انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۱۱
دھوپ میں بھیگی ہوئی دوپہر… اور وہ دروازے پر کھڑا تھا، ہاتھ میں چاکلیٹس کا باکس اور دوسرا ہاتھ تھامے گلابوں کا ایک خوبصورت گلدستہ — جیسے جذبات کو رنگوں میں لپیٹ کر لایا ہو۔
ڈور بیل بجی …
دروازہ کھلا ، اور سامنے حیات۔
اور یہ آیا دِل کو قرار ۔۔۔
حیات نے ہلکی سی چونک کے ساتھ کہا
آپ؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں…؟
امن نے مسکراتے ہوئے کہا
یہیں دروازے پر کھڑے ہو کے بتاؤں؟
حیات تھوڑا سا سائیڈ ہوئی، اور امن اندر آگیا۔
امن نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
گھر پر کوئی نہیں؟
حیات نے آہستہ سے کہا
نہیں… ماما کچھ ضروری سامان لینے گئی ہیں۔
تو تم گھر پر اکیلی ہو؟ امن کو اُس کی فکر ہوئی
نہیں، بوا ہیں میرے ساتھ۔
امن نے چہرے پر فکرمندی لیے کہا
طبیعت کیسی ہے اب؟
حیات نے سیدھا سوال کیا
آپ یہ پوچھنے آئے ہیں؟
امن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
ہاں، اور کس لیے آتا؟
حیات نے دھیمی آواز میں کہا
ٹھیک ہوں۔
لگ تو نہیں رہا…
پر میں ہوں ٹھیک۔۔۔
ڈھیٹ۔۔ دِل ہی دل میں سوچا پھر امن وہ چیزیں آگے پڑھایا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔۔۔
یہ لو… تمہارے لیے ہیں۔
حیات نے چاکلیٹس دیکھتے ہی خوش ہوئی اور خوشی سے کہا
Thank you۔۔۔
وہ خوشی جو الفاظ سے زیادہ آنکھوں سے چھلک رہی تھی، امن نے وہ سب محسوس کیا…
اتنی طبیعت خراب تھی، تو پھر ہسپتال کیوں نہیں گئی؟
اب بہتر ہوں میں…
امن نے آنکھیں تنگ کر کے، مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا
مجھے دیکھتے ہی ٹھیک ہو گئیں؟
ہاں… آپ کو دیکھ کر بخار ڈر کے بھاگ گیا۔۔
اُس نے مصنوعی خفکی سے کہا
Oh my God۔۔
اب تو مجھے اسپتال جانا چاہیے۔۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
کیوں؟ حیات نے حیرت سے پوچھا۔۔
تاکہ ہسپتال کی ساری بیماریاں بھی مجھے دیکھ کر ڈر کے بھاگ جائیں۔۔۔ امن نے ہستے ہوئے کہا
حیات نے مصنوعی ناراضی کے ساتھ کہا
ہوگیا؟ اب جائیں۔۔۔
امن نے ابرو اٹھا کر کہا
گھر آئے مہمان سے ایسا رویہ؟
حیات نے بغیر مسکراہٹ کے، سرد لہجے میں کہا
اگر آپ یہ سوچ کر آئے ہیں کہ میں آپ کی خاطر مدارت کروں گی، تو یہ آپ کی بھول ہے۔ میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی… سو جیسے آئے ہیں ویسے واپس چلے جائیں۔
امن نے سخت لہجے میں کہا
تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ… بُری ثابت ہو رہی ہو۔
حیات نے دو ٹوک لہجے میں کہا
تو؟
امن نے جھنجھلا کر کہا
بیمار ہو گئی ہو، لیکن زبان ویسے ہی پٹر پٹر چل رہی ہے۔۔
تو کیا آپ یہاں میری بے عزتی کرنے آئے ہیں؟
نہیں، تمہاری خیریت پوچھنے آیا تھا۔
حیات نے چہرہ پھیرتے ہوئے کہا
پوچھ لیا؟
ہاں…
تو جائیں۔
امن نے اب حیات کے اوپر نظریں جمائے کہا
ایسا لگ رہا ہے جیسے تم مجھے یہاں سے بھگانے پر تُلی ہوئی ہو۔
حیات ند آنکھیں تنگ کر کے کہا
ہاں، کیونکہ میرا بوائے فرینڈ آنے والا ہے۔
امن نے چونک کر کہا
واقعی؟
ہاں۔ آپ کو کیا لگتا ہے ؟ میرا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہو سکتا؟ اکڑ کر کہا
اتنے میں دور بیل دوبارہ بجی—
لو، آ گیا تمہارا بوائے فرینڈ…
امن نے ہلکی مُسکراہٹ کے ساتھ کہا
حیات نے بوا کو آواز لگائی۔۔۔
بُوا! دیکھیں، کوئی آیا ہے۔
بُوا کچن سے نکلتی دروازہ کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
دروازہ کھلا ۔۔۔
زینب بیگم ہاتھوں میں سودا لیے اندر داخل ہوئی اور جیسے ہی صوفے پر بیٹھے امن پر نظر پڑی پل بھر کو حیران ہوئی
ارے بیٹا، تم؟
امن نے فوراً مؤدب انداز میں اٹھ کر کہا
السلام علیکم آنٹی۔
زینب بیگم مسکراتے ہوئے کہا
وعلیکم السلام بیٹا، بیٹھو بیٹھو،
وہ میں حیات کی خیریت پوچھنے آیا تھا…
زینب بیگم نے محبت بھری نگاہ حیات پر ڈال کر کہا
دیکھو بیٹا، کتنی کمزور ہوگئی ہے… دوا بھی وقت پر نہیں کھاتی، کہتی ہے ٹھیک ہوں… مگر چہرہ سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ایک ہفتے سے بیمار پڑی ہے۔۔
حیات نے زینب بیگم کی بات کاٹتے ہوئے، ہلکے غصے سے کہا
میں ٹھیک ہو گئی ہوں۔
اوہ، پھر تو میں چاکلیٹ غلط لے آیا… واپس لے جاتا ہوں۔ امن نے کہا
نہیں ۔۔۔ کیوں۔۔۔ حیات نے خفکی سے امن کو گھورا۔۔
ٹھیک ہے، نہیں لے کر جاتا… لیکن تم وعدہ کرو، دو دن میں بالکل ٹھیک ہو کر واپس آؤ گی آفس۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
حیات نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا
ایک ہفتہ چُھٹی کیا کر لی تو موت آنے لگی آپکو ؟ ایسا لگتا ہے آفیس کا کام تو میرے بغیر ہوگا ہی نہیں۔۔۔ آجاؤں گی باس بس خوش؟
زینب بیگم نے نرمی سے حیات کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
حیات! ایسے بات نہیں کرتے بیٹا،۔
حیات نے سخت لہجے میں، نظریں چراتے ہوئے کہا
ماما، آپ کو نہیں پتا یہ کیا چیز ہیں۔ ان سے اگر ایسے بات نہ کی جائے تو ان کو کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی۔
امن ند آہستگی سے اٹھتے ہوئے کہا
اچھا آنٹی، اب میں چلتا ہوں۔
ارے ابھی تو آئے ہو بیٹا، بیٹھو، کھانا کھا کر جانا۔ زینب بیگم نے فوراََ امن کو ٹوکا
کھانا کھا کر آئے ہیں یہ، ماما۔ ٹائم نہیں دیکھ رہیں آپ؟ تین بج رہے ہیں۔۔۔ حیات نے ناگواری سے کہا
زینب بیگم کچھ دیر اُسے حیرت سے دیکھتی رہیں، پھر الجھن سے بولیں،
کیا مطلب؟ اُن کو کیا پتہ تھا امن کے شیڈول کا ۔۔
کچھ نہیں آنٹی۔ میں کھانا کھا چکا ہوں اور اب مجھے آفس بھی جانا ہے، تو رک نہیں سکتا۔
امن نے دھیمے لہجے میں، مگر واضح انداز میں کہا۔
زینب بیگم نے آہستہ سے سر ہلایا،
اچھا بیٹا، جیسی تمہاری مرضی، خیریت سے جانا اور اپنا خیال رکھنا۔
جی، اللہ حافظ۔ آپ لوگ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔ اور تم…
(وہ اب حیات کی طرف متوجہ ہوا، آنکھوں میں ایک ٹھہری ہوئی سنجیدگی تھی)
تمہارے پاس بس دو دن ہیں… بس دو دن۔۔۔
حیات نے رخ موڑتے ہوئے، قدرے طنزیہ انداز میں کہا،
ہاں ہاں، پتہ ہے، بھری یا بھولاکر نہیں ہوں میں۔۔۔۔
زینب بیگم نے الجھن کے ساتھ امن کی طرف دیکھا اور دھیرے سے کہا،
ارے بیٹا، نظرانداز کرو اِسے۔ جب سے بیمار ہوئی ہے تب سے ایسی چڑچڑی انگار بنی گھوم رہی ہے۔
امن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،
ارے کوئی بات نہیں آنٹی، اب میں چلتا ہوں۔ مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔
یہ کہہ کر وہ دروازے کی جانب بڑھا، اور اگلے ہی لمحے باہر نکل گیا…
++++++++++++
وہ کار میں بیٹھا، ایک لمحے کو شیشے سے باہر جھانکا۔ دوپہر کی دھوپ سڑک پر چمک رہی تھی، جیسے پورا شہر آگ کی چادر اوڑھے بیٹھا ہو۔
ایئرکنڈیشنڈ کار کے اندر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، مگر دل کے کسی کونے میں عجیب سی خلش باقی تھی۔
کار آہستہ آہستہ آفیس کی سمت رواں ہوئی ہی تھی کہ اچانک اُس کی نظر سڑک کے کنارے بیٹھے ایک فقیر پر پڑی۔
دھول میں اٹے کپڑے، چہرے پر تھکن کی لکیریں، اور آنکھوں میں عجیب سا سکون — جیسے وہ دنیا سے بے نیاز ہو۔
دل نے ایک دم سے جھٹکا کھایا۔
کار کا بریک دبایا، گاڑی آہستہ سے سڑک کے کنارے رکی۔
وہ چند لمحے خاموش بیٹھا رہا، پھر جیب سے بٹوا نکالا۔
دروازہ کھولا، باہر نکلا، تیز دھوپ اس کے چہرے سے ٹکرائی۔
فقیر کے قریب پہنچا، چند نوٹ اُس کے ہاتھ میں رکھ دیے۔
فقیر نے سر اٹھا کر دیکھا، آنکھوں میں شکرگزاری کی چمک تھی، لبوں پر دعا کے ہلکے سے الفاظ —
اللہ آسانی دے بیٹا..
وہ جانے ہی والا تھا، مگر دل نے جیسے پکارا ہو۔
ایک لمحے کو رکا، جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ اور نوٹ نکالے۔
قدم بڑھائے، اور وہی فقیر کے سامنے دوبارہ رکا۔
اس بار چہرے پر ایک عجیب سی نرمی تھی،
نوٹ فقیر کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں کہا
یہ صدقہ ہے — حیات کے نام پر… حیات کی صحت کے لیے…
فقیر نے دوبارہ دعا کی۔۔۔۔ وہ دوبارہ مسکرایا۔۔۔
پھر پلٹ کر خاموشی سے کار میں بیٹھ گیا۔
انجن کی آواز پھر سے گونجی، مگر اس بار دل میں ایک سکون سا اُتر آیا۔
باہر دھوپ ویسی ہی تیز تھی، مگر اُس کے اندر جیسے روشنی کچھ نرم ہو گئی تھی۔
++++++++++++
زارا نے چہرے پر فکر کے آثار لیے مایا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے، حیات نظر نہیں آئی… خیریت تو ہے؟ کہیں چھوڑ تو نہیں دیا اس نے؟
مایا نے تیز لہجے میں، ذرا طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا
چھوڑا نہیں ہوگا… باس نے نکالا ہوگا… جیسی اُس کی حرکتیں تھیں…
زارا نے نرمی سے سر ہلاتے ہوئے کہا
ہاں… ہو سکتا ہے۔
اتنے میں آفیس کے دروازے سے نتاشا اندر داخل ہوتی ہے، وہ ہمیشہ کی طرح اعتماد سے چلتی ہوئی، فائل ہاتھ میں لیے، نگاہیں سیدھی۔
نتاشا نے مسکراتے ہوئے کہا
گڈ مارننگ گرلز۔
زارا نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا
گڈ مارننگ۔
مایا نے بےتابی سے پوچھی
باس نے حیات کو نکال دیا ہے کیا؟
نتاشا نے بےنیازی سے، جیسے کوئی عام بات ہو
ہاں، اُس کی حرکتوں کی وجہ سے نکال دیا… آفیس کا نظام برباد کر رہی تھی۔
زارا نے حیرانی سے کہا
سچ میں؟
نتاشا نے سرد لہجے میں کہا
ہاں۔
مایا نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا
اچھا ہی ہوا… ویسے بھی بہت اِتراتی تھی۔
نتاشا نے سر ہلا کر کہا
ہمم۔
زارا نے ذمہ داری کا احساس لیے کہا
ٹھیک ہے، آپ جائیے… آفیس کے بہت سے کام پڑے ہیں۔
نتاشا نے تلخی سے کہا
ہاں، جا رہی ہوں، تم مجھے زیادہ نہ سکھاؤ… مجھے پتہ ہے میں نے کیا کرنا ہے، حیات کی طرح پاگل نہیں ہوں جو کوئی چیز مینیج نہ کر سکوں۔
زارا نے آہستہ سے، جیسے کچھ یاد آ گیا ہو
مینیج تو وہ بھی کر ہی لیتی تھی…
نتاشا نے اب چہرہ سخت، لہجہ کڑوا کہا
تم زیادہ اُس کی سائیڈ نہ لو۔۔۔
مایا نے زارا کی طرف دیکھ کر کہا
ارے چھوڑو اِسے، یہ تو پاگل ہے۔
نتاشا نے قدم تیز کرتے ہوئے اپنے کیبن کی طرف جاتے ہوئے، پیچھے پلٹ کر کہا
تھی نہیں، حیات کے ساتھ رہ رہ کر ہو گئی ہے…
صبح کے 8:53 ہو چکے تھے…
آفیس میں آمد کا وقت تقریباً ختم ہونے کو تھا۔ صرف دو منٹ باقی تھے کہ اچانک…
حیات نے ہوا کی طرح آندھی بنی، کاؤنٹر پر آ کھڑی ہوئی۔۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی الگ۔۔۔ گہرے عنابی رنگ کی لمبی فراک، جس پر سیاہ جالی دار کپڑے کی تہہ چڑھی ہوئی تھی، نیم شفاف آستینیں بازوؤں کو نرمی سے ڈھانپے ہوئے تھیں، اور پاؤں میں باریک پٹیوں والی سیاہ ہیلز تھیں۔ اور اس کے لمبے گھنے بال کندھوں پر پھیلے ہوئے تھے اور بالوں کے ایک طرف دو پھولوں والا کلپ لگا تھا۔ ڈریسنگ آج بھی اُس کی ہمیشہ کی طرح سادہ تھی، مگر کسی عام آفس ورکر جیسی نہیں تھی
ہائے ہائے! کیسی ہو تم لوگ؟
چہرے پر وہی پرانی شوخی، لبوں پر چمکتی ہوئی مسکراہٹ۔۔
زارا نے چونک کر، آنکھیں پھیل گئیں
تُــم…؟
وہ دونوں حیات کو اتنے دنوں بعد یوں اچانک دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں
مایا نے تیور چڑھا کر، نتاشا کی باتیں یاد کرتے ہوئے کہا
اب تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟
حیات نے مسکرا کر، کندھے اچکاتے ہوئے کہا
وہی، جو تم لوگ کرنے آتی ہو…
مایا نے اب الجھ کر کہا
کیا مطلب؟
اس سے پہلے کہ کوئی بات آگے بڑھتی، سامنے سے زاویار اور امن آفس میں داخل ہو رہے تھے…
زاویار نے بیزاری سے کہا
لو بھائی! ہمارا اچھا وقت اتنی جلدی ختم ہو گیا کیا؟
امن آنکھوں میں چمک لیے، ہنستے ہوئے کہا
ہاں، لگتا تو یہی ہے۔
اب حیات کی نظریں دونوں پر مرکوز ہو گئیں، خاص طور پر امن پر… اور اُس کی آنکھوں میں حیرت نہیں، غصّہ تھا …
زاویار نے حیات کی طرف دیکھ کر کہا
ہنہ… آئی بڑی، گھور تو ایسے رہی ہے جیسے ابھی نوچ کھائے گی۔
امن نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں زاویار، کھا بھی سکتی ہے… ڈائن جو ٹھہری۔
حیات نے ناک چڑھا کر، برا سا منہ بنا کر کہا
ہنہ… بھاڑ میں جاؤ، دونوں۔۔۔
یہ کہہ کر وہ غصے سے منہ موڑ کر سیدھی اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی
زارا اور مایا نے پہلی بار امن اور زاویار کو آفیس میں اس طرح ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ ورنہ یہ دونوں تو ہمیشہ سنجیدہ یا غصے میں ہی نظر آتے تھے۔
اور زاویار… تو تھا بھی ٹھنڈا، سخت، پتھر دل انسان۔
امن بھی زیادہ غصہ نہیں کرتا تھا، لیکن اِس طرح ہنسنا، کھلکھلا کر خوش ہونا… کبھی نہیں دیکھا تھا۔
یہ سب کیا تھا؟
حیات کو دیکھ کر امن کی آنکھوں میں جو چمک آئی تھی، شاید ہی کبھی کسی اور لمحے میں آئی ہو۔
اور جہاں امن خوش ہو، وہاں زاویار کی خوشی بھی خود بخود شامل ہو جاتی تھی
لیکن امن کی وہ خوشی… وہ لمحاتی چمک…
کوئی خاص بات تھی، کچھ خاص جذبات تھے۔
زارا نے ہلکی سی کپکپاہٹ لیے، جیسے اب ہوش میں آئی ہو
گ… گُڈ مارننگ باس۔۔ امن کو دیکھ کر فوراً ادب سے بولی
امن مختصر سا جواب دیا چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا
ہمم، گڈ مارننگ۔
یہ کہہ کر وہ خاموشی سے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا
زاویار کاؤنٹر کے پاس رکتے ہوئے، سرد لہجے میں کہا
آج سارے کینیڈیٹس کی فائلز، جن کا انٹرویو لینا ہے، مجھے فوراً فارورڈ کرو۔
زارا نے سر ہلا کر کہا
جی، میں ابھی بھیجتی ہوں۔
زاویار نے اب نظریں مایا پر جما کر، طنز سے کہا
اس نالائق سے بھی کچھ کام کروالیا کرو…
(زارا کو دیکھتے ہوئے، لیکن جملہ مایا کے لیے تھا )
زاویار نے اب مایا کو گھورتے ہوئے کہا
بکواس کرنے میں تو بہت آگے ہے یہ، لیکن کام کا؟ کچھ نہیں آتا۔ میں خبردار کر رہا ہوں تمہیں…
مایا نے سَر جھکائے، شرمندہ لہجے میں کہا
سوری سر… آئندہ نہیں ہوگا۔
زاویار نے سختی سے، ایک ایک لفظ چبا کر
ایک بات اچھے سے سمجھ لو — یہ ‘سوری’ مجھ پر کوئی اثر نہیں کرتا۔ یہ آخری موقع ہے۔ آئندہ اگر ایسا ہوا، تو اپنے لیے کوئی دوسری نوکری ڈھونڈ لینا۔۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ غصے میں اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا
مایا نے دل ہی دل میں بڑبڑائی، چہرے پر غصہ اور بے بسی تھا
پتا نہیں اِن کو کیا مسئلہ ہے مجھ سے! جب دیکھو تب جھاڑتے رہتے ہیں…
زارا اُسے دیکھا لیکن خاموش رہی، کیونکہ وہ جانتی تھی، زاویار کا مزاج۔۔۔۔ کبھی جو اُس کے لہجے میں نرمی دیکھی ہو ان لوگوں نے کسی کے لیے ۔۔۔
+++++++++++++
کیبن کے اندر فضا میں ہلکی سی سنجیدگی تھیں۔ حیات ایک فائل میں مکمل طور پر مگن تھی، جب اچانک ایک کھنکارتی ہوئی آواز نے اُسے چونکا دیا۔
آہم آہم…
حیات نے نظریں جھکائے، قلم چلتے ہوئے کہا
کیا ہے؟
آواز میں مصروفیت کی جھلک تھی، جیسے وقت ضائع کرنے کا وقت نہیں۔۔۔
امن نے اب قدرے ٹھہر کر کہا
میں نے آپ سے کچھ کہا تھا۔
حیات نے اب فائل بند کرتے ہوئے، نگاہیں امن پر مرکوز کرتے ہوئے کہا
کیا کہا تھا؟
امن نے آہستہ سے کہا
یاد کرو…
حیات نے سیدھا، طنز بھرا انداز کہا
نہیں، میرے پاس تو دماغ ہی نہیں ہے، تو یاد کہاں سے آئے گا؟ آپ ہی بتا دیں۔۔۔
ہمم… بات تو صحیح ہے…
امن کا کہنا تھا یہ کے حیات امن کو گھورنے لگی
ایسے مت گھور میں تُمہارا باس ہوں تُم میری باس نہیں ہو۔۔۔
حیات نے اب بھنویں چڑھائے، تیکھے انداز میں کہا
زیادہ نہ مُجھے باس ہونے کا بھرم دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔!
امن دِل ہی دِل میں کہا،
عجیب لڑکی ہے… باس ہوں تو ذرا رعب تو ڈالوں گا ہی…
حیات نے تُرش لہجے میں کہا
کام بولیں ورنہ میں جا رہی ہوں۔ میرے پاس اور بھی کام ہیں۔ آپ کی طرح فارغ نہیں بیٹھی۔۔۔
میں نے آپ سے کہا تھا کہ مسٹر حاکم عبداللہ کے ساتھ میٹنگ سیٹ کروانی ہے۔
حیات نے اب الجھ کر کہا
کب کہا تھا؟
جب آپ آخری بار آفیس آئی تھیں تب…
حیات نے چند لمحے سوچ کر کہا
ہُہ؟ اچھا، مجھے یاد نہیں… لیکن ابھی کروا دیتی ہوں۔ کال کر لیتی ہوں۔
ہمم… کرواؤ۔
حیات نے اکتاہٹ سے کہا
ہاں، جا رہی ہوں۔
یہ کہہ کر وہ اپنے مخصوص انداز اچھلتی ہوئی کیبن سے باہر نکل گئی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد، وہ کاؤنٹر پر آ کر فون ملایا اور بڑے اعتماد سے مسٹر حاکم عبداللہ کے ساتھ امن کی 11 بجے کی میٹنگ فکس کروا دیا۔۔۔
10:35 AM —
حیات دروازے پر دستک دیے بغیر کیبن میں داخل ہوتے ہوئے کہا
او ہیلو مسٹر…
امن لپٹوپ پر نظریں جمائے، انگلیاں کی بورڈ پر مصروف تھی
بولو…
میٹنگ سیٹ کروا دی تھی میں نے، اور گیارہ بجے ہے۔ بس پندرہ منٹ رہ گئے ہیں، جلدی سے اپنا کام ختم کریں اور تیار ہو جائیں۔
امن نے آنکھیں اسکرین سے ہٹائے بغیر کہا
اچھا… تم بھی تیار ہو جاؤ۔ ساری فائلیں لے لو۔
حیات نے چونک کر، اب سیدھا سامنے آ کر کھڑی ہوئی
ہہہہہہہہہ؟ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟
امن کی نظرے اب اُٹھتی ، لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ساتھ کہا
کام سنائی نہیں دیتا کیا؟
حیات نے بغیر جھجک کہا
نہیں، آپ کو سمجھ کم آتی ہے۔۔۔
امن نے اب کی بار مکمل توجہ سے، لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا
میں کہہ رہا ہوں، تم بھی تیار ہو جاؤ۔
حیات نے سیدھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
تو میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں کہ میں کیوں تیار ہوں؟ میٹنگ آپ کی ہے، آپ تیار ہوں۔ میں تو بس فائلز دے دوں گی آپ کو۔۔۔
تو تم بھی چلو گی میرے ساتھ۔ امن نے سنجیدگی سے کہا
کیوں بھئی؟
کیونکہ تم میری اسسٹنٹ ہو۔
ہاں تو اسسٹنٹ ہوں نا، باس تو نہیں ہوں۔۔۔
امن نے زچ ہو کر کہا
کیا پاگل ہو تم؟ باس کے ساتھ اسسٹنٹ جاتے ہیں، یہی اصول ہے۔
حیات نے ہونٹ سکوڑ کر، چہرہ بناتے ہوئے کہا
تو زاویار کو لے جائیں۔۔۔
نہیں، آپ ہی جائیں گی۔
حیات نے بازو باندھ کر کہا
کیوں؟ اب کیا مسئلہ ہے؟
زاویار کو آج سارے نئے کینیڈیٹس کا انٹرویو لینا ہے، وہ نہیں جا سکتا۔ اور نتاشا؟ جب میں چلا جاؤں گا اور زاویار بھی نہیں ہوگا، تو کوئی تو ہونا چاہیے جو آفیس سنبھالے۔
حیات نے فوراً مشورہ دیا
تو آپ نتاشا کو لے جائیں، میں آفیس سنبھال لوں گی۔
بالکل نہیں۔ مجھے اپنا آفیس چڑیا گھر نہیں بنانا۔
حیات نے آنکھیں سکیڑ کر کہا
کیا مطلب؟
کچھ نہیں۔ بس اتنا سمجھ لو کہ تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔
حیات نے چیخا
لیکن بھئــــــــــــــــی… مجھے نہیں جانا….
امن نے چہرے پر مکمل اختیار، لہجہ فیصلہ کن انداز میں کہا
لیکن تمہیں جانا پڑے گا۔
Unfortunately…
Be ready for the meeting.
یہ کہتے ہی امن ایک نظر حیات پر ڈالا اور کیبن سے باہر نکل گیا جبکہ حیات پیچھے کھڑی، آنکھیں پھاڑے، لب بھینچے، خود سے بڑبڑائی
وحیات پارانی اللّٰہ پوچھے گا آپ سے۔۔۔۔
+++++++++++++++
چلیں؟
حیات نے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی، ہاتھ میں کچھ اہم فائلز لیے کہا
ہاں، چلیں۔
امن نے پچھلی کرسی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا
میرا کوٹ؟
حیات نے آرام سے انگلی سے اشارہ کیا۔۔
وہ رہا، کرسی پر رکھا ہے… جا کے لے لیں۔
امن نے بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا
میرے خیال سے وہ تمہیں لے لینا چاہیے تھا…
حیات نے فوراً پلٹ کر کہا
جی نہیں! میں آپ کی کوئی ‘مَیڈ’ نہیں ہوں! فائلز لے لی، یہی بہت بڑی بات ہے۔ لینا ہے تو خود جا کے لے لیں، ورنہ بغیر کوٹ کے ہی چلیں جائیں۔
And by the way,
آپ کا ‘خیال’ ہمیشہ سے ہی خراب رہا ہے۔۔۔۔
امن نے گہری سانس لیتے کہا
حیات… آپ میری اسسٹنٹ ہیں، اور ایک اسسٹنٹ کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے باس کی چیزیں سنبھالے۔
حیات نے سراسر بے نیازی سے کہا
ہاں تو پھر اسسٹنٹ کیوں رکھا ہے؟ ‘بیبی سِٹر’ رکھنی چاہیے تھی!
اور آپ کوئی دو سال کے بچے نہیں ہیں، جو اپنا کوٹ بھی نہ سنبھال سکیں۔
عجیب ہو تم… لے کر آؤ کوٹ۔۔۔۔
حیات نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا
خود جا کر لے لیں، ورنہ حیات آپ کے ساتھ نہیں جائے گی۔ ویسے بھی میرا دل نہیں ہے جانے کا۔
مجھے لے کر جانا ہے تو آپ کو اپنا کام خود کرنا پڑے گا۔
میں کوئی نوکرانی نہیں ہوں کہ نوکرانیوں والے کام کروں آپ کے لیے۔
امن نے حیات کو گھور کر کہا
کیسی لڑکی ہو تم…
حیات نے آنکھ دباتے ہوئے
شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
بہت پیاری۔
حیات۔۔۔ وہ کچھ خفکی سے اُس کی طرف دیکھا
حیات نے فائلز ٹیبل پر پٹختے ہوئے کہا
ٹھیک ہے! نہیں جا رہی میں! چلیں جائیں خود ہی۔۔
عجیب…
ایک تو ان لوگوں پہ احسان بھی کرو، اُوپر سے نخرے بھی دکھائیں گے…
خود ہی ہوں گے آپ عجیب! بالکل کسی واہیات پارانی کی طرح…
امن نے آنکھیں پھیلائے چونکتے ہوئے کہا
What…?!
حیات نے معصوم بن کر کہا
جی! واہیات پرانی ہیں آپ۔۔۔
حیات… لیٹ ہو رہا ہے… امن نے سنجیدگی سے کہا
تو… میں کیا کروں؟
اپنے نخرے ختم کرو اور چلو۔۔۔
ایک شرط پر جاؤں گی..
اور آپ کی وہ شرط کیا ہے…؟
حیات نے انگلی اٹھاتے ہوئے کہا
میں آپ کا کوئی کوٹ ووٹ نہیں اُٹھاؤں گی، اور نہ ہی کوئی نوکرانیوں والے کام۔۔۔
آپ کو اپنے سارے کام خود کرنے پڑیں گے۔
امن نے بالآخر ہار مانتے ہوئے، خالص پروفیشنل انداز میں کہا
اچھا ٹھیک ہے! اب چلو، لیٹ ہو رہے ہیں۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ اگر بحث جاری رکھی تو وہ میٹنگ مس کر بیٹھے گا — جو اس کے اصول اور وقت کی قدر کے خلاف تھا۔امن نے اپنی ہار مان لی، لیکن صرف وقت کے آگے، نہ کہ حیات کے۔۔۔
اب یہ دونوں ایک ہی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے…
امن بار بار آئینے میں نظر دوڑاتا، اور حیات کبھی باہر کی طرف دیکھتی، کبھی اپنی انگلیوں سے کھیلتی…
جانا کہاں ہے؟ امن نے کار کے باہر دیکھتے پھر حیات سے پوچھا۔۔۔
حیات نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، بالوں کی لٹ کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا
بادام کھایا کریں، کتنے بھولکڑ ہیں آپ! میٹنگ میں جانا ہے۔۔۔
امن نے سانس اندر کھینچ کر، تھوڑا جھنجھلا کر کہا
حیات… میرا مطلب لوکیشن سے ہے۔۔۔
حیات نے چہرہ موڑ کر، اب براہِ راست امن کو دیکھتے ہوئے کہا
ہاں تو… وہ آؤلز کیفے میں ہے۔۔۔
یہاں سے کتنا دُور ہے؟
حیات نے چڑ کر کہا
مجھے کیا پتا بھئی! میں کیا آپ کو گوگل میپ لگتی ہوں؟
امن نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
تو تم نے لوکیشن سیٹ نہیں کی؟
حیات نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
نہیں…
امن مختصر سا جملہ، جیسے غصہ دباتے ہوئے کہا
اچھا…
حیات نے ناک چڑھاتے ہوئے دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔
ہمم…
چند لمحے بعد…
گاڑی سڑک پر آہستہ آہستہ رواں تھی، فضا میں خنکی کی ہلکی سی لہر تھی اور خاموشی کا راج… مگر اس خاموشی کو چیرتی ہوئی اچانک امن کی آواز ابھری—
امن نے گردن تھوڑا سا موڑ کر، نرم لہجے میں کہا
حیات…
اب کیا ہے؟ اُس نے مڑ کر امن کو دیکھا
امن نے گھڑی پر نظر ڈال کر کہا
ٹائم دیکھو۔
حیات نے آنکھیں کھولتے ہوئے، طنزیہ انداز میں کہا
کیوں؟ آپ کی گھڑی خراب ہے کیا؟
امن نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا
یہ میری کافی پینے کا وقت ہے۔
حیات نے ناک چڑھاتے ہوئے، خفیف غصے سے کہا
ہاں تو اب کیا چاہتے ہیں؟ میں چلتی گاڑی کے انجن پر کافی بنا دوں؟
امن نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
مجھے نہیں پتا… بنا لو ۔۔۔
وہ اُسے چھیڑنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا تھا
حیات نے حیرت اور چڑ کے ملے جلے انداز میں کہا
اپنا دماغ آفس میں چھوڑ کر تو نہیں آئے کہیں؟
امن نے آنکھوں میں شرارت بھرتے ہوئے کہا
نہیں… میں تو ساتھ لایا ہوں، آپ نے اپنا شاید گھر رکھ دیا؟
حیات نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا
ہاہاہا… ویری فنی… ایک دم بےحد فضول! آپ سے زیادہ فالتو بندہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا
امن نے دل میں خود سے کہا
اور تم سے زیادہ دلکش کوئی ہو بھی نہیں سکتا…
امن نے سیدھا ہو کر کہا
مجھے کچھ نہیں پتا، بس کہیں سے بھی کافی لاکر دو۔
حیات نے غصے سے سانس کھینچتے ہوئے کہا
میں آپ کی اسسٹنٹ ہوں، کوئی سپر مین نہیں… جو اُڑ کے جا کر کافی لے آؤں۔
اسی لمحے امن نے اگلے آئینے میں جھانکا اور ڈرائیور کو ہلکی سی نظروں سے اشارہ دیا۔ ڈرائیور نے آہستگی سے گاڑی ایک چھوٹے سے کیفے کے سامنے روک دی…
امن نے سیدھے ہوتے ہوئے، کیفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
جاؤ، میرے لیے ایک کپ کافی لے آؤ۔
حیات نے حیران ہو کر کہا
کہاں جاؤں؟
امن نے چہرے پر سپاٹ تاثرات کے ساتھ کہا
وہاں… کیفے کی طرف۔
حیات نے منہ بنا کر کہا
اب یہاں بھی میں ہی جاؤں؟
امن نے حیات کو گھورتے کہا
تو اور کون جائے گا؟
حیات نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا
لائیں، کریڈٹ کارڈ دیں۔۔۔
کیوں؟
حیات نے تھوڑا جھک کر، آواز نیچی کر کے کہا
کافی کیا مفت میں دیں گے کیا؟
امن نے پھر خاموشی سے جیب سے کریڈٹ کارڈ نکالا، پھر بے نیازی سے اُسے تھما دیا
یہ لو۔
حیات نے دل میں بڑبڑاتے ہوئے کہا
بابو جی کافی بھی خود نہیں لا سکتے ہیں…
اور کیفے کی طرف بڑھا گئی۔۔
+++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
