dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 13 written by siddiqui

 

دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۳

ہاں۔۔۔ بول۔۔
حامد نے بریک دبائی، اور بائیک ایک جھٹکے سے  ولید کے پاس آکر رکی۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظر ماہی پر پڑی، اس کے ماتھے پر تیوریاں چڑھ گئیں، اور اس کا موڈ ایک دم خراب ہو گیا۔

اب یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ حامد نے بے زاری سے کہا، جیسے ماہی کی موجودگی سے اسے سخت کوفت ہو رہی ہو۔

ولید  حامد کی بات کو نظر انداز  کرتے بولا،
بھائی کو مافیا والوں نے اٹھا لیا ہے۔

حامد نے طنزیہ انداز میں کہا،
لو جی، اب یہ بھی اس کا ہی بھائی ہو گیا؟

ماہی، جو کار کے پاس خاموش کھڑی تھی، جس نے پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ وہ حامد کے آنے کے بعد کچھ نہیں بولے گی، خاموشی سے صِرف ان کی بات سنے گی۔۔۔ مگر حامد کی ایسی بات پر اس کا صبر جواب دے گیا۔
استغفراللہ! تمہارا ہی بھائی ہوگا۔۔ ماہی غصے سے بولی۔

حامد نے کندھے اچکائے، جیسے کوئی بڑی بات نہ ہو، دیکھ لو  دیکھ لو ، یہی لوگ ہوتے ہیں جو احسان فراموش نکلتے ہیں۔ اور تُو کہتا ہے کہ میں اس کے لیے کچھ کروں؟ بھئی، میں تو نہیں کر رہا کچھ۔۔۔

اچھا؟ تو مت کرو! کسی نے تم سے مدد مانگی ہے؟ ماہی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

ہاں، ولید مانگ رہا ہے، حامد نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا، ورنہ میں تو جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بکھیڑا میرے سر آنے والا ہے۔۔۔

چپ کرو دونوں! کیا بچوں کی طرح لڑ رہے ہو؟ ولید نے سختی سے کہا اور حامد کی طرف مڑا، چھوڑ ان سب باتوں کو، میری بات سن۔ حارث کو کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔

حامد جو ابھی تک ماہی کی موجودگی سے چڑچڑا ہو رہا تھا، اچانک سنجیدہ ہو گیا۔ کیا؟ کیوں؟ کیسے؟

ماہی نے حامد کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بے اختیار بول پڑی، پہلے ہیلمٹ تو اتارو۔۔۔ وہ اپنے عام سے حلیہ میں ولید اور ماہی کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔بلیو جینز اور ہلکے نیلی ٹی شرٹ میں ملبوس۔۔ جب کے وہ کہیں ایم ڈی کے ساتھ جاتا تو اُس کا حلیہ مختلف ہوتا۔۔۔جب کے اُس نے اپنی شکل ہیلمیٹ پہن کر چُھپا رکھی تھی۔۔۔

حامد نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا، ہی ہی ہی ! ویری اسمارٹ! چالاک بننے کی ضرورت نہیں ہے… میں ہیلمٹ نہیں اتارنے والا۔۔۔
درحقیقت، حامد کو لگا تھا کہ ولید یہاں اکیلا ہوگا، اسی لیے وہ بے فکری سے آیا تھا۔ ورنہ تو ہمیشہ پوری سیفٹی کے ساتھ نکلتا تھا۔

ولید نے جھنجھلا کر ماہی کو گھورتے ہوئے کہا،
تمہیں اس کا چہرہ دیکھنا ہے یا حارث کو واپس لانا ہے؟

ماہی نے جھینپ کر سر جھکا لیا، اچھا

ولید نے گہری سانس لی، اب بولو، کیا کرنا ہے؟ حارث کا فون یہاں ملا ہے، اور میں پولیس کو انفارم کر کے کوئی خطرہ مول نہیں  سکتا۔

حامد نے طنزیہ انداز میں ہاتھ باندھ لیے،
ہاں، میں تو کوئی گیانی بابا ہوں جو مجھے سب پتا ہوگا۔۔۔
اس کا موڈ پہلے ہی خراب تھا، اور ماہی کو وہاں دیکھ کر وہ مزید چڑچڑا ہو گیا تھا۔ حامد کا غصہ بجا تھا۔
جب سے ولید نے ماہی کو بچانے کے لیے حامد سے مدد لی تھی، تب سے حامد کو ماہی سے شدید نفرت ہو گئی تھی۔ اس کی نظر میں ماہی ایک مصیبت تھی، جس نے ولید کو بھی مصیبتوں میں ڈال دیا تھا۔
وہ دن جب ماہی کو ایم ڈی نے پکڑ لیا تھا۔۔ اور ولید کو مجبوراً حامد کی مدد لینی پڑی ۔۔۔ولید کے لیے حامد  نے ایم ڈی کے خلاف جا کر یہ ثابت کیا تھا کہ وہ دونوں وہاں سے فرار ہو گئے ہیں۔ حامد جانتا تھا کہ اگر وہ صرف ماہی کو چھوڑتا، تو ایم ڈی کو شک ہو جاتا، اسی لیے اسے اُس کے ساتھ دوسری لڑکی کو بھی آزاد کرنا پڑا تھا۔ اور حامد نے اسے کچرے کے پاس چھوڑ دیا تھا ۔۔
لیکن سب سے بڑی غلطی؟
حامد کے مطابق، وہ یہ تھی کہ ولید نے ماہی کی وجہ سے ایم ڈی کے ایک خاص آدمی کو بےہوش کر دیا تھا اور خود ایم ڈی کے آدمیوں کے ساتھ شامل ہو گیا تھا—صرف ماہی کو بچانے کے لیے۔
اور پھر، وہ فنکشن والا واقعہ…
حامد نے ولید کو براؤن لینس لے کر آنے کا کہا تھا۔ مگر ولید کو پتہ نہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ جس پارٹی میں ماہی اور مہر جا رہے تھے، وہاں ایم ڈی بھی آنے والا تھا۔ ولید نے فوراً خود کو ایم ڈی کا ساتھی بنا کر پارٹی میں انٹری لے لی— صرف ماہی کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے۔
اور وہاں…
ماہی نے راںٔتہ پھیلا ہی دیا تھا۔
مگر ولید بھی ولید تھا۔ اس نے کسی کو ماہی کے قریب بھی نہ آنے دیا۔ ایم ڈی سے بھی اسے بچا لیا۔
پھر جب ساری بات حامد کو بتائی، تو اس نے بغیر کسی اور مسئلے کے ولید کی مدد کر دی۔ مگر اس دن کے بعد سے، حامد کو ماہی سخت ناپسند تھی۔
اسے لگتا تھا کہ جب سے ماہی آئی تھی، اس کا دوست ولید مسائل کو گلے لگانے لگا تھا۔
وہ اپنے دوست ولید کو بچپن سے جانتا تھا۔ ولید وہ نہیں تھا جو کسی لڑکی کی خاطر خود کو مصیبت میں ڈالے۔ مگر یہ ماہی… جب سے آئی تھی، ولید مسلسل خطرات میں گھرتا جا رہا تھا۔
اب بھی، جب ولید نے اسے لوکیشن پر بلایا، تو حامد کو لگا کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے، اور مسئلہ ہوگا تو یقیناً اس کا تعلق ماہی سے ہوگا۔
جب وہ موقع پر پہنچا اور ماہی کو وہاں کھڑے دیکھا، تو اس کا غصہ مزید بڑھ گیا۔

نہیں، تم دونوں آپس میں لڑتے رہو، میں جا رہا ہوں۔۔۔ وہ جھنجھلا کر بولا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ حارث لاپتہ تھا، اور یہاں یہ دونوں کسی اور ہی جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔
اچھا رکو۔۔۔
اچھا رکو۔۔۔
پھر دونوں نے ایک ساتھ ہی جملہ دہرایا، اور جیسے ہی احساس ہوا کہ وہ ہم آواز ہو گئے ہیں، ایک دوسرے کو اور بھی غصے سے گھورنے لگے۔

ولید نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کی۔
اس نے بمشکل اپنی پیشانی پر آتی غصے کی شکنوں کو دبایا اور سخت لہجے میں بولا،
یہ کوئی تماشہ نہیں چل رہا! میرا بھائی لاپتہ ہے، اور تم دونوں بچوں کی طرح جھگڑ رہے ہو؟ اگر واقعی میری مدد کرنا چاہتے ہو تو سنجیدہ ہو جاؤ۔۔۔
ماہی اور حامد دونوں ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے۔ ولید کے چہرے کی سنجیدگی اور آنکھوں میں چمکتی بے چینی نے انہیں احساس دلا دیا کہ یہ وقت بحث کا نہیں تھا۔

ہمیں فوراً کوئی سراغ تلاش کرنا ہوگا۔ حامد نے اب صورتحال کو سمجھتے سنجیدگی سے کہا

ماہی نے بھی آہستہ سے سر ہلایا،

ولید, حارث کے فون میں کچھ ہے جو مدد کر سکتا ہو؟ حامد نے پوچھا…
ولید نے فوراً حارث کا فون  کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور گاڑی سے پھینکنے پر فون کی سکرین بھی ٹوٹ چکی تھی۔۔۔

حامد نے آنکھیں مٹکائیں،
ڈیڑھ منٹ، میں کھول دیتا ہوں…

تمہیں تو ہر غلط کام آتا ہے، ہے نا؟ ماہی نے طنزیہ کہا۔

بی بی، شکر کرو یہ سب مُجھے آتا ہے ورنہ تُمہاری وجہ سے میرا دوست جو بار بار مصیبت میں پڑتا ہے، مُجھے یہ سب نہیں آتا تو اللہ حافظ تھا اس کا۔۔۔حامد نے دانت پیستے ہوئے کہا اور فون کو کھولنے لگا۔۔۔

کیا مطلب وہ کب میری وجہ سے مصیبت میں پڑا۔۔۔ ماہی نے ناگواری سے حامد کو دیکھا۔۔۔

چُپ رہوں دونوں۔۔۔ ولید نے حامد کو گھورتے ہوئے کہا۔۔
ہمیں پہلے اندازہ لگانا ہوگا کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے۔۔۔ حارث ان دنوں کس کس سے ملا حارث کی  کسی سے  لڑائی  ہوئی۔۔۔۔

ماہی نے الجھن سے کہا، مگر حارث کی تو آئے دن کسی نہ کسی سے لڑائی ہوتی ہے، ہم شک کریں بھی تو کس پر؟

ولید نے سر جھٹکتے ہوئے کہا، یہ کوئی چھوٹی موٹی لڑائی نہیں ہو سکتی۔ یا تو کسی بڑی دشمنی میں پھنسا ہے، یا پھر کسی ایسے شخص سے الجھا ہے جس کا تعلق مافیا سے ہو۔۔۔ یا پھر کسی نے کھلی دھمکی دی ہو۔۔۔

ماہی سوچ میں پڑ گئی، بڑی لڑائی…؟

ماہی نے کچھ لمحے سوچا، پھر بولی،
ویسے تو کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی، لیکن کچھ دن پہلے میں یونی نہیں جا رہی تھی تو حارث زبردستی لے کر گیا۔ میں سمجھی کہ شاید میرے بغیر اسے یونی میں مزہ نہیں آتا، لیکن اصل میں وہ مجھے وہاں ہونے والی جنگ دکھانا چاہتا تھا…

کون سی جنگ؟ کیسی جنگ؟ مجھے تو اس بارے میں کچھ نہیں پتا۔۔۔ ولید نے حیرانی سے ماہی کی طرف دیکھا اُسے تو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور اُسے ان دونوں نے بتایا کیوں نہیں۔۔

ہاں، تمہیں نہیں بتایا نا۔۔ وہ یونیورسٹی کے فٹ بال گراؤنڈ میں ہوئی تھی… حارث اور اس کے دوستوں کی ان لڑکوں سے شرط لگی ہوئی تھی کسی چیز کو لے کر۔ وہاں وہ بہت سارے تھے، اور یہاں حارث اکیلا..

ان میں سے کسی کا نام پتا ہے تمہیں؟ حامد نے پوچھا۔۔

وہ میرے پھوپھو کے بیٹے نہیں تھے جو میں ان کے نام یاد رکھتی پھرتی۔۔۔ ماہی نے ناگواری سے کہا

کیسی مرچ جیسی زبان ہے ولی… اگر یہ ہمارے ساتھ رہی نا، تو کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہو سکے گا۔ اسے گھر بھیجو۔۔۔
حامد کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ماہی کو دنیا سے ہی غائب کر دے۔۔۔
ماہی نے غصے سے حامد کو گھورا، جبکہ ولید نے ان دونوں کو دیکھ سر جھٹک دیا۔ کوئی حال نہیں تھا۔۔۔نہ ماہی کا نہ حامد کا۔۔۔

++++++++++++

کم از کم میرے ہاتھ تو کھول دو… درد ہو رہا ہے۔۔۔
حارث چلایا وہ کہیں سے بھی قید میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

سامنے کھڑے گارڈ نے طنزیہ لہجہ میں جواب دیا،
ہاں، ہاں! تاکہ تم ہمیں مار کر بھاگ سکو؟

حارث نے جھنجھلا کر کہا،
یار! کچھ خدا کا خوف کرو، تم لوگ اتنے زیادہ ہو اور میں اکیلا۔ کیسے بھاگ سکتا ہوں؟

گارڈ نے سرد لہجے میں کہا،
ہم کوئی خطرہ نہیں مول سکتے۔ سر نے تمہیں ایم۔ڈی سے لڑنے کے لیے چنا ہے، ایسے  ویسے لڑکے تو نہیں ہو سکتے تم۔۔۔

حارث نے گہری سانس لی اور نرمی سے بولا،
اچھا،  کم از کم میرے بھائی سے بات تو کروا دو۔ وہ پریشان ہو رہا ہوگا۔۔۔

یہ سنتے ہی قریب کھڑے ایک گارڈ  دوسرے گارڈ سے مزاحیہ انداز میں بولا،
سب اپنی محبوبہ یا بیوی کے لیے پریشان ہوتے ہیں، اور اِس کو دیکھو! کب سے بھائی، بھائی کی رَٹ لگائی ہوئی ہے۔ کیسا کمزور بھائی ہے اِس کا جو چند گھنٹوں کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔

دوسرا گارڈ بھی ہنسا اور سر ہلاتے ہوئے بولا،
محبتیں بھی عجیب عجیب قسم کی ہونے لگ گئی ہیں آج کل۔۔۔۔

باس، ایم۔ڈی کا پیغام آ گیا ہے… ایرک کو جیسے ہی ایم ڈی کا پیغام موصول ہُوا اس نے فوراً جیک کے قریب آتے اس کو خبر دی۔۔۔
جیک نے چونک کر فون اس کے ہاتھ سے لیا اور اسکرین پر نظر ڈالی۔ پھر ایک سرد مسکراہٹ کے ساتھ دھیمی آواز میں پڑھ کر بولا،
اب کسی کو موت اس کے وقت کے مطابق تھوڑی نہ آتی ہے… کل صبح پانچ بجے۔۔۔۔
مسٹر جیک نے ایک گہری سانس لی اور ایرک کی طرف فون کرتے کہا۔۔
ٹھیک ہے، ڈن کر دو… ویسے بھی ایم۔ڈی نے ہماری ایک بات مان لی بہت بڑی بات ہے۔۔۔۔

حارث جو اب تک خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، غصے سے بولا،
او بھائی! میں صبح تک انتظار نہیں کر سکتا! میری بات میرے بھائی سے کرواؤ، ورنہ میں نہ لڑوں گا اور  نہ جیت کر آؤں گا۔۔۔۔

مسٹر جیک نے ایک زہریلی ہنسی ہنستے ہوئے کہا،
جنگ میں ہارنے کا مطلب ہوتا ہے… موت۔ تم وہاں سے یا تو فاتح بن کر واپس آؤ گے، یا پھر لاش کی صورت میں۔ جو زندہ بچا، وہی جیتا اور جو مرا، وہ ہارا۔۔۔

حارث کی آنکھوں میں ایک لمحے کو بے بسی ابھری، مگر پھر اس نے دانت بھینچ کر مضبوطی سے کہا،
میں یہ سب کچھ نہیں جانتا! بس  میرے بھائی سے بات کروا دو میری۔۔۔

مسٹر جیک نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا،
کیا بات کرو گے اپنے بھائی سے؟ کیا کہو گے؟ کہ وہ آئے اور تمہیں یہاں سے بچا کر لے جائے؟

حارث نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بے حد سنجیدہ لہجے میں کہا،
نہیں… مجھے اسے بس یہ کہنا ہے کہ میں ٹھیک ہوں، وہ میری فکر نہ کرے، اور میں جلدی گھر آ جاؤں گا… میں اسے کسی مصیبت میں نہیں ڈال سکتا۔۔۔

مسٹر جیک نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور طنزیہ انداز میں بولا،
بہت محبت ہے بھائی سے؟ دیکھتے ہیں، تمہاری یہ محبت تمہیں کہاں تک لے جاتی ہے۔۔۔

حارث نے غصے سے زنجیروں کو جھٹکا دیا اور دھاڑ کر بولا،
خدا کی قسم! اگر میری بات بھائی سے نہ کروائی تو میں لڑوں گا بھی نہیں۔۔۔۔

مسٹر جیک نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا،
یہ دھمکی ہے یا ضد؟

حارث کی آنکھوں میں بے بسی اور غصہ ایک ساتھ تھا،
یہ سچ ہے! اگر تم لوگ مجھے زبردستی اس جنگ میں جھونکنا چاہتے ہو، تو میں لڑنے سے انکار کر دوں گا۔۔ تم لوگ کسی ایسے آدمی کو ڈھونڈ لو جو اپنی زندگی بے مقصد داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو۔۔۔

+++++++++++++++

ولید بے بسی سے سڑک پر چکر کاٹ رہا تھا، اس کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں واضح ہو رہی تھیں۔ وہ دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا، بس ایک بار جگہ کا پتہ چل جائے، باقی سب میں دیکھ لوں گا…

ماہی بھی خاموش تھی، لیکن اس کے چہرے پر الجھن صاف جھلک رہی تھی۔ گھر سے مسلسل میسجز اور کالز آ رہی تھیں، سب پریشان تھے کہ وہ لوگ ابھی تک کیوں نہیں پہنچے۔ آخرکار، ماہی نے ایک جھوٹا میسج کر دیا، ایکسٹرا کلاس ہو رہی ہے، دیر ہو جائے گی…

حامد کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا، وہ حارث کے فون میں موجود نمبروں سے اس کے دوستوں کے بارے میں معلومات نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر ہمیں حارث کے دوستوں کے بارے میں کچھ پتا چل جائے، تو شاید ہمیں ان لڑکوں تک پہنچنے میں آسانی ہو…

ولید نے ایک جھنجھلاہٹ سے سانس لی، پھر حامد کی طرف بڑھا، کچھ ملا؟ کچھ اندازہ ہو رہا ہے؟

حامد نے سر جھٹکا، ابھی تک کچھ خاص نہیں… لیکن ایک نمبر مشکوک لگ رہا ہے۔

ماہی نے بے چینی سے پوچھا، کس کا؟

حامد نے فون اسکرین کی طرف اشارہ کیا، یہ ایک لڑکا ہے، جو پچھلے کچھ دنوں میں حارث سے کئی بار ملا تھا۔ میں ابھی اس کے بارے میں مزید کھوج لگاتا ہوں۔

ولید کی مٹھیاں بھینچ گئیں، جلدی کر حامد، حارث کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوگا…

ماہی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ہچکچاتے ہوئے کہا، ہم پولیس کو ہی انفارم کر دیتے ہیں… شاید کچھ پتہ چل جائے؟

حامد نے فوراً غصے سے سر اٹھایا، واہ بی بی! بڑا اچھا مشورہ ہے! تمہیں لگتا ہے پولیس کو خبر دی تو وہ جا کر حارث کو عزت سے واپس لے آئیں گے؟

ولید نے بھی ناگواری سے ماہی کی طرف دیکھا،
حامد ٹھیک کہہ رہا ہے، پولیس ان معاملات میں پڑتی نہیں، اور اگر انہوں نے کچھ کیا بھی، تو الٹا حارث کو مزید خطرہ ہو سکتا ہے۔

ماہی نے لب بھینچ لیے، تو پھر کیا کریں؟ یہاں کھڑے ہو کر بس اندازے لگاتے رہیں؟

ولید نے گہری سانس لی، ہمیں پہلے خود ہی کچھ سراغ ڈھونڈنا ہوگا۔ اگر کوئی آخری حل نہ ملا تو پھر پولیس کا سوچیں گے، لیکن ابھی نہیں۔

حامد نے ایک دم فون کی اسکرین پر نظریں گاڑ دیں،
اوئے… یہ ہے تیرا بھائی؟ حامد نے فون کی سکرین ولید کے سامنے کی جس پر حارث کی تصویر چمک رہی تھی..۔

ولید نے اس کی طرف دیکھا اور گہری سانس لے کر بس سر ہلا دیا، ہممم…

حامد نے حارث کی تصویر کو غور سے دیکھا۔۔
تو اس کے لیے پریشان ہو رہا ہے؟

ولید نے حامد کی طرف غصے سے دیکھا،
ہاں تو! یہی میرا بھائی ہے، اور میں اسی کے لیے پریشان ہوں…

حامد نے پہلے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں، پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا، جیسے کوئی بہت مزاحیہ بات سن لی ہو۔
ہاہاہا! تُو اس کے لیے پریشان ہو رہا ہے؟

ماہی نے حمید کو گھورا۔۔۔ لو ہو گیا پاگل….

ولید نے غصے سے حامد کو گھورا، جس پر حامد نے  فوراً ہاتھ جوڑ لیا، سوری سوری، مذاق کر رہا تھا۔

ماہی نے بازو باندھ کر حامد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، اب بتاؤ، اتنی ہنسی کیوں آ رہی تھی تمہیں؟

حامد نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور پھر مسکراتے ہوئے بولا، میں سمجھا تھا کہ حارث کوئی چھ سات سال کا بچہ ہو گا… یہ تو اچھا خاصا  لڑکا ہے! کوئی اسے کیوں اغوا کرے گا؟

دشمنی میں۔۔۔ اور وہ ایک طرف جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا، ہاتھ چہرے پر رکھ کر دعا مانگنے لگا، کیونکہ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

ماہی نے بے زاری سے آنکھیں گھمائیں، تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ ہم دونوں کتنے پریشان ہیں، اور تمہیں بس ہنسی آ رہی ہے؟

حامد نے کندھے اچکائے، کیونکہ جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتی۔۔۔

ماہی نے حیرت سے پوچھا، اب اس کا کیا مطلب؟

حامد نے مغرور انداز میں جواب دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے زیادہ جینئس ہوں، اسی لیے میں زیادہ جانتا ہوں۔۔۔۔

ماہی نے جل کر کہا، اگر اتنے ہی جینئس ہو تو جا کے پتا لگاؤ کہ حارث کہاں ہے۔۔۔۔

حامد نے مزاحیہ انداز میں سر ہلایا، میں نے کہا تھا کہ میں جینئس ہوں، کوئی گیانی بابا نہیں جو جھٹ سے بتا دوں کہ حارث کہاں ہے۔۔۔۔

اپنی شکل گھم کرو ، ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔۔

ضرورت تو ہے۔۔ مسکراتے ہوئے بولا۔

دفع دور۔۔۔ غصے میں  کہتی ولید کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔

میسنی کہیں کی۔۔ اور مسکراتے ہوئے دوبارہ حارث کے فون کی جانچ پڑتال میں لگ گیا،

+++++++++++++

حارث جو کب سے چیخ رہا تھا، ایک بار پھر غصے میں چلایا، میری بات کروا دو میرے بھائی سے، نہیں تو میں لڑوں گا  نہیں….

ایرک نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، باس، میں کہتا ہوں کہ آپ ایک دفعہ اس کی بات اس کے بھائی سے کروا دیں۔ اس کا منہ تو بند ہو جائے گا، اور کم از کم ہمیں پولیس کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے اس کا بھائی پولیس کو خبر دے دے، اور ابھی جنگ میں کافی وقت ہے، تب تک یہ چلا چلا کر ہمارے کانوں کے پردے پھاڑ دے گا۔ اور خود بھی اتنا تھک جائے گا کہ بعد میں لڑنے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔۔۔

مسٹر جیک نے تھوڑا سوچتے ہوئے کہا، ہمم… ٹھیک ہے، کرواؤ اس کی بات۔ لیکن دھیان رہے، کوئی الٹی سیدھی بات نہ کرے۔ اور ہاں، اس کے بعد اسے کچھ کھلا پلا بھی دینا، کم از کم یہ زندہ تو رہے۔۔۔۔

یہ کہہ کر مسٹر جیک وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
ایرک نے حارث کی طرف دیکھا اور فون نکالتے ہوئے کہا، چل، نمبر دے اپنے بھائی کا، اور دھیان سے بات کرنا۔۔۔

ایرک نے فون ملایا، پہلی بار تو کال ریسیو نہ ہوئی، لیکن دوسری گھنٹی پر ہی لائن مل گئی۔ دوسری طرف سے ولید کی مدھم اور تھکی ہوئی آواز آئی،
السلام علیکم… کون؟

ایرک نے ایک نظر حارث پر ڈالی، پھر فون کو اسپیکر پر کرکے حارث کے چہرے کے قریب لے آیا۔
حارث نے جیسے ہی ولید کی آواز سنی، وہ بے صبری سے بول اٹھا،
اوئے ولی۔۔ میں حارث۔۔۔۔۔
دوسری طرف ولید جو روڈ کی سائڈ بے چین بیٹھا تھا ، اچانک سیدھا ہو کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں زندگی لوٹ آئی۔ ماہی اور حامد بھی فوراً اس کے قریب آ گئے، اور ولید نے جھٹ سے فون اسپیکر پر کر دیا۔
ولید نے گھبراہٹ میں پوچھا،
حارث! کہاں ہے تُو؟ سب ٹھیک تو ہے؟

حارث ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا،
ہاں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اور کل رات تک گھر آ جاؤں گا۔ تُو نے پریشان نہیں ہونا، ہاں تو دوسروں کو پریشان کر سکتا ہے۔۔۔ لیکن خود پریشان نہیں ہونا۔۔

ولید کی آواز میں بے چینی اور غصہ تھا،
مگر تُو ہے کہاں؟ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟

حارث نے فوراً بات کا رخ بدل دیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو،
دیکھ، میں تجھے آ کر خود سب کچھ بتا دوں گا۔ بس تُو نے ٹینشن نہیں لینی۔ ہاں دوسروں کو  ٹینشن دے سکتا ہے تو۔۔ اور ہاں، کھانا کھا لینا، اوگی والا کارٹون بھی دیکھ لینا۔ اور کیونکہ میں آج رات نہیں ہوں گا، تو اپنی ساری نمازیں خود پڑھ لینا۔ فجر میں لازمی اٹھنا، ورنہ آ کر ماروں گا تجھے۔۔۔

ولید نے حیرانی سے آنکھیں سکیڑیں،
یہ کیا بکواس کر رہا ہے؟

حارث نے جلدی سے ایک اور بات جوڑ دی،
اور سن،  اولیویا تو تیرے ساتھ ہی ہوں گی نا؟  اور اوگی کا بھی خیال رکھنا۔۔ اچھا، اللہ حافظ۔۔۔۔

ارے، حارث! سن—
لیکن اس سے پہلے کہ ولید مزید کچھ پوچھتا، ایرک نے فوراً فون کاٹ دیا۔

ایرک نے سرد تاثرات کے ساتھ حارث کی طرف دیکھا،
چلو، بات تو ہوگئی۔ اب چیخنا نہیں۔۔۔

حارث نے گہری سانس لی اور آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے اس کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہو۔
پاس کھڑے ایک گارڈ نے ایرک کے کان میں سرگوشی کی،
سر، لگتا ہے اس کا بھائی نارمل نہیں ہے۔ تبھی اسے کارٹون دیکھنے اور کھانا کھانے کا کہہ رہا تھا۔۔۔

ایرک نے سر ہلایا، جیسے سوچ رہا ہو،
ہاں، ہوسکتا ہے اسی لیے تو مرنے مرانے پر تلا ہوا تھا بات کرنے کے لیے! اچھا ہوا، اب کم از کم کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔

دوسری طرف، ولید، ماہی اور حامد اب بھی حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

ماہی نے الجھے ہوئے انداز میں ولید کی طرف دیکھا،
تم کیا کارٹون دیکھتے ہو؟

ولید نے غصے سے اسے گھورا،
پاگل ہو گئی ہو؟ ایسے وقت میں یہ سوال کر رہی ہو؟

ماہی نے ہاتھ باندھ کر سوچنے والے انداز میں کہا،
اور یہ اوگی کون ہے؟ اولیویا کون ہے؟

ولید نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا،
مجھے خود کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔ کیا تم نے واقعی حارث کو اغوا ہوتے دیکھا تھا؟ کوئی اور تماشا تو نہیں کر رہا؟

ماہی نے سنجیدگی سے اثبات میں سر ہلایا،
ہاں بھئی، میں نے خود دیکھا تھا، اسے کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے تھے۔

ماہی نے اچانک چونک کر کہا،
اور یہ حارث پوری نماز بھی پڑھتا ہے کیا؟ میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا ایک بھی نماز پڑھتے ہوئے۔۔۔

ولید نے ماتھے پر ہاتھ مار کر جواب دیا،
نہیں پڑھتا۔۔ اور کہہ رہا تھا کہ وہ مُجھے نہیں اٹھا سکتے گا میں خود ہی اُٹھ جاؤں اس نے اٹھایا کب مُجھے۔۔؟ کہیں یہ ہمیں پاگل تو نہیں بنا رہا؟

ماہی نے دانت پیستے ہوئے کہا،
اگر یہ سب فضول گندا مذاق تھا، تو میں حارث کو چھوڑوں گی نہیں۔۔۔

حامد، جو خاموشی سے سب سن رہا تھا، اچانک بولا،
کیا پتہ، حارث کہنا کچھ اور چاہ رہا ہو، اور بول کچھ اور رہا ہو؟ مطلب، کوڈ ورڈز استعمال کر رہا ہو! مافیا میں یہ عام بات ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں، تو ہم کوڈ ورڈز کے ذریعے ایک دوسرے سے مدد مانگتے ہیں۔۔۔

ولید نے گہری سانس لیتے ہوئے حامد کی طرف دیکھا،
ہاں، ہو سکتا ہے! تم صحیح کہہ رہے ہو…

ماہی نے تیزی سے کہا،
تو یہ اولیویا اور اوگی کون ہے؟

تُم ہوگئی اولیویا کیوں کے اس وقت تُم ہی ہو ولید کے پاس۔۔ اور حارث نے کہا اولیویا تو تُمہارے ساتھ ہی ہوگی۔۔۔اس کا مطلب تمہیں کہہ رہا اولیویا۔۔۔
حامد نے سوچتے ہوئے کہا

مگر اس نے مجھے اولیویا کیوں کہا۔۔۔؟ ماہی نے تیزی سے کہا

حامد نے شرارت سے کہا
“شکر ہے، اس نے تمہیں اولیویا کہا، اوگی نہیں۔۔

ماہی نے غصے سے حامد کو گھورا،
شٹ اپ،حامد۔۔۔۔

ولید نے دونوں کو گھورتے ہوئے سنجیدگی سے کہا،
اس نے کہا کہ دوسروں کو پریشان کرنا ہے، خود پریشان نہیں ہونا؟ مطلب وہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں کسی اور کو پریشان کروں… اور اس نے کہا، ٹینشن مت لو، دوسروں کو ٹینشن دو… یعنی مجھے کسی کو پریشان کرنا ہے؟
ولید ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولا،
یہ حارث تو ہے ہی منحوس! خود تو ہمیشہ ایسی حرکتیں کرتا ہے، اب مجھے بھی کہہ رہا ہے کہ میں وہی کروں۔۔۔

ماہی نے حامد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سے کہا،
تو کس کو پریشان کریں؟ اسے؟

حامد نے فوراً سینہ تان کر کہا،
ہنہ، مجھے پریشان کرنے والا ابھی تک کوئی پیدا نہیں ہوا۔۔۔

ماہی نے آنکھیں گھمائیں،
دفع دور۔۔۔۔

ولید نے جھنجھلا کر کہا،
مگر پریشان کس کو کرنا ہے؟

حامد نے اطمینان سے جواب دیا،
انہیں، جنہوں نے حارث کو پکڑا ہے۔۔۔۔

ماہی نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا،
پہلے یہ تو پتا ہو کہ وہ لوگ ہیں کون! تبھی تو پریشان کریں گے نا؟

ولید نے جلدی سے کہا،
چلو پھر! آگے کیا کہا اس نے؟

ماہی نے سوچتے ہوئے دہرایا،
کہہ رہا تھا، کھانا کھا لینا اور اوگی والا کارٹون دیکھ لینا…

ولید نے بھنویں سکیڑ لیں،
ہمم… اوگی والے کارٹون میں کون کون سے کردار ہوتے ہیں؟

ماہی نے کندھے اچکائے،
یہ کون سا کارٹون ہے؟ بچپن میں شاید دیکھا ہوگا، اب کچھ یاد نہیں۔

حامد نے فوراً وضاحت دی،
اوگی ہوتا ہے، اس کی گرل فرینڈ اولیویا، اس کا بھائی جیک، اس کا پڑوسی بوب، اور تین کاکروچز، جوئی، مارکی اور ڈی ڈی… بہت مزے دار کارٹون ہے، دیکھنے میں بہت مزہ آتا ہے۔۔۔

ماہی نے حیرت سے ہنستے ہوئے کہا،
تم ابھی تک اوگی کارٹون دیکھتے ہو؟  اتنے بڑے ہو کر؟

حامد نے برا مانتے ہوئے کہا،
ہاں تو؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ بڑے ہو کر کارٹون نہیں دیکھ سکتے؟ میں تو بہت سارے کارٹون دیکھتا ہوں۔۔۔

ماہی نے ہونٹ بھینچ کر سر ہلایا،
ہیں؟ کون کون سے؟

حامد نے فخر سے گنتی شروع کر دی،
اوگی کے علاوہ بیبی لونی ٹونز، ٹام اینڈ جیری، بگز بنی، مسٹر بین، بھیم کی چکی، پاور پف گرلز، پاپائے دا سیلر مین، اور بس کرو ہنری… یہ سب دیکھتا ہوں۔۔۔

ماہی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا،
کیا؟  تم مافیا کے بندے ہو نا؟

حامد نے فخر سے گردن اکڑائی،
ہاں، تو؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ مافیا والے کارٹون نہیں دیکھ سکتے؟

ماہی نے ناگواری سے حامد کو دیکھا اور بولی..
چھوٹے بچے ہو کیا۔۔۔؟؟

حامد نے ماہی باتوں کو نظر انداز کیے بے فکری سے کہا،
کارٹون تو سب مزے کے ہوتے ہیں… بس مجھے بین ٹین پسند نہیں! اور ہاں، میں نے رابن ہُڈ دیکھ دیکھ کر ہی تو چالاکیاں  سیکھی ہیں۔۔۔

ماہی نے طنزیہ انداز میں سر ہلایا،
ہاں ہاں، جو دماغ والوں کے کارٹون ہوتے ہیں، وہ تو تمہیں پسند نہیں! بس بچوں کے جیسے کارٹون دیکھنے کا شوق ہے۔۔۔۔

حامد نے ہنکارہ بھرا،
یہ کہاں لکھا ہے کہ جو کارٹون میں دیکھتا ہوں، وہ بچوں کے لیے ہیں؟ شروع میں کوئی ڈسکلیمر نہیں آتا کہ یہ صرف بچوں کے لیے ہیں، بڑے نہ دیکھیں۔۔۔

ماہی نے جھنجھلا کر ہاتھ ہلایا،
او بھائی، کارٹون… کارٹون ہوتے ہیں! تمہیں کارٹون کا مطلب سمجھ آتا ہے؟

حامد نے مسکرا کر کہا،
ہاں، سمجھتا ہوں… جیسے تم بھی ایک کارٹون،اور میں تمہارے ڈرامے دیکھ رہا ہوں۔۔۔

ماہی نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا،
ہاں تو جیسے تم کہیں کے شاہ رخ خان ہو نا، جو مجھے کارٹون کہہ رہے ہو؟

حامد نے سر اٹھا کر فخر سے کہا،
شاہ رخ خان کا تو پتا نہیں، لیکن حامد خان ضرور ہوں۔۔۔۔

ولید نے تنگ آ کر دونوں کو گھورا،
تم لوگوں کی یہ بچوں والی روح ختم ہو گئی ہو تو کام کی بات کریں؟

حامد نے معصومیت سے کہا،
ہاں تو پھر کیا کرنا ہے اوگی کا؟

ماہی نے جھنجھلا کر جواب دیا،
جا کر قتل کر دو اس کا۔۔۔

حامد نے فوراً سر ہلایا،
نہیں! قتل نہیں کر سکتا… وہ میرا فیورٹ ہے۔۔۔

ولید نے دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا،
چپ کرو تم دونوں! اور دوبارہ سے بتاؤ، کون کون رہتا ہے اس کے گھر میں؟

حامد نے لاپرواہی سے جواب دیا،
اس کے گھر میں تو صرف وہ اور کاکروچز رہتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی نہیں۔۔۔۔

ماہی نے بھنویں چڑھائیں،
تو پھر اس کی گرل فرینڈ اولیویا اور اس کا بھائی جیک کہاں رہتے ہیں؟

حامد نے کندھے اچکائے،
نہیں، ان کا کوئی گھر نہیں۔۔ وہ بس سڑکوں پر تماشے کرتے رہتے ہیں۔۔۔

ماہی نے حیران ہو کر کہا،
ہیں؟ واقعی؟

ولید، جو پہلے ہی سر پکڑ کر بیٹھا تھا، اب غصے سے بولا،
فی الحال تو تم دونوں یہاں تماشہ کر رہے ہو۔۔۔
ولید پہلے ہی پریشان تھا، اور ان دونوں کی فضول باتیں اسے مزید چڑھا رہی تھیں۔

ماہی نے فوراً معصومیت سے کہا،
اچھا، سوری۔۔۔

حامد نے بھی اسی وقت کہا،
اچھا، سوری۔۔۔
پھر سے دونوں نے ایک ساتھ ہی  ایک ہی جملہ دہرایا، اور پھر سے ایک دوسرے کو اور بھی غصے سے گھورنے لگے۔۔

ولید نے سخت لہجے میں کہا،
اب اگر تم دونوں نے کام کے علاوہ کوئی اور بات کی، تو میں یہیں تم دونوں کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔

ماہی نے بے نیازی سے کہا،
ہاں تو چلے جاؤ۔۔۔
حامد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا،
ہاں تو چلے جاؤ۔۔۔
دونوں نے پھر سے ایک ساتھ ہی کہا اور ولید نے خفکی سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔
ولید نے دانت پیستے ہوئے کہا،
فائن۔۔۔

ماہی نے فوراً گھبرا کر کہا،
نہیں، رکو! سوری، غلطی سے نکل گیا منہ سے۔۔۔
وہ جلدی سے ولید کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنے لگی۔

حامد نے  ولید کو روکنے کے لیے جلدی سے کہا،
مجھے لگتا ہے کہ حارث ہمیں اس کارٹون کے ذریعے اپنے دشمن کا نام بتانا چاہ رہا ہے۔۔۔
حامد کی بات سنتے ہی ولید نے چونک کر اسے دیکھا، اب معاملہ مزید سنجیدہ ہوگیا تھا۔

ولید نے گہری سانس لی اور بولا،
ہاں … میں بھی یہ ہی سوچ رہا تھا، لیکن تم دونوں نے اپنی باتوں سے میرا دھیان ہٹا دیا۔۔۔
وہ جھنجھلا کر پیچھے ہٹنے لگا۔
ہٹو یہاں سے! تم دونوں اپنا بچپنا نکالو، میں جا رہا ہوں۔۔۔

حامد فوراً بولا،
سوری بھائی، اب کچھ نہیں بولتے۔۔۔

ولید تھوڑی دیر کے لیے رکا، پھر سنجیدگی سے بولا،
چلو، کارٹون کے کرداروں کے نام بتاؤ۔۔۔

حامد نے فوراً گننا شروع کیا،
اوگی، اولیویا، جیک، باب، جوی، مارکی، اور ڈی ڈی۔۔۔
تینوں اب سنجیدگی سے سوچنے لگے کہ ان ناموں میں کیا راز چھپا ہوسکتا ہے…
ولید نے گہری سانس لے کر کہا،
اوگی کے نام کو کینسل کرو، اوگی کِسی کا نام  نہیں ہوسکتا۔ اور اس نے یہ بھی کہا کہ ‘اوگی کا خیال رکھنا’… یعنی اوگی میرے پاس ہے۔ اس کا مطلب ہے اوگی نہیں ہوسکتا۔۔۔

حامد حیرت سے بولا،
ہیں؟ اوگی تیرے پاس کہاں سے آیا کون ہے اوگی؟

ولید نے چہرے پر سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے کہا،
تو ۔۔  اوگی اور کون؟

حامد چونک کر بولا،
ہیں؟ میں اوگی ہوں؟

ماہی ہنستے ہوئے بولی،
ہاں، لگ بھی رہے ہو۔۔۔۔

حامد جھنجھلا گیا،
چپ کرو تم! لیکن حارث نے مجھے اوگی کیسے بولا؟ وہ تو مجھ سے ملا بھی نہیں تھا؟

ولید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا،
میں نے بتایا ہوگا تیرے بارے میں… چھوڑو، آگے بولو، باقی نام بتاؤ۔۔۔۔

حامد نے فہرست پڑھنی شروع کی،
اس نے ماہی کو اولیویا کہا، اس کا مطلب ہے اولیویا بھی تیرے پاس ہے۔۔۔۔

ماہی نے حیرت سے کہا،
پتا نہیں کیا سوچ کر مجھے اولیویا بول دیا۔۔۔

حامد نے شرارت سے کہا،
ویسے آپس کی بات ہے، مجھے اوگی بننے میں کوئی مسئلہ نہیں… تم اپنا سوچو، ڈرپوک گ اولیویا! اولیویا ڈرپوک  ہوتی ہے۔۔۔

ماہی فوراً بھڑک گئی،
ماہی کوئی ڈرپوک نہیں۔۔۔۔

ماہی کی اس بات پر ولید چونکا پھر سنجیدگی سے کہا،
ہاں، صحیح کہہ رہی ہے، ماہی ڈرپوک نہیں ہے۔ حارث نے اولیویا مہر کو کہا ہے… وہ ہر بات پر اسے ڈرپوک کہتا ہے۔۔۔

ماہی فوراً خوش ہو کر بولی،
آہاں!  دیکھا؟

حامد الجھ گیا،
اب یہ مہر کون ہے؟ یہ کہاں سے آگئی بیچ میں؟

ولید نے ہاتھ اٹھا کر کہا،
یہ چھوڑو، آگے کے نام بتاؤ۔۔۔

حامد نے فہرست دہرائی،
جیک، باب، جوی، مارکی، اور ڈی ڈی۔۔۔

ولید نے سوچتے ہوئے کہا،
ہمم… جیک… اوگی کا کون تھا؟

حامد فوراً بولا،
بھائی۔۔۔

ولید نے سر ہلا کر کہا،
نہیں، اتنا تو میں حارث کو جانتا ہوں، وہ مجھے فرضی بھی کسی  کا بھائی نہیں بنا سکتا۔ اگر اوگی تم ہو، تو جیک میں نہیں ہوسکتا۔۔۔

حامد حیرت سے بولا،
ہیں…؟ اتنا اوبیسڈ ہے وہ تم سے؟

ماہی نے تیزی سے  کہا،
اس سے بھی زیادہ۔۔۔

ولید نے سر جھٹک کر کہا،
چھوڑو، آگے کے نام بتاؤ۔۔۔۔

حامد نے باقی نام گنے،
باب، جوی، مارکی، اور ڈی ڈی۔۔۔

ولید نے سوچا اور بولا،
ہمم… باب وہ اپنے آپ کو کہہ رہا ہے…

ماہی اور حامد نے بیک وقت حیرت سے کہا،
ہیں؟

حامد نے دکھ بھرے انداز میں کہا،
باب تو اتنا موٹا ہے گندا سا ہے… اپنے آپ کو باب بول دیا؟

ولید نے جھنجھلا کر کہا،
آگے بولو، وقت ضائع مت کرو..

حامد نے جلدی سے کہا،
جوی، مارکی، ڈی ڈی…

ولید نے فوراً تجزیہ کیا،
جوئی مجھے کہا، ڈی ڈی پاپا کو، اور مارکی ماہی کو…

ماہی فوراً چونک گئی،
ہیں؟ یہ مارکی کون ہے؟

حامد نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
کاکروچ….

ماہی غصے سے بولی،
اس سے اچھا تو میں اولیویا ہی ٹھیک تھی…

حامد نے ہنستے ہوئے کہا،
ہاہاہا! حارث نے تمہیں بالکل صحیح نام دیا! تم مارکی ہی ہو….

ماہی نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا،
شٹ اپ….

حامد نے مزید چھیڑتے ہوئے کہا،
ویسے سوچو، تمہاری اور مارکی کی شخصیت میں کافی چیزیں ملتی ہیں… دونوں کی حرکتیں عجیب، دونوں ضدی، اور دونوں کو کوئی زیادہ سنجیدہ نہیں لیتا….

ماہی نے ایک تیز گھونسہ حامد کے کندھے پر جڑ دیا،
بکواس بند کرو۔۔ میں کاکروچ نہیں ہوں…

حامد نے ہنستے ہوئے ہاتھ جوڑے،
اچھا، اچھا! سوری، محترمہ مارکی….

ماہی نے گھور کر کہا،
مجھے اولیویا ہی رہنے دو…
لیکن حارث نے یہ کس سینس میں تمہیں جوئی کہا ماہی کو مارکی اور ڈی ڈی تُمہارے ابو کو۔۔

ولید نے سوچتے ہوئے کہا،
“ماہی، مارکی… ‘ ایم ‘ سے شروع ہوتا ہے، اس لیے حارث نے ماہی کو  مارکی کہا۔ اور ڈی ڈی موٹا ہوتا ہے، جو ہمارے ڈیڈ ہیں… اور جوی مجھے کہا کیونکہ میں تمہیں تنگ کرتا ہوں اور تُم ہی اوگی۔۔۔

ماہی کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
“اس ‘ ایم’ نے مجھے کاکروچ بنا دیا؟!
لیکن ضروری تو نہیں صِرف ایم کی وجہ سے حارث نے مُجھے مارکی کہہ دیا۔۔

ولید نے کندھے اچکا کر کہا،
ہاں، اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور ویسے بھی مارکی جو ہے، وہ کافی… تمہاری طرح تیز اور چالاک ہوتا ہے۔

حامد نے ہنستے ہوئے کہا،
نہیں بھائی! مارکی تو سب سے زیادہ شرارتی ہوتا ہے، دوسروں کو تنگ کرتا ہے، اور بھاگ کر چھپ بھی جاتا ہے! حارث نے بالکل صحیح سوچا۔۔۔۔

ماہی نے آنکھیں گھما کر کہا،
اب دیکھنا میں تُمہارے اوپر اصلی کا کاکروچ چھوڑ کر دکھاؤں گی،

حامد نے فوراً ہاتھ جوڑ لیے،
نہیں نہیں، دیکھو بات یہ ہے کہ… کاکروچ کو بھی عزت دینی چاہیے، آخر وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں، جیسے تم ہو۔۔۔۔

ماہی نے گھور کر کہا،
حامد، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔۔۔

ولید نے پھر بیزاری سے کہا،
تم دونوں پھر شروع ہوگئے؟ اصل مسئلہ حارث کا ہے، اور تم دونوں یہاں کاکروچ کی عزت کے پیچھے پڑے ہو۔۔۔

ماہی نے جلدی سے خود کو سنجیدہ کیا اور کہا،
ٹھیک ہے، تو اب کیا کرنا ہے؟

حامد نے فوراً بات بدلی،
بھائی، جیک رہ گیا۔۔۔۔

ولید نے گہری سانس لے کر کہا،
ہاں، ایک تو رہنا ہی تھا۔ جیک ہی اس مافیا کا نام ہوگا… تم لوگ فوراً معلوم کرو کہ جیک نام کا کون سا مافیا ہے۔۔۔
حامد جیسے ہی نام پر پہنچا، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ حیرت اور صدمے سے بولا،
جیک؟  نہیں، بھائی… جیک کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ کیوں حارث کو پکڑے گا؟ نہیں، نہیں…

ولید نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا،
کیوں؟ کیا ہوا؟ جیک نہیں ہوسکتا؟ ویسے بھی یہ نام کسی انسان کا ہی لگ رہا ہے۔

حامد کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ وہ گھبرا کر بولا،
وہ… وہ ایم ڈی کی جنگ ہے! مسٹر جیک مافیا کے ساتھ! مسٹر جیک ہمارا بہت بڑا دشمن ہے کافی ٹائم سے ہمارے پیچھے لگا ہوا ۔۔۔ اور اُس کے بیٹے  کی ٹیم کو ہی  ہم نے پچھلی جنگ میں  سبق سکھایا تھا اور اُس کے بیٹے نے ہی ایم ڈی کی خبر لیک کی تھی۔۔۔اور پھر  اس کی پوری ٹیم پکڑی گئی تھی اور ہماری وجہ سے اُس کے بیٹے نے خودکشی کرلی۔۔۔

حامد نے جلدی سے یاد کرتے ہوئے کہا،
جب میں یہاں آرہا تھا، تو اس کے اسسٹنٹ کا میسج آیا تھا کہ نادرن ایریا کے پاس شام چار لبجے پہنچو… لیکن میں نے منع کردیا تھا! میں نے کہا تھا، ابھی نہیں، کل صبح فجر کے بعد۔۔۔

ولید نے پریشانی سے حامد کی طرف دیکھا۔۔
لیکن  اس نے حارث کو کیوں پکڑا؟

ماہی کی آنکھیں اچانک کچھ یاد آنے پر پھیل گئیں، وہ جلدی سے بولی،
میں نے جیک کا نام کہیں دیکھا ہے۔۔۔

ولید نے فوراً پوچھا،
کہاں؟

ماہی نے تھوڑا سوچا اور پھر بولی،
باکسنگ کلب میں۔۔۔

ولید حیرانی سے بولا،
باکسنگ کلب؟!

ماہی نے سر ہلایا،
ہاں! ایک دن یونیورسٹی کے بعد حارث مجھے باکسنگ کلب لے کر گیا تھا۔ وہاں ایک بورڈ پر جیتنے والوں کے نام لکھے تھے… وہاں ‘مسٹر جیک ایونز’ کا نام سب سے اوپر تھا، اور حارث کا نام دوسرے نمبر پر۔۔۔

ولید کا چہرہ سنجیدہ ہوگیا،
تو حارث وہاں لڑنے جاتا ہے؟

ماہی نے اثبات میں سر ہلایا،
ہاں، روز۔۔۔۔

ماہی نے تھوڑا سوچ کر کہا،
لیکن جیک سے حارث کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی! میں نے حارث سے پوچھا تھا کہ یہ فرسٹ نمبر پر کون ہے؟ تو کہنے لگا، ‘میں نہیں جانتا، کبھی ملاقات نہیں ہوئی… لیکن اگر ہوتی تو اسے بھی ہرا دیتا میں۔۔۔
حارث کی تقریباً وہاں کے سارے ممبرز سے مقابلہ ہو چکا تھا، تبھی تو وہ دوسرے نمبر پر تھا… لیکن اس نے کہا کہ یہ جیک کب آتا ہے اور کب جاتا ہے، اسے کبھی پتہ نہیں چلتا۔۔۔

حامد نے حیرت سے ماہی کی طرف دیکھا اور بھنویں اچکا کر بولا،
جب تم کلب پر گئی تھی، تو کیسا ماحول تھا وہاں کا؟

ماہی نے ذرا سوچا، جیسے وہ اس دن کے مناظر کو ذہن میں واپس لانے کی کوشش کر رہی ہو۔ پھر آہستہ آواز میں بولی،
بہت عجیب تھا… وہاں کے لوگ بھی بہت عجیب تھے۔ سب کے چہروں پر ایک سختی تھی، جیسے وہ کسی عام جگہ پر نہیں بلکہ کسی جنگ کے میدان میں ہوں۔ ہر طرف تناؤ محسوس ہو رہا تھا، جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو…

حامد نے بھنویں سکیڑ کر کہا،
تم لڑکی ہو کر ایسے کلب کے اندر آرام سے چلی گئیں؟ اور لڑائی دیکھ کر بھی آگئیں؟

ماہی نے کندھے اچکائے اور لاپرواہی سے بولی،
ہاں، حارث مجھے لے کر گیا تھا۔ وہ وہاں کے سب لڑکوں سے واقف تھا، اور شاید اسی لیے کسی نے مجھ پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

حامد کا منہ کھل گیا، اس نے بے یقینی سے ولید کی طرف دیکھا، پھر دوبارہ ماہی کی طرف پلٹا،
بھائی… کیسی لڑکی ہو تم؟ تمہیں وہاں گھبراہٹ محسوس نہیں ہوئی؟ تمہاری سانس نہیں رکی؟ وہاں کا ماحول تو دم گھوٹنے والا ہوتا ہے۔۔۔

ماہی نے بے پرواہی سے سر جھٹکا اور ہلکا سا مسکرا کر بولی،
شروع میں تھوڑی عجیب فیلنگ آئی تھی، لیکن پھر ایڈجسٹ ہوگئی۔ اور ویسے بھی، میں وہاں لڑنے تھوڑی گئی تھی، بس دیکھنے گئی تھی۔

حامد نے بے اختیار اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا، جیسے یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ وہ کس سے بات کر رہا ہے۔
یااللہ…

ولید نے طنزیہ انداز میں ماہی کو گھورا اور ہنکارہ بھرا،
اس کا بس چلے تو یہ وہاں جا کر لڑ بھی لے…

ماہی نے غصے سے آنکھیں سکیڑیں اور ولید کو گھورتے ہوئے بولی،
ہاں، تو؟ تمہیں کیا لگتا ہے، میں نہیں لڑ سکتی؟

ولید نے ماہی کو نظر انداز کرتے  سنجیدگی سے کہا،
اگر کلب میں واقعی عجیب لوگ تھے، تو ہو سکتا ہے وہ صرف فائٹرز نہ ہوں… بلکہ جیک کے آدمی بھی ہوں۔

حامد نے گہری سانس لی اور سنجیدگی سے کہا،
فائٹر کو چھوڑو، وہ پورا کا پورا کلب ہی جیک کا ہوگا۔ تبھی تو اس کا نام فرسٹ سے ہٹ نہیں رہا…

ولید کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی، جیسے کوئی پہیلی حل ہونے لگی ہو۔
ہاں، یہ ممکن ہے! اگر وہ کلب جیک کا ہے تو اس کے آدمی وہاں ضرور ہوں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہیں جیک نے حارث کو دیکھا ہو ۔۔۔

حامد نے سنجیدگی سے کہا،
ہاں، وہ حارث کی فائٹنگ اسکلز سے امپریس ہو گیا ہوگا اور اسی لیے اس نے حارث کو کڈنیپ کیا۔ شاید اس کلب کو بنانے کا مقصد ہی یہی ہو کہ کوئی اچھا فائٹر اس کے ہاتھ لگ جائے۔ خود تو سالا پچاس سال کا بُڈھا ہو چکا ہے۔۔۔

ولید نے گہری سانس لی
تو اس کا مطلب…

حامد نے سنجیدگی سے سر ہلایا،
ہاں، وہی…  مطلب ہے۔

ماہی دونوں کو گھورتے ہوئے بولی،
میں تم دونوں کے مطلب کی مطلب نہیں سمجھ سکتی… منہ سے صاف صاف بولو، کیا مطلب ہے؟

حامد نے ایک لمحے کو ولید کی طرف دیکھا اور پھر ماہی کی طرف مڑ کر بولا،
مطلب… جیک چاہتا ہے کہ حارث ایم۔ڈی مافیا کے خلاف کھڑا ہو۔ وہ حارث کو اس لیے اغوا کرکے لے گیا ہے تاکہ وہ ایم۔ڈی کو شکست دے سکے۔

ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں،
تو اب…؟؟

ولید نے دھیرے سے کہا،
اب جنگ ہوگی۔۔۔

ماہی کی آنکھیں حیرت سے مزید پھیل گئیں،
ہین… ہین؟
حامد نے بھی وہی ردعمل دیا،
ہین… ہین؟!

ولید نے سنجیدگی سے کہا،
تم بس کل صبح فجر کے بعد ایم۔ڈی کے ساتھ جنگ میں شامل ہو جانا، مجھے جگہ کا پتہ چل گیا ہے۔ میں حارث کو وہاں سے خود بچا لوں گا۔۔۔

حامد بےچینی سے بولا،
پر…؟
ولید نے ایک قدم آگے بڑھا کر حامد کے کندھے پر ہاتھ رکھا،
بھروسا رکھ، میں اکیلا سب سنبھال لوں گا۔ تُو نے پہلے ہی میری اتنی مدد کر دی، یہی بہت ہے۔
یہ کہہ کر ولید نے حامد کو زور سے گلے لگا لیا اور آہستہ سے سرگوشی کی،
تھینک یو۔۔۔۔
پھر وہ پیچھے ہٹ کر سیدھا ہوا، اور فیصلہ کن انداز میں بولا،
چلو، ہمیں کل صبح کی تیاری بھی کرنی ہے۔
یہ کہہ کر وہ ماہی کی طرف دیکھتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھا، دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔
ماہی نے بس ایک نظر اس پر ڈالی، سر جھٹکا اور آگے بڑھ گئی، مگر حامد کے ذہن میں عجیب سی بےچینی چھا گئی۔
حامد نے آخر کار تنگ آ کر کہا،
کیا مصیبت ہے یار؟

گھر پہنچ کر، حامد تھکن سے بستر پر گرا اور چھت کو گھورتے ہوئے سوچنے لگا،
اب کیا کرنا ہے؟ ولید تو کہہ گیا کہ سب سنبھال لے گا، مگر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کچھ غلط ہونے والا ہے؟

حامد نے ایک گہری سانس لی اور بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ وہ ذہنی طور پر پریشان تھا، بےچین تھا، جیسے کوئی خطرہ بہت قریب ہو۔

اچانک، اس کے فون کی اسکرین روشن ہوئی۔
”ایم۔ڈی“ کا نام جگمگایا۔
حامد کی نظریں اسکرین پر جم گئیں۔
اوکے، تم سب کو لے کر پہنچ جانا۔
بس اتنا سا میسج، اور حامد کی بےچینی میں مزید اضافہ ہوگیا۔۔۔۔

++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *