آخری سِحر
قلم از: عمارہ عزیز
5 قسط نمبر
شام ڈھل چکی تھی۔ لڑکے اپنے کمرے میں تھے اور لڑکیاں اپنے کمرے میں۔ مگر ملکہ اور مشال بازار میں گھوم رہی تھیں۔ شام کی وجہ سے بازار بہت ہی خوبصورت اور چمکتا ہوا لگ رہا تھا۔آس پاس بے حد دکانیں تھی جو روشنی سے چمک رہی تھی ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی سب لوگ ملکہ کو دیکھ کر سلام کر رہے تھے اور بازار میں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
مشال بولی “واہ! کتنا خوبصورت ہے سب… اتنا خوبصورت بازار میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ دل کر رہا ہے یہیں رہ جاؤں بس!” وہ یہ کہتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
ملکہ بھی اُس کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔ ملکہ ایک جگہ رُک کر تازی ہوا میں گہری سانس لینے لگی۔ ملکہ کے دل کو یہ سب دیکھ کر سکون مل رہا تھا۔
مشال بولی “یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ہیں… جیسے کہ آپ۔”
ملکہ نے مسکراتے ہوئے مشال کو دیکھا اور بولی “شکریہ… ویسے یہاں آنے والے انسان تو مجھے بہت بُرا سمجھتے ہوں گے۔”
وہ دونوں ایک جگہ رُک کر باتیں کر رہی تھیں۔
مشال بولی “ہاں… دراصل اُنہوں نے آپ کا نرم لہجہ اور اچھا رُوپ نہیں دیکھا۔ آپ اُن سے تھوڑی سختی برتتی ہیں۔
ملکہ سنجیدہ ہو کر بولی “ہاں، صحیح بولا تم نے۔ خیر… یہ ضروری بھی ہے تھوڑا۔
مشال حیرانی سے بولی “کیوں؟” ملکہ نے بازار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “ورنہ وہ کچھ ایسے سوال کر ڈالتے ہیں جن کا جواب شاید میرے پاس نہیں ہوتا۔ اس لیے میں اُن سے دُوری بنا کر رکھتی ہوں۔”
مشال بولی کیا میں بھی اپ سے ایسے سوال کرتی ہوں جن کا اپ کے پاس جواب نہیں ہوتا
ملکہ بولی ہاں تم بھی کرتی ہو پھر ملکہ نے مشال کو دیکھا۔ “اسی لیے کہتی ہوں، زیادہ بات مت کیا کرو۔”
مشال نے فوراً کہا “اچھا اچھا… اب میں زیادہ بولنے لگی؟ صحیح ہے!” ملکہ ہنسنے لگی۔
پھر وہ دونوں بازار میں آگے چلنے لگیں۔ کمرے میں متھم سی روشنی جل رہی تھی زرکا اور ایلمارا دونوں اپنے اپنے بستر پر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھیں
کہ ایک دم زرکا بولی “اوئے ایلمارا… سُن!”
ایلمارا فوراً بولی: “ہاں بولو!”
زرکا اپنے بستر سے اُٹھی اور ایلمارا کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ “یار حد ہے! کب تک اِس کمرے میں بیٹھے رہیں گے
ایلمارا بولی: “ہاں صحیح کہا… فون بھی غائب ہو گیا۔ کہیں… ویسے ایک بات بتاؤ، یہ سب ہمارے ہی ساتھ ہونا تھا؟
زرکا چونک کر بولی: کیا سب؟
ایلمارا نے سنجیدگی سے کہا: “یہی کہ ہم جِنّات کی دُنیا میں آگئے ہیں۔” وہ دونوں بڑے پُرجوش ہو کر بات کر رہی تھیں۔
زرکا نے فوراً کہا: “ہاں… ویسے یہ ہمارے ہی ساتھ ہونا تھا؟ اور تم تو ایسے بول رہی ہو جیسے تمہیں یقین ہو کہ یہ جِنّات کی دُنیا ہے؟”
ایلمارا نے دھیرے سے کہا: “ویسے ایک بات کہوں؟ مجھے نا… تھوڑا تھوڑا سا اس بات پر یقین ہے۔”
زرکا نے پوچھا: “کیوں؟ کوئی ثبوت ہے؟”
ایلمارا ذرا ڈرتے ہوئے بولی: “ہاں… ایک تو یہاں سب اچھے اور خوبصورت ہیں، ورنہ انسانوں کی دنیا اتنی خاموش نہیں ہوتی۔ اور یہاں سب کچھ پرانے وقتوں جیسا ہے۔ آج کل کے لوگ ایسے تو نہیں رہتے! اور جیسے اُس ملکہ نے پُرجوش ہو کر کہا تھا کہ یہ جِنّات کی دنیا ہے… مجھے واقعی یقین سا ہوگیا تھا۔”
زرکا نے بیزاری سے منہ بنایا اور بولی: “ہو گئی فضول باتیں! مجھے ابھی بھی یقین نہیں آیا۔ ان لوگوں میں کوئی جِنّات والی بات ہے ہی نہیں۔”
ایلمارا نے فوراً مذاق میں کہا: “جِنّات والی کون سی بات ہوتی ہے تمہارے حساب سے؟ کیا چاہتی ہو، ان کے پاؤں اُلٹے ہوں؟ یا کسی راکشیس جیسے دیکھتے ہوں؟ یا پھر ان کے پاس جادو ہو؟ یار! ہوسکتا ہے نا کہ اِنہوں نے یہ سب چیزیں ابھی ظاہر نہ کی ہوں۔”
زرکا بولی: “ہاں اور اب تم یہ بھی کہو گی کہ جو اُس دن وہ دروازہ بجا تھا، پھر وہ کاغذ… وہ سب بھی اصلی تھا، ہے نا؟”
ایلمارا نے سنجیدگی سے کہا: “نہیں یار، وہ تو مجھے مذاق لگا تھا… مگر”
وہ زرکا کے قریب آ کر بولی: “سچ بتاؤں تو وہ بھی مجھے اصلی بات ہی لگی تھی۔ کسی جِنّ نے وہ کاغذ گرایا ہوگا ہمیں ڈرانے کے لیے، پھر غائب ہوگیا۔”
زرکا نے طنزیہ انداز میں کہا: “ہاں ہاں! جِنّات تو اتنے ویلے ہیں کہ ہمیں ڈرانے کے لیے رات کو آ گئے ہوں گے!”
ایلمارا بولی: “تو مان یا نہ مان، یہ جِنّات کی ہی دنیا ہے۔ فون غائب ہونا، پھر اُس باغ سے اس دنیا میں آنا… وہ کانٹا جس نے سب کو چبھا تھا… پھر اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔”
یہ سن کر زرکا خاموش ہوگئی۔ کمرے میں کچھ دیر کے لیے سکوت چھا گیا۔
پھر زرکا نے الجھ کر کہا: “اُف! حد ہے… مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا یہ سب کیا ہے۔ اب ختم کرو یہ باتیں!”
ایلمارا نے فوراً مذاق میں کہا: “کیوں؟ تمہیں رات کو ڈر لگے گا؟”
زرکا نے آنکھیں گھمائیں اور بولی: “سو فنی! ڈر جسے لگے گا اُسے معلوم ہی ہے۔”
ایلمارا ہنسنے لگی۔
زرکا پُرجوش ہو کر کہنے لگی: “چل، ہم بھی بازار چلتے ہیں۔ ویسے بھی یہاں رہ کر بور ہو رہے ہیں۔”
ایلمارا نے کہا: “اچھا ٹھیک ہے… لیکن ہم لڑکوں کے ساتھ جائیں گے۔”
زرکا نے فوراً پوچھا: “کیوں؟ بلاہ! ہم دونوں جائیں گے بس!”
ایلمارا بولی: “نہیں، بس وہ بھی جائیں گے۔”
زرکا نے تنگ آ کر پوچھا: “کیوں؟ کیا مسئلہ ہے تمہیں؟”
ایلمارا نے سمجھاتے ہوئے کہا: “دیکھو، لڑکے حفاظت کرتے ہیں لڑکی کی۔”
زرکا بیزار ہو کر بولی: “ہم کوئی جنگ پر نہیں جا رہے جو ہمیں کسی کی حفاظت چاہیے!”
ایلمارا نے کہا: “یار، اگر کوئی جِن آ گیا تو؟”
زرکا نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: “اُف حد ہے! کوئی جِن نہیں آتا۔ میں ہوں نا، میں لڑ لوں گی جو بھی آیا!”
ایلمارا نے ضد سے کہا: “نہیں، اگر لڑکے جائیں گے تو میں جاؤں گی، ورنہ نہیں۔”
زرکا نے بے زاری سے کہا: “اچھا بھئی، اُٹھو! ان کے کمرے میں چلتے ہیں۔”
پھر وہ دونوں لڑکوں کے کمرے کے دروازے پر جا کر کھٹکھٹانے لگیں۔
زرکا آہستہ آواز میں بولنے لگی: “اوئے سنو! آریب… التمش… افسان!”
وہ بار بار آہستہ بول رہی تھی اور دستک دے رہی تھی، لیکن جیسے کوئی سُن ہی نہ رہا ہو۔ اندر آریب، افسان اور التمش سب ہی بے ڈھنگے طریقے سے گہری نیند سو رہے تھے۔ کھٹکھٹاہٹ کی وجہ سے آریب نے کروٹ لی۔
زرکا غصے سے بولی: “ہو گیا سکون؟ یہ دروازہ ہی نہیں کھول رہے!”
ایلمارا نے کہا: “شاید سو رہے ہوں گے۔ تم پیچھے ہٹو، میں کھٹکھٹاتی ہوں۔”
پھر ایلمارا نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور اونچی آواز میں بولی: “افسان! التمش! آریب! کوئی سُن رہا ہے تو دروازہ کھولو!”
جب اُس نے پھر سے کھٹکھٹایا تو آریب کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اونگھتا ہوا دروازے کی طرف آیا، ابھی بھی ہلکی نیند میں تھا۔
اُس نے دروازہ کھولا اور بولا “ہاں، کون؟” اُس کی آنکھیں ابھی بھی آدھی بند تھیں۔
زرکا اور ایلمارا اُسے دیکھ کر ہنسنے لگیں۔
ایلمارا نے کہا: “اپنا حُلیہ دیکھو!”
آریب نے ذرا سی آنکھیں کھولیں اور بولا “سو رہا تھا… تم دونوں یہاں اس وقت کیوں آگئیں؟ آؤ آؤ اندر آجاؤ۔”
پھر آریب اور وہ دونوں اندر چلے گئے۔ اندر جا کر اُنہوں نے افسان اور التمش کو سوتے دیکھا تو ہنسی کے فوارے چھوٹ گئے۔
التَمش کے پاؤں چادر سے باہر نکلے ہوئے تھے اور کپڑے بھی بے ڈھنگے لگ رہے تھے۔ افسان کا سر تکیے سے اِدھر اُدھر جا رہا تھا اور اُس کے کپڑوں پر سلوٹیں پڑی ہوئی تھی۔
زرکا ہنستے ہوئے بولی: “واہ! بڑے خوبصورت طریقے سے سوتے ہو تم لوگ!”
ایلمارا نے مذاق میں کہا: “ہاں نا! ہم سے بھی زیادہ خوبصورت طریقے سے۔”
آریب آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر خود کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کے بال اُلجھے ہوئے تھے اور کپڑوں پر سلوٹیں پڑی ہوئی تھی۔ وہ خود کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور بال درست کرنے لگا۔
پھر پیچھے مڑ کر بولا “اب ٹھیک لگ رہا ہوں؟”
ایلمارا نے فوراً کہا “بالکل نہیں!”
آریب بولا: “ہاں، تمہیں تو میں عجیب ہی لگتا ہوں۔ خیر، کس کام سے آئی ہو؟”
زرکا نے کہا: “پہلے اِنہیں جگاؤ اور اچھے سے تیار ہو جاؤ، پھر ہم سب بازار چلیں گے۔”
ایلمارا نے کہا: “ہاں! اور جلدی سے۔ ہم دونوں تب تک اپنے کمرے میں جا رہے ہیں، تم لوگ تیار ہو کر آجانا۔”
پھر وہ دونوں کمرے سے باہر چلی گئیں۔
آریب بڑبڑاتے ہوئے بولا: “لڑکیوں کا بھی صحیح ہے نا! پوچھا بھی نہیں کہ ہم جانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ہماری کوئی رائے نہیں پوچھی، بس اپنا حُکم سنا کر چلی گئیں۔ صحیح
آریب اب دونوں کو اُٹھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا “اللہ کے بندو! اُٹھ بھی جاؤ یار… کب سے اُٹھا رہا ہوں لیکن مجال ہے تم دونوں میں سے کوئی ذرا سا ہلا بھی ہو
آریب اب غصے میں اونچا بولا “ایسے نہیں مانو گے تم لو
پھر اُس نے افسان کے پاس پڑا پانی کا گلاس پکڑا اور آدھا پانی افسان کے اوپر ڈال دیا۔ افسان کی آنکھیں ایک دم کھل گئیں۔ آریب نے باقی آدھا گلاس پانی التمش پر ڈال دیا۔
التَمش ایک دم تیزی سے بیٹھا اور بولا “حد ہے یار! تیرا دماغ ہے کے نہیں؟
افسان بھی بیٹھ گیا اور غصے سے بولا: “آریب! التمش صحیح بول رہا ہے یار! تجھے پتا ہے جب کوئی سو رہا ہو تو چلتے بھی آہستہ ہیں، کہیں اُس کی نیند خراب نہ ہو جائے… اور تو ہم پر سیدھا پانی ہی ڈال رہا ہے
التَمش نے کہا ہاں یار! بڑا گناہ کر لیا ہے تُو نے
آریب اُن دونوں کی شکل دیکھ کر حیرت سے بولا “توبہ توبہ! اب گناہ کا بڑا احساس ہو رہا ہے؟ چُپ کر کے نا… دُونوں اُٹھ جاؤ اور تیار ہو جا
التَمش پُرجوش ہو کر بولا: کیوں؟ ہم واپس گھر جانے والے ہیں؟
آریب نے کہا: نہیں، ہم بازار جانے والے ہیں۔
افسان نے تھکی ہوئی آواز میں کہا چھوڑ، کل چلیں گے یار…، اور پھر جمائی لینے لگا۔
آریب غصے سے بولا “میری نیند خراب ہوئی ہے، تم دونوں کو بھی نہیں سونے دوں گا
التَمش نے افسان کو دیکھ کر کہا: “چل اب اُٹھنا ہی پڑے گا… اس کی آنکھوں میں انتقام کی آگ ہے، یہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ہمیں اُٹھنا ہی پڑے گا
افسان نے کہا “اس کا دماغ بھی خراب ہے۔”
آریب ہنس کر بولا “بڑا نیک مقصد ہے! ماشاءاللہ، نظر نہ لگے
پھر تینوں ہنسنے لگے اور اُٹھ کر تیار ہونے لگے۔ میشال اور ملکہ دونوں بازار میں اب بھی یوں ہی گھوم رہی تھیں جیسے اُن کا دل ہی نہ چاہ رہا ہو کہیں جانے کا۔
ملکہ نے کہا: سنو میشال، تمہیں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو اِسی بازار سے لے لیا کرو۔
میشال نے جواب دیا: نہیں، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اگر ہوگی تو لے لوں گی
ملکہ نے کہا: “ہاں، ٹھیک ہے۔” اسی دوران ملکہ نے محسوس کیا کہ میشال بار بار ایک دکان کی طرف دیکھ رہی ہے جس میں مختلف قسم کے سوٹ رکھے ہوئے تھے۔
ملکہ نے نرمی سے کہا: میشال، تمہیں ابھی کچھ لینا ہے”
میشال فوراً بولی: نہیں، کچھ نہیں۔
ملکہ مسکرائی اور آہستہ سے بولی: اِدھر میرے پیچھے آؤ۔”
پھر وہ اُسی دکان پر جا کر رک گئی اور پیار سے بولی: “میشال، یہاں سے جو بھی سوٹ لینا چاہتی ہو، لے لو۔”
میشال نے ضد سے کہا: “نہیں نا، مجھے کچھ نہیں لینا۔”
ملکہ نے ذرا سختی سے کہا: جلدی لو تم
اُس وقت دکان دار نے آگے بڑھ کر کہا:خوش آمدید ملکہ صاحبہ! آپ جو بھی لینا چاہیں، میری خوشی اور رضامندی سے لے سکتی ہیں۔
ملکہ نے مسکرا کر کہا: “شکریہ۔”
اب میشال نے مانتے ہوئے کہا: “ہاں… یہ کپڑے اچھے ہیں۔” پھر وہ دونوں ایک ساتھ لٹکے ہوئے کپڑے دیکھنے لگیں۔
اسی دوران کچھ فاصلے پر، ایک دکان کے پیچھے، کوئی شخص چھپا کھڑا تھا۔ اُس نے کالی پوشاک پہن رکھی تھی اور منہ پر بھی کالا کپڑا باندھا ہوا تھا۔ وہ شخص بڑی تیزی اور غصے سے اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ دیکھنے سے لگتا تھا کہ وہ سمجھ چکا ہے کہ میشال اور ملکہ آپس میں بہت گہری دوستیں بن چکی ہیں۔ ملکہ اور میشال کپڑوں میں اتنی مصروف تھیں کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ کچھ لمحوں بعد میشال کو کپڑے پسند آ گئے۔ اُس نے خریداری مکمل کی اور دونوں دکان سے باہر نکل آئیں۔ جیسے ہی وہ باہر نکلیں، ملکہ کو اچانک یوں محسوس ہوا جیسے کوئی اُسے گھور رہا ہو۔ اُس نے فوراً اُسی سمت نظر دوڑائی جہاں وہ شخص کھڑا تھا
لیکن اُس کی نگاہ اُس پر پڑنے سے پہلے ہی وہ شخص چھپ گیا۔ ملکہ نے ایک لمحے کو وہم سمجھ کر نظر ہٹائی اور میشال کے ساتھ بازار میں آگے بڑھنے لگی۔ پانچوں دوست بازار میں گھوم رہے تھے۔
ایلمارا بولی یار یہ بازار سچ میں کسی خواب جیسا لگ رہا ہے شام میں۔
زرکا بولی: “ہاں، ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی اور دنیا میں ہیں۔
ایلمارا نے فوراً کہا: میں نے تو پہلے ہی کہا تھا، یہ کوئی اور دنیا ہے۔
سب نے ایلمارا کو بیزار سے منہ بنا کر دیکھا اور آنکھیں گھما لیں۔ ایلمارا نے بات جاری رکھی
ابھی یقین نہیں ہو رہا نا میری بات پر؟ جب یہ حقیقت ثابت ہو گی نا، تب تم لوگ دیکھنا کہ میں سچ ہی بول رہی تھی۔”
افسان بولا: “وہ وقت آنے دو، پھر دیکھیں گے۔”
آریب نے بات بدلتے ہوئے کہا: “یار وہ چھوڑو… اب کسی دکان سے کچھ لیتے ہیں، مطلب کوئی چیزیں وغیرہ۔”
التَمش بولا: ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، ایسے ہی کیسے کچھ لے لیں؟”
زرکا نے کہا: “ہاں، پیسے نہیں ہیں۔”
التَمش مسکرا کر بولا: ہاں، لے سکتے ہیں ہم کچھ بھی۔”
افسان نے حیرت سے پوچھا: “کیسے؟”
التَمش نے ہنستے ہوئے کہا: آریب کو گروی رکھوا دیتے ہیں اور پھر کچھ چیزیں لے آتے ہیں۔
ایلمارا بولی: “ہاں! صحیح کہا تم نے۔” پھر سب زور سے ہنسنے لگے۔
آریب نے بیزار سا منہ بنا کر کہا “بڑی ہنسی آ رہی ہے تم سب کو؟ کیوں نہ تمہیں گروی رکھوا دیں “
التَمش نے مزید چھیڑتے ہوئے کہا “ہاں ہاں، مجھے ہی رکھوا دیتے ہیں… کیوکہ آریب تم جیسے کے تو کوئی پیسے بھی نہ دے۔”
زرکا فوراً بولی “بس کرو یار، یہ زیادہ ہو گیا۔”
آریب نے کہا “پوچھ کر دیکھتے ہیں، شاید اُس دن کی طرح ہمیں پھر کچھ چیزیں دے دیں۔” پھر وہ سب ایک دکان پر جا پہنچے۔ وہاں قیمتی پتھر رکھے ہوئے تھے، اور اُن پتھروں سے بنے ہوئی کئی زیورات بھی۔ جو دیکھنے میں نہایت خوبصورت، چمکدار اور کشش والے لگتے تھے۔
افسان بولا “یار! کیا خُوبصورت ہیں یہ زیورات۔”
زرکا آہستہ سے بولی “ہاں، لیکن دیکھنے میں جتنے خُوبصورت ہیں، قیمت بھی اُتنی زیادہ ہوگی۔”
آریب نے مذاق میں ہلکی آواز میں کہا “ہاں ہاں، اگر ان میں سے ایک انگوٹھی بھی ہاتھ لگ گئی نا، تو پوری دنیا ہم خرید سکتے ہیں۔”
ایلمارا ہنستے ہوئے بولی “بس اب اتنی بھی نہ چھوڑو۔”
یہ سن کر دکاندار ہنسنے لگا۔ نہیں نہیں یہ اتنے بھی زیادہ مہنگے نہیں ہیں سب حیران رہ گئے۔
ایلمارا نے آریب کو ہلکا سا کہنی مارتے ہوئے کہا “یار! تم نے تو ہلکا سا کہا تھا کہ مجھے بھی مشکل سے آواز آئی… تو اس دکاندار کو کیسے پتا چلا ہم یہ بات کر رہے ہیں؟”
آریب نے کندھے اُچکا کر کہا: “ہاں، شاید اس کے کان تیز ہیں، اس لیے۔”
التَمش نے ایک ہار اُٹھایا اور دکاندار سے مخاطب ہو کر بولا: “کیا اس کی قیمت بہت زیادہ ہے؟”
دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا: “ہاں، یہ خُوبصورت ہار جو آپ نے پکڑا ہے، یہ ’روبی‘ پتھر سے بنا ہے۔ اور اس کا یہ سرخ رنگ ہی اسے سب سے زیادہ خُوبصورت اور قیمتی بناتا ہے۔”
یہ سن کر التَمش نے حیرت سے اپنی ابرو اُٹھائی اور بولا: “یہ بہت مضبوط اور شاندار لگتا ہے۔”
دکاندار نے وضاحت کی: “ہاں، یہ ہیرے کے بعد سب سے مضبوط اور قیمتی پتھر مانا جاتا ہے۔”
افسان، التَمش کے پاس آیا اور آہستہ سے بولا: “چھوڑو التَمش، یہ ہم نہیں خرید سکتے۔”
دکاندار نے فوراً کہا: “کیوں نہیں خرید سکتے؟ اس دُنیا کی ہر چیز آپ لوگوں کے لیے مفت ہے۔”
التَمش نے چونک کر کہا: “کیا؟” وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔
آریب نے فوراً کہا: “تو یعنی یہاں پر جتنے بھی قیمتی زیورات ہیں… ہم سب خرید سکتے ہیں؟”
دکاندار نے افسردگی سے کہا: “مجھے معاف کیجیے گا، لیکن یہ پتھر آپ نہیں خرید سکتے۔ بلکہ یہاں موجود لوگ اور مہمان بھی… یہ حکم ہے کہ یہ پتھر کسی کو نہ دیے جائیں۔”
زرکا نے حیرت سے پوچھا: “کیوں؟ آخر کیوں؟”
دکاندار نے آہستہ سے کہا: “یہ ملکہ کا حکم ہے۔”
یہ سنتے ہی چاروں افسردہ ہو گئے اور دکان سے باہر نکل آئے۔ التَمش ابھی بھی دکان میں موجود تھا۔ وہ لکڑی کے ایک بڑے ٹیبل کے قریب آیا اور اُس پر بازو ٹکا کر باہر کی طرف دیکھنے لگا۔ دوسری طرف وہی دکاندار موجود تھا۔
التَمش نے ہلکی آواز میں کہا: “ایک بات تو بتاؤ…”
دکاندار نے اُسے ایک نظر غور سے دیکھ کر کہا: “جی، بولیے۔”
التَمش نے پوچھا: “تم لوگ یہ ملکہ کا حکم اتنا کیوں مانتے ہو؟”
دکاندار اُلجھ کر بولا: “کیونکہ وہ ملکہ ہے۔”
التَمش نے دکاندار کو دیکھا اور اپنی ایک ابرو اُٹھا کر کہا: “ہمم… تو کیا ہوا اگر وہ ملکہ ہے؟ اُس کی کوئی بھی بات مان لو گے؟”
دکاندار گھبرا کر بولا: “جی… حکم ماننا تو پڑتا ہے۔”
التَمش نے شک میں ڈوبی آواز میں کہا: “کہیں وہ تم لوگوں پر ظلم تو نہیں کرتی؟”
دکاندار نے فوراً سر ہلا کر کہا: “نہیں نہیں! ہم یہ سب اپنی خوشی سے کرتے ہیں۔”
التَمش نے آہستہ سے سر ہلایا اور کہا: “اچھا…” پھر اُس نے دکاندار کی کمر پر ہلکی سی تھپکی دی
اور مسکرا کر بولا: “گُڈ۔” یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
دکاندار نے ایک لمبی سانس لی اور بڑبڑایا: “اُف! اتنا قریب تو کبھی میری بیوی بھی میرے نہیں آئی جتنا یہ آ گیا تھا… حد ہے!” پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
ایک بہت بڑا منحوسیت میں ڈوبا، کالے بادلوں میں گھرا محل۔ منحوسیت، ایک اندھیرے کی طرح اُس بلند محل کو گھیر رکھا تھا۔ اور محل کی راہداری سے اندر دیکھو تو ایک کشادہ کمرہ آتا تھا،
جس کے آخر میں ایک تخت لگا تھا۔ اُس پر موجود ایک مضبوط شخصیت… آنکھوں میں قہر، آواز میں زہر۔ جسمانی ساخت چوڑی اور قد خاصا لمبا تھا۔ سر پر ایک بڑا اور بھاری تاج، جس پر تین قسم کے قیمتی پتھر جڑے تھے درمیان میں سرخ رنگ کا، دائیں طرف سنہری رنگ کا، اور بائیں طرف نیلے رنگ کا۔ لباس کالا اور شاہانہ تھا۔ جوتے کالے، جن میں ہلکی سی ایڑی تھی۔ اُسے دیکھنے سے ہی خوف آتا تھا۔ اُس کی آنکھیں گہری سیاہ تھیں، جن سے وہ وہاں موجود سپاہیوں کو گھور رہا تھا… سپاہیوں نے ایک انسان کو پکڑ رکھا تھا۔ وہ شخصیت ایک خوفناک مُسکراہٹ دے رہی تھی جیسے کہ کچھ کرنے والا ہو۔
جاری ہے
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
