تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۶
کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ اندر پرسکون سا سکوت چھایا ہوا تھا۔ نرم روشنی میں پری فرش پر بیٹھی تھی، بالوں کا گچھا کھلا ہوا تھا جو کمر پر بکھر کر چمک رہا تھا۔
اسوان نے ایک لمحے کو چوکھٹ پر کھڑے رہ کر اُسے دیکھا، پھر دبے قدم اندر آیا۔
پری… اُس کی آواز میں ایک عجیب سا نرمی اور اپنائیت تھی۔
پری نے چونک کر سر اٹھایا۔
جی بابا؟
اسوان نے اُس کے قریب بیٹھتے ہوئے اُس کے بکھرے بال سنبھالے اور بڑی احتیاط سے اُنہیں سمیٹ کر باندھنے لگا۔ اُس کے ہاتھوں کی حرکت میں اتنی نرمی تھی کہ جیسے وہ کسی نازک شیشے کو چھو رہا ہو۔
اچانک اُس کے دل میں کوئی بات آئی، وہ لفظ جو اس نے کبھی بولنے کی ہمت نہیں کی تھی، مگر آج کسی وجہ سے منہ سے نکالنے کو بےتاب تھا۔
پری… اُس نے آہستہ سے کہا، اگر کبھی ایسا ہو کہ تمہاری ماما واپس آ جائے تو… تم کیا کرو گی ان کے ساتھ؟
پری واش چونکی اور پلٹ کر اسوان کی طرف مڑی، آنکھوں حیرت تھی
اچانک یہ سوال کیوں کر رہے ہیں بابا…؟
اسوان نے بس ہلکا سا سر ہلایا،
بس… ویسے ہی۔ بتاؤ تو، تمہیں ماما کی ضرورت نہیں ہے؟
پری نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا، آواز میں تھوڑی سی ضد تھی مگر وہی بچپن کی سچائی بھی تھی۔
نہیں بابا، آپ نے کہا تھا ہمیں ماما کی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں…
اسوان نے ایک لمبا سانس بھرا اور پھر دوبارہ وہی سوال دہرایا، مگر اس بار اس کی آواز میں شکوہ نہیں، محض ادھوری تجسس تھا۔
ہاں، کہا تھا۔ لیکن فرض کرو، اگر وہ واپس آ جائیں تو؟
پری کی چھوٹی انگلیاں اُس کے ہاتھ سے تھوڑی سخت ہو گئیں۔ چہرے پر غصّے کی ہلکی لہر دوڑی۔
میں انہیں تھپڑ ماروں گی۔ بہت زور سے۔۔۔ اُس نے بلا خوف، صاف اور تیز الفاظ میں کہا۔ مجھے چھوڑ کے جانے پر—
اچھا؟ اور پھر؟ اس نے آہستگی سے پوچھا،
پری نے سر اٹھایا، آنکھوں میں نمی مگر آواز مضبوط رہی۔
پھر میں اُن پر بہت غصّہ کروں گی، چیخوں گی، ماروں گی… اور پھر آخر میں انہیں سزا دوں گی… اور پھر رونے لگوں گی اور آخر میں گلے لگا لوں گی— کیونکہ وہ میری ماما ہیں۔۔۔
اسوان نے دل ہی دل میں سوچا—بیٹی بالکل اس کے اپنے اوتار کی مانند تھی؛ اسی ضد، اسی نرم دلی کے ساتھ۔ وہ چھپ کر اُس کے ہاتھوں کو تھوڑا سا مضبوط کر گیا، مگر زبانی کچھ نہ کہا۔
پری نے نرمی سے مگر پکے لہجے میں کہا،
ویسے بھی مجھے ماما کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایسے ہی خوش ہوں۔
اسوان نے ہلکی سی آہ بھری اور بظاہر عام سے لہجے میں پوچھا،
اور اگر… ماما کی جگہ کوئی اور آ جائے تو؟
پری چونکی۔ آنکھوں میں حیرت اور چہرے پر ہلکی سی ناراضی تیر گئی۔
مطلب؟ اُس نے فوراً سوال دہرایا۔
ماما کی جگہ کوئی اور کیسے آ سکتا ہے؟
اسوان لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوا۔ اُس کے لب ہلنے کو ہوئے، مگر لفظ جیسے اندر ہی اندر کہیں دب کر رہ گئے۔
پری کی معصوم آواز نے اُس کے خیالات توڑ دیے۔
بابا، سنیں! ماما کی جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ اور اگر کوئی لینے کی کوشش کرے گا… تو میں کبھی قبول نہیں کروں گی۔
کبھی کبھی، پری… ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں کسی نئے کو جگہ دینی پڑتی ہے۔
اسوان نے نرمی سے سمجھائے۔۔۔
پری کے ننھے چہرے پر تیکھا غصہ اُبھر آیا۔
نہیں۔۔۔۔ ماما کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ اور اگر آپ نے کسی کو اُن کی جگہ لانے کی کوشش کی، تو میں اسے جان سے ماردونگی۔۔۔
اس سے پہلے کہ اسوان کُچھ اور پری سے کہتا، اچانک اُس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
اسوان نے سامنے کہتی پری کو دیکھا
میں بات کر کے آتا ہوں۔۔۔۔
اسوان نے کہا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ دے کر اُس نے اُس کے ننھے ہاتھ کو آہستگی سے الگ کیا اور فون کان سے لگاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آیا۔
فون کان سے لگائے، اسوان کوریڈور میں رُکا ہوا تھا۔
دوسری طرف وہی مانوس مگر کچھ بدلی ہوئی آواز ابھری—
السلام علیکم۔
اسوان کے قدم جیسے لمحہ بھر کو تھم گئے۔
وعلیکم السلام… سب خیریت ہے، پریشے؟
جی، سب خیریت ہے۔ لمحے بھر کو روکی پھر بولی۔۔۔۔ آپ… مجھ سے ناراض ہیں؟
نہیں، میں کیوں ناراض ہوں گا تم سے؟
آپ میرے گھر سے تو ناراض ہو کر ہی نکلے تھے نا…
تو تمہیں میری ناراضی سے فرق پڑتا ہے؟
اسوان نے نرمی سے کہا
بالکل نہیں۔۔۔۔ وہ تیزی سے بولی،
اُس کی بات سُن کر اسوان کے ہونٹوں پر بےاختیار مسکراہٹ اُبھر آئی۔ کیسی پاگل لڑکی تھی… محبت بھی کرتی تھی، بھروسہ بھی کرتی تھی، فکر بھی کرتی تھی، مگر مانتی کسی بات کو نہیں تھی۔
اگر فرق نہیں پڑتا تو پھر فون کیوں کیا؟
اُس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
چند لمحوں کی خاموشی چھائی رہی۔ پھر اُس طرف سے دبے دبے لہجے میں وہ جُملہ آیا جس نے اسوان کے وجود کو ہلا دیا
شادی کے لیے ہاں کرنے کے لیے… آپ اپنی دادی کو لے کر میرے گھر آ سکتے ہیں۔
اسوان کی سانس جیسے گلے میں اٹک گئی۔ وہ لمحہ جو اُس نے مدتوں سے چاہا تھا، اچانک اُس کے سامنے تھا۔ مگر اُس کے کانوں میں پیچھے سے پری کی آواز بھی گونجنے لگی
ماما کی جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ اور اگر کوئی لینے کی کوشش کرے گا… تو میں کبھی قبول نہیں کروں گی۔۔۔۔
اسوان کی مٹھی بے اختیار سخت ہو گئی۔ ایک طرف پریشے کی ہاں، دوسری طرف پری کی ضد… دل کے ترازو پر دونوں کا وزن رکھ کر وہ لمحہ اسوان کے لیے مزید بھاری ہو گیا۔
++++++++++++++
راضیہ بیگم کے کمرے کی کھڑکی سے نرم دھوپ اندر آ رہی تھی اسی دھوپ میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھل رہی تھی۔ فیضان صاحب اور عائشہ بیگم بھی وہاں بیٹھے تھے، مگر ہر چہرے پر مختلف کیفیت تھا — خوشی، شک، اور قدرے احتیاط۔
عائشہ بیگم نے آہستہ سے کہا، جیسے کسی نازک شیشہ کو چھو رہی ہوں
دیکھو تم نے شادی کرنے کا فیصلہ تو کر لیا… مگر پری کا کیا؟ کیا وہ اسے ماں جیسی محبت دے پائے گی؟
اسوان کی آنکھوں میں فخر کی کچھ لکیریں اُبھریں۔ وہ سنبھل کر بولا
جب وہ ہمارے گھر آئے گی تو آپ خود دیکھ لیں گی۔
راضیہ بیگم نے نظریں سنبھالے ہوئے شکوے بھری آواز میں کہا
ہم کو تیری پسند پر بھروسہ نہیں ہے، اسوان۔
اسوان نے فوراً جواب دیا،
دادی۔۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ جب وہ اس گھر میں آئے گی نہ ، تو آپ خود دیکھ لیجئے گا۔۔۔
فیضان صاحب نے ماضی کی تلخ یاد تازہ کرتے ہوئے ہلکا سا کہا
چھوڑ دو بیٹا، تم نے پہلے بھی ایسی باتیں کی تھیں… پھر حال دیکھ لیا تھا ہم نے۔۔۔
اسوان نے چہرے پر اٹل مسکان سجائے کہا
میں تو اس کی محبت میں اندھا تھا لیکن پریشے کا کردار بہت اچھا ہے — صاف دل کی لڑکی ہے، کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔
عائشہ بیگم کا لہجہ نرم رہا مگر الفاظ میں کھردرا پن چھپا تھا۔
بیٹا، تم وہی وہی باتیں دہرا رہے ہو—یہی سب تم نے پہلے بھی کہا تھا۔
اسوان نے ایک پل کو چپ رہ کر اُن کی آنکھوں میں دیکھا، پھر آگے بڑھ کر باوقار انداز میں بول دیا،
کیا مسئلہ ہے؟ آپ لوگوں کو یہ بتائیے۔ کیا نہیں کروں میں شادی؟
فیضان صاحب نے سر ہلا کر کہا،
مسئلہ ہم نہیں، مسئلہ پری ہے۔
اِس کا کیا مسئلہ ہے؟
عائشہ بیگم نے آہستگی سے لفظ بولا،
وہ اپنی سوتیلی ماں کو برداشت کر لے گی؟
اسوان نے فوراً لاپرواہی میں جواب دے دیا،
ہاں، برداشت کر لے گی—میں کہوں گا تو۔
راضیہ بیگم کی آنکھوں میں شک کے بادل گھِر آئے، اُس نے سخت لہجے میں کہا،
یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہمیں یقین نہیں ہے۔
اسوان چہرے پر تھوڑا غصّہ لے آیا،
وہ پریشے کا مسئلہ ہے…
عائشہ بیگم نے سختی سے کہا،
پریشے کا کیا مسئلہ؟ وہ پریشے کی بیٹی نہیں، وہ تمہاری بیٹی ہے۔۔۔
اسوان نے نرم مگر پُراثر انداز میں جواب دیا،
نکاح نامہ میں جب دستخط ہوں گے تو وہ پریشے کی بیٹی بھی بن جائے گی۔۔
راضیہ بیگم نے تھوڑی سختی سے کہا
کس زمانے میں جی رہا ہے تو؟ سوتیلی ماں ہوگی وہ اُس کی، نہ پری پریشے کو برداشت کرے گی نہ پریشے پری کو برداشت کرے گی۔۔۔
عائشہ بیگم نے تسلیم کرنے سی آواز میں کہا،
ہاں، کوئی بھی عورت اپنے شوہر کی پہلی بیوی کے بچے کو پورے دل سے قبول نہیں کر پاتی۔
اسوان کی آنکھوں میں مغموم جوش اُبھرا۔ وہ تھوڑا آگے بڑھا اور ہاتھ مل کر سر جھکا بیٹھا،
میں کہہ رہا ہوں—یہ سب مجھے پر چھوڑ دیں۔ بس ایک بار اُسے گھر میں آنے دیں۔
فیضان صاحب نے سر ہلا کر کہا،
عجیب ضد ہے تمہاری بھی۔ پہلے بھی تم نے ایسا ہی کیا تھا—آخر کیا فائدہ ہوا؟ اب بھی وہی پرانی راہ کیوں لے رہے ہو؟ اپنے گلے میں مشکل کیوں ڈالتے ہو؟
اسوان نے آہستگی سے کہا،
ماضی ماضی ہے۔ میں نے جو غلطیاں کیں، اُن سے سیکھا ہے۔ مگر پریشے کو موقع دے کر تو دیکھيں—محبت اور وقت بہت سی دیواریں گرا دیتے ہیں۔
کمرے میں ایک بھاری خاموشی چھا گئی۔ راضیہ بیگم کی نظر میز پر پڑی ہوئی شیشہ کی گلاس پر ٹھہری، جیسے وقت کے بہاؤ میں کوئی فیصلہ ڈھلنے کا انتظار کر رہا ہو۔
+++++++++++++
رضیہ بیگم، فیضان صاحب اور عائشہ بیگم کو منانے کے بعد وہ اب زیدان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔
زیدان کے بستر کے بائیں جانب سامنے ڈبل صوفہ اور اُس کے سائڈ میں ایک سنگل صوفہ رکھا ہوا تھا، جن کے بیچ میں ایک چھوٹی سی میز تھی۔ زیدان اپنے بستر پر عجیب سے انداز میں لیٹا ہوا تھا۔۔ بستر کے بائیں جانب وہ اس طرح لیٹا تھا کہ اس کا پورا جسم بستر پر تھا لیکن سر نیچے کو ڈھلکا ہوا، یوں کہ جیسے بستر سے لٹک رہا ہو۔ اور اُس کے عین سامنے ڈبل صوفے پر اسوان بیٹھا تھا۔ اور زیدان کی آنکھوں کو اسوان الٹا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔
میں شادی کر رہا ہوں۔ اسوان نے سنجیدگی سے کہا
پھر سے؟ یہاں تو ہماری ایک نہیں ہو رہی اور تم دوسری کرنے جارہے ہو؟ زیدان نے نارمل انداز میں کہا
اسوان نے گہری نظر ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا
تمہیں کرنی ہے شادی؟
زیدان نے بے فکری سے گردن ہلائی،
نو، نیور… کبھی نہیں۔
تو پھر؟ اسوان نے ابرو اٹھاتے ہوئے کہا۔
زیدان نے مسکرا کر الٹے انداز میں جواب دیا،
اسی لیے تم نے سوچا ہوگا، چھوڑو، میں ہی دوسری شادی کر لیتا ہوں۔
اسوان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، مگر لہجہ بدستور سنجیدہ رہا
میں سیریس ہوں…
لیکن میں نہیں ہوں۔۔۔ اُس نے سنجیدگی سے کہا کہ وہ سنجیدہ نہیں ہے
تو ہو جاؤ… اسوان نے جمی ہوئی آواز میں کہا۔
زیدان نے جھٹ سے کہا ہو گیا۔۔۔ بولو…
اسوان نے گہرا سانس بھرا،
لڑکی کا نام پریشے ہے۔
پریشے؟ پریوش، پری، پری… اور کوئی نام کی لڑکی نہیں ملی تمہیں کیا؟
اسوان نے ہلکی شرمندگی سے کہا،
یار وہ اتفاق…
زیدان نے بیزاری سے کہا، گویا اُسے اس سب میں بلکل انٹرسٹ نہیں
اچھا، اب آگے بولو۔
آگے کیا؟ اسوان نے الٹا سوال کیا۔
تم بتاؤ، کر لوں شادی؟
زیدان نے سنجیدگی سے کہا
میں منع کر دوں گا تو نہیں کرو گے؟
نہیں کروں گا… اسوان نے اعتماد سے کہا۔
زیدان نے دھیرے سے کہا
اوکے، میں اسے بھابھی بولنے کے لیے تیار ہوں… لیکن پری؟ اس کا کیا کرو گے؟
اسوان نے سکون سے کہا،
ابھی تو اسے پھوپو کے پاس لندن بھیج دوں گا، پھر شادی ہو جائے گی تو دیکھ لوں گا۔
زیدان نے گہری نظر ڈالتے ہوئے چٹکی لی،
ٹھیک ہے، تم نے تو پوری پلاننگ کر رکھی ہوگی….
اسوان نے معنی خیز لہجے میں کہا،
تم اپنے بارے میں بھی سوچ کر رکھو… تمہاری لڑکی بھی میں نے دیکھ رکھی ہے۔
زیدان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
میں ہرگز شادی نہیں کروں گا…
اسوان کی نظریں اور بھی سخت ہو گئیں،
لیکن میں تمہاری شادی کروا کے رہوں گا۔۔۔
اسوان نے گہری سانس لیتے ہوئے زیدان کی آنکھوں میں دیکھا اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا
تم اس معاملے میں مجھے منع نہیں کر سکتے۔ یاد ہے جب تم باہر جا رہے تھے تو ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ میں تمہاری بات مانوں گا اور تم میری بات مانو گے۔۔۔
ہاں بھائی، یاد ہے۔۔۔ لیکن یہ کیوں زخموں پر نمک چھڑک رہے ہو؟
اسوان کے چہرے پر ایک سنجیدہ مسکراہٹ ابھری،
میں زخموں پر نمک نہیں چھڑک رہا، صرف تمہیں یاد دلا رہا ہوں کہ شادی والے معاملے سے تم بچ نہیں سکتے۔
زیدان نے آنکھیں سکیڑ کر طنزیہ ہنسی چھوڑی، ڈھونڈتے رہو لڑکی۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں کہ کون ہے جو زیدان سے شادی کے لیے ’ہاں‘ میں سر ہلاتی ہے۔
یہ کہتے ہوئے اس کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی، جیسے وہ اسوان کو چیلنج دے رہا ہو۔
اور حقیقت بھی یہی تھی۔ خاندان بھر میں زیدان کا چرچا عجیب ناموں سے ہوتا تھا۔ کوئی اسے “درندہ” کہتا، کوئی “آوارہ“، کوئی “چرسّی“، کوئی “جانور” اور کوئی “پاگل“۔ اس کی حرکات بھی کچھ ایسی تھیں کہ کوئی ان القاب کو غلط ثابت نہیں کر پاتا تھا۔
پورے خاندان میں زیدان کا خوف اس قدر تھا کہ کوئی بھی اس کے قریب آنے سے پہلے سو بار نہیں بلکہ ہزار بار سوچتا۔ گویا اس کا وجود ہی سب کے لیے ایک انجانا خطرہ تھا۔
اچانک زیدان مسکرایا اور طنز سے بھرے لہجے میں اس نے کہا
مجھ سے شادی کرے گی تو یا دیوانی ہوگی… یا موت سے کھیلنے کی شوقین۔
اسوان نے پلک جھپکائے بغیر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
تو پھر میں ایسی ہی دیوانی ڈھونڈ لاؤں گا… جو زیدان کی وحشت کو سنبھال سکے۔
زیدان لمحہ بھر کو چپ سا ہو گیا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری لیکن آنکھوں کی گہرائی میں ایک لمحے کے لیے انجانا سا درد جھلک گیا۔ پھر وہ زور سے ہنسا اور بستر سے کروٹ بدلتے ہوئے بولا
ایسی دیوانی ملی تو اسے بتا دینا… زیدان کے قریب آنا مطلب ، جلتی آگ کو گلے لگانا ہے۔
اسوان نے پرسکون لہجے میں جواب دیا
جس دن وہ دیوانی تمہارے پاس آئی، زیدان… تمہاری آگ، تمہاری وحشت، سب پگھل جائے گی۔
زیدان نے اچانک کروٹ بدلی، اور تکیے پر سر پٹخ دیا۔
بس… جاؤ اب یہاں سے، مجھے سونا ہے۔
اسوان نے لمحہ بھر اسے دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو مگر الفاظ لبوں تک آ کر رک گئے۔ وہ جانتا تھا زیدان کی یہ ضدی ادا دراصل ایک نقاب ہے، اس کے پیچھے جو کرب اور خلا چھپا ہے وہ کسی کو دکھانا نہیں چاہتا۔
اسوان نے آہستہ سے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
سونے کا ڈرامہ کر لو… نیند تو تمہیں آتی نہیں۔
زیدان نے آنکھیں موند لیں، جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
+++++++++++++
اسوان زارا کے کمرے میں دروازے سے اندر آیا۔۔۔وہ بیڈ پر بیٹھی فون میں مصروف تھی۔۔
زارا نے فوراً پوچھا
خیرِیت؟
اسوان نے ہلکا سا سر ہلایا۔
ہاں… مجھے تم سے ایک کام تھا۔
زارا نے فوراََ کہا
حکم کرو…
اسوان نے پل بھر سوچ کے بعد کہا
میں حکم دینے نہیں۔۔۔ ریکوئسٹ کرنے آیا ہوں
زارا دِل ہی دل میں سوچ ریکوئسٹ واؤ
اچھا؟ کہو پھر…
میں چاہتا ہوں تم پری کو لے کر چند ہفتوں کے لیے پھوپو کے پاس لندن چلے جاؤ۔
زارا کا چہرہ ایک پل کے لیے حیراں ہوا۔
کیوں؟
اسوان نے سادگی سے جواب دیا
پری وہاں جانے کی ضد کر رہی ہے۔ اور میں اس کے ساتھ نہیں جا سکتا—آفس کے معاملات ہیں،
زارا نے پلکیں اٹھا کر کہا
تو پھر کائنات کو ہی بھیج دو۔
اسوان نے فوراً انکار کی طرح منہ بنا لیا۔
اُس کے پیپرز ہیں۔۔۔۔
زارا کے چہرے پر ناگواری اُبھری
کاش تم یہ کہہ دیتے۔ کہ میں چاہتا ہوں کہ تُم ہی پری کو لے کر جاؤ۔۔۔
میں واقعی ایسا چاہتا ہوں— تبھی تُمہارے پاس آیا ہوں ورنہ میں چاہوں تو امی کو بھی ساتھ بھیج سکتا ہوں۔۔۔۔۔
زارا چند لمحے خاموش رہی، سوچی واقعی وہ بڑی امی کو بھی بھیج سکتا تھا۔۔۔
پھر آہستگی سے بولی
اوکے۔۔۔ تُم بولو اور میں نہ مانوں ایسا تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔
اسوان کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔
+++++++++++++
صبح کے ناشتے کے بعد زیدان اپنے کمرے سے نکلا۔ اُس کے قدموں کی چاپ ابھی لاؤنچ تک پہنچی ہی تھی کہ کانوں میں زرتاشہ کی کھنکتی ہوئی آواز گھل گئی۔
وہ صوفے پر نیم دراز تھی، ہاتھ میں موبائل فون اور لبوں پر وہی طنزیہ مسکراہٹ۔
واہ! یہ سورج آج کہاں سے نکلا ہے؟ شیر اپنے پنجڑے سے اتنی صبح صبح کیسے نکل آیا؟
اس جملے نے زیدان کے قدموں کو روک دیا۔ اُس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ لمحہ بھر کو بس تیز نظر ڈالی اور پھر بنا سوچے سمجھے قریب رکھا گل دان اُٹھا کر زرتاشہ کی طرف پھینک مارا۔
زرتاشہ لمحے بھر کی مہارت سے سائیڈ ہوئی، ورنہ وہ شیشے کا گل دان اُس کے سر کو دو حصّوں میں بانٹ دیتا۔ گل دان تیزی سے اُس کے کان کے قریب سے گزرا اور زور دار آواز کے ساتھ صوفے کے پہلو میں رکھی شیشے کی میز سے ٹکرا کر زمین پر گر گیا۔
یہ کیا پاگل پن ہے؟ وہ غصے سے چیخی۔
جنگلی انسان۔۔۔۔
زیدان نے سرد لہجے میں کہا
آئندہ میرا راستہ روکنے سے پہلے ہزار بار سوچنا۔
زرتاشہ نے جل کر کہا
میں زبان سے بات کر رہی ہوں نا؟ تم بھی زبان سے بات کرو مجھ سے۔۔ یہ کیا ہے ہر وقت اپنا وحشی پن دکھاتے رہتے ہو؟
زیدان نے حقارت سے کہا
تم اس لائق ہو کہ میں تم سے بات کروں؟
زرتاشہ نے تلخی سے جواب دیا
یہ مت کہو کہ میں لائق نہیں—کہو کہ تمہیں بولنے کی تمیز ہی نہیں۔
زیدان کی آنکھوں میں بجلی چمکی۔
اگر لوگ تمہارے جیسے گھٹیا اور نیچ ہوں تو ہاں، مانتا ہوں، میں لائق نہیں۔
زرتاشہ کا خون کھول گیا۔
زبان سنبھال کر بات کرو۔۔۔ یہ کیسی زبان ہے جو استعمال کر رہے ہو؟
وہ طنزیہ انداز میں آگے بڑھا۔
اے… چپکلی! زیادہ زبان نہیں چلاؤں۔ ابھی کھینچ لوں گا۔۔۔
زرتاشہ نے بھڑک کر کہا
چپکلی؟ زبان کھینچ لونگا؟ تمہیں تمیز نہیں ہے لڑکیوں سے بات کرنے کی۔۔۔۔
کائنات ابھی کمرے سے نکل کر اوپر اسوان کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی اُس کے ہاتھوں میں فائل اور دوپٹہ، اور ذہن کالج کی باتوں میں الجھا ہوا۔ اُسے اندازہ تک نہ تھا کہ سامنے لانچ میں زیدان کھڑا ہے۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں چلتی جارہی تھی۔
اچانک اُس کی سماعت پر بجلی کی طرح ایک آواز گر
اوئے چوزی! باہر سے پتھر اُٹھا کے لاؤ۔۔۔۔
کائنات کے قدم وہیں رک گئے۔ اُس کے کانوں میں گونجتا لفظ… چووزی … اور جب اُس نے دیکھا یہ آواز کس کی ہے تو وہ آگے سے کچھ نہیں بول پائی۔۔۔
زرتاشہ طنز سے بولی
پتھر کا کیا کرو گے؟
زیدان نے گھور کر کہا
تمہارا سر پھاڑوں گا۔۔۔۔
بس اتنا کہا ہی تھا کہ اُس نے قریب پڑی صوفے کی سائیڈ ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے بدھ کے مجسمے کو اٹھایا اور زرتاشہ کے سر پر دے مارا۔ اس بار وہ بچ نہ سکی۔ مجسمہ سیدھا اس کی پیشانی پر لگا۔ درد کی ایک تیز لہر اس کے سَرے سے لے کر پاؤں تک دوڑ گئی۔
جاہل انسان۔۔۔۔ زرتاشہ درد سے چیخ اٹھی۔
اسی لمحے باہر سے گھر کا دروازہ کھلا۔ اَرسَم اندر داخل ہوا۔ چونکہ وہ کائنات کے تایا کا بیٹا تھا، ملازمین اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لیے سیدھا اندر آنے دیا۔
چیخ کی آواز سنتے ہی اُس نے بے ساختہ کہا
Everything is okay?
زیدان نے اُسے دیکھتے ہی کہا
تو یہاں کیوں آیا ہے؟
بھائی سے ملنے آیا تھا۔
زیدان کا لہجہ پتھر کی طرح سخت تھا
بھائی نہیں ہیں گھر پر۔ کٹ لے یہاں سے۔۔۔۔
وہ یہ کہہ کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ اپنے پیچھے زرتاشہ کا غصہ اور زخمی چہرہ چھوڑ کر۔ شاید وہ روکا ہی اسی لیے تھا زرتاشا کو مارنے کے لیے پہلے وار سے تو وہ بچ گئی۔۔۔
اَرسَم فوراً اس کی طرف آیا۔
تم کیوں چیخ رہی تھی؟
زرتاشہ نے غصے میں ہاتھ میں پکڑا وہ چھوٹا سا بُدھا دکھایا۔
یہ جاہل زیدان! اتنی زور سے میرے سر پر دے مارا۔۔۔
اَرسَم نے مسکرا کر کہا
اس کے دماغ کا بھی ایک پیچ ڈھلا ہے۔۔۔۔
زرتاشہ بھڑک اٹھی
پیج؟ یہ پورا کا پورا جاہل انسان ہے۔۔۔۔ جانور ہے، جانور۔۔۔۔
پھر اُس نے فکرمندی سے پوچھا
ویسے بھائی واقعی گھر پر نہیں ہیں؟
زرتاشہ نے ہونٹ بھینچ کر کہا
ہیں گھر پر۔ میں بلوا لیتی ہوں ابھی۔
اور اس نے ملازم کو بھیج دیا۔
اسی دوران اَرسَم کی نظر کائنات پر پڑی، جو تیار کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر وہی معصومیت اور خاموشی تھی۔
کیسی ہو کائنات؟
میں اچھی ہوں۔
ہاں، اچھی تو تم واقعی ہو۔ کہیں جا رہی ہو؟
جی… کالج۔۔ آج ڈیٹ شیٹ ملی ہے۔
بھائی آپ کو روم میں بلا رہے ہیں۔
ملازم نے آکر بتایا
اَرسَم اٹھتے ہوئے بولا
اچھا… ٹھیک ہے۔۔۔
وہ اوپر چلا گیا۔
اُس کے جاتے ہی زرتاشہ نے کائنات کی طرف رخ کیا۔
سنو… میں تمہیں ایک خالص دوستانہ مشورہ دوں؟
کائنات نے آہستگی سے کہا
جی، دیں…
پہلی بات—اَرسَم سے دور رہنا۔ دوسری—اَسوان سے بھی۔
کائنات چونکی۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟
زرتاشہ کی آواز بھاری اور پراسرار تھی
سچ کہہ رہی ہوں۔ اَسوان اتنا اچھا نہیں جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ یہ اچھا بن کر لوگوں کی خوشیاں کھانے والا درندہ ہے۔
کیا…؟
کائنات کے چہرے پر حیرانی اور بے یقینی ایک ساتھ تھی۔
ہاں۔ سنبھل جاؤ۔ ورنہ یہ دنیا تمہیں نوچ کھائے گی۔
کائنات نے آہستگی سے سر جھکا لیا۔
اچھا…
زرتاشہ نے شک کی نگاہوں سے پوچھا
سمجھی بھی یا یوں ہی گزر گیا کانوں سے؟
جی… سمجھ گئی۔
کیا سمجھیں؟
کہ اَرسَم بھائی اور اَسوان بھائی سے دور رہوں۔
زرتاشہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی۔
That’s my good girl۔۔۔۔۔
شاباش… میری بات مانتی رہو گی تو زندگی میں کامیاب رہو گی۔
اسی لمحے اَرسَم دوبارہ واپس آ گیا۔
چلو کائنات، میں چھوڑ آؤں تمہیں۔
زرتاشہ نے تیز لہجے میں کہا:
وہ اَسوان کے ساتھ چلی جائے گی۔ تمہارا کام ویسے جلدی نہیں ہو گیا۔
اَرسَم نے مسکرا کر کہا
ہاں، بس کمپنی میں مسئلہ ہو گیا تھا۔ آیا تھا کہ بھائی آ کے دیکھ لیں۔ باقی جب وہ کمپنی آئیں گے تو ڈسکس کر لیں گے۔
کائنات نے معصومیت سے پوچھا
آپ کب بڑے ہوں گے؟ اب تک اپنی کمپنی نہیں سنبھال پاتے۔
اَرسَم نے شرارت سے کہا
بس کیا کریں، میڈم؟ یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔ کہ سیدھے سادے معصوم کو کمپنی چلانے ہی نہیں دیتی۔۔۔ سازشیں کرتی ہے، اور میں بچ نہیں پاتا۔۔۔۔
کائنات نے ہنستے ہوئے کہا
آپ اور معصوم؟
اَرسَم نے فوراً کہا
کوئی شک ہے؟
کائنات نے معصومیت سے کہا
ہاں، کیونکہ معصوم صرف میں ہوں۔
اَرسَم ہلکا سا ہنسا
I agree!
اب چلو، کالج چھوڑ دوں۔
وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔
پیچھے زرتاشہ نے کائنات کو اس طرح گھورا کہ وہ سہم گئی۔
سوری۔۔۔۔۔
کائنات نے تیزی سے کہا اور بھاگتی ہوئی نکل گئی۔
زرتاشہ نے دانت پیسے۔
یہ کیسی دِن پیٹے گی میرے ہاتھوں سے….
+++++++++++++
زرتاشہ زارا کے کمرے میں داخل ہوئی تو زارا بیڈ پر بیٹھی تھی
زرتاشہ اُس کے پاس آکر بیٹھتی غصّہ میں بولی
میں تمہیں بتا رہی ہوں… یہ کائنات ایک دن میرے ہاتھوں ختم ہوجائے گی۔۔۔۔
زارا نے حیرت سے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا۔
اب کیا کر دیا اُس نے؟
زرتاشہ نے ناگواری سے لب بھینچے۔
کرنا کیا ہے؟ جتنی معصوم بنتی ہے نا، اتنی ہے نہیں۔ ایک نمبر کی چالاکو مسّی ہے۔
وہ اتنا کہہ ہی رہی تھی کہ اچانک اُس کی نظر زارا کے پاس رکھے بیگ پر پڑی۔
یہ… یہ بیگ؟ کہاں جانے کی تیاری ہے؟
زارا نے لمحے بھر کو رک کر نرمی سے جواب دیا۔
دائم اور دعا کے پاس۔
زرتاشہ کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ لندن؟
زارا کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کھل گئی۔
ہاں… اسوان نے کہا ہے۔ پری ضد کر رہی ہے وہاں جانے کے لیے۔
تو…؟ زرتاشہ کے لہجے میں چبھن تھی۔
تو اُس نے کہا میں چلی جاؤں پری کے ساتھ۔
زارا نے سادہ الفاظ میں بتایا۔
زرتاشہ نے فوراً سوال داغا،
وہ خود کیوں نہیں جا رہا؟
زارا نے ذرا ٹھہر کر کہا۔ آفس کا کام ہے۔ پتہ ہے وہ خود میرے پاس آیا تھا، اور تو اور اُس نے مجھ سے درخواست کی تھی… ہائے اللہ! مجھے کتنا اچھا لگا۔ اُس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی، جیسے کوئی چھپی خواہش پوری ہو گئی ہو۔
میں تجھے بتا رہی ہوں، یہ اسوان کے اتنے میٹھے میٹھے باتوں میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرور اس کے پیچھے کوئی بڑا مقصد ہوگا۔ ورنہ وہ یوں بلاوجہ اپنی محبتیں دوسروں پر نچھاور نہیں کرتا۔
زارا کا چہرہ اک دم اتر گیا۔ اُس نے غصے سے کہا،
ہاں، کر دو، کر دو میرا موڈ خراب۔۔۔ یار، تُو جا یہاں سے۔ پہلے بھی میرا کام بگاڑ چکی ہے۔
زرتاشہ نے سنجیدگی سے سر ہلایا، جیسے کوئی آخری وارننگ دے رہی ہو۔
دیکھ لینا، سمجھا رہی ہوں میں۔ ورنہ نتائج بھگتو گی۔
زارا نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
ہاںاںاں! وہ میرا مسئلہ ہے۔ تُو جا یہاں سے۔۔
اوکے میری بلا سے بھاڑ میں جا۔۔۔۔
وہ یہ کہتی ہی زارا سے روم سے نکل گئی۔۔۔
+++++++++++++++
رات کے تین بجے اسلام آباد ایئرپورٹ کے وسیع لاؤنج میں ایک نرم سی اداسی گونج رہی تھی۔ جہاز کی روانگی میں ابھی کچھ دیر تھی مگر جدائی کا احساس جیسے سب کے دلوں پر پہلے ہی اتر چکا تھا۔
اسوان نے زارا کی طرف دیکھا۔ اس کی نظریں پری پر جمی تھیں جو سامان کے ساتھ کھڑی اپنی مخصوص شوخی سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
اسوان آہستہ سے بولا
زارا… پری کا بہت خیال رکھنا۔
زارا نے مسکرا کر کندھے اچکائے
ہاں ہاں، تم فکر مت کرو۔ میں سنبھال لوں گی تمہاری شہزادی کو۔
پری نے فوراً پلٹ کر بولی
دیکھ لیں بابا، میرے بغیر رہ لیں گے؟
اسوان نے گھٹنے کے بل بیٹھ کر پری کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
تم میرے بغیر رہ لو گی۔۔۔۔
پری نے شوخی سے آنکھیں گھمائیں
ہاں بابا، میں تو رہ لوں گی، آپ نہیں رہ پائیں گے۔۔۔
اسوان کے لبوں پر اداس سی مسکراہٹ آئی، جیسے دل کی بات کسی چھوٹی زبان سے سن لی گئی ہو۔
واقعی نہیں رہ پاؤں گا… تم مجھے کال کرتی رہنا۔
صبح اُٹھنے کے بعد، شام کو، پھر رات کو بھی۔
پری نے فوراً شرارت سے جواب دیا
آپ کال کر لینا، میں تو وہاں جا کر بہت بزی ہو جاؤں گی۔
اسوان نے سر جھٹکا
ہاں بھئی، مس بھی میں کروں، کال بھی میں ہی کروں… سارا کام بابا ہی کرے گے نا۔
پری نے اپنے چھوٹے سے ہاتھ کمر پر رکھے، گردن اکڑاتے ہوئے پورے فخر سے کہا
ہاں اور نہیں تو کیا کیوں کہ میں تو شہزادی ہوں نہ اور شہزادی کِسی کو مِس نہیں کرتیں۔۔۔
اسوان کے لبوں پر ہلکی سی ہنسی اُبھری،
وہ اس کی بات پر جھک کر بولا —
ایسے کس نے کہا کہ شہزادیاں کسی کو مِس نہیں کرتیں؟
پری نے لمحہ بھر کو سوچا، پھر مسکراہٹ دبا کر بولی
ارے ۔۔۔۔ وہ شہزادی ہے نہ اور شہزادیاں اتنا بسی رہتی ہیں۔۔۔ کہ اُنہیں وقت نہیں ملتا۔۔۔کہ وہ کسی کو مِس کرے ۔۔۔
اسوان نے نرمی سے اس کے بالوں کو سہلایا۔
لیکن یہ میری شہزادی تو اپنے بابا کو بہت مِس کرے گی۔۔۔۔
پری کی آنکھوں میں چمک لرزی، مگر اُس نے فوراً ہونٹ سکیڑ کر کہا
نہیں کروں گی۔۔۔۔۔
نہیں کرو گی؟ اُس نے نرمی سے پوچھا،
بالکل نہیں؟ ایک ذرا سا بھی نہیں؟
پری نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا، اور بولی
میں بہت بہادر ہوں بابا، بالکل آپ کی طرح… اور بہادر لوگ کسی کو مِس نہیں کرتے۔
اسوان نے ہلکی سی سانس لی۔
ہاں… مگر کبھی کبھی بہادر لوگوں کو بھی یاد آ جاتی ہے۔۔۔ اُن کی اپنی دنیا کی۔۔۔۔
پری نے اسوان کی طرف دیکھا —
اگر یاد آئی نا، تو بس تھوڑا سا مِس کر لوں گی… پھر کال کرلوں گی ۔ وہ آہستہ سے مُسکرا کر بولی۔
اسوان کے لبوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ آگئی۔
ٹھیک ہے میری گڑیا، بس اتنا ہی کافی ہے۔
پری نے اپنی چھوٹی سی ہتھیلی اُس کے گال پر رکھی —
اب آپ اداس مت ہونا، بابا۔ پری جا رہی ہے، لیکن دل آپ کے پاس ہی چھوڑ کر جا رہی ہے۔۔۔۔
اور زارا۔۔۔ تم بھی اپنا خیال رکھنا۔ زارا کے ساتھ کھڑی زرتاشا زارا سے مخاطب ہوئی
زارا نے فوراً منہ بنایا
میں چھوٹی بچی تھوڑی ہوں۔۔۔۔
زینب جو پیچھے کھڑی مسکرا رہی تھی، آگے بڑھی اور پیار سے بولی
میرے لیے تو بچی ہی ہو۔
زارا کے چہرے پر نرمی آ گئی۔ اس نے زینب بیگم کے ہاتھ تھام لیے، زرتاشا، زینب بیگم اور اسوان پری اور زارا کو ائرپوٹ چھوڑنے آئے تھے۔۔۔
ایئرپورٹ پر اعلانات کی آوازیں گونج رہیں تھیں، زارا اور پری اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
پری نے پلٹ کر بابا کو دیکھا — وہ مسکرا رہے تھے، مگر اُس مسکراہٹ کے پیچھے اداسی چھپی تھی۔
++++++++++++++
زرتاشہ ایئرپورٹ سے سیدھی گھر آتے ہی اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ راہداری کے بیچ اچانک ایک کمرے سے ہلکی سی روشنی جھلکی۔
اُس نے چونک کر دیکھا — کائنات کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔
زرتاشہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے، ہلکی سی جھنجھلاہٹ کے ساتھ بڑبڑائی
یہ تین بجے رات کے جاگ کر کیا کر رہی ہے؟
وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتی دروازے کے قریب پہنچی۔ دروازہ آدھا سا کھلا ہوا تھا۔ اندر جھانک کر دیکھا تو کائنات جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ آنکھیں بند، ہاتھ اُٹھے، اور ہونٹوں پر ٹوٹتی دُعائیں۔
کائنات دھیرے دھیرے کہہ رہی تھی
یا اللہ… بس ایک اُس شخص کو میرا کر دے، چاہے پھر مجھ سے پوری دنیا لے لے۔
زرتاشہ پل بھر کو ساکت ہو گئی۔ اُس کے لبوں پر ایک مدھم سوال آیا:
یہ کس کو مانگ رہی ہے…؟
کمرہ خاموش تھا، بس کائنات کی ٹوٹی ٹوٹی آواز میں دُعا گونج رہی تھی، اور زرتاشہ کے دل میں ایک نیا تجسس جنم لے رہا تھا۔
یا رب… اگر وہ میرے نصیب میں نہیں، تو میرا دل ہی بدل دے… لیکن پلیز، مجھے اُس کے بغیر جینا نہ پڑے…
زرتاشہ کی آنکھوں میں حیرت اور بےچینی اُبھر آئی۔ اُس نے آہستہ سے سر اٹھایا، جیسے اپنے آپ سے پوچھ رہی ہو —
یہ کون ہے… جس کے لیے یہ اتنی رات کو روتی ہے؟
کمرے کے اندر سے ہلکی ہچکیوں کی آواز آ رہی تھی۔
کائنات اب سجدے میں تھی، اور زرتاشہ کا دل عجیب سا ہو رہا تھا —
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہمدردی کرے یا شک کرے۔
چند لمحے وہ یونہی کھڑی رہی، پھر دھیرے سے پلٹ گئی۔
چلتے ہوئے بس اتنا کہا
کائنات… اگر تم جسے مانگ رہی ہو، وہی ہے جو میں سوچ رہی ہوں…
تو تم نہیں جانتیں، تم اپنی تباہی خود مانگ رہی ہو۔
اور یہ کہتے ہوئے زرتاشہ کے چہرے پر ایک سخت سا تاثر چھا گیا —
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
