antal hyat

Antal Hayat Episode 6 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو

قسط نمبر ۶

کچھ دیر بعد…
حیات اُس کاؤنٹر کے پاس تھی جہاں مایا، زارا بیٹھی تھی۔۔۔ وہ وہیں کھڑی اُن سے باتیں کرنے میں مصروف تھی。。。

کیا ہو رہا ہے یہاں؟
اچانک ایک رعب دار، دھیمی آواز سنائی دی سنائی دیا
حیات کے لب تھوڑے سکڑ گئے۔

کچھ نہیں…
وہ بنا دیکھے بولی۔

تو کچھ کرو۔
امن کی نگاہوں میں نہ سختی تھی، نہ نرمی… صرف حکم کا لہجہ۔

امن کو دیکھتے زارا کو کچھ یاد آیا وہ فوراً بولی
باس، یہ مسٹر حمزہ کی بہت کالز آ رہی ہیں، آپ ان سے ایک بار مل لیں…

مایا نے بھی تائید کی،
ہاں، تین دن سے مسلسل فون کر رہے ہیں وہ۔

ہمم… تم لوگ وقت فکس کر دو۔ میں دیکھ لوں گا۔

جی ٹھیک ہے۔ زارا نے ہاں میں سر ہلایا

ہمم۔
امن نے سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا۔

چند لمحے خاموشی چھائی رہی۔

پھر حیات کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا،
واہیات انسان…

مایا نے چونک کر پوچھا،
ہاں؟؟

حیات نے جلدی سے سنبھالا،
کچھ نہیں… میں جا رہی ہوں۔

اور وہ اپنے مخصوص انداز میں وہاں سے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔

شام کے سائے جب آفس کی کھڑکیوں پر جھولنے لگے تو سارا عملہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ چکا تھا۔ اب صرف چار چہرے رہ گئے تھے—امن، نتاشا، زويار اور حیات۔
آفس کی چھٹی ہو چکی تھی…سب اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔

حیات نے بھی سکون کا سانس لیا اور اپنا بیگ پیک کرنا شروع کیا۔ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے اُس نے فون نکالا اور کال ملائی۔
ہیلو، ڈیڈ؟

بیٹا تم ٹیکسی یا کیب سے آجاؤ، میں بزی ہوں، یہاں سے نہیں نکل سکتا تمہیں لینے…

حیات چند لمحے خاموش رہی،
اچھا ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں، میں آ جاؤں گی۔ کال کٹ گئی۔

ایک تو یہ ڈرائیور انکل کو بھی آج ہی بیمار ہونا تھا… وہ زیرِ لب بڑبڑائی۔
حیات نہ صرف اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی، بلکہ ایک ایسی بیٹی تھی جس نے زندگی میں صرف پرنسیسز ٹریٹمنٹ ہی دیکھا تھا۔ صبح آفس آنا ہو یا واپس جانا، ہر وقت ایک آرام دہ گاڑی، ڈرائیور، اور نخرے اٹھانے والے لوگ اُس کے ساتھ ہوتے تھے۔۔۔
تبھی…

چلو، جانا نہیں ہے؟
امن کی آواز سنائی دی جو کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔

ہاں، چلے۔
حیات نے ایک ہلکی سی سانس لی، بیگ اٹھایا اور قدم بڑھائے۔
حیات نے ٹیکسی بک کر لی تھی۔
وہ پارکنگ اریا کی طرف کھڑی، اپنے بیگ کو کندھے پر سنبھالے، موبائل پر نظریں جمائے، آنے والی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی۔

امن نے ایک نظر اُس پر ڈالی،
تمہارا ڈرائیور نہیں آیا؟ اُس کی آواز میں سوال کم اور مشاہدہ زیادہ تھا۔

نہیں…
حیات نے بے زاری سے منہ بنایا۔ چہرے پر ناراضگی تھی، جیسے دنیا کی ہر مصیبت اُس پر ہی آتی ہو۔

تو اب؟ امن کی نظریں اُس کے چہرے پر جمی رہیں

اب کیا؟ ٹیکسی بک کی ہے، آ ہی جائے گی۔
وہ ہونٹ چبا کر بولی، جیسے اقرار کرنے میں بھی انا آڑے آ رہی ہو۔

اچھا ٹھیک ہے۔
یہ کہہ کر امن نے چابی گھمائی اور اپنی کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔

جیسے ہی اُس کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی،

حیات کا اندر زور زور سے چیخ اٹھا۔
ایک نمبر کا بےحس انسان ہے یہ… انسانیت کے ناتے ہی کہہ دیتا کہ میں چھوڑ دیتا ہوں۔ پر نہیں! ان کے پاس دل ہے ہی نہیں۔

وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے بڑبڑاتی رہی۔
اگر ٹیکسی والا اغوا کر لے تو؟ یا قتل ہی کر دے؟
حیات نے کبھی تنہا اس طرح سفر نہیں کیا تھا۔ اُس کی ہر راہ پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سایہ رہا تھا — والدین کا، ڈرائیور کا، مگر آج، اُس کا سایہ بھی اس کے ساتھ نہیں تھا۔
ٹیکسی آئی، اور وہ اس میں بیٹھ گئی۔
چند لمحوں بعد، جیسے ہی گاڑی روانہ ہوئی،
حیات کی نظریں خودبخود شیشے پر جا ٹکیں۔
اور پھر…
کچھ تھا اُس پیچھے آتی سیاہ کار میں۔
کچھ غیر معمولی، کچھ پرسرار۔
جیسے کوئی سایا تھا جو اُس کی سانسوں کا تعاقب کر رہا ہو۔
Black mafia-looking car…
ایک سایہ، ایک دھڑکن کے ساتھ ساتھ چلتا دھڑکا۔
وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی، اور گاڑی وہیں… ویسے ہی پیچھے۔

یا اللہ خیر!
دل بے قابو ہونے لگا، ہاتھ سرد پڑنے لگے۔
دماغ میں وہی سوال گونجنے لگا
یہ کون ہے؟ پیچھا کیوں کر رہا ہے؟ اغوا؟ قتل؟ بدلہ؟
کیا میں ڈرائیور کو بتاؤں؟
مگر فوراً ہی دل میں شکوک کا سیلاب آیا
کہیں وہ بھی مل نہ گیا ہو اُن کے ساتھ…؟
وہ دھیرے سے زیرِ لب آیت الکرسی پڑھنے لگی۔
دھڑکتے دل اور لرزتے لبوں سے، اُس نے جیسے رب کو آواز دی
یا اللہ! میری حفاظت فرما اور اپنی رحمت کے فرشتے مقرر فرما، جیسے ہم نے سنا ہے۔

ڈرائیور نے پلٹ کر پوچھا
مام، سب خیریت ہے؟

ہاں، بس جلدی چلائیں… دیر ہو گئی ہے۔ ماما انتظار کر رہی ہوں گی۔
وہ جلد بازی میں بولی،

اوکے…
ڈرائیور نے رفتار تیز کی، مگر خوف نے بھی ساتھ ساتھ رفتار بڑھا لی۔

تمہیں پتا ہے، میں امن جنید خان کے آفس میں کام کرتی ہوں۔ اگر میں لاپتہ ہوئی، تو وہ مجھے زمین کی تہہ سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے! اُس نے ڈرائیور کو ڈرنا چاہا۔۔۔

واقعی؟ تو آپ خوش نصیب ہیں، لوگ تو اُن کے دفتر میں جاب کے لیے سالوں انتظار کرتے ہیں… ڈرائیور حیران ہُوا

ہاں، پتہ ہے۔
وہ بے نیازی سے بولی، مگر دل اب بھی اُسی سایے کی گرفت میں تھا۔

گاڑی رکی۔
آپ کا گھر آ گیا، مام!

شکر ہے!
وہ تیزی سے اتری، پیسے دیے، اور دروازے کی طرف لپکی۔

مگر جیسے ہی دروازے پر نظر پڑی…
وہی سیاہ کار… گلی کے کونے پر… خاموش… چپ چاپ کھڑی۔
جیسے اُسی لمحے کا انتظار ہو، جب وہ ٹیکسی سے اترے۔
یا اللہ! آج تو گئی…!
حیات نے خوف سے دروازہ بجانا شروع کیا—
زور سے، جلدی سے، مسلسل…
دروازہ کھولو… پلیز!
کچھ ہی لمحوں بعد دروازہ کھلا۔
کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو؟ آواز نہیں جا رہی تھی کیا؟ وہ اندر آتے ہی چیخی۔۔

جی وہ… گھر میں مہمان آئے ہیں، سب مصروف تھے۔ ملازمہ نے حیرت سے دیکھا۔

اگر تم نے ایک سیکنڈ کی بھی اور دیر کی ہوتی نہ… تو میری شکل تمہیں کبھی دوبارہ نہ نظر آتی!
وہ پسینے میں شرابور، سرد ہو چکی تھی۔

کیا مطلب؟ کیا ہوا؟

بعد میں بتاؤں گی… ابھی اندر جانا ہے!
وہ فوراً اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بیگ پھینکا، پردے ہٹائے، اور بالکونی کی طرف لپکی۔
مگر وہاں… کچھ نہیں تھا۔
نہ سیاہ گاڑی، نہ سایہ، نہ دھڑکن۔
بس رات تھی… اور ایک خیال
کیا وہ صرف میرا وہم تھا… یا کسی نے واقعی میرا تعاقب کیا تھا؟

++++++++++++++

کمرے میں مدھم روشنی تھی۔ زینب بیگم دروازے پر آئیں۔
بیٹا، کیا ہوا؟ ان کے لہجے میں نرمی تھی، فکر تھی۔
ثانیہ بتا رہی تھی، تم بہت ڈری ہوئی تھیں…

حیات نے ہچکچاتے ہوئے نظریں چرائیں۔ پھر آہستگی سے بولی، 
ہاں ماما… آپ کو پتا ہے، جب میں آفس سے نکلی… تو راستے میں ٹیکسی میں میرے پیچھے ایک سیاہ کار میرا پیچھا کر رہی تھی، مکمل مافیا جیسی لگنے والی کار… سیاہ، مسلسل میرا پیچھا کرتی رہی۔

ہائیں؟
زینب بیگم  کے ماتھے پر بل پڑے، لیکن اُن کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ بھی تھی — جیسے وہ یہ سب ایک فلمی کہانی سمجھ رہی ہوں۔ “واقعی؟”

ہاں ماما، سچ میں… میں نے کئی بار شیشے سے دیکھا، وہ کار مسلسل پیچھے تھی، جیسے کسی نے مجھے ٹارگٹ کیا ہو۔

زینب بیگم  نے ایک لمحے کو اُسے دیکھا، پھر نرمی سے بولیں اچھا، خیر… چھوڑو۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ تم بس تھک گئی ہو، اور دماغ بھی شاید وہی آفس کی ٹینشن لے آیا ہے۔ آؤ، کھانا کھا لو، پھر آرام سے سو جانا۔

نہیں… حیات نے سر نفی میں ہلا دیا۔
مجھے بھوک نہیں ہے… میں سونا چاہتی ہوں۔

ٹھیک ہے بیٹا، جیسا تم کہو۔ زینب بیگم نے اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا، نرمی سے دبایا، اور کمرے کی لائٹس بند کر کے باہر چلی گئیں۔

اب اندھیرا تھا..۔
خاموشی تھی…

لیکن دل میں اک طوفان برپا تھا۔

حیات بستر پر لیٹی تھی، مگر نیند اُس سے کوسوں دور تھی۔
آنکھیں بند کرتی، تو وہی سیاہ کار نظروں کے سامنے آ جاتی۔
اُس کے دل و دماغ میں صرف ایک ہی سوال گونج رہا تھا۔
کیا وہ کار واقعی میرا پیچھا کر رہی تھی؟
یا یہ سب میرے وہم کا حصہ تھا؟
اگر وہ لوگ ابھی بھی میرے گھر کے باہر ہوں تو؟
اگر وہ موقع کا انتظار کر رہے ہوں تو؟
اگر وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہوں تو…؟
یہ خیالات اُسے چین سے سونے نہیں دے رہے تھے۔
وہ کروٹیں بدلتی رہی، کبھی تکئے میں منہ چھپا لیتی، کبھی دروازے کی طرف دیکھتی۔
بالآخر…
وہ بستر سے اٹھی، دبے قدموں کھڑکی کی طرف گئی، پردہ ہٹا کر گلی کی طرف جھانکا۔
خاموشی تھی۔
ہر چیز عام سی لگ رہی تھی۔

مگر…
دل کے اندر کا خوف عام نہ تھا۔
پتا نہیں وہ کون تھے…
وہ زیرِ لب بولی۔

بس یااللہ! میری حفاظت فرما… میں اکیلی ہوں، کمزور ہوں، لیکن تُو سب کچھ دیکھتا ہے۔
وہ پھر سے واپس بستر پر آگئی۔

اس بار اُس نے آیت الکرسی پھر سے پڑھی، اور خود کو رب کے سپرد کر دیا۔

+++++++++++++

رات کے 30 : 9 بجے…
گھڑی کی سوئیاں جیسے امن کی تاخیر پر انگلی اٹھا رہی تھیں۔امن کے گھر میں داخل ہوتے ہی۔۔۔سارا بیگم  نے سوال دغا ۔۔۔
اے… تو اتنا لیٹ کیوں آ رہا ہے؟ کہاں گیا تھا؟ بتایا بھی نہیں!
امن اپنے گھر میں سب کچھ شیئر کرنے والا لڑکا تھا۔ کبھی بھی بغیر بتائے کہیں نہیں جاتا۔ وہ وقت کا بہت پابند تھا۔ نہ ایک منٹ زیادہ، نہ ایک منٹ کم۔ روزانہ صبح 9:00 بجے دفتر جاتا تھا مگر آج… کچھ مختلف ہوا تھا۔)

امن نے شفاف لہجے میں کہا
ہاں دادی… بس راستے میں ایک دوست مل گیا تھا، اُس سے باتوں میں وقت نکل گیا۔ وہ یہ کہہ کر سیدھا کمرے میں چلا گیا۔

سارا بیگم  حیرت سے جنید صاحب  کی طرف دیکھ کر بولیں
پہلے تو کبھی ایسا نہیں کیا، ہر کام وقت سے کرتا ہے…

جنید صاحب  نے مسکرا کر کہا چھوڑو، ہو سکتا ہے واقعی پرانے دوست سے ملاقات ہو گئی ہو۔

++++++++++++

زینب بیگم  نے حیات کے کمرے سے نکلنے کے بعد ساری باتیں ندیم صاحب کو بتا دیا۔ وہ سن کر سنجیدہ ہو گئے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ زینب بیگم  بولیں۔

کیوں نہیں ہو سکتا؟ ندیم صاحب نے نرمی سے کہا، وہ ایک بڑے بزنس مین کی بیٹی ہے۔ اور اب تو آفس میں بھی کام کرنے لگی ہے۔ دھیان رکھو، آئندہ اسے اکیلا مت بھیجنا۔

آپ نے ہی تو کہا تھا کہ ٹیکسی سے آجائے، ڈرائیور بیمار تھا۔

ہاں… میں نے ہی کہا تھا۔خیر، جو ہوا سو ہوا۔ آئندہ احتیاط کرنا۔

 اور زینب بیگم  نے اثبات میں سر ہلایا۔

+++++++++++++

اذلان کمرے میں داخل ہوا، امن لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف تھا۔

بھائی… اس نے بہت پیارے سے پُکارا اور جب اذلان ایسے پُکارے تو سمجھ جانا اذلان کو تُم سے کچھ چاہیے۔۔۔

کیا ہے؟ امن نظریں ہٹائے بغیر بولا

یار بھائی… اُس نے پھر اُسے لہجے میں کہا

ہمم، بولو۔ وہ ابھی بھی بنا نظرے اٹھائے کہا

اذلان کی آواز بلند ہوئی بھائی میں تم سے بات کر رہا ہوں!

امن نے اب نظریں اٹھائیں بولو بھی ۔

اذلان نے مصنوعی ناراضی سے کہا مجھے نظرانداز کیا جانا پسند نہیں!

یہاں اذلان اور دانیال ایسے بھائی ہیں جو سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر اگنورنس ہرگز نہیں۔ اگر وہ کسی سے مخاطب ہوں تو سامنے والا بھی پوری توجہ سے اُنہیں سنے۔ خاص طور پر اپنے پسندیدہ لوگو کے ہاتھوں۔۔۔۔

لیکن دانیا‌ل؟ وہ کچھ اور تھا۔ وہ اپنی انا پر نظرانداز کو زہر سمجھتا۔ اپنا ہو یا پرایا—کوئی بھی ہو—اگر اُس کی بات سنی ان سنی کی گئی، تو وہ پل بھر میں “آگ” بن جاتا۔

ہمم… پتہ ہے، کام کی بات کرو! امن نے اذلان کی بات کاٹتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔

اچھا سُنو… وہ جھجھکتے ہوئے بولا

ہمم… امن اب بھی اُسی سنجیدہ موڈ میں تھا۔

بھائی وہ… اذلان بات مکمل بھی نہ کر پایا کہ امن نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا
جلدی بولو… میرے پاس ٹائم نہیں ہے!

اذلان جھلا اٹھا ہاں، جیسے میں تو فارغ ہوں نا!
اچانک دروازے کے پاس سے گزرتے دانیال کی نظر کمرے کے اندر پڑی۔ وہ رُک گیا، اور حسبِ عادت تبصرہ کیے بغیر نہ رہ سکا وہ تو تُو ہے!

اذلان پلٹا تو… تو دفع ہو یہاں سے! ہر بات میں ٹانگ اڑانے چلا آتا ہے!

دانیال دروازے پر کھڑا مسکرا رہا تھا میں تو آؤں گا۔

تیری ٹانگ توڑ دوں گا! اذلان غصے میں بولا۔۔۔

بھائی دیکھو، دیکھو! مجھے دھمکی دے رہا ہے! اب وہ کمرے کے اندر داخل ہو چکا تھا

امن نے غصے سے کہا جو کہنا ہے، جلدی کہو، ورنہ میں سونے جا رہا ہوں!

دانیال نے شرارت سے کہا بھائی، تمہارے سونے کے علاوہ کوئی کام بھی ہے؟

یہ بات کون کر رہا ہے، جو دن بھر سوتا ہے! اذلان نے فوراً دانیال کی ٹانگ کھینچی۔۔۔

دانیال سینہ تان کر بولا دانیال امن جنید خان بات کر رہا ہے!
اور صوفے پر چڑھ کر بیٹھ گیا وہ امن سے اتنی محبت کرتا تھا کے اُس کا نام بھی ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ لگاتا تھا۔۔

امن غصے سے چلایا نیچے اُترو!

اذلان بھی پیچھے نہ رہا ہاں! بندر ہے نا… جب دیکھو جہاں دیکھو، چڑھ جاتا ہے!

دانیال نے منہ بنایا زیادہ فری نہ ہو..

اور وہ امن کی تیوری دیکھتے ہی فوراً صوفے سے نیچے اتر آیا
چھوڑو اِس نفسیاتی کو، میری بات سنو… اذلان نے کہا

ہاں، سناؤ نا… اب وہ امن کے برابر صوفے پر آ بیٹھا

تو دفع ہو جا یہاں سے! نہیں تو تُو آج میرے ہاتھوں سے ضائع ہو جائے گا۔ ازلان کی آواز پتھر پر چوٹ کی طرح گونجی۔

دانیال نے آنکھیں سکیڑ کر بُرا سا منہ بنائے کہا بھائی، دیکھو تو سہی یہ مجھے کیا بول رہا ہے…

ازلان، زبان سنبھال کے بات کرنا سیکھ لو… امن نے سنجیدگی سے تھوڑی خفکی سے کہا

اچھا سیکھ لوں گا۔ وہ بھی… پہلے تم میری بات تو سنو۔ اذلان نے سنجیدگی سے کہا

بول بھی دے! دانیال نے بیزاری سے کہا، جیسے اسے پوری گفتگو میں بس اپنا جملہ کہنے کا موقع چاہیے۔

تو دفع ہو نا یہاں سے… ازلان کے لہجے میں غصہ تھا

میں تو نہیں جاؤں گا! دانیال کی ضد برقرار تھی۔ جیسے ضدی بچوں کی ہوتی ہے، جو اپنی ماں کو غصے میں دیکھ کر اور ضد کرنے لگتے ہیں۔

باہر جا! اذلان پھر غصے میں بولا۔۔

کہہ رہا ہوں، میں نہیں جاؤں گا! دانیال کی مرضی کے بنا کوئی دانیال کو ہلا کے دیکھا دے

چپ ہو جا! وہ اب غصے میں بیزاری سے بولا

اچھا۔ اور پھر… دانیال نے اپنی انگلی آہستگی سے ہونٹوں پر رکھ دی۔ جیسے معصوم بچوں کی طرح، جو سزا سے پہلے ہی فرمانبردار بن جائیں۔

ازلان نے گہری سانس لی۔ وہ خاموشی، جو اسے چاہیے تھی، اسے مل گئی تھی۔ عارضی ہی سہی۔

تم دونوں کا ہو گیا ہو تو میں سو جاؤں؟ امن نے تھکن سے لبریز آواز میں کہا

ارے بھائی! بات تو سنو۔ ازلان نے ہاتھ جوڑنے والے انداز میں کہا۔

بولو گے تو سنوں گا نا؟

ہاں تو وہ۔۔۔ ازلان نے جملہ شروع کیا ہی تھا کہ دانیال نے ہاتھ اٹھا کر معصومیت سے پوچھا،
میں ایک بات بولوں؟

ازلان نے گھور کر دیکھا، نہیں، چپ بیٹھ۔

اوکے۔ اور وہ پھر اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھے، کسی چھوٹے سے بچے کی طرح، سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

بھائی، مجھے میرا کریڈٹ کارڈ واپس کر دو… ازلان نے وہی انداز اپنایا جو بچوں کا ہوتا ہے جب وہ ماں سے ضد کرتے ہیں۔

امن نے پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، اور سیدھا دروازے کی طرف اشارہ کیا، وہ رہا باہر جانے کا راستہ۔

بھائی… ازلان نے منہ بنایا، آواز میں معصومیت کی آمیزش ڈال کر کہا، اب نہیں کروں گا نا، تم دے دو میرا کارڈ…

جب تک تمہاری سزا پوری نہیں ہوگی، کوئی کارڈ نہیں ملے گا تمہیں۔

ابھی دونوں کی تکرار چل ہی رہی تھی کہ اچانک کمرے کے سامنے نصب بڑی ایل اي ڈی میں سے ایک ہلکی سی چنگاری نکلی۔ ازلان کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ اگلے لمحے ایک زوردار بوم! کی آواز سنائی دی۔ کمرہ ایک لمحے کو تھرّا اٹھا۔ روشنی کا ایک فلیش، ایک دھواں، اور پھر سناٹا۔

یہ کیا حرکت ہے؟ کوئی مجھے سکون سے بات کیوں نہیں کرنے دیتا؟! ازلان نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر چلّایا، جیسے یہ دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی ہو۔
چپ کرو! امن کی پیشانی پر بل تھے۔ وہ صوفے سے اٹھا اور تیزی سے ایل اي ڈی کے قریب گیا، جو اب بجھ چکی تھی — جیسے زندگی کا آخری منظر دکھا کر خاموش ہو گئی ہو۔

جو بھی ہو، ایک ایل اي ڈی ہی تو تھا… ازلان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

اپنے کمرے میں جاؤ! امن کی آواز میں اب وہی بڑا بھائی والا حکم تھا، جس سے کوئی بحث نہیں کی جا سکتی۔

لیکن بھائی… ازلان نے کچھ کہنا چاہا ہی تھا کہ دانیال نے درمیان میں ٹانگ اڑا دی۔

میں نے پہلے ہی کہا تھا! اور مت دو مجھے بولنے! وہ جیب میں ہاتھ ڈالے، ٹھنڈی سنجیدگی سے بولا۔

کیا مطلب؟ امن نے چونک کر پوچھا۔

مطلب یہ کہ جب ہلکی ہلکی چنگاری نکل رہی تھی، میں نے دیکھا تھا… بتانے لگا تھا تو یہ ازلان بیچ میں بول پڑا — اب بھگتو انجام! دانیال نے ایک جیتے ہوئے سپاہی کی طرح گردن اکڑا کر کہا، اور مزے سے جیب میں ہاتھ ڈالے، کمرے سے باہر نکل گیا۔

امن نے سر پکڑ لیا، افف… سارے نمونے میرے ہی پاس آ گئے ہیں! اور تم؟

اس نے ازلان کی طرف دیکھا، کیا کھڑے ہو کے تماشہ دیکھ رہے ہو؟ جاؤ اندر!

بھائی… کارڈ؟ ازلان نے پھر وہی ضد دہرائی، جیسے سارا مسئلہ ایل اي ڈی کا نہیں، کارڈ کا ہو۔

امن نے بس ایک نظر اذلان کو گھورا۔۔۔
اچھا، اچھا… جا رہا ہوں، غصہ کیوں کر رہے ہو…
ازلان نے جلدی سے بات سمیٹی، اور بغیر مزید کچھ کہے، کمرے سے نکل گیا۔

+++++++++++++

ایک مہینے بعد
ایئر کنڈیشنر کی ہلکی سی ٹھنڈک اور فائلوں کی مدھم سرسراہٹ کے درمیان، امن نے حلق صاف کیا۔
اہم، اہم …

حیات، جو اپنی کرسی پر آدھی نیند میں جھول رہی تھی، فوراً سیدھی ہو کر طنزیہ انداز میں بولی،
جی فرمائیے، آپ کی کنیز، آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

امن نے نظریں اٹھائیں، ماتھے پر ہلکی سی تیوری،
یہ کیلنڈر کیوں نہیں پلٹا تم نے؟

حیات نے کرسی سے ٹیک لگا کر ہاتھ ہوا میں پھیلائے،
اگر آپ اپنے پیارے، نرم و ملائم ہاتھوں سے خود پلٹنے کی زحمت کر لیں، تو یقین کریں… آپ کے ہاتھ ٹوٹ کر نہیں گریں گے۔

لیکن یہ تمہارا کام ہے۔ امن نے سنجیدگی سے کہا

اوہ! مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔ تھینک یو سو مچ بتانے کے لیے…
حیات نے مصنوعی شکر گزاری سے آنکھیں جھپکائیں۔

ویلکم… امن نے نرمی سے کہا۔

واٹ ایور… حیات نے کرسی سے اٹھتے ہوئے منہ بنایا، اب پلٹ رہی ہوں، پلٹ رہی ہوں…
پھر وہ کیلنڈر کا صفحہ بدل دیا۔

گڈ! امن نے مطمئن انداز میں کہا۔

ایک منٹ! ایک منٹ! حیات کی آواز میں اچانک جوش آ گیا۔

کیا؟ امن نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

یَہ ہووووو! حیات خوشی سے اچھلنے لگی، جیسے کسی بچے کو اچانک چھٹیاں مل گئی ہوں۔

امن نے حیرت سے اسے دیکھا،
ہوا کیا ہے؟ بولو گی یا ناچتی رہو گی؟

ابھی آپ کو بتاؤں گی، تو آپ بھی میری طرح ناچنے لگیں گے!
حیات نے معصومانہ فخر سے کہا۔

سیریسلی؟ امن نے ایک بھنویں اٹھا کر کہا۔

جی جی! حیات نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

بتاؤ پھر ؟!

مجھے آپ کے آفس میں کام کرتے ہوئے ایک مہینہ مکمل ہو گیا… فائنلِی!
حیات نے دونوں ہاتھ فضا میں اٹھا دیے۔

امن نے کندھے اچکائے،
تو اس میں ناچنے والی کون سی بات ہے؟

مطلب… اب میں آزاد! اب میں گھر جا سکتی ہوں… اور دِیر تک سو سکتی ہوں!
حیات نے جیسے خود کو قید سے رہائی کی خوشخبری سُنائی ہو۔

اہم اہم… امن نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ حیات نے انگلی اٹھا کر روک دیا،

چُپ ہو جائیے! اب کوئی منحوس خبر سنا کر میرا موڈ خراب کرنے کی بالکل ضرورت نہیں!

اور امن نے لبوں پر آتی مسکراہٹ کو بمشکل روکا…
آفس کا معمولی سا دن، ایک چھوٹے سے کیلنڈر کے پلٹنے سے خوشی کا تہوار بن چکا تھا۔

تین مہینے کا کہا تھا ایک مہینے کا نہیں، وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔

ہنہ؟؟؟؟؟ یہ کیا مذاق ہے بھااااااائییییییی!!!
حیات کی آواز پورے کیبن پر گونجی، جیسے کسی نے اس کی آزادی پر شب خون مار دیا ہو۔

جی نہیں، یہ مذاق نہیں ہے۔ اب جائیں، یہ فائل ذویار کو دے آئیں، کہیں وہ ری چیک کرے، اور مجھے فوراً اطلاع دیں۔
امن نے فائل اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے جیسے سزا کا پروانہ تھمایا۔

اُفففففف، اللّٰہ!
حیات نے زمین پر پیر پٹخا اور غصے سے آگے بڑھی، لیکن تیز رفتاری میں جیسے ہوا سے باتیں کر رہی ہو، دروازے سے جا ٹکرائی۔

اوہ پاگل لڑکی! دیکھ کے نہیں چل سکتی؟! امن اپنی کرسی سے جھٹ اٹھ کھڑا ہوا۔

آہہہہہ… میرا سر… مجھے چکر آ رہے ہیں…
حیات نے فوراً اداکاری کی دنیا میں قدم رکھ دیا، جیسے کسی ڈرامے کا کلائمیکس ہو۔

ہاں تو دیکھ کے چلنا چاہیے تھا نا! امن نے جیسے حقیقت کی دنیا میں کھینچنے کی کوشش کی۔

غلطی آپ کی ہے۔

اب اس میں بھی میری غلطی؟ آپ بتانا پسند کریں گی کیسے؟ امن نے سنجیدگی سے کہا۔

ہاں تو صبح صبح اتنی منحوس خبر سنائیں گے تو ساتھ ایسا ہی ہوگا نا!

امن نے سر ہلایا، جیسے کسی بچے کو منانے کی کوشش کر رہا ہو۔
اچھا جی، مان لیا… میری غلطی ہے، سوری بس…

حیات نے مصنوعی سنجیدگی سے سر ہلایا،
ہمم، گُڈ۔

اب دکھاؤ کہاں لگی ہے؟ امن نے فکرمندی سے کہا۔

یہاں۔ اُس نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا۔

زاویار اور نتاشا کا کیبن ایک ساتھ تھا، اور امن کے کیبن کا اندر کا منظر صاف تو نہیں، مگر دھندلا دھندلا دکھائی ضرور دیتا تھا۔
نتاشا، جو فائل پر جھکی ہوئی تھی، اچانک اس کے ہاتھ تھم گئے۔ نگاہ بے اختیار شیشے کی طرف گئی۔ پردے آدھے کھلے تھے — اور وہ منظر، جو اُس کے سامنے تھا، اسے چند لمحوں کے لیے اس دنیا سے کاٹ چکا تھا۔

یہ سب منظر نتاشا کے نظروں کے سامنے تھا۔
وہ اپنی کرسی پر بیٹھی، چہرہ شیشے کی طرف موڑے، آنکھوں میں ایک عجیب سی چبھن لیے، زیرِ لب بڑبڑائی،
یہ باس کچھ زیادہ ہی فری نہیں ہو رہے اُس لڑکی کے ساتھ… کون ہے یہ؟

ہمم؟ زویار کی آواز ساتھ سے اُبھری۔

نتاشا نے شاید محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ پاس ہی بیٹھا۔
ہاں، کچھ نہیں۔ وہ فوراً سنبھلی، اور چہرہ دوسری طرف کر لیا۔

زویار نے گردن ترچھی کی، آواز میں سختی تھی، آنکھوں میں تحقیر۔
تم نا یہ کیا جاہل لڑکیوں کی طرح خود سے باتیں کرتی رہتی ہو، کام پر دھیان دو۔

نتاشا نے تنک کر جواب دیا،
تم بھی اپنا کام کرو۔

زویار کرسی سے ذرا آگے جھکا، لہجہ سرد تھا،
زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں تمہیں بھی یہاں سے فائر کر سکتا ہوں۔ سو بی کیئر فل۔

نتاشا نے بمشکل چہرے پر غصہ چھپایا، مگر دل میں تپش بھڑک اُٹھی — آیا بڑا…!
دل میں بڑبڑائی، لب خاموش، مگر آنکھوں میں طوفان۔

++++++++++++

جاری ہے ۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *