دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۱۵
فجر کی روشنی مدھم سی کھڑکی سے اندر آرہی تھی۔ کمرے میں ہلکی سی خوشبو بسی ہوئی تھی، شاید عود کی یا پھر اس سکون کی جو نماز کے بعد دل میں اتر آتا ہے۔ ولید جائے نماز پر بیٹھا دعا مانگ رہا تھا، اس کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر وہی ہمہ وقت کا ٹھہراؤ، جیسے دنیا کے ہنگاموں سے پرے کوئی اور جہان ہو۔
ماہی دروازے میں خاموشی سے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ ولید کے چہرے پر پھیلا سکون اسے ہمیشہ عجیب سا محسوس ہوتا تھا— ایک ایسا سکون جو کبھی اس کے اندر نہیں تھا۔ وہ بے ساختہ نظریں جھکا گئی۔ جیسے ہی ولید کی دعا ختم ہوئی، وہ آہستہ سے بولی،
ہوگئے تیار؟
ولید نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر اپنے کپڑوں پر نظر ڈالتے ہوئے مسکرایا،
ایسے چلوں؟ وہ اس وقت ہلکی نیلی رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔۔۔
ماہی نے سرسری سی نظر ڈالی اور کندھے اچکا کر بولی،
ہاں، صحیح لگ رہے ہو۔
تم ایسے جاؤ گی اور میں ایسے جاؤں۔۔۔؟ ماہی نے اس وقت سیاہ پینٹ اور ہوڈی میں ملبوس تھی۔۔
ہاں تو کیا ہُوا۔۔ ماہی نے بے نیازی سے کہا
مگر ولید نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ اٹھا اور الماری کی طرف بڑھا، کچھ دیر بعد دو جوڑے نکال کر پلٹا— ایک اپنے لیے اور ایک ماہی کے لیے۔
ماہی نے حیرانی سے اسے دیکھا، یہ کہاں سے آیا؟
ولید نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،
رات کو گیا تھا لینے، تم گھر پر نہیں تھیں… کہاں گئی تھی؟
ماہی ایک پل کو چپ رہی، پھر نظریں چرا کر بولی،
کہیں نہیں… بس ویسے ہی۔
ولید کے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہیں آیا، وہ ویسا ہی پرسکون تھا، جیسے اسے فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ کپڑے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا،
اچھا، یہ لو، جاؤ، چینج کر کے آؤ، میں بھی کر لیتا ہوں۔
ماہی نے بے اختیار کپڑے تھام لیے، اور روم سے نکل گئی۔۔۔
++++++++++++
سحر کی ٹھنڈی ہوا ہر شے کو چھو کر گزرتی، رات کی سیاہی آہستہ آہستہ مدھم پڑ رہی تھی۔ مشرق کے افق پر ہلکی سنہری کرنیں نمودار ہو رہی تھیں، جیسے رات کی تاریکی کے پردے میں امید کی روشنی چھپ کر بیٹھی ہو۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں ہلچل مچانے لگے، درختوں کی شاخوں پر بیٹھے چند پرندے دھیرے دھیرے چہچہا رہے تھے، جیسے قدرت کی تسبیح پڑھ رہے ہوں۔ اور وہ تینوں وقت سے کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے تاکہ ماہی اور ولید ان کی آمد سے پہلے ہی کسی جگہ چھپ سکیں۔ مگر اب تک کوئی مناسب جگہ نہیں ملی تھی۔
وَلی، تمہیں اسے یہاں لانے کو کس نے کہا تھا؟ حامد نے قدرے غصے سے کہا، وہ ولید کے ساتھ کھڑا تھا، جیسے کوئی گمشدہ سایہ جو وقت کے پردے میں چھپ چکا ہو۔ سراپا سیاہ لباس میں ملبوس، چہرہ ماسک اور کیپ کی اوٹ میں تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک غیر مرئی تیز دھار چمکیلی تھیں، جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہو مگر کسی کو خود کو دیکھنے کی اجازت نہ دے رہا ہو۔
کارگو پینٹ کی جیبوں میں چھپے تسمے اور دھاتی کلپ، اس کی تیاری کا اعلان کر رہے تھے۔ گھٹنے پر بندھی گئیر پٹی اس کے قدموں کی مضبوطی کا ثبوت تھی۔ ہر چیز، ہر تفصیل، جیسے کسی گہرے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی۔
تم پریشان نہ ہو، میں اس کی حفاظت کر سکتا ہوں… ولید نے پُراعتماد انداز میں جواب دیا۔
سفید ہُڈی اس کے چوڑے شانے پر ڈھیلی ڈھالی سی گری ہوئی تھی، اور اس کے نیچے سیاہ کارگو پینٹ، جس میں کئی جیبیں تھیں، اس کی کلائی پر بندھا دستانہ جیسے کسی معرکے کی تیاری کا اعلان کر رہا تھا۔ اس کی پشت پر ایک ہلکا سا بیگ جھول رہا تھا—کیا معلوم، اس میں کیا تھا ؟ شاید کوئی ایسی شے جو اسے کبھی نہ کبھی کام آ سکتی تھی۔
وہ ایک ایسی روشنی میں کھڑا تھا، جو سایہ اور اجالا، دونوں کا سنگم تھی۔ شاید وہ خود بھی ایسا ہی تھا—نہ مکمل روشنی، نہ مکمل تاریکی۔
شکر تھا کہ ماہی تھوڑی دور کھڑی تھی اور ان کی باتیں نہیں سن سکی، ورنہ اس بات پر اُس کا بہت بُرا ردِعمل ہوتا۔۔ وہ اِدھر اُدھر چھپنے کی جگہ تلاش کر رہی تھی لیکن پوری سڑک سنسان تھی اور آس پس سوائے درختوں کے کچھ نہ تھا۔۔۔
سفید رنگ کی ڈھیلی ڈھالی ہُڈی اس کے نازک وجود کو مزید پراسرار بنا رہی تھی، جس کا ایک کنارہ اس کے چہرے کو جزوی طور پر چھپا رہا تھا۔ سیاہ ماسک میں سے جھانکتی گہری آنکھیں کسی بے رحم سپاہی کی طرح بے تاثر تھیں۔ اس کا لباس مکمل سفید تھا—ایک چمکدار جنگجو کی طرح۔ فِٹڈ کراپ ٹاپ، اور ڈھیلی مگر اسٹائلش کارگو پینٹ، اور سیاہ جوتے ۔۔ ولید اور ماہی کا سوٹ تقریباً ایک جیسا ہی تھا۔۔
حامد نے ایک گہری سانس لی اور سرگوشی کے انداز میں بولا، اب آگے کیا کرنا ہے؟
ماہی نے گرد و نواح کا جائزہ لیا، یہاں چھپنے کے لیے کوئی اچھی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ سڑک سنسان تھی، اردگرد کوئی محفوظ جگہ نہیں تھی۔
یہاں تو کوئی مناسب جگہ ہی نہیں… کہاں چھپیں؟ اس نے بےچینی سے کہا۔
حامد نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، تمہیں چھپنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ماہی نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا اور تیز لہجے میں بولی، تم سے کسی نے کچھ پوچھا بھی نہیں… میں ولید سے بات کر رہی ہوں، تم اپنی جنگ کی تیاری کرو، ہمیں اپنا کام کرنے دو۔
ولید، فوراً بولا، گاڑی میں…
اس کے اتنی جلدی جواب دینے پر حامد نے شکایتی انداز میں ولید کو دیکھا، وَلی، مجھے لگتا ہے تو نے ہی اسے سر پر چڑھایا ہے۔۔۔
ماہی نے معنی خیز نظروں سے حامد کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی، کیوں؟ جلن ہو رہی ہے کہ اس نے فوراً میری بات کا جواب دے دیا؟
اور ویسے بھی ماہی مخاطب کرے۔۔ اور ولید جواب نہ دے ایسا ہو نہیں سکتا۔۔ کیا بلا کا فلکس مرا تھا۔۔ اُس نے۔۔۔
ہاں تو مُجھے کونسا وہ نظر انداز کرتا ہے۔۔۔ہنہ میں اُس کا سب سے اچھا دوست ہوں۔۔ حامد چڑ کر بولا۔۔
لیکن وہ تمہاری فضول باتیں نظر انداز کر دیتا ہے لیکن میری نہیں کرتا۔۔۔ ماہی نے اکڑا کر کہا
جی نہیں۔۔ وہ مُجھے کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔ میں چاہے جتنی بھی فضول باتیں کرلوں۔۔
تُم سے زیادہ فضول باتیں ماہی کرتی ہے۔۔۔ ہنہ۔۔لیکن وہ ماہی کو ائنور نہیں کر سکتا لیکن تمہیں کر سکتا ہے۔۔۔ ماہی نے خفکی سے کہا
اوہ ہیلو۔۔۔ کونسے ہوائی دنیا میں رہ رہی ہو تُم۔۔۔ حامد نے طنز کیا۔۔۔
ارے نہیں، میں زمین پر ہی ہوں… بس تمہاری سوچ ابھی آسمان تک پہنچی نہیں۔۔۔ ماہی نے اترتے ہوئے کہا
ولید نے دونوں کی نوک جھونک سنتے ہی ہاتھ اٹھا دیے، پلیز۔۔۔ اب دوبارہ شروع مت ہو دونوں…
یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تاکہ کچھ ضروری سامان نکال سکے، ماہی کی بات کو خاص نوٹس نہیں کیا تھا اُس نے۔۔۔ جبکہ پیچھے حامد اور ماہی کی نظریں ایک دوسرے کو گھور رہی تھیں۔
اچھا حامد، تم نے اپنے بوس کو دیکھا بھی ہے؟ اس نے لاپرواہی سے پوچھا، جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔
حامد نے فخریہ انداز میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا،
ہاں تو، اور نہیں تو کیا؟ میں وہ واحد انسان ہوں جس نے ایم ڈی کو دیکھا رکھا ہے۔۔۔
ماہی نے شکی نظروں سے اسے دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، سچ میں دیکھا ہے؟ یا بس میرے سامنے یونہی فلیکس مار رہے ہو؟
حامد نے مصنوعی خفگی سے ایک لمبی سانس لی اور طنزیہ انداز میں کہا، ہنہ… تمہارے سامنے فلیکس ماروں گا؟ اتنے برے دن نہیں آئے میرے ابھی۔۔۔
ماہی نے لاپروائی سے گردن جھٹکی اور دلچسپی سے پوچھا، اچھا… کیسا دکھتا ہے وہ؟
یہ سوال محض اتفاقیہ نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا تھا—اگر واقعی ولید مافیا تھا، تو کیا حامد اور ولید اس کے سامنے کوئی ڈرامہ کر رہے تھے؟
حامد نے لمحے بھر کے لیے سوچا اور پھر کچھ اس انداز میں جواب دیا جیسے وہ کسی بہت خاص شخصیت کا ذکر کر رہا ہو، بہت ہینڈسم! گندمی رنگت، خوبصورت بھوری آنکھیں… پیاری سی مسکراہٹ ۔۔۔ ایک بار دیکھنے کے بعد دل چاہے بار بار دیکھو، ایسا پرکشش ہے وہ بندہ! کوئی کہہ بھی نہیں سکتا کہ وہ مافیا ہوگا…
ماہی نے ایک لمحے کو سوچا۔ اچھا… وہ آہستہ سے بولی، جیسے خود سے کوئی حساب کتاب لگا رہی ہو۔ اگر ولید ہی ایم ڈی ہوتا، تو پھر وہ یہاں کیسے آ سکتا تھا؟ وہ کیسے دو کردار نبھا سکتا تھا اور ولید وہ تو اتنا ہینڈسم نہیں ہے۔۔ عام سا تو ہے بس اتنا کوئی خاص نہیں۔۔۔ لیکن ہوسکتا ہے حامد مُجھ سے جھوٹ بول رہا ہو۔۔۔؟
حامد نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا اور بولا،
تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ تمہارا کیا لینا دینا ایم ڈی سے؟
ماہی نے بے پرواہی سے کندھے اچکائے،
بس ویسے ہی… شوق ہے مافیا کو دیکھنے کا۔
حامد نے ہنستے ہوئے کہا، ہاں، ابھی آ جائیں گے نا پانچ مافیا، آرام سے دیکھنا اُنہیں۔۔۔
دیکھو، ہم گاڑی کے اندر بھی چھپ سکتے ہیں اور باہر بھی…ولید ان کے پاس آتا اپنی مخصوص سنجیدہ آواز میں کہا۔ اور ہمیں لڑنا نہیں ہے، بس موقع دیکھ کر حارث کو پکڑنا ہے اور یہاں سے نکل جانا ہے۔۔۔
ماہی نے حیرانی سے اسے دیکھا، ایسا کیسے ہوگا؟ اور ویسے بھی تم نے مجھے سفید کپڑے پہنا دیے ہیں، ایسے تو ہم جنگ میں سب سے الگ ہی نظر آئیں گے۔۔
یہ اس لیے، تاکہ ہمارے آدمی تم دونوں کی مدد کر سکیں، نہیں تو… مسٹر جیک کا تو پتہ نہیں، ہمارے اپنے آدمی ہی تمہیں مار دیتے۔۔۔ حامد نے جواب دیا
ولید نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ہاں، حامد نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا ہے، وہ ہماری مدد کریں گے…
ماہی نے دل ہی دل میں سوچا، مطلب، میرا یہاں آنا بالکل فضول ہے۔۔ لیکن پھر وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، خیر، جو بھی ہو… ایم ڈی کا پتہ تو لگا ہی لوں گی۔۔
اسی لمحے، دور سے کچھ گاڑیاں نظر آئیں، ان کی ہیڈلائٹس اندھیرے میں تیز روشنی پھیلا رہی تھیں۔
ماہی نے جلدی سے پوچھا، یہ لوگ کون ہیں؟ کیا وہ لوگ آ گئے؟
حامد نے ایک مطمئن انداز میں کہا، یہ میرے ساتھی ہیں۔۔۔
ماہی نے طنزیہ انداز میں آنکھیں گھمائیں، ایک تو تمہارے ساتھی ہر جگہ دشمن سے پہلے کیوں پہنچ جاتے ہیں؟
حامد نے چونک کر پوچھا، کیا مطلب؟ تم نے پہلے کبھی میرے آدمیوں کو جلدی آتے دیکھا ہے؟
ماہی یکدم خاموش ہو گئی۔ یہ میں نے کیا کہہ دیا؟ اس نے خود کو کوسا۔ وہ انہیں یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ نائلہ کے ساتھ تھی اور کچھ ایسا دیکھ چکی تھی جو نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔
اتنے میں ایم ڈی کے لوگ اپنی گاڑیوں سے باہر آ گئے اور سیدھا حامد کے پاس آ کر بولے، دشمن ابھی تک نہیں آیا کیا؟ ان سب نے بھی حامد جیسے ہی کپڑے پہن رکھتے تھے۔۔۔
ماہی نے نظر دوڑائی اور حیرت سے بولی، بس؟ صرف پانچ گاڑیوں سے پانچ لوگ؟ اتنے سے ہی لڑیں گے؟
ولید نے تیزی سے ماہی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے سرگوشی میں کہا، چپ کرو… خاموش کھڑی رہو! یہ لوگ خطرناک ہوتے ہیں۔۔۔
ماہی نے ضدی لہجے میں کہا، ہاں تو ماہی بھی خطرناک ہے۔۔۔
ولید نے ایک گہری سانس لی اور اس کی طرف جھکتے ہوئے بولا، ہاں، تو پھر چپ چاپ کھڑی رہو، کیونکہ خطرناک لوگ زیادہ بولتے نہیں۔۔۔
ماہی حیران رہ گئی، ہیں؟ یہ کس نے کہا؟
ولید نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا، میں نے۔۔۔
یہ ان دونوں کو دیکھ لو ان کی مدد کرنی ہے ہمیں ۔۔ جیسا کے میں نے بتایا تھاحامد نے اپنے ساتھیوں سے کہا
ایم ڈی کے ایک آدمی نے حامد کی طرف دیکھا اور پوچھا، باس نے کہا ہے؟
حامد نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا، ہاں، بس یہی سمجھ لو۔۔۔
دوسرا آدمی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا، ٹھیک ہے، سمجھ گئے۔ مسٹر جیک کے پاس جو حارث ہے، اسے جنگ کے دوران ان دونوں کے ساتھ رفع دفع کرنا ہے؟
حامد نے سنجیدگی سے کہا، ہاں، بس یہی سمجھ لو… یہ تینوں باس کے بہت قریبی ہیں، اسی لیے ہمیں لازمی ایسا کرنا ہے۔۔۔
ماہی نے ولید کے قریب ہو کر آہستہ سے سرگوشی کی، تمہارا دوست تو کافی اچھا ہے، کتنے آرام سے جھوٹ بول رہا ہے! اور تم مجھے کہتے ہو؟ اُس نے طنز مارا
ولید نے اسے گھورتے ہوئے کہا، وہ اپنی دوستی نبھا رہا ہے، اور یہ بھی دیکھو کہ وہ جھوٹ بول کر کسی کی مدد کر رہا ہے۔۔۔
ماہی نے کندھے اچکائے، جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے۔۔۔
ماہی نے پریشان ہو کر سر جھٹکا، ماہی، پلیز…
یہ وہ جملہ تھا جو ولید تب کہتا جب وہ تھک چکا ہوتا اور بحث کرنے کے موڈ میں نہ ہوتا۔
ماہی حیرانی سے اسے دیکھتی رہی، پھر آہستہ سے بولی، اچھا۔۔۔ اور وہ خاموش ہو گئی۔ یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ ولید کی کسی بات کا ماہی پر اثر نہیں ہوتا تھا، لیکن اس پلیز کا جادو خوب چلتا تھا ۔۔
یہ وہی پلیز تھا جسے سن کر ماہی نے ولید سے سوری کہا تھا، اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔۔
اسی لمحے، حامد نے انہیں اشارہ کیا— کیونکہ دور سے کئی گاڑیاں نظر آنے لگی تھیں، اور وہ اتنی زیادہ تھیں کہ ابھی سے ان کی ہیڈلائٹس روشنی کا ایک سمندر بنا چکی تھیں۔
وقت آ چکا تھا۔
++++++++++++
سڑک پر ہیڈلائٹس کی روشنی بکھری ہوئی تھی، مسٹر جیک نے گاڑی کے دروازے سے نکلتے ہی ایک گہری نظر ارد گرد دوڑایٔ۔ اس کے چہرے پر ایک سختی اور ضبط کی جھلک تھی۔
لگتا ہے ایم ڈی ابھی تک نہیں آیا… جیک نے سرد لہجے میں کہا، پھر ایک لمحے کو رکا اور اپنے خاص آدمی ایرک کی طرف دیکھا۔
ایرک، تم ایسا کرو، حارث کو لے کر اندر ہی بیٹھو اور کچھ آدمیوں کو بھی اندر رکنے کا اشارہ دو۔ جب ایم ڈی آئے گا، تب میں اشارہ کروں گا، تب انہیں باہر بھیجنا… جیک نے حکم دینے کے انداز میں کہا۔
ایرک نے اثبات میں سر ہلایا، ٹھیک ہے، باس۔۔۔
جیک نے آگے بڑھتے ہوئے مزید کہا، اور تم بھی فی الحال ان کے ساتھ اندر ہی رہو، اور اس بات کا خاص خیال رکھو کہ حارث نہ بھاگے اور نہ ہی کوئی الٹی سیدھی حرکت کرے۔۔۔۔
ایرک نے دوبارہ سر ہلایا اور جلدی سے حارث کے ساتھ گاڑی کے اندر بیٹھ گیا، جبکہ جیک نے اپنے کوٹ کی آستین ٹھیک کرتے ہوئے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور باہر نکل آیا۔
اندھیرے میں کئی سائے حرکت کر رہے تھے۔ جیک کی نظریں اپنے آدمیوں پر گئیں، جو خاموشی سے اس کے حکم کے منتظر کھڑے تھے۔
کہاں ہے تمہارا باس؟ جیک نے ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ ایم ڈی کے آدمیوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی بے رحمی تھی، جیسے وہ پہلے ہی کھیل جیت چکا ہو۔
ماحول مزید خطرناک ہوتا جا رہا تھا، جیسے کوئی بہت بڑی بازی بس شروع ہونے والی ہو۔
+++++++++++
اندھیرے میں دور سے آتی بےشمار گاڑیوں کی ہیڈلائٹس جیسے رات کے سناٹے کو چیر رہی تھیں۔ روشنی کا ایک سمندر تھا جو سڑک پر پھیلتا جا رہا تھا۔ ماہی کی نظریں بے اختیار سامنے کے منظر پر جم گئیں۔ اتنے سارے لوگ… اور ایم ڈی کی طرف صرف چھ لوگ؟
یہ اتنے سارے ہیں… اور یہ لوگ صرف چھے ہو کر ان سے کیسے لڑیں گے؟ ماہی کی آواز میں حیرت اور بےچینی دونوں جھلک رہی تھیں۔
ولید نے بے خیالی میں کہا، پتہ نہیں… دیکھو۔۔۔
دونوں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے، پیچھے کی طرف۔ گاڑی مکمل بند تھی، اور کھڑکیوں پر سیاہ شیشے لگے تھے، جو باہر کے کسی بھی شخص کو اندر دیکھنے نہیں دے رہے تھے۔ مگر اندر سے باہر کا سارا منظر با آسانی نظر آرہا تھا۔۔
ماہی نے ایک نظر ولید پر ڈالی۔ وہ پرسکون تھا، مگر اس کے چہرے پر ایک گہری سنجیدگی تھی۔ جیسے وہ سب کچھ جانتا ہو، جیسے یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہو۔ باہر حامد اپنے آدمیوں کے ساتھ تیار کھڑا تھا۔
++++++++++++++
فجر کی روشنی آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی، جیسے یہ اندھیرے کے خلاف اپنی جنگ جیت رہی ہو۔ لیکن یہاں… ایک اور جنگ شروع ہونے والی تھی، جہاں جیت اور ہار کا فیصلہ صرف طاقت کرے گی…
ہم جنگ شروع کرتے ہیں… باس ابھی آجائیں گے۔۔۔ حامد نے گہری سانس لی اور آگے بڑھ کر بلند آواز میں اعلان کیا،
مسٹر جیک جو پہلے ہی ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا تھا، آگے بڑھا اور تیوری چڑھاتے ہوئے بولا، رولز تو پتہ ہیں نا تم لوگوں کو؟ میں دھوکا برداشت نہیں کروں گا۔۔۔
حامد نے گردن جھٹکتے ہوئے کہا، ہاں، پتہ ہیں۔ لیکن میں سب کو یاد دلا دیتا ہوں۔۔
وہ ایک قدم آگے بڑھا اور پوری طاقت سے بولا تاکہ ہر کوئی سن سکے:
رول نمبر ۱: کوئی بھی گن، چاقو یا کوئی بھی نوکیلی چیز ساتھ نہیں رکھے گا! اگر کسی کے پاس سے کوئی ہتھیار نکلا، تو اس کی ٹیم ہار جائے گی… اور اس ٹیم کے لیڈر کو خود کو دوسری ٹیم کے حوالے کرنا ہوگا۔۔۔
سب نے سر ہلایا۔ جیک کے آدمی مسکراتے رہے، جیسے انہیں پہلے ہی یقین ہو کہ وہ جیتنے والے ہیں۔
رول نمبر ۲ : اگر جنگ کے دوران کوئی بھی ٹیم لڑائی روکنا چاہے، تو اسے اپنی ٹیم کے تین بندے دوسری ٹیم کو دینے ہوں گے۔۔۔
ولید نے ایک نظر ماہی پر ڈالی، جو خاموشی سے بیٹھی سارا منظر دیکھ رہی تھی،
رول نمبر ۳: کسی بھی ٹیم کا کوئی بھی ممبر کسی بھی وقت جنگ چھوڑ کر جا سکتا ہے، یہ اس کی اپنی چوائس ہوگی…
یہ سنتے ہی جیک کے کچھ آدمی ہنسنے لگے، جیسے انہیں یقین ہو کہ ان کی ٹیم سے کوئی نہیں بھاگے گا۔
اور آخری اصول…حامد کی آواز مزید گونجدار ہو گئی، جو ٹیم ہارے گی، اس کی موت یقینی ہے! یا تو وہ دوسری ٹیم کے ہاتھوں مارے جائیں گے، یا خودکشی کریں گے… یا پھر پولیس کے حوالے ہو جائیں گے۔۔
یہ سن کر چاروں طرف ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔
مسٹر جیک نے کہا،
زبردست! تو پھر جنگ شروع ہو جائے؟
شروع ہو چکی ہے۔۔ حامد نے مضبوط لہجے میں کہا۔
حامد اب تک بالکل ٹھیک لگ رہا تھا، چاک و چوبند، تیار… مگر آگے کیا ہونے والا تھا، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایم ڈی کا ابھی تک کوئی پتا نہیں تھا، اور اوپر سے حامد کی حالت… وہ کیسے لڑ سکتا تھا؟ اُسے تو لڑنا آتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
تُو پیچھے رہ، ہمارے… ہم دیکھ لیں گے۔۔۔
ایم ڈی کے ایک بندے نے حامد سے کہا،
یہ چھ لوگ تھے… اور سامنے جیک کے چھبیس آدمی!
ہوا میں تناؤ مزید بڑھ چکا تھا۔
یہ جنگ نہیں، ایک قیامت بننے والی تھی۔
سورج کی پہلی کرن پر پہلا حملہ ہونے ہی والا تھا…
پہلا وار کس کا ہوگا؟ کون پہلے گرے گا؟ کون جیتے گا؟
++++++++++
جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ہر طرف چیخ و پکار، لاتیں، گھونسے، اور خون کا منظر تھا۔ زمین پر گرے ہوئے لوگ، کچھ زخمی، کچھ بےہوش، اور کچھ شاید ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکے تھے۔
حامد کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کا سانس پھولا رہا تھا، پسینہ ماتھے پر چمک رہا تھا، اور اس کی ٹانگیں جیسے جواب دینے لگی تھیں۔ اس نے ابھی تک لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا، صرف دیکھ رہا تھا، اور صرف دیکھنے سے ہی وہ پیلا پڑ چکا تھا۔
ابھی بمشکل پانچ سے دس منٹ ہی گزرے تھے، لیکن حامد کی حالت اس طرح تھی جیسے وہ کئی گھنٹوں سے میدانِ جنگ میں ہو۔ اس کے برعکس، جیک کا ہر آدمی پوری طاقت سے لڑ رہا تھا۔
مگر ایک چیز عجیب تھی…
جب بھی مسٹر جیک کی نظر حامد پر پڑتی، وہ تھوڑا پریشان ہو ہوجاتا
یہ کیوں پیچھے کھڑا ہے؟ آگے کیوں نہیں بڑھ رہا؟ یہ کمزور ہے؟ ایم ڈی کا بندہ اور کمزور ناممکن۔۔ اور یہ ایم ڈی کا خاص آدمی بھی لگ رہا ہے۔۔۔۔ جیک کے ذہن میں سوالات گردش کرنے لگے۔
یہی سب سوچتے ہوئے جیک سیدھا حامد کے قریب
آ گیا۔
اب وہ اس کے بہت قریب کھڑا تھا۔
تم مجھے ایم ڈی کے خاص آدمی لگ رہے ہو… جیک نے گہری نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا، مگر یہ کیا؟ تم یہاں پیچھے اکیلے کیوں کھڑے ہو؟
حامد کے ہاتھ پسینے سے بھیگ چکے تھے۔ وہ کچھ بول نہ سکا، بس اپنے اندر ہمت جمع کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
پھر… اچانک۔۔۔
حامد نے پوری طاقت سے جیک کے پیٹ میں ایک گھونسا دے مارا۔۔۔
اُففف!! جیک کے منہ سے ایک زوردار کراہ نکلی۔
ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔۔
پھر… جیسے ہی جیک کو احساس ہوا کہ حامد نے اس پر حملہ کیا ہے، اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
تمہاری اتنی ہمت؟ میں تم سے بات کر رہا تھا، اور تم نے… جیک غصے میں دھاڑا اور آگے بڑھا۔
حامد کو کچھ سجھائی نہ دیا۔ اس نے فوراً آنکھیں بند کیں اور کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔۔۔
اس سے زیادہ وہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔
اب جیک مجھے مارے گا… اور میں مر جاؤں گا … اور پھر سب ختم…! اللہ حافظ دنیا… ٹاٹا بائے بائے۔۔ حامد کے دماغ میں بس یہی چل رہا تھا۔
جیک نے اس پر حملہ کرنے کے لیے قدم بڑھایا،
لیکن تبھی…
ایم ڈی کا آدمی ہے جنگ کے دوران آپ پہ پُھول تو ڈالنے سے رہا۔۔۔
آواز گونجی… ایک گہری، رعب دار آواز… جو کسی کو بھی کانپنے پر مجبور کر دے۔
جیک کے ہاتھ وہیں رک گئے۔۔۔
حامد نے حیرانی سے پیچھے دیکھا، اور اس کے چہرے پر ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی۔
وہاں…
دھند کے بیچ سے ایک سایا نمودار ہو رہا تھا۔ سست روی سے، مگر ایک عجیب اعتماد کے ساتھ۔
سر سے پاؤں تک سیاہ لباس میں لپٹا،
سیاہ ہوڈی کا گہرا سایہ اس کے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا، اور نقاب کے پیچھے چھپی آنکھیں کسی راز کی طرح پوشیدہ تھیں۔ ہاتھ میں دستانے، مضبوط جوتے،
قد لمبا، جسم مضبوط، جیسے چٹان ہو۔
ایم ڈی آ چکا تھا۔۔۔
سب نظریں اس پر تھیں۔ کچھ کی آنکھوں میں حیرت، کچھ کی آنکھوں میں خوف… اور کچھ کی آنکھوں میں موت کا منظر گھوم رہا تھا۔
ہاں، اگر آپ اپنی قبر کا انتظام کر لیں… ایم ڈی نے جیک کو گھورا، تو آپ کی قبر پر پھول ڈالنے ضرور آئیں گے۔م۔
ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں، دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیوں سے باہر نکل آئے گا۔
ایم ڈی…؟ وہ زیر لب بڑبڑائی۔
یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟
اس کی نظریں کبھی ایم ڈی پر جاتیں، جو اپنے دبدبے کے ساتھ سامنے کھڑا تھا، اور کبھی ولید کی طرف، جو بالکل اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔۔
یہ دھوکہ تھا؟ خواب تھا؟ یا پھر کچھ ایسا جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی؟
ولید نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، پھر باہر جھانکا، جیسے وہ بھی دیکھنا چاہ رہا ہو کہ ماہی کس بات پر اتنی حیران و پریشان ہو رہی ہے۔
کیا ہوا…؟ تم اتنی الجھی ہوئی کیوں لگ رہی ہو؟
ماہی نے تیزی سے ولید کا چہرہ دیکھا۔
اس کا دل کہہ رہا تھا کہ ایم ڈی اور ولید ایک ہی ہیں! لیکن… ولید تو اس کے ساتھ بیٹھا تھا؟
اُس کا سارا شک پانی میں مل گیا تھا۔۔۔
ایم ڈی… ماہی کی آواز لرز گئی۔
ولید کے چہرے پر الجھن ابھر آئی۔
ہاں، تو؟ ایم ڈی کو تو آنا ہی تھا… تمہیں ڈر لگ رہا ہے؟
ڈر؟
نہیں، یہ خوف نہیں تھا، یہ شاک تھا۔۔۔
ماہی ۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔؟ ولید نے حیرت اور الجھن سے اسے دیکھا، جیسے سمجھ نہیں پایا کہ ماہی کا یہ ری ایکشن کیوں ہے۔
اگر تُم یہاں ہو تو۔۔۔۔ وہاں ایم ڈی۔۔۔
ماہی نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر، جھٹکے سے ولید کے چہرے پر موجود ماسک نیچے کھینچ دیا۔۔
لیکن…
یہ تو واقعی ولید تھا۔۔یہ۔۔۔۔
کیسے ممکن ہے؟
ماہی نے زور سے آنکھیں جھپکیں، جیسے دوبارہ دیکھ کر یقین کرنا چاہتی ہو۔
نہیں… یہ غلطی ہو سکتی ہے… مگر ایم ڈی تو باہر ہے… اور ولید یہاں؟
ولید تو وہی تھا، وہی گہری نظریں، وہی چہرہ، وہی شخص!
ماہی…؟
ولید نے حیرت اور الجھن کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ وہ سمجھ چکا تھا.۔۔ اور اب حیرت سے ماہی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
با خدا… اس لڑکی نے اب تو اُسے ایم ڈی بھی بنا ڈالا…
ولید نے گہری سانس لی اور بے یقینی سے ماہی کو دیکھا، یہ لڑکی واقعی کمال تھی.. کبھی یہ اُس سے نفرت کا اِظہار کرتی۔۔ کبھی اُسے منحوس کہتی، کبھی عذاب۔ کبھی اُس کی موجودگی کو بدترین لمحہ قرار دیتی، اور اب؟ اب تو اُسے ایک مافیا کرمنل بھی بنا دیا تھا
سوری۔۔۔۔
ماہی کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہو چکا تھا۔
مجھے لگا…
میں سمجھی کہ…
وہ الفاظ نہیں ڈھونڈ پا رہی تھی، لیکن ولید کی نظریں گہری ہو چکی تھیں۔
اب ولید بھی شاکڈ تھا۔۔۔
کیا تم نے… واقعی یہ سوچا کہ میں ایم ڈی ہوں؟
ماہی نے آہستہ سے سر جھکا دیا۔
وہ پورے یقین کے ساتھ ولید کو ایم ڈی سمجھ بیٹھی تھی، لیکن…
وہ… میں نے بس سوچا…
ہاں۔۔۔ تم نے سوچا، اور ہمیشہ الٹا سوچا۔۔۔ بے یقینی سے اُس کے لب ہلے۔۔۔
ماہی نے لب بھینچ لیے، وہ جانتی تھی کہ اس بار وہ واقعی پھنس چکی تھی۔ ماہی نے گہری سانس لی، وہ جانتی تھی کہ ولید اب اسے آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔ وہ اسی تاثر میں کھویا رہا کہ ماہی اس کے بارے میں کیا کیا سوچتی رہی ہے۔
لیکن ولید نے گہری سانس لی، خود کو نارمل کیا۔۔۔ اور سیدھے لہجے میں کہا۔۔۔ خیر ہے جانے دو۔۔۔۔
تمہیں بُرا نہیں لگا۔۔۔ ماہی نے دھیرے سے پوچھا
نہیں جانے دو۔۔۔ فلحال، مجھے اپنے بھائی کی فکر ہے۔ ولید نے دھیرے سے کہا، جیسے وہ اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ چکا ہو۔ ابھی صحیح موقع ہے، جیک ایم۔ڈی کے پاس ہے، میں حارث کو لے کر آتا ہوں۔۔۔
یہ کہتے ہی ولید نے ایک لمحے کے لیے ماہی پر آخری نظر ڈالی اور پھر دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر نکل گیا۔۔
++++++++++++
کیسے ہیں، انکل جی۔۔۔۔
“مجھے زیادہ مس تو نہیں کیا؟ ایم ڈی ہاتھ باندھے جیک کے سامنے کھڑا اُس پر طنز کر ربا تھا..
ایم۔ڈی!
جیک نے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کر استقبال کیا، آؤ آؤ، ویلکم، ویلکم، ہمیں تمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔
ایم۔ڈی ہلکا سا مسکرایا، مگر اس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو دشمن کو خوفزدہ کر دے
آہان… جانتا ہوں۔۔۔ وہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے بولا، لوگ خوش فہمی میں ہوں گے کہ ایم۔ڈی کی موت آ چکی… حالانکہ، ایم۔ڈی کی موت اتنی جلدی آنے والی نہیں۔۔۔
جیک نے ایک زہریلی ہنسی ہنسی، جیسے وہ مزاحیہ جملہ ہو۔ مگر اگلے ہی لمحے…
طمانچے کی گونج سنائی دی۔۔۔۔
ایم۔ڈی نے بنا کوئی وارننگ دیے جیک کے چہرے پر زوردار تھپڑ مارا۔
جیک لڑکھڑا گیا، اس کے چہرے پر واضح حیرت تھی۔
میں اپنی بات پر خود نہیں ہنستا… ایم۔ڈی کی آواز زہر میں ڈوبی ہوئی تھی، تو تمہیں کس نے اجازت دی ہنسنے کی؟
جیک نے غصے سے دانت پیسے، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ وہ لمحہ نہیں تھا جب ایم۔ڈی سے الجھا جائے۔
وہ فوراً پیچھے ہٹا اور اپنی کار کی طرف بھاگا، جہاں اس کا سب سے خاص آدمی ایرک کھڑا تھا۔
حارث کو باہر نکالو۔۔۔ جیک نے جلدی سے کہا،
مگر…
مسئلہ ہو چکا تھا۔۔۔
ایرک جیسے ہی گاڑی کے اندر جھانکنے لگا، اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔۔
حارث کہاں ہے؟ اس نے جلدی سے پاس کھڑے گارڈ سے پوچھا۔
گارڈ بھی الجھا، ابھی تو یہیں تھا۔۔۔
چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ہلچل مچ گئی۔۔۔
حارث غائب تھا۔۔۔
ہر کوئی حیرانی اور خوف میں مبتلا ادھر اُدھر دیکھنے لگا…
مگر ایم۔ڈی؟
وہ صرف خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔
کیا ہوا، جیک؟ خاص بندہ بھاگ گیا کیا۔۔؟
ایم۔ڈی نے جیک کی طرف دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اس کے الفاظ میں ایک ایسی سفاکی تھی جو دشمن کی راتوں کی نیندیں اُڑا دے۔
جیک کے آدمی اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے، حارث کو ڈھونڈنے میں مگن، جیسے وہ کسی قیمتی چیز کو گم کر بیٹھے ہوں۔
اور پھر…
دو آدمی حارث کو پکڑ کر واپس لے آئے۔
او بھائی! آرام سے، کیا کر رہے ہو؟
حارث نے زبردستی اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، جیسے واقعی اسے ان کی یہ حرکت پسند نہ آئی ہو۔
سیاہ جیکٹ کے کھلے کالر کے اندر جھانکتی سرخ تہہ، جیسے کسی خاموش آگ کا شعلہ، سفید ٹی شرٹ اس کے انداز میں بے نیازی کا تاثر دیتی، سیاہ کارگو پینٹ اور سیاہ بوٹ اور چہرے پر سیاہ ماسک۔۔
یہاں جیک کے تمام آدمی ماسک پہنے ہوئے تھے، بس جیک واحد شخص تھا جس کا چہرہ کھلا تھا۔
یہ سب حارث نے خود طے کیا تھا کہ وہ جنگ لڑنے کیسے جائے اور اُسے کیسے کپڑے چاہئے اور ماسک لگا کر جائے گا۔۔۔۔
جیک کے سامنے کھڑے ہوتے ہی حارث نے اپنا انداز بدلا۔۔
کہاں گئے تھے؟ جیک نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
او بھائی! واش روم گیا تھا، کیا ہو گیا ہے؟ حارث نے کندھے اچکائے۔ آ رہا تھا واپس، بھاگا تھوڑی تھا۔ مجھے تو یہاں کی جگہ کا بھی نہیں پتا، کہاں جاتا؟
جیک کی آنکھیں تنگ ہوئیں۔
واش روم؟ یہاں کہاں ہے واش روم؟
يہ سنتے ہی حارث اُسے گھورنے لگا تھا۔۔
یہ کون ہے، جیک؟ ایم۔ڈی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ یہ لڑے گا مجھ سے، اکیلا؟
ہاں،۔۔۔ جیک نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا۔ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اور اس میں صلاحیت ہے تمہیں ہرانے کی۔ تو ہارنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
ایم۔ڈی نے سر جھکایا، پھر آہستہ سے ہنسا۔ interesting…
گاڑی میں بیٹھی ماہی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
اوہ نو! یہ ولید کہاں ہے؟ اور حارث… حارث اب ایم۔ڈی سے لڑے گا؟
اس کی نظریں فوراً میدان پر جم گئیں۔ ایم۔ڈی اور حارث ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے،
پیچھے باقی سب بھی رُک چکے تھے۔
سب کی نظریں ان دو پر تھیں
ماہی نے جلدی سے ارد گرد دیکھا۔
شاید ولید وہیں کہیں پھنسا گیا ہوگا، اور ابھی وہ باہر نہیں آ سکتا۔ یہ اچھا ہی ہے، ورنہ وہ بھی مشکل میں پھنس جاتا… لیکن حارث؟
حارث ایم۔ڈی سے کیسے لڑ سکتا ہے؟ اگر اسے کچھ ہو گیا تو…؟
ایک خوفناک خیال ماہی کے دل میں آیا، جس نے اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔
وہ دونوں ایک جیسے لگ رہے تھے۔
یکساں قد، یکساں جسم، ایک جیسی کھڑی ہونے کی ادا…
ماہی کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔
جب اُس نے ان کی آنکھوں پر غور کیا، تو وہاں بھی حیرت نے اسے جکڑ لیا۔
بھوری آنکھیں… دونوں کی آنکھیں ایک جیسی بھوری؟
ماہی ایک پل کے لیے حارث پر بھی شک کر سکتی تھی، لیکن…
نہیں۔۔۔
اُسے ایک لمحے کے لیے بھی حارث پر شک نہیں ہوا، چاہے وہ کتنا ہی مشکوک کیوں نہ لگے، چاہے اُس کی حرکات کتنی ہی عجیب کیوں نہ ہوں۔
حارث پر شک کرنا ممکن نہیں تھا۔
کیوں؟
کیونکہ حارث اُس کا بیسٹ فرینڈ تھا۔
وہ واحد شخص تھا جس کے ساتھ وہ ہمیشہ اپنے دل کی بات کہہ سکتی تھی، جس کے ساتھ وہ بے جھجک ہنستی، لڑتی، روٹھتی، اور پھر خود ہی مان بھی جاتی۔ وہ واحد شخص تھا جو اُسے سمجھتا تھا، جو اُسے اچھے سے سمجھتا تھا۔۔
اگر پوری دنیا بھی مجھے حارث پر شک کرنے کا کہے، تو بھی میں نہیں کروں گی۔
کیوں کہ میرا دل اس کی گواہی دیتا ہے…
اور دل کبھی غلط نہیں ہوتا۔۔۔
نہ حارث ہے ایم ڈی نہ ہی ولید ۔۔ ایم ڈی کوئی اور ہی ہے۔۔۔
ماہی نے سب دل میں سوچا، پھر اُس کی نظر جیک کے بندوں کے پیچھے پڑی، تو اُسے ایسا لگا جیسے ولید وہیں چھپا کھڑا ہے
اُس کے ماتھے پر تیوریاں چڑھ گئیں۔
یہ بھی نہ… ایک نمبر کا ڈربوک اور بیوقوف ہے۔۔۔
اب اس موقع پر تو کم از کم کچھ کرنا چاہیے تھا، لیکن نہیں! یہ تو چھپنے میں ماہر نکلا۔
ایک کام نہیں ہوا اس سے ٹھیک سے…
وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
ولید کو وہاں دیکھ کر اُسے تھوڑا غصہ تو آیا، لیکن کہیں نہ کہیں سکون بھی ہوا کہ کم از کم وہ صحیح سلامت تھا۔ لیکن حارث ؟؟
پتہ نہیں کیوں آیا تھا اگر چھپنا ہی تھا؟
وہ اب بھی اُسی کی طرف دیکھ رہی تھی، جو دبک کر کھڑا تھا، جیسے اگر ساکت رہے گا تو کوئی اُسے دیکھے گا ہی نہیں۔
افف… لڑکا ہو کر یہ اتنا ڈر رہا ہے؟
وہ بے زاری سے سوچتے ہوئے نظریں دوبارہ ایم۔ڈی اور حارث کی طرف مرکوز کر چکی تھی۔ کیونکہ اصل جنگ اب وہیں تھی۔
فضا میں تناؤ تھا۔ آس پاس سب لوگ دم سادھے کھڑے تھے، جیسے زمین بھی ان دونوں کی تکرار سننے کے لیے رک گئی ہو۔
کیا نام ہے؟ ایم۔ڈی نے اپنی بھاری، ٹھہری ہوئی آواز میں پوچھا۔
حارث نے سر جھکا کر اپنے دستانے درست کیے، پھر نظریں اٹھا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔
ایچ ڈبلیو۔
ایم۔ڈی کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے حیرت چمکی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
یہ کیسا نام ہے؟
جیسے تمہارا ہے، ایم۔ڈی، ویسے ہی میرا ایچ۔ڈبلیو۔ حارث کے لہجے میں ہلکی سی بے نیازی تھی، جیسے یہ سب اُس کے لیے ایک عام سی گفتگو ہو۔
ایم۔ڈی نے گردن جھٹکی، قدم آگے بڑھایا۔ اصل نام بتاؤ؟
حارث نے کندھے اچکائے۔ تم نے بتایا ہے کسی کو اپنا اصل نام جو میں بتاؤں؟
ایم۔ڈی نے گہری سانس لی، اب کے اُس کی نظریں سخت ہو چکی تھیں۔ بڑے بے بیتمیز ہو۔
جی، الحمدللہ! بالکل آپ کی طرح۔
پیچھے کھڑے کچھ لوگوں کی دبی دبی ہنسی نکل گئی، لیکن اگلے ہی لمحے وہ خاموش ہو گئے جب ایم۔ڈی کی نظریں اُن پر پڑیں۔
ایم۔ڈی نے چہرہ جھکایا، حارث کے بالکل قریب آ کر، اُسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ کیا… تم مار سکتے ہو مجھے؟
حارث نے ایک پل کو اُسے گھورا، پھر آہستہ سے مسکرایا۔ کیا تم مجھے سے مار کھا سکتے ہو؟
ایم۔ڈی کے چہرے پر سکوت طاری ہو گیا۔
ڈر نہیں لگ رہا؟ اُس نے ایک اور سوال اچھالا۔
حارث نے گردن ذرا سا ٹیڑھی کی، نظریں جما کر پوچھا، کیا تمہیں لگ رہا ہے ڈر۔۔۔ پہلی دفعہ کوئی تُمہارے سامنے ایسے کھڑا ہے؟
ایم۔ڈی نے آہستہ سے سر جھکایا، ایک گہری سانس لی، اور پھر نظریں اٹھا کر حارث کو گھورا۔
تم جانتے بھی ہو کہ تم کس سے بات کر رہے ہو؟ اس کی آواز میں ٹھہراؤ تھا، لیکن الفاظ کے پیچھے خطرہ واضح تھا۔
حارث نے بے نیازی سے کندھے جھٹکے۔ تم جانتے ہو کہ تم کس سے بات کر رہے ہو؟
ایم۔ڈی کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، مگر اُس کے پیچھے چھپی وحشت کو کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔
تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھ سے جیت سکتے ہو؟ ایم۔ڈی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
حارث نے ایک قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے آگے بڑھایا، ایم۔ڈی کے بالکل قریب آ کر سرگوشی میں بولا، میں جیتا ہُوا ہی ہوں۔
ایم۔ڈی کی آنکھیں سکڑ گئیں، اس بات کا کیا مطلب تھا۔۔
ابھی تو مہمان نوازی شروع ہی نہیں ہوئی، ابھی سے کیسے جیت گئے تم؟ ایم۔ڈی نے سر جھٹک کر طنزیہ انداز میں کہا۔
حارث نے ہلکا سا مسکرا کر گردن کو ایک طرف جھٹکا دیا، میں نے بول دیا… تو میں جیت گیا۔ اُس کے لہجے میں بلا کی بے خوفی تھی۔
ایم۔ڈی کی آنکھیں سکڑ گئیں، جیسے وہ حارث کے الفاظ کے پیچھے چھپے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
بڑے بد تمیز ہو؟ ایم۔ڈی نے سخت لہجے میں کہا، اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔
اچھا نہیں لگا رہا ہوں کیا۔۔۔؟ حارث نے سرد مہری سے جواب دیا، اُس کے چہرے پر وہی بے پرواہ مسکراہٹ تھی جو ہمیشہ ایم۔ڈی کو چڑاتی تھی۔
ایم۔ڈی نے بھنویں چڑھائیں، اُس کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئیں۔ کیا۔۔۔؟
حارث نے ایک برق رفتاری سے مکا ایم۔ڈی کے پیٹ میں دے مارا۔
پہلے میں جیت جاؤں باتیں تو ہوتی رہے گی۔۔ اُس کے لبوں سے سرسراتے ہوئے الفاظ نکلے،
ایم۔ڈی نے ایک لمحے کے لیے پیچھے ہو کر سنبھلنے کی کوشش کی، مگر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ ہاہ… بس اتنا سا ہی؟ وہ طنزیہ بولا، جیسے حارث کی طاقت کو کمزور سمجھ رہا ہو۔
نہیں، ابھی تو شروعات ہے۔۔۔ حارث نے نگاہیں سخت کیں اور اگلے ہی لمحے پوری قوت سے مکا ایم۔ڈی کے چہرے کی طرف اچھال دیا۔
مکا سیدھا ایم۔ڈی کے جبڑے پر لگا، اُس کے سر کو ایک جھٹکا سا آیا، مگر وہ گرا نہیں۔
بہت پریشان ہُوا ہوں میں آج اپنے بھائی کے لیے اب سارا بدلہ تُجھے سے لوں گا…حارث نے غصے سے کہا،
وہ پھر ایک اور وار کرنے ہی والا تھا کہ ایم۔ڈی نے بجلی کی سی تیزی سے اُس کا ہاتھ روک لیا۔
بس بہت ہوا۔ ہمیں بھی تو موقع ملنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ ایم۔ڈی کے صبر کا بندھن ٹوٹ چکا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے آگے بڑھا، اور ایک زوردار مکا حارث کے چہرے کی طرف اچھال دیا- مگر…
حارث پہلے سے تیار تھا۔۔۔ وہ فوراً ایک طرف جھکا، اور ایم۔ڈی کا مکا ہوا میں جا کر زوردار طریقے سے خلا میں لہرا گیا۔
حارث نے موقع غنیمت جانا اور پوری قوت سے ایم۔ڈی کے پہلو میں کہنی مار دی۔
ایم۔ڈی نے ایک لمحے کو درد محسوس کیا، مگر وہ رکنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اُس نے فوراً گھوم کر حارث کی گردن کی طرف وار کرنے کی کوشش کی، لیکن حارث نے جھک کر خود کو بچا لیا۔
ہوشیار ہو؟ ایم۔ڈی کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، جیسے وہ لڑائی کا مزہ لے رہا ہو۔
تم سے زیادہ۔۔۔ حارث نے طنزیہ جواب دیا اور فوراً نیچے جھک کر ایم۔ڈی کی ٹانگ پر وار کیا، جس سے ایم۔ڈی کا توازن بگڑ گیا۔
مگر ایم۔ڈی کا تجربہ کم نہ تھا- وہ گرتے گرتے بھی سنبھل گیا اور ایک زوردار گھونسہ حارث کے کندھے پر دے مارا۔
حارث کو پیچھے ہٹنا پڑا، مگر اُس نے فوراً ملبے سے ایک اینٹ اٹھائی اور ایم۔ڈی کی طرف اچھال دی۔ ایم۔ڈی نے برق رفتاری سے ایک قدم پیچھے لے کر خود کو بچایا، مگر تب تک حارث دوبارہ اُس کے قریب پہنچ چکا تھا۔
یہ لڑائی تمہارے لیے آسان نہیں ہونے والی۔۔۔ حارث نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
اور تمہارے لیے بھی نہیں۔۔ ایم۔ڈی نے کہہ کر اچانک گھٹنہ حارث کے پیٹ میں مار دیا، جس سے وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
اب دونوں زخمی سانس لے رہے تھے، آنکھوں میں چمک تھی، اور اردگرد موجود بندوں کی لڑائی دوبارہ شروع ہوچکی تھی۔۔۔
ماہی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اُس کی نظریں ایم ڈی اور حارث کی لڑائی پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ مقابلہ واقعی سخت تھا۔۔ مگر جیسے ہی اس کی نظر حامد پر پڑی، جو زمین پر پڑا بے دردی سے مار کھا رہا تھا، اس کے قدم بے اختیار گاڑی سے باہر نکل آئے۔
یا اللہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ ماہی کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
حامد کا حریف بار بار اُس کے پیٹ پر گھونسے مار رہا تھا، اور وہ تڑپ تڑپ کر بے بسی سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ رہا تھا۔ ماہی نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، مگر کوئی بھی اُس کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہا تھا- سب اپنی اپنی لڑائی میں الجھے ہوئے تھے۔
رک جاؤ۔۔۔ ماہی نے اونچی آواز میں چلّا کر کہا، مگر وہ شخص نہیں رکا۔۔
غصے اور بے بسی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ، ماہی نے بغیر سوچے سمجھے زمین پر پڑا ایک پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے اُس آدمی کی طرف اچھال دیا!
پتھر سیدھا اُس شخص کے بازو پر لگا، جس سے وہ لمحہ بھر کے لیے چونک کر پیچھے ہٹا۔
کون ہے؟ اُس نے غصے سے پلٹ کر دیکھا۔
ہاتھ مت لگانا اُسے! اگر مزید کچھ کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ وہ غصے سے چلائی۔۔۔
اور تُو کون ہے بی بی؟ وہ شخص بولا اور ماہی کی طرف بڑھنے لگا۔
میں بلا ہوں۔۔۔ ماہی کی زبان سے خودبخود نکلا، اور اُس کے ساتھ ہی اُس کے اندر جیسے ایک طوفان سا جاگ اٹھا۔
اُس آدمی نے تمسخر سے قہقہہ لگایا، اوہ، تو اب بی بیاں بھی لڑیں گی؟ جاؤ جاؤ ۔۔۔ جا کر گھر میں بیٹھو ۔۔۔
یہ آخری جملہ جیسے چنگاری کا کام کر گیا۔
ماہی نے بغیر سوچے سمجھے زمین سے ایک اور پتھر اٹھایا، مگر اس بار وہ محض اچھالنے کے لیے نہیں تھا۔ وہ پوری قوت سے آگے بڑھی اور سیدھا اُس آدمی کے سر پر دے مارا۔
اه ہ ہ ہ۔۔۔ وہ شخص درد سے چیخا اور پیچھے ہٹنے لگا، مگر ماہی نے اُسے موقع نہیں دیا۔
تُو نے سوچا بھی کیسے کہ میں چپ چاپ کھڑی سب دیکھوں گی؟ ماہی نے غصے میں کہتے ہوئے ایک اور وار کیا، اس بار اُس کی کہنی اُس آدمی کے چہرے پر پڑی، اور وہ توازن کھو کر زمین پر گر گیا۔
ماہی نے گہری سانس لی، اُس کی آنکھوں میں ایک وحشت سی تھی،
حامد نے کمزور سی آواز میں کہا، ماہی۔۔۔ تم۔۔۔؟
مگر وہ آدمی اب بھی پوری طرح بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ وہ سر پکڑ کر اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ماہی نے ایک آخری نظر اُس پر ڈالی، پھر جھک کر زمین سے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھایا۔
یہ آخری وارننگ ہے۔۔۔ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا، تو پھر میں واقعی بلا بن جاؤں گی۔۔۔
اب کی بار اُس آدمی کی آنکھوں میں ڈر نظر آیا۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگا۔
سمجھ دار بن، اور دفعہ ہو جا یہاں سے۔۔۔ ماہی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
وہ شخص گرتا پڑتا وہاں سے بھاگ نکلا، اور ماہی نے سکون کی سانس لی۔
ماہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور جلدی سے بولی
حامد! تم ٹھیک ہو؟ اُس کی آواز میں فکر واضح تھی۔
آ ہ ہ ہ ہ… میرا سر۔۔۔ حامد نے کراہتے ہوئے سر پکڑا، آنکھیں بند تھیں، جیسے درد کی شدت سے برداشت ختم ہو رہی ہو۔
یا اللہ! تمہیں بہت زور سے مارا ہے؟ خون تو نہیں نکل رہا؟ ماہی نے گھبرا کر اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، لیکن وہاں صرف ایک ابھرا ہوا نشان تھا، خون نہیں نکلا تھا۔
حامد نے بمشکل سر ہلایا، پھر کراہتے ہوئے بولا، وہ آدمی۔۔۔ کہاں گیا؟
بھاگ گیا، ورنہ میں اُسے واقعی بلا بن کر سبق سکھا دیتی۔۔۔۔ ماہی نے غصے سے کہا، پھر حامد کی طرف متوجہ ہوئی۔
اب تم چپ چاپ بیٹھے رہو، میں دیکھتی ہوں کچھ پانی کا بندوبست ہوتا ہے یا نہیں۔
حامد نے ہلکی سی مسکراہٹ دی، پہلی بار کسی نے میرے لیے یوں لڑائی کی ہے… عجیب لگ رہا ہے۔
چپ رہو حامد۔۔۔ ماہی نے مصنوعی غصے سے کہا، لیکن اُس کے دل میں ایک فخر کی لہر دوڑ گئی تھی اُسے لوگوں کو بچانے میں اُنہیں پروٹیکٹ کر کے بہت اچھا فیل ہوتا تھا۔۔
اور تُم یہ کیا۔۔۔؟؟ مار کیوں کھا رہے تھے۔۔۔ پلٹا کر مار نہیں سکتے تھے۔۔ ماہی نے حامد کو گھورتے غصے میں کہا۔۔
حامد نے گھبرا کر سر ہلایا اور فوراً کہا، نہیں! میں مار نہیں سکتا۔۔۔
ماہی نے غصے سے حامد کی طرف دیکھا اور تیز لہجے میں بولی،
کیوں؟ تمہارے ہاتھوں میں مہندی لگی ہے جو مار نہیں سکتے؟
نہیں، مجھے بیماری ہے… مجھے لوگوں کو مار کر تکلیف ملتی ہے۔ حامد نے نظریں جھکا کر دھیرے سے کہا
کیا پاگل پن ہے حامد! ابھی اتنی مار کھائی ہے، تکلیف نہیں ہو رہی کیا؟ ماہی کا دل چاہا تھا اس حامد کا بھی وہ سر پھاڑ دے۔۔ کیا بکواس کیے جا رہا تھا۔۔
نہیں، ابھی تو جسم زخمی ہے… لیکن اگر میں کسی کو مارتا ہوں تو میرا دل زخمی ہوتا ہے۔ حامد کی نظریں ابھی بھی زمین پر جمی تھی وہ ماہی کی طرف دیکھ تک نہیں رہا تھا۔۔۔
اور دل کیوں زخمی ہوتا ہے؟ ماہی نے پوچھا۔۔
جیک کی نظریں جیسے ہی ماہی پر پڑیں، وہ چونک سا گیا۔ ماہی کی پُشت تھی جیک کی طرف وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔ کہ حامد کے ساتھ کون ہے؟
یہ کون ہے۔۔ ایم ڈی کا ایک اور بندہ۔۔۔؟
وہ دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھا، ارد گرد ہنگامہ برپا تھا، لیکن جیک کی توجہ اب صرف ایک چیز پر تھی- ماہی۔
جیسے ہی وہ قریب پہنچا، اس کی نظر سیدھی ماہی کے پاس رکھی ہوئی بندوق پر جا پڑی۔ جیسے ماہی نے اپنے پینٹ کے پیچھے جیب میں پھسیا ہوا تھا ایک لمحے کو اس کے چہرے پر حیرت ابھری، پھر وہ تلخی سے مسکرایا۔
دھوکہ؟ جیک کے ساتھ دھوکہ؟ جیک کے لہجے میں اب سختی آگئی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے آگے بڑھا اور ماہی کے جیب سے گن نِکلا لی۔
اس اچانک حملے پر ماہی چوک کر ایک دم سے پیچھے مڑ کھڑی ہوئی۔۔۔
What the hell ??
وہ پیچھے مڑتے ہی زور سے چلائی۔۔
لڑکی۔۔۔؟ جیک کی آنکھیں حیرت سے کھولی کی کھولی رے گئی۔۔۔
کیا پہلے کبھی لڑکی دیکھی نہیں؟ ماہی نے ایک تیور چڑھاتے ہوئے کہا،
یہ ایم۔ڈی نے اچھا نہیں کیا… جیک کے لبوں سے زہریلے الفاظ نکلے۔ اس کی آنکھوں میں خطرناک چمک تھی۔
نہیں! یہ ہماری ٹیم کی ممبر نہیں ہے۔۔۔ حامد نے فوراً صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔
جیک نے ماہی کو گھورا، جیسے وہ اس کی بات پر یقین نہیں کر رہا تھا۔
اچھا؟ تو یہ خود ہی چل کر یہاں آگئی؟ ٹھیک ہے… پھر کوئی مسئلہ نہیں، اسے یہیں ختم کر دیتے ہیں۔
یہ کہتے ہی جیک نے بندوق سیدھا ماہی پر تان ڈی اور بندوق کی نالی کو اور مضبوطی سے تھاما، اس کی انگلی ٹریگر پر تھی۔ اور جیک نے بنا کِسی کو سوچنے کا موقع دیا بندوق ماہی کے اوپر چلا دی۔۔۔
گولی چلنے کی آواز فضا میں گونجی،
ہر طرف سے لڑائی کی آوازیں تھم گئیں۔ قدم رک گئے، سانسیں تھم سی گئیں۔ سب نے حیرت سے ادھر اُدھر دیکھا، جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ یہ آواز کہاں سے آئی۔
اور پھر… سب کی نظریں ایک ہی سمت مڑ گئیں۔
جیک کے ہاتھ میں پکڑی گن کا دھواں ابھی باقی تھا، اس کا چہرہ کسی فاتح کی طرح بے تاثر تھا۔ ماہی بے حس و حرکت کھڑی تھی، اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
ماہی۔۔۔۔ حامد کے منہ سے بے اختیار نکلا، وہ گھبرا کر اس کی طرف بڑھا۔
مگر…
ماہی کی آنکھیں اب بھی کھلی تھیں۔
اس نے آہستہ سے اپنی طرف دیکھا… اور تبھی سب کو اندازہ ہوا- گولی اسے نہیں لگی تھی۔
بلکہ…
کسی اور نے اسے اپنے لیے روک لیا تھا۔۔۔
یہ کون تھا؟ کیا وہ زندہ تھا؟ یا… بہت دیر ہو چکی تھی؟
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔۔
