Aakhri sehr

Aakhari Sehr Episode 6 written by Amara Aziz

آخری سِحر
قلم از: عمارہ عزیز
6 قسط نمبر

 

پانچوں بازار میں پھر ہی رہے تھے کہ التمش کی نظر ملکہ اور مشال پر پڑی۔ انہیں دیکھتے ہی جیسے التمش کو غصہ آتا ہو۔ ملکہ اور مشال بھی اپنی باتوں میں مصروف تھے کہ مشال کی نظر التمش پر پڑی جو ان دونوں کو آنکھیں ٹکا کر نہایت غصے سے دیکھ رہا تھا۔

مشال ملکہ سے مخاطب ہو کر بولی: “میں آتی ہوں کچھ دیر میں۔” وہ پرجوش لہجے میں بول رہی تھی اور
پھر وہ التمش کے پاس چلی گئی۔

ملکہ نے اسے مُڑ کر دیکھا تو پایا کہ وہ التمش کے پاس گئی ہے۔ ملکہ دیکھ کر افسوس سے مسکرانے لگی اور دل میں سوچا: “حد ہے، یہ پاگل ہے! پھر ملکہ واپس محل چلی گئی۔

مشال بولی: “آپ کیسے ہیں؟” اس کے لہجے میں شوخی تھی۔

التَمش بولا: “پہلے جیسا ہی ہوں، آپ سنائیے؟” التَمش بات مشال سے کر رہا تھا لیکن اس نے ملکہ کو محل کی طرف جاتے دیکھا تھا۔

مشال مسکراتے ہوئے بولی: میں ٹھیک ہوں اور خوش بھی۔

التَمش نے ہاں میں سر ہلایا اور جواب نہ دیا۔

مشال نے یہ محسوس کیا، اس کی مسکراہٹ جیسے مٹ گئی۔ وہ بولی: “کیا ہم اکیلے میں کچھ بات کر سکتے ہیں؟”

التَمش نے دوستوں کی طرف دیکھا۔

افسان بولا: “جاؤ جاؤ کر لو اکیلے میں بات، ہمیں کیا دیکھ رہے ہو؟”

آریب بولا: “ہماری اجازت چاہیے کیا ہمارے فرما بردار بچے کو؟

” التَمش بیزار سا منہ بنا کر بولا: “ہا ہا، سو فنّی! تم لوگوں کی اجازت نہیں چاہیے بلکہ بول رہا ہوں کہ اب تم لوگ سونے چلے جاؤ۔ چلو!

ایلمارا بولی: نہیں، ابھی نہیں ہم جائیں گے۔

افسان بولا: ہاں بھائی، ہم کیوں جائیں؟ خود تو اکیلے اکیلے موجیں کرنے جا رہے!

التَمش نے اسے ایک تھپکی لگاتے ہوئے کہا: “تمیز کر!”

افسان نے جواب میں اس سے زیادہ زور کی تھپکی کمر پر لگائی اور بولا: “مار مت”

زرکا بولی: “یار میں تو جا رہی ہوں، نیند آ رہی ہے، تم لوگ بھی آ جاؤ۔”

آریب بولا: “چلو یار، سونے چلتے ہیں۔”

پھر وہ سب محل کی طرف چلے گئے۔ مشال اور التَمش اب آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوئے بات کرنے لگے۔ باہر اب خاموشی چھائی تھی اور بازار میں خاصا لوگ بھی نہیں تھے۔

التَمش شرمندگی سے بولا: “معاف کرنا، ہم کالج سے ساتھ ہیں تو وہ کچھ بھی بولتے…”

مشال مسکراتے ہوئے بولی: “کوئی بات نہیں، مجھے برا نہیں لگا۔”

التَمش سنجیدگی سے بولا: “جی بولیں، آپ کچھ کہنا چاہتی تھیں؟ میں چاہتا ہوں بات جلدی ہو جائے، رات ہو گئی ہے، آپ کو بھی آرام کرنے جانا ہوگا۔”

مشال بولی: “جی میں سمجھ رہی ہوں… میں جو کہنا چاہتی ہوں شاید وہ بات آپ کو بری لگے۔”

التَمش مسکراتے ہوئے بولا: “نہیں نہیں، آپ بولیں، مجھے برا نہیں لگے گا۔ اور اگر لگا بھی تو میں بھولنے کی کوشش کروں گا۔”

مشال بولی: “میں جانتی ہوں ملکہ کا آپ کے ساتھ سلوک کچھ اچھا نہیں لیکن یقین کریں وہ دل کی بری نہیں ہے۔

التَمش نے مشال کو دیکھتے ہوئے ایک جگہ رُک کر بولا: “ہاں لیکن ہمارے اس حال کی ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہے۔

” مشال بولی: “میں جانتی ہوں لیکن یقین کریں یہ ہماری بہتری کے لیے ہے۔ انہوں نے ہماری بھلائی کے لیے یہ سب کیا، ایک دن یہ بات ثابت ہوگی۔

التَمش نے اپنی آنکھیں مایوسی سے گھما کر کہا: “کیا چاہتے ہو، اس کے اس احسان کے بدلے ہم اس کے غلام بن جائیں؟

” مشال بولی: “یہ مطلب نہیں میرا۔ میں چاہتی ہوں آپ ان سے ایسی کوئی بات نہ کیا کریں جو ان کو بری لگے۔

” التَمش بیزاری سے بولا: “اچھا، اب خیال کروں گا۔” اور جانے لگا۔

مشال بولی: “رک جائیں… سنیے!” پھر وہ التَمش کے پیچھے بھاگ کر گئی اور التَمش کا ہاتھ پکڑ لیا۔ التَمش رکا۔

مشال التَمش کے قریب آ کر بولی: “پلیز آپ میری بات سمجھیے۔

 اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ وہ بولی: “مجھے اچھا نہیں لگتا جب ان کو کوئی کچھ کہے اور پھر وہ افسردہ ہو جائیں۔

” التَمش اس کے احساسات کو سمجھتے ہوئے بولا: “لیکن مجھے ایسا کبھی نہیں لگا کہ اسے برا لگا یا وہ افسردہ ہوئی۔

” مشال بولی: “وہ اپنے احساسات ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ آپ پلیز ایسی بات مت کیا کریں۔

 التَمش اس کے لہجے میں افسردگی محسوس کرتے ہوئے بولا: “اچھا، اب نہیں ایسی بات کہوں گا۔ تم رو تو مت۔

” مشال بولی: “میں رو تو نہیں رہی۔

التَمش بولا: “میں دیکھ سکتا ہوں آپ کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے ہیں۔

” مشال بولی: “اوہ… ہاں۔

” التَمش نے دیکھا کہ مشال نے ابھی تک اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ وہ بولا: “میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔

” مشال شرمندگی سے بولی: “اوہ، آئی ایم سوری! میں معافی چاہتی ہوں، مجھے احساس نہیں ہوا۔”

التَمش بولا: “کوئی بات نہیں۔ کیا آپ کچھ اور بولنا چاہتی ہیں؟

” مشال بولی: “شکریہ میری اس بات کو ماننے کا، آپ بہت اچھے ہیں۔

” التَمش تھوڑا مسکرایا اور بولا: “شکریہ… چلیں، اب محل چلتے ہیں۔

” پھر وہ دونوں بات کرتے ہوئے محل کی طرف روانہ ہو گئے۔

فرش پر گرا وہ سپاہی بولا مجھے معاف کر دیں مہاراج!

وہ ڈر کر پیچھے کی طرف کھسک رہا تھا۔ وہ خوفناک شخص جسے سب “مہاراج” بلاتے تھے، وہ اس فرش پر گرے سپاہی کے قریب بغیر رُکے بڑھ رہا تھا۔

سپاہی لگاتار روتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے چیختا ہوا بولا: مجھے معاف کر دیجیے مہاراج! میں نے اپنی پوری کوشش کی لیکن… آپ مجھے ایک موقع اور دے دیجیے مہاراج!

مہاراج یہ سن کر رُکا۔ سپاہی بھی وہیں رک گیا۔ خاموشی چھا گئی۔ آس پاس کھڑے چار سپاہی خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ مہاراج کچھ لمحوں بعد اُس سپاہی کے پاس گیا

اور بولا: “اچھا… ایک اور موقع دوں؟” سپاہی لاچاری اور اُمید سے

بولا: “جی، میں ایک اور موقع چاہتا ہوں… آپ مجھے ایک اور موقع دیجیے، میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا!”

وہ یہ بول ہی رہا تھا کہ مہاراج بے انتہا غصے سے اُس سپاہی کی طرف بڑھا اور اپنی پوری جان سے اُس کے مُنہ پر اپنا پاؤں رکھا۔ اس کے جوتے ذرا ایڑی والے تھے وہ سپاہی کی چیخیں پورے محل میں گونجنے لگیں۔ پاس کھڑے سپاہیوں نے درد محسوس کرتے ہوئے مُنہ دوسری طرف موڑ لیے۔ مہاراج اُس کا مُنہ اپنے جوتے سے اور تیزی سے مسلتے ہوئے

بولا: “اگر مجھے مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے تو کامیاب ہو کر آتے! موقع ایک بار ہی ملتا ہے!”

وہ لگاتار پاؤں پر زور دے رہا تھا اور سپاہی کی چیخیں برداشت سے باہر ہو رہی تھیں۔

مہاراج بولا: “اور جس نے کامیاب ہونا ہو… وہ بازی لے آتا ہے! سمجھے؟”

اس نے اب سپاہی کے مُنہ سے پاؤں ہٹایا اور اسے پاؤں سے دُور دھکیلا۔

پھر سپاہیوں کو حکم دیا: “لے جاؤ اسے! اُس قید خانے میں۔ نہ اس کے زخموں پر کوئی مرہم رکھا جائے گا اور نہ ہی کوئی کھانا پینا دیا جائے گا۔ سمجھے؟”

سب نے حکم کی تعمیل کی۔ اور جب سپاہی کو اُٹھانے گئے تو وہ درد سے تڑپ رہا تھا۔ اُس کا مُنہ اس طرح بگڑ گیا تھا کہ دیکھنا مشکل تھا۔ خون بھی بہہ رہا تھا۔ سپاہی کی چیخیں اب بھی لگاتار گونج رہی تھیں۔ ایک سپاہی نے منہ پھیر لیا، وہ اُس کے زخم نہیں دیکھ سکتا تھا۔ لیکن حکم کی وجہ سے اُس نے کچھ نہ کچھ کر کے سپاہی کو اُٹھایا اور پھر قید خانے لے گیا۔

مہاراج بیزاری سے بولا: “اوہ! یہ جوتوں پر منحوس کا خون لگ گیا!

پھر اونچا بول کر کہا: “جاؤ، جا کر نئے جوتے لاؤ اور یہ پاکھ دو!” سپاہی نے ہاں میں سر ہلایا اور چلا گیا۔

مہاراج اب تخت پر غصے سے بیٹھ گیا اور سوچوں میں مگن ہو گیا۔

اب التمش اور مشال محل میں داخل ہو چکے تھے۔

التَمش سنجیدگی سے بولا: “اب آپ کو جانا چاہیے آرام کے لیے۔

” مشال مسکرائی: “جی، میں چلتی ہوں۔ شب بخیر۔

” التَمش نے سر ہلایا۔ ملکہ کے

دروازے پر دو سپاہی رات کے وقت ملکہ کی حفاظت کے لیے موجود ہوتے تھے۔

مشال نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر جانے سے پہلے ایک بار پھر مُڑ کر التَمش کو دیکھا۔ التَمش اب اپنے کمرے میں جانے کے لیے مُڑا ہی تھا کہ

مشال اُونچا بولی: “سُنیں!”

التَمش چونکا اور پیچھے مُڑا۔ وہ بے ساختہ بولا: “اوہ… کیا کر رہی ہو؟ آہستہ بولو!” وہ ذرا غصے میں بولا۔

مشال کو جیسے اُس کے غصے سے کوئی فرق نہ پڑا ہو۔ وہ مسکراتے ہوئے پھر سے اونچا بولی: “شکریہ میری بات ماننے کا۔ میں اُمید کرتی ہوں اِس بات پر قائم رہو گے۔

” التَمش نے غصے سے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا اور بولا: “ہاں، رہوں گا! یہ بات آہستہ بھی ہو سکتی ہے۔”

مشال اور مسکرائی اور کمرے میں چلی گئی۔ دروازہ بند ہو گیا۔ سپاہی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

التَمش نے بیزاری سے سر ہلایا اور سپاہیوں سے مخاطب ہو کر کہا: “اس کا دماغ ٹھیک تو ہے نہ؟

” ایک سپاہی بولا: “ہمیں کیا پتہ ہو! دوسرا سپاہی التَمش کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔

التَمش مذاق میں بولا: “لگتا ہے تم جانتے ہو، مانے اِس لیے پوچھا کہ تم لوگ رات کے وقت یہیں موجود ہوتے ہو۔ یہ ایسی ہی حرکتیں کرتی ہے؟”

دونوں سپاہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے اور بولے: “ہاں، کبھی کبھی وہ ایسی ہی زور زور سے ہنستی ہے۔”

التَمش بولا: “ہُم… اچھا پھر۔” وہ اُباسی لینے لگا۔ چلو میں سونے جا رہا ہوں۔

پھر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اُس نے دیکھا کہ آریب اور افسان وہیں بے ڈھنگے طریقے سے لیٹے ہوئے ہیں۔

یہ دیکھ کر وہ سوچنے لگایار میں  بہت خوبصورت طریقے سے لیٹتا ہونا جیسے

پھر وہ بستر پر لیٹ گیا اور جلد ہی نیند اُس پر طاری ہو گئی، اور وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

محل کے وسیع ہال میں صبح کی نرم روشنی سنہری پردوں سے چھن کر اندر آرہی تھی۔ تخت کے آس پاس کی فضا میں ہلکی سی تازگی اور خوشی کا احساس تھا۔

سب چہروں پر مسکراہٹیں تھیں، جیسے ایک نئی صبح نے سب کے دلوں میں امید جگا دی ہو۔ احان سب سے پہلے ہال میں آیا۔

نیلے رنگ کی ہلکی سی چمکدار شرٹ اور سفید پینٹ میں وہ واقعی سب سے نمایاں لگ رہا تھا۔ اس کے بال خوبصورتی سے سنوارے ہوئے تھے اور چہرے پر سکون بھری مسکراہٹ تھی۔ ہر کوئی ایک لمحے کے لیے اسے دیکھ کر ٹھٹک گیا ۔

ملیکہ نے آج آسمانی رنگ کی لمبی فراک پہنی ہوئی تھی جس پر باریک چاندی کا کام ہوا تھا۔ ہلکے کھلے بال، نرم سی خوشبو، اور چہرے پر فطری نرمی وہ واقعی سب سے حسین لگ رہی تھی۔ جب وہ تخت کے قریب آئی تو فضا جیسے چند لمحوں کے لیے تھم سی گئی۔

افسان نے خاکی پینٹ اور گہرے سبز رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کی سنجیدہ مگر پُراعتماد شخصیت ہمیشہ کی طرح سب کو متوازن رکھے ہوئے تھی۔

الیمارا نے گلابی رنگ کی ہلکی جھلملاتی فراک پہنی، بال سادہ چوٹی میں بندھے ہوئے، مگر انداز دلکش۔

زرکا نے ہلکے سنہری رنگ کی فراک کا انتخاب کیا تھا، جو صبح کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے مسکراہٹ تھی۔

آریب نے سفید شرٹ اور سیاہ پینٹ پہنی ہوئی تھی، اس کے انداز میں ہمیشہ کی طرح ایک خاموش وقار تھا۔

مشال نے ہلکے جامنی رنگ کی فراک پہنی، جس کا دامن نرم لہروں کی طرح جھول رہا تھا۔

وہ سب کے ساتھ بات کرتے ہوئے خوش اور مطمئن نظر آرہی تھی۔

سب ایک دوسرے سے ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف تھے، کسی کے چہرے پر تھکن یا اداسی کا شائبہ تک نہ تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے محل کے  ہال میں صرف روشنی، مسکراہٹیں کا احساس موجود ہو۔ محل کے وسیع ہال میں ملکہ تخت پر موجود تھی۔

مشال بنا جھجک ملکہ کے تخت کے پاس گئی اور بولی: “اُفف، آج کیا غضب ڈھا رہی ہیں آپ، ملکہ جی!”

ملکہ نے حیرت سے اُسے دیکھا اور بولی: “حد ہے، ایسے الفاظ استعمال نہ کیا کرو۔ کتنی بار سمجھایا ہے تمہیں!

 مشال نے ہنستے ہوئے جواب دیا تو آپ اتنی اچھی لگ ہی کیوں رہی ہیں، ہمم؟

” ملکہ ذرا مسکرائی اور بولی: “تم بھی کسی سے کم نہیں لگ رہیں۔”

مشال بولی: “سچ میں؟ شکریہ!”

ملکہ نے مشال کے لہجے میں خاصا بدلاؤ اور شوخی محسوس کی، مگر اُسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ اُسے دل سے پسند کرتی تھی۔ کچھ دیر بعد مشال التَمش کے پاس جا رُکی۔

التَمش افسان سے کچھ بات کر رہا تھا کہ مشال درمیان میں

بولی: “کیا باتیں ہو رہی ہیں؟” افسان چونکا اور جلدی سے بولا: “نہیں، نہیں… کچھ نہیں!”

التَمش نے ایک بیزار سی مسکراہٹ دی اور بولا: “کوئی خاص بات نہیں تھی۔

” مشال بولی: “میں نے آپ سے کچھ بات کرنی ہے، التَمش!”

التَمش نے حیرت سے اپنی ابرو اُٹھائی، افسان کی طرف دیکھا اور سر ہلاتے ہوئے بولا: “ہاں ہاں، کچھ بات کرنی ہے۔

افسان نے دبی ہنسی کے ساتھ کہا: ہاں بھئی، ہم نے کون سا منع کیا؟ جا، جا اپنی محبوب

” وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ التَمش نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور

بولا: “حد میں رہو! فضول باتیں مت کرو، وہ میری بہن جیسی ہے!” پھر اُس نے مشال کی طرف دیکھا۔

مشال کی مسکراہٹ جیسے مر گئی ہو۔ وہ ناپسندیدگی کے باوجود ہلکا سا سر ہلانے لگی۔

التَمش بولا: “چلیے، اُدھر سائیڈ پر چل کر بات کر سکتے ہیں ہم۔

” دونوں ایک طرف چلے گئے۔ افسان اُنہیں جاتا دیکھ رہا تھا کہ آریب اُس کے پاس آیا اور

بولا: “کیا کر رہا ہے تُو؟” افسان نے کوئی جواب نہ دیا۔

آریب نے اُس کی نظروں کا پیچھا کیا، جو التَمش اور مشال پر جمی ہوئی تھیں

اور ہنستے ہوئے بولا: “نا ہو، دُکھی! تجھے بھی کوئی مل جائے گی!” افسان نے بیزاری سے آریب کی طرف دیکھا

اور بولا: “حد ہے، تجھے شاید محبوباؤں کی ضرورت ہوگی، مجھے نہیں!

” آریب ہنستے ہوئے بولا: “ہا ہا، دیکھ رہا ہوں جتنی ترسی ہوئی نگاہوں سے تُو اُنہیں دیکھ رہا ہے، کہیں دل ہی دل میں بدوا تو نہیں دے رہا!”

افسان بولا: “چپ کر گدھے!”

ادھر التَمش بولا: “جی، بولیے… آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟

” مشال بولی: “کچھ خاص نہیں، ویسے آج آپ اچھے لگ رہے ہیں۔”

التَمش نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا: “اچھا؟ شکریہ۔

” مشال مسکرائی، مگر اُس کی مسکراہٹ میں کچھ چھپا ہوا سا احساس تھا  جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو۔

التَمش نے کہا: “ایک بار پھر معاف کیجیے گا، افسان نے پھر کوئی بےہودہ بات کی، تو اُس کی طرف سے میں”

مشال نے بےساختہ اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ التَمش کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

ملکہ تخت پر بیٹھی تھی مگر اُس کی نگاہیں دونوں پر تھیں۔ وہ حیرانی سے اُنہیں دیکھنے لگی اور دل میں

سوچا: “اُفف! یہ لڑکی تو محل میں بیہودگی پھیلا رہی ہے! پاگل ہو گئی ہے کیا!”

محل میں موجود دوسرے لوگ بھی اُنہیں دیکھنے لگے۔ چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں، سرگوشیاں محل میں پھیلنے لگیں۔

التَمش نے فوراً اُس کا ہاتھ ہٹایا اور غصّے میں بولا:

“تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ یہ کیا حرکت تھی؟!

” پھر وہ بنا کچھ سوچے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

دروازہ زور سے بند کیا۔ آواز اتنی تھی کہ مشال اچھل پڑی۔ آریب اور افسان ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے اور بولے: “اوئے ہوئےےےے! رومینٹک سینز!”

مشال کچھ لمحوں کے لیے اپنی جگہ پر جم سی گئی، پھر احساس ہوتے ہی اُس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور حیرت سے بولی:

“یہ… میں نے آخر کیا کر دیا؟ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مجھے…”

 

ملیکہ مشال کو دیکھ ہی رہی تھی اور منہ میں بول رہی تھی:

“اُف! یہ لڑکی میری عزت اور وقار مٹی میں ملا کر رہے گی!”

 

پاس کھڑا سپاہی ملیکہ کو دیکھ رہا تھا، وہ بغیر سوچے بولا:

“ملیکہ! آخر آپ نے ایسی کنیز اپنے لیے کیوں چنی؟ اِسے نہ تو لفظوں کا چناؤ آتا ہے نہ ہی بات کرنے کا کوئی ڈھنگ ہے!”

 

ملیکہ نے غصّے سے سپاہی کو دیکھا اور بولی:

“اب تم مجھے بتاؤ گے کہ میں کیسی کنیز چنوں گی؟ ہاں؟ اب اتنی ہمت آگئی ہے شحرالفین کے سپاہیوں میں؟ اور تم ہوتے کون ہو اُس لڑکی پر تنقید کرنے والے! ایسے سپاہیوں کی شحرالفین میں کوئی جگہ نہیں! سمجھے؟”

 

سپاہی شرمندگی سے بولا:

“معاف کیجیے گا، ملیکہ! مجھے معلوم نہیں میرے اندر اتنی ہمت کیسے آگئی کہ آپ کے سامنے بولنے لگا اور آپ کے فیصلوں پر سوال کرنے لگا۔ میں دل سے معافی چاہتا ہوں، ملیکہ!”

 

ملیکہ نے اپنی نظریں اب محل کی طرف دوڑائیں اور دیکھا کہ ابھی تک لوگوں کے بیچ باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔

یہ دیکھ کر وہ اونچا بولی:

“سب خاموش ہو جائیں!”

 

محل میں موجود لوگوں نے ملیکہ کو حیرت سے دیکھا اور خاموشی چھا گئی۔

 

ملیکہ بولی:

“میں جانتی ہوں مشال نے جو حرکت کی ہے یہ قابلِ قبول نہیں ہے، لیکن اِس کے خلاف بات کرنے سے زیادہ اچھا یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ وہ دُنیا سے آئی ہے انسانوں کی دُنیا سے۔ اور شحرالفین کی دُنیا میں ایسی باتیں برداشت سے باہر ہوتی ہیں۔

لیکن اِن انسانوں کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔

تو میرے خیال سے اگر کوئی انسان ایسی حرکت کرے تو اُس کے بارے میں فضول کہانیاں بنانے کے بجائے اُس کی غلطی سمجھ کر معاف کرنا چاہیے۔

باقی، اِس لڑکی کو میں خود سمجھا دوں گی، یہ میرا کام ہے!”

 

محل میں موجود لوگوں نے شرم سے سر جھکا دیے۔

تھوڑی دیر بعد سب بات پر آمادہ ہوئے۔

 

مشال ابھی بھی اُس کونے میں کھڑی تھی، چہرے پر شرمندگی واضح تھی۔

ملیکہ اپنے تخت سے اُتری اور مشال کے پاس آئی۔

 

مشال نے جیسے ہی ملیکہ کو آتے ہوئے دیکھا تو تیزی سے بھاگ کر ملیکہ کے کمرے میں چلی گئی۔

دروازہ زور سے بند کیا۔

 

ملیکہ نے اُس کے جذبات کی عزت کی اور کچھ لمحے کے لیے اُسے اکیلا چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

 

ملیکہ محل میں موجود لوگوں سے بولنے لگی:

“اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔”

 

لوگ محل سے باہر چلے گئے، لیکن محل کے کمروں میں رہنے والے لوگ وہیں موجود تھے یعنی آریب، زرکا، الیمارا اور افسان۔

وہ سب آپس میں بات کر رہے تھے۔

 

زرکا بولی:

“یار، التَمش کو بہت بُرا لگا ہوگا!”

 

الیمارا بولی:

“ہاں ناں! چلو اُس کے کمرے میں اُسے منانے چلیں!”

 

آریب بولا:

“بھلا ہم نے کیا کیا جو ہم منائیں؟”

 

افسان بولا:

“اسکا مطلب یہ ہے کے ، وہ کیا کر رہا ہے۔ ضرور شرمندہ ہوگا۔ مجھے اُس کی عادت کا پتہ ہے!”

 

آریب بولا:

“ہاں، پھر چلو!”

 

پھر وہ چاروں التَمش کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے۔

ملکہ اب کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی ہوئی اور بولی

“مشال سنو، دروازہ کھولو!” پھر کھٹکھٹ آنے لگی

سپاہی بولا

“ملکہ، میں انہیں باہر آنے کا بولتا ہوں، اگر آپ چاہیں تو دروازہ توڑ دوں۔”

 

ملکہ بولی:

“نہیں، کوئی ضرورت نہیں، میں خود دیکھ لوں گی۔”

 

ملکہ ایک بار پھر کھٹکھٹ آنے ہی لگی تھی کہ مشال نے دروازہ کھول دیا اور پھر کمرے میں اپنے بستر پر جا بیٹھ گئی۔

 

ملکہ اندر گئی اور دروازہ بند کیا، پھر مشال کے پاس جا کر بولی:

“کیا ہو گیا ہے مشال؟”

 

مشال افسردگی سے بولی:

“آخر میں نے ایسا کیوں کر دیا؟ وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا؟”

 

ملکہ بولی وہ کیا سوچے گا؟ ادھر دیکھو، یہاں دیکھو، تم رو رہی ہو۔

 

مشال کے آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔

مشال روتے ہوئے بولی اگر اسنے اب کبھی مجھ سے بات نہیں کری تو کیا ہوگا؟ میں مر جاؤں گی!

 

ملکہ بولی

“چُپ کرو، تم پاگل ہو گئی ہو۔ تمہاری جان اہم ہے تم کسی کے لیے اپنی جان دے دو؟ خاموش رہو!”

 

مشال بولی:

“ہاں، اس کے لیے دے دوں گی۔”

 

ملکہ بات کو سمجھتے ہوئے بولی:

کیا مطلب؟

 

مشال جھجھکتی ہوئی بولی۔

“ہاں، کیونکہ میں اسے پیار کرتی ہوں۔”

 

ملکہ یہ سن کر حیران ہوئی، کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئی، پھر بولی

“اچھا سنو، تمہیں اس سے بات کرتے ہوئے اپنے لہجے اور حرکت پر دھیان دینا چاہیے۔”

 

مشال اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی:

“سہی بول رہی ہیں آپ، لیکن اب میں کیا کروں؟”

 

ملکہ بولی:

“اب کچھ دن بات مت کرو اس سے۔”

 

مشال فورن بولی:

“نہیں! میں ایسے نہیں رہ سکتی!”

 

ملکہ بولی:

“تو اب میں کیا کروں؟”

 

دوسری طرف چاروں بار بار دروازہ کھٹکھٹ رہے تھے، لیکن التمش جیسے اندر موجود ہی نہ ہو۔

 

زرکا بولی:

“حد ہے، یہ بھی نہ! کب سے دروازہ نہیں کھلا رہا!”

 

افسان بولا:

“ہاں زرکا تم ایسا کرو، اسے گالیاں دو تو کھول دے گا!”

 

زرکا نے اسے بے زاری سے دیکھا اور بولی

“پاگل ہوگئے ہو تم؟ تم ایسا کیوں نہیں کرتے، خود ہی تم اسے گالیاں دے دو!”

 

آریب بولا:

“گالیاں نہیں، ہم دروازہ توڑ دیتے ہیں!”

 

ایلمارا بولی:

“پاگل ہوگئے ہو تم دونوں لڑکے دروازہ توڑ دیتے، اگر ہمارا گھر ہوتا تو لیکن نہیں، گھر ہمارا ہے نہ ہی کمرہ اور شاید نہ ہی دنیا!”

 

زرکا بولی

“اور ہاں، اگر سپاہیوں نے آ کر تم دونوں کو گرفتار کر لیا تو تم دونوں کو کون چھوڑے گا؟”

 

افسان بولا

“وہ ہے نا ملیکہ!”

 

زرکا ہنس کر بولی

“نہیں نہیں، انہیں تو سکون ہو جائے گا تم دونوں کیڈ ہو گے!”

 

ایلمارا بولی:

“ہاں صحیح کہا!” پھر دونوں لڑکیاں ہنسنے لگی۔

 

آریب بولا:

“چپ کرو دونوں، ورنہ”

 

ایلمارا بولی:

“ورنہ کیا کیا ہے؟”

 

آریب مذاق میں بولا:

“ورنہ کچھ نہیں بس!”

 

پھر سب ہنس پڑے۔

مشال کی آنکھوں میں امید واضح نظر آ رہی تھی۔ وہ بولی:

“ملکہ، کیا آپ میرے لیے ایسا کریں گی؟ پلیز، میں چاہتی ہوں آپ اُسے منائیں۔”

 

ملکہ حیرانگی سے بولی:

“کیا ہو گیا ہے تمہیں، مشال؟ میں ایک ملکہ ہوں، ایک عام انسان کو منانا؟ مطلب صاف الفاظ میں اُس کے قدموں میں گر جانا؟”

 

مشال کے آنسو پھر سے جاری ہو گئے۔ وہ بولی:

“آپ میری دوست ہیں نا؟ میں آپ کو دل سے اپنا مانتی ہوں۔”

 

ملکہ یہ سن کر مشال کو حیرت سے دیکھنے لگی اور بولی:

“نہیں، ہم دونوں دوست تو نہیں ہیں۔”

 

مشال بولی:

“جھوٹ مت کہو، آپ مجھے اپنا دوست مانتی ہیں!”

 

ملکہ بولی:

“نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے۔” پھر اسنے اپنا منہ دیں طرف موڈ لیا

مشال بولی:

“میری آنکھوں میں دیکھو!”

 

ملکہ بولی:

“نہیں، دیکھوں گی نہیں!”

 

مشال بولی:

“ملکہ!”

 

ملکہ نے مشال کی آنکھوں میں دیکھا اور بولی:

“ہاں، ہم دونوں دوست نہیں ہیں۔”

 

مشال بولی:

“لگتا ہے یہ کمی صرف مجھ میں ہی ہے۔ آنکھوں میں دیکھ کر جھوٹ بولنا بس مجھے ہی نہیں آتا، باقی سب تو یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔”

 

ملکہ بولی:

“تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک ملکہ ہوں اور میں کسی عام انسان سے مافی نہیں مانگوں گی۔”

 

پھر ملکہ مشال سے دور جا کر کھڑی ہو گئی۔

 

مشال ملکہ کے پاس آئی اور بولی:

“اچھا ٹھیک ہے، میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اگر میں خود اُس کے پاس جاؤں تو کیا ہوگا؟ کیا وہ مجھے ذلیل کر کے نکال دے گا، یا کچھ ایسے الفاظ کہہ دے گا جو مجھے ہمیشہ کے لیے مار دیں؟ میں نے تو ابھی تک اپنی محبت کا اشارہ بھی نہیں کیا۔”

 

ملکہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی، مگر مشال کی یہ کہانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ملکہ تنگ آ کر بولی:

“ٹھیک ہے، میں چلی جاتی ہوں، اُسے تمہارے لیے منانے۔”

مشال حیرانی سے بولی:

“آپ مان گئی ہے؟” جیسے اُسے یقین ہی نہ آیا ہو۔

 

ملکہ بولی:

“ہاں، میں مان گئی ہوں، اب خوش ہو جاؤ۔”

 

مشال بولی:

“آپ بہت اچھی ہیں!” اور مشال نے ملکہ کو گلے لگا لیا۔

 

ملکہ مشال کے اس ردِ عمل پر حیران ہو گئی۔ پھر مشال شرمندگی سے پیچھے ہوئی اور سنجیدگی سے بولی:

“مجھے معاف کرنا، میں بہت خوش ہو گئی۔”

 

ملکہ کچھ نہ بولی، بس مشال کو دیکھتی رہی۔

 

مشال ذرا جھجھکتے ہوئے بولی:

“کیا ہوا؟ میں جانتی ہوں آپ کو میں نے گلے لگا لیا، یہ نہیں کرنا چاہیے تھا…”

 

وہ یہ بول ہی رہی تھی کہ ملکہ نے مشال کو دوبارہ گلے لگا لیا۔

 

مشال حیران رہ گئی، پھر اُس نے بھی ملکہ کو گلے لگا لیا۔

 

ملکہ نے سب اُسے پیچھے کیا اور بولی اسکے ساتھ دھیان سے رہا کرو

 

مشال بولی جی آپ

سہی بول رہی ہیں

 

ملکہ بولی:

“کمرے سے باہر مت آنا۔”

 

پھر وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور التمش کے دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی۔

***

جاری ہے۔۔۔۔


 

2 Comments

  1. “Is episode ne to poori soch hila di 😶‍🌫️ — jitna samjha, utna hi kuch chhup gaya. Writer ne suspense aise chhoda ke dil kare agla part turant mil jaye.

  2. Next ep jldi se de do writer jii

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *