے اندر کا تفتیشی جاگ اٹھا۔ وہ تیزی سے جیپ میں بیٹھا اور حکم دیا
چلو! مجھے وہ جگہ دکھاؤ۔

راستہ کچا اور کیچڑ سے بھرا ہوا تھا۔ جیپ جھٹکوں سے گزرتی رہی مگر بالاج کی نظر کھڑکی سے باہر جمی رہی، جیسے وہ ہر سائے، ہر موڑ کو پڑھ رہا ہو۔

موقعِ واردات پر پہنچ کر منظر عجیب تھا۔ بارش کے پانی میں بھیگی ہوئی زمین پر ایک نوجوان کی لاش پڑی تھی۔ اس کے قریب مٹی پر خون کے دھبے اور عجیب نشانات تھے،

++++++++++++++

عبیر کبھی کبھی سوچتی تھی کہ شاید وہ واقعی قسمت کی لاڈلی ہے۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونا ویسے ہی نعمت تھی، اور اوپر سے اماں ابا کا لاڈ پیار، بھائیوں کی حفاظت اور ہر ضد کا مان جانا—یوں لگتا تھا جیسے کائنات کے سارے رنگ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے گئے ہوں۔

یونیورسٹی کے دن جیسے تیسے کٹ رہے تھے۔ کلاسز کے اختتام پر اب سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی: مستقبل۔ کوئی نوکری کے خواب دیکھ رہا تھا، کوئی بیرون ملک کے، اور کوئی شادی کے۔ اور عبیر؟ اس کا مستقبل تو جیسے پہلے ہی طے تھا۔ جب پھپھو اپنے بیٹے بلال کا رشتہ لے کر آئی تھیں، تو عبیر نے ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ کہا تھا۔ گھر والوں کی خوشی میں ہی اس کی خوشی تھی۔

بلال—وہ شخصیت جس نے عبیر کو ایک نئے رنگ میں دیکھا۔ وہ خاموش طبع، سمجھدار مگر اصولوں پر ڈٹ جانے والا شخص تھا۔ محبت میں بلال اندھا تھا، مگر اصولوں میں نہیں۔ کچھ معاملات میں وہ سختی سے اپنی بات منوا لیتا، اور یہ سختی ہی عبیر کو کبھی کبھی الجھا دیتی تھی۔

امتحانات ختم ہو چکے تھے، اور عبیر کے پاس کھلے آسمان سا وقت تھا۔ ہر روز صبح اٹھ کر وہ شادی کی تیاریوں میں جُت جاتی—کبھی ڈیزائنر کے پاس جانا، کبھی کزنز کے ساتھ خریداری، اور کبھی دلہن بننے کے خوابوں میں کھو جانا۔ کمرے کے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر وہ اکثر سوچتی:
کیا میں بلال کے مطابق بن سکوں گی؟ اس کی سختیوں کو اپنی مسکراہٹ سے نرم کر سکوں گی؟

گھر کا ماحول کسی عید کے دن کی مانند تھا۔ بھائی ہر وقت ہنسی مذاق میں لگے رہتے، امی بار بار جہیز کی لسٹ چیک کرتیں، اور ابو عبیر کو دیکھ کر ایک گہرا سانس لیتے—شاید وہ بھی اپنی بیٹی کے جانے کی گھڑیاں گن رہے تھے۔

عبیر کی زندگی ایک نئے موڑ پر تھی—ایک ایسا موڑ جہاں خواب اور حقیقت آمنے سامنے کھڑے تھے۔

شادی میں ابھی تین مہینے باقی تھے، مگر عبیر کو لگتا تھا جیسے وقت دوڑ رہا ہے۔ ہر دن کے ساتھ دل کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی۔ ایک طرف خواب تھے—لال جوڑے میں سجی دلہن کی مسکراہٹ کے خواب، اور دوسری طرف خدشے—کیا وہ بلال کے گھر کو سنبھال پائے گی؟ کیا وہ واقعی اتنی مضبوط ہے کہ اپنی ضدیں پیچھے چھوڑ دے؟

بلال اکثر فون پر اسے سمجھاتا
عبیر ! مجھے دکھاوا، فضول خرچی یا رواج نہیں پسند۔ ہماری شادی سادگی سے ہوگی۔
وہ ہمیشہ کی طرح خاموش ہو کر صرف “جی” کہہ دیتی، مگر دل ہی دل میں سوچتی
کیا ہر لڑکی کے خواب سادگی میں پورے ہو جاتے ہیں؟

عبیر اپنے خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ گورے رنگ پر شوخ آنکھیں، اور جب مسکراتی تو گال پر پڑنے والا ننھا سا ڈمپل جیسے چاند پر گڑھا لگ جائے۔ لیکن اصل کمال اس کی صورت میں نہیں، بلکہ سیرت میں تھا۔ وہ نرم لہجہ رکھتی، بڑوں کی عزت کرتی اور چھوٹوں کو پیار دیتی۔ خاندان میں سب ہی مانتے تھے کہ وہ ایک خوش اخلاق اور سب کو خوش رکھنے والی لڑکی ہے

اسی لیے جب اس کا رشتہ بلال کے ساتھ طے ہوا، تو پھپھو کے گھر میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہر کوئی کہتا تھا
بلال کے نصیب جاگ گئے، اتنی خوبصورت اور نیک دل بیوی مل رہی ہے۔

لیکن بلال… وہ کبھی یہ بات زبان پر نہیں لاتا۔ وہ تعریف کرنے والا مرد نہیں تھا۔ اس کے لیے عبیر کی اصل اہمیت اس کی خوبصورتی نہیں بلکہ اس کا صبر اور سمجھ بوجھ تھی۔

عبیر کو بلال کی یہ عادت کبھی کبھی چبھتی۔ جب کزنز یا دوست تعریف کرتے تو وہ مسکرا دیتی، مگر دل کے کسی کونے میں یہ خواہش جاگتی
کاش بلال بھی ایک بار کہہ دے کہ میں خوبصورت ہوں… یا کم از کم مجھے دیکھ کر مسکرا تو دے۔

مگر بلال اصولوں کا پکا اور جذبات چھپانے والا شخص تھا۔ وہ محبت کرتا تھا، لیکن لفظوں میں نہیں—عمل میں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے رشتے میں نرمی کے ساتھ ساتھ ایک انجانی سختی بھی شامل تھی۔

لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ خواب پگھل بھی سکتے ہیں۔
کسی کو کیا خبر تھی کہ تقدیر کبھی اچانک دستک دے کر سب کچھ بدل دیتی ہے۔

مایوں کی رات تھی۔ ہر طرف چراغاں، قہقہے، خوشبو اور رنگ بکھرے تھے۔ عبیر ہنستی مسکراتی سب کو جواب دے رہی تھی، اور کمرے کی دیواروں پر جھلملاتی بتیاں اس کے روپ کو اور بھی نکھار رہی تھیں۔ سب ہی اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔

مگر رات کے آخری پہر اچانک خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑ گئے۔ شور اُٹھا۔ عورتوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ بھائی کمرے سے کمرہ دوڑ رہے تھے۔ اور پھر وہ ایک سناٹے میں بدل گیا—

عبیر… دلہن… اپنے ہی گھر سے غائب تھی۔

ماں کا کلیجہ منہ کو آگیا۔ ابو کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ بھائی بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اور بلال کے گھر خبر پہنچی تو وہاں بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔

کسی کو سمجھ نہ آئی کہ یہ ہوا کیا ہے۔
کیا عبیر اپنی مرضی سے گئی؟
یا کوئی اسے اپنے ساتھ لے گیا؟

رات کی وہ ساعت جیسے صدیوں پر بھاری ہوگئی۔ سب خوشیاں، سب خواب، سب تیاریوں کے رنگ… ایک پل میں ماند پڑ گئے۔

+++++++++++++

ایک ہفتہ بیت چکا تھا… لیکن گلبہار کا کوئی سراغ نہ ملا۔
جہاں آرا بیگم کے آدمی شہر کے کوچہ کوچہ چھان مارنے کے بعد بھی خالی ہاتھ لوٹتے۔
ہر روز اُن کی مایوسی اور بڑھ جاتی، جیسے وہ ریت پر ہاتھ مار رہے ہوں اور وہ مزید سرک رہی ہو۔

جہاں آرا بیگم کا غصہ اب تپتے انگاروں کی مانند دہکنے لگا تھا۔
وہ شطرنج کی اس بازی کی عادی تھیں جہاں ہر مہرہ اُن کے اشارے پر چلتا… مگر اس بار ایک کمزور سا پیادہ اُن کے قابو سے نکل گیا تھا۔

گلبہار—جو اُن کی نظر میں معمولی سی لڑکی تھی—اب اُن کی شکست کی سب سے بڑی دلیل بن چکی تھی۔

رات کو جب حویلی کے اونچے صحن میں چراغوں کی لو مدھم پڑتی، اور سناٹے میں دور کتوں کے بھونکنے کی آواز گونجتی،

اگر وہ پولیس کے ہاتھوں لگ گئی نہ تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا کسی بھی حال میں گلبہار کو دھونڈو

دن گزرتے جا رہے تھے اور کہانی کی گتھیاں مزید الجھتی جا رہی تھیں۔
گلبراء کی خاموشی میں بھی ایک چیخ چھپی تھی—اور وہ چیخ ابھی دنیا تک پہنچنی باقی تھی۔

+++++++++++

سرد رات کی خنکی میں حمدان ملک اسی ویران سڑک پر کھڑا تھا۔
وہی جگہ… جہاں وہ لڑکی اُس سے ملی تھی۔
وہ لمحہ، وہ نگاہیں، اور وہ لرزتی ہوئی آواز—اب بھی اس کے کانوں میں گونجتی تھیں۔

وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہاں آئے۔ لیکن بے چینی نے اسے گھسیٹ کر لا کھڑا کیا تھا۔

ہر رات، جب وہ کروٹ بدلتا، اُس لڑکی کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔
اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی بےچینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا—گویا وہ لڑکی اس کی نیندیں بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔

حمدان نے اردگرد کی سنسانی میں نظریں دوڑائیں۔
یہ لڑکی… ضرور کسی گاؤں سے بھاگی ہوئی تھی۔ شاید قریب ہی کہیں ٹھکانا ہوگا۔
دل نے سرگوشی کی، لیکن دماغ نے جھٹکا دیا
جو بھی تھی… بھاگی ہوئی تھی۔ اور گھر سے بھاگنے والی لڑکی کا یہی انجام ہونا چاہیے۔

مگر یہ تضاد، یہی جنگ تو اس کے اندر لگی ہوئی تھی۔
دن میں وہ خود کو تسلی دیتا کہ جو ہوا، ٹھیک ہوا۔
کہ وہ ایک نیک کام کر بیٹھا ہے کہ اُس لڑکی کو نظر انداز کر کے اپنے راستے چل دیا۔
لیکن جیسے ہی رات اترتی، اور خوابوں میں وہ لڑکی اُسے اپنی بےبسی سنانے لگتی…
تو حمدان کی آنکھوں میں پچھتاوے کی کرچیاں اترنے لگتیں۔

کاش میں اُس کی بات سن لیتا… کاش میں اس کی مدد کر دیتا
یہی خیال اسے بےسکون کر دیتا۔

اب وہ اسی مقام پر کھڑا تھا—جہاں سے سب کچھ شروع ہوا تھا۔
اس کے قدم منجمد ہو گئے، دل دھڑکنے لگا، اور نظر اُس سنسانی کو چیرتی رہی جیسے اگلے ہی لمحے وہ لڑکی سایے سے نکل کر سامنے آ کھڑی ہوگی۔

لیکن سچ یہ تھا… وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اگر وہ لڑکی مل بھی گئی تو وہ کرے گا کیا۔
مدد؟ یا پھر وہی اجنبی سا رویہ؟

ہوا میں خنکی بڑھ گئی۔
سڑک پر خاموشی کا قبضہ تھا۔
اور حمدان کے دل میں وہی شور گونج رہا تھا—پچھتاوے اور خود کو سچا ثابت کرنے کی ضد کے بیچ کا شور۔

وہ اسی جگہ کافی دیر تک کھڑا رہا—رات کی ٹھنڈ میں سانس اس کے سینے سے دھند کی صورت نکال رہی تھی۔ پھر بوجھل قدموں سے گاڑی میں بیٹھا، انجن چالو کیا اور گاؤں کی تلاش میں نکل پڑا۔

چند موڑ ہی طے کیے تھے کہ سڑک کے بلکل سامنے کنارے کی طرف اُس کی نگاہ ایک لڑکی پر جا ٹھہری۔
بکھرے ہوئے بال، لہنگے پر جگہ جگہ مٹی کے داغ… اور ہاتھوں میں بھری ہوئی چوڑیاں، جو بھاگتے قدموں کی بے ترتیبی کے ساتھ کھنک رہی تھیں۔

وہ اپنے لہنگے کا دامن سنبھالتی، لڑکھڑاتی، کبھی گرتی، کبھی اٹھتی… اور پھر تیز قدموں سے چل پڑتی۔
یوں لگتا تھا جیسے اس کے قدموں کو منزل کی پرواہ نہیں، بس بھاگنا ہی اُس کی تقدیر ہو۔

حمدان کی سانس جیسے کسی نے بیچ میں سے کاٹ دی ہو۔
سینہ بھاری ہوا، دل کے اندر وہی پرانی الجھن پھر سے سر اٹھانے لگی۔
قدموں کی آواز کانوں میں گونجی، اور نگاہ اس لڑکی کے لرزتے وجود پر ٹک گئی۔

کیا یہ وہی ہے…؟
یہ سوال اس کے اندر گونجا،

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *