زندگی کیا ہے ۔۔۔۔
ازقلم احسن نعیم
“جب جب جو جو ہونا ہوتا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے۔”
انسان کی زندگی محض چند دن کی ہے یہ تو سنا ہے مگر زندگی دراصل ہے کیا؟
زندگی نام ہے ایک قاعدے کا۔ایک ایسے قاعدے کا جن میں کچھ طور طریقوں کے مطابق رہنا ہوتا ہے۔چار دن سے مراد انسان کے پیدا ہونے سے لیکر مرنے تک کے کچھ مختلف فیزز ہیں۔
۔۱)-پہلے دن سے مراد بچپن کا دور جب ہر فکر سے آزاد جوانی کی طرف قدم بڑھ رہے ہوتے ہیں
۔۲)-دوسرا دن جوانی کا ہوتا ہے جس میں خون گرم اور جوشیلا ہوتا ہے۔یہی ہر چیز کا فیصلہ کرتے ہیں
۔۳)-تیسرا دن بڑھاپا ہے جس میں انسان اپنے گازرے ہوئے دو دن کو سوچتا ہے اور چوتھے دن کی فکر کرتا ہے
۔۴)- چوتھا دن قبر سے قیامت تک کا ہے۔
انسان نے تین دن کیسے گزارے یہ اصل زندگی ہے۔زندگی کا فلسفہ بہت آسان ہے۔شروع میں بیان کیا ہے “جب جب جو جو ہونا ہوتا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے۔”انسان کو کبھی کسی منفی خیال کو دماغ میں لے کر نہیں زندگی گزارنی چاہیے۔آج یہ ہوگیا تو وہ ہوگیا۔اس وجہ سے ہوا تو اس وجہ سے ہوا۔
نہیں! ایسا ہرگز نہیں کہنا۔کیونکہ ایک ہی معقولہ ہے جو اوپر بیان ہوچکا ہے۔ہر چیز نے اپنے وقت پر ہونی ہے اور
ہوکر رہنی ہے۔اللہ کا نظام ہے یہ مسلمان ہوتے ہوئے سب کا ایمان ہے کہ ایک دن موت آنی ہے۔تو جس دن موت آنی ہے اور جس طرح سے اس نے آنا ہے وہ ویسے ہی آکر رہے گی۔ایک مشہور واقعہ ہے اس ضمن میں:
حضرت سلیمان علیہ اسلام کا دربار تھا۔سب وزراء،مشیر دربار میں یک جان ہوکر بیٹھے تھے کہ ایک شخص ہڑبڑا کر داخل ہوا اور کہا کہ میں نے ابھی حضرت عزرائیل علیہ سلام کو دیکھا ہے مجھے لگ رہا ہے کہ وہ میری روح قبض کرنے آئے ہیں ۔آپ مجھ پر رحم کریں اور مجھے یہاں سے کہیں دور دنیا کے دوسرے کونے میں بھجوا دیں۔حضرت سلیمان کو تعجب ہوا لیکن انھوں نے جن کو حکم دیا اور وہ اگلے لمحے دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچا آیا۔پھر حضرے عزرائیل آئے تو وہ حیران تھے۔حضرت نے پوچھا کیوں حیران ہیں؟ تو جواب دیا کہ جس بندے کی روح قبض کرنے کا حکم اللہ نے مجھے دیا وہ دنیا کے دوسرے کونے پر ہونا چاہیے تھا لیکن ابھی میں نے اس کو آپ کے دربار کے باہر دیکھا ہے لیکن اب وہ شخص دوسرے کونے میں ہے۔میں بہت حیران ہوں اس بات ہر۔اور میں اس کی روح قبض کرنے جارہا ہوں اب۔
تو یہ سب باتیں تو ہر ایک کو پتا ہیں اور اگر نہیں بھی پتا تو اب پتا چل گئی ہوگی۔لیکن یہ بیان کرنے کا مقصد عنوان سے جڑا ہے۔زندگی کیا ہے؟”زندگی ایک بےیقینی کا نام ہے۔”آپ کچھ اور سوچتے ہیں پر ہوتا کچھ اور ہے۔
اسی طرح جو دوسرا دن ہے وہ بہت اہم ہے۔اس دن انسان بہت منصوبے بناتا ہے کچھ میں کامیاب ہوجاتا ہے کچھ میں ناکام۔ پھر انسان کہتا کاش یہ نہ ہوتا یا میں یہ کرلیتا تو یہ نہ ہوتا۔ یہ اصل سمجھنے کی چیز ہے کہ وہ کام ہونا ہی ہے چاہے آپ جو مرضی کرلو وہ کام ہونا ہی ہے۔اس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔مثال کے طور پہ کسی لڑکے کو جاب نہیں مل رہی تو اس کو تب تک نہیں ملے گی جب تک اللہ نہیں چاہے گا۔اسی طرح اگر کسی کی شادی نہیں ہو رہی تو وہ نہیں ہو گی چاہے آپ منتیں مانگ لو لیکن ہوگی تب جب حکم ہوگا۔تو قارائین کیوں پریشان ہوتے ہیں؟انسان اپنے کانسیپٹ واضح کرلے کہ جو ہونا ہے وہ ہوگا۔اپنے آپ کو ہر وقت ٹینشن میں رکھنا کہ اب کیا ہوگا؟ آپ سب کچھ بھلا کر آرام سے بیٹھ جائیں کیونکہ ہونا وہی ہے جو اللہ نے چاہنا ہے۔
اب اس میں یہ اشقال آجاتا کہ ہم پھر کیا کرسکتے؟ہر چیز تو اللہ کے ہاتھ میں ہمارا کیا کام پھر؟
تو اس کا جواب آپکے باقی دن بھی بہترین گزار دے گا۔جواب ہے “دعا”۔
دیکھیں انسان کے پہلے دن کا آغاز اور تیسرے دن کا آخر اللہ کے اختیار میں۔دوسرے دن جو ہونا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوگا مگر وہ بدلا جاسکتا ہے۔اپنے اعمال سے آپ کا دوسرا دن بہتر ہوسکتا ہے۔اللہ سے دعا مانگنا انسان کی تقدیر کو بدل دیتا ہے۔
اللہ کا فضل مانگا جائے دعا میں، تو وہ سب سے بہترین ہے۔آپ اللہ سے سچے دل سے فضل کرم مانگے معافی مانگیں اور پرسکون ہوجائیں۔کہیں موت آنی ہے جب آنی ہوئی آجائے گی۔پیسہ نہیں ہے؟جب ملنا ہوا مل جائے گا بس پریشان نہیں ہونا۔یقین کریں زندگی کا اصل یہی ہے۔اصل زندگی یہی ہے اپنے اللہ پر یقین رکھنا اور یہ سمجھنا کہ جو کام ہورہا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہورہا۔اور جب انسان اپنے دوسرے دن سے یہ سمجھ لیتا ہے تو انسان کو تیسرے دن میں اپنے ماضی پر شرمسار نہیں ہونا پڑتا اور چوتھے دن کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔
زندگی انہی چار دنوں کا نام ہے اور ان چار دنوں میں رہنے کے طور طریقے واضح کردیے ہیں۔اگر زندگی کو ایسے سمجھ کر چلیں گے تو کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا وگرنہ “زندگی تو ہے ہی بےیقینی کا نام”۔وہ آپ کو ایسے ایسے لمحے دکھائے گی کہ آپ صحیح سے آنکھیں بھی نہیں کھول سکیں گے کہ ایک اور لمحہ آجائے گا۔ اگر زندگی کو اس انداز سے سمجھ کر چلیں تو اللہ کا قرب،اللہ کا خوف اور اللہ سے تعلق قائم ہوگا۔
آخر میں ان سب باتوں کو ملا کر ایک ہی حل ملتا ہے اور وہ یہ کہ زندگی کے چار دنوں کو اچھے سے سمجھ کر ضائع کریں۔جو ہونا ہے وہ ہوگا آپ بس اسی پر یقین رکھیں اور اللہ کے قریب ہوجائیں
زندگی چار دن کی ہے ۔ *
چار دن بچپن سے قیامت تک ہیں ۔ *
زندگی بے یقینی کا نام ہے۔ *
جب جب جو جو ہونا ہوتا ہے تب تب سو سو ہوتا ہے۔
یہ باتیں یاد رکھ لیں اور سمجھ لیں پھر کبھی آپ کو پریشان نہیں ہونا پڑے گا۔
اخر میں ایک مثال آج کے دور میں معاشرے کے حوالے سے بھی دے دوں اور وہ یہ کہ اگر کسی انسان کا کسی سے تعلق ٹوٹ گیا ہے تو یار اس کو لے کر اداس،پریشان،غمگین،خود کو برباد نہ کریں۔کیونکہ جو ہوا وہ اللہ کی رضا تھی اور اللہ کی رضا کے سامنے سوال کرنا انتہائی گناہ ہے۔اس لیے جو ہوگیا وہ ہوگیا اس کو بھول کر آگے بڑھ جائیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ جدا نہ ہوں تو اللہ کو راضی کرلیں۔اللہ سے دعا مانگیں، اللہ کے سامنے سر سجدے میں گرا دیں ضد کریں اللہ سے لپٹ لپٹ کر بلکل بچوں کی طرح. کیونکہ(ایک حدیث کا مفہوم ہے اللہ کمی زیادہ معاف فرمائے) حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بچوں کی کچھ عادات بہت پسند ہیں جن میں لپٹ کر ضد کرنا اور اپنی پسندیدہ چیز حاصل کرلینا ہے۔
دینے والی ذات اللہ کی ہے اور مانگنا بھی اسی سے چاہیے۔اور جس کو پانے کی تڑپ ہوگی تو وہ لپٹ کر رو رو کر اللہ سے مانگے گا اور اللہ وہ عطا کردیں گیں۔
ختم شدہ

1 Comment
“زندگی کیا ہے”
احسن نعیم کی مختصر تحریر حال ہی میں پڑھی بہت ہی اچھے ، سادہ اور عام فہم انداز میں بات کو خوبصورتی سے لکھا گیا ہے۔
اللّٰہ سبحان و تعالیٰ آپ کے قلم میں برکتیں دے