dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 11 written by siddiqui

دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۱

رات کا وقت تھا، گھر میں ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ نازیہ بیگم کچن میں کھڑی چائے بنا رہی تھیں جب ولید اندر داخل ہوا۔ وہ جیسے ہی دروازے سے گزرا، نازیہ بیگم نے فوراً اس سے سوال کر لیا،
ولید، یہ ماہی کو کیا ہوا ہے؟ تمہیں کچھ پتا ہے؟

ولید نے رک کر حیرت سے نازیہ بیگم کی طرف دیکھنے لگا۔
کیا؟ ماہی کو کیا ہوا؟ اس نے پیشانی پر تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا۔

پتا نہیں، وہ اپنی پھوپھو سے نہ صرف ناراض ہے بلکہ شدید غصے میں بھی ہے… سونیا کا فون آیا تھا، اس نے بتایا۔میں نے پھر اس سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کہنے لگی، ‘خالا، اگر آپ نے مجھ سے پھوپھو کے بارے میں کوئی بات کی، تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔۔۔

کس بات پر ناراض ہے؟ ولید نے مزید الجھتے ہوئے پوچھا۔

یہی تو نہیں پتا…

ولید ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔ ماہی کی اُس کی پھوپو سے ناراضی بہت پریشانی والی بات تھی۔۔۔

تم کچھ پتا کرو، ولید، پتا نہیں کیا بات ہے…”
نازیہ بیگم نے فکرمندی سے کہا۔

ولید نے سر ہلایا، ہاں، میں کوشش کروں گا ماہی سے بات کرنے کی۔
پھر جیسے ہی وہ جانے لگا، نازیہ بیگم نے پھر اسے روک لیا،
اچھا سنو، آج تمہیں کہیں جانا تو نہیں؟
نہیں، کیوں؟
تو پھر آج ہمارے ساتھ چلو… تمہارے پاپا ایک ویڈنگ فنکشن میں انوائٹ ہیں، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔

ولید نے بےزاری سے نازیہ بیگم کی طرف دیکھا، میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟
سب سے ملنا ، اور کیا؟ میں تمہیں اپنے تمام دوستوں سے ملواؤں گی۔
ولید نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ماما، میں ان سب سے پہلے ہی مل چکا ہوں، بلکہ اچھی طرح جانتا بھی ہوں۔

تو کیا ہوا؟ تمہارے پاپا کے دوستوں سے مل لینا۔۔۔

ماما، میں انہیں بھی جانتا ہوں… ولید نے کندھے اچکائے۔

تو پھر کیا نہیں جانتے تو تب جاتے ؟ بس چلو، اور کوئی بحث نہیں۔ وہ سب تمہیں پوچھتے ہیں، کافی دن ہو گئے تمہیں ان سے ملے ہوئے۔

ولید نے ہلکا سا سر جھٹکا، جیسے مزید بحث کا فائدہ نہیں، اچھا ٹھیک ہے، چلتا ہوں، عشاء کی نماز پڑھ کر تیار ہو جاتا ہوں۔

مہِر بھی جا رہی ہے؟ ولید نے مہر کا سوچتے پوچھا
نہیں، اس نے صاف انکار کر دیا ہے، کہتی ہے دیر ہو گئی تو نیند پوری نہیں ہو گی، اور پھر یونیورسٹی جانے کا دل نہیں کرے گا۔
ولید ہلکے سے ہنسا، ہاں، اگر اس کی نیند پوری نہ ہو تو اس سے کوئی کام نہیں ہوتا۔
بالکل! ویسے میں سوچ رہی تھی کہ ماہی کو بھی ساتھ لے چلوں، لیکن وہ تو اپنی کسی دوست کے ساتھ آؤٹنگ پر نکل گئی ہے۔
ولید کی مسکراہٹ یکدم غائب ہو گئی، کس دوست کے ساتھ؟”
یہ تو نہیں معلوم مجھے…
ولید نے گہری سانس لی، ابھی تو اسے آئے ہوئے کتنے دن ہوئے ہیں… اس کے دوست بھی بن گئے؟
ہاں… کیا پتہ بن گئے ہوں، اور ویسے بھی اچھا ہے، اسے تھوڑا گھومنے پھرنے دو۔
ولید نے ہلکی سی “ہمم” کی آواز نکالی، جیسے وہ مطمئن نہیں تھا، اور پھر خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے ذہن میں کئی سوالات گردش کر رہے تھے، لیکن اس وقت ان کے جوابات کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔

++++++++++++

وہ اس وقت سیاہ اسکن فٹ جینز پہنی ہوئی تھی، اوپر کروپڈ لیدر جیکٹ کے نیچے ایک ڈارک ریڈ ٹرٹل نیک ٹاپ پہنا تھا، جو اس کے سانولے، چمکدار رنگ کو مزید نمایاں کر رہا تھا۔ جیکٹ کی زِپ کھلی تھی،  اور اُس کے چھوٹے کندھوں تک آتے بال ہمیشہ کی طرح بگڑے کھولے پڑے تھے۔۔۔ ایک تو اُس کے بال کبھی بڑتے نہیں اوپر سے وہ اُن کا خیال بھی نہیں رکھتی تھی۔۔۔

نائلہ نے اس وقت بلیو بلیک باڈی فٹ جینز پہنی ہوئی تھی، جو اس کی چستی اور اسمارٹنیس کو مزید نمایاں کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ سفید ٹینک ٹاپ تھا، جس کے اوپر لمبی سیاہ ٹرِنچ کوٹ ڈھیلا سا پہنا تھا، کوٹ کی جیبوں میں کچھ چھپا تھا-شاید ہتھیار، شاید کوئی اور راز، لیکن وہ ہمیشہ تیار نظر آتی تھی۔
اس کے پاؤں میں لمبے بلیک بوٹس تھے، جن میں چھوٹے اسٹیل ٹپس لگے ہوئے تھے، اور اس کے بال کندھوں تک لمبے اور بلکل سیدھے تھے، جو اس کی تیز دھار شخصیت کو مزید واضح کرتے تھے۔

کتنی دیر ہو گئی ہے، نائلہ؟ ماہی نے سرگوشی کی۔

بس کچھ دیر اور… خاموش رہو۔ نائلہ کی آنکھیں مستقل سڑک پر جمی ہوئی تھیں، جیسے وہ کسی چیز کا انتظار کر رہی ہو۔

چند منٹ بعد، ایک سیاہ رنگ کی جیپ گلی میں آ کر رکی۔ انجن بند ہونے کی ہلکی آواز ابھری، اور دروازے کھلے۔ گاڑی سے دو لڑکے باہر نکلے۔

ایک لڑکے نے سیاہ جینز اور بھاری چمڑے کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ وہ لمبا، مضبوط جسم والا اور کافی حد تک خطرناک نظر آ رہا تھا۔ اُس کی جیب میں ہلکی سی چمک دکھائی دی، جیسے کوئی دھات کا ٹکڑا-شاید چاقو یا ہتھیار۔ اُس کی نظریں اردگرد کا جائزہ لے رہی تھیں، جیسے خطرے کو محسوس کر رہا ہو۔
دوسرا لڑکا اُس سے ذرا چھوٹا تھا، مگر اُتنا ہی تیز نظر آ رہا تھا۔ اُس نے گہرے نیلے رنگ کی ہوڈی پہنی ہوئی تھی، اور اُس کے ہاتھ جیبوں میں تھے، جیسے کچھ چھپائے بیٹھا ہو۔ وہ جیپ کے قریب کھڑا ہوا، اور گہری سانس لی۔
دونوں لڑکوں نے سیاہ رنگ کے ماسک پہن رکھے تھے، جو ان کے چہرے کا بیشتر حصہ ڈھانپے ہوئے تھے۔ بس صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں-تیز، سرد، اور شکاری نظروں والی آنکھیں۔ ان کے چہرے پر ایک خوفناک سنجیدگی چھائی ہوئی تھی، جیسے وہ کسی خاص مقصد کے تحت یہاں آئے ہوں۔

تجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، زیادہ مار نہیں پڑے گی…  پہلے والے لڑکے نے دوسرے والے لڑکے کے کان میں خرگوشی کی۔۔۔
چُپ کرو۔۔۔  دوسرے لڑکے نے چڑ کر کہا۔۔۔

نائلہ نے گردن موڑ کر آس پاس کا جائزہ لیا، پھر دھیرے سے بولی، یہ دیکھو، لگتا ہے یہ ایم ۔ڈی کے بندے ہیں۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی جال بچھانے آئے ہیں۔

ماہی نے تیزی سے ان لڑکوں کی طرف دیکھا، جو اب بھی محتاط نظروں سے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے۔ وہ دونوں جسمانی لحاظ سے مضبوط اور چوکنے لگ رہے تھے۔

یہ صحیح موقع ہے، نائلہ نے آہستہ سے کہا، یہ صرف دو ہی ہیں، ہم انہیں مار کر بے ہوش کر سکتے ہیں اور ان کے چہروں کی تصویریں لے سکتے ہیں۔

ماہی نے بےچینی سے نائلہ کی طرف دیکھا، صرف تصویر لینا ہے؟ اس سے زیادہ کچھ نہیں؟

نائلہ کے لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ آئی،
ہاں، بس اتنا ہی۔ باقی کا کام آفیسرز کا ہے۔

ماہی نے گہرا سانس لیا، پھر سر ہلا دیا۔
دونوں لڑکوں کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ شکار بننے جا رہے ہیں۔ جیسے ہی ان میں سے ایک نے موبائل نکالا، نائلہ نے بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا، موڑ دیا اور ایک زوردار گھونسا اس کے پیٹ میں دے مارا۔ لڑکا کراہتا ہوا نیچے جھکا، لیکن سنبھلنے کی کوشش کرنے لگا۔

عین اسی لمحے، ماہی نے دوسرے لڑکے پر حملہ کیا۔ یہ سب کچھ نیا تھا اس کے لیے، لیکن اس وقت اس کے پاس سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے پوری طاقت سے اس کے کندھے پر مکا مارا، اور جیسے ہی لڑکا پیچھے ہوا، اس کا توازن بگڑ گیا۔ ماہی نے موقع غنیمت جانا اور اس کے پیروں پر ضرب لگا دی، جس سے وہ دھڑام سے زمین پر جا گرا۔
چند لمحوں بعد، دونوں بےہوش زمین پر پڑے تھے۔
اندھیرے میں بھی ان کے چہرے واضح نظر آ رہے تھے-دونوں سخت چہرے، درشت نقوش، جیسے پیشہ ور قاتل ہوں۔ نائلہ نے جلدی سے موبائل نکالا اور ان کے چہروں کی تصویریں لے لیں۔

اب ہمیں فوراً یہاں سے نکلنا ہوگا، اس سے پہلے کہ کوئی اور آ جائے، نائلہ نے گھبرائے بغیر، لیکن جلدی سے کہا۔

ماہی کو کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا، جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو، لیکن وہ چپ رہی۔ اس نے نائلہ کی طرف دیکھا، جو مطمئن لگ رہی تھی، اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔

بغیر کوئی اور وقت ضائع کیے، دونوں لڑکیاں سائے کی طرح اندھیرے میں غائب ہو گئیں، پیچھے صرف وہ دو بے ہوش جسم رہ گئے، جو اب بھی زمین پر بے سدھ پڑے تھے۔

++++++++++++++

اس وقت گھڑی پر نو بج رہے تھے، اور ولید تیار ہو کر سیڑھیاں اتر رہا تھا۔۔۔ سیاہ فٹنگ والی ڈریس پینٹ اور ساتھ میں نیوی بلو شرٹ میں ملبوس، جس کی آستینیں کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں، جیسے وہ زیادہ تکلف پسند نہ کرتا ہو۔ اس کے بال ہمیشہ کی طرح سلیقے سے سیٹ تھے، لیکن چند آوارہ لٹیں اس کی پیشانی پر جھول رہی تھیں، جو اسے مزید پُرکشش بنا رہی تھیں۔اور اکثر وہ چہرے پر ہلکی سی داڑھی رکھتا، جو اس کے چہرے کے تیکھے نقوش کو مزید جاذبِ نظر بناتی تھی۔ سیاہ لیدر کے جوتے اور کلائی پر سیاہ گھڑی ۔۔۔
ولید کی گہری سیاہ آنکھوں میں ایک خاص تاثر تھا، جیسے وہ ہر چیز کو پرکھنے کی عادت رکھتا ہو، جیسے ہر لفظ کے پیچھے چھپی سچائی کو جانچنے میں مہارت رکھتا ہو۔ اس کے سانولے چہرے پر سنجیدگی تھی، مگر کبھی کبھار ہلکی سی مسکراہٹ اس کی شخصیت میں نرمی کا احساس پیدا کر دیتی تھی۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا نیچے آیا، جہاں نازیہ بیگم پہلے ہی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔

نیچے ہی اُسے حارث دیکھ گیا تھا، جو شاید ابھی ابھی گھر پر آیا تھا۔ اس کی چال میں ہلکی سی تھکن نمایاں تھی، جیسے دن بھر کی مصروفیات نے اسے چُور کر دیا ہو۔
کہاں سے آ رہے ہو؟ ولید نے رکتے ہوئے یونہی سرسری انداز میں پوچھا۔۔

حارث نے ہاتھ میں پکڑی گاڑی کی چابی ٹیبل پر اچھالی اور کندھے اُچکاتے ہوئے بولا، بس ویسے ہی… دوستوں کے ساتھ تھا۔
ولید نے بغور اسے دیکھا۔ اس کے بکھرے بال اور تھکی ہوئی آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ واقعی بہت تھک چکا تھا۔
تو بھی چل میرے ساتھ، اچھا لگے گا۔ ولید نے آفر دی، لیکن حارث نے فوراً سر ہلایا۔

نہیں یار، تُو ہی جا، مجھے یہ سب پسند نہیں… ۔یہ کہہ کر وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا انداز تھکا ہوا تھا، جیسے آج کا دن اس پر بھاری گزرا ہو۔ وہ دروازہ بند کرتے ہی بیڈ پر گرا اور کچھ ہی لمحوں میں نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔

ولید نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا اور آگے بڑھ گیا، وہ جانتا تھا کہ حارث کے لیے ایسے فنکشنز ہمیشہ سے بورنگ رہے ہیں، اور آج بھی اس کا وہی موڈ تھا۔
ہمیشہ کی طرح۔۔ ولید نے آہستہ سے خود سے کہا

نازیہ بیگم بھی تیار کھڑی مہر کو کچھ ضروری ہدایات دے رہی تھیں، اور مہر پوری توجہ سے سن رہی تھی۔
اتنے میں احمد صاحب بھی اپنے کمرے سے تیار باہر نکل کر آتے ہیں۔۔۔اور ولید کو تیار کھڑا دیکھ احمد صاحب مسکرتے ہوئے بولے ۔۔
آج پھر میرا صرف ایک ہی بیٹا جا رہا ہے۔

نازیہ بیگم نے فوراً بات بڑھائی، ہاں، میرا ایک ہی بیٹا ہے جو میری بات سنتا ہے… ایک تو پتہ نہیں کہاں سے آوارہ گردی کر کے آیا ہے، اور دوسری بیٹی کو پڑھائی سے ہی فرصت نہیں ملتی۔۔ ان کا لہجہ ہلکا سا طنزیہ تھا، مگر سچائی سے بھرپور۔

احمد صاحب نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اور پوچھا،
اور ماہی کہاں ہے؟

وہ بھی کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ نکلی ہوئی ہے۔ نازیہ بیگم نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔

احمد صاحب نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر ولید اور نازیہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا، چلو پھر، ہم تین ہی چلتے ہیں۔
نازیہ بیگم نے سر ہلایا اور مہر کی طرف دیکھا، بیٹا، دھیان رکھنا، اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو فوراً فون کرنا۔ اور ابھی تھوڑی دیر میں ماہی بھی آتی ہوگی۔۔

مہر نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا، اور وہ تینوں نکل گئے۔۔۔

+++++++++++++

ایم ڈی ایک لمبی کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اُس کے ہاتھ میں سگار تھا جسے وہ آہستہ آہستہ گھما رہا تھا۔ کمرے میں ہلکی روشنی تھی، اور سامنے حامد کھڑا سنجیدگی سے اُسے خبر دے رہا تھا۔

باس… حامد نے ذرا جھجکتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

ایم ڈی نے آنکھیں موند کر گہری سانس لی اور بولا، ہاں، کیا خراب خبر ہے؟

جیمس نے خودکشی کر لی ہے۔ حامد نے کہا۔

ایم ڈی کا چہرہ سپاٹ رہا، جیسے یہ خبر اُس کے لیے زیادہ اہم نہ ہو، لیکن اُس نے سگار کے دھوئیں کو آہستہ سے ہوا میں چھوڑتے ہوئے پوچھا،
اور اُس کے بندے؟

وہ سب اُس کے باپ کے پاس چلے گئے ہیں۔ حامد نے جواب دیا۔

ایم ڈی نے چند لمحے سوچا، پھر سر ہلایا، ہمم

حامد ایک لمحے کے لیے رکا، پھر تھوڑا قریب آ کر بولا، باس، مجھے لگتا ہے کہ اب جیک ہم پر کوئی بڑا حملہ کرے گا۔۔۔

ایم ڈی نے ذرا سا ہنکارا بھرا، پھر ایک تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے بولا،
کرنے دو… ڈرتا کون ہے؟

اور باس… قبضہ مافیا نے صاف انکار کر دیا ہے جنگ کے لیے۔
ایم ڈی نے ایک لمحے کے لیے سگار لبوں سے ہٹایا، اُس کی نظریں گہری ہو گئیں، اور وہ آہستہ سے بڑبڑایا، Interesting very interesting۔

حامد نے سر جھکایا، اب کیا حکم ہے، باس؟

ایم ڈی نے کرسی سے اٹھتے ہوئے سگار ایش ٹرے میں مسلا اور ایک سفاک مسکراہٹ کے ساتھ بولا، جنگ تو ہوگی، لیکن ہمارے اصولوں پر… قبضہ مافیا کو مجبور کرنا پڑے گا۔
حامد نے اثبات میں سر ہلایا، اور کمرے میں ایک خطرناک خاموشی چھا گئی۔

++++++++++

ماہی جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی، اندر کی خاموشی نے اس کے قدموں کو سست کر دیا۔ وہ ادھر اُدھر نظر دوڑانے لگی، مگر خالہ کہیں دکھائی نہ دیں۔ دل میں بے ساختہ سوال اٹھا، اور وہ سیدھی مہر کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

یہ خالہ کہیں دکھائی نہیں دے رہیں، کہیں گئی ہیں کیا؟ ماہی نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے پوچھا۔

مہر نے پلٹ کر دیکھا، وہ بیڈ پر بیٹھی موبائل چلا رہی تھی۔ ہاں، ماما، پاپا، اور ولی بھائی شادی کے فنکشن پر گئے ہیں۔

اچھا… اور حارث؟
مہر نے بے پروائی سے جواب دیا، وہ اپنے روم میں سو رہے ہیں۔ پھر ایک نظر گھڑی پر ڈال کر بولی، کھانا رکھا ہے، گرم کر کے کھا لو اور تم بھی سو جاؤ۔ اُن لوگوں کو آنے میں ایک سے دو بج جائیں گے۔

ماہی نے سر ہلایا اور کمرے سے باہر نکل آئی، مگر ایک عجیب سا خیال اس کے ذہن کو جکڑ چکا تھا۔
جب ولید خالہ خالو کے ساتھ جا چکا تو… وہاں جنگ پر… کیا وہاں جنگ پر ایم ڈی موجود نہیں ہوگا؟

اس خیال کے آتے ہی ماہی کے دل میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ ولید کی غیرموجودگی، جنگ کی وہ رات، ایم ڈی کی موجودگی یا غیر موجودگی… سب ایک دوسرے سے جُڑتے جا رہے تھے۔

تم بلاوجہ ولید پر شک کر رہی ہو، ماہی؟  کیا تمھیں لگتا ہے ہمیشہ سب کی مدد کرنے والا اپنے گھر والوں کا خیال رکھنے والا  اتنے غلط کاموں میں شامل ہو سکتا ہے کیا۔۔۔؟
یہ سوال اس کے دل کے کسی کونے سے ابھرا اور اسے اندر تک جھنجھوڑ گیا۔

+++++++++++++

حارث، میری بات سن… گن نیچے رکھ دے۔۔
ولید نے پرسکون مگر التجا بھری آواز میں کہا۔

حارث ایک اندھیرے کمرے میں کھڑا تھا۔ ہر طرف دھند تھی، اور گھٹن کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ سامنے ولید کھڑا تھا، چہرے پر گھبراہٹ، آنکھوں میں التجا لیے۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی، لیکن اس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا، جیسے کسی نے اسے دھند کے پردے میں چھپا دیا ہو۔

نہیں! تونے مجھے دھوکا دیا ہے، ولید۔۔ حارث کی آواز کمرے میں گونجی، آنکھوں میں غصے کے ساتھ دکھ بھی تھا۔
میں نے کون سا دھوکا دیا ہے؟ ولید کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔

حارث کی نظریں اس دھندلی سی لڑکی پر جم گئیں، جو خاموشی سے کھڑی تھی۔ اس کی شناخت ایک راز تھی، مگر اس کے وجود نے حارث کے دل میں جلتے سوالوں کو اور بھڑکا دیا تھا۔

پہلے اسے ماروں گا، پھر تجھے۔۔۔ حارث نے غصے سے کہا اور گن کا رخ لڑکی کی طرف کر دیا۔

دھااااااااااا
گولی چل چکی تھی۔ مگر ہدف بدل چکا تھا۔ ولید سامنے آ چکا تھا۔ اور گولی اس کے سینے میں پیوست ہو گئی۔

حارث نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔ سانس بے ترتیب تھی، پیشانی پسینے سے بھیگ چکی تھی۔
دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، جیسے سینے سے باہر آ جانے کو بے قرار ہو۔ کمرے میں گہری خاموشی چھائی تھی، بس دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک اس سناٹے کو توڑ رہی تھی۔
وہ چند لمحے یونہی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کرتا رہا، پھر سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ خواب کی شدت ابھی بھی اس کے وجود پر طاری تھی۔ ولید… گولی… خون… وہ منظر جیسے آنکھوں کے سامنے حقیقت کی طرح گھوم رہا تھا۔

یہ کیا تھا  ولید پر وہ بھی حارث نے گولی چلائی؟
اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا، جیسے وہاں حقیقت میں گن تھامی ہو۔ پر وہ تو خالی تھے۔ مگر خواب کی وحشت اتنی گہری تھی کہ اسے اپنے ہاتھ ابھی بھی بوجھل محسوس ہو رہے تھے۔
حارث نے ایک گہرا سانس لیا، پانی کا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگایا، مگر ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پانی کے چند قطرے بستر پر جا گرے۔ اس نے گلاس واپس رکھا اور خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

بس ایک خواب تھا… لیکن… ایسا کیوں لگا جیسے سب حقیقت میں ہو رہا ہو؟
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، صبح کے  پانچ بج رہے تھے۔ باہر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی، پردے مدھم روشنی میں ہل رہے تھے۔
کہتے ہیں، صبح کا دیکھا ہوا خواب سچ ہوتا ہے۔
یہ جملہ اچانک حارث کے ذہن میں کوندا، جیسے کسی نے اس کے اندر کسی بھولی بسری یاد کا دروازہ کھول دیا ہو۔
حارث، بیٹا! جو خواب فجر کے وقت دیکھا جائے، وہ اکثر سچ ہو جاتا ہے…
یہ آواز اس کی پاپا کی تھی۔ وہ چھوٹا سا تھا، پاپا کے پاس لیٹا کہانیاں سن رہا تھا، اور پاپا نے نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔ تب وہ یہ سب ایک معصوم کہانی سمجھتا تھا، لیکن آج… آج یہ الفاظ اس کے وجود کو ہلا رہے تھے۔

نہیں… یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
ایک خوف، ایک بےچینی، ایک انجان سا احساس اس کے پورے جسم میں سرایت کر گیا۔ وہ تیزی سے ولید کے کمرے کی طرف لپکا۔
دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، جیسے پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو تیار ہو۔ قدموں کی رفتار خودبخود تیز ہوتی جا رہی تھی۔ دماغ میں بس ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا—ولید ٹھیک ہو بس
وہ دروازے تک پہنچا اور بغیر کچھ سوچے جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔
اب اس کی دھڑکنیں مزید بے قابو ہو گئیں کیونکہ ولید کمرے میں موجود نہیں تھا۔ خوف اور بےچینی کا ایک نیا طوفان اس کے اندر اٹھنے لگا۔

وہ تقریباً بھاگتا ہوا دروازے کی طرف لپکا، دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ کہیں کچھ غلط تو نہیں ہو گیا؟ یہ سوچ اس کے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔

کیا ہوگیا ہے؟
احمد صاحب نے کمرے سے نکلتے ہی حارث کو پریشانی میں ادھر اُدھر دیکھتے پایا تو حیرت سے پوچھا۔۔۔وہ شاید نماز پڑھنے جا رہے تھے یا پڑھ کر آچکے تھے۔۔۔

حارث کا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا، سانس بے ترتیب تھی، اور آنکھوں میں وحشت ناچ رہی تھی۔
ولید کہاں ہے؟ اس نے بے قراری سے پوچھا۔

احمد صاحب نے الجھن سے حارث کی طرف دیکھا۔
اپنے کمرے میں نہیں ہے؟

نہیں۔۔۔ حارث کی آواز میں گھبراہٹ واضح تھی۔

یہ فجر کا وقت ہے، اگر وہ گھر پر نہیں ہے تو مسجد میں ہوگا۔
مگر حارث کو اس جواب سے کوئی تسلی نہ ہوئی۔ اس کے اندر جو خوف پل رہا تھا، وہ کسی دلیل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
وہ کچھ کہے بغیر فوراً دروازے کی طرف بڑھا، قدم تیز تھے، جیسے ہر گزرتا لمحہ اسے کسی بڑے خطرے کی طرف دھکیل رہا ہو۔
احمد صاحب نے اسے جاتے دیکھا تو سر جھٹک کر بڑبڑائے، پاگل ہی ہے بالکل۔۔۔

+++++++++++++

کیا تم نے کبھی کسی مرد کو نماز پڑھتے دیکھے ہے ؟
جیتنا حسین مرد نماز پڑھتے لگتا ہے شاید ہی کبھی وہ تمہیں اتنا حسین لگے۔۔۔
جب جھکتا ہے سجدے میں کوئی حسین شخص،
لگتا ہے زمیں پر اُترا ہو نورِ عرش۔

مسجد کی پُرسکون فضا میں اذکار کی مدھم سرگوشیاں تحلیل ہو رہی تھیں۔ ہلکی روشنی ستونوں پر لرز رہی تھی، جیسے عبادت کی اس خاموش ساعت میں نور اپنا مسکن تلاش کر رہا ہو۔ وہ ستون کے عین بیچ و بیچ کھڑا، اپنے گرد کی دنیا سے بے نیاز، سراپا خشوع و خضوع بنا ہوا تھا۔

اللّٰہ اکبر
اس کے ہونٹوں سے نکلی تکبیر مسجد کی خاموش دیواروں سے ٹکرا کر گویا پورے وجود میں اتر گئی۔ اُس لمحے، ساری دنیا پس منظر میں چلی گئی-یہاں بس وہ تھا، اس کا رب تھا، اور ایک ایسا لمحہ تھا جو وقت کی زنجیروں سے آزاد ہو چکا تھا۔

اُس لمحے، حارث داخل ہوا۔ اور ولید کو دیکھتے ہی اُس کے چہرے پر ایک مدھم مسکراہٹ در آئی۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا ستون کے پاس آیا، اور بغور اُس شخص کو دیکھنے لگا، اُسے دیکھنے کے بعد مانو جیسے دل کو سکون مل گیا ہو۔۔۔ ساری بےچینی ختم ہوچکی تھی ایک دم سے دل سکون میں آچکا تھا۔۔

وہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا، آواز دھیمی، مگر دل میں اترنے والی۔ حارث ایک پل کے لیے خاموش ہوا، پھر اُس کے برابر جا کھڑا ہوا، جیسے کوئی کھویا ہوا ٹکڑا واپس اپنی جگہ پر آ گیا ہو۔

نماز مکمل ہوئی، سلام پھیرا، اور چہرہ موڑا-یکدم ٹھٹھک گیا۔ حارث نماز پڑھ رہا تھا۔۔ اُس کی نماز ختم ہونے کے بعد اُس نے سوال کیا۔۔۔
یہاں اس وقت کیا کر رہے تھے؟

“دکھائی نہیں دیا، نماز پڑھ رہا تھا؟ سوال کے جواب میں سوال۔

کیوں؟ پھر ایک سوال، جیسے کچھ جاننا باقی ہو۔
کیوں، تجھے خوشی نہیں ہوئی مجھے یوں نماز پڑھتے دیکھ کر؟
وہ ایک پل کو خاموش ہوا، پھر گہری سانس لی۔
میری خوشی کے لیے نماز نہیں پڑھا کرو، حارث۔۔۔

“کیوں؟ تُجھے اچھا نہیں لگتا؟ حارث نے ناگواری سے کہا

نہیں… جس دن تم اس رب کی خوشی کے لیے نماز پڑھو گے نہ، اُس دن مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشی ملے گی۔

میں تو بس اللّٰہ کا شکر ادا کر رہا تھا، مُجھے اتنا اچھا بھائی دینے کے لئے۔۔ معصومیت سے کہا گیا۔
ولید ہلکے سا مسکرا دیا۔

اب بتاؤ، اس وقت مسجد آنے کی کوئی خاص وجہ؟ ولید نے آہستہ سے پوچھا، کوئی خاص وجہ تو تھی ورنہ حارث اور مسجد۔۔ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔۔

حارث نے ایک پل کو نظریں جھکائیں، پھر دھیرے سے کہا، میں نے ایک بہت بُرا خواب دیکھا تھا…

اور تُم ڈر گیا؟

تُجھے اچھے سے پتہ ہے تیرے معاملے میں ڈر جاتا ہوں میں…

ولید کی مسکراہٹ ایک پل کے لیے رکی، آنکھوں میں کچھ نرم سا سایہ لہرایا، مگر وہ جلدی سے بولا،
کچھ نہیں ہوتا، ایک خواب ہی تو تھا…

حارث نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُس کی نظریں قالین پر جمی رہیں، جیسے خواب کی دھندلی جھلکیاں ابھی بھی ذہن میں تازہ ہوں۔

ولید نے تھوڑا جھک کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، حارث، خواب خواب ہوتے ہیں، حقیقت نہیں۔ مت سوچ زیادہ۔

حارث نے آہستہ سے سر اٹھایا، آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جسے ولید سمجھ تو سکتا تھا، مگر بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لمحے بھر کی خاموشی کے بعد وہ آہستہ سے بولا،
بس تو مجھے چھوڑ کر مت جانا… حارث کی آواز مدھم تھی، جیسے کوئی ان کہی التجا ہو، جیسے کوئی خوف اندر ہی اندر پل رہا ہو۔

ولید نے چونک کر اُسے دیکھا، پھر نرم لہجے میں بولا، میں کیوں چھوڑ کر جانے لگا تُجھے؟

حارث نے ایک پل کو خاموشی اختیار کی، نظریں جھکائیں، پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مگر اداسی میں لپٹی ہوئی آواز میں کہا، کیونکہ ہمارا خون کا رشتہ نہیں ہے نا…

ولید نے گہری سانس لی، جیسے یہ سن کر لمحے بھر کے لیے دُکھ ہوا ہو۔ پھر اُس نے حارث کے کندھے پر مضبوطی سے ہاتھ رکھا اور سنجیدگی سے بولا،
رشتے خون سے نہیں، دل سے بنتے ہیں، اور جو دل سے جُڑ جائیں، انہیں چھوڑا نہیں جاتا، نبھایا جاتا ہے۔
ہر خون کے رشتے میں وفا نہیں ہوتی۔۔۔لیکن دل کے ہر رشتے میں وفا ہوتی ہے ، اور میں نے تُجھے دل سے اپنا بھائی مانا ہے۔۔۔
حارث نے پلکیں جھپکائیں، جیسے ولید کے الفاظ نے اُس کے دل کے اندر کوئی گہری لکیر کھینچ دی ہو۔ اُس کی آنکھوں میں وہی مانوس نمی جھلکنے لگی، جو ہمیشہ ایسے لمحوں میں آ جایا کرتی تھی۔ وہ کچھ کہنے کے لیے لب کھولنے ہی والا تھا کہ ولید نے اُس کے کندھے پر ہاتھ کی گرفت مزید مضبوط کر دی اور دھیرے سے کہا
تُو میرا بھائی ہے، حارث… اور یہ رشتہ کسی کاغذ یا خون کا محتاج نہیں۔ میں نے جب تجھے بھائی مانا، تو پھر یہ رشتہ ہمیشہ کے لیے بن گیا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا کیا کہتی ہے، لوگ کیا سوچتے ہیں… میں تجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔
حارث نے بے اختیار سر جھکا لیا۔
پتہ ہے، زندگی میں سب کچھ کھویا جا سکتا ہے، لیکن وہ شخص نہیں جو دل سے اپنا ہو۔ اور تُو، حارث… تُو میرا وہی شخص ہے۔ ولید کی آواز میں یقین تھا، ایسا یقین جو نہ وقت کے ساتھ بدلے گا اور نہ کسی فاصلے سے ماند پڑے گا۔
اور تُو میرا دل ہے… دل کے بنا میں جی نہیں سکتا۔ ولید جانتا تھا کہ حارث کا دل اُس کے حوالے سے ایک چھوٹے بچے کی طرح معصوم اور نازک ہے-ذرا سی لاپروائی، ذرا سی دوری، اور وہ فوراً بےچین ہو جاتا تھا۔ اور پھر وہ ایسی باتیں کر کے اُس یقین دلاتا تھا

اگر میں تیرا دل ہوں، تو پھر تُو میری دھڑکن ہے، … اور دھڑکن کے بغیر دل صرف ایک بےجان گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ حارث نے کہا اور اُس کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی، مگر وہ مسکرایا۔

اور تُجھے پتہ ہے، میں تیرے لیے دنیا ختم کر سکتا ہوں… اُس کی آواز میں ایک جنون تھا، ایسا جنون جو کسی بھی حد سے گزر سکتا تھا۔

ولید نے پل بھر کو اُسے دیکھا، پھر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ دھیرے مگر مضبوط لہجے میں کہا، اور میں تیرے لیے جان دے بھی سکتا ہوں… اور لے بھی سکتا ہوں۔

حارث کی آنکھوں میں چمک در آئی، مگر ساتھ ہی ایک سنجیدگی بھی تھی۔ جان لینے تک تو ٹھیک ہے، لیکن میں تجھے جان دینے نہیں دوں گا…

پھر وعدہ کر… ہمارے پیچھے کوئی نہیں آئے گا۔

کوئی بھی نہیں آئے گا۔
ولید نے آنکھیں تنگ کر کے اُس کی طرف دیکھا، جیسے اب بھی کسی تصدیق کی ضرورت ہو۔ پھر ایک پل کے توقف کے بعد بولا، وعدہ کر، کوئی لڑکی بھی ہمارے بیچ نہیں آئے گی۔

حارث کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ اُس نے آہستہ سے کہا، اگر آ گئی تو؟

ولید نے ایک لمحے کو گہری سانس لی، پھر آہستہ سے مسکراتے ہوئے کہا، آ بھی گئی تو، تُو مجھے اچھی طرح جانتا ہے… میری جان جب تجھ پر قربان ہے، تو لڑکی کیا چیز ہے؟

حارث نے ذرا سا سر جھکایا، جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ پھر اُس نے ولید کی طرف دیکھا، اُس کی نظریں کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔ اُس نے ہلکے مگر گہرے لہجے میں کہا،
اور تُو مجھے بھی اچھی طرح جانتا ہے… اگر کوئی لڑکی آئی تو سمجھ جانا…
حارث نے ایک پل کو توقف کیا، جیسے الفاظ کو مزید وزنی بنانے کے لیے، پھر آہستہ سے سرگوشی کی،
This world is going to be end…

++++++++++++++

صبح کی نرم روشنی میں، مہک بھری ہوا کے ساتھ، ماہی نے جلدی سے اپنے بال میں کنگھی کی، اور نیلے ڈینم جینز کے ساتھ اوور سائزڈ بلیک ہوڈی پہن لی۔ اس کی کلائی پر لیذر بینڈ تھا اور کندھے پر ایک کراس باڈی بیگ۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے انداز میں ٹام بوائے لگ رہی تھی—بے پرواہ، خود سر، اور تھوڑی اکھڑ مزاج۔
جیسے ہی وہ یونیورسٹی جانے کے لیے اپنے روم سے باہر نکل کر دروازے تک ائی۔۔۔ پیچھے سے ایک مانوس آواز نے اس کے قدم روک لیے۔
بات سنو…
وہ ٹھٹکی، مگر پھر آنکھیں سکیڑ کر مڑ کر گہری نظروں سے ولید کو دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں غصہ تھا، بے زاری تھی، جیسے وہ اس کی موجودگی کو بھی ناپسند کر رہی ہو۔

ماہی نے اسے نظر انداز کیا اور تیزی سے آگے بڑھ گئی، جہاں فلیٹ کے نیچے حارث پہلے سے ہی اپنی گاڑی کے ساتھ کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔

یونیورسٹی میں…
کلاس کے بعد جب ماہی حارث کے ساتھ باہر نکل رہی تھی، تو ایک بار پھر وہی آواز کانوں میں پڑی—وہی دھیما، مگر اٹل انداز
بات سنو…

ماہی کے قدم رکے، پھر آنکھیں سکیڑ کر مڑ کر گہری نظروں سے ولید کو دیکھا، اور بس سر جھٹک کر آگے  چل دی۔ اس کا یہ انداز جیسے ولید کے وجود کو رد کر رہا تھا، جیسے وہ اس کے لیے اہم ہی نہ ہو۔

حارث نے یہ منظر غور سے دیکھا اور الجھن میں پڑ گیا۔ وہ ولید  کی طرف متوجہ ہوا اور بولا:
کچھ ہوا ہے کیا؟
ولید نے ایک لمحے کو ماہی کو جاتے دیکھا، پھر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔
پتہ نہیں… وہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا،

ماہی نے ایک پل کو اپنی مٹھی بھینچی، جیسے خود کو قابو میں رکھ رہی ہو۔ وہ خود سے کہہ رہی تھی—
بس نظر انداز کرو، بس بھول جاؤ…
ماہی کینٹین سے نکل رہی تھی۔ اس کے قدم تیز تھے، جیسے کہیں پہنچنے کی جلدی ہو۔ یونیورسٹی کا صحن لوگوں سے بھرا ہوا تھا، مگر وہ اپنی دھن میں آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک—
کسی نے پیچھے سے اس کا بازو پکڑ لیا۔
کیا—؟
اس نے فوراً پلٹنے کی کوشش کی، مگر تب تک دو اور ہاتھوں نے اسے مضبوطی سے جکڑ لیا۔ دل ایک لمحے کے لیے زور سے دھڑکا، مگر آنکھوں میں کوئی خوف نہیں تھا۔
چھوڑو مجھے۔۔۔ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا، مگر جواب میں ایک مکروہ ہنسی سنائی دی۔

++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *