انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۹
حیات نے اپنے مخصوص انداز میں دروازہ زور سے کھول کر اندر آتے ساتھ سے کہا
یہ کونسا طریقہ ہے؟
امن نے سربسری انداز میں، بنا نظریں اٹھائے کہا
کونسا؟
یہ….
کیا؟ امن نے بے ساختہ پوچھا،
اب سے آپ بھی اگر لیٹ آئے نا، تو میں بھی آپ سے 500 بار لکھواؤں گی — ‘اب میں لیٹ نہیں ہوں گا….
حیات نے غصے سے کہا
امن نے پلکیں جھپکیں، جیسے اسے اپنی سماعت پر شبہ ہوا ہو۔ ہنہ!!! میں؟ میں کب لیٹ ہوتا ہوں؟
حیات نے مسکرا کر گردن تھوڑی سی ٹیڑھی کی،
بس بیٹا، اب یاد رکھیے گا۔۔۔۔
امن نے کُرسی سے ٹیک ہٹا کر سیدھا بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا، ایک منٹ۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ باس میں ہوں یا تم؟
حیات نے گردن اکڑائی، ہلکی ہنسی روکتے ہوئے بولی، جو بھی ہو، باس کی اسسٹنٹ تو ہوں نا۔۔۔
اور میں بھی پوچھوں، یہ کیا حرکت ہے؟
حیات نے آنکھیں سکیڑ کر شکی نظروں سے اِسے دیکھا، کیا؟ اب یہاں کھڑے ہونے پہ بھی لکھنا پڑے گا 500 بار؟ چہرے پر واضح بیزاری تھی۔
امن نے ہلکے انداز میں نفی میں سر ہلایا،
میں یہاں کھڑے ہونے کی بات نہیں کر رہا۔۔۔
تو۔۔۔؟ حیات نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
تو۔۔۔؟ امن نے بھی اُسی انداز میں دہرایا۔
کیا۔۔۔؟ اب کی بار حیات کا لہجہ ذرا دب سا گیا تھا۔
کل کیوں نہیں آئی تھیں؟
آپ بار بار کال کیوں کر رہے تھے؟
پہلے میں نے جو پوچھا ہے، اُس کا جواب دو۔
حیات نے بھنویں اچکائیں، جیسے کسی چالاک وکیل نے جرح کا رخ موڑ دیا ہو۔
اُس سے پہلے آپ میرے سوال کا جواب دیں۔
دل کر رہا تھا میرا۔۔۔ سرد لہجہ میں جواب دیا گیا۔۔
وہ تھوڑا سا چونکی، پھر لہجہ وہی، شوخ مگر نرم تھا
تو میرا بھی دل کر رہا تھا۔۔۔
واٹ ایور
امن نے رخ موڑ کر جیسے بات ختم کر دی۔
زیادہ آپ زاویار کی زبان نہیں بولے ۔۔۔
وہ ہلکے خفگی بھرے لہجے میں بولی
اوہ ہاں۔۔۔ زاویار سے یاد آیا۔۔۔ وہ کہتا اپنی جگہ سے اُٹھا۔۔۔۔
حیات نے پلکیں جھپکیں، کیا؟
وہ آہستہ آہستہ اِس کے قریب آیا،
بھکاری لگتا ہوں میں تمہیں؟ اُس نے مدھم، مگر گہرے لہجے میں کہا، آنکھیں اِس کی آنکھوں پر تھی
نہیں تو… کس نے کہا؟
حیات نے فوراً نظریں چرائیں اور آہستہ سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔ آواز میں دفاع بھی تھا اور انکار بھی۔
امن نے نظریں ٹکائے رکھی تھیں، قدم دوبارہ اُس کی طرف بڑھائے، تو کیا تم نے ویسا کچھ نہیں کہا؟
نہ… نہیں! بالکل بھی نہیں۔۔۔ میں بھلا ایسی کوئی بات کیوں کہوں گی؟
اِس نے دو قدم اور پیچھے لیے۔ آواز کی کپکپاہٹ بتا رہی تھی کہ وہ گھبرا تو نہیں رہی، مگر وہ اِس قربت سے ناواقف ضرور تھی۔
امن نے ایک گہری سانس لی، اور اِس کے قریب آتے ہوئے نرمی سے کہا، دیکھو… سوچ لو…
ہاں، سوچ لیا۔۔۔
وہ تیزی سے پیچھے ہوئی — لیکن اُسے اندازہ نہیں تھا کہ اِس کے پیچھے رکھا میز اب اِس کی راہ میں رکاوٹ بن چکا تھا۔ پاؤں اچانک ٹکرایا، توازن بگڑا، اور اگلے لمحے وہ نیچے فرش پر جا گری۔
تھوڑٰی سی اندھی ہو کیا تم؟
امن کا لہجہ بظاہر غصے بھرا تھا، مگر اِس کی آنکھوں میں ایک جھلک پریشانی کی بھی تھی، جیسے دل نے گھبرا کر لفظوں پر سختی کا پردہ ڈال دیا ہو۔
حیات نے نیچے سے ہی تیوری چڑھائی،
اندھی میں نہیں، آپ ہیں…
امن نے ہلکی حیرت سے پلکیں جھپکیں،
اچھا؟ اور وہ کیسے؟
الٹی سیدھی جگہوں پر ٹیبل رکھ دیتے ہیں آپ لوگ۔۔۔
اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے جھٹ سے کہا،
اب آپ ہی بتائیے، یہ کوئی جگہ ہے میز رکھنے کی؟
امن نے ہاتھ باندھ کر اِسے دیکھا، جیسے کسی معصوم مجرم کو سن رہا ہو، پھر مصنوعی حیرت سے بولا،
اوہ! اب اِس میں بھی میری ہی غلطی ہے؟
جی! بالکل آپ کی ہی غلطی ہے۔۔۔
گردن اونچی، غرور سے لبریز لہجہ میں بولی
اور ہاں! کہا تھا میں نے آپ کو بھکاری۔۔۔
حیات نے دونوں بازو سینے پر باندھ کر، فخر سے گردن اونچی کرتے ہوئے کہا۔ جو کرنا ہے کر لیں… حیات نہیں ڈرتی آپ سے۔۔۔۔
امن نے ذرا سا جھک کر، اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا وہ قد میں امن سے تھوڑی سی چھوٹی تھی جس کی وجہ سے امن کو اُس کی آنکھوں
آنکھوں میں حیرت کی اداکاری کرتے ہوئے پوچھا،
اچھا؟ نہیں ڈرتی؟
بلکل بھی نہیں۔۔۔۔
وہ نظریں جُھکا گئی۔۔
سوچ لو۔۔۔
وہ آہستہ سے بولا، آنکھوں میں ایک معنی خیز چمک تھی۔
حیات نے پلکیں جھپکیں، پھر سنجیدگی سے نظر اٹھا کر کہا،
What is this behavior?
ہر بار میں ہی کیوں سوچوں؟ آپ بھی تو سوچا کریں کچھ کبھی۔۔۔
امن بے اختیار مسکرا دیا
اوہ ہاں! میں تو بھول ہی گیا تھا… ابھی تو مجھے نیا مُلک بھی بنانا ہے نا، تو سوچنا تو پڑے گا۔۔۔۔
وہ بات مکمل کر کے ذرا سا پیچھے ہوا، جیسے اپنی ہی بات پر مزاح محسوس کر رہا ہو، اور حیات نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے رخ موڑ لیا۔
کبھی کبھی لگتا ہے، آپ کی عقل چھٹی پر گئی ہوئی ہے… وہ بڑبڑائی۔
نہیں، ابھی مُلک بنانے میں مصروف ہے۔۔۔
امن نے فوراً لقمہ دیا،
حیات نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا، جیسے تختِ شاہی دکھا رہی ہو۔
وہ رہی آپ کی کرسی… جائیے، وہاں بیٹھ کر آرام سے سوچیے۔ شاید کچھ سمجھ آ جائے۔۔۔۔
امن نے ہنکارا بھرا، جیسے بے اختیار ہنسی چھلکنے کو ہو، کیسی پاگل لڑکی ہو تم۔۔۔۔
حیات نے گردن اکڑائی، ایک ادا سے مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی،
اور آپ… اِس پاگل لڑکی کے باس، مہا پاگل۔۔۔۔
امن نے دونوں ہاتھ میز پر رکھے، تھوڑا جھک کر سنجیدگی سے، جیسے کوئی اعلان کر رہا ہو،
تمہیں پتا بھی ہے، تم امن جنید خان کو پاگل کہہ رہی ہو؟ دی بلیک روز کمپنی کے مالک کو؟
حیات نے پلکیں جھپکیں،
تو؟ یہی امن جنید خان – دی بلیک روز کے اونر بھی تو مسٹر صدیقی کی بیٹی حیات صدیقی کو پاگل کہہ رہے ہیں۔۔۔
امن نے سر جھٹکا کر کہا
لگتا ہے صبح دوا ہلا کے پینا بھول گئیں۔۔۔۔
حیات نے آنکھیں سکیڑیں، کون سی دوا؟
اوہ ہاں! بھول گیا تھا…
وہ مصنوعی یاد دہانی کے انداز میں بولا،
تمہیں تو ابھی سائیکالوجسٹ کے پاس لے کر جانا ہے۔۔۔
حیات نے ہونٹ بھینچ کر کہا،
کیوں؟ آپ اکیلے جا کر اپنا علاج کیوں نہیں کروا لیتے؟
اِسی لمحہ
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
آجائیے… امن نے کہا
دروازہ کھلا، اور نتاشا اندر داخل ہوئی — ہاتھ میں نیلے رنگ کی فائل لیے۔
باس، یہ فائل…
ہاں رکھ دو وہاں…
امن نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
جی۔
نتاشا نے فائل میز پر رکھی، اور جیسے ہی وہ پلٹی، اُس کی نگاہ اچانک فرش پر بیٹھی حیات پر پڑی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
تم یہاں نیچے کیوں بیٹھی ہو؟
ناگن ڈانس کر رہی ہوں…
حیات نے سپاٹ انداز میں جواب دیا، جیسے یہ ایک بالکل فطری بات ہو۔۔
امن نے بے اختیار سر جھکا کر مسکرایا۔
کتنی پاگل ہے یہ۔۔۔
اُس نے دل میں کہا،
ہین؟
نتاشا کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا،
آفس میں…؟
کیوں؟ کہاں لکھا ہے کہ آفس میں ناگن ڈانس نہیں کر سکتے؟
حیات نے اسی بے نیازی سے جواب دیا، جیسے وہ ابھی بھی فرش پر بیٹھ کر ڈانس کے اگلے موومنٹ کی پریکٹس کا سوچ رہی ہو۔
امن کی مسکراہٹ ابھی بھی ہونٹوں پر تھی، پھر
اچانک سنجیدہ ہو کر بولا، نتاشا، جاؤ… اور 103 نمبر فائل کا کام ختم کرکے مجھے اطلاع دینا۔
جی… باس۔
نتاشا کا چہرہ جیسے مرجھا گیا ہو، اور اُس کی نظریں حیات پر اِس طرح پڑیں جیسے کسی دشمن پر پڑتی ہیں — خاموش، مگر زہر آلود۔
وہ پلٹی اور بنا کچھ کہے کیبن سے باہر نکل گئی۔
عجیب! ایسا بھی کیا ہے اُس لڑکی میں… جو اُسے دیکھ مسکرائے جا رہے۔۔۔
نتاشا کی آواز غصے میں بھرا ہوا زہر لیے ہوئے تھی،
اور تو اور امن ہر بار اُسی کی سائیڈ لیتا ہے؟ چھوڑوں گی نہیں اُسے… میری چیز پہ نظر ہے نا؟… اُس کی نظر ہی نوچ لوں گی میں۔۔۔۔
وہ جیسے خود سے باتیں کرتی، کمرے میں تیز قدموں سے آئی، اور دراز سے فائل کھینچ کر زور سے میز پر دے ماری۔
تھپ!
او ہیلّو میڈم….
اِس کی آنکھوں میں اشتعال تھا،
کیا حرکت ہے یہ؟
وہ تیوری چڑھا کر بولا، نتاشا کو گھورتے ہوئے،
نتاشا نے رخ موڑ کر غرور سے کہا،
اپنا کام کرو، زیادہ فری مت ہو ….
ابھی دوں گا، یہی سے دو چماٹ گھما کے….
وہ غصے سے دہاڑا،
سب سمجھ آ جائے گا تمہیں — بہت اوور نہیں ہو رہی تم؟
Whatever!
واٹ ایور اپنا کام کرو…
نتاشا نے کندھے اچکائے، اور مصنوعی بے نیازی سے کہا،
مجھ پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
زویار نے ہنکارا بھرا، اور مسکراہٹ جیسے طنز سے بھر گئی۔
تمہاری شکل اتنی اچھی ہے بھی نہیں کہ تم پر دھیان دیا جائے۔
پھر اُس نے ایک لمحے کو رک کر، اُسے سر تا پا دیکھا۔
اور اب میرے سامنے یہ واٹ ایور بول کر کُول بننے کی ضرورت نہیں ہے…
وہ غصے اور اشتعال سے اُسے گھورتا بولا جا ربا تھا۔۔
کیونکہ تم كول نہیں، چپڑی لگتی ہو یہ بولتے ہوئے۔۔۔۔
نتاشا کا چہرہ لمحے میں لال ہو گیا —
زاویار اب پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔
اور باقی رہی تمہاری اَکڑ…
وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا،
تو وہ تو میں ابھی نکالتا ہوں۔۔۔۔
اِس نے کالر ٹھیک کیا، اور تیز قدموں سے سیدھا امن کے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔
++++++++++++
دروازہ کُھلا، اور زاویار تیش کے عالم میں اندر داخل ہوا۔
بھائی… بھائی… بھاااائی۔۔۔۔۔
زاویار تقریباً چیختا ہوا امن کے کیبن میں گُھسا،
کیا ہوا اب؟ امن نے زاویار کو اتنے غصے میں دیکھ پوچھا
یہ میرا کیبن الگ کرو… یا اُسے نکلا دو میں اُس جنگلی کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔۔۔
کون جنگلی؟
حیات نے نیچے بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر پوچھا،
زاویار نے دانت پیس کر کہا،
تم! پارکنگ سے مانگتے مانگتے اب یہاں تک آ گئی ہو۔۔۔
زیادہ فری مت ہو… حیات نے چڑ کر کہا
زاویار نے غرور سے سینہ تان کر کہا،
میں فری ہوں ہی نہیں… بہت ایکسپینسیو ہوں۔۔۔
امن نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا
تو میں جاؤں پھر؟
حیات نے فوراً بات پکڑ لی،
ہاں تو جائیے، روکا کس نے ہے؟
وہ اب کھڑی ہو چکی تھی، اور ہاتھ کمر پر رکھے بولی
زویار نے اب سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا،
بھائی، مجھے اُس کے ساتھ کام نہیں کرنا — تم عزت کے ساتھ میرا کیبن الگ کرا دو، ورنہ میں ریزگنیشن دے کر جا رہا ہوں۔۔۔۔۔
ہوا کیا ہے؟ امن نے آرام سے پوچھا
دماغ خراب کرتی ہے میرا۔۔۔
زاویار نے ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے کہا،
آ کے ایٹیٹیوڈ دیکھتی ہے مجھے؟ اور جب میں کچھ بولوں تو سنتے بھی نہیں ہے — میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ رشتہ داروں کو کام پر مت رکھو۔
پھر اِس نے گہری سانس لی، جیسے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہو،
لیکن نہیں… تم تو سنتے نہیں! میں تو پاگل ہوں نا؟ بولتا رہوں گا کچھ بھی…
حیات نے خاموشی سے آنکھیں تنگ کیں، پھر پلکوں کی جھپک کے ساتھ کہا
ہو تو…
زاویار نے دانت پیس لیے،
Whatever۔۔۔۔
چپ چاپ اپنے بزنس پہ فوکس کرو۔۔۔
امن نے دونوں کو غور سے دیکھا، پھر آہستہ مگر سخت لہجے میں کہا
حیات، تم جاؤ… اور مینیجر کو بولو کہ میری میٹنگ فکس کروائے مسٹر شہریار کے ساتھ۔
حیات نے ایک پل کو زاویار کو دیکھا، اور پھر امن کی طرف نظریں موڑ کر ہلکا سا سر ہلایا۔
اچھا… جاتی ہوں…
وہ آہستہ قدموں سے دروازے کی طرف بڑھی، اور کیبن سے باہر نکل گئی۔
اب بولو…
امن نے آہستگی سے کہا،
مجھے نتاشا کے ساتھ کام نہیں کرنا۔۔۔۔
زویار کی آواز میں واضح شدت تھی۔
میں بول چکا ہوں ایک بار — بس! اب یا تو میرا کیبن الگ کرواو، یا یہ ریزگنیشن لیٹر پکڑو اور سائن کرو۔
مسئلہ کیا ہوا ہے، پہلے یہ تو بتاو؟
لہجہ سنجیدہ تھا ۔۔۔۔
+++++++++++++++
حیات مینیجر سے بات کر کے واپس مڑ رہی تھی، کہ سامنے سے نتاشا آتی دکھائی دی۔
اوہ ہو، آپ یہاں؟
نتاشا کی آواز میں ہلکی سی طنز چھپی ہوئی تھی،
ورنہ تو آپ ہر وقت باس کے کیبن میں ہی ہوتی ہیں…
حیات نے ایک پل کو سر اٹھایا، اور نرمی سے مسکرائی،
ہاں، تو اسسٹنٹ باس کے کیبن میں نہیں رہے گی تو کہاں رہے گی؟ اسٹور روم میں؟
نتاشا کی مسکراہٹ کچھ لمحوں کو جامد ہوئی، پھر بولی
تو میں بھی تو اسسٹنٹ ہوں باس کی… مگر میں تو اُن کے کیبن میں نہیں رہتی۔
ہیں؟ تم بھی اسسٹنٹ ہو؟ حیات چونکی
آف کورس۔۔۔۔
نتاشا نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔
یہ انسان کتنے اسسٹنٹ، کتنے مینیجر رکھتا ہے…
حیات نے چھٹ کی طرف دیکھ کر جیسے خود سے کہا۔
نتاشا کے چہرے پر ایک اور طنزیہ مسکراہٹ ابھری،
زیادہ نہیں، ہر کام کے لیے دو بندے۔ یعنی دو اسسٹنٹ، دو مینیجر، دو سی ای او… دو رسیپٹکشن — بس تم ہی ایک ایکسٹرا ہو۔
حیات نے گہری سانس لی،
ہاں تو اچھی بات ہے نا، میں نے یہ دو دو کا سسٹم ختم کر دیا۔
یہ تو ہے۔
نتاشا کی مسکراہٹ ہونٹوں پہ تو تھی، مگر دل میں شعلے لپک رہے تھے۔
خیر، یہ بتاو، تم نے زاویار کو ایسا کیا کہہ دیا جو وہ اتنا تپا ہوا ہے؟
حیات نے لاپروائی سے پوچھا۔
نتاشا نے کاندھے اُچکا دیے،
کچھ نہیں، بس یہی کہا کہ اپنا کام کرو…
مگر وہ تو بہت تپا ہوا تھا… کہہ رہا تھا، یا تو کیبن الگ کرو، یا میں جاب چھوڑ کے جا رہا ہوں۔
اُس کے انداز میں سنجیدگی کم اور تجسس زیادہ تھا۔
نتاشا نے مصنوعی بے نیازی سے کندھے اُچکائے،
نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ہم آپس میں ایسے ہی لڑتے رہتے ہیں۔ تمہیں بیچ میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ زاویار تھوڑا… ایسا ہی ہے، میں جانتی ہوں اُسے بہت اچھی طرح۔
اُسے بہت اچھی طرح…
یہ لفظ جیسے ہوا میں معلق رہ گئے۔
نتاشا کا چہرہ مسکرا رہا تھا، لیکن اُس کی آنکھیں صاف بول رہی تھیں —
اپنی حد میں رہو۔۔۔۔
اچھا، یہ تو اچھی بات ہے…
حیات نے جیسے کوئی بوجھ اتار کر سر ہلایا،
اور پھر بغیر کچھ اور کہے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی۔
جیسے ہی اُس کے قدم مڑے، نتاشا کی آنکھیں پتھر ہو گئیں۔
اُس کے لبوں پر وہی مسکراہٹ تھی، لیکن اندر سے وہ جل رہی تھی۔
عجیب، مینٹلی انسٹیبل لڑکی ہے یہ…
دل ہی دل میں کہا
+++++++++++
زاویار نے ہونٹ بھینچ لیے، ماتھے کی شکنیں گہری ہو گئیں۔
بھائییییی…
امن کرسی سے نیم دراز ہوا اور قدرے خفگی سے بولا،
وجہ بتاؤ تو ہی کچھ کر سکوں گا…
کیا یہ کافی نہیں کہ میں کہہ رہا ہوں؟
نہیں۔۔۔۔
امن کا جواب مختصر، مگر قطعیت لیے ہوئے تھا۔
عجیب ـ ـ ـ نہیں کر رہا میں تمہارے آفس میں کام وام، خود ہی کرلو…
یہ کہتا ہوا وہ تیزی سے امن کے کیبن سے باہر نکل گیا۔
امن نے کُرسی پیچھے دھکیلی،
زاویار! رکو…
اب کے وہ بھی اُس کے پیچھے آیا تھا۔
زاویار راہداری میں کچھ فاصلے پر جا کر رکا، پلٹ کر دیکھا نہیں، مگر آواز میں تلخی در آئی،
اب کیا ہے؟ کیوں آ رہے ہو میرے پیچھے؟
امن نے تھوڑا اور قریب آ کر دھیرے سے کہا،
اچھا… کرواتا ہوں تمہارا کیبن چینج۔ مارو مت اب۔۔۔
میرا کیبن چینج نہ کرو… میں وہیں رہوں گا۔ یہ نتاشا کو نکالو میرے کیبن سے۔۔۔۔
اب فری نہیں ہو رہے تم زیادہ؟
کیا اب ہزار دفعہ سب کو یہی بتاتا رہوں کہ میں “فری” نہیں ہوں؟ بہت زیادہ “ایکسپینسیو” ہوں۔۔۔۔
وہ چیخا
امن کا طنزیہ ہنکارا فوراً آیا،
پاگل پن کا دورہ چڑھ رہا ہے تمہیں بھی… حیات کے ساتھ رہ رہ کے؟
زاویار نے دانت بھینچ کر نگاہ چرائی،
واٹ ایور…
وہ یہ کہہ کر رکا نہیں، سیدھا اپنے کیبن کے طرف بڑھ گیا
امن نے سر کو جھٹکا، جیسے خود کو حقیقت میں واپس کھینچا ہو۔ آہستہ سے بڑبڑایا
عجیب ہیں… سمجھ نہیں آتا میں باس ہوں ان لوگوں کا یا یہ لوگ میرے…
ایک امن کے بھائی، اور ایک حیات ہی تو تھی جو امن پر حکم چلا سکتی تھی…
ورنہ امن نے آج تک کسی کو یہ اجازت نہیں دی تھی۔
وہ، جس کے سامنے لوگ بولنے سے پہلے سوچتے تھے،
جس کے ایک حکم پر لوگ چپ ہو جاتے، چاہے مانیں یا نہ مانیں۔
دنیا اُسے باس کہتی تھی ،
مگر وہ جانتا تھا،
کب، کہاں…
اور کس کے آگے وہ صرف “امن” تھا۔
+++++++++++++
آفس کی گھڑی نے شام کے وقت کا اعلان کر دیا تھا۔ ہر کوئی اپنا سامان لپیٹ کر چلا جا رہا تھا۔ پرانی کرسیوں پر پڑے دستاویزات، گھڑی کی ٹِک ٹِک، اور خاموشی میں بس چند قدموں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ زندگی کی دوڑ میں تھوڑا سکون سا تھا۔
حیات بھی اپنے بیگ میں چیزیں بند کر رہی تھی، اِس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی تھکن اور آزادی کی جھلک تھی۔
امن نے آہستہ آواز دی،
حیات…
وہ گھور کر بولی، کیا ہے؟
امن نے نرمی سے کہا،
تمیز؟
آفس کا وقت ختم، اب میں آپ کی اسسٹنٹ نہیں، اپنا کام خود کرنا سیکھے۔
امن نے مسکراتے ہوئے کہا،
ہاں، آفس کا وقت ختم ہو گیا ہے، مگر تم ابھی بھی آفس میں ہو۔ اس لیے آفس کے قوانین تم پر ابھی بھی لاگو ہوتے ہیں۔ تو میری بات سنو۔…
حیات نے نیم جھکی ہوئی آنکھوں سے کہا،
سنایا جائے…
اور آرام سے صوفے پر بیٹھ گئی۔
امن نے کہا،
کل مسٹر عبدل حاکم کے ساتھ میری میٹنگ سیٹ کروانا، آتے ساتھ….
حیات نے نرمی سے، مگر تلخی کے ساتھ کہا،
یہ کہنے کے لیے آپ نے مجھے روکا ہے۔..
امن نے چپ کے ساتھ جواب دیا،
ہاں…
حیات نے اپنا چھوٹا سا پرس اٹھایا، اور مسکراتے ہوئے کہا،
اوکے، اب میں جا رہی ہوں، اللہ حافظ۔
وہ نکل گئی، اور اُس کے جانے سے پہلے ہی آفیس کے سارے ملازمین جا چکے تھے۔ وہاں صرف امن، زاویار اور نتاشا بچے تھے۔ چونکہ امن باس تھا، وہ ہمیشہ آفس بند کرکے ہی نکالتا تھا ۔ جبکہ زاویار اور نتاشا اِس کے اسسٹنٹس تھے، اس لیے وہ بھی باس کے ساتھ آفس سے نکلتے تھے۔
دی بلیک روز کمپنی میں حیات اور زاویار کے علاوہ کسی کو اتنی چھوٹ نہیں تھی۔ یہاں سب پر قواعد لاگو تھے، سوائے ان دو کے۔
حیات نے تیز قدموں سے کہا،
دیکھو زرا، مجھے بیٹھا کے سارا وقت ضائع کر دیا… عجیب، سب چلے بھی گئے۔
وہ غصے سے لب کھولے، بار بار یہی بات دہراتی ہوئی لفٹ میں داخل ہوئی۔
کچھ لمحوں بعد، اچانک لفٹ رُک گئی۔ بجلی چلی گئی تھی۔ اندھیرا ہر طرف چھا گیا۔ لفٹ کے اندر کوئی روشنی نہ تھی، بس مکمل تاریکی۔ حیات اکیلی تھی، اُس اندھیری جگہ میں، چھوٹے سے بند صندوق کی طرح کھڑی۔
وہ گھبرا کر بولی،
ہُہ… یہ… یہ کیا ہوا؟
جلدی سے موبائل نکالا اور ٹورچ آن کی، ہلکی سی روشنی نے اس کے خوف کو کچھ کم کیا۔
دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی، لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا کرے۔
وہ بے وقفہ لفٹ کے بٹن دبا رہی تھی، بار بار، مگر کچھ جواب نہیں مل رہا تھا۔
آخر کار اِس نے فیصلہ کیا،
اب کیا کروں؟
فون اُٹھایا اور نمبر ڈائل کیا..
امن…
یہی اُس کا آخری سہارا تھا، کیونکہ اِس کے پاس ابھی اور کوئی آپشن نہ تھا۔
+++++++++++++
امن، معمول سے کچھ زیادہ سنجیدہ چہرہ لیے، زاویار اور نتاشا کے کیبن میں داخل ہوا۔ دونوں کی نظریں فوراً اِس پر مرکوز ہو گئیں۔ ماحول میں تناؤ گھُلا ہوا تھا،
بتاؤ، کیا مسئلہ ہے تم دونوں کے ساتھ؟
اُس کی آواز دھیمی مگر بھرپور اختیار لیے ہوئے تھی.
زاویار نے فوراً رخ پھیرا،
بس، مجھے اِس کے ساتھ کام نہیں کرنا….
لہجے میں روکھا پن اور صاف انکار تھا
نتاشا نے آنکھوں میں نمی روکتے ہوئے فوراً کہا،
باس، میں نے کچھ نہیں کیا… یہ ہمیشہ مجھے اُلٹی سیدھی باتیں کہتا رہتا ہے۔
امن نے سنجیدگی سے ایک ہلکی ہُمم… کی، جیسے اندر کچھ تول رہا ہو۔
نتاشا نے اپنی بات بڑھائی،
میری بھی کوئی سیلف ریسپیکٹ ہے۔ میں بھی آپ کی ہی اسسٹنٹ ہوں، لیکن اِسے لگتا ہے جیسے یہ ہی یہاں کا باس ہو… بس ہر وقت مجھے ذلیل کرنا اِس کی عادت بن چکی ہے۔..
زاویار نے ہنکارا بھرا،
واٹ ایور … میرا و یا بھائی کا، بات ایک ہی ہے۔
لاپرواہ انداز میں، جیسے اُسے فرق ہی نہ پڑتا ہو
امن نے پلکیں جھپکیں، پھر تنبیہی لہجے میں بولا
تو تم ایسی حرکتیں ہی کیوں کرتی ہو، کہ اُسے تمہیں ذلیل کرنا پڑتا ہے؟
نتاشا کا چہرہ ایک لمحے کو سفید پڑ گیا، مگر وہ کچھ نہ بولی۔ الفاظ سے زیادہ آنکھیں چیخ رہی تھیں۔
انہی لمحوں میں، امن کا موبائل اُس کے کیبن میں میز پر رکھا، مسلسل وائبریٹ کر رہا تھا۔ اسکرین پر بیس… تیس مسڈ کالز جگمگا رہی تھیں۔
مگر وہ سب سے بےخبر، زاویار اور نتاشا کی طرف دیکھ رہا تھا — جیسے لمحہ فکریہ نے اسی وقت میں روک لیا ہو۔
+++++++++++
کبھی کبھی بند دروازے انسان سے زیادہ چیخنے لگتے ہیں..
آہہہ۔۔۔ اب میں کیا کروں….
اِس کی آواز سناٹے میں گونجی، جیسے اندھیرے نے بھی ایک لمحے کو کانپ لیا ہو
حیات بے دلی سے لفٹ کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔ وہ ایک مضبوط، خوددار لڑکی تھی، مگر آج کے اندھیرے میں وہ بھی ٹوٹ رہی تھی۔ حواس بکھرے ہوئے، آواز میں تھکن اور آنکھوں میں وہ آنسو جو وہ ہمیشہ چھپاتی آئی تھی۔
پتا نہیں کہاں مر گئے ہیں سب… کام کے وقت تو موت پڑ جاتی ہے ان لوگوں کو….
وہ خود سے جھنجھلا کر بولی، لیکن اسے پتا تھا، یہ غصہ نہیں… بس بےبسی تھی
اب وہ لفٹ کے کنٹرول بٹن بار بار دبا چکی تھی، دروازہ پیٹ چکی تھی، چیخ چکی تھی۔ کوئی جواب نہیں۔ کوئی ردعمل نہیں۔
میں… میں یہاں کیسے رہوں گی؟ کیا کروں؟ دروازہ توڑ دوں؟
ہاں… میں تو کوئی سپر وومن ہوں نہ؟ توڑ دوں گی سب کچھ…
اور یہی کہتے کہتے اُس کی آواز پھسل گئی، اور وہ رونے لگی… اصل والا، دل سے… بے آواز، مگر بھیگے آنسوؤں کے ساتھ..
وہ ہار گئی تھی۔ دل کی وہ جنگ جو وہ روز جیتتی تھی، آج اِس بند لفٹ میں ہار گئی تھی۔
اب اُسے یقین تھا، کل آفس کھلے گا، تب ہی کوئی اِسے نکالے گا۔ تب تک… بس خاموشی، اندھیرا، اور وہ خود۔
وہ تھکی ہوئی سی، پھر سے ایک کونے میں بیٹھ گئی، ٹورچ کی روشنی دھندلا رہی تھی، آنکھوں سے گرنے والے آنسو اِس کی تھوڑی تک آ کر رُکنے سے انکاری تھے۔
لب خاموش تھے، لیکن دل… دل اللہ سے ایک ہی دعا مانگ رہا تھا
یا اللہ… کوئی راستہ نکال دے۔ بس… کوئی ایک راستہ…
++++++++++++++
زاویار غصے سے پاؤں پٹختا بولا،
بھائی یہ نالائق ہے! کام تو ہوتا نہیں، بس فضول کے ڈرامے اور خود سے باتیں… مجھے ڈسٹرب کرتی ہے ہر وقت!
امن نے بغور اُس کی بات سنی، پھر سنجیدگی سے کہا،
کیوں، تمہارے ساتھ کوئی پرابلم ہے؟
نتاشا کا چہرہ ایک پل کو سُن ہو گیا،
نہیں، باس۔۔۔
امن نے نرمی سے کہا،
اگر ہے، تو چھٹی لے لو کچھ دن کی۔۔۔
نتاشا نے سر جھکا کر کہا،
نہیں، باس… ایسا کچھ نہیں ہے۔
زاویار جھنجھلا کر بولا،
بھائی! تم بکواس کیوں کر رہے ہو؟ اس کا کیبن الگ کرو، بات ختم….
امن کی آواز اب سخت تھی،
زاویار، شٹ اپ۔
زاویار نے انگلی اٹھائی،
بھائی میں کہہ رہا ہوں، اگر اِس کا کیبن الگ نہیں ہوا تو میں کل سے آفس نہیں آؤں گا،
and that’s final….
امن کے ضبط کا آخری دھاگہ بھی کھینچا جا چُکا تھا،
تمہیں سمجھ نہیں آتی؟ فارسی سمجھتے ہو؟ چپ رہو….
زاویار نے کندھے جھٹک کر کہا،
وٹ ایور…
اور پلٹ کر خاموش ہو گیا….
امن کا رخ نتاشا کی طرف ہوا،
تم بولو۔۔۔
نتاشا نے آنکھیں جھکا کر کہا،
باس، کوئی مسئلہ نہیں ہے مجھے۔۔۔
پکّا؟
جی۔
امن نے سر ہلایا،
ٹھیک ہے، کل جب آفس آؤ، تو اپنا سامان لے کر میرے کیبن کے بائیں طرف جو خالی روم ہے، وہاں شفٹ ہو جانا۔
جی، ٹھیک ہے۔ نتاشہ نے ہاں میں سر ہلایا۔۔
امن نے سانس لیا،
ہمم… اور اب دونوں اپنا سامان پیک کرو، نکلنا ہے… سب جا چکے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
++++++++++++
کبھی کبھی ایک کال… کسی کی زندگی بچا سکتی ہے۔
امن نے جیسے ہی اپنا فون اٹھایا، اسکرین پر ایک لمبی قطار تھی…
Hayat – 18 Missed Calls
آنکھوں کی پُتلیاں پلکیں جھپکانا بھول گئی تھی۔
یہ… یہ اِتنی کالز کس لیے؟
وہ بڑبڑایا، جیسے الفاظ بھی حیرت میں ڈوب گئے ہوں۔۔
اِس نے فوراً وقت دیکھا —
تمام کالز آدھے گھنٹے پہلے کی تھیں۔
امن نے کچھ لمحے سوچا…
اب کیا فائدہ… شاید کوئی چھوٹی موٹی بات ہو، گھر جا چکی ہو گی۔۔۔
ایک لمحے کو اِس کا دل بہانے ڈھونڈنے لگا
لیکن… کسی کونے سے ایک آواز آئی —
اگر کچھ ہوا ہو تو؟
یہی خیال… یہی ایک لمحہ، اُس کی اُنگلیوں کو دوبارہ اسکرین پر لے گیا
کیا امن دوبارہ کال کرے گا؟
اگر وہ واقعی وہ امن ہے جو سخت ہے، مگر بےحس نہیں،
اگر اُس کے اندر حیات کے لیے وہ چھپی ہوئی اہمیت واقعی موجود ہے…
تو ہاں، وہ ضرور کال کرے گا۔
اور اگر وہ کال کرتا ہے…
تو دوسری طرف، لفٹ کے اندھیرے میں ایک معجزے کی گونج سنائی دے گی۔
حیات، جو اب بےبس ہو کر بیٹھ چکی تھی، جس نے اُمید چھوڑ دی تھی،
جس کے ہاتھ اب بھی دعا میں اٹھے ہوئے تھے…
وہ ایک دم چونک جائے گی،
فون کی اسکرین پر “Aman Calling” جگمگائے گا۔
+++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
