taqdeer e azal

Taqdeer e azal Episode 7 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۷

حویلی کے وسیع ڈرائنگ روم میں ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ زرتاشہ صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی، چہرے پر ہمیشہ کی طرح نرمی اور چبھتی ہوئی طنز کا امتزاج۔ اسوان اُس کے سامنے کھڑا تھا—خاموش، مگر لہجے میں برف جیسی سختی تھی

میں شادی کر رہا ہوں…

زرتاشہ نے ایک لمحے کو اُسے دیکھا، پھر جیسے بےنیازی سے کندھے اُچکائے۔
میری بلا سے چار کرو، مجھے کیوں بتا رہے ہو؟

اسوان کی نظریں اس کے چہرے پر ٹھہریں، آواز پہلے سے بھی زیادہ مدھم مگر حکم دینے والی تھی۔
اسی لیے بتا رہا ہوں… کہ یہ بات زارا اور پری، دونوں تک نہیں جانی چاہیے۔

زرتاشہ نے فوراً سوال داغا۔
پری کا تو ٹھیک ہے… مگر زارا کو کیوں نہ بتاؤں؟

اسوان نے گہری سانس لی، لہجے میں ضبط کا زہر گھل گیا۔
جتنا کہا ہے، اتنا کرو۔ اضافی بات مت کرو۔ زارا جب واپس آئے گی، خود جان لے گی۔ ابھی اُسے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔

زرتاشہ کی آنکھوں میں تجسس چمکا۔
تمہیں پتا ہے نا… وہ تمہیں پسند کرتی ہے؟

ہاں، جانتا ہوں۔ اُس کا لہجہ اسپاٹ تھا

زرتاشہ کی آواز میں چبھن تھی۔
تو پھر اُسی سے شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ اُسے تو نہ تمہاری پہلی بیوی سے مسئلہ ہے، نہ پری سے۔ وہ تو پری کو سنبھال بھی سکتی ہے۔

میں اپنی پہلی غلطی دوبارہ نہیں دہرانا چاہتا۔

زرتاشہ کے لبوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔
میری زارا تمہاری پہلی بیوی جیسی نہیں ہے۔

اسوان کے چہرے پر سنجیدگی اتر آئی۔
لیکن وہ اُسی دُنیا، اُسی اسٹیٹس کی ہے۔ زارا پری کو سنبھال سکتی ہے، مگر زارا… کمپرومائز نہیں کر سکتی۔

زرتاشہ نے فوراً پلٹ کر کہا،
تو تم کون سا غریب ہو؟ اُسے کون سا تمہارے ساتھ کمپرومائز کرنا پڑے گا ؟

اسوان نے تلخی سے مسکرا کر کہا،
غریب یا امیر ہونے سے فرق نہیں پڑتا زرتاشہ، ہر رشتہ… کمپرومائز مانگتا ہے۔

زرتاشہ نے پیشانی پر بل ڈالے، کرسی سے ذرا آگے ہوتے ہوئے کہا —
کیسا کمپرومائز؟ تم تو وہ آدمی ہو جس کے پاس سب کچھ ہے۔ جس کی زندگی میں کسی کمی کی گنجائش ہی نہیں۔ پھر کس بات کا کمپرومائز؟

اسوان نے گہری سانس لی، لہجہ بھاری مگر پرسکون تھا —
محبت میں کمپرومائز… میں اُسے دنیا کی ہر وہ چیز لا کر دے سکتا ہوں جو وہ مانے، لیکن محبت نہیں دے سکتا۔

وہ ذرا رُکا، آنکھوں میں ایک اداس سا عکس ابھرا —
اب بتاؤ… کیا وہ مجھ سے شادی کر لے گی؟

زرتاشہ خاموش ہوگئی۔ اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

کچھ لمحوں بعد وہ بولی —
تو تم اب کس سے شادی کر رہے ہو؟
پھر ایک ہلکی سی طنز اُس کے لہجے میں گھل گئی —
کائنات سے؟

اسوان کی نظریں یکدم تیز ہوگئیں۔
استغفراللہ! وہ میری بہن ہے۔

زرتاشہ کے لبوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ ابھری —
سگی تو نہیں ناں…؟ اور جیسے تم نے آج کل اُس پر نظریں رکھی ہوئی ہیں، کچھ تو گڑبڑ ہے؟

اسوان کے چہرے پر ضبط کی ایک سیاہ لہر دوڑ گئی، اُس نے ٹھہر کر سرد لہجے میں کہا —
میں نے کہا تھا، کائنات کے معاملے سے دُور رہو… ورنہ پچھتاؤ گی، زرتاشہ۔

زرتاشہ نے تلخی سے ہونٹ سکیڑے، پھر بولی۔۔
واٹ ایور… تمہیں شادی مبارک، اور اُس لڑکی کو جس سے تم شادی کر رہے ہو درد مبارک۔ بیچاری بڑی بری قسمت لے کر پیدا ہوئی ہے۔

اسوان نے ایک سرد نظر اُس پر ڈالی، لب ہلکے سے ٹیڑھے کیے —
فی الحال تم اپنے اَرسَم پر نظر رکھو۔

زرتاشہ چونک کر آگے کو جھکی،
کیااااا؟؟؟
وہ یکدم سنجیدہ ہوگئی، جیسے کسی نے اُس کے سامنے بارود رکھ دیا ہو۔
تمہیں کیسے پتہ…؟

جیسے مجھے زارا کا پتہ ہے… ویسے ہی تمہارا بھی پتہ ہے… اور ویسے ہی اَرسَم کا بھی پتہ ہے۔

زرتاشہ کے چہرے کا رنگ یکدم اُڑ گیا۔
اُس نے حیرت اور بےیقینی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسوان کی طرف دیکھا —
یہ آدمی… آخر کیسے جان گیا۔۔؟؟

اَرسَم انٹرسٹڈ ہے اُس میں… شادی کرنے کا بھی بول چکا ہے۔

زرتاشہ کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔
کیا؟ سچ میں؟

اسوان نے سرد لہجے میں سر ہلایا —
ہاں، بس ابھی ہادی بیچ میں آیا ہوا ہے۔ انکل نے صاف کہہ دیا ہے، پہلے ہادی کی شادی ہوگی… پھر اَرسَم کی۔

زرتاشہ نے تیزی سے سانس اندر کھینچی، جیسے کسی نے اُس کے قدموں تلے زمین کھینچ لی ہو۔

اسوان نے جملہ کاٹ دیا، نظریں اُس پر گاڑ کر بولا —
تب تک تمہارے پاس وقت ہے، دیکھ لو۔۔۔۔ ورنہ ارسم کا رِشتہ آیا تو انکار کے کوئی وجہ نہیں ہوگی۔۔۔

کمرے میں لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی۔
زرتاشہ کے دماغ میں جیسے شور مچ گیا ہو — اَرسَم… کائنات… ہادی…
ہر لفظ اُس کے دل پر کسی ضرب کی طرح لگ رہا تھا۔

تم… تمہیں واقعی یقین ہے؟
اُس نے دھیمی آواز میں پوچھا۔

اسوان نے نرمی سے مسکرا کر جواب دیا —
میں کبھی غلط نہیں ہوتا، زرتاشہ۔
پھر آہستہ سے اٹھا، اور جاتے جاتے بس اتنا کہہ گیا —
کبھی کبھی وقت، محبت سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے… اسے ہاتھ سے نکلنے مت دینا۔

+++++++++++++++

پری کے جاتے ہی شاہ حویلی میں ایک نیا شور برپا ہو گیا۔ ہر طرف مصروفیت، چہل پہل اور تیاریاں تھیں۔
اسوان کی شادی کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ راضیہ بیگم خود پریشے کے گھر سے ہو کر آ چکی تھیں، اور اب پورا خاندان اسی ہفتے ہونے والی تقریب کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا۔

اسوان نے شادی کی تاریخ جلدی رکھوائی تھی۔ پری پندرہ دن کے لیے گئی تھی، اور انہی پندرہ دنوں میں شادی کی ساری تیاریاں مکمل کرنی تھیں۔ اور شادی بھی کرنی تھی
پیسے کی کوئی کمی تو تھی نہیں، اسوان کے پاس سب کچھ تھا، مگر اس نے یہ بھی نہیں چاہا کہ پریشے پر کسی قسم کا بوجھ پڑے۔

مایوں کی رسم شاہ حویلی میں ہی رکھی گئی تھی۔
اسوان کا نکاح بھی گھر ہی میں طے پایا تھا — سادگی مگر وقار کے ساتھ، اور پھر اگلے دن ولیمہ۔

+++++++++++++

گھر سنّاٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ دیواروں پر لگی گھڑیاں جیسے وقت گننے سے تھک چکی تھیں۔ دو دن بعد مایوں تھا، اور اسی تیاری میں رضیہ بیگم، عائشہ بیگم، زینب بیگم بازار نکلی تھیں۔ اور اب اس بڑے، خالی سے گھر میں صرف چند چہروں کی موجودگی رہ گئی تھی— زیدان ، زرتاشا، کائنات، مریم بیگم اور گھر کی ملازم کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا

کائنات اپنے کمرے میں موجود تھی۔۔ کتابوں میں گم تھی۔۔۔ کل پہلا پیپر تھا اور اس کے دماغ میں فارمولا کم، خوف زیادہ گھوم رہا تھا۔۔۔ گھر میں شادی بھی تھی اتنے كام بھی اور اوپر سے پیپرز بھی۔۔۔

یااللہ… بس کل کا پیپر اچھا ہوجائے۔ اس نے زیرِ لب دعا کی،
پھر خود ہی مسکرا دی—
اتنے کام، اتنے شور، اور اوپر سے پیپرز… کسی کو بتاؤں تو یقین نہ آئے کہ یہ سب ایک ساتھ چل رہا ہے۔۔۔

کھڑکی سے آتی ہلکی ہوا نے اس کے چہرے پر اڑتی لٹوں کو چھوا۔
کتاب کا صفحہ پلٹا،
اور اسی پل—
کمرے کے دروازے کا ہینڈل آہستگی سے گھوما…
کائنات کی نظریں فوراً دروازے کی سمت اُٹھ گئیں۔
دروازہ ہلکا سا چرچڑایا اور آہستہ سے کھل گیا۔
کمرے کی نیم تاریکی میں ایک اجنبی سا سایہ نمودار ہوا۔
کائنات کی انگلیاں کتاب کے صفحے پر جم گئیں، سانس گلے میں اٹک گئی۔

کون ہو تم؟ اس کی آواز خوف اور حیرت کے بیچ لرز گئی۔

وہ سایہ اب روشنی میں آیا—
ایک نوجوان، اجنبی چہرہ،

اور… تم میرے کمرے میں کیسے آئے؟
کائنات نے کانپتے لہجے میں  بیڈ سے اٹھتے کہا،

وہ لڑکا جیسے سن نہ سکا، آہستگی سے کمرے میں داخل ہوا۔
اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی،
پھر بنا اجازت بستر پر پھیل گیا—بےباکی میں ایک قدم ایسا جو کائنات کے خلاف تھا، ایک قدم جو اس کے وقار کو چھو رہا تھا۔

یہ کیا حرکت ہے۔۔۔؟؟ وہ چیخی۔۔۔
کائنات کا دل حلق تک آ گیا—
اُٹھو! میرے بستر سے اُٹھو۔۔۔ وہ چلائی،

وہ لڑکا دھیرے سے بولا،
چلّاؤ گی تو تمہارا ہی نقصان ہوگا…

کائنات کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
وہ پیچھے ہٹی، مگر آنکھوں سے خوف ظاہر ہونے نہیں دیا۔
نکل جاؤ میرے کمرے سے… ابھی۔۔ہو کون تُم
اُس نے قدرے بلند آواز میں کہا،
لیکن لڑکے کے لبوں پر ایک ہلکی سی، خاموش مسکراہٹ تیر گئی۔

چلّاؤ گی تو تمہارا ہی نقصان ہوگا…
اُس نے پھر وہی جملہ دہرایا،

اچانک اسے باہر سے ایک مانوس سی آواز سنائی دی…
کائنات… کائنات… باہر آؤ، میری بات سنو…
یہ زینب بیگم کی آواز تھی —

زینب بیگم کی آواز سنتے ہی کائنات تیزی سے چیخی،
مامی! مامی… اندر آئیں پلیز۔۔۔

اُس کے ایسے چیخنے پر لڑکا ہلکا سا مسکرایا۔۔۔
یہ تو اپنی موت کو خود دعوت دے رہی واؤ ۔۔۔کیا بہادر لڑکی ہے۔۔۔۔

زینب بیگم جیسے ہی کائنات کے کمرے میں داخل ہوئیں،
ارے ماری رہو تم اپنے کمرے میں، کائنات۔۔۔
وہ تھوڑے غصے اور تھکن کے انداز میں بولیں۔
امّاں اور بھابھی مارکیٹ سے آگئی ہیں، اتنا سارا سامان ہے، پہلے دوپہر کا کھانا بناؤ…
ان کی بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ نگاہ اچانک بستر کی سمت ٹھہر گئی۔
کائنات کے بستر پر بیٹھا لڑکا۔۔۔۔
زینب بیگم کی نگاہ پڑتے ہی ہڑبڑا کر کھڑا ہوگیا۔
زینب بیگم کے منہ سے بےساختہ نکلا،
ہائے اللّٰہ… یہ لڑکا کون ہے؟؟

میں نہیں جانتی، مامی! دیکھیں… دیکھیں یہ میرے کمرے میں کیسے آگیا۔۔۔

زینب بیگم کا سانس تیز ہوگیا، آنکھوں میں حیرت کے ساتھ غصہ بھی صاف جھلک رہا تھا۔
کیا مطلب تم نہیں جانتیں؟ ان کا لہجہ بلند ہوا،
پھر وہ تقریباً چیخ کر بولیں،
امّاں! بھابھی! ادھر آئیے—جلدی آئیے۔۔۔

ان کی چیخ پورے گھر میں گونجی۔
چند لمحوں بعد قدموں کی چاپ سنائی دی—
رضیہ بیگم، عائشہ بیگم اور باقی خواتین بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئیں۔

دروازہ پوری طرح کھلا،
اور کمرے کے اندر وہ منظر سب کے سامنے تھا—
کائنات ایک طرف سہمی کھڑی تھی،
اور دوسری طرف وہ اجنبی لڑکا، جو اب مکمل خوفزدہ، سر جھکائے کھڑا تھا۔

پھر رضیہ بیگم کی لرزتی ہوئی آواز ابھری
یا اللّٰہ… یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ لڑکا یہاں… کیسے؟

کائنات نے کانپتے ہوئے لبوں سے کہا،
میں… میں نہیں جانتی، نانی… بس دروازہ کھلا، اور یہ… یہ اندر آگیا…

عائشہ بیگم نے آگے بڑھ کر سخت لہجے میں کہا،
کیا نہیں جانتی؟ تمہارے کمرے میں بیٹھا تھا یہ لڑکا، کائنات! اور تم کہہ رہی ہو تم نہیں جانتیں؟

کائنات نے لرزتی آواز میں کہا، میں سچ کہہ رہی ہوں، مامی، میں اسے نہیں جانتی۔۔۔

مگر زینب بیگم نے بات کاٹ دی،
ہائے اللہ! کیا مطلب؟ ہم گھر پر نہیں تھے تو تم نے یہی دن چُنا؟
ان کی آواز غصے، دکھ اور بےیقینی کے ملے جلے احساس سے بھری تھی۔
سیدھا سیدھا لڑکا گھر بلا لیا، یہ سب کیا ہے؟

نہیں، مامی… خدا کی قسم، میں اسے نہیں جانتی۔۔۔۔
کائنات نے لرزتی آواز میں کہہ رہی تھی اور وہ لڑکا خاموش سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔

اچانک ایک زوردار تھپڑ کی آواز گونجی—
کائنات کا چہرہ ایک طرف جھٹکا کھا گیا۔
آنسو اس کے رخسار پر بہہ نکلے، مگر اس نے سر نہیں اُٹھایا۔

رضیہ بیگم کی آنکھوں میں غصہ، دکھ اور بےیقینی سب ایک ساتھ تھے۔
خُدا کی جھوٹی قسم کھاتی ہے تُو؟

کائنات کے ہونٹ ہلے، مگر الفاظ حلق میں پھنس گئے۔
نہیں… نانی، میں—

مگر آواز دب گئی۔
اب عائشہ بیگم نے مڑ کر کونے میں کھڑی مریم بیگم کی طرف دیکھا،
جو چپ چاپ سر جھکائے کھڑی تھیں۔

یہی تربیت دی ہے تم نے اپنی بیٹی کو؟
ان کے لہجے میں صرف الزام نہیں، تلخی بھی تھی—

مریم بیگم کے ہونٹ کانپے،
نہیں بھابھی… ایسا نہیں ہے، میری کائنات کبھی—

رضیہ بیگم نے ان کی بات کاٹی،
ہم نے تمہیں ہمیشہ عزت دی! آزادی دی!
کبھی آنے جانے سے نہیں روکا، کبھی شک نہیں کیا— کبھی پوچھا نہیں کہاں جاتی ہو کہاں سے آتی ہو۔۔
اور یہ صلہ دیا تم نے؟
یہی بھروسے کا انجام تھا؟

کائنات کے آنسو زمین پر گر رہے تھے،
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے،
دل میں بس ایک ہی صدا تھی —
اللہ، تو ہی جانتا ہے میں بےقصور ہوں…

کائنات نے نانی کی طرف دیکھ کر بار بار کہا ،
نانی، میں سچ کہہ رہی ہوں—میں نے کچھ نہیں کیا۔

پھر وہ مریم بیگم کی طرف لپکی، آنکھیں نم تھی
ماما، میں سچ کہہ رہی ہوں، میں اسے نہیں جانتی—

زرتاشہ، جو شروع سے خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی تھی، احتیاط سے بولی، آپ فون چیک کر لیں، سارا معاملہ واضح ہو جائے گا— کہ یہ سچ بول رہی ہے یا جھوٹ۔۔۔

زرتاشہ کے اتنے کہتے ہی عائشہ بیگم فوراً کائنات کا فون اٹھا لیں—جو کتابوں کے ساتھ بستر پر ہی پڑا تھا۔

اور جو نہیں ہونا تھا—وہ ہوا۔
واٹس ایپ کی لاگ میں اس لڑکے کے نام سے چند کالز نظر آئیں، بار بار۔ چیٹ کھولی تو پیغام شاید نہ تھا،
اور اس کے نمبر پر اسی لڑکے کی تصویر صاف لگی ہوئی تھی۔اور کانٹیکٹ میں وہ نمبر ‘جان’ کے نام سے محفوظ تھا…

عائشہ بیگم غصے سے بولی  ہمیں یہ دن دیکھنے سے اچھا مر جانا تھا—دیکھو مریم! اپنی بیٹی کا کارنامہ…
ان کے الفاظ کی تیز دھار کائنات کے سینے میں گھونپ گئی۔

رضیہ بیگم کی آنکھوں میں چھلک آیا غصہ اب قابو سے باہر تھا۔ انہوں نے کائنات کے گال پہ ایک تیز تھپڑ مارا—
کائنات کا سر جھکا، آنکھوں سے آنسو گرے، مگر اس نے پھر بھی زور سے انکار کیا، نانی، میں نے کچھ نہیں کیا! اللہ کی قسم۔۔۔

مریم بیگم اب تک خاموش کھڑی تھیں،
مگر جیسے ہی عائشہ بیگم نے فون ان کے سامنے کیا،
ان کے قدم ڈگمگا گئے۔
سکرین پر وہی نمبر، وہی تصویر، وہی “جان” نام…
اور اردگرد سب کے تنے ہوئے چہرے۔

ان کے لب کپکپائے، کائنات… یہ سب تُمہارے فون میں کیسے؟
ان کی آواز ٹوٹ رہی تھی،

امی، میری بات سنیں، میں نے کچھ نہیں کیا… کسی نے میرا فون چھیڑا ہے شاید…
مگر مریم بیگم کی نظریں اب خالی ہو گئی تھیں۔ بھلا اُس کے فون سے کوئی چھیڑ چھاڑ کیسے کر سکا تھا۔۔۔

کائنات نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھاما،
امی، میری بات پر یقین کریں، میں بے قصور ہوں۔۔۔

مگر مریم بیگم کے چہرے پر بےیقینی چھا گئی تھی۔
ان کے قدم خودبخود پیچھے ہٹے—
جیسے ماں اور بیٹی کے بیچ ایک دیوار اُٹھ گئی ہو،
جو صرف الزاموں سے نہیں،
بلکہ یقین کے ٹوٹنے سے بنی تھی۔

+++++++++++

اسوان ابھی رئوف صاحب کی خیریت پوچھنے اور ان کے لیے کچھ دوائیں دینے کے بعد پريشے کے گھر سے لوٹ رہا تھا پریشے حسبِ عادت چپ چاپ دروازے تک آئی۔ نگاہوں میں ایک ہلکی سی نرمی تھی،
پریشے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی،
اس سب کی ضرورت نہیں تھی ویسے… یہ سب میں بھی کر سکتی ہوں۔

اسوان نے رکتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا، اور ایک شرارتی سا تبسم لبوں پر آیا۔
مجھے معلوم ہے، آپ کو میرے پیار کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔

اور اس کی اس بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے گالوں پر سرخی پھیل گئی۔
لیکن اُس نے ظاہر نہیں ہونے دِیا۔۔۔  فوراً خود کو سنبھالا۔
چہرے پر ضبط کی ایک مصنوعی سنجیدگی طاری کی اور اکرٹتے ہوئے بولی
شرم تو آتی نہیں آپ کو، دو دن بعد میری مایوں ہے، اور آپ ابھی اپنے سسرال سے ہو کر جا رہے ہیں…

اسوان نے مسکراتے ہوئے کہا
اس میں شرمانے والی کون سی بات ہے… میں کون سا آج ہی دلہن اٹھا کے لے جا رہا ہوں۔

پریشے نے آنکھوں کو ذرا سا تنگ کر کے اُس کی طرف دیکھا،
یہ آج کل آپ کچھ زیادہ ہی شوخ نہیں ہوتے جا رہے؟

اسوان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ جیب میں ڈالے،
آپ کی مہربانی ہے، محترمہ…

پریشے نے فوراً ابرو چڑھا کر جواب دیا،
میری کیا مہربانی؟ اب سارا ملبہ مجھ پر نہ ڈالیں۔

اسوان نے کندھے اُچکائے،
اچھا… تو قصور آپ کا نہیں ہے؟

پریشے نے گردن اکڑا کر، مگر مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا،
بالکل نہیں ہے…

اسوان نے مسکراتے ہوئے ایک قدم اور قریب آ کر کہا،
اچھا تو پھر سارا قصور میرا ہے۔۔۔۔

پریشے نے نظریں چُرا کر ہنستے ہوئے جواب دیا،
اچھے ہسبنڈ بننے کی ابھی سے پریکٹس کر رہے ہیں کیا؟

اسوان نے اس کی بات پر مسکرا کر پھر آہستہ لہجے میں بولا،
نہیں… جب دل ہمارا، آپ بھی ہماری…
تو قصور بھی ہمارا ہی ہوا نا۔

یہ سن کر پریشے کے گالوں پر ہلکی سی لالی اُتر آئی، نظریں جھک گئیں مگر مسکراہٹ چہرے پر بکھر گئی۔

ہوا کے جھونکے نے اس کا دوپٹہ اُڑایا تو اسوان نے بے اختیار ہاتھ بڑھایا، مگر پھر رک گیا —
احترام کی لکیر کو پار کیے بغیر، صرف محبت کی چمک آنکھوں میں رہنے دی۔

+++++++++++++

کمرے میں سب کے لہجے بلند ہو چکے تھے۔ الزام، آنسو، چیخیں — سب ایک ساتھ گونج رہے تھے۔
اور اسی ہنگامے کے بیچ، کسی کو احساس ہی نہ ہوا کہ وہ لڑکا کب، کس سمت سے نکل گیا۔

رضیہ بیگم کے چہرے پر طوفان کے آثار تھے، وہ ضبط کھو بیٹھی تھیں۔
عائشہ بیگم اور زینب بیگم دونوں انہیں روکنے کی کوشش کر رہی تھیں،
مگر غصہ جیسے قابو سے باہر تھا۔

مریم بیگم کھونے میں خاموشی کھڑی تھی۔۔۔ اُن کا ایک دِل کہہ رہا تھا کائنات نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔اور ثبوت کہہ رہا تھا سارا قصور کائنات کا ہے۔۔۔

کائنات روتے ہوئے دہائیاں دے رہی تھی،
میں بےقصور ہوں، نانی… خدا کی قسم، میں نے کچھ نہیں کیا…

مگر رضیہ بیگم کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
ایک کے بعد ایک، وہ اسے تھپڑ پر تھپڑ مارتی جا رہی تھیں —
ایسے جیسے غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔

ایک دو نہیں، بلکہ اتنے تھپڑ پڑ چکے تھے کہ گنتی بھول گئی۔ اس کا چہرہ سُوج گیا،
لیکن رضیہ بیگم کا غصہ کسی آندھی کی طرح بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

بس بہت ہو گیا! اب یہ لڑکی اس گھر میں ایک لمحہ بھی نہیں رہے گی…..

ان کے الفاظ نے فضا کو چیر ڈالا۔
کائنات کے آنسو بے قابو ہو چکے تھے۔
نانی، میں بے قصور ہوں، خدا کے لیے میری بات تو سنیں…

مگر کسی کے کانوں تک اس کی آواز نہ پہنچی۔
عائشہ بیگم اور زینب بیگم کے چہروں پر غصے سے زیادہ شرمندگی تھی،
جیسے اپنی عزتوں کا بوجھ کائنات کے وجود پر ڈال دیا گیا ہو۔

رضیہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا،
ہم نے تم پر بھروسہ کیا، تمہیں آزادی دی، اور تم نے…
لفظ گلے میں رک گئے،
آنسو اور غصہ ایک ساتھ ان کی آنکھوں میں لرزنے لگے۔

کائنات زمین پر بیٹھ گئی،
دونوں ہاتھ جوڑ کر، سسکتے ہوئے بولی،
میں نے کچھ نہیں کیا… امی، نانی… میں نے کچھ نہیں کیا…

مگر جواب میں بس خاموشی تھی،
اور وہ خاموشی، ہر طمانچے سے زیادہ گہری تھی۔

اچانک رضیہ بیگم کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کائنات کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔

کائنات کے دل نے تیز دھڑکا محسوس کیا
رضیہ بیگم نے زوردار لہجے میں کہا،
تیرے کو ہم اس گھر میں اور برداشت بھی کر سکتے۔۔۔
وہ اُس کو گھسیٹے ہوئے روم سے باہر لے آئی تھی

ارے روکو، امّاں کو، وہ تو اُسے گھر سے ہی نکل رہی ہے…

زینب بیگم نے عائشہ بیگم کی بات سن کر سختی سے کہا،
چھوڑ دو — اچھا ہے، ایسی بد کردار لڑکی کی ہمارے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔۔

وہ دونوں الفاظ بولتے ہی رضیہ بیگم کے پیچھے لپک پڑیں، مریم بیگم تیزی سے کمرے سے باہر آئیں—ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، آنکھوں میں ماتم،
کیا اب وہ کائنات کو گھر سے نکل دیں گی۔۔ ان کے اندر کی ہلاکت کانپ رہی تھی،

زرتاشہ بھی خاموشی سے پیچھے چل پڑی—

لونچ میں داخل ہوتے ہی مریم بیگم تیزی سے آگے بڑھیں، سیدھا رضیہ بیگم کے سامنے آ کر رکیں۔
کائنات، جو ابھی بھی آنسو صاف کر رہی تھی، ایک لمحے کو ٹھٹک گئی۔
اس کے چہرے پر امید کی ایک ہلکی سی لہر دوڑی — شاید اب امی اس کے حق میں بولیں گی…
شاید اب کوئی مان جائے گا کہ وہ بےقصور ہے۔

مگر اگلے لمحے مریم بیگم کی آواز نے وہ امید جیسے کسی نے انگلیوں سے مسل دی ہو۔
چھوڑ دیں امّاں… بچی ہے… غلطی ہو گئی تو سنبھال لیں گے۔
میں وعدہ کرتی ہوں، میں خود اس پر نظر رکھوں گی۔
فون بھی لے لوں گی، کہیں آنے جانے نہیں دوں گی۔

کائنات کے لبوں پر جما ہوا وہ معمولی سا سانس رک گیا۔
اس نے پلکیں جھپکیں — ایک، دو، تین بار —
مگر آنکھوں کے سامنے دھندلاہٹ پھیلتی جا رہی تھی۔

امی بھی…؟
اس نے دل ہی دل میں سوچا،
امی کو بھی یقین نہیں آیا؟

وہ ماں کے لبوں کو دیکھ رہی تھی،
جو شاید اسے بچانے کی کوشش کر رہے تھے،
مگر ان الفاظ میں یقین نہیں —
شرمندگی تھی۔

عائشہ بیگم بھی فوراََ مریم کے ساتھ ہوتی بولی۔۔
ہاں امّاں، گھر سے نکالنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ابھی تو اس کے پیپر ہیں — پیپر ختم ہوتے ہی ہم جیسا ہی کہیں گے، اس کی جلدی سی شادی کر دیں گے۔

زینب بیگم بھی آگے ہو کر بولی۔۔ ہاں ہاں، میں دیکھ لوں گی کوئی شریف سا گھر—اس کے لیے۔۔۔ فوراََ ہم اسے نمٹا دیں گے۔۔۔

رضیہ بیگم نے سختی سے کہا،
ہاں جلدی دیکھو ، ہم اس کو اب اس گھر میں اور برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔

ماحول پھر سے تناؤ سے بھر گیا۔
ابھی کسی کے لب کھلنے ہی والے تھے کہ اوپر سے ایک تیز، خشک آواز آئی۔
اب یہ کیسا تماشہ لگا رکھا ہے گھر میں؟

سب رک گئے۔ سب کی نظر اوپر اُٹھتی۔۔
زیدان زینے کی ریلنگ پر کھڑا تھا —
ہمیشہ کی طرح چہرے پر سنجیدگی، آنکھوں میں وہی تپش۔

سکون نہیں لینے دیتا کوئی مُجھے اس گھر میں … وقت کیا ہوا ہے؟
کھانا بھیج دینا میرے کمرے میں۔

یہ کہہ کر وہ بے نیازی سے مڑ گیا۔
دروازہ بند ہونے کی آواز گونجی —
اور نیچے، پورے گھر خاموش ہوگیا۔۔۔

پھر رضیہ بیگم نے ایک گہری سانس بھری، پھر قدرے جھنجھلاہٹ سے بولیں،
اَرے جا… زیدان کو کھانا دے کر آ۔

عائشہ بیگم نے فوراً ملازما کو آواز دی،
جاؤ، زیدان کو کھانا دے کر آؤ۔

ملازمہ کچن سے نکلی آئی اور فوراً سر نفی میں ہلانے لگی،
میں… میں زیدان بابا کے کمرے میں نہیں جا سکتی بی بی جی…

زینب بیگم نے اس کی طرف سخت نظروں سے دیکھا، تمہیں کس لیے رکھا ہے؟ کام کے لیے نا؟ شرافت سے جا کر زیدان کو کھانا دے آؤ۔

ملازمہ نے نظریں جھکا لیں،
آواز بمشکل نکلی،
میری جان مُجھے بہت پیاری ہے بی بی جی…
آپ چاہیں تو نوکری سے نکال دیں،
لیکن میں زیدان بابا کے کمرے میں نہیں جاؤں گی۔

رضیہ بیگم نے بےچینی سے آہ بھری،
اے عائشہ، تو جا۔

عائشہ نے جھجھکتے ہوئے کہا،
امّاں، میں نہیں جا سکتی، کچھ دن پہلے میں جو اس کے کمرے میں گئی تھی تو اس کا پرفیوم ٹوٹ گیا—اور تب سے وہ مجھ سے ناراض ہے۔

رضیہ بیگم نے مایوسی سے سر ہلایا،
پھر نظریں زینب پر ڈالیں،
زینب، تو جا۔۔۔

زینب نے سرد آنکھوں سے جواب دیا،
امّاں! مجھے بھی مرنے کا شوق نہیں ہے۔
اس کے مزاج کا تو سب کو پتہ ہے،
میں نہیں جا رہی۔

رضیہ بیگم کے ماتھے کی شکنیں گہری ہو گئیں۔
انہوں نے زرتاشہ کی طرف دیکھا۔۔
زرتاشہ نے نظریں بچاتے ہوئے
چپ چاپ اٹھ کر اپنے کمرے کا رخ کیا۔
اس کے قدموں کی چاپ جیسے خاموش اعتراف تھی
میں بھی نہیں جا رہی۔

ٹھیک ہے، ہم خود ہی چلے جاتے ہیں، رضیہ بیگم نے کہا اور ملازمہ سے کھانے سے سجی ٹرے منگوائی۔۔۔

تھوڑی دیر بعد ملازمہ نے کھانے سے سجی ٹرے لے کر حاضر ہوئی۔۔۔ اور کھانے کی ٹرے رضیہ بیگم تھامتی
آگے بڑھ گئی —
لیکن جیسے ہی زینے کی طرف پہنچی روک گئی۔۔۔
زیدان کا کمرہ اوپر تھا اور ان کے پاؤں کا درد تھا۔۔۔
زینہ چڑھنا اب اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔۔

رضیہ بیگم نے آہ بھری اور سب کی طرف پلٹ کر پیچھے دیکھا —
سب ان ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

اور پھر،
سب کی نظریں ایک سمت جا ٹکیں۔

کائنات۔
واہی تو تھی…
جو ہر بار اُس کے کمرے میں جا کر زخمی لوٹتی،
مگر پھر بھی —
اُسی در کی دہلیز پار کرنے کی ہمت کر لیتی تھی۔

رضیہ بیگم نے ایک لمحے کو اس کے چہرے کو دیکھا،
پھر باقی سب کی نگاہوں کا مطلب سمجھ گئیں۔
سب کے چہروں پر ایک ہی اشارہ تھا —
یہی جائے۔۔۔۔ یہی جا سکتی ہے۔۔۔

کائنات خاموش نظریں نیچے کیے کھڑی تھی۔۔۔
آنسو پونچھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
مگر جب رضیہ بیگم نے اس کی طرف دیکھا،
تو وہ نظریں جیسے برف بن گئیں۔

اَے جا…
آواز میں تھکن بھی تھی، حکم بھی۔
زیدان کو کھانا دے کر آ۔

کائنات نے سر جھکا لیا۔
نہ اُس نے کچھ کہا،
نہ کوئی عذر پیش کیا۔

نہ یہ کہا کہ مجھے بھی ڈر لگتا ہے زیدان کے کمرے میں جانے سے۔۔۔
نہ یہ کہا کہ اُسے بھی اپنی جان سب کی طرح بہت پیاری ہے۔۔۔

مگر نہیں۔
اُس نے کچھ نہیں کہا۔
بس ایک خاموش سی ہچکی روکی،
اور آگے بڑھ کر رضیہ بیگم سے ٹرے لیا اور آگے زینو کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

+++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *