انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۸
وہ تُم ہی تو ہو…!!
جو اپنی ایک جھلک دِکھا کر میرے دل کی پُر سُکون دھڑکنوں کو جب چاہو بے ترتیب کر سکتی ہو…
چند لمحے بعد…
فون کی گھنٹی ایک مانوس ترنگ میں بجی۔
وہ چونک کر سیدھا ہوا۔ فون کان سے لگایا تو دوسری طرف سے وہی مترنم، مگر کچھ بوجھل سی آواز ابھری۔
السلام علیکم… آواز میں روایتی بشاشت نہ تھی۔
سنیے…
حیات کی آواز میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی،
بولو؟
اِس نے معمول کے انداز میں کہا، مگر دل کے کسی گوشے میں تجسس نے سر اٹھایا۔
آج میں آفس نہیں آ پاؤں گی، بہت تھک گئی ہوں.، گھر جا کے سونا چاہتی ہوں، اسی لیے نہیں آ رہی۔
امن نے پل بھر کو آنکھیں موند لیں۔
دیکھو، اب تم اپنی بات سے پلٹ رہی ہو…
مجھے پتہ ہے، لیکن آج واقعی نہیں آ سکتی… آپ منیج کر لیجیے گا…
وہ خاموش رہا۔ کیا کہتا؟ دل میں ہلکی سی خفگی ضرور ابھری، اچھا، چلو… ٹھیک ہے…
جی، تھنک یو… اور کال کٹ گئی۔
خاموشی نے کمرے میں اپنے پر پھیلا دیے۔
امن نے فون ایک طرف رکھا، اور مدھم لہجے میں خود سے کہا۔۔۔۔کیا یار… آج کا دن ہی فضول ہے…
پھر خود کو سنبھالا، اور کام میں مصروف ہو گیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
+++++++++++++++
دھیمی دستک…
ناک ناک
اَمن نگاہیں اسکرین پر جمائے ہوئے۔۔۔۔ آجاؤ۔۔۔
نتاشا چند لمحے تذبذب کے بعد دروازہ کھول کر اندر آتی ، ہاتھ میں کپ کافی کا،
باس وہ۔۔۔یہ آپ کی کافی۔۔۔
امن مصروف لہجے میں، رکھ دو۔۔۔
نتاشا کافی میز پر رکھتے ہوئے، دھیرے سے کہا
ویسے باس، آج حیات کیوں نہیں آئی؟ اُس نے تو کوئی لیو فارم بھی نہیں دیا
امن بظاہر عام سے انداز میں کہا
ہاں، اُسے کچھ کام تھا، اِسی لیے نہیں آئی۔
نتاشا نے دل ہی دل میں، ماتھے پر ہلکی سی شکن اُبھری
عجیب ڈرامہ ہے، اِن کو کیسے پتا چل گیا کہ اُسے کام ہے؟ اب وہ نہیں آئی تو اُس پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ جھوٹ بول رہے ہیں؟ ایسا بھی کیا ہے اُس لڑکی میں؟
اَمن فائلز اُٹھاتے ہوئے نتاشا کی طرف دیکھا
اچھا، یہ کچھ فائلز ہیں۔ تم اور زاويار مل کے دیکھ لو، مجھے ذرا ایک کام ہے تو میں وہاں جا رہا ہوں۔
نتاشا مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔
اَمن جلدی سے نکل گیا۔ چند لمحے نتاشا اُسی جگہ کھڑی رہی ، جیسے کسی ان دیکھے خیال میں گم ہو۔ پھر فائلز اٹھائی اور آہستگی سے کہا
چھوڑوں گی نہیں اُس لڑکی کو میں۔۔۔
+++++++++++++
سارا بیگم نے بلند آواز میں کہا اَے سُن…!
امن کمرے سے باہر آتے ہوئے جی دادو، بولیں؟
سارا بیگم آنکھیں سکوڑ کر، تجسس سے کہا
اَے، تیکو وہ لڑکی پسند آئی یا نہیں؟
امن سانس بھرتے ہوئے، سپاٹ لہجے میں کہا
نہیں، دادو۔۔۔
سارا بیگم فوراً منصوبہ بندی کے موڈ میں آ کر کہا
اَے اچھا، ایک کام کر! کسی بہانے سے اُس کو گھر بلا لے، پھر ہم اُس سے ملیں گے۔ اگر مجھے اچھی نہ لگی، تو ہم منع کروا دیں گے۔۔۔
دادی! کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ میں اُسے گھر کیسے بلاؤں؟ کیا بولوں گا اُسے؟ اور اصل بات یہ ہے کہ جیسے مجھے وہ پسند نہیں، ویسے ہی وہ بھی مجھے بالکل پسند نہیں کرتی۔۔۔ صرف پیرنٹس کے پریشر میں آ کر کام کر رہی ہے وہ آفس میں۔۔۔
سارا بیگم حیرانی سے تسبیح روک کر کہا
اَے! کیا بول رہا ہے تُو؟ وہ لڑکی تجھے نہیں پسند کرتی؟ امن جُنید خان کو؟
اَمن تھوڑا جھنجھلا کر کہا
ہاں دادی ! اب فارسی میں تو نہیں بول رہا۔۔۔
سارا بیگم نے آنکھیں چھوٹی کر کے، کہا
اَے چل! تُو جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔
اور مجھے جھوٹ بول کے کیا ملے گا؟
امن نے سنجیدگی سے کہا
سارا بیگم کچھ سوچ کر، سر ہلاتے ہوئے کہا
اَے ہاں، یہ بات بھی ہے۔۔۔
تو؟
سارا بیگم اپنی ہی منطق سے قائل ہو کر کہا
تو کیا۔۔۔ ملنا تو پڑے گا اب اُس لڑکی سے۔۔۔ بڑی نرالی ہے۔۔۔
اَمن منہ بناتے ہوئے، جیسے کڑوا گھونٹ پیا ہو ۔۔
نرالی نہیں، نفسیاتی۔۔
یہ کہہ کر وہ صوفے سے اُٹھا اور لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
دادو سر تھام کر، خود کلامی میں کہا
اَے! کیا ہوگا اِس لڑکے کا۔۔۔
+++++++++++++
بھائی بھائی بھائی۔۔۔!
دانیال دھڑلے سے اَمن کے کمرے میں گھس آیا۔
کیا ہے؟ امن نے دانیال کی طرف دیکھتے کہا
دانیال آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا
بھائی! تم نے اذلان کو نیا کریڈٹ دیا ہے نا؟
ہاں تو؟
میرے کو بھی دو! مجھے نہیں پتا، میرے کو بھی نیا کریڈٹ کارڈ دو۔۔۔
تمہارے پاس ہے نا؟
نہیں وہ پرانا ہے، میرے کو نیا چاہیے۔۔۔
اَمن آہستہ سے ماتھا سہلاتے ہوئے کہا
نیا یا پرانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ پیسے تو ہیں نا اُس میں۔۔۔
دانیال ضدی بچے کی طرح بولا
نہیں بھائی، میرے کو نہیں پتا، میرے کو نیا چاہیے۔۔۔
اَمن گہری سانس لے کر کہا
اُففف۔۔۔ اچھا لاؤ، پرانا دو۔۔۔
دانیال فوراً کارڈ نکالتے ہوئے کہا
یہ لو!
اَمن نیا کارڈ نکال کر دانیال کو دیتے ہوئے کہا
یہ لو۔۔۔ خوش؟
دانیال کارڈ پکڑتے ہی فاتحانہ انداز میں کہا
یہ ہوئی نا بات! چلو، اب میں جا رہا ہوں۔۔۔
اُس نے دروازہ پار کیا ہی تھا کہ ایک دم رُکا ، جیسے دماغ میں کچھ کلک ہوا ہو۔ تیزی سے مڑا
ویٹ ویٹ ویٹ۔۔۔
اب کیا ہوا؟
دانیال کارڈ واپس پکڑاتے ہوئے
یہ پکڑو اپنا کریڈٹ کارڈ۔۔۔ مجھے نہیں چاہیے۔۔۔
کیوں؟ کیوں نہیں چاہیے؟
کیونکہ میں تم لوگوں سے بات نہیں کر رہا، ناراض ہوں میں! اور یہ یوسف۔۔۔ اِس کو ابھی بتاتا ہوں! میرا 70 ہزار کا جوتا دے کے، خود سکون کی نیند سو رہا ہے۔۔۔
اُسے اچانک یاد آیا تھا یوسف کا حساب تو ابھی باقی ہے۔۔
وہ جوتوں کی یاد میں بپھرا ہوا، کمرے سے نکلا اور یوسف کے کمرے کی طرف بڑھا اَمن سر تھام کر دانیال کے پیچھے پیچھے نِکلا
دانیال دروازہ کھولتے ہی دھاڑا
اوئے یوسف کے بچے! کہاں مرا ہوا ہے؟
یوسف اپنے بیڈ پر بیٹھا فون چلا رہا تھا دروازہ کھولنے کی آواز پر اُس نے فوراََ منہ پر چادر اوڑھے، سونے کی اداکاری شروع کر دیا۔۔۔
اَمن بھی پیچھے سے آیا ،دانیال کو روکتے ہوئے کہا
دانیال۔۔۔ چھوڑ دو اُسے، سو رہا ہے نا وہ۔۔۔ تم نیو شوز لے لینا۔۔۔
دانیال ہاتھ نچاتے، طوفانی لہجے میں کہا
بھائی! ستر ہزار۔۔۔ ستر ہزار! سمجھ آ رہا ہے؟ تمہارا کتنے کا ہوتا ہے؟ اور تم بول رہے ہو چھوڑ دو؟ میں تو کہتا ہوں، گھر سے نکالو اِس نالائق کو۔۔۔
امن نے سختی سے کہا
بس، اب زیادہ ہو رہا ہے! بڑا ہے وہ… بول رہا ہوں نا، نیا لے لینا، اب بحث مت کرو۔۔۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔
دانیال ناک سکیڑتے ہوئے
صحیح ہے! جا رہا ہوں… میرا کیا ہے، میرے باپ کا پیسہ جارہا ہے۔۔۔ میرے کا تھوڑی جا رہا ہے۔۔۔”
تمہارے باپ کا نہیں، تمہارے بھائی کا جا رہا ہے۔۔۔
دانیال پلٹ کر، تپے ہوئے لہجے میں کہا
ایگزییکٹلی! وہی تو میں کہہ رہا ہوں! حرام کا پیسہ آیا ہوا ہے کیا، جو یہ بے غیرت اپنی لونڈیوں پہ اُڑا رہا ہے؟!
اَمن اب کی بار غصے میں کہا
بس! جاؤ اب۔۔۔
دانیال دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے، انگلی دکھا کر کہا
ابھی تو جا رہا ہوں… لیکن میں پھر آؤں گا! اور اب تو تُو آ، مجھ سے کچھ مانگنے… کچھ بھی! میں اب تجھے اپنی کوئی چیز نہیں دوں گا۔۔۔۔
ہاں ہاں، جاؤ، وہ رہا دروازہ۔۔۔
امن نے دروازے کی طرف اشارہ کیا
دانیال منہ بناتے ہوئے، آہستہ سے بڑبڑایا
ہمممم، جا رہا ہوں۔۔۔
اور پھر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
کمرے میں دوبارہ خاموشی چھا گئی، سوائے اَمن کے بھاری قدموں کے، جو اب یوسف کے بستر تک آئے، پھر
اَمن سخت لہجے میں کہا
یوسف۔۔۔ آئندہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ یہ میری پہلی اور آخری وارننگ ہے۔۔۔ بتا رہا ہوں میں، ورنہ تمہارا موبائل، کریڈٹ کارڈ، بائیک۔۔۔ سب چھین لوں گا! اور دانیال کو روکوں گا بھی نہیں۔۔۔
یوسف چادر ہٹا کر، معصوم شکل بناتے ہوئے
جی بھائی، اب نہیں کروں گا۔۔۔
اَمن نے اپنی نگاہ گاڑ کر کہا
نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
ہاں نا بھائی، نہیں ہوگا۔۔۔ معصومیت سے کہا
پھر امن یہاں سے نکل گیا
++++++++++++++
آفس کی پارکنگ — تیز دھوپ میں امن گاڑی کی چابی گھومتا اپنے آفس کی طرف بڑھ رہا تھا جب ایک مخصوص چیخ فضا کو چیرتی ہوئی آئی
اه ہ ہ ہ ہ ….
امن پلٹا ہے سامنے ہی حیات کار سے اُترتے وقت گری گئی تھی۔۔۔اور اب زمین میں بیٹھی رو رہی تھی۔۔
امن فوراً دوڑتا ہوا ، اس کے قریب بیٹھ کر کہا
کیا ہوا؟ حیات…؟
حیات روتے ہوئے کہا
میرا پاؤں۔۔۔ میرا پاؤں ٹوٹ گیا… اب میرا کیا ہوگا؟ ابھی تو میری یونی میں ایگزامز باقی ہیں، ابھی تو میں نے اپنی ذاتی کمپنی بھی نہیں کھولی۔۔۔
وہ بے ترتیب سانسوں کے درمیان بولی، جیسے دنیا ختم ہو گئی ہو
امن سخت لہجے میں، مگر آنکھوں میں فکر تھی
ہاں تو دیکھ کے اُترنا چاہیے تھا نا! اندھوں کی طرح چلو گی تو یہی ہوگا۔۔۔
حیات چہرہ تپاتے ہوئے، غصے سے کہا
Oh hello…
میں دیکھ کے ہی اُتر رہی تھی… آپ کا پارکنگ ایریا ہی خراب ہے، میں کیا کروں؟
وہ آنکھیں تریڑ کر بولی، جیسے درد کے ساتھ بے عزتی بھی سہنی پڑ رہی ہو
امن آنکھیں گھماتے ہوئے
او اچھا! ہائی ہیلز آپ پہن کر آئیں، پاؤں آپ کا مڑا، گری آپ… اور پارکنگ ایریا میرا خراب؟ واہ مس حیات واہ۔۔۔
حیات بغیر شرمندہ ہوئے کہا
ہاں تو؟
امن جھنجھلا کر کہا
ہاں ہاں مان لیا… اس میں بھی میری ہی غلطی ہے، بس….
حیات چہرے پر جیت کی مسکراہٹ آئی
اب جب غلطی مان لی ہے تو سوری بھی بول دیں…
امن نے ناک سکیڑ کر کہا
اب زیادہ ہو رہا ہے۔۔۔
حیات اچانک دوبارہ چیختے ہوئے کہا
آہہہہ! میرا پاؤں…
وہ روتی ہوئی چہرا موڑ لی، جیسے دل پر قیامت گزر رہی ہو
امن جھک کر، تھوڑا نرم ہو کر کہا
اچھا دکھاؤ، کیا ہوا ہے پاؤں میں…؟
حیات نے روندی آواز میں کہا
آپ کی ہی بددعا لگی ہے… لنگڑی ہو گئی ہوں میں اب! اور کیا…
بس تم سے دنیا جہاں کی فضول باتیں کروالو۔۔۔ امن نے ناگواری سے کہا
ہاں تو دیکھیں! پاؤں ٹوٹ گیا ہے، اب لنگڑی نہیں تو کیا… لُلی ہوں گی؟
وہٹ ایس لُلی۔۔۔۔ امن نے چونک کر کہا
حیات نے بےنیازی سے کہا
ارے، جس کے ہاتھ ٹوٹ جاتے ہیں نا… اُسے لُلی کہتے ہیں۔۔۔
حیات اب کی بار سچی آنکھوں سے معصومیت سے کہا
آپ کو پتا ہے جس کے ہاتھ نہ ہوں، اُسے کیا کہتے ہیں؟
کیا…؟
“Hand-less!
اور ابھی تو میں
one-leg-less
ہو گئی ہوں۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں آنسو، مگر ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے بولی
طوفان آ جائے، آندھی آ جائے… لیکن حیات کی فضول باتیں اور lame jokes کبھی ختم نہیں ہوں گے!)
کیا کیا بول رہی ہو…؟ دکھاؤ تو سہی، کہیں دماغ میں تو چوٹ نہیں لگی؟ وہ جھک کر اُس کا سر پکڑتے آنکھیں سکوڑ کر تفتیشی انداز میں اُس کے سر کو دائیں بائیں گھومتے دیکھتے کہا
حیات نے فوراً اپنا سر پیچھے کیا اور بولی
ہنہ دماغ ؟ وہ ہاں، دماغ… جو آپ کے پاس بالکل نہیں ہے۔۔۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
اوہ… تمہارے دماغ میں تو بہت گہری چوٹ آئی ہے۔۔۔
حیات اچانک سنجیدہ ہو کر، سر پکڑتے ہوئے کہا
کیا مطلب…؟
شاید پہلی بار اس نے کسی بات کو سیریس لیا ہو
امن مصنوعی فکر مندی سے کہا
تبھی تو ایسی باتیں بول رہی ہو…
حیات نے امن کو گھورا، تیز، تیکھی، جیسے نظروں سے ہی امن کا قتل کر دے گی
اچھا پاؤں دکھاؤ۔۔۔
امن نے نرمی سے کہا
کیوں؟ اپنی زندگی میں کسی لڑکی کا پاؤں نہیں دیکھا کیا؟
پکا تمہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے…
امن نے حیات کو گھورتے کہا
حیات ہونٹ سکڑتے ہوئے کہا
کیوں؟ اتنا بُرا بھی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا میرا۔۔۔
امن مصنوعی ہمدردی سے کہا
نہیں، وہ والا ڈاکٹر نہیں..سائیکالوجسٹ،
سائیکالوجسٹ کی ضرورت ہے تمہیں۔ کوئی نہیں، تم اسٹریس نہ لو، جلدی ٹھیک ہو جاؤ گی۔ میں کرواؤں گا تمہارا علاج — آخر کو تم میری پرسنل اسسٹنٹ ہو۔۔۔۔
حیات نے ناک سکیڑ کر کہا
اپنا وہ وحشیانہ سا تھوبڑا لے کر اندر تشریف لے جائیں! کیونکہ اب میں آپ کی زہریلی باتیں نہیں سن سکتی۔۔۔۔
امن سنجیدہ لہجے میں کہا
پاؤں دکھاؤ… اِدھر۔
نہیں! پہلے ہی ٹوٹا ہوا ہے… آپ اور توڑ دیں گے۔۔۔۔
یہ کہتے ہی حیات نے اپنا پاؤں پیچھے کھینچا لیا
اچھا… وہ دیکھو، زاویار آیا ہے۔۔۔
امن نے حیات کے پیچھے کی طرف اشارہ کیا جیسے زاویار نہیں کوئی بہت بڑا ایکٹر سامنے آ گیا ہو
حیات فوراً گردن گھما کر کہا
کہاں؟؟
جونہی حیات کی نظر ادھر گئی، امن جھٹ سے اس کا پاؤں کھینچا، اور ایک زوردار “ٹَک” کی آواز گونجی
حیات چیختے ہوئے، دنیا سر پر اٹھاتے ہوئے کہا
اه ہ ہ ہ ! میرا پاؤں… توڑ دیا آپ نے! میں۔۔۔ میں آپ پر کیس کر دوں گی! قتل کی کوشش کا کیس۔۔۔۔
اتنا درد نہیں تھا جتنا چیخنے میں جذبہ تھا
امن سرد لہجے میں کہا
ڈرامہ مت کرو… اور ہاں، پاؤں توڑنے کے جرم میں کوئی کیس نہیں ہوتا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ بے نیازی سے اندر چالا گیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
زاویار کار لوک کرتا ہوا، اچانک رک کر حیات کو دیکھا پھر قریب آیا
تم نے نیا بزنس شروع کر لیا ہے؟
مطلب؟
مطلب، اسسٹنٹ کی نوکری چھوڑ کر پارکنگ ایریا میں مانگنے کا کاروبار کر رہی ہو؟
زاویار ایک ہاتھ اپنے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سکون سے کہا
اوہ ہیلو ! بھکاری تم ہو، تمھارا باس بھکاری۔۔۔
واٹ ایور .. وہ تو دیکھ رہا ہے کون ہے بھیکاری اور اب میں جا کے بھائی کو بتاتا ہوں کہ تم انھیں بھکاری بول رہی ہو۔
حیات نے اکڑ کر کہا
زیادہ فری نہ ہو، اور بتانا ہے تو جاؤ بتا دو میں نہیں ڈرتی کسی سے نہ تُم سے نہ تُمہارے بھائی سے۔۔۔
میں فری ہوں بھی نہیں، بہت ایکسپنسیو ہوں… اور اب، بیٹا تم رکو، میں جا کے بھائی کو بتاتا ہوں۔۔۔
حیات نے آنکھیں نکال کر کہا
ہنہ! ایکسپنسیو کوئی تمھیں دو روپے میں نہ خریدے! اکڑو کہیں کے۔۔
زیادہ اوور نہیں ہو زاویار نے ناگواری سے کہا
حیات نے ناک سکیڑ کر کہا
میں اوور ہو بھی نہیں رہی۔۔۔
واٹ ایور… جا رہا ہوں۔۔۔
وہ اکڑتا مرتا آفس کی طرف بڑھ گیا
اوئے رُکو! ارے یہ تو واقعی بتانے جا رہا ہے۔۔۔
حیات چیخی
وہ زاویار کو روکنے کے لیے جلدی سے اُٹھی ۔۔ دو قدم لنگڑا کر چلی… پھر اچانک رُک گیا۔ آنکھیں کھول کر نیچے دیکھا
اوہ واؤ … میرا پاؤں… خودبخود ٹھیک ہو گیا۔۔۔
واہ یا اللہ… تیرا شکر ہے! میری زندگی میں ایسے ہی معجزے ہوتے رہا کریں — تھنک یو سو مچ۔۔۔
پھر وہ پوری توانائی سے اچھلتی، کودتی، بھاگتی اندر کی طرف بڑھ گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
++++++++++++
مس حیات…
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوتی زارا اُسے آواز دے کر روک لیتی ہے۔۔
ابھی میں بعد میں بات کروں گی۔۔۔
حیات نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ دی اور قدم آگے بڑھائے۔
ارے سنیے تو…
زارا نے پھر پکارا۔
کہا نا بعد میں۔۔۔۔
وہ پلٹ کر غرائی،
باس کا حکم ہے…
یہ جملہ ایسا تھا جیسے کانوں میں بم پھٹا ہو۔
بولو بھائی۔۔۔۔
حیات نے مڑ کر ایسے کہا جیسے کوئی سنگھاسن پر بیٹھی شہزادی رعایا کی بات سننے پر مجبور ہو۔
آپ لیٹ آئی ہیں…
زارا نے کہا
اوہ ہاں! میرا پاؤں ٹوٹ گیا تھا نیچے، اسی لیے آنے میں دیر ہو گئی… اب بعد میں آ کے سائن کر دوں گی، ورنہ میری زندگی اُجڑ جائے گی۔۔۔
وہ اداکاری میں ایسی ماہر تھی جیسے روز شام سات بجے کسی ڈرامے میں لیڈ رول کرتی ہو۔
زارا کی نگاہ اُس کے قدموں پر جا ٹھہری، جو ابھی ابھی بالکل نارمل انداز میں زمین پر دھمک رہے تھے۔
زارا نے دل ہی دل میں سوچا
صحیح سلامت ہے، پاؤں ٹوٹا کہاں ہے؟ یہ تو منہ پر سفید جھوٹ بول رہی ہے…
یار بولو جلدی، سائن کرواؤ مجھے جانا ہے۔۔۔
حیات نے نخرے سے کہا، گویا زرا اس کی ذاتی خادمہ ہو۔
جی… وہ باس نے کہا ہے کہ اب آپ پانچ سو بار لکھیں گی کہ ‘میں آئندہ دیر سے نہیں آؤں گی…
ہائے؟ پانچ… سو؟ حیات نے حیرت سے کہا
جی، باس کا حکم ہے۔۔۔ زارا نے نرمی سے کہا
بھلا یہ کیسی سزا ہے؟ اگر ہم ہوتے تو اب تک باس ہمیں زمین میں گاڑ چکے ہوتے، اور اسے صرف پانچ سو بار لکھنے کو کہا ہے۔ یہ تو وہ سزا ہے جو اسکول میں بچوں کو دی جاتی ہے جب وہ ہوم ورک نہ کریں۔۔۔ مایا نے زارا کے کان میں سرگوشی کی ۔۔
لیکن میں تو بس دو منٹ لیٹ آئی ہوں… دو منٹ کی پانچ سو بار؟
حیات نے فریاد کی، جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔
جی۔۔۔۔ زارا اپنے باس کے حکم کی تابع تھی
افففففف اللہ! میں آئی ہی کیوں آج! سارا دن ہی منحوس گزرے گا! صبح صبح وہ وحیات پرانی کی شکل دیکھ لی تھی نا۔۔۔۔
کون وحیات پارانی…؟
زارا نے حیرت سے پوچھا۔
تمھارے باس، اور کون۔۔۔
مایا فوراً چونک کر بولی
باس؟
نہیں، میں۔۔۔ حیات نے غصے سے کہا
پھر ٹھیک ہے۔۔۔ مایہ نے کہا
ہنہ!! خیر چھوڑو، یہ سب… لاؤ دو، کہاں لکھنا ہے؟
بالآخر حیات نے شکست قبول کر لی، مگر انداز اب بھی ملکہ عالیہ کا تھا۔
زارا نے ایک موٹی سی فائل نما کاپی اس کے سامنے رکھ دی۔
یہ رہی….
ہممم، لاؤ…
حیات نے لمبی سانس لیتے ہوئے قلم اٹھایا اور سائڈ ویٹنگ ایریا صوفے پر بیٹھ گئی۔
کاپی کا پہلا صفحہ کھولتے ہی، اس نے چھت کی طرف دیکھا — جیسے کوئی بےگناہ قیدی جیل کے پنجرے سے آزاد ہونے کی دعا مانگتا ہو۔
اور پھر وہ لکھنے لگی
میں آئندہ دیر سے نہیں آؤں گی…
میں آئندہ دیر سے نہیں آؤں گی…
++++++++++++
زویار تیزی سے دروازہ دھکیلتا ہوا امن کے کیبن میں داخل ہوا۔ اُس کی سانسیں بےقابو تھیں، ماتھے پر پسینے کے قطرے جیسے کسی بڑی دوڑ سے ابھی ابھی واپس آیا ہو۔
بھائی… بھائی… سُنوں…
امن چونک گیا، کرسی سے فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا۔
ہاں ہاں سن رہا ہوں، آرام سے… کیا ہوا ہے؟
وہ… بھائی… وہ…
زبان جیسے گلے میں اٹک گئی ہو، الفاظ حلق سے باہر آنے سے انکاری تھے۔ امن کا چہرہ مزید سنجیدہ ہو گیا۔
زاویار! آرام سے بولو۔۔۔کیا ہُوا ہے۔۔؟؟
زاویار ہچکچاتے ہوئے کہا بھائی وہ… وہ
بیٹھو، یہ لو، پہلے پانی پیو، پھر آرام سے بتاؤ کیا ہوا ہے۔ امن نے نرمی سے کہا
زاویار نے کانپتے ہاتھوں سے پانی کا گلاس لیا، اور آہستہ آہستہ گھونٹ پینے لگا۔ سامنے والے صوفے پر بیٹھا، سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس کی حالت کسی پریشان مسافر جیسی لگ رہی تھی۔
ہاں اب بولو، آرام سے…
بھائی… وہ…
امن اب اور بھی پریشان ہوتے ہوئے کہا
بولو زاویار، کچھ ہوا ہے کیا؟
حیات… حیات تمہیں بھکاری بول رہی تھی۔
اُس نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا
چند لمحے خاموشی چھا گئی۔
امن نے حیرت اور بے یقینی کے عالم میں کہا
کیا؟ یہی بات تھی؟
زاویار مسکراتے ہوئے،
جی ہاں، یہی بات تھی۔
امن کی نظریں چند لمحوں کے لیے زاویار کے چہرے پر ٹھہر گئیں… اور وہ نظروں میں ایک عجیب سا سوال لے کر اُسے دیکھنے لگا۔
یہ وہ زاویار تھا؟ وہی زویار جو سیکنڈ یئر کے بعد جیسے کہیں گم ہو گیا تھا؟
جس نے قہقہوں سے، خوش مزاجی سے، اور مذاق سے جیسے کبھی کوئی ناتا ہی نہ رکھا ہو؟
جو ہمیشہ غصے میں رہتا تھا…
سخت مزاج، بےحد سنجیدہ… جس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے تو یہ نعمتِ غیر مترقبہ کہلاتی تھی۔
وہ زاویار جس کے چہرے پر سنجیدگی کی ایک تہہ جمی رہتی تھی،
جس کے لہجے میں ہمیشہ کڑواہٹ ہوتی تھی،
جس کی آنکھوں میں غصہ،
دل میں خفگی اور مزاج میں سختی بسی ہوتی تھی۔
زاویار نے تو ہنستے ہنستے جینا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اُس کے دل میں جیسے خوشی کی کوئی جگہ باقی نہ بچی تھی۔ دنیا سے، جذبات سے، اور لوگوں سے خود کو الگ کر چکا تھا وہ —
بس اگر کسی کی خوشی کی اسے پرواہ تھی، تو وہ تھے اُس کے بھائی۔
کیا ہُوا ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟
زاویار نے امن کو ایسے خود پر تکٹے پایا تو چونک کر کہا
نہیں کچھ نہیں۔۔۔
خیر واٹ ایور جارہا ہوں میں۔۔۔
اچانک اُسے احساس ہوا تھا وہ بہت ہی کوئی بچکانہ حرکت کر چکا ہے
عجیب… امن نے ناگواری سے کہا
ہاں، تم نا بہت عجیب ہو۔
میں تمہیں کہہ رہا تھا۔
زاویار نے شانے اچکاتے ہوئے کہا
Whatever…
امن نے تیور بدلتے ہوئے کہا
یہ آج کل تمہارے منہ سے بہت ‘واٹ ایور ’ نہیں نکل رہا؟
Whatever…
امن نے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے کہا
رُکو، ابھی بتاتا ہوں تمہیں—
Whatever۔۔
وہ اترتا کہتا تیزی سے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا
امن نے کچھ پل اُسے جاتا دیکھا، پھر بے ساختہ اس کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
زاویار میں جو تبدیلی امن دیکھ رہا تھا، وہ معمولی نہیں تھی۔
+++++++++++++
یار یہ ایسے کپڑے پہن کر آتی ہے اور باس اس کو کچھ بولتے بھی نہیں؟
مایا نے حیات کو دیکھتے منہ بناتے زارا سے کہا
اب یہ جاننا ضروری ہے کہ امن کے آفس کا ایک غیر تحریری اصول ہے —
یہاں صرف شلوار قمیص یا مکمل باوقار لباس پہننے کی اجازت ہے۔ نہ کوئی شارٹ فراک، نہ کوئی اسکرٹ، نہ فیشن کی بےجا نمائش۔
امن کو ایسے لباس سے شدید چِڑ تھی۔
لڑکی ہو یا لڑکا، ہر کسی کو اُس نے برابر کا ڈسپلن سکھایا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ لڑکوں کے لیے بھی کوٹ پینٹ یا سادہ شلوار قمیص کا پابند اصول لاگو تھا۔
کوئی سر پھرائی کرے، تو اُس کا اگلا دن آفس کے باہر ہوتا!
مگر… مگر… مگر…
حیات!
جس کے آفس میں آئے ہوئے ایک مہینہ گزار چکا تھا، اور اُس نے شاید ہی کوئی دن شلوار قمیص میں گزارا ہو۔
ہمیشہ رنگ برنگی شارٹ فراک میں، کبھی اسکرٹ تو کبھی ٹاپ پہنے، کھلے بالوں اور بےپروا ہنسی کے ساتھ وہ آفس میں داخل ہوتی۔ اور حیرت تو اس بات کی تھی کہ امن نے اُسے ایک بار بھی روکا نہیں، نہ ہی کبھی کوئی تبصرہ کیا۔
مایا کی آنکھوں میں حسد کی چمک اور سوالوں کی تپش تھی۔
پتا نہیں، پوچھو اِس سے…
میں نہیں پوچھ رہی، تم خود پوچھو… باس کو بتا دی تو…؟ مایا نے کہا
ارے نہیں بتائے گی، تم پوچھو تو سہی… زارا نے کہا
اچھا… سنو۔۔۔ مایہ نے حیات کو مخاطب کیا
بولو… حیات لکھنے میں مصروف تھی، بنا نظریں اٹھائے جواب دیا
تمہیں باس نے ایسے کپڑے پہن کر آنے سے منع نہیں کیا؟
نہیں۔ کیوں؟ ان کپڑوں میں کیا بُرائی ہے؟
اُس نے ناسمجھی سے جواب دیا اس وقت بھی وہ پِنا فور فراک میں ملبوس تھی ہلکی گلابی رنگت کی فراک جو سفید شرٹ پر پہنی گئی تھی۔ ساتھ ہی اُس نے بال کھول رکھے تھے اور اُن سیاہ ریشمی بالوں میں لگا ننھا سا بو اور کندھے پر لٹکتا ہوا چھوٹا سا بیگ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ منفرد انداز میں تیار ہو کر آئی تھی۔۔
لیکن پہلے دن کے بعد سے ہر روز اُس کی ڈریسنگ چھوٹے بچوں جیسی معصوم لگتی تھی۔ کبھی پِنا فور فراک، کبھی رنگ برنگے ہیئر کلپس، تو کبھی ننھے سے بیگ کے ساتھ آفس آنا—ہر بار اُس کی صورت اور انداز اتنے کیوٹ اور دل موہ لینے والے ہوتے کہ دیکھنے والا پل بھر کو الجھ سا جاتا۔ یوں لگتا جیسے وہ بڑی ہو کر بھی بچپن کی حدوں سے باہر نہیں نکلی۔
مایا نے جھینپ کر کہا
نہیں، وہ… بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔
حیات نے سرسری لہجے میں کہا اچھا۔
مایا نے زارا کی طرف منہ کر کے دھیمی آواز میں کہا دیکھا؟ باس نے اِسے کچھ نہیں کہا کپڑوں کے بارے میں…
ہمم… زارا نے ہاں میں سر ہلایا
اب تو پکا یہ باس کی کچھ لگتی ہے… اور باس کی اِس کے سامنے چلتی نہیں ہے۔
زارا نے حیرت سے سر ہلاتے ہوئے کہا
ہاں، لیکن نتاشا بھی تو ہے نا یہاں… وہ بھی تو باس کی کزن ہے… اور باس نے اُسے بھی منع کیا تھا شارٹ فراک پہننے سے۔۔۔۔
ہاں! اور صرف منع ہی نہیں کیا تھا… غصّے سے کیا تھا۔۔۔
ہاں…
Exactly!
یار، باس نے مجھے بھی صاف کہا تھا۔۔۔
مجھ سے تو کہا تھا کہ اگر ایسے کپڑے پہن کر آنا ہے تو آنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔۔۔ زارا نے منہ بناتے کہا
مایا نے بے یقینی سے کہا
وہی تو! لیکن باس اِسے کیوں کچھ نہیں بول رہے؟ کیوں؟
حیات نے سانس بھرتے ہوئے کہا
ہو گیا…
زارا کنفیوز ہوئی۔۔۔ کیا؟
ارے یہ 500 بار کا میں لیٹ نہیں ہوں گی۔۔۔۔
والا سزا نامہ…
اچھا، مبارک ہو۔۔۔ مایہ نے کہا
حیات نے مسکرا کر جھکاؤ میں کہا
خیر مبارک! چلو اب یہ لو، اور میں آزاد! اب میں جا رہی ہوں۔۔۔ وہ فائل نما کاپی زارا کو تھماتے ہوئے سیدھا امن کے کیبن کی طرف بڑھ گئی
زارا نے اسے جاتے دیکھ کر کہا
صحیح ہے بھائی… اس کا بھی مزے کا سین چل رہا ہے۔۔۔
مایا ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا
ہاں... اِس کا تو صحیح ہے! اپنا کام کرو، ورنہ ابھی زویار آ گیا نا، تو پھر فضول کا شور مچا دے گا…
ہاں… میری تو تمنا ہی رہ گئی ہے کہ باس سے ذلیل ہونے کی باری آئے۔۔۔
مطلب…؟ مایہ نے ناسمجھی سے زارا کی طرف دیکھا
مطلب یہ کہ یار… باس تو ہم سے بات ہی نہیں کرتے، آتے تک نہیں یہاں! اب تو بس یہی آرزو رہ گئی ہے کہ چلو ذلیل ہی کر دیں، مگر آئیں تو سہی…
مایا نے ہنستے ہوئے کہا
سچ کہہ رہی ہو… کم از کم آواز تو سننے کو ملے اُن کی، ورنہ تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم ہوا میں کام کر رہے ہیں…
زارا نے مصنوعی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا
بس ایک بار آ کے کہیں، یہ کیا پہن رکھا ہے زارا ؟ یا “مایا، یہ کیا چل رہا اِدھر باتیں کرنے آتی ہو یا کام؟ کم از کم یوں لگے کہ ہم بھی نظر آتے ہیں…
مایا نے قہقہہ لگا کر کہا
او ہو! تم تو بڑی اٹینشن سيكر نکلی یار…
زارا نے شرارتی انداز میں کہا
اور تم نہیں ہو؟ تمہیں کیا لگتا ہے وہ ہر صبح لپ اسٹک لگا کر آنا، نئے کلچ دکھانا میں نہیں جانتی؟
چپ کر! کہیں زاویار نے سن لیا تو پھر واقعی ذلیل ہونا پڑ جائے گا…
زارا نے چپ ہو کر نظریں جھکاتے ہوئے کہا
ہاں… لیکن دل تو چاہتا ہے… کہ وہ آ جائے، اور صرف ہمیں دیکھ لے…
دونوں ایک لمحے کو خاموش ہوگئی، اور پھر ہنستے ہوئے دوبارہ کام میں لگ گئی
+++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
