میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )
باب دوم: گریم ریپر
قسط نمبر ۵
وہ خاموشی سے آ کر انیسہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
نہ کوئی لفظ، نہ کوئی شکایت۔ بس تھکن، جیسے سارا بوجھ اس ایک لمس کے سپرد کر دیا ہو۔
انیسہ بیگم نے دھیرے سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا شروع کیا، جیسے ہر تھپکی میں کوئی دُعا، کوئی تسلی چھپی ہو۔
جب تُو چھوٹا تھا نا امن، تو یونہی میرے پاس آ کر لیٹ جاتا تھا، اور میں یونہی تیرے بال سنوارتی رہتی تھی، بس اب فرق یہ ہے کہ تب تُو خوابوں سے لڑتا تھا، اب حقیقتوں سے۔
امن نے آنکھیں بند کر لیں۔
اس کے ہونٹ خاموش تھے، مگر دل جیسے دھڑکنوں میں کہہ رہا تھا
یہی جگہ ہے جہاں سب سچ برداشت ہوتا ہے، جہاں میں صرف ‘امن’ ہوں، باقی سب کچھ باہر رہ جاتا ہے۔
انیسا بیگم کے ہاتھوں کی تھپک جیسے ہر زخم پر مرہم رکھ رہی تھی۔
کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک اور تسبیح کی سرسراہٹ باقی رہ گئی تھی
اور ایک ماں کی دعا، جو ہمیشہ خاموشی سے قبول ہو جاتی ہے۔
+++++++++++
پولیس کی گاڑی، گیٹ سے نکلی تو لمحے بھر کو پورا تھانے کا احاطہ دھول میں لپٹ گیا۔
گاڑی کی رفتار، جیسے وقت سے بھاگ رہی ہو…
جیسے کسی حقیقت تک پہنچنے میں ایک پل کی بھی دیر، سب کچھ بدل دے گی۔
مایرا اگلی سیٹ پر بیٹھی تھی،
چہرہ سپاٹ، مگر اندر ایک طوفان جیسے دل کی دھڑکن سے جا بجا ٹکرا رہا ہو۔
دعا پچھلی سیٹ پر خاموش بیٹھی تھی،
آنکھوں میں سوال تھے، زبان پر نہیں۔
راشد صاحب ڈرائیونگ سیٹ پر تھے، مگر ان کے ہاتھوں کی گرفت عجیب سی سخت تھی —
جیسے وہ صرف اسٹیئرنگ نہیں، اپنا غصہ بھی قابو میں رکھے ہوئے ہوں۔
پانچ منٹ اور
مایرا نے خود سے کہا، مگر وہ الفاظ گاڑی کی کھڑکی سے باہر اڑتی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
گاڑی کی بتیاں، سائرن کی آواز اور اندر کا سکوت —
تینوں الگ الگ دُنیا کے نمائندے تھے۔
گاڑی نے ایک موڑ کاٹا —
اور دور سے، امن کا گھر…
جیسے ایک مضبوط قلعہ، جو اب گرفتاری کے بھاری قدموں سے لرزنے کو تیار کھڑا تھا۔
پولیس والے پہلے سے موجود تھے۔
سفر کا آخری لمحہ آ چکا تھا۔
گاڑی جیسے رُکی، مایرا نے سانس اندر کھینچی۔
اسے یاد آیا، کتنی بار اس نے امن کو نیوز کانفرنسز میں، جلسوں میں، بڑی بڑی تقاریر میں دیکھا تھا۔
چمکتے اسٹیج کی روشنیوں میں وہ مرد جس کے لفظوں میں بغاوت تھی،
لہجے میں یقین،
اور آنکھوں میں وہ خواب، جو شاید اس قوم نے برسوں بعد کسی کے چہرے پر دیکھے تھے۔
اور آج—
آج وہ اُسی شخص کے سامنے جانے والی تھی۔
مگر نہ اسٹیج تھا، نہ روشنی،
نہ ہجوم، نہ تالیوں کی گونج۔
صرف خاموشی کا ہال،
قانون کا سایہ
اور ایک الزام،
جو اس شخص کے گرد موت کی طرح لپٹا تھا۔۔۔
صحن کے بڑے لوہے کے دروازے پر جیسے ہی دھڑ سے پولیس کی گاڑی رُکی، نوکروں اور مالیوں کی نظریں حیرت سے اٹھیں، کچھ نے فوراً اندر اطلاع دوڑائی، کچھ وہیں ساکت کھڑے رہ گئے۔
مگر اس بار—یہ عام آمدورفت نہیں تھی۔
یہ وہ لمحہ تھا، جو دیواروں کو بھی کان دے دیتا ہے۔
پولیس گارڈز—وردی میں ملبوس، سنگین چہروں کے ساتھ—کسی کی پروا کیے بغیر، ٹھہرے ہوئے قدموں اور خاموش اختیار کے ساتھ اندر داخل ہو گئے۔
مایرا سب سے آگے تھی۔
سپاہی دونوں اطراف میں، اور اس کے پیچھے رشید صاحب۔۔
مایرا جیسے ہی اندر داخل ہوئی، پہلا منظر جو اس کی نظروں میں بجلی کی طرح کوندا، وہ لونج کا وہ گوشہ تھا، جہاں امن، اپنی دادی کی گود میں سر رکھے بیٹھا تھا۔
وہی امن،
جس کے لیے ٹی وی پر اینکرز لڑتے تھے،
جس کی بات پر نوجوان جان دیتے تھے،
جس کی مسکراہٹ میں مستقبل کی چمک تھی۔
اور آج—
وہ کسی معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا ۔۔
انیسہ بیگم کا ہاتھ اس کے بالوں میں تھا،
مایرا کا قدم جیسے وہیں رک گیا،
یہ پولیس یہاں کس لیے آئی ہے؟
انیسہ بیگم کی آواز پر وہ چونکا اور جھٹ سے سیدھا ہوا، دادی کی گود سے اٹھا،
اور ایک لمحے میں، وہی چہرہ جو ابھی معصوم لگ رہا تھا،
اچانک ایک لیڈر جیسا کھڑا تھا۔
سید امن حنان افتخارِ ہم آپکو اپنے ساتھ لے جانے آئے ہیں رشید صاحب نے آگے آکر بڑھ کر کہا۔
آپ کے پاس ثبوت ہے؟
وہ آواز نہیں، گرج تھی۔
کس بنیاد پر آپ میرے پوتے کو ساتھ لے جا رہے ہیں؟
افتابی روشنی کے بادل سے نکلتے، افتخار صاحب ــ
سفید شلوار قمیص، اوپر سے ہلکی نیوی واسکٹ میں،
ابھی ابھی اپنے اسٹڈی روم سے نکلے تھے۔
ان کی آنکھیں… عمر رسیدہ تھیں مگر کمزور نہیں —
بلکہ ایسی تھیں جیسے برسوں کی سیاست، قربانیاں،
اور وفاداریاں اُن میں بستیاں بسا چکی تھیں۔
رشید صاحب نے ایک پل کو نگاہ جھکائی،
مگر اُن کی ذمہ داری، اُن کی وردی،
اُس جھکی ہوئی نگاہ سے زیادہ مضبوط تھی۔
امن صاحب، پر شک ہے کہ نادیہ فیروز کی ہسپتال میں موت کی تفتیش میں،
آپ کی جماعت کے ایک رکن کا سی سی ٹی وی میں آنا، اور ایک رپورٹر کو دھمکی ملنے کی شکایت، یہ سب، ہمیں یہاں لایا ہے۔
انہوں نے تھوڑا آگے بڑھ کر، آنکھوں میں وہی پرانی سختی لیے،
رشید صاحب کی طرف دیکھا، جیسے سوال نہیں،
برسوں پرانی دیانتداری کا ثبوت مانگ رہے ہوں۔
شک…؟
ان کا لہجہ سرد تھا،
ایک افتخار کو، تم ‘شک’ پر لے جانا چاہتے ہو؟
مایرا نے آگے بڑھ کر احترام سے کہا،
سر، یہ گرفتاری نہیں، صرف تحقیقات کا ایک مرحلہ ہے۔
امن صاحب کو شاملِ تفتیش کیا جا رہا ہے، نہ کہ مجرم سمجھ کر حراست میں لیا جا رہا ہے۔ عدالت کے حکم پر ، اور قانون کے مطابق۔
امن نے نرمی سے انیسہ بیگم کا ہاتھ چھوڑا،
اُن کی طرف ایک لمحہ دیکھا،
پھر افتخارِ صاحب کے پاس آیا —
دادا، اگر میں نہیں گیا، تو یہ لوگ اپنے شک کو سچ بنا ڈالیں گے۔ لیکن اگر میں گیا، تو شاید سچ کی ایک لکیر کھنچ جائے گی۔ اور مجھے اپنی صفائی کا پورا حق چاہیے۔
افتخار صاحب کی آنکھوں میں جیسے کوئی پرانا زخم تازہ ہو گیا ہو، وہ جو ساری عمر الزامات کو لفظوں سے، اور سازشوں کو تعلقات سے توڑتے آئے تھے —
آج انہیں اپنا خون خود، قانون کے آگے پیش کرنے آ گیا تھا۔
امن کی بات سن کر انہوں نے تھوڑا پیچھے ہو کر راستہ دیا، جیسے اجازت دے دی ہو اور بس اتنا کہا —
جا… لیکن ایک بات یاد رکھ —
افتخار کا بیٹا کبھی بغاوت کرے تو سیاست ہار سکتا ہے،
لیکن اگر وہ جھکے — تو افتخار کا نام مر جاتا ہے۔
امن نے اثبات میں سر ہلایا —
اور تیز قدموں سے آگے بڑھا۔
مایرا نے دروازہ کھولا،
اور پولیس کے جوانوں نے خاموشی سے گھیرا بنایا۔
گاڑی کا دروازہ کھلا،
امن نے پلٹ کر صرف ایک بار دیکھا —
اور بیٹھ گیا۔
وہ دونوں — افتخار صاحب اور انیسہ بیگم — دروازے پر ساکت کھڑے تھے۔
امن، جسے ہمیشہ فخر سے دیکھتے آئے تھے، آج پولیس کے ساتھ چپ چاپ چلا گیا تھا۔
افتخار صاحب نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا،
یہ وہی راہ ہے، جو میں نے چنی تھی،
مگر میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ وہ اس راہ پر میرے کندھے سے نہیں، میرے نام سے لڑے گا۔
انیسہ بیگم نے جیسے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے پوچھا،
کیا آپ کو یقین ہے، وہ بےقصور ہے؟
افتخار صاحب نے نظریں ہٹائے بغیر کہا،
یقین؟
پھر سانس لیا،
میں جانتا ہوں، وہ سچ کے لیے لڑتا ہے۔
اور جو سچ کے لیے لڑے،
وہ ہار سکتا ہے، گِر سکتا ہے،
مگر قاتل نہیں ہو سکتا۔
لیکن کسی نے بھی سیری کی ریلنگ پر کھڑی اُس لڑکی پر توجہ نہیں دی تھی —
وہ جو خاموشی سے کھڑی تھی چُپ چپ۔
ہوا اُس کے بالوں سے کھیل رہی تھی، مگر اُس کی آنکھیں کسی اور طوفان کا پتہ دے رہی تھیں۔
ابھی جس وقت جو تکلیف میں محسوس کر رہی ہوں
اُس نے لبوں کو سختی سے بھینچتے ہوئے خود سے کہا،
اس سے زیادہ دہلادینے والی تکلیف تمہیں ہو ، ریپرِ
تم مرو…
اُس کی آواز سانس سے زیادہ دھیمی مگر زہر سے لبریز تھی۔
تم اُس تکلیف سے مرو جو کسی بےگناہ کو بدنام کر کے ملتی ہے۔
ریلنگ کے نیچے شہر کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں،
مگر اُس کے اندر صرف اندھیرا تھا..
+++++++++++++
اسکرین پر لال رنگ کی بریکنگ نیوز پٹی دوڑ رہی تھی۔
ہیڈلائن:
افتخارِ صاحب کے نواسے سید امن حنان افتخار کو پولیس نے حراست میں لے لیا!
کیمرہ اینکر پر زوم کیا گیا — چہرے پر سنجیدگی، آواز میں سنسنی۔
ناظرین! کراچی کی سیاست میں بھونچال —
سید افتخار کے نواسے، معروف سیاسی رہنما اور نوجوان لیڈر امن افتخار کو آج رات ان کے رہائش گاہ سے پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
اس کے بعد ویڈیو کلپ چلی —
امن کو پولیس کے بیچ سے نکلتا دکھایا گیا،
اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی، مگر نظر جھکی نہیں تھی۔
ذرائع کے مطابق، نادیہ فیروز کے کیس میں نئے شواہد سامنے آئے ہیں۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں امن کی پارٹی کا ایک شخص اسپتال میں داخل ہوتا دیکھا گیا ہے،
جبکہ ایک معروف رپورٹر نے پارٹی کی جانب سے دھمکیاں ملنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
اس کے بعد اسکرین پر مختلف سیاسی تبصرہ نگار نظر آئے:
کوئی کہہ رہا تھا — یہ ایک سازش ہے
کوئی بولا — یہی وقت ہے کہ امن خود سچ سامنے لائے
اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا —
سیاسی مستقبل خطرے میں ہے۔ امن افتخار اگر بے قصور ہے، تو اُسے ہر الزام کا سامنا کرنا ہوگا، ورنہ یہ خاموشی، سیاست نہیں، کمزوری سمجھی جائے گی۔
ٹی وی کے سامنے بیٹھی وہ چپ تھی، لیکن اُس کے اندر توڑ پھوڑ مچی ہوئی تھی۔
اُس کا دل چیخ رہا تھا، تڑپ رہا تھا، خود کو روکنے کی کوشش میں اور زیادہ زخمی ہوتا جا رہا تھا۔
خبر بار بار دہرائی جا رہی تھی۔
امن کے چہرے کی کلپ دوبارہ آئی —
وہ پولیس والوں کے درمیان چل رہا تھا،
پر اُس کی آنکھوں میں…
یسرٰی کو سب سے زیادہ خوف اس بات سے آیا کہ وہ آنکھیں جھکی نہیں تھیں۔
وہ بے قصور ہے۔۔۔
یسرٰی کے لبوں سے خود بخود نکلا۔
وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا، اُسے الزام دیا جا رہا ہے، ضرور کوئی سازش ہے۔۔۔
اس کے دل نے جیسے اُس لمحے قسم کھا لی تھی —
جتنے بھی الزام لگیں، میں اُس پر یقین نہیں چھوڑوں گی۔
کیوں؟ کیونکہ میں اُس پر صرف اعتماد نہیں کرتی،
میں اُس سے محبت کرتی ہوں۔
یسرٰی نے آنکھوں کی نمی صاف کی،
سانس اندر کھینچی، اور سر اُٹھایا۔
اور پہلی بار اُس کے اندر ایک فیصلہ بیدار ہوا
اگر دنیا کی سچائی جھوٹ ہو گئی،
تو میں امن کا سچ بن جاؤں گی۔
مُجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا
وہ اُٹھی، اپنے روم کی طرف گئی، اور لمحے بھر میں کمرے چینج کرتی باہر نکل گئی۔
++++++++++++++
امن کو گرفتار ہوئے آج تیسرے دن کا سورج طلوع ہوا تھا۔
جیل کی دیواریں خاموش تھیں، لیکن شہر کے کوچے، گلیاں اور نیوز چینلز چیخ رہے تھے۔
اور الیکشن؟ وہ صرف سات دن دور تھا۔
سات دن، جن کے بعد یا تو امن تاریخ رقم کرتا،
یا وہ صفحات سے کٹ جاتا—بغیر کچھ کہے، بغیر کچھ کیے۔
اگر وہ الیکشن سے پہلے باہر نہ آیا، تو وہ جیتنے سے پہلے ہی ہار چکا ہوگا۔
یہ الفاظ اُس لڑکی کے تھے، جو ریپر کے سامنے کھڑی تھی۔
وہی لڑکی، آج اس کی بلی جیسی آنکھوں کا رنگ ایسا تھا،
جیسے جامنی دھند میں کوئی سچ چھپا ہو۔
وہ بول رہی تھی، تیز تیز، جیسے وقت اس کے مقابل ہو۔
ایک ایک کر کے ساری نیوز ریپر کے سامنے رکھ چُکی تھی۔
یہ سب ریپر نے کیا ہے، اور دنیا کو یہ جاننا چاہیے!
ریپر نے صرف اتنا کہا —
…آگے وہ لڑکی جانتی تھی، اُسے کیا کرنا تھا۔
+++++++++++++
کمرے میں صرف ایک پنکھا چل رہا تھا، اور دونوں بزرگوں کی باتوں کی تپش اس گرمی سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔
افتخار صاحب کے بنگلے کی دوسری منزل پر، رؤف صاحب صوفے کے کونے پر بیٹھے تھے،
چہرے پر ناپسندیدگی صاف جھلک رہی تھی۔
یہ کیا کیا ہے آپ کے پوتے نے میرے ساتھ؟
ان کی آواز میں صرف شکوہ نہیں تھا، انا کا زخم بھی شامل تھا۔
افتخار صاحب نے گھڑی اتار کر میز پر رکھی اور پرسکون انداز میں مسکرا کر بولے،
تو تم بھی تو پاگل ہو، جانتے نہیں میرے پوتے کو؟ جو منہ پہ آتا ہے، بول دیتا ہو۔ تمہیں قتل کا الزام دے دیا؟
رؤف صاحب کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔
مجھے لگا، اس نے واقعی مروا دیا ہوگا۔ یہ لڑکا تو ہر وقت انصاف، سچ، حق—یہی کچھ بک بک کرتا رہتا ہے۔ اگر ایسے ہی رہا نا، تو ایک دن منہ کے بل گرے گا!
افتخار صاحب نے آنکھیں آہستہ سے بند کیں، جیسے کوئی پرانی یاد تازہ ہو گئی ہو۔
اللہ نہ کرے، میرے بچے کے لیے بددعا نہ نکالو زبان سے۔ اور زیادہ بولنے کی بھی ضرورت نہیں، بہتر ہے خاموشی اختیار کرو۔ نیا نیا ہے، جوان خون ہے، جوش تو مارتا ہی ہے۔ ہم بھی تو جب سیاست میں آئے تھے، ایسے ہی تھے۔ جذباتی، نڈر، زبان میں کاٹ تھی۔ اب دیکھو، تھم گئے، سیکھ گئے۔
انہوں نے پانی کا گلاس رؤف صاحب کے سامنے رکھا، جیسے غصے کو بھی سیراب کرنا ہو۔
وہ بھی سیکھ جائے گا، سمجھ جائے گا، مگر اگر تم جیسے لوگ اس پر زبردستی کرو گے تو جو سیاست اُس کے ہاتھ میں آنی ہے، وہ بھی کھسک جائے گی۔
رؤف صاحب نے گلاس کو ہاتھ نہ لگایا، بس آنکھوں میں وہی غصہ لیے بولے،
اور اب؟ اب کیا کروں میں؟ اس نے مجھے سب کے سامنے اتنا ذلیل کیا ہے۔ میری پوزیشن، میرا قد، کچھ نہیں چھوڑا!
افتخار صاحب نے ہلکی سی سانس لی، جیسے ایک اور بڑی بات کہنے جا رہے ہوں۔
تو کس نے کہا تھا زبان دراز کرو؟ برداشت سیکھو۔ تم جیسے بزرگ اگر برداشت نہیں کریں گے تو یہ نوجوان کیا خاک سیکھیں گے؟
پھر وہ تھوڑا قریب ہو کر دھیمی آواز میں بولے
اچھا، میں بات کروں گا امن سے۔ مگر پہلے یہ بتاؤ، جیل سے باہر کیسے نکالوں اُسے؟ اس کا کوئی راستہ بتاؤ مجھے۔
رؤف صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر آہستہ سے بولے
راستے ہیں، مگر قیمت بھی ہے۔ اور یہ لڑکا تو قیمت دینے کو تیار ہی نہیں لگتا۔
افتخار صاحب نے نظریں چھت کی طرف اٹھا لیں،
جیسے اُس لڑکے کو دعا دے رہے ہوں جو اصول پر ڈٹا تھا۔
+++++++++++++
سب کچھ ٹھیک تھا…
یا کم از کم یہی دکھایا جا رہا تھا۔
شہر اپنی رفتار میں تھا، نیوز چینلز اپنی ریٹنگز کے پیچھے، سوشل میڈیا پر وی لاگرز، تجزیہ نگار، تبصرہ نگار… سب مصروف۔
امن کی بھی نیوز وقتاً فوقتاً چل رہی تھی۔
پھر…
ایک لمحہ آیا۔ ایسا لمحہ جو وقت کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا — اس سے پہلے اور اس کے بعد۔
اچانک ہر اسکرین پر ایک ہی کلپ چلنے لگا۔
ہر نیوز چینل، ہر انسٹاگرام پیج، ہر فیس بک پروفائل، ہر یوٹیوب چینل، ہر ٹوئٹر فِیڈ — سب پر ایک ہی ویڈیو۔
ہر اسکرین سیاہ ہو گئی۔
ایسی جیسے کوئی نظر نہ آنے والا ہاتھ پوری دنیا کے ڈیجیٹل نیٹورک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہو۔
سیاہ پس منظر، سناٹا، اور صرف ایک ہی سایہ۔
ریپر۔
وہ کسی تاریکی میں بیٹھا تھا۔ چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، صرف اس کی آواز گونج رہی تھی — گہری، سرد آواز۔
نادیہ فیروز کا قتل… ریپر نے کیا ہے۔
خاموشی…
پھر وہی آواز، مگر اب اس میں اعلان تھا۔ شدت تھی۔
کراچی میں جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں، ان سب کا ذمہ دار میں ہوں۔ ان سب کا ذمہ دار ریپر ہے۔
جب تک گریم ریپر زندہ ہے، ایک بھی سیاستدان زندہ نہیں رہ سکتا۔
اور اب… امن کی باری۔
آواز میں ایسا سکوت تھا… جو ہڈیوں تک اُتر جائے۔
لفظ الگ نہیں لگتے تھے، جیسے سائے خود بول رہے ہوں۔
پھر وہ لمحہ آیا…
جب اس نے امن کے لیے اعلان کیا۔
امن اب اپنی اُلٹی گنتی گننا شروع کر دے
تمہاری سانسیں اب میری مرضی سے چلیں گی…
تمہارے ہاتھ میں قدرت کا قلم تھا… مگر اب میرے ہاتھ میں تمہارا آخری صفحہ ہے۔
اور پھر اچانک… ویڈیو ختم۔
اسکرین سیاہ ہوئی، اور نیا سین شروع ہوا۔
سفید روشنیوں والا ہسپتال۔ خاموش راہداری۔
نادیہ فیروز کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھلا۔
دو لڑکیاں اندر داخل ہوئیں۔
سیاہ جینز، چہرے پر ماسک، اور سروں پر سیاہ پی کیپ — جن پر سفید حروف میں صرف ایک لفظ لکھا تھا:
REAPER
ایک لڑکی آگے بڑھی۔ نادیہ نیند کے آغوش میں تھی۔
لڑکی نے خاموشی سے تکیہ اٹھایا، اور نادیہ کے چہرے پر رکھ دیا۔
ساکت، مگر سفاک حد تک مکمل۔
نادیہ کی سانسیں، جیسے دھاگہ ہو جو آہستہ آہستہ ٹوٹ گیا ہو۔
دوسری لڑکی نے کیمرے کی طرف دیکھا۔
ماسک کے پیچھے آنکھوں میں وہ چمک تھی، جیسے اعلان کر رہی ہو کہ
ہم آپ کے سامنے ہیں، کیا کر لوگے؟
اس نے ہاتھ ہلایا۔
اور منظر تاریکی میں ڈوب گیا۔
+++++++++++++
خبرناموں کا انداز ہی بدل گیا تھا۔
کمرشلز بند، موسیقی بند، اور ہر نیوز اینکر کے چہرے پر ایک ہی تاثر—خوف زدہ حیرت۔
ہم آپ کو ایک غیر معمولی اور چونکا دینے والی خبر دے رہے ہیں… ریپر، جس کا چہرہ آج تک کسی نے نہیں دیکھا، آج رات خود منظرِ عام پر آ گیا۔
ایک چینل کا اینکر جھجھکتے ہوئے بولا
کیا یہ اعتراف تھا یا دھمکی؟ کیا واقعی نادیہ فیروز کو قتل کیا گیا؟ اور کیا امن اگلا نشانہ ہے؟
ٹکرز چیخ رہے تھے
AMAN IN DANGER
REAPER RETURNS
SILENT KILLER SPEAKS OUT
ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام—سب پر صرف ایک ہی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا تھا:
#ReaperConfession
#JusticeForNadia
#SaveAman
وی لاگرز نے فوری رِیئیکشن ویڈیوز ڈال دیں۔
Guys, I just saw the Reaper clip. I’m literally shaking!
Bro, did Reaper just confess murder live on every screen?! That’s next level Dark Web stuff!
کچھ اسے ساویئر کہہ رہے تھے، کچھ سائیکو کریمنل۔
اور کچھ صرف خاموش تھے، اپنے فون کی اسکرین پر وہ آخری جملہ دہراتے ہوئے
امن اب اپنی اُلٹی گنتی گننا شروع کر دے
چائے کی دکانیں، جام ہوتے سگنلز، بسوں میں، کالجز کے کیفےٹیریاز میں—ہر جگہ صرف ریپر کی بات ہو رہی تھی۔
بھائی، یہ تو کوئی عام بندہ نہیں ہے، نظام کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔
یار، مجھے تو لگتا ہے پولیس بھی ملی ہوئی اس کے ساتھ۔
امن کو فضول کا جیل میں ڈالا دیا۔
لوگ خوفزدہ تھے، اور سب سے زیادہ امن کے لیے فکر مند۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ایمرجنسی اجلاس بلایا گیا۔
وزیروں کے چہرے فکرمند تھے۔
ایک سینیٹر نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر کہا
یہ اگر کل تک گرفتار نہ ہوا، تو ہماری ساکھ خاک میں مل جائے گی!
کچھ نے اسے انارکی کہا، کچھ نے ڈرامہ، اور کچھ نے سرگوشی میں سچ مان لیا۔
اور جیل کی کوٹھری میں بیٹھے امن کے سامنے ایک چھوٹا سا، بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی چل رہا تھا۔
ریپر کی وہی آواز… وہی دھمکی۔
امن اب اپنی اُلٹی گنتی گننا شروع کر دے
امن نے ٹی وی بند نہیں کیا۔
اس نے خاموشی سے اسکرین کو گھورا، اندھیرے کی سیاہی میں چھپے اس ایک سائے کو دیکھنا چاہ
اور اس کی خاموش مسکراہٹ بتا رہی تھی
میں تیار ہوں۔
+++++++++++++
ظفر خاموشی سے اپنے فون پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
ریپر کی وہ ویڈیو جیسے اس کے ذہن میں کیل کی طرح گڑ گئی ہو۔
آنکھوں میں غصے کی چنگاریاں تھیں، لیکن لب—خاموش۔
بس ایک گھٹتا ہوا اشتعال، جو انگلیوں کی جنبش سے صاف ظاہر تھا۔
اس نے دانت پیسے، ہاتھ میں موبائل مضبوطی سے تھاما۔
شٹ…
(ایک دبی گالی)
اب سالے کو رہا کرنا پڑے گا…
دروازہ دبے پاؤں کھلا،
مایرا اندر آئی، سپاٹ چہرہ، مگر آنکھوں میں آگ۔
سر، یہی آپ اگر کسی مجرم کے لیے کہتے، تو شاید تھوڑا اچھا لگتا…
ظفر نے سر اٹھا کر مایرا کو دیکھا۔
کیا کام ہے؟
مایرا نے شانے اچکائے۔
کچھ نہیں، اب شاید اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ظفر کی آواز میں الجھن تھی
کس کی؟
مایرا آگے بڑھی، میز پر ایک فائل پٹخی—وہ فائل جس کی قیمت شاید امن کی زندگی تھی۔
جب آپ آرام سے اس کرسی پہ بیٹھے تھے، اور باقی آفیسرز بھی چائے کے کپ میں انصاف کو گھول رہے تھے، تب کوئی تفتیش نہیں کر رہا تھا۔ سب بس انتظار میں تھے… کہ کب امن کا کیریئر دفن ہو۔
ظفر خاموش رہا۔
مایرا نے بات جاری رکھی، اب کی بار لہجہ سرد تھا، شاید کچھ بے بسی بھی شامل تھی:
لیکن میں اِنصاف کے ساتھ آج بھی کھڑی ہوں، سر۔ میں نے وہ فائل نکلوائی۔ وہ فاروق، جو امن کی پارٹی کا بندہ ہے، وہ نادیہ کے ہسپتال گیا تھا… مگر نادیہ کو مارنے نہیں، اپنی نانی کو دیکھنے۔
وہ ظفر کی طرف جھکی، تصویریں دکھائیں جو کیمرے سے لی گئی تھیں—فاروق کے آنے اور جانے کی۔
ایک نرس نے بتایا—وہ مرد نادیہ کے قتل سے پہلے آیا، اور نادیہ کے قتل سے پہلے ہی نکل بھی گیا۔ نادیہ کے کمرے کا کیمرہ غائب تھا، باقی ساری جگہوں پر کیمرے تھے۔ اور پولیس؟ صرف انٹری کیمرہ دیکھ کے الزام لگا دیا۔
ظفر نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔
مایرا نے ایک لمحے کو اُسے دیکھا—وہی خاموشی، وہی بے حسی۔
اوہ… کون نرس تھی؟
ظفر نے آخرکار پوچھا،
مایرا نے اسے کچھ لمحوں تک ویسے ہی دیکھا جیسے کراچی خود اپنے محافظوں کو دیکھتا ہے۔
تبھی فون بجا۔ میز پر رکھی اسکرین چمکی۔
High Authority Call
ظفر نے کال اٹھائی، چند لمحے بات کی، اور کال بند کر کے میز پر فون پٹخ دیا۔
سالے کو رہا کرنا پڑے گا… اوپر سے الگ سے سیکیورٹی بھی دینی ہے! یہ ریپر منحوس نے سارا کام خراب کردیا ہے۔۔۔
مایرا کے اعصاب جیسے کھچ گئے۔
غصے کو حلق سے نیچے اتارا، لیکن لہجے کی تہذیب برقرار رکھی۔
آپ کے سالے نہیں لگتے، وہ۔
وہ آہستہ سے بولی، تمیز سے۔ مگر ہر لفظ نشتر تھا۔
ویسے سر، مبارک ہو آپ کو ایک بے گناہ کو پروٹیکٹ کرنے کا حکم مل گیا۔ پہلی دفعہ سسٹم نے کسی ٹھیک بندے کے لیے آرڈر دیا ہے۔
اب کی بار اُس کی آنکھوں میں چمک تھی۔
ظفر نے کچھ نہیں کہا۔ نہ برا منایا، نہ تسلیم کیا۔ اوپر سے آرڈر تھا، مانا تو پڑے گا۔
ظفر کا چہرہ سپاٹ تھا، آواز میں روایتی خشک پن
آفیسر سیلیکٹ کرو، جو امن کی سیکیورٹی میں جائے گا۔
سر… کیا میں بھی امن کی سیکیورٹی ٹیم میں شامل ہو سکتی ہوں؟
اب کی بار اُس کی آواز میں نرمی تھی—کام نکلوانا تھا نا۔
ظفر نے نظریں اٹھا کر مایرا کو دیکھا۔
ایک پل کے لیے اُس کے چہرے پر کچھ ہلا نہیں—نہ حیرت، نہ سوال، نہ امید۔
پھر وہ ویسے ہی سرد لہجے میں بولا
نہیں۔
مایرا کا سینہ جیسے کسی نے اندر سے دبا دیا ہو۔
لب بھینچے، سانس روکی… لیکن پھر بھی بولی
کیوں؟ میں وہی آفیسر ہوں جس نے سچ تلاش کیا۔ وہی، جس نے ثابت کیا کہ امن بے قصور ہے۔ اب جب وہ خطرے میں ہے، میں اس کے ساتھ ہونا چاہتی ہوں۔
ظفر نے کرسی سے ٹیک لگائی
کیونکہ تم جذباتی ہو۔ اور ریپر جذبات کو نہیں بخشتا۔
مایرا ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گئی۔
وہ لمحے بھر کو کچھ نہ بول سکی۔
ظفر نے کاغذات اٹھا لیے، جیسے اس مکالمے کا اختتام بس اس کے ایک جملے سے ہو چکا ہو۔
لیکن مایرا ابھی مکمل چُپ نہ ہوئی تھی۔
اس کے اندر ایک طوفان تھا، جو نہ چیختا تھا، نہ گرجتا، بس خود کو اندر ہی اندر تباہ کرتا تھا۔
اگر جذباتی ہونا جرم ہے، تو شاید مجھ جیسی عورتوں کو یہ وردی پہننے کا حق ہی نہیں۔ لیکن سر، جذبات ہی وہ چیز ہیں جو ہمیں ‘فائل’ اور ‘انسان’ کے بیچ کا فرق سکھاتے ہیں۔
آفیسر، مجھ سے بحث نہ کرے۔ میں نے کہہ دیا ہے، اب نہیں جا سکتی تو نہیں جا سکتی۔
ظفر نے سرد لہجے میں کہا۔
ظفر نے ایک سرد سانس لی۔
مایرا کے الفاظ…
فائل اور انسان کے بیچ کا فرق
جیسے کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئے۔
لیکن اس کے چہرے پر اب بھی وہی بے تاثر لکیر کھنچی تھی—
جیسے جذبات کسی اور درجے کا جرم ہوں۔
مایرا نے آہستہ سے آنکھیں بند کیں۔
اس کی پلکوں کے نیچے ایک لرزتا ہوا عکس تھا—
نہ آنسو، نہ کمزوری،
بس وہ لمحہ، جب سچ کی آواز ‘نہ’ کے سامنے بے بس ہو جائے۔
وہ خاموشی سے پلٹی۔
چند قدم چل کر دروازے تک پہنچی،
پھر رکی۔
اس کی پشت ظفر کی طرف تھی، آواز مضبوط مگر دبی دبی
سر، آپ مجھے سیکیورٹی ٹیم میں نہیں جانے دے رہے ، یہ آپ کا اختیار ہے۔ مگر سچ کے ساتھ کھڑے رہنا، میرا فرض ہے۔ اور یہ فرض میں آپ کی اجازت کے بغیر بھی نبھا سکتی ہوں۔
دروازہ کھلا۔
ایک ہلکی سی ہوا اندر آئی،
شاید ایک نئی سحر کی نوید لیے۔
مایرا دروازے سے نکل گئی۔
اس کی پشت پر چلتی ہوا، اور اس کے دل میں جلتا ارادہ—
امن کو بچانا تھا، چاہے وردی ساتھ ہو یا نہ ہو۔
ظفر خاموش بیٹھا رہا۔
+++++++++++++++
ٹی وی بند ہوا تو کمرے میں ایک گہرا سناٹا اُتر آیا۔
ایسا سناٹا جو صرف خبروں کے شور کے بعد آتا ہے،
جب حقیقت اور خوف آپس میں گھلنے لگیں۔
دادو نے گردن موڑی،
يسریٰ کی طرف دیکھا اور ہولے سے مسکرا کر بولیں
چلو، اب خوش ہو جاؤ… وہ اب جیل سے باہر آ جائے گا۔
اور جیسے ہی یہ جملہ ادا ہوا،
وہ اپنی سفید چادر کو کندھوں پر درست کرتی،
اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں،
یوں جیسے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو گیا ہو۔
اور یسریٰ؟
وہ صوفے پر بیٹھی، ٹی وی کی کالی اسکرین کو گھورتی رہی،
جیسے کالی اسکرین سے کوئی سچ نکل آئے گا،
کوئی حل، کوئی اطمینان۔
لیکن وہاں کچھ نہیں تھا—
نہ روشنی، نہ یقین… بس ایک خاموش سیاہی۔
دل میں ایک عجیب سا کھچاؤ تھا۔
کیا دادی نے سنا نہیں؟
یا سنا، اور پھر بھی نظر انداز کر دیا؟
کیا ان کے لیے ریپر کی دھمکی بس ایک سیاسی ڈائیلاگ تھا؟
یا پھر اُن کی عمر نے اُن سے خوف چھین لیا تھا؟
یسریٰ نے آہستہ سے پلکیں جھپکیں۔
ایک آنسو نکلا،
جیسے دل کے اندر بھرا پانی لبوں تک آنے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔
یا اللہ… کیا کروں؟
میں کچھ نہیں کر سکتی،
کچھ بھی نہیں۔
اس نے سر ہاتھوں میں رکھ لیا۔
پاؤں خود بخود فرش پر رگڑنے لگے، جیسے زمین سے کوئی سہارا تلاش کر رہی ہو۔
ایک پل کو، دل چاہا کہ چیخ پڑے۔
اپنی بے بسی، اپنا ڈر— سب دنیا کو بتا دے۔
جب تک ریپر زندہ ہے، کوئی سیاستدان زندہ نہیں رہ سکتا…
اور اب امن کی باری ہے۔
امن اب اپنی اُلٹی گنتی گننا شروع کر دے۔
یسریٰ کے کانوں میں ریپر کی وہی دھمکی،
وہی آواز گونج رہی تھی۔۔۔
+++++++++++++
وہ جیل سے باہر نکلا تو سامنے آفیسر ظفر اپنی کُرسی پر بیٹھا تھا — کندھے پر رینک کی چمک اور چہرہ سپاٹ۔
اس کے سامنے کُرسی پر افتخار صاحب بیٹھے تھے—سفید بالوں میں وقت کی تہذیب اور آنکھوں میں انتظار کی نمی۔
امن کو آتا دیکھ کر افتخار صاحب فوراً کھڑے ہوئے،
بنا کچھ کہے، اُسے گلے لگا لیا۔
“کیسا ہو، بیٹا؟”
افتخار صاحب نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ سے پوچھا۔
امن نے صرف ہلکے سے سر ہلایا۔
ظفر جاوید آگے بڑھا،
اُس کے لہجے میں غیر معمولی نرمی تھی
“ہم معذرت خواہ ہیں… اُس اذیت کے لیے جو آپ کو ہماری وجہ سے جھیلنی پڑی۔
لیکن آج سے آپ کی مکمل سیکیورٹی ہماری ذمہ داری ہے۔
الیکشن تک…
ریپر آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔”
امن خاموش رہا۔
وہ وہی شخص تھا جس پر کچھ دن پہلے یہی سسٹم شک کر رہا تھا…
اور آج وہی سسٹم اُسے تحفظ دینے کا وعدہ کر رہا تھا۔
“باہر پولیس کی چند گاڑیاں کھڑی ہیں،
جن میں افسران اور محافظ موجود ہیں۔
یہ سیکیورٹی اعلیٰ حُکام کے حکم پر خاص طور پر آپ کے لیے ہے…” ظفر نے کہا۔
امن نے دھیرے سے سر جھکایا۔
“شکریہ۔” کہہ کر اُس نے سر کو خم کیا۔
افتخار صاحب نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ساتھ چل دیے۔
تبھی اچانک، کسی نرم قدموں کی چاپ سنائی دی۔
مایرا سرمد، برق رفتاری سے اُن کے پیچھے لپکی۔
چہرے پر سنجیدگی، سانس میں تیزی، اور دل میں وہی اضطراب جو کسی ایسے شخص کے لیے ہوتا ہے جس پر تم اعتبار تو کرتے ہو… مگر دنیا نہیں کرتی۔
“سر… آپ اپنے لیے الگ سے اچھی سیکیورٹی کا بندوبست کیجیے گا۔
مجھے ان پولیس والوں پر بالکل بھروسا نہیں۔”
وہ اُس کے ساتھ چلتے ہوئے گہری سانس لے کر بولی،
امن نے ایک پل کو قدم روکے۔
پھر اُس کی طرف مڑا،
“آپ کی تعریف؟”
مایرا نے ذرا سنبھل کر، رسمی انداز میں کہا:
“میں آفیسر مایرا سرمد۔”
امن کی آنکھیں لمحہ بھر کے لیے نرم ہو گئیں۔
“آپ وہی آفیسر ہیں، جو میرے گھر آئی تھیں؟”
“جی، سر۔”
امن کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی —
“اچھی پولیس آفیسر ہیں آپ۔”
بس اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
اور مایرا کا دن بنا گیا۔
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
