me mera dil or tm

Mai Mera dil Or Tum Episode 7 written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )

باب دوم: گریم ریپر

قسط نمبر ۷

پولیس ہیڈکوارٹر ظفر صاحب کا آفس
کمرے میں ٹھنڈی روشنی، میز پر فائلوں کا انبار،
اور ظفر ہمیشہ کی طرح پرسکون مگر سخت گیر انداز میں کرسی پر بیٹھے تھے۔

مایرا نے دروازہ کھٹکھٹاے
سر؟ اجازت ہے؟

ظفر نے بغیر نظریں اٹھائے کہا
آئیے آفیسر مایرا۔

مایرا اندر آئی ، وردی میں، مگر چہرے پر گہری سنجیدگی۔
سر، مجھے ایک ہفتے کی چھٹی درکار ہے۔

ظفر نے نظرے اٹھائی
خیریت؟

مایرا نے لہجہ سنبھال کر کہا
سر… ایمرجنسی ہے۔

ظفر نے تلخی سے کہا
آپ جانتی ہیں شہر کے حالات کیسے ہیں؟ اور آپ کو چھٹی چاہیے؟

مایرا نے لمحہ بھر کی خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے بولی
سر… اگر اتنی ایمرجنسی نہ ہوتی تو میں آپ سے کبھی چھٹی نہ مانگتی۔۔۔

نہیں مایرا، آپ کی چھٹی منظور نہیں کی جا سکتی۔ ہم اس وقت جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ظفر نے سرد لہجے میں کہا

مایرا نے دھیمی آواز میں کہا
سر… میری ماں بہت زیادہ بیمار ہیں۔
ان کے پاس میں ہی واحد سہارا ہوں۔
اگر میں نہ گئی… تو شاید… شاید اُن کا آخری وقت بھی اکیلے گزر جائے۔ کہتے کہتے اُس کی آنکھیں نم ہوچکی تھی

ظفر کی آنکھوں میں پہلی بار ہلکی سی نرمی ابھری۔اُسے پہلے لگا کُچھ گڑبڑ ہے لیکن اب مایرا کو آنکھیں صاف بات رہی تھی اور وہ ان آنکھوں کے آگے پگھل چُکا تھا

ظفر نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا
ڈاکٹر کی رپورٹ لائیں، اور چھٹی صرف ایک ہفتے کی ہوگی۔
اگر شہر میں کچھ ہوا، تو آپ کو فوراً واپس بلایا جائے گا۔

مایرا نے پرسکون سانس لی، دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔
شکریہ سر، میں وعدہ کرتی ہوں… اگر حالات خراب ہوئے تو میں خود واپس آ جاؤں گی۔
ظفر نے سر ہلایا، اور مایرا آہستہ سے باہر نکل گئی…

اس کے چہرے پر اب سکون کی ایک لہر تھی…
کیونکہ اب وہ وردی نہیں، نگہبان کے طور پر
امن کے قریب جا سکتی تھی۔

+++++++++++

چند لمحے گزرے ہوں گے کہ دروازہ کھلا۔ یُسرٰی ہاتھ میں کچھ نوٹ لیے، سکون سے باہر آئی —
یہ لو… تمہارا مسئلہ حل۔
اس نے نوٹ سکینہ کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔

سکینہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں،
یہ… اتنے سارے پیسے؟ یُسرٰی، تمہارے پاس…؟

یُسرٰی نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا،
اتنے ہی ہیں جتنے کی ضرورت تھی۔

لیکن… آئے کہاں سے؟

یُسرٰی نے نظریں چرپائی پر جمائیں،
مسز ملک نے دیے تھے۔ تنخواہ باقی تھی… اور کچھ انعام میں۔ کہتی تھیں، تم جیسی لڑکیاں کم ملتی ہیں۔

سکینہ کا لہجہ مدھم ہوا،
اتنے پیسے کوئی انعام میں نہیں دیتا، یُسرٰی…

دے دیتے ہیں نہ، امیر لوگ دے دیتے ہیں… اُن کے لیے یہ بہت تھوڑی سی رقم ہے۔ وہ جتنی آسانی سے نوٹ نکالتے ہیں، اُتنی ہی آسانی سے بھول بھی جاتے ہیں کہ کبھی کسی کو دیا تھا۔ اس نے اپنی ہتھیلیوں میں نرمی سے انگلیاں مَلیں، ہمارے لیے یہ رقم شاید کئی دروازے کھول دیتی ہے، مگر اُن کے لیے…؟ وہ تو اِسے اتنا ہی سمجھتے ہیں جتنا ہم سڑک پر گری کوئی معمولی چیز۔ فرق صرف یہ ہے، سکینہ… ہم گن کر خرچ کرتے ہیں، وہ گرا کر بھی بھول جاتے ہیں۔

سکینہ خاموشی سے یُسریٰ کو دیکھتی رہی… وہ اب صرف ایک سادہ سی لڑکی نہیں لگ رہی تھی، بلکہ زندگی کی ٹھوکروں سے سنورتی، سلجھی ہوئی عورت لگ رہی تھی — جو حالات کو برداشت کرنا بھی جانتی تھی، اور بانٹنا بھی۔

اچھا۔۔۔ یُسرٰی نے ایک دھیمے مسکراہٹ کے ساتھ سکینہ کی طرف دیکھا، یہ تم نے مجھے میرے یہ پیسے واپس کرنا ہے، ہاں۔۔۔ وہ جو چند لمحے پہلے نرمی سے بات کر رہی تھی، اب اُس کی آنکھوں میں وہی پرانا شوخ مزاج جھلکنے لگا تھا، مجھے پیسہ بہت عزیز ہے۔۔۔ بہت۔ میری پہلی محبت ہے پیسہ۔۔۔
سکینہ نے بے ساختہ ہنسی ضبط کی، لیکن یُسرٰی کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ تو جیسے ہی تم ڈاکٹر بنو گی، مجھے میرے پیسے واپس کر دینا۔۔۔ انگلی اٹھا کر تاکید کی، ہنہ۔۔۔ یہ میرے محنت کی کمائی ہے۔ بتا رہی ہوں میں۔۔ مجھے اس دُنیا میں پیسے سے زیادہ کچھ عزیز نہیں ہے۔۔۔
یہ نہ سمجھنا کہ احسان کیا ہے، نہیں۔۔۔ یہ سرمایہ کاری ہے۔ تم پر۔۔۔ تمہارے خواب پر۔۔۔ تمہارے مستقبل پر۔
سکینہ کی پلکیں بھیگ سی گئیں، لیکن ہونٹوں پر وہی ہلکی سی مسکراہٹ ٹھہر گئی —
تم جیسی دوستوں پر تو بندہ ساری تنخواہ لگا دے، یُسرٰی… یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔
یُسرٰی نے ہنستے ہوئے کہا، ہاں، مگر پھر بھی… لکھوا لیتی ہوں ایک اسٹامپ پیپر پر، تم نے میرے پیسے ڈاکٹر بن کر واپس کرنے ہیں۔۔۔۔
دونوں کی ہنسی صحن میں گونجنے لگی — جیسے زندگی کے تھکے لمحے بھی تھوڑی دیر کو مسکرا دیے ہوں
سکینہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا، جیسے ایک دم سے کچھ یاد آیا ہو
ارے، تم آئی کیوں تھی؟ مجھ سے ملنے؟
یُسرٰی نے بے نیازی سے کندھے اچکائے،
یار، کس لیے اونگی ، کام کے لیے آئی ہوں میں۔۔۔ وہاں سے تو کام چھوڑ دیا، اب کہیں اور بھی جانا ہے۔ اور ویسے بھی دادو سے میرا گھر میں بیٹھنا برداشت نہیں ہو رہا۔ ہر وقت کان کھا جاتی ہیں۔ وہ دونوں ہنس پڑیں۔
سکینہ نے ذرا سا آگے جھکتے ہوئے رازدارانہ انداز میں کہا، اچھا، یہ بات ہے؟ ویسے جب سے تُم گئی ہو، مجھے تمہاری ہی فکر تھی۔ بات کی تھی اپنی تائی سے۔۔۔ بہت اچھا گھر بتایا ہے۔ تھوڑا دُور ہے، مگر بڑا ہے۔ پیسے بھی خوب ہیں۔ پھر شرارتی انداز میں آنکھ ماری، اور سب سے خاص بات… کافی اچھا مال ملے گا۔
یُسرٰی کے ہونٹوں پر فوراً مسکراہٹ آ گئی، بس، پھر ڈن کرو! نکالو ایڈریس۔۔۔ اور جلدی نکالو، کہیں کوئی اور نہ لے جائے۔۔۔۔
یار، تم واقعی کاروباری دماغ لے کر پیدا ہوئی ہو۔۔۔

اور کیا۔۔۔ یہی دماغ ہی تو کام آ رہا ہے۔۔۔ یُسرٰی نے آنکھ دبا کر کہا، سکینہ نے اٹھتے ہوئے کہا، چلو میں تمہیں ایڈریس سینڈ کر دوں گی، چلی جانا تم کل ہی۔۔
یُسرٰی نے مسکراتے ہوئے آنکھوں میں چمک بھر لی،
ڈن ہوگیا بھائی صاحب۔۔۔۔

++++++++++++

باب سوم : جال ، پھندا

رات کا دوسرا پہر تھا۔
شہر تھک چکا تھا… اور سو رہا تھا۔
لیکن ایک شخص جاگ رہا تھا—اسکرین کی نیلی روشنی میں، بےحد پرسکون بیٹھا۔
چہرے پر وہی طنزیہ مسکراہٹ… اور آنکھوں میں زہر۔
ریپر۔
سامنے لیپ ٹاپ پر امن کی رہائی کی ویڈیو کھلی تھی، جسے لاکھوں لوگ شیئر کر چکے تھے۔
کمنٹس… تعریفیں… ہمدردی۔
اس نے انگلی سے اسکرین پر امن کی تصویر پر تھپتھپایا۔
ویلکم بیک، ہیرو… اب دیکھ… کیسے بنتا ہوں ولن۔
پھر اُس نے ایک فولڈر کھولا—جس پر لکھا تھا
پلان بی – خاموشی سے مارنا
ایک خفیہ فائل، ایک آڈیو کِلپ، اور دو تصویریں۔
ایک تصویر: امن کے ساتھ اس کی یونیورسٹی کا ایک دوست
دوسری تصویر: ایک فیک میڈیکل رپورٹ—جس میں لکھا تھا:
Aman: Bipolar, medically unstable, hallucinations… dangerous.
امن بائی پولر، طبی لحاظ سے غیر مستحکم، وہم و خیال میں مبتلا… خطرناک۔
ریپر نے کسی کو وائس میسج بھیجا
رات کے 3 بجے، یہ رپورٹ امن کے میڈیا مینیجر کو مل جائے… بغیر نام کے۔ اور  صبح 9 بجے پریس کانفرنس… ‘امن مینٹلی انسٹیبل’ کا ٹرینڈ شروع کرنا ہے۔ سمجھا؟
دوسری طرف سے آواز آئی
ڈن، بھائی۔ امن اب صرف رہا نہیں ہوا، اب وہ مذاق بنے گا۔
ریپر کی ہنسی… سنسان کمرے میں بازگشت کرنے لگی۔
گولی مارنے سے بہتر ہے… کسی کو پاگل ثابت کرنا۔
اسی لمحے اس کا فون بجا—نئی نوٹیفکیشن
مایرا سرمد نے امن کی سیکیورٹی کی ڈیمانڈ کی ہے۔
اس نے سر جھٹکا۔
یہ لڑکی… رسک لے رہی ہے۔
پھر اس نے ایک نیا فولڈر کھولا
پلان سی: مایرا
اور فائل کے نیچے صرف ایک لفظ لکھا تھا
ٹرَیپ.

++++++++++++++

اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ چاند بھی بادلوں کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ سنّاٹا ہر سو چھایا ہوا تھا، اسی خاموش رات میں ایک لڑکی، سیاہ لباس میں ملبوس تھی—
ایسا لباس جو روشنی کو بھی اپنے اندر سمو لے۔
سیاہ پینٹ شرٹ اور اُس کے اوپر لمبا اوور کوٹ، جس کی تہیں چلتے وقت ہوا میں ہلکی سی جنبش پیدا کرتیں،

نہ ہی اُس کے پاس کوئی تھا اور نہ ہی کوئی سواری تھی۔۔
ہر طرف سکوت تھا، مگر اس کے دل میں کچھ چل رہا تھا۔

اس کے قدم ناپ تول کر پڑ رہے تھے، جیسے ہر جنبش ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہو۔
اس کے ہاتھ جیبوں میں تھے، مگر آنکھیں چوکس —
ہر سایہ، ہر روشنی، ہر کھڑکی پر اس کی نگاہ ٹھہرتی، پھر آگے بڑھ جاتی۔

سڑک کے اختتام پر ایک گلی تھی —
تنگ، مگر صاف، جیسے شہر کے باقی شور سے الگ۔
وہ ایک لمحے کو رکی، نظریں دائیں، پھر بائیں دوڑائیں،
اور پھر بغیر ہچکچاہٹ کے گلی میں داخل ہو گئی۔

وہاں کے مکان اونچے، جدید اور پُر وقار تھے۔
بڑی بڑی کھڑکیاں، خاموش برآمدے،
اور دروازے جو بند ہونے کے باوجود
ایسا احساس دیتے تھے جیسے کوئی اندر سے دیکھ رہا ہو۔

وہ چلتی رہی —
قدم نرم، آواز غائب، مگر ارادہ مضبوط۔
ہر بنگلے کے سامنے وہ لمحہ بھر کو رُکتی،
جیسے کسی چیز کو پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔

پھر وہ ایک جگہ ٹھہر گئی۔
سامنے ایک شاندار بنگلہ تھا —
آئینے جیسے شیشے، ہلکی زرد روشنی،
اور وہ سکوت… جو کسی عام گھر میں نہیں ہوتا۔

اس نے جیب سے موبائل فون نکالا۔
اسکرین پر لکھا تھا
Target Location:
سامنے والا گھر

وہ ہلکی سی ہنسی،
لیکن میں پچھلے والے گھر میں جاؤں گی… ہی ہی ہی…

پیچھے مُڑ کر دیکھا —
وہاں ایک اور بنگلہ تھا، پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت،
جیسے کسی فلم کا منظر ہو۔

اس نے ایک لمحہ سوچا، پھر قدم بڑھا دیے۔

چند قدم بعد اس کے سامنے ایک تیسرا بنگلہ آیا —
جدید، صاف، اور سادہ مگر بہت پُرکشش۔
عمارت کے رنگ سیاہ اور خاکی تھے —
جیسے رات اور زمین نے مل کر اسے بنایا ہو۔

دیواروں پر نرم روشنی کے بلب لگے تھے،
جو بند ہونے کے باوجود ایسا لگ رہا تھا
جیسے عمارت سانس لے رہی ہو۔

دروازہ لکڑی کا تھا —
نہ کوئی نقش، نہ دستک دینے کی جگہ تھی
اندر سے ہلکی زرد روشنی جھانک رہی تھی —
اتنی کہ چیزوں کے سائے بن رہے تھے —
فرنیچر، پردے… یا شاید کوئی انسان۔

پورے بنگلے میں ایک خاموشی تھی،
مگر وہ خاموشی عام نہیں تھی —
ایسی لگ رہی تھی جیسے گھر خود جاگ رہا ہو،
سب کچھ دیکھ رہا ہو۔

جب وہ دروازے کے سامنے رُکی،
تو اسے لگا جیسے وہ کسی عام گھر نہیں،
بلکہ کسی ذہین، سوچنے والے مکان کے سامنے کھڑی ہے۔

آئی لائک اِٹ
وہ ہلکے سے مسکرائی،
گھر تو بہت شاندار ہے،
یقیناً اندر کا مال بھی کم نہیں ہوگا…

اس کے چہرے پر خوف نہیں، بلکہ اعتماد تھا۔
جیسے رات، سناٹا، اور سایے —
سب اس کے دوست ہوں۔

اندر جانے کا راستہ تلاش کرتی ہوئی۔۔
وہ بنگلے کے گرد چپ چاپ گھومنے لگی،

+++++++++++++

وہ بنگلے کے اندر داخل ہوچکی تھی۔۔ اور بنگلے کی
در و دیوار کی شان و شوکت اپنی جگہ، مگر ایک عجیب سا خلا ہر کونے سے جھانک رہا تھا۔
جیسے یہ سب صرف دکھاوا ہو۔
جیسے یہ گھر “گھر” نہ ہو… بلکہ کوئی ماسک ہو، جو کسی اور حقیقت کو چھپا رہا ہو۔
وہ ہر کمرے میں گئی۔
بیڈ رومز، ڈرائنگ روم، حتیٰ کہ وہ سنروم بھی جہاں شیشے کی دیواروں سے رات کا اندھیرا اندر جھانک رہا تھا۔
لیکن کہیں بھی کوئی تصویر نہیں تھی۔
نہ کسی ماں کی اپنے بچے کے ساتھ۔
نہ کسی گریجوایشن کی۔
نہ کسی شادی، خوشی یا یاد کی۔

یہ گھر رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔۔۔ یہ تو جیسے صرف ظاہر کے لیے ہے۔۔۔
اُس نے زیرِ لب کہا۔
اور کچن کی سمٹ بڑھ گئی۔۔۔
کچن…
چمکتا ہوا، ہر چیز اپنی جگہ سجی ہوئی تھی۔ چمکتے ہوئے اسٹیل کے برتن، نفاست سے بنی ہوئی کپنیٹ، اور چمکدار پتھروں جیسے چکنے کاؤنٹر۔

وہ فریج تک گئی۔ کھولا۔
کھانے پینے کی اشیاء ضرور تھیں… مگر سب کی ایکسپائری ڈیٹ اگلے ہفتے کی تھی۔
نہ کوئی آدھا کھلا ہوا پیک ، نہ کوئی  —
نہ وہ معمولی سا انسانی لمس، جو کسی رہنے والے گھر میں محسوس ہوتا ہے۔۔۔

اُس نے کپینٹ کھولی، مصالوں کی رَیک پر نگاہ دوڑائی، پھر ایک ایک دراز ٹٹولنے لگی۔
ہر چیز اپنی جگہ موجود تھی — حد سے زیادہ ترتیب میں۔۔
کچھ تو تھا یہاں۔ کچھ جو ظاہر نہیں کیا گیا۔
پھر وہ ایک ایک کمرہ ایکسپلورر کرنے لگی۔۔۔

ہنہ، کیسا عجیب گھر ہے… سمجھ سے باہر…
وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔

ہر در و دیوار جیسے اُسے دیکھ رہا تھا،
اور پھر بھی… کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔

وہ کچن سے واپس مُڑی، راہداری میں کی طرف واپس آئی۔۔۔

صحیح کہتے ہیں لوگ… دل سے نہیں، دماغ سے سوچنا چاہیے۔۔۔ ہلکا سا بڑبڑائی

جس گھر کا لوکیشن تھا اُسی گھر جانا چاہیے تھا نہ تُجھے ۔۔۔ ہمیشہ اپنے دل کی سنتی ہے اور نقصان اُٹھتی ہے۔۔۔بے تمیز ۔۔ دِل نے کہا یہ گھر اچھا ہے اور گھس گئی اندر اور اب اس گھر میں کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔اه ہ ہ ہ۔۔۔

جس گھر کا لوکیشن تھا اُسی گھر جانا چاہیے تھا نہ تُجھے۔۔۔
وہ آپے سے باہر بڑبڑائی، جیسے خود کو تھپڑ مارنے کا دل ہو رہا ہو۔

ہمیشہ اپنے دل کی سنتی ہے اور نقصان اُٹھتی ہے۔۔۔
اس کے لفظوں میں شرمندگی بھی تھی، اور غصہ بھی۔
کمرے کی خاموشی میں اس کی آواز کچھ زیادہ ہی گونج رہی تھی، جیسے دیواریں بھی اُس پر طنز کر رہی ہوں۔

اور اب؟ اس گھر میں کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ نہ کوئی بندہ، نہ کوئی تصویر، نہ کوئی مال… اہ ہ ہ ہ۔۔۔
اس نے جھنجھلا کر گردن پیچھے پھینکی اور فرش پر ایک زور دار قدم رکھا۔

ٹھک۔۔
ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹھک گئی۔
آواز عام نہیں تھی — کچھ مختلف، کچھ کھوکھلی سی۔
یوں لگا جیسے نیچے کوئی خالی جگہ ہو۔

اس نے حیرانی سے قدم دوبارہ وہیں رکھا۔
پھر ایک بار اور۔
تیسری بار جب پاؤں مارا تو فرش جیسے ہل سا گیا۔
ایک مدھم سی کھڑک ہوئی، اور ساتھ ہی نیچے سے ٹھنڈی ہوا کا ہلکا سا جھونکا اُٹھا —
جیسے زمین کے نیچے کوئی سانس لیتا ہو۔

یُسرٰی نے گھبرا کر اردگرد دیکھا، دل زور سے دھڑکنے لگا۔
آہستگی سے وہ جھکی، اور انگلیوں سے فرش چھوا۔
ٹائلز میں سے ایک ذرا سی کھسکی —
ایک نہایت باریک درز اب صاف نظر آ رہی تھی۔

یہ کیا…
اس کی آنکھیں چند لمحے کے لیے ساکت ہو گئیں۔
فرش کی مخصوص سطح پر اس نے دوبارہ ہاتھ رکھا…
انگلیوں نے سطح پر کچھ محسوس کیا —
ایک چھوٹا سا اُبھار، جیسے کوئی خفیہ بٹن ہو۔

اچانک ایک چٹخ کی آواز ہوئی۔
ٹائلز ہلکی سی جنبش کے ساتھ ایک طرف سرک گئیں۔

اور اس کے نیچے…
اندھیرے میں چھپی ایک تنگ سی راہ نمایاں ہوئی۔
نیچے اترتی ہوئی سیڑھیاں —
پتلی، پرانی، اور ایسی جیسے صدیوں سے کسی کے قدموں کی منتظر ہوں۔

وہ ٹھٹک کر بیٹھ گئی۔
دل بےترتیب دھڑکنے لگا۔

نیچے اندھیرا تھا…
خاموش، گہرا، اور کچھ ایسا جو دِکھائی نہیں دیتا، لیکن محسوس ہوتا تھا

دماغ نے سرگوشی کی
واپس چلی جاؤ… نیچے خطرہ ہو سکتا ہے۔ تم نہیں جانتی وہاں کیا ہے۔ تمہارا وہاں جانا ضروری نہیں…
اُس کا ہاتھ ذرا سا پیچھے سرکا… جیسے واپسی کا راستہ سوچنے لگی ہو۔ دل نے ایک لمحے کی خاموشی میں زور سے دھڑکا۔

دل نے آہستگی سے کہا
بس ایک نظر دیکھو… نیچے کیا ہے؟ اگر کچھ نہ ہوا تو واپس آجانا۔ مگر اگر کچھ اہم چھپا ہو… اور تم نے نہ دیکھا… تو ساری زندگی یہ سوال رہ جائے گا آخر وہاں تھا کیا؟

اُس نے آنکھیں بند کیں، ایک گہری سانس لی۔
بس دیکھ کے واپس آ جاؤں گی…
وہ خود سے بڑبڑائی — جیسے اپنے اندرونی خوف کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش ہو۔
اور پھر…
ہاتھ دیوار پر رکھتے ہوئے وہ پہلا قدم نیچے رکھا۔
سیڑھیاں پرانی تھیں، لیکن مضبوط۔
ہر قدم پر ایک مدھم سی چرچراہٹ ہوتی، نیچے کی طرف جاتے اندھیرے میں اُس کا جسم آہستہ آہستہ غائب ہونے لگا۔
چہرے پر اب خوف اور تجسس کا امتزاج تھا…
دل تیز دھڑک رہا تھا، دماغ ہر لمحے  اپنا فرار کا منصوبہ سوچ رہا تھا۔
مگر قدم…
وہ تو صرف نیچے جا رہے تھے۔

اور ہر بار کی طرح یسریٰ ہمیشہ اپنے دل ہی کی سنتی تھی۔۔۔۔
یُسرٰی آخری سیڑھی پر پہنچی تو اچانک ایک سنّاٹا چھا گیا۔ نیچے ایک تنگ، لمبی راہداری تھی۔
سامنے ایک دروازہ تھا — فولادی، ثقیل، جیسے کسی قلعے کا در۔
یُسرٰی نے ہلکے سے دروازے کو دھکیلا — کُھل گیا۔
اور وہ لمحہ۔۔۔ جیسے حقیقت سے پردہ اٹھا۔

سامنے ایک چھوٹا سا، لیکن ہائی ٹیک کمرہ۔
دیواروں پر ساؤنڈ پروف ، کئی سکرینز، جن پر سوشل میڈیا ٹرینڈز، نیوز ہیڈلائنز، اور امن کی تصاویر گھوم رہی تھیں۔
اور اس کا دماغ بھی ایک پل کے لیے گھوم گیا۔۔۔
اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی…
پیچھے سے کسی نے اسے دبوچ لیا تھا۔

++++++++++

ریپر نے فولڈر پر کلک کیا۔
سکرین پر تین فائلیں کھل گئیں

آڈیو کلپ – امن کا اعتراف

فیک میڈیکل رپورٹ – بائی پولر، خطرناک، غیر مستحکم

تصویر – امن اپنے پرانے دوست جبار کے ساتھ، جو اب لاپتہ ہے۔

ریپر نے اپنے مخصوص سافٹ ویئر میں آڈیو کلپ کو کھولا۔
ایک اصلی تھراپی سیشن کی ریکارڈنگ تھی، جس میں امن کہہ رہا تھا
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، میری سوچ حقیقت سے کٹ چکی ہے۔ جیسے میں خود اپنے ہی دماغ سے بھاگ رہا ہوں۔
ریپر نے ایڈیٹنگ ٹول سے آواز کو کاٹا، جوڑا، اور نیا جملہ تیار کیا
میں… حقیقت سے کٹ چکا ہوں… اور اب جو بھی ہوگا… وہ صرف میری مرضی سے ہوگا۔

کلپ محفوظ کیا گیا
Aman_Threat.mp3
پھر اُس نے فیک میڈیکل رپورٹ کھولی۔

اس پر جعلی اسپتال کا لوگو، ڈاکٹر کے دستخط، اور تاریخیں تھیں—سب کچھ اتنے باریکی سے بنایا گیا تھا کہ جھوٹ اور سچ میں فرق کرنا ممکن نہ تھا۔
امن شدید ذہنی مسائل کا شکار ہے۔
کبھی کبھار تشدد پر اتر آتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے مستقل نگرانی کی ضرورت ہے۔..
یہ جملے بولڈ اور سرخ رنگ میں نمایاں تھے۔
ریپر نے رپورٹ کے نیچے لکھا

Source: Confidential Leak – Verified by ‘internal hospital staff’

تیسری تصویر— جبار کے ساتھ امن کی پرانی یونیورسٹی والی۔
نیچے کیپشن ایڈٹ کیا
یہ وہ شخص ہے جس نے امن کے عجیب رویے کی پہلی بار نشاندہی کی تھی۔ اب وہ لاپتہ ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ جبار اپنی جاب کے لیے بیرونِ ملک گیا تھا۔
ریپر نے سب فائلز کو ایک ایک کر کے دو درجن ای میلز میں اٹیچ کیا—مختلف جعلی ناموں اور آئی پی ایڈریسز سے
ایک انویسٹیگیٹو جرنلسٹ کو بھیجا
اگر تم واقعی سچ کے دعوے دار ہو… تو یہ سب نشر کرو۔ تمہارا کریئر بن جائے گا۔

ایک یوٹیوبر کو میسج کیا
تیری اگلی ویڈیو وائرل ہونی چاہیے—‘امن: ذہنی مریض یا میڈیا کا مہرہ؟’

کچھ میمز پیجز کو کلپ بھیجا
بناو اس پر کوئی ‘کریزی ہیرو’ والا میم۔ لوگوں کو ہنسی چاہیے، سچ نہیں۔

صبح 4:30 بجے—تمام مواد شیدول ہو چکا تھا۔
صبح 9 بجے ایک ہی وقت میں
ٹویٹر پر ٹرینڈ ہونا تھا
#UnstableAman

ایک یوٹیوبر کی ویڈیو آنا تھی۔۔۔
The Hero With a Sick Mind?

اور ایک خبر بریک ہونی تھی
لیکڈ رپورٹ: امن دوبارہ خطرہ بن سکتا ہے۔۔۔

ریپر نے کرسی سے ٹیک لگا کر سگریٹ جلایا۔

دھویں کے حلقے میں آنکھیں جھپکائیں، اور زیرِ لب کہا

تمہیں گولی نہیں ماروں گا، امن۔ تمہارا ہیرو بننے کا خواب ماروں گا۔

++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *