antal hyat

Antal hayat Episode 14 written by siddiqui


انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو

قسط نمبر ۱۴

آخری بار تم پہ آیا تھا
پھر میرے ہاتھ دل نہیں آیا

امن نے حیرت سے پوچھا ..
کیسی شرط؟

مجھے ڈیل منظور ہے… اگر تمہارے آفس کے سارے ورکر میرے آفس وزٹ کرنے آئیں تو۔۔۔

عجیب یہ… یہ کیسا ڈیمانڈ ہے؟

ابرار نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا
تمہیں بھی آنا پڑے گا… بولو، منظور ہے؟

حیات  فوراً بیچ میں کود پڑی، خوشی سے چہکتی ہوئی بولی
ہاں ہاں ٹھیک ہے! حیات آئے گی… اور سب کو لے کر آئے گی۔۔۔ گویا پکنک کا اعلان ہو گیا ہو

امن اب حیات کو ایسے گھور کے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو یہ تم نے کیا کر دیا؟
مگر حیات کے چہرے پر تو مکمل معصومیت چھائی ہوئی تھی

ابرار نے جیب سے ایک گولڈن کارڈ نکالتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے… یہ لیں میرے آفس کا انٹری کارڈ ۔
اور ہاں… میں انتظار کروں گا۔

یہ کہتے ہوئے ابرار لمبے لمبے قدموں سے باہر نکل گیا
امن نے حیات کی طرف پلٹ کر جھنجھلاہٹ سے کہا
تم اکیلی ہی چلی جانا۔۔۔

حیات نے معصوم بن کر کہا
کیا مسئلہ ہے بھائی؟ اتنی چھوٹی سی تو شرط رکھی ہے اُس نے۔۔۔۔

امن نے غصے سے کہا
تمہیں پتہ بھی ہے میرے آفس میں کتنے ورکرز کام کرتے ہیں؟
یہ جو تمہیں دو چار لوگ نظر آ رہے ہیں، بس یہی نہیں ہیں۔۔۔

ہاں تو سب کو کون لے جا رہا ہے؟ بس یہی چند لوگ چلیں گے… جو سامنے کام کرتے اندر کے ورکرز کو کون لے کر جارہا ہے۔۔۔۔

اور کام کون کرے گا؟ ایک دن پورا آفس بند رکھیں کیا؟ امن نے غصے کہا

حیات نے ہنوز بےفکر سے کہا
ہاں تو…؟ جیسے یہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔۔

امن نے تیزی سے کہا
پاگل۔۔۔۔
یہ کہہ کر غصے سے پلٹا اور لمبے قدموں سے واپس اپنے کیبن میں چلا گیا۔۔۔

امن کیبن  میں داخل ہوا، غصے اور الجھن میں گھومتے ہوئے ایک دم رُکا

Wait a minute…
ابرار تو صرف ایک ہی کارڈ دے کر گیا ہے۔۔۔
تو اس کا مطلب… سب ایک ساتھ جانا پاسبل نہیں ہے۔
ہاں! کیوں نہ… میں دو دو کے گروپس بنا دوں؟
کام کا بھی حرج نہیں ہوگا، اور ابرار کی شرط بھی پوری!

امن نے سوچا اور پھر فوراً انٹرکام اٹھایا

نتاشہ… فوراً کیبن میں آؤ۔
چند لمحوں بعد نتاشہ کیبن میں حاضر ہوگئی۔۔۔

نتاشہ، سب کو اطلاع دے دو…
کل سے ابرار کے آفس کا وزٹ ہوگا،
لیکن دو دو بندوں کا جوڑا بنا کر بھیجیں گے۔
سمجھ گئی۔۔۔؟

نتاشا مسکراتے ہوئے کہا
جی سر، سمجھ گئی۔۔۔

اب نتاشہ  باہر آئی اور سب کے سامنے اعلان کیا۔۔۔

Attention everyone۔۔۔
باس کا حکم ہے کہ کل سے سب ابرار  سر کا آفیس وزٹ کرینگے…
لیکن دو دو کے جوڑوں میں!
سب اپنے پیر ڈیسائیڈ کر لیں اور وقت پر تیار رہیں۔۔

یہ سنتے ہی آفیس میں ہلچل سی مچ گئی۔۔۔

ایک ایمپلائی لڑکے نے پاس بیٹھے دوسرے لڑکے سے کہا
یار یہ کیسے ممکن ہے؟ مطلب ابرار سر کا آفیس وزٹ… وہ بھی ہم سب۔۔۔ چہرے پر حیرانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔۔

پتہ نہیں، مجھے بھی یقین نہیں آ رہا۔ ایک امپلوئی لڑکی نے کہا

تم لوگ یقین کرو یا نہ کرو، نہ مجھے فرق پڑتا ہے، نہ باس کو۔ بس اب پیر بنا لو اور میرے پاس آکر نام لکھوا دو۔
(یہ کہہ کر نتاشا اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

دوسری ایمپلوئی لڑکی نے منہ بناتے کہا
عجیب ہے یہ بھی… ہر وقت ہی ایسی باتیں کرتی ہے ہر وقت اترتی پھرتی ہے۔۔۔

دوسرے ایمپلائی لڑکے نے اُس لڑکی کی تقیق کی اور کہا
ہاں، اس سے تو حیات ہی بہتر ہے… اس کے اندر تو پتا نہیں کتنا اٹیتودے بھرا ہے، جیسے کوین ہو کہیں کی… اوور ایکٹنگ کی چلتی پھرتی دکان۔۔۔

بس کرو تم لوگ، ابرار سر  کے آفیس جانے کی تیاری کرو… ایک اور ایمپلائی لڑکی نے کہا

میں نے سنا ہے ابرار سر کا آفیس  بہت ماڈرن ہے… اور وہاں کام کرنے والے بھی بہت اسٹائلش ہوتے ہیں دوسری ایمپلائی لڑکی نے کہا جس تھوڑی بہت انفارمیشن تھی ابرار کے آفس کی۔۔۔
اور وہاں پر ہمارے آفس کی طرح یہ عجیب رولز نہیں ہیں — کہ صرف شلوار قمیض پہنا ہے یا میک-آپ منع ہے۔۔۔

اب اس لڑکی کے ساتھ والے ایمپلائی لڑکے نے کہا
تو کیا تم لوگ کام کرنے آ رہی ہو یا فیشن ویک  میں  پارٹسپیٹ کرنے؟

اُس لڑکی نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا
تم چپ چاپ اپنا کام کرو،

رہنے دو بھائی، یہ لڑکیاں ہیں… بُرای  انکی فطرت میں ہے کرنے دو مزے۔۔۔ دوسرے ایمپلائی لڑکے نے کہا جس پر سارے ایمپلائی لڑکے کی دانت باہر آگئی اور لڑکیاں غصے سے ان سب کو گھورنے لگی۔۔۔

⏳ ایک مہینہ بعد…

ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ ابرار کے آفیس کا دورہ تقریباً پوری ٹیم کر چکی تھی۔ سب واپسی پر بس تعریفیں ہی لے کر آئے تھے — اسٹائلش لوگ، کیفے جیسا لنچ روم ، میوزک والے کیبنس، اور آرام دہ ماحول۔

مگر…
حیات حیات اب تک نہیں گئی تھی ابرار کے آفیس باقی سب جا چُکا تھے ایک دن مایہ اور زاویار دوسرے دن نتاشہ اور زارا ۔۔ اور ایسے ہی دو دو کر کے ورکرز سب کا پیر نتاشہ نے بنایا تھا اور ایسا کے دو بندے جائے تو آفیس کا کوئی کام نہ روکے کوئی حرج نہیں ہو اِسی لیے زارا اور مایہ کو بھی الگ الگ دِن بھیجا تھا تاکہ ایک ریسیپشن جائے تو دوسری آفیس میں موجود ہو۔۔۔ اور حیات اُس کا تو
پیر ہی نہیں بن پایا تھا۔۔۔ اور حیات جائے نہ، ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا وزٹ کر کے آنے والے لوگوں سے جتنی تعریف سن چکی تھی حیات نے کہ اب تو حیات کا دل چاہا رہا تھا کہ وہ جلدی سے بس اُڑ کر ابرار کے آفیس پہنچ جائے۔۔۔

حیات نے گہری سانس لی، جیسے خود کو حوصلہ دے رہی ہو۔ پھر وہ آہستہ سے اٹھ کر امن کے قریب گئی۔
اس کے چہرے پر وہی مشہور حیات اسپیشل معصومیت، جس کے آگے بڑے بڑے دل ہار جاتے تھے۔

ایک بات سنیے؟ حیات نے نرمی سے کہا

امن نے بغیر نظریں ملائے، سنجیدگی سے کہا
ہاں؟

حیات نے تھوڑا نرمی سے بولی
وہ… میں یہ کہہ رہی تھی کہ سب تو ابرار کے آفس جا چکے ہیں، صرف آپ ہی رہ گئے ہیں۔ تو… آپ نہیں جائیں گے؟

امن نے ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھا، جیسے اس کی بات میں کوئی گہری سازش تلاش کر رہا ہو۔ پھر وہ نظریں ہٹا کر بولا
اس نے مجھے بلایا ہے؟

حیات نے ہونٹ تھوڑے سکڑتے ہوئے، آنکھیں پھیلائیں اور ہلکے سے حیران ہو کر کہا
آفیس کے سب لوگوں میں آپ بھی شامل ہوتے ہیں شاید… آپ کو بھی جانا چاہیے تھا۔

میں نہیں جا رہا۔ امن نے صاف صاف کہا

حیات نے اس کے سامنے ایک قدم اور بڑھایا، ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے پھر وہ تھوڑا سا جھکی، آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک، اور چہرے پر بچپن جیسی معصوم سی مسکراہٹ لیے بولی
چلے جائیے نا…

امن نے ایک نظر اس کے چہرے کی طرف ڈالی — وہی بچگانہ انداز، وہی ہنستی آنکھیں، اور وہی چالاک معصومیت جو صرف حیات کے پاس تھی۔ ایک لمحہ کے لیے وہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا۔

لیکن… وہ امن تھا۔ اتنی آسانی سے گھائل ہو جانے والوں میں سے نہیں۔

تم کیوں مجھے اتنا فورس کر رہی ہو؟

بس… ایسے ہی…

امن کی نظریں اس پر ٹک گئیں۔ وہ اس کے انداز، لہجے اور چہرے کے تاثرات کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا
حیات، مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے…
اب صاف صاف سچ بولو۔

حیات نے  چبھتے ہوئے انداز میں کہا
ویسے آپ ایک بات بتائیں… آپ انسان ہیں بھی یا نہیں؟ کیوں کہ مجھے نہیں لگتا آپ انسان ہیں۔

امن کا چہرہ ساکت ہو گیا۔ ایک پل کو تو وہ حیران رہ گیا۔ پھر آنکھیں تنگ کیں اور سنجیدگی سے بولا
بات مت گھماؤ حیات، سیدھا جواب دو۔

حیات نے ہنکارا بھرا، اور ناک چڑھاتے ہوئے بولی
میں بات نہیں گھما رہی… سچ میں آپ مُجھے ربوٹ لگتے ہیں۔۔۔

امن نے سنجیدگی سے کہا
اور تمہیں پتا ہے تم مجھے کیا لگتی ہو؟

حیات نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں، جیسے کسی بڑے انکشاف کے انتظار میں ہو۔
کیا؟

امن نے گردن تھوڑی جھکائی، ہونٹوں پر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
پاگل… اور دماغ سے خالی۔۔۔

حیات  کی آنکھوں میں فوراً چنگاریاں سی لپک گئیں۔

اور آپ… آپ وحیات پارانی! جو ہمیشہ دوسروں پر حکم چلاتے ہیں۔۔۔

امن نے اب سنجیدگی سے کہا
اب تمہارا ہو گیا ہو تو بتاؤ گی…؟

حیات نے ناک چڑھائی، منہ بنایا، اور بچوں کی طرح پیر پٹختے ہوئے بولی
ہنہ۔۔ میں کچھ بھی نہیں بتا رہی۔
اور ہر بات کا جواب دینا میری ڈیوٹی نہیں۔
اور ہاں… میں جا رہی ہوں ابرار کے آفس۔
آپ کو نہیں جانا؟ مت جائیے۔۔۔

ہاں ہاں… جاؤ…

ہاں ہاں جا رہی ہوں۔۔۔
حیات غصے سے دروازے کی طرف مڑی،
اور وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گئی —

+++++++++++

حیات دل میں سوچتے ہوئے۔۔۔
اب کیا کروں…؟
ایک تو یہ خروس انسان… مجال ہے جو میری کوئی بات آرام سے مان لے!
میں نے اتنی محبت سے کہا، بس ایک بار ساتھ چلنے کو…
لیکن نہیں…
جناب کو تو ہر وقت اٹیٹیوڈ دکھانا ہوتا ہے!
ہونہہ وحیات پارانی کہیں کے۔۔
وہ خود ہی بڑبڑا رہی تھی،
اب اکیلے کیسے جاؤں؟
ابرار کے آفیس سب جا چکے ہیں…
اور میں؟
اکیلی؟

ابھی وہ الجھی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک اس کے بیگ میں رکھا فون بجا۔
اسکرین پر جگمگاتا نام نظر آیا
Amaya Calling…

حیات نے جلدی سے کال ریسیو کی۔

ہائے اوئے کہاں ہے تو؟ امایہ کی ہمیشہ کی طرح شوخی آواز سنائی دی۔۔

حیات نے چڑ کر کہا
تیرے ولیمے میں ہوں۔۔۔۔

تو پھر تیرے باس نے آج بھی ذلیل کر دیا تجھے؟ دوسری طرف امایہ ہستے ہوئے اُس کا مذاق اڑارہی تھی۔۔

ان کے بارے میں بات مت کر۔۔۔۔ حیات نے غصے سے کہا

اچھا خیر… بتا، کیا کر رہی ہے؟ اگر فارغ ہے تو…

تو…؟

ہم کہیں گھومنے چلتے ہیں نا۔۔۔

گھومنے؟

امایہ نے بچوں جیسی خوشی سے کہا
ہاں گھومنے… گھومنے۔۔۔

حیات نے دل میں سوچا
گھومنے؟ کیسے جاؤں؟ مجھے تو ابرار کے آفس بھی جانا ہے… لیکن اکیلے؟ نہیں، ہرگز نہیں… اور اُس اَکڑو انسان  کے ساتھ جانا تو ویسے بھی فالتو ہے۔۔۔
پھر اس کی آنکھوں میں ایک شریر چمک آئی

ہاں… کیوں نہ امایہ کو ہی ساتھ لے جاؤں؟
ویسے بھی وہ فرق ہے، باتونی ہے —
ابرار کے آفس میں بور نہیں ہونے دے گی…
پھر وہاں سے کسی اور جگہ نکل جاؤں گی اس کے ساتھ… دو کام ایک ساتھ ،
… brilliant Hayat, brilliant۔۔۔

حیات جلدی سے بولی
ہاں چلو… ویسے بھی بور ہو رہی ہوں، ایک جگہ جانا ہے، وہاں سے نکل کر چلیں گے پھر کہیں اور…

اوہووو… کہیں جانا ہے؟ کون سی خاص جگہ؟

بس ایک فارمل سی جگہ ہے… بتاتی ہوں جب پہنچیں گے… تیار ہو جا، میں لینے آ رہی ہوں…

امایہ نے حیرت سے کہا
اتنی جلدی؟

ہاں، اور تھوڑے اچھے کپڑے پہننا، مجھے آفس کا ایک کام ہے، اس کے بعد گھومنے چلیں گے۔
اوکے؟ تو تھوڑا اچھا کپڑا پہننا۔

اوکے اوکے، تو ٹینشن نہیں لینا،
بس جلدی آنا۔

ہاں ہاں، اوکے۔

اوکے، میں انتظار کر رہی ہوں۔

ہم ٹھیک ہیں، اب بائے۔

اوکے، بائے۔
اور کال کٹ گئی۔۔۔

++++++++++++

میں جا رہی ہوں… وہ زارا کے پاس آتی کہا

زارا نے سر اٹھا کر چونکتے ہوئے پوچھا
کہاں…؟

ارے، آج میری باری ہے نا ابرار کے آفس جانے کی۔

زارا نے قدرے حیرت سے پوچھا
اچھا، آپ اکیلی جائیں گی؟

حیات نے ہلکا سا مصنوعی تبسم چہرے پر سجاتے ہوئے کہا
ہاں، بندے ختم ہو گئے ہیں، اب کس کو لے کر جاؤں؟

تو آپ… باس کے ساتھ نہیں جا رہیں؟

نہیں، انہیں جانا نہیں ہے۔ اس لیے میں اکیلی جا رہی ہوں۔ اگر باس پوچھیں تو بتا دینا، ٹھیک ہے؟ اب بائے۔

زارا نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے روکنے کی کوشش کی
ارے میم… سنیں تو سہی…

مگر حیات نے سنے بغیر ہی تیز قدموں سے دروازے کی جانب رخ کیا،
دروازہ کھلا، اور وہ نکل گئی…

++++++++++++

حیات ابھی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔۔۔
چند لمحے گزرے، پھر دروازہ آہستگی سے کھلا۔

بی بی جی آپ؟ اس وقت؟ خیریت؟ آپ تو ہمیشہ دیر سے آتی ہیں نا…

ہاں ہاں… ابھی بس کپڑے چینج کرنے آئی ہوں، پھر چلی جاؤں گی…

اچھا، آپ کے لیے جوس لاؤں؟

حیات اپنا بیگ کو صوفے پر پھینکتے ہوئے، نرمی سے مسکرائی 
نہیں… آئس کریم لے آنا…

اوکے بی بی جی…

وہ پلٹ گئی۔۔ اور حیات آہستہ سے چلتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی
دروازہ بند ہوتے ہی وہ گہری سانس لیا
شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا عکس دیکھا بال ذرا بکھرے ہوئے،  مگر ہونٹوں پر وہی ہلکی سی مسکراہٹ…

کچھ دیر بعد

تیار ہونے کے بعد اُس نے خود کو آئینے میں دیکھا
آج اُس نے ایک نہایت خوبصورت شلوار قمیض کا انتخاب کیا تھا۔ ہلکے خاکی رنگ کی قمیض، جس پر باریک سنہری دھاگوں سے نفیس کڑھائی کی گئی تھی، اُس کی شخصیت کو ایک پروفیشنل مگر دلکش انداز دے رہی تھی۔ قمیض کا سیدھا کٹ، کلائی تک آستینیں اور گلے پر ہلکی سی ایمبریڈری—سب کچھ انتہائی سادہ تھا۔ اس کے ساتھ ہم رنگ سگریٹ پینٹ اور ملائم کپڑے کا دوپٹہ، جس کے کناروں پر نازک لیس لگی تھی، پورے لباس میں نفاست کا تاثر پیدا کر رہا تھا۔ پاؤں میں نیوڈ ہیلز، کلائی میں ایک گھڑی، اور کانوں میں چھوٹے سے اسٹڈ—بالکل ویسا اسٹائل جو آفیس کے ماحول کے لیے شاندار اور مناسب ہو۔

ہائے اللّٰہ حیات تو کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔
اُس نے خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے خود ہی خود کی تعریف کی پھر گھر سے نکل گئی۔۔۔

حیات  نے گاڑی بیٹھتے ہی امایہ کو کال ملائی۔۔
اوئے تُو تیار ہے نا؟ میں نکل گئی ہوں، بس راستہ میں ہوں…

پچھلے ایک گھنٹے سے تیار بیٹھی ہوں، جلدی آ۔۔۔۔ دوسری طرف سے امایہ کی آواز سنائی دی ۔۔

ہاں ہاں بس آ رہی ہوں…

جلدی۔۔۔۔

ہم ہم… اور کال کٹ ہوگئی۔۔۔

امایہ اپنے گھر کے گیٹ کے باہر کھڑی تھی۔ بال کھلے، ہلکا سا میک اپ، نیلے رنگ کے لونگ اسکرٹ اور اُوپر سفید شرٹ اور ہاتھ میں اپنا چھوٹا سا بیگ۔ جیسے ہی حیات کی گاڑی سامنے رکی، اس نے ناک چڑھاتے ہوئے فوراً بولنا شروع کر دیا
آگئی میڈیم ؟ مجھے اتنی جلدی تیار کروا کے خود پورے آدھے گھنٹے لیٹ آئی ہو…

حیات دروازہ کھولتے ہوئے کہا
ہاں نا، گھر چلی گئی تھی کپڑے چینج کرنے۔

امایہ نے تیز لہجے میں کہا
تو تمہارا مطلب ہے کہ تم آفس میں ایسے کپڑے نہیں پہنتی ہو؟

حیات نے سیدھے بیٹھتے ہوئے، ناک اونچی کر کے کہا
ہنہ…! آفس میں ایسے کپڑے تھوڑی پہنتی ہوں، وہاں تو فراک پہنتی ہوں۔۔۔

امایہ نے آنکھیں پھیلا کر کہا
تو ابھی کپڑا چینج کیوں کیا پھر؟

حیات نے اکڑتے ہوئے، جیسے کوئی خاص بات بتانے لگی ہو
کیا تمہیں پتا نہیں ہے کہ میں بلیک روز  کمپنی کے باس کی پرسنل اسسٹنٹ ہوں؟

امایہ نے مصنوعی حیرت سے کہا
اُووو ہو ہو ہو! سچ میں؟ مجھے تو جیسے پتہ ہی نہیں تھا… آنکھیں گھماتے ہوئے ہنسی

حیات نے نہ بناتے ہوئے کہا
اب پتا چل گیا نا…

تو اِس سے کپڑوں کا کیا لینا دینا؟

حیات نے گردن اکڑا کر کہا
میں بلیک روز کے باس کی اسسٹنٹ ہوں، تو ایسے ہی کپڑے پہن کے چلی جاؤں؟ ذرا سی عزت کا بھی تو خیال ہوتا ہے۔

تو یہ نیک خیال تمہیں آفس جاتے وقت کیوں نہیں آتا؟

بس… میری مرضی! تمہیں جانا ہے یا نہیں؟

چلو نا، تم ہی کھڑی ہو کے وقت ضائع کر رہی ہو۔۔۔

ہاں ہاں، چلو۔۔۔
دونوں گاڑی میں بیٹھ گئی، اور گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی

++++++++++++

امایہ اور حیات اب ابرار کی کمپنی کے باہر کھڑی تھیں، جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر نہایت نفاست اور شان سے سجی ہوئی تھی۔ شیشے کے بڑے بڑے دروازے، چمکتی ہوئی لائٹیں، اور سفید ماربل کی فرش — یہ کسی عام دفتر کا منظر نہیں تھا، بلکہ یہ کسی لگژری ہوٹل سے کم نہ لگتا تھا۔

امایہ نے حیرانی سے اپنے آس پاس کے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا
ویسے یہ کمپنی ہے کس چیز کی؟

۔انویسٹنگ کمپنی ہے۔ حیات نے جواب دیا

تو ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟

وزٹ کرنے آئے ہیں…

لیکن کیوں…؟

کیوں کہ وزٹ کرنے آئے ہیں… حیات نے دوبارہ اپنی پہلی بات دوڑائی

یہ کوئی گھومنے کی جگہ تو نہیں ہے؟ امایہ نے ناگواری سے کہا

ہاں تو…

تو ہم یہاں کیوں آئے ہیں…؟

وزٹ کرنے کے لیے آئے ہیں…
پھر وہ امایہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کھینچتی ہوئی لے گئی

جی مم…؟ ریسیپشن گرل نے خوش اخلاقی سے کہا

بلیک روز کمپنی سے آئی ہوں، وزٹ کے لیے۔

اوہ، آئیے آئیے… ویسے آپ ہیں کون؟ ریسیپشن گرل نے پوچھا

میں حیات، بلیک روز کمپنی کے باس کی پرسنل اسسٹنٹ ہوں۔

اچھا مم، آپ تشریف لے جائیں… وزٹ کیجیے۔”

ہممم
وہ امایہ کو لیے آگے بڑھ گئی

امایہ نے حیران ہو کر ارد گرد دیکھتے ہوئے کہا،
یہ لڑکیوں کو دیکھو…
جیسے جیسے امایہ کی نظر وہاں کے ایمپولے پر پڑتی، اُس کا منہ حیرت سے کُھلتا جارہا تھا۔ یہاں سب ہی اسٹائلش اور خوبصورت معلوم ہو رہے تھے — لڑکیاں فل میک اپ میں، اسٹائلش برانڈڈ کپڑوں میں، جیسے چاند سے اُتری ملائکہِ حسن ہوں۔ ہر طرف مہنگے پرفیومز کی خوشبو، ہائی ہیلز کی ٹھک ٹھک، اور مصنوعی مسکراہٹوں کی گونج تھی۔

ہاں، وہی دیکھ رہی ہوں… حیات نے سرگوشی کی، جیسے وہ خود بھی اس منظر میں کھو گئی ہو۔

ابراہ کے آفس کا ماحول صرف ایک آفس نہیں لگ رہا تھا، یہ تو ایک خواب ناک جنت تھی — ایسی جنت، جہاں ہر چہرہ رُخِ زیبا، اور ہر آنکھ میں خود اعتمادی کی چمک تھی۔ یہاں ہر چیز نپی تلی، ہر قدم ماپا ہوا، اور ہر انداز فیشن سے باندھا گیا تھا۔

اِس جنت میں خوبصورتی ایک ضابطہ تھی، اور معمولی لگنا شاید جرم۔

ابرار کے آفیس کے ہر طرف ایک سے ایک حسین لوگ تھے۔۔ لڑکیوں کو لے کر لڑکے تک۔۔ ابرار کا جیسا آفیس خوبصورت ویسے ہی یہاں کے لوگ بھی خوبصورت تھے۔۔۔

امایہ نے آہستہ سے حیات کی کہنی کو چھوا،
یہ سب کیا ہے؟ یہاں تو ہم جیسے لوگ جیسے… غلطی سے آ گئے ہوں۔

ہاں یار۔۔۔۔ حیات نے سر ہلایا 

تمہارے آفیس میں تو سب مُردی بنی ہوئی تھیں… اور یہاں دیکھو… امایہ کو ایک دم سے حیات کے آفیس کا منظرِ یاد آیا جب وہ وہاں گئی تھی۔۔۔

ہاں… میرے آفس کے باس جو بُڈھے ہیں۔۔۔ حیات نے منہ بنائے کہا

ارے ایسے تو نہ بول… اتنے اچھے تو ہیں وہ، اور تجھے نہیں پتا کیا… پوری دنیا مرتی ہے ان پر۔۔۔ امایہ نے حیات کو سمجھنا چاہا جو ہر وقت اپنے باس کے بارے میں الٹا سیدھا بولتی رہتی تھی۔۔۔

حیات نے آنکھیں گھما کر کہا
اوہ اچھا؟ سچ میں؟… مجھے تو جیسے پتا ہی نہیں تھا…

امایہ نے چمکتی آنکھوں سے کہا
اب میں نے بتا دیا نا۔۔۔

جسٹ شت آپ… حیات نے منہ پھرتے ہوئے کہا

یہ دونوں اب ریسیپشن کاؤنٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھیں، جب ایک پُرکشش شخصیت کا سایہ ان کے سامنے رُک گیا۔ دھیمے اور پروفیشنل انداز میں اس نے انہیں مخاطب کیا۔
مم …؟

امایہ نے حیات کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا
اوئے… اِس کو دیکھ! کتنا ہینڈسم ہے نہ؟

حیات نے سرسری سا جائزہ لیتے ہوئے، ہنوز بے نیازی سے کہا
ہاں ہے تو… مگر یہ ہے کون؟

آئیے مم، میں آپ کو آفس کا وِزٹ کروا دیتا ہوں۔

لیکن تم ہو کون؟ حیات نے بغور اُسے دیکھتے کہا

وہ ہلکا سا مسکرایا
میں اس آفس کا مینیجر ہوں…

اوہ، اچھا…
اس کے لبوں پر ایک مبہم سا تبسم ابھرا، جیسے ذہن کسی اور کہانی میں الجھ گیا ہو

حیات نے دِل میں سوچا ۔۔
اتنا ہینڈسم مینیجر… اور ایک میرے آفس کا منیجر ہے… چچا میاں…
عجیب! ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی ( paralle world ) کے آفس میں آ گئی ہوں۔ یہاں کے لوگ، یہاں کا ماحول… سب کچھ کتنا مختلف ہے۔ جیسے کسی فلم کا سیٹ ہو — ہر چہرہ چمکتا، ہر لباس مہنگا، ہر انداز پرکشش۔

میرے آفس کے تو اکثر لوگ لگتا ہی نہیں زندہ ہیں۔۔.. اور یہاں؟ یہاں تو ہر بندہ جیسے کوئی سوپر اسٹارز ہو

خیر… ایک دن جب میں اپنا ذاتی آفس کھولوں گی نہ… تب میں بھی ایسے ہی اسٹائلش اسٹائلش بندے رکھوں گی۔

مینیجر کا نرم لہجہ اسے خیالات سے باہر لایا
آئیے مم، یہ ہماری (core financial zone) ہے…

جی، چلیں۔ حیات نے ہلکا سا سر ہلاتے کہا

اب تو مزہ آئے گا…

حیات نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
بس ڈراما مت کریٹ کرنا تُم…

+++++++++++

تو کیسا لگا آپ لوگوں کو ہمارا آفس…؟مینیجر نے نرمی سے کہا

حیات اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے، مگر آواز میں اعتماد تھا
ہمم… اچھا ہے۔

امایہ جو ابھی تک ماحول کے سحر میں تھی
بہت اچھا ہے… اتنا اسٹائلش اور آرگنائزر…واؤ ۔۔

مینیجر نے مسکرا کر، نرمی سے کہا
ویسے آپ لوگ برا نہ منائیں تو میں دو منٹ میں ایک کام نمٹا کر آتا ہوں، تب تک آپ لوگ یہاں میرا ویٹ کریں۔

ہمم…
take your time.

مینیجر پھر اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
مینیجر کے جانے کے بعد حیات اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے ایک ایک چیز کا اچھے سے جائزہ لے رہی ہو۔۔۔ اوراسے دیکھ کر تو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی حیات ہے جو امن کے  آفیس میں پچھلے مہینے سے کام کر رہی ہے۔۔۔ اسے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بڑی کمپنی کی
(polished, trained aur composed )
پرسنل اسسٹنٹ ہو… نہ کوئی جلد بازی، نہ کوئی بوکھلاہٹ… بس ایک calm elegance۔
نہ ہی یہاں اس نے کوئی اُلٹی سیدھی حرکت کی تھی نہ اپنے چہرے سے ایسا ظاہر ہونے دیا تھا کہ وہ اس آفیس کو دیکھ کر اس آفیس کی دیوانی ہوگئی ہے۔۔۔
آج کی حیات، امن  جنید خان کے آفس والی حیات  سے بلکل مختلف لگ رہی تھی…

امایہ نے حیات کو غور سے دیکھ کر کہا
تو یہ ہے تیری پروفیشنل سائڈ ۔۔۔؟؟
اس کے انداز میں ہنسی چھپی ہوئی تھی، مگر آنکھوں میں فخر تھا

حیات نے نرمی سے مسکرا کر کہا
سب کے سامنے نہیں دکھاتی… بس جن کے سامنے دکھانا ضروری ہو انہی کے لیے رکھتی ہوں…
وہ میرا اصل ہے یہ تو بناوٹی ہے۔۔۔

اور امن…؟ اُن کے لیے کون سی سائڈ رکھتی ہے تو…؟
امایہ نے ذرا توقف کے بعد پوچھا،

حیات نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ، آنکھیں جھکا کر کہا۔۔۔
اُن کے لیے؟؟ یار وہ بندے ہی عجیب ہے حیات چاہ کر بھی اُن سے اچھے سے بات نہیں کر سکتی عجیب حیات نے اتنے پیار سے بولا تھا چلے نہ لیکن وہ وحیات انسان بے تمیز۔۔۔ وہ حیات کی نرمی کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں۔۔۔

بس بس میں نے ویسے ہی کہہ دیا تھا اب دوبارہ شروع مت ہوجانا امن نامہ لے کر ۔۔ امایہ جھنجھلا کر بولی۔۔۔۔امایہ جب اُس سے بات کرتی تب حیات کا امن نامہ شروع ہوجاتا تھا۔۔۔

ہنہ میں کہاں بول رہی تھی کچھ تو نے ہی شروع کیا تھا۔۔۔ حیات نے منہ بنائے کہا۔۔

اچھا نہ اوئے تُو باس سے نہیں ملے گی؟

نہیں اُس سے مل کر کیا کرنا ہے ہمیں…

امایہ نے آنکھیں گھما کر کہا
بہت غلط بات ہے، تُو آفس میں آئی ہے اور باس سے ہی نہیں ملے گی؟

حیات نے  چڑ کر کہا
تجھے کیوں اتنی چُل ہو رہی ہے باس سے ملنے کی؟

امایہ نے چمکتی آنکھوں سے بولی
یار چل نا… مجھے دیکھنا ہے کہ جس آفس کے ایمپلائز اتنے خوبصورت ہیں، وہاں کا باس کتنا حسین ہوگا۔

حیات نے طنزیہ انداز میں کہا
نہیں، نہیں… میں نہیں جا رہی، باس سے ملنے ولنے۔ تجھے ملنا ہے تو تُو چلی جا۔۔۔

امایہ نے بچوں جیسی ضد سے بولی
میں اکیلے کیسے جاؤں؟

پاؤں سے۔۔۔
امایہ ہنسی روکنے کی کوشش کی، مگر حیات سنجیدہ تھی۔

یار چل نا تُو بھی میرے ساتھ۔۔۔ امایا نے دوبارہ ضد کی

چلو، چل لیتی ہوں تمہارے ساتھ، لیکن جا کے بولوں گی کیا ابرار کو؟

کچھ بھی بول دینا، لیکن چلو نا میرے ساتھ۔۔۔

نہیں، میں نہیں جا رہی۔۔۔

امایہ اب کی بار ہاتھ پکڑ کر زبردستی کھینچا
چلنا ہوگا۔۔۔

حیات نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا
چھوڑ مجھے۔۔۔

نہیں، تُجھے میرے ساتھ چلنا ہوگا۔۔۔
امايہ اپنی ضد پر قائم تھی

حیات نے غصے سے کہا
اچھا ایسا ہے؟
پھر وہ اچانک اپنا ہاتھ چھڑواتی اور امایہ کو آگے آفیس کیبن کی طرف دھکا ددے دیا

امایہ لڑکھڑاتی ہوئی اندر جا گری
آآآہ…!

ارے مس… آرام سے۔۔ کیبن کے اندر وہ بیٹھا تھا، آرام دہ کرسی پر ٹیک لگائے، انگلیوں کے پوروں سے میز پر ہلکا ہلکا دستک دے رہا تھا — چہرا بے حد مطمئن تھا۔۔
اور وہ امايہ کے ایسے اندر آکر گرنے پر حیران بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔

امایہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ چہرے پر حیرت پھیل گئی
آپ…؟

ابرار نے پرسکون لہجے میں جواب دیا،
جی، میں…

امایہ کے چہرے پر اب حیرت کے ساتھ الجھن بھی در آئی۔
لیکن آپ تو حیات کے آفس کے باس تھے نا؟ مطلب آپ وہاں کے بھی باس ہیں اور یہاں کے بھی؟

ابرار نے مُسکرا کر کہا
کیوں، نہیں ہو سکتا کیا؟

نہیں… میں نے ایسا کب کہا؟ ہو سکتے ہیں، ہو سکتے ہیں۔۔۔

تو…؟

امایہ شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا
تو کچھ نہیں… میں جا رہی ہوں…

اور آپ آئی کیوں تھیں، اور وہ بھی ایسے…؟

امایہ نے نگاہیں چرا کر کہا۔۔۔۔
وہ بس ایسے ہی… آپ اتنے سوال نہ کریں مجھ سے۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ تیزی سے پلٹی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

+++++++++++++

حیات دیوار سے ٹیک لگا کر، بازو باندھ کر قدرے مغرور انداز میں کہا
مزا آیا…
اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے اندر ہی اندر کوئی جنگ جیت چکی ہو۔

امایہ نے غصے اور حیرت کے ملے جلے انداز میں کہا
تُو چُڑیل! پہلے نہیں بتا سکتی تھی کہ باس وہی ہے؟ تیرے آفس والا باس؟

تُو کیا تھوڑی سی پاگل ہے؟ حیات نے اب بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا۔

نہیں تُو ہے۔۔۔ اُس نے فوراً جواب دیا،

ہو گیا تیرا؟ اب چَل، گھر نہیں جانا کیا؟

ایسے گھر نہیں جاؤں گی… پہلے تُو مجھے آئس کریم کھلائے گی۔۔۔

ہاں ہاں، آئس کریم، امی… تجھے گول گپے، چاٹ، سب کچھ کھلاؤں گی… بس اب چپ کر جا، شرافت سے چل۔۔۔
وہ دونوں ہنستی مسکراتی، ایک دوسرے سے الجھتی ہوئی، آہستہ آہستہ کاؤنٹر کی طرف بڑھی۔۔۔

ریسیپشنس نے مسکرا کر کہا
جی میم، وزٹ مکمل ہوا؟

حیات نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
ہاں، مکمل ہوا… بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔

مم اب، آپ جا رہی ہیں؟ ریسیپشنسٹ نے کہا

حیات نے سر ہلا کر، نرمی سے کہا
جی…
Okay, thank you for coming۔۔۔

حیات ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ، پروفیشنل انداز میں کہا
Welcome.۔۔

++++++++++++

لیکن جانا کہاں ہے؟
آفس کے باہر نکلتے ہی امایہ نے پوچھا۔۔۔

کہیں بھی چلے جائیں گے۔۔۔
حیات نے کاندھے اچکاتے ہوئے بےنیازی سے کہا۔

اچھا۔۔۔

ہاں چلو۔۔۔
حیات نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور دونوں سڑک پار کرنے لگیں۔ باتوں میں اتنی محو تھیں کہ دنیا کی ہلچل ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔

سڑک پر اچانک تیز بریک کی آواز گونجی۔ حیات کے قدم زمین سے جیسے چپک گئے۔ کار اس کے چند انچ دور رُکی تھی۔ اگر لمحے بھر کی تاخیر ہوتی، تو شاید وہ لمحہ زندگی کا آخری لمحہ بن جاتا۔

اندھے ہو کیا؟ گاڑی چلانا نہیں آتا تو حیات سے سیکھ لو۔۔۔ تم سے بہتر تو میں ڈرائیو کر لیتی۔۔۔
اس کی آواز میں غصہ بھی تھا، اور وہ خوف بھی جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔

دروازہ کھلا، اور کار سے ایک مانوس سا چہرہ برآمد ہوا۔

غلطی تمہاری ہے اور الزام مجھ پہ ڈال رہی ہو… پاگل لڑکی۔۔۔
آمن گاڑی سے نکلا تو اس کے چہرے پر وہی سرد مہر سنجیدگی تھی، جو اکثر حیات کو ناگوار گزرتی تھی۔

جی نہیں! غلطی میری نہیں ہے… اور آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو آفس میں ہونا چاہیے تھا۔۔۔
حیات نے تنک کر کہا، جیسے وہ کسی کمزور دلیل کو رد کر رہی ہو۔

غلطی تمہاری ہی ہے۔ سڑک پر انسان ادھر اُدھر دیکھ کر چلتا ہے، تمہاری طرح نہیں کہ باتوں میں کھوئے بس چلتی جائیں…
آمن کے الفاظ میں خفگی بھی تھی، اور ایک عجیب سا اضطراب بھی — جیسے وہ کہنے کو کچھ اور تھا، مگر روک گیا۔

جو پوچھا ہے اُس کا جواب دیں، زیادہ دادا بابا نہ بنیں۔۔۔ حیات کی آنکھوں میں چمک تھی، اور لہجے میں وہی مخصوص تیکھا پن، جو آمن کو اکثر زچ کر دیتا تھا۔

میری مرضی، میں جہاں بھی جاؤں…
امن نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا،

یہ حیات کا ڈائیلاگ ہے۔۔۔
حیات نے انگلی اٹھا کر تنبیہ کی،

تم نے بنایا ہے؟
امن نے ابرو چڑھاتے ہوئے طنزیہ کہا۔

عجیب۔۔۔
بس ایک لفظ، اور چہرے پر مکمل ناپسندیدگی۔

ہاں، تُم ہو عجیب…
امن کی آواز میں اب طنز سے زیادہ کوئی عجیب سی نرمی تھی، جو اکثر شدید لمحوں میں ہی آتی تھی۔

میں عجیب نہیں ہوں، آپ ہیں… وحیات پارانی۔ غلطی سے زمین پر آ گئے ہیں۔۔۔
حیات کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، مگر الفاظ اب بھی تیز اور زہریلے تھے، جیسے تیر۔

جا کہاں رہی ہو؟
امن نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے سوال کیا،

میں کہیں بھی جاؤں، میری مرضی۔۔۔

جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو۔۔۔
اب کے امن کی آواز ذرا بلند ہوئی، مگر پھر بھی نرمی کا عنصر باقی تھا۔

آپ نے دیا تھا…؟
حیات نے مڑ کر سوال داغا، جیسے وہ عدالت میں وکیل ہو اور جواب ایک وعدہ۔

لیکن تمہیں دینا پڑے گا…
امن کی نظروں میں اب کوئی اور ہی مطالبہ تھا — شاید وضاحت کا، شاید احساس کا۔

لیکن میں نہیں دوں گی۔۔۔
حیات نے غرور سے ٹھوڑی اٹھائی، جیسے ضد ہی اس کا زیور ہو۔

ٹھیک ہے… مت دو! آفس آؤ، پھر سمجھاتا ہوں۔۔
امن نے کہا، جیسے اس نے بازی اپنے ہاتھ میں لے لی ہو۔

ہنہ! پہلے آپ میری بات کا جواب دیں، پھر حیات آپ کی بات کا جواب دے گی۔۔۔
آنکھوں میں جیت کی چمک لیے — جیسے جذبات کی اس شطرنج میں اگلی چال بھی اسی کے ہاتھ میں ہو۔

ارے بھااااائی! دونوں ایک دوسرے کو جواب دے دو نا… عجیب ٹائم ضائع ہو رہا ہے، وہ بھی سڑک کے بیچ میں کھڑے ہو کر! سب ہمیں ہی گھور رہے ہیں۔۔۔
امایہ نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر چیختے ہوئے کہا،

تم چپ چاپ کھڑی رہو، ورنہ آئس کریم نہیں کھلاؤں گی۔۔۔
حیات نے نظریں امن سے ہٹائے بغیر کہا، جیسے آئس کریم نہ دینا کوئی ایٹمی دھمکی ہو۔

اوکے۔۔۔
امایہ نے فوراً ہار مان لی۔ آئس کریم کے لیے کچھ بھی

آفس کے ٹائم پر میڈم آئس کریم کھانے جا رہی ہیں،۔
امن نے بازو سینے پر باندھ کر طنزیہ نظروں سے حیات کو دیکھا،

سیم ٹو یو! آفس کے ٹائم پر باس صاحب سڑک پر کھڑے ہیں… حیات نے وہی وار واپس کر دیا،

آپ دونوں کو نہیں لگتا کہ ہمیں کم از کم سائیڈ پر ہو جانا چاہیے؟
امایہ نے آہستہ سے کہا، جیسے اسے اب اپنی شناخت چھپانی پڑ رہی ہو — اتنے لوگ گھور رہے تھے۔

چپ! ابھی بہت اہم ڈسکشن چل رہی ہے۔۔۔
حیات نے ہاتھ سے امایہ کو چپ رہنے کا اشارہ دیا، جیسے کوئی میٹنگ ہو رہی ہو اور وہ چیئر پرسن ہو۔

واٹ ایور! جاؤ جہاں بھی جانا ہے تمہیں… تم سے میں آفس میں بات کروں گا۔۔۔ امن نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور گاڑی میں بیٹھ کر، ایک جھٹکے میں، یوٹرن لیتا ہوا آفس کی طرف مڑ گیا۔

ہاں ٹھیک ہے! دیکھ لیں گے۔۔۔
حیات نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا اور امایہ کا ہاتھ تھام کر تیزی سے وہاں سے چل دی —

++++++++++++++

جب امن دروازے سے داخل ہوا، تو گھر میں ہر طرف سنّاٹا تھا نہ کوئی ملازم نظر آرہی تھی نہ کوئی اماں ، نہ ہی دادی۔۔ اور نہ ہی اُس کا کوئی بھائی۔۔۔

سب کہاں گئے؟ اتنی… شانتی کیوں ہے گھر میں؟
اس نے جیسے اپنے ہی سوال سے خود کو چونکا دیا۔

کمرے کی لائٹس جل رہی تھیں، مگر چہروں کی روشنی کہیں نہیں تھی۔ وہ آہستہ آہستہ دانیال کے کمرے کی طرف بڑھا، دروازہ نیم وا تھا۔

یہ گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟
وہ بولا، جیسے آواز دے کر شور واپس بلانا چاہ رہا ہو۔

دانیال بیڈ پر لیٹا ہوا تھا، ہاتھ میں فون، چہرے پر ویسی ہی بےنیازی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

بھائی… مست، گھر میں ابھی کَلَیش ہوا ہے۔۔۔
دانیال نے لفظ کَلَیش ایسے ادا کیا جیسے یہ کوئی معمول کا موسم ہو جو شام کے وقت آیا کرتا ہو۔

تم تو کمرے میں ہو…؟
امن نے الجھ کر پوچھا۔ ساتھ ہی یوسف اور اذلان بھی وہیں موجود تھے — تینوں بھائی ایک ساتھ، ایک کمرے میں، مگر تین الگ دنیاؤں میں۔

تو…؟
دانیال کی آنکھیں اب بھی موبائل پر تھیں۔

تو بھائی کا کہنے کا مطلب ہے کہ تُو ہی تو ہر بار گھر میں کَلَیش کرتا ہے۔۔۔۔ یوسف نے وضاحت دی، جس میں طنز بھی تھا اور مذاق بھی۔

لیکن اس بار تو تُو کمرے میں تھا… تو پھر یہ کَلَیش کس نے کیا؟ یوسف کی بات مکمل ہوتے ہی اذلان نے فوراً گیند کی طرح الفاظ کو تھاما

ہاں… واقعی۔

ہنہ؟ بھائی! میں تم لوگوں کو ایسا لگتا ہوں؟ میں کَلَیشی ہوں؟ دانیال نے چونک کر سر اٹھایا، جیسے اُس پر کوئی سنگین الزام لگا ہو۔

ہاں تو… اب؟
اذلان نے بے رحمی سے سچ کی چوٹ مار دی۔

تُو چُپ رہ۔۔۔۔ اذلان کی طرف غصے میں گھور کر کہا پھر امن کی طرف دیکھ کر معصومیت سے چیخا جیسے اُس پر کوئی ظلم ہوگیا ہو۔۔
بھائی۔۔۔

نہیں، میں ویسے ہی کہہ رہا تھا کہ… تم تو کمرے میں تھے…
امن نے بات سنبھالنے کی بےکار کوشش کی،

نہیں بھائی، میں تو کلیشی ہوں نا! تو پھر مجھ سے بات کیوں کر رہے ہو؟
اور شاید… دانیال کے معاملے میں بات سنبھالنا واقعی ہمیشہ ایک فنِ خاص مانا جاتا تھا۔

وہ سب چھوڑو، یہ بتاؤ ہوا کیا ہے گھر میں؟
امن نے موضوع بدلا،

دانیال نے روٹھے بچوں کی طرح کہا
ہاں ہاں! چھوڑ دو مجھے۔ میری تو کسی کو پروا ہی نہیں! جا رہا ہوں میں۔۔۔ اور وہ ڈرامائی انداز میں مڑ کر دروازے کی طرف بڑھا، لیکن…

اذلان نے ابرو چڑھاتے ہوئے کہا
ادھر کدھر جا رہا ہے؟ باہر کا راستہ تو وہ ہے۔۔۔

دانیال نے بھرپور تحقیر سے کہا
گَوَار انسان! جب بندے کو واش روم آتا ہے، تو وہ واش روم کی طرف ہی جاتا ہے نا۔۔۔

اذلان نے چبھتا ہوا کہا
اچھا؟ مجھے لگا تُو خودکشی کرنے جا رہا ہے…

دانیال نے جذباتی بریک ڈاؤن کے کنارے
ہاں، تُو تو یہی چاہتا ہے نا کہ میں مر جاؤں؟… دیکھو بھائی۔۔۔

ہو گیا تم دونوں کا؟ امن نے دونوں کو گھورتے کہا

یوسف نے ہاتھ اٹھا کر کچھ کہنے کی اجازت لیتے ہوئے کہا
میں کچھ بولوں؟

نہیں۔۔۔ امن نے فوراََ مانا کردیا۔۔۔

یوسف نے جھنجھلاتے ہوئے کہا
ارے بھائی، بولنے دو نا۔۔۔

فزول ہی بولے گا۔۔۔ دانیال نے کہا

اذلان نے فوراً بات پکڑتے ہوئے کہا
مجھے ابھی گَوَر کہہ رہا تھا، اور خود کو یہ نہیں پتا کہ ‘فضول’ ہوتا ہے، ‘فزول’ نہیں۔۔۔۔

دانیال نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
بھائی! میں اس کو مار دوں گا، قسم سے۔۔۔

بڑا ہے تم سے، تمیز سے بات کرو۔۔۔ امن نے دانیال کو گھورتے کہا

دانیال نے مزید مظلوم بن کر کہا
ہاں تو، وہ بھی تو  بول رہا ہے۔۔۔

ہاں! صرف میں ہی نہیں بول رہا ہوں کیونکہ تم لوگ مجھے بولنے ہی نہیں دے رہے۔۔۔ یوسف نے منہ بناتے کہا

بول! اب بول۔۔۔ دانیال نے چلا کر کہا

یوسف نے مسکراتے ہوئے کہا
ہاں، میں صرف یہ پوچھ رہا تھا کہ تُو واش روم میں جا کر صرف ‘سرف’ کھانے کا ارادہ تو نہیں رکھتا؟

دانیال نے حیرت و غصے کے امتزاج سے کہا
دیکھو بھائی! دیکھ لو! اب میں سرف بھی کھا لوں گا؟

اذلان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اچھا ہے! تیرا گُردہ اور پیٹ دونوں صاف ہو جائیں گے۔۔۔

بھائی…
آواز میں وہی معصومیت تھی جو ہر مار سے بچنے والے چھوٹے بھائی کی ہوتی ہے۔

امن نے آہستہ مگر سخت لہجے میں کہا
تینوں کو تھپڑ مار دوں گا اب میں۔۔۔

یوسف نے فوراً صفائی دیتے ہوئے کہا
میں نے کیا کیا ہے بھائی؟

تم کچھ نہیں کیے، اسی لیے تمہیں ماروں گا۔۔۔

یوسف نے حیرت سے کہا
آئییں؟؟

دانیال نے آہستہ سے مسکاتے ہوئے کہا
بینگن۔۔۔

اذلان نے سرد لہجے میں کہا
گَوَار۔۔۔

دانیال نے اب منہ بنا کر کہا
تُو ہے۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ اچانک واش روم کی طرف دوڑا — کیونکہ وہ جانتا تھا امن اب عمل کے موڈ میں آ چکا ہے، صرف الفاظ پر نہیں رکے گا۔

اذلان نے اس کے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا
ڈرپوک سالا! واش روم میں جا کے چھپ گیا ہے۔۔۔

امن نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
اُسے چھوڑو۔۔۔ مجھے یہ بتاؤ، ہوا کیا ہے گھر میں؟

مومز لوگوں کا کلیش ہوا ہے۔۔۔ اور اُس میں دادی بھی شامل تھیں۔۔۔

کس بات پر؟

تمہاری شادی کو لے کر۔۔۔

میری شادی؟ امن نے حیرانی سے کہا

ہاں، تمہاری شادی۔۔۔

کیسے؟

یوسف نے آہستہ سے  کہا
وہ ایسے کہ۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *