انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول: تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۱۰
کبھی کبھار ایک پل کی تاخیر… کسی کی زندگی پر بھاری پڑ جاتی ہے۔
امن نے فون اٹھایا، اسکرین دیکھی، اور ایک لمحے کو رکا…
Hayat – 18 Missed Calls
ماتھے پر شکن ضرور آئی، لیکن اگلے لمحے…
چھوڑو… بعد میں دیکھوں گا۔
اُس نے فون جیب میں ڈال لیا اور دراز سے کچھ ضروری فائلز نکلنے لگا۔۔
++++++++++++
لفٹ کے سنّاٹے میں بیٹھے حیات کی سانسیں اب بھی بے ترتیب تھیں۔
دل میں صرف ایک ہی شور تھا
کوئی ہے…؟ کوئی…؟
لیکن آوازیں وہاں صرف دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھیں۔
یا اللہ… کیا کروں میں…
اس نے سر گھٹنوں میں چھپا لیا، جیسے خود کو دنیا سے الگ کر لینا چاہتی ہو
آنکھیں بار بار موبائل کی اسکرین کو دیکھتیں –
کبھی سگنل چیک کرنا، کبھی بیٹری، کبھی رابطہ…
لیکن ہر دفعہ صرف مایوسی۔
ماما کو کال کروں؟ نہیں… نہیں… وہ پریشان ہو جائیں گی۔
بابا؟… وہ بھی آفس میں ہوں گے…
میں کیا کروں؟ کس سے مدد مانگوں؟
اس کا فون ہاتھ میں لرزنے لگا، جیسے انگلیاں بھی حوصلہ چھوڑ چکی ہوں
آدھا گھنٹہ گزر گیا… سب جا چکے ہوں گے…
یہ سوچ دل پر آخری ضرب تھی – اور آنکھوں سے بند باندھ کے آنسو ٹوٹنے لگے
اندھیرا تھا، خاموشی تھی، اور صرف ایک حیات…
+++++++++++
امن، فائلز ہاتھ میں، قدموں میں مصروفیّت، ذہن میں آفیس کے معاملات لیے…
جیسے ہی وہ کیبن لاک کر کے باہر آیا،
نتاشا زاویار… چلو۔
جی، چلیے۔
نتاشہ نے پرس اٹھایا، چہرہ تھکا تھکا مگر پرسکون
چلو…
زاویار ہمیشہ کی طرح اکتاہٹ میں بولا
جیسے ہی وہ تینوں لفٹ کی طرف بڑھے –
نتاشا نے رخ موڑا
باس، وہ… لفٹ خراب ہو گئی ہے، زارا کہہ رہی تھی۔ چلتے چلتے رک جاتی ہے، بہتر ہے سیڑھیوں سے چلیں۔
کیوں؟ کیا ہوا ہے لفٹ میں؟
امن نے چونک کر پوچھا، لیکن چہرے پر کوئی خاص پریشانی نہیں
پتا نہیں… بس زارا نے بتایا۔
اچھا… زاویار کل آتے ہی دیکھ لینا، کیا مسئلہ ہے۔ امن نے سنجیدگی سے کہا
ہاں، میں دیکھ لوں گا۔ فِلحال تو چلو۔
زاویار نے بیزاری سے کہا
ہمم، چلو۔
اور تینوں سیڑھیوں کی طرف مڑ گئے…
+++++++++++
پارکنگ ایریا میں پوچھتے ہی زاویار چونکا۔۔
بھائی…
امن فون پر نظریں جمائے کہا
بولو؟
وہ دیکھو… وہ حیات کی گاڑی اور اُس کا ڈرائیور ہے نا؟ زاویار نے اشارہ کرتے ہوئے امن سے کہا
امن بغیر دیکھے، لاپرواہی سے کہا
پاگل ہو؟ وہ کب کی جا چکی ہے…
زویار نے شانے اچکاتے ہوئے کہا
اچھا…
پھر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
++++++++++++++
سلمان صاحب، گاڑی کی سیٹ پر بیٹھے بار بار گھڑی کی طرف دیکھتے،
پھر عمارت کے دروازے کو تکنے لگے۔
آدھا گھنٹہ اوپر ہو گیا ہے…
انہوں نے دل میں سوچا۔
حیات آج تک کبھی اتنی لیٹ نہیں ہوئی تھی۔
بچپن سے اسکول ، یونیورسٹی، اور اب یہ آفس ہر جگہ اُسے سلمان صاحب ہی ڈراپ کرتے آئے تھے
وہ صرف ایک ڈرائیور نہیں تھے۔۔۔
باپ جیسے محافظ، بھی تھے۔۔
سلمان صاحب نے دل میں سوچا
کچھ تو غلط ہے… حیات کبھی اتنی دیر نہیں کرتیں… نہ ہی فون آیا، نہ کوئی پیغام… اللہ خیر کرے…
اسی پریشانی کے عالم میں ان کی نظر سامنے گئی –
جہاں امن اب بھی کھڑا موبائل میں مصروف تھا،
شاید کسی اہم ای میل یا آفیشل کام میں لگا ہوا۔
سلمان صاحب فوراً گاڑی سے نکلے، قدموں میں ایک ہلکی سی گھبراہٹ تھی۔
وہ امن کی طرف بڑھے، ادب اور پریشانی کے بیچ جھجکتے ہوئے بولے
السلام علیکم سر… ذرا میری سنیے…
امن چونک کر، موبائل سے نظر ہٹائے کہا
وعلیکم السلام… جی بولیے… آپ کون ہیں؟
سلمان صاحب نے ہلکی سی عاجزی سے کہا
میں… میں حیات بیٹی کا ڈرائیور ہوں… سلمان نام ہے میرا۔ بچپن سے ان کے ساتھ ہوں۔
بس یہ پوچھنا تھا کہ… خیر تو ہے نا؟ بہت دیر ہو گئی ہے… وہ اب تک نیچے نہیں آئیں۔
اُن کی بات سنتے ہی امن کے چہرے پر ناگواری چاہ گئی۔۔۔
کیا مطلب؟ وہ تو کب کی جا چکی ہوں گی نا؟
نہیں سر… میں تب سے انتظار کر رہا ہوں، وہ ہر روز وقت سے پہلے آ جاتی ہیں،
آج نہ کوئی کال… نہ کوئی میسج…
دل گھبرا رہا ہے، اس لیے آپ سے پوچھ لیا۔
امن کی آنکھیں ایک پل کو ساکت ہو گئیں…
پھر اس نے جھٹ سے ہاتھ میں پکڑا موبائل دوبارہ آن کیا – کال لوگو کھولا
20 Missed Calls – From “Hayat”
Last Call: 36 Minutes Ago
لیکن وہ تو بہت پہلے ہی نکل چکی ہے۔۔؟
نہیں سر، وہ ابھی تک نہیں نکلی… میں کب سے یہیں گاڑی کے پاس کھڑا ہوں۔ وہ نیچے آئی بی نہیں اور وہ جہاں بھی جاتی ہیں، مجھے ساتھ لے کر ہی جاتی ہیں…
یہ سنتے ہی امن کے چہرے کا رنگ یکدم اُڑ گیا۔ پھر اگلے ہی پل وہ پلٹا — اور زور سے چیخا…
زاویار
ہاں، بولو؟ زاویار تیزی سے اُس کے پاس آیا
حیات کہاں ہے؟
زویار نے کندھے اُچکائے
مجھے کیا پتا، اپنے گھر پہ ہوگی شاید..
نہیں ہے۔۔۔امن نے گھبرا کر بولا۔
تو میں کیا کروں؟ تم ہی تو کہہ رہے تھے کہ وہ جا چکی ہے… زاویار نے لاپروائی سے کہا
یہ دیکھو، اس کا ڈرائیور… کہہ رہے ہیں وہ نکلی ہی نہیں…
میں نے جب بولا تھا تو تُم یقین نہیں کر رہے تھے۔۔۔ زاویار نے ناگواری سے طنز کیا۔۔۔
امن پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے، تیزی سے بولا۔۔
یہ سب چھوڑو، حیات گئی کہاں؟ وہ تو آئی ہی نہیں نیچے…!
زاویار کندھے جھٹکتے ہوئے، اب تھوڑا سنجیدہ لہجے میں بولا۔۔۔
مجھے کیا پتا… چلی گئی ہوگی کہیں شاید کسی سے ملنے چلی گئی ہو…
سلمان صاحب نے يقین سے، مگر گھبرا کر کہا
نہیں سر، نہیں… وہ نیچے ہی نہیں آئی،
میں کب سے یہاں کھڑا ہوں، کار کے پاس اُس کا انتطار کر رہا ہوں وہ نیچے آتی تو کم سے کم مُجھے دیکھائی تو دیتی نہ۔۔۔۔
تو گئی کہاں آخر؟ زاویار نے حیرانی سے کہا
++++++++++++++
اندھیرے میں ڈوبی وہ تنہا لفٹ، جس میں صرف ایک دھیمی سی روشنی موبائل کے ٹارچ سے جھلک رہی تھی، اور اس روشنی میں حیات کی نم آنکھیں چمک رہی تھیں… بے بسی کی چمک، امید کی آخری کرن…
حیات نے آنسو پونچھتے ہوئے خودکلامی میں کہا
ہاں… ڈی… ڈی کو کال کرتی ہوں…
وہ تو نیچے ہی ہوں گے…
ویسے بھی وہ میرے بغیر یہاں سے جائیں گے نہیں…
ہاں… انہی کو کال کرتی ہوں…
اُس نے جلدی سے موبائل پر کال ملایا۔۔۔
… Ringing …
پہلی ہی بیل پر فون اُٹھا لیا گیا۔۔
حیات نے گھبراہٹ میں، ڈری ہوئی آواز میں کہا
ہیللو… ڈی… ڈی…؟
سلمان صاحب نے چونک کر کہا
ہاں بیٹی… بولو کہاں ہو تم؟ میں کب سے انتظار کر رہا ہوں یہاں…
حیات کی آواز لرز رہی تھی، جیسے الفاظ آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں کے ساتھ بھیگ رہے ہوں
ڈی ڈی… میں… میں لفٹ میں پھنس گئی ہوں… بیچ میں… اندھیرا ہے…
سب مجھے بند کر کے چلے گئے… مجھے نہیں پتا کیا کرنا ہے… پلیز کچھ کریں نا…
شاہد صاحب کا رنگ فق ہو گیا، لب کانپنے لگے… دل ڈوبنے لگا…
سلمان صاحب نے پریشانی سے کہا
کیا…؟ لفٹ میں؟ اللہ خیر کرے…
اور اسی لمحے موبائل نے بھی ساتھ چھوڑ دیا… اسکرین پر بس بیٹری ختم ہونے کا آخری منظر… اور پھر مکمل اندھیرا۔
وہ اندھیرا… جس میں اب صرف حیات کا خوف تھا… اور اس کی بےآواز سسکیاں…
امن جیسے ہی سلمان صاحب کی گھبرائی ہوئی باتوں کا آدھا جملہ سنا اور بغیر کسی مزید سوال کے دوڑ پڑا
زاویار، میرے پیچھے آؤ۔۔۔
زویار فوراً بھاگا، نتاشا چند لمحے وہیں ساکت کھڑی رہی، آنکھوں میں حیرت اور دل میں بےچینی۔
وہ جانتی تھی… یہ دوڑ معمولی نہیں تھی —
یہ معاملہ حیات کا تھا۔
ہونٹوں پر ایک کڑوا سا تبسم اُبھرا۔
دل نے چپکے سے سوال کیا—
کیا میں حیات کی جگہ ہوتی تو کیا یہ دونوں ویسے ہی بھاگتے ؟ جیسے ابھی بھاگے ہیں۔۔۔ یوں ہی بےقرار، یوں ہی تڑپ کر؟
+++++++++++++
وہ کنارہ پکڑ کر زمین پر بیٹھ گئی تھی، آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے، اور دل کی حالت گویا طوفان میں گھری کشتی کی طرح تھی۔
حیات نے آنکھیں بند کیے، دل ہی دل میں کہا
میری قسمت ہی خراب ہے… جب سے اس آفس میں آئی ہوں، ہر دن جیسے کوئی نئی مصیبت …
پہلے وہ مافیا والی گاڑی… اور اب یہ لفٹ…
اگر یہ لفٹ… بھوتیا ہوئی تو؟
اور پھر… وہی ہوا، جو اکثر ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے جب ہم پریشانی میں ہوتے ہیں…
سوچیں، جو حقیقت سے دور…
ڈر، جو اپنی ہی تخیلاتی دنیا میں بڑا ہو جاتا ہے…
اور وہ سوال، جو دل میں کانٹے کی طرح چبھنے لگتے ہیں
کیا ہوگا اگر…؟
کیسے نکلو گی؟
اگر کوئی نہ آیا تو؟
ڈی ڈی سی لفٹ کُھلا نہیں تو۔۔۔؟؟
وہ خاموش بیٹھی تھی۔
آنکھیں نم تھیں، مگر اندر کا شور تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
خیالات ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے — وہی منفی سوچیں…
وہی جو دل کو کھا جاتی ہیں۔
انگریزی میں جنہیں overthinking کہتے ہیں —
اور دراصل، ہم سب کبھی نہ کبھی اس کے شکار ضرور ہوتے ہیں۔
لیکن شاید…
یہی وہ لمحہ تھا جہاں کہانی بدل سکتی تھی۔
اگر وہ صرف ایک پل کو رُک جاتی،
آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیتی،
تو شاید اسے یاد آتا کہ اللہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی رکھتا ہے۔
زندگی کی ہر لفٹ جو بیچ میں رک جائے، وہ آخرکار دوبارہ چلتی ہے۔
بس… ضرورت ہے تو صرف
صبر کی
تھوڑا سا حوصلے کی
اور اللہ پر یقین کی
کیونکہ اللہ اُس بندے کو کبھی نہیں چھوڑتا جو تنہائی میں بھی صرف اُسے پکارتا ہے۔
جب کبھی زندگی کی لفٹ رک جائے،
تو گھبرانا نہیں…
نہ خود کو کوسنا…
بس آنکھیں بند کرنا،
ایک گہری سانس لینا،
اور دعا مانگ لینا۔
یقین مانو… باہر کا دروازہ آخرکار کُھل ہی جاتا ہے۔
ہر قفل، چاہے جتنا مضبوط ہو، ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب وہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
کوئی دروازہ کھولنے والا ہوتا ہے —
ہمیں بس صبر کے اُس ایک لمحے تک ٹھہرنا ہوتا ہے۔
اور عجیب بات یہ ہے…
اکثر وہ ہاتھ، وہ چہرہ، وہ سبب —
وہیں سے اُبھرتا ہے جہاں سے ہمیں
امید بھی نہیں ہوتی۔
So, stay calm. Stay positive.
ہر اندھیرے کے بعد… روشنی ہے.
++++++++++++
سیڑھیوں کے قدموں کی آوازوں کے ساتھ جب وہ دوبارہ اوپر پہنچے، تو سامنے کا منظر ان کے قدموں کو تھما گیا…
لفٹ…
ساکت…
خاموش…
اور بیچ منزل میں رکی ہوئی…
جیسے کسی نے دانستہ اسے وہیں قید کر دیا ہو…
زاویار نے گھبرا کر کہا
بھائی… لفٹ تو بیچ میں رکی ہوئی ہے…
اب حیات کو کیسے نکالیں گے…؟
دیکھو، کوئی نہ کوئی راستہ تو ہو گا…
مگر وہ امن… جو ہمیشہ دوسروں کے مسئلوں سے پہلے ان کا حل نکال لیتا تھا…
جو ہر مشکل کی گرہ کھولنے سے پہلے ہی اگلا قدم سوچ لیتا تھا…
آج… وہی امن … خاموش تھا۔
بےبس…
پریشان…
اور اندر سے کسی انجانے خوف میں گم۔
خود کلامی میں کہا
کاش… کاش اُس وقت میں حیات کی کال ریسیو کر لیتا…
تو شاید یہ سب نہ ہوتا…
زاویار ایک پل ضائع کیے بغیر الیکٹرک روم کی طرف لپکا، جہاں دیواروں پر تاروں کی سرنگیں اور سرکٹ بورڈز کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔
زاویار نے حیرت سےکہا
یہ لفٹ کا مین سوئچ… آف کیسے ہو گیا…؟
وہ فوراً جھک کر سوئچ کو آن کر گیا
کلک
اور اگلے ہی لمحے…
لفٹ کی اندھیری چھاتی ہوئی دنیا میں روشنی اُبل پڑی
چراغاں
روشنیاں
زندگی کی واپسی…
اور… لفٹ ہلکی سی جنبش کے ساتھ نیچے کی طرف کھسکنے لگی
زندگی جیسے کسی بند دروازے سے دوبارہ جھانکنے لگی ہو…
اور…
لفٹ کے اندر
حیات جو اب تک گھٹن اور اندھیرے میں اپنی ہمت کی آخری سیڑھی پر کھڑی تھی… اچانک آنکھیں مچکا کر روشنی کو دیکھی۔۔۔
یا اللہ… یہ… یہ روشنی…
کیا واقعی کوئی دروازہ کھلا ہے…؟
لفٹ چلنے لگی ؟
اور پھر وہ لمحہ…
جب صرف ایک سوئچ کی کلک…
کسی کے دل کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آتی ہے…
کبھی کبھی زندگی کی لفٹ میں ہم پھنس جاتے ہیں…
مگر یاد رکھو ہر اندھیرے کا ایک بٹن ہوتا ہے –
بس کوئی چاہیے… جو اُسے آن کرے…
اور اکثر…
وہ کوئی ہم خود بھی ہو سکتے ہیں –
اگر ہم حوصلہ نہ ہاریں…!
لفٹ کی روشنی نے جہاں حیات کی ڈھلتی امیدوں کو سہارا دیا، وہیں اُس کے دل میں بندھی گھٹن کی گرہیں اب آہستہ آہستہ کھلنے لگی تھیں۔
حیات نے گہری سانس لیتے ہوئے، نم آنکھوں سے کہا
ہُہ…!!!
لفٹ…
لفٹ آن ہو گئی…
اُس نے فوراً اپنے آنسو صاف کیا اور دل ہی دل میں سجدہ شکر ادا کیا
یا اللہ تیرا شکر ہے… ورنہ تو لگا تھا کہ میں آج کی رات یہیں گزار دوں گی…
دل کی دھڑکنیں جو ابھی تک لرز رہی تھیں، اب آہستہ آہستہ نارمل ہو رہی تھیں۔
اب کے وہ تھوڑا سنبھل کر، گہرا سانس لیا … اور لفٹ آہستہ آہستہ نیچے آگئی …
حتیٰ کہ وہ گراؤنڈ فلور پر آگئی
لفٹ کی گھنٹی بجی
دروازہ کھلا ۔۔۔
امن وہیں کھڑا تھا – سانس روکے، نظریں دروازے پر ٹکائے، شاید زندگی کی سب سے بے قراری سے انتظار کرتا ہوا۔
اور اگلے ہی پل…
دروازہ کھلتے ہی…
حیات، نقاہت زدہ چہرے کے ساتھ، ہلکے لرزتے قدموں سے باہر آئی
مگر آنکھوں میں ایک خوشی تھی۔۔
نجات کی خوشی۔۔۔
اور حیات بنا کچھ بولے وہاں سے تیزی سے نکل گئی ۔
شکر ہے اللہ … وہ صحیح سلامت ہے…
امن دِل ہی دل میں اللہ کا شُکر ادا کیا۔۔۔
ورنہ جیسی اُس کی حالت ہو رہی تھی، لگتا تھا کہ لفٹ میں حیات نہیں، بلکہ وہ خود بند تھا۔
وہ جلدی سے آگے بڑھ، مگر ایک لمحے کے لیے رُک کر زاویار کو آواز دیا۔۔۔
زاویار…! لفٹ کھل گئی ہے… حیات باہر آ گئی ہے…
زاویار جو الیکٹرک روم سے سیدھا سیڑھیاں پھلانگتا آیا،
ان سب کے چہروں پر اب حیرت نہیں…
راحت تھی…
کہاں ہے حیات…؟
امن نے گہری سانس لے کر کہا
چلی گئی وہ…
زاویار نے شانے اچکائے،
اچھا… چلو پھر، ہم لوگ بھی چلتے ہیں… اب یہی بستر لگا کے تو نہیں سوئیں گے نا۔
امن نے سر ہلایا –
ہاں… چلو…
لیکن…
اس کے لہجے میں جو “ہاں” تھا،
اس میں ہار نہیں، تھکن تھی۔
ایک احساسِ ندامت…
ایک انجانی سی خفگی…
وہ لمحہ لمحہ خود کو کوس رہا تھا –
کاش اُس وقت فون اُٹھا لیتا… کاش میں نے اُسے لفٹ میں اکیلا محسوس نہ ہونے دیا ہوتا… کاش…
زاویار آگے بڑھ چکا تھا،
اور امن پیچھے…
چند لمحے بس وہیں، خاموش کھڑا رہا…
خاموشی میں ڈوبا وہ آفس کا کونا، وہ بند ہوتی لفٹ، اور وہ گم ہوتی سانسیں – سب کچھ گویا ایک ان کہی تحریر میں بدل رہا تھا…
++++++++++++++
امن نے کھانا کھا کر جیسے ہی بستر پر کمر ٹکائی، تو کمرے میں ایک عجیب سی اداسی بھر گئی۔ نہ کوئی شور تھا، نہ کوئی آواز، مگر دل بے چین، بےقرار تھا
وہ… بغیر کچھ کہے کیوں چلی گئی؟
اس نے کروٹ بدلی، لیکن سوال نے ساتھ نہ چھوڑا۔
کیا اسے برا لگا کہ میں نے اس کی کال اٹینڈ نہیں کی؟
کیا وہ مجھ سے ناراض ہے؟
کیا وہ… رو رہی تھی؟
اس لمحے امن کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر بار بار آنے لگا۔ حیات… جب وہ لفٹ سے نکلی تھی-پوری کی پوری پسینے میں شرابور، جیسے کسی نے اس کی روح نچوڑ لی ہو۔ چہرہ زرد، آنکھیں سرخ۔۔۔
امن کا دل کانپ اٹھا۔
وہ ایک کامیاب انسان تھا۔ دنیا کے لیے رول ماڈل، بے رحم حالات کو مٹھی میں کرنے والا…
مگر اس لمحے، وہ صرف ایک پچھتاوے سے بھرا انسان تھا۔
کاش… میں کال اُٹھا لیتا…
کاش ایک بار واپس کال کر لیتا…
کاش-
یہ وہ کاش تھے جو امن کے مضبوط ترین یقین کو توڑ رہے تھے۔
وہ جو ہر مشکل وقت میں یہ کہہ کر خود کو تسلی دے دیتا تھا
جو ہوتا ہے، اچھے کے لیے ہوتا ہے۔
لیکن آج، حیات کے معاملے میں، اس کا دل یہ کہنے کو تیار ہی نہ تھا۔
یہ پہلا موقع تھا جب امن جنید خان کسی ایک کال نہ اٹھانے پر خود سے نظریں چُرا رہا تھا۔
وہ شخص جو ہزاروں لوگوں کی زندگی آسان بناتا تھا، آج خود اپنی ندامت کے تنگ راستے میں پھنس گیا تھا۔
مجھے رکنا چاہیے تھا… مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا… کیا وہ ٹھیک ہے؟
حیات کا چہرہ… اُس کی آنکھیں… اُس کی خاموشی…
یہ سب امن کی نیند، اُس کے سکون، اُس کی توجہ کو چاٹ گئے تھے۔
فائلز بند پڑی تھیں، لیپ ٹاپ سلیپ موڈ میں تھا، اور امن کا دماغ صرف ایک خیال میں ڈوبا تھا-حیات۔
آخرکار وہ انہی سوچوں میں گم، نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
لیکن دل کے کسی کونے میں ایک سوال اب بھی سانس لے رہا تھا…
کیا وہ بھی رو رہی ہوگی؟ اور اگر ہے… تو کیا وہ جانتی ہے کہ میں بھی سویا نہیں ہوں…
+++++++++++++
حیات جب واپس آئی، تو معمول کے برخلاف نہ کسی سے کوئی بات کی، نہ کسی کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ وہ سیدھی اپنے کمرے کی طرف بڑھی، جیسے کچھ کہنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ دروازہ بند کیا، اور واشروم جا کر خود کو تازہ کیا، مگر اندر کا خوف، پسینے اور پانی سے نہیں دھل سکا۔
وہ چپ چاپ بستر پر لیٹ گئی۔ چہرے پر تھکن تو تھی، مگر آنکھوں میں صرف خوف۔ دل میں صرف ایک ہی شکر
یا اللہ تیرا شکر ہے… میں نکل آئی۔
مگر وہ لمحہ…
وہ گھٹن…
وہ اندھیرا…
سب کچھ اُس کے ذہن میں یوں چکر لگا رہا تھا جیسے کوئی پرانی فلم بار بار چلائی جا رہی ہو۔ وہ سوچتی جا رہی تھی
اگر میں نہ نکلتی تو…؟ کیا واقعی میں پوری رات اسی اندھیرے میں قید رہتی؟
اس سوچ نے اُس کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
مگر ایک اور سوال تھا… ایک تکلیف دہ سوال…
امن ایسا کیا ضروری کام کر رہا تھا کہ میری کال بھی نہ اُٹھا سکا؟
کیا اُس نے جان بوجھ کر میری کال نظر انداز کی؟
یہ سوچ… یہ شک… اس کے دل میں زہر گھول رہا تھا۔
وہ کمبل اوڑھ کر لیٹ تو گئی، مگر نیند اُس کے قریب بھی نہ آئی۔
اور پھر وہی منظر…
وہی سیاہ اندھیرا،
وہی بند لفٹ،
وہی بے بسی کا احساس…
بار بار اُس کے ذہن کے پردے پر چلنے لگا۔
اسے لگتا جیسے وہ ابھی بھی اسی لفٹ میں قید ہے۔
جیسے وہ اندھیرا اُس کے ساتھ بستر میں لیٹ گیا ہو۔
جیسے ہر دیوار، ہر چھت، اب اُس اندھیرے کا عکس بن چکی ہو۔
نہیں… نہیں… میں باہر آ چکی ہوں…
وہ خود کو تسلی دیتی، مگر دل ماننے کو تیار نہ تھا۔
حیات کی آنکھیں کھلی تھیں، مگر دل سو نہیں رہا تھا۔
وہ منظر، وہ اندھیرا… اب اس کی راتوں کا سکون لوٹ چکے تھے۔
++++++++++++++
کمرے میں ہلکی سی خنکی تھی، سورج کی کرنیں کھڑکی کے پردوں کے پار سے جھانک رہی تھیں۔
بیٹا اُٹھ جاؤ، تمہیں آفس بھی جانا ہے، کب سے سو رہی ہو۔ اُٹھو اور کچھ کھا لو، تم نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔
زینب بیگم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں، اور سیدھی حیات کے بستر کی جانب بڑھیں۔
مگر حیات…
وہ بستر میں جمی ہوئی تھی جیسے بدن میں جان نہ ہو۔ آنکھیں بند، چہرہ زرد، اور ہونٹوں پر صرف بے رغبتی کی لکیر۔
اُٹھو جاؤ بیٹا…
زینب بیگم نے کھڑکی کا پردہ ہٹایا، کمرے میں روشنی بھر گئی۔ لائٹس آن کیں، اور مسلسل اسے جگانے کی کوشش کرنے لگیں۔
ماما… مجھے نہیں جانا کہیں… پلیز لائٹ بند کریں، مجھے سونے دیں…
حیات نے مدھم، دبی دبی آواز میں کہا، جیسے بات کرتے ہوئے بھی جان نکل رہی ہو۔
زینب بیگم پریشان ہو گئیں۔ وہ حیات کے پاس آ کر بیٹھ گئیں، اور نرمی سے اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
اور اُسی لمحے اُن کی آنکھیں پھیل گئیں۔
یا اللہ…! تمہیں اتنا تیز بخار کیسے ہو گیا…؟
حیات نے کروٹ بدلی، آنکھیں بند رکھتے ہوئے بے نیازی سے کہا
مجھے کیا پتا ماما… بخار ہے، کوئی چیز تو ہے نہیں جو مجھے بتا کے چڑھے گا…
زینب بیگم نے گہرا سانس لیا، اور پیار سے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولیں
اچھا، چھوڑو… تم ناشتہ کرو اور دوا کھا کر آرام کرو، میں تمہارے آفس میں فون کر دوں گی۔
ہاں ٹھیک ہے… ابھی مجھے سونے دیں… اُٹھ کے کھا لوں گی دوا بھی لے لوں گی…
نہیں، پہلے ناشتہ کرو، دوا کھاؤ پھر سو جانا۔
میرا دل نہیں کر رہا کچھ بھی کھانے کا، پلیز اب آپ جائیں اور لائٹس بند کر کے دروازہ بھی بند کر دیں۔
زینب بیگم نے ایک لمحہ حیات کے چہرے کو غور سے دیکھا، پھر نرمی سے بولیں
اچھا یہ نٹیلا والا بریڈ کھا لو، پھر دوا دے دوں گی۔ کچھ نہ کچھ کھا لینا ضروری ہے، خالی پیٹ دوا نہیں کھاتے بیٹا…
حیات نے چہرہ چھپاتے ہوئے کروٹ بدلی
اللہ بھئی… کتنا تنگ کرتی ہیں آپ…
زینب بیگم مسکرائیں، پلیٹ آگے کی، اور کہا
چلو شاباش… یہ کھاؤ…
چاکلیٹ کی خوشبو نے حیات کے اندر چھپی ننھی سی خوشی کو جگا دیا۔
وہ جو سب کچھ رد کر دیتی تھی، ایک چیز تھی جس سے انکار نہ کر سکتی تھی- چاکلیٹ۔
بے دلی سے سہی، مگر اُس نے نٹیلا بریڈ لے لی۔
یہ چھوٹا سا ناشتہ، شاید اس کے اندر کے خوف، بخار کے لیے ماں کا دیا ہوا پہلا مرہم تھا۔
کبھی کبھی ماؤں کے اصرار میں وہ محبت ہوتی ہے، جو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔
+++++++++++++
یہ حیات ابھی تک نہیں آئی؟
امن نے اپنی گھڑی پر نظر ڈال کر زارا سے پوچھا، جو فائلز ترتیب دے رہی تھی۔
نہیں سر، وہ ابھی تک نہیں آئیں…
اچھا، آئے تو میرے کیبن میں بھیج دینا فوراً…
جی، ٹھیک ہے۔
امن سر جھٹک کر اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئے۔۔
جیسے ہی امن کا قدم کیبن کے دروازے سے باہر نکلا، مایا نے اپنا تبصرہ شروع کر دیا۔
مایا نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا یہی تو سہولت ہے بھئی، جب دل چاہے آ جاؤ، جب دل نہ چاہے چھٹی کر لو…
زارا نے نرمی سے کہا ہاں، بات تو سچ ہے تمہاری…
ایسے بھی کون سے ہیرے موتی لگے ہیں اس میں، جیسے ہم سب ناکارہ ہوں اور بس یہی ایک قیمتی نگینہ ہو…
اسی اثناء میں نتاشا اپنے کیبن سے باہر نکلی، ہاتھ میں کچھ فائلیں تھیں۔
کونسی قیمتی نگینہ کی بات ہو رہی ہے یہاں؟
مایا نے مسکرا کر مگر لہجے میں صاف طنز تھا
ارے وہی ہماری ملکہ عالیہ، محترمہ حیات صاحبہ
اب کیا کر دیا بیچاری نے؟
کچھ نہیں… بس آج چھٹی پر ہیں۔ زارا نے کہا
مایا نے تلخی سے کہا ہاں، وہی تو! جب دل کرے، بنا چھٹی لیے آف آجانا، کبھی دیر سے آنا، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور پھر ایک تو اُس کی ڈریسنگ! ہم کریں تو باس ہمیں اچھا خاصا سنا دیتے ہیں، لیکن حیات میڈم؟ ان پر تو جیسے کوئی اصول لاگو ہی نہیں ہوتے۔
نتاشا نے سنجیدگی سے کہا
باتیں تو تم سب ٹھیک کر رہی ہو، مگر کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ آج کیوں نہیں آئی؟
کیوں؟ مایا نے تجسس سے پوچھا
بیچاری کل لفٹ میں بند ہو گئی تھی… شاید اسی وجہ سے چھٹی پر ہے۔
“ہیں؟ سچ میں؟” زارا چونکی ۔۔
نتاشا نے غصے سے کہا ہاں، میرا اور تمہارا مذاق کا رشتہ تو ہے نہیں کہ جھوٹ بولوں۔۔۔
مایا نے پلکیں جھپکائیں، اور نخوت سے کہا
اچھا ہوا… بہت اترتی تھی۔۔۔
زارا نے فوراً لقمہ دیا
ایسے نہیں کہتے، مایا…
مایا نے شانے اچکائے اور منہ پھیر لیا
ہنہ۔…
نتاشا نے آخری نظر ان دونوں پر ڈالی، اور فائلز آگے بڑھاتے ہوئے کہا
چلو یہ فائلز رکھ لو، جب باس مانگیں تو دے دینا…
یہ کہتے ہی وہ اپنے کیبن میں واپس چلی گئی۔
++++++++++++++
امن اپنی کرسی پر بیٹھا، ایک ہاتھ سے پن گھما رہا تھا، اور دوسرا ہاتھ پیشانی پر رکھے سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
پتہ نہیں کیوں نہیں آئی وہ…؟
کل رات کے سارے لمحے، وہ منظر، وہ خیالات…
سب کچھ ایک بار پھر اُس کے ذہن کے پردے پر چلنے لگے۔
حیات کا وہ خاموش چہرہ، اُس کی نم آنکھیں،
لفٹ سے نکلتے وقت اُس کا وہ لرزتا ہوا وجود…
امن نے ایک گہری سانس لی، اور فون اٹھایا۔
کچھ لمحے کشمکش میں گزارے، پھر نمبر ڈائل کر دیا۔
ہیلو… السلام علیکم، کون بول رہا ہے؟
ایک نرمی بھری، قدرے سنجیدہ آواز دوسری طرف سے سنائی دی۔
وعلیکم السلام… میں امن بات کر رہا ہوں، حیات کا باس۔
اوہ امن بیٹا! بولو کیا ہوا؟ فون کے اُس پار حیات کی والدہ کی آواز اُبھری ۔۔۔
امن نے ہلکے لہجے میں کہا وہ… حیات آج آفس نہیں آئی، بس یہی پوچھنے کے لیے فون کیا تھا…
ہاں بیٹا، اُسے بہت تیز بخار ہو گیا ہے، اسی لیے نہیں بھیجا میں نے… دوا کھلا دی ہے، ابھی سو رہی ہے۔
امن نے فکرمندی سے کہا اچھا… ٹھیک تو ہے نا وہ؟
ہاں بیٹا، بس بخار ہے۔ ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گی۔
ٹھیک ہے… خیال رکھیے گا اپنا اور اُس کا۔ اللہ حافظ۔
اوکے بیٹا، تم بھی اپنا خیال رکھنا۔ اللہ حافظ۔
کال ختم ہو گئی۔
امن نے فون آہستہ سے میز پر رکھا، اور ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں۔
بخار کیسے ہو گیا اُسے؟ کل تو بالکل ٹھیک ٹھاک، ہنستی بولتی، مست تھی…
پھر خود ہی جیسے اپنے دل کو تسلی دینے لگا
پتہ نہیں، پاگل لڑکی ہے ایک دم خالی پریشان کرتی ہے مجھے..
++++++++++++
ایک ہلکی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کمرے میں اے سی کی مدھم آواز، پنکھے کی گھماؤ کی سرسراہٹ،
مگر امن کے دل میں شور تھا بےچینی کا، پریشانی کا، کسی نہ سمجھ آنے والی کمی کا۔
زاویار نے کمرے میں آتے ساتھ کہا
بھائی، یہ فائلز چیک کر لی؟
زاویار کچھ دیر پہلے ہی ایک ڈھیر ساری فائلز امن کے ڈیسک پر رکھ کر گیا تھا، ری چیکنگ کے لیے
امن نے بے دھیانی سے کہا کون سی فائلز؟
زاویار نے پلکیں جھپکیں۔ وہ فوراً سمجھ گیا، امن جسمانی طور پر آفیس میں ہے مگر دماغ کہیں اور بھٹک رہا ہے۔
زاویار نے نرمی سے کہا بھائی… کیا ہوا؟
امن نے سانس کھینچ کر کہا کچھ بھی نہیں…
اگر کوئی بات پریشان کر رہی ہے، تو صاف صاف بات کرو… بہتر محسوس کرو گے۔
یہ فائلز لے جاؤ… میرے سر میں درد ہے، بعد میں چیک کروں گا۔
یہ پہلی بار تھا کہ امن ، زاویار جیسے قریبی کو بھی کچھ بتانے سے گریزاں تھا۔
یا شاید…
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ دل کے اس طوفان کی وجہ کیا ہے۔
حیات؟ اُس کی خاموشی؟ اُس کی غیر موجودگی؟ یا حیات کہ بخار؟
زاویار نے کچھ نہیں کہا، بس فائلز اٹھا لیں اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
باہر آ کر نتاشا سے کہا
بھائی کے سر میں درد ہے، اُنہیں ڈسٹرب نہ کرنا۔
نتاشا نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کام پر لگا گئی
ایک ہفتہ گزر گیا…
ایک مکمل ہفتہ، جس میں حیات آفس نہ آئی۔
آفیس کا وہی معمول، وہی دیواریں، وہی گھڑیاں جو ہر پل کا حساب رکھتی تھیں – سوائے امن کے، جس کا وقت جیسے رک چکا تھا۔
امن آج بھی حسبِ معمول اپنے کیبن میں بیٹھا تھا، لیکن صرف بیٹھا تھا۔ ہاتھوں میں نہ کوئی فائل تھی، نہ آنکھوں میں کسی میٹنگ کا خاکہ… بس ایک خالی پن، ایک خاموشی، جو دل سے نکل کر ماحول پر چھا چکی تھی۔
ہر وقت کام میں مصروف رہنے والا امن، پچھلے ایک ہفتے سے کسی کام میں دل ہی نہیں لگا پا رہا تھا۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور زاویار اندر آیا۔۔۔
زاویار نے نرمی میں لپٹی جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا
بھائی… تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ اب تو بتا دو، میں اور خاموش نہیں رہوں گا۔۔۔۔
امن نے گہری سانس لیتے ہوئے، دھیمی آواز میں کہا
کچھ دیر پہلے میں نے حیات کو کال کی تھی… اُس کی امی نے کہا کہ بخار ابھی تک نہیں اترا۔
مجھے اُس کی فکر ہو رہی ہے… شاید لفٹ کے واقعے سے وہ ڈر گئی ہے۔ اور قصور میرا ہے… میں نے اُس کی کال اُٹھائی ہی نہیں تھی۔
زاویار فوراً جواب دیا
بھائی! تم بھی نا… اس میں تمہاری کیا غلطی؟
امن نے چہرہ موڑتے ہوئے کہا
اسی لیے تو کچھ نہیں بتایا تمہیں۔ تم سمجھتے نہیں ہو…
زاویار نے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا
اچھا بھائی، اب ایک کام کرو-اسے ملنے چلے جاؤ۔
امن نے چونک کر کہا
میں؟ کیسے چلا جاؤں؟
کیوں نہیں جا سکتے؟ وہ تمہاری اسسٹنٹ ہے، اور ایک ہفتے سے غیر حاضر ہے۔ تم بطور باس اُس کی خیریت پوچھنے جا سکتے ہو۔ بات ختم۔۔۔
ہاں… یہ تو اچھا آئیڈیا ہے۔ میں کھانے کے بعد اُس کے گھر چلا جاؤں گا۔
زاویار نے چٹکی لیتے ہوئے کہا
شاید اُسے دیکھنے کے بعد تمہارا دماغ بھی ٹھیک ہو جائے۔۔۔
امن نے مصنوعی غصے سے کہا
ہو گیا تمہارا؟ اب دفع ہو جاؤ۔۔۔
ہاں جا رہا ہوں، مجھے بہت کام ہے۔ تمہاری طرح فارغ نہیں بیٹھا۔۔۔
وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔
اور اپنے بھائی کو اب کچھ پل کے لیے ہلکا پھلکا کر گیا۔۔۔۔
+++++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
