muhbat k naam

Mohabbat ke nam written by Ahsin naeem (Article)

محبت کے نام

ازقلم احسن نعیم۔۔۔۔

“محبت”۔۔۔۔۔۔۔چار لفظوں سے مل کر بنا یہ ایک لفظ آج تک کسی تشریح میں قید نہیں ہوسکا۔ہر شخص محبت کو اپنے انداز میں نبھاتا ہے۔کوئی محبت کو یہ سمجھتا ہے کہ بس ہر وقت وہ شخص پاس ہونا چاہیے جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔کوئی کہتا ہے محبت میں آزادی دینی چاہیے۔یہ سب باتیں صحیح ہیں یا غلط یہ تو بعد کی بات ہے۔پہلے یہ تو دریافت کریں کہ محبت کہتے کسے ہیں؟۔

محبت دو طرح کی ہے۔ حقیقی محبت اور مجازی محبت۔

حقیقی محبت سے مراد اللہ سے محبت ہے جو ہر چیز کا مالک ہے اور اصل محبت کا حقدار وہی ہے۔محبت کسی ایک چیز کو کہا ہی نہیں جاسکتا۔محبت بے تہاشا چیزوں سے مل کر بنتی ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا ہے۔ایک شخص کہتا ہے مجھے اللہ سے محبت ہے تو بتاؤ کیا وہ اللہ سے ڈرتا ہے؟

کیا وہ اللہ کی دی گئی کتاب پر عمل کرتا ہے؟

کیا وہ اللہ کے بھیجے رسول کی سنت پوری کرتا ہے؟

کیا وہ نماز پڑھتا ہے؟

یہ ہے صرف ایک پہلو محبت کا۔اسی طرح محبت کے اور بھی بہت پہلو ہیں۔اللہ سے محبت اتنی آسان نہیں ہوتی۔لیکن سب سے آسان محبت بھی وہی ہوتی ہے بس شروعات مشکل ہوتی ہے۔یہاں پر ایک بات ہے کہ جو لوگ صوفی بنتے ہیں اس میں کچھ اس حد تک انتہا پسندی پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ اللہ کو پانے کے لیے صرف درگاہ کے ہوکر رہ جاتے ہیں جبکہ اصل میں وہ اللہ کے ہی احکام کی نافرمانی کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ کیسی محبت ہوئی کہ محبوب کے احکام کو ٹھکرا کر محبوب کو ہی پانے کی جستجو وہ بھی ویرانوں میں؟

اللہ سے محبت کریں تو انسان کے اعمال بھی ایسے ہو جائیں کہ پتا چلے واقعی آپ اس پاک ہستی کی محبت میں گرفتار ہیں۔اب بات کرتے ہیں مجازی محبت کی۔آج کل جس کو دیکھو وہ ایک الگ رام کتھا سناتا ہے محبت نہ ملنے کی۔

کیا واقعی ان کو اصل محبت ہے؟

آج کل ہوتا کیا ہے کسی کو کوئی شکل و صورت سے ایٹریکٹ کیا ہے تو وہ اس کے دیوانے بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں محبت ہو گئی ہے۔

محبت یہ تو ہوتی ہی نہیں ہے! اصل محبت تو تب ہوتی ہے جب آپ اگلے کے سب عیب جان لیتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں مجھے یہی چاہیے۔ورنہ یہ جو شروع میں صرف سلام دعا یا دیکھنے کے بعد کہہ دینا کہ محبت ہے تو یہ نہیں ہوتی۔ہر شخص ایک مسٹری ہے اور مسٹریز ہمیشہ ایٹریکٹ کرتی ہیں۔اور جب وہ مسٹری ختم ہوتی ہے تو پھر انسان ایک بوجھ سمجھ کر آوازار ہونے لگتا ہے۔

ایک اور بڑے دکھ کی بات ہے کہ لوگ صرف ٹائم پاس کرنے کے لیے بھی محبت لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔رات دو دو تین تین بجے تک باتیں کرتے ہیں اور اسی دوران ہارمونز بدلتے ہیں اور لوگ برائی کی طرف بھی راغب ہوجاتے ہیں۔

معاشرہ بہت غلط راہ پر چل نکلا ہے۔جس کو دیکھو وہ کہتا ہے ریلیشن شپ میں ہے۔محبت غلط نہیں ہے۔محبت کے انداز غلط اپنا لیے ہیں۔محبت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔محبوب کو سنبھال کر رکھا جاتا ہے مگر یہاں تو لڑکے لڑکیاں اپنی محفلوں میں ذکر کرتے ہیں۔اور اس میں سب سے زیادہ افسوس تب ہوتا ہے جب دونوں اجنبی بن جاتے ہیں۔

شاید کسی ایک کی طرف سے کھیل ہوتا ہو مگر کبھی دوسرے پر اتنا برا اثر ڈال دیتا ہے یہ محبت کا کھیل کہ زندہ رہنے کےلیے بھی انسان کو خود کو زندہ رکھنا پڑتا ہے۔میرا اس آرٹیکل کو لکھنے کا مقصد ہی اس پوائنٹ کو نمایاں کرنا ہے کہ چند مہینوں کی یہ وقتی محبت اگلی تمام عمر مشکل کا باعث بن سکتی۔

مثال کے طور پر اگر کسی کو محبت ہوئی بھی ہے تو وہ عادت بن جاتی ہے۔اور پھر ہر بار دل کے اندر سے سوئی کی طرح چبح کر یاد دلا دیتی ہے۔اگر ان کی شادی نہیں ہوتی اور کسی اور کے ساتھ ہوجاتی ہے تو وہ شخص اپنے ہم سفر میں محبوب کو ڈھونڈتا ہے اور پھر اس کی نجی زندگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔اگر آپ کو واقعی کوئی پسند ہے،آپ دل میں اس کے لیے محبت محسوس کر رہے ہیں تو اس کو بتائیں۔محبت جس سے ہو اس کو بتائیں کہ محبت ہے آپ سے تاکہ بروقت خود کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔اور پھر محبت کے آداب اپنائیں۔

محبت کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔

اور سب سے پہلا ادب محبت کی عزت کرنا ہے۔ہر طرح سے عزت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔محبوب کو کبھی یہ نہ لگے کہ اس کی توہین ہوئی ہے۔محبت میں انائیں نہیں ہوتی۔محبت کے سامنے تو انسان خود کو بھلا دیتا ہے۔خود کو مصنوعی سولی پر چڑھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

دوسرا ادب محبت کو دغا نہیں دیتے۔اگر ایک سے سچی محبت ہے تو پھر کہیں اور محبت لفظ کو بدنام نہیں کیا کرتے۔وفادار رہا جاتا ہے محبت کا۔باقی سب لوگ غائب ہوجاتے ہیں اور کوئی نظر آتا ہے تو صرف محبوب!محبت کا ادب یہ بھی ہے کہ محبوب کو پوری طرح اپنایا جائے۔

اس کی خامیوں پر پردہ ڈالا جائے۔اور رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ لبوں پر شکوہ نہ آئے۔وہ کہتے ہیں نہ” آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دللگی نہیں۔” تو محبت میں کسی برائی کو مدعا بنا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ محبت کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔محبت تو جیسا ہے ویسا قبول کرنے کا نام ہے۔محبت کا ذکر بھری محفلوں میں نہیں کیا جاتا بلکہ نام بھی ادب سے لیا جاتا ہے۔محبت کے قصے جو ہیر رانجھا سے مشہور ہیں ہو سکتا اصل میں اس کے بعد پتا نہیں کیا کیا کیا ہوگا کسی نے اپنی محبت پانے کے لیے۔

شرک۔محبت چاہے حقیقی ہو یا مجازی ۔ایک سے ہوجائے تو پھر شرک کی گنجائیش نہیں رہتی۔اللہ سے محبت کا اقرار کرتے ہیں مگر کام سارے شرک والے ہیں۔خیالات سارے شرک والے ہیں۔واہ موصوف واہ۔مجازی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو جب محبت ایک سے ہوجائے،اقرار کرلیا جائے پھر آنکھیں بند کرلینی چاہیے ہر طرف اور خود کو ایسا کرلینا چاہیے کہ آپ کو کوئی اور دعوت دے تو آپ منھ پر اسے ٹھکرا سکیں۔

اگر محبت میں شرک ہوجائے تو بہتر ہے الگ ہوجائیں کیونکہ محبت میں بےوفائی کی گنجائش نہیں ہوتی۔تو عرض یہ ہے کہ محبت گناہ نہیں ہے!محبت کے نام پر ہونے والے اعمال مسئلہ ہیں۔اگر کوئی واقعی پہلی نگاہ میں پسند آگیا ہے تو حلال طریقہ اپنائیں اور پھر جیسا ہو اس کو قبول کریں۔اور اصل محبت کا پتا ہی تب لگتا ہے جب درمیان سے سب پردے اٹھ جاتے ہیں۔مسٹریز ختم ہوجاتی ہیں۔پھر کیا رویہ روا رکھتے ہیں یہ اہم ہے۔محبت کرنا آسان ہوتا ہے کرتے رہنا مشکل ہوتا ہے۔

اگر آپ حرام کی طرف جائیں گے تو کبھی نہ کبھی وہ آپ کے سامنے سوال یا عزاب بن کر آئے گا اور تب آپ کو اللہ یاد آئے گا جس کی حکم عدولی کی وجہ سے آپ کے سامنے آئے گا۔یہ وقتی سکون تو آپ کو سواد دے گا مگر جدائی کے بعد آپ کی جھولی پچھتاووں سے بھری ہوگی۔

محبت ہوگئی ہے تو حلال راستہ اپنائیں اور محبت کے آداب کو اپنائیں اور محبت لفظ کو بدنام نہ کریں۔محبت زندگی سنوار سکتی ہے تو زندگی بگاڑ بھی سکتی ہے۔اور محبت کے اصل حقدار آپ کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ اصل محبت تو پتا ہی تب چلے گی جب آپ ایک لمبا عرصا ایک ساتھ گزاریں گے۔

اپنے آپ کو یہ وقتی دل لگی سے بچائیں اور سچی محبت کریں۔تاکہ جس سے کی جائے وہ بھی خود کو خوش نصیب سمجھے۔محبت صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ اس میں بےشمار جز ہیں اور جب تمام جز مکمل اسلوب کے ساتھ پورے ہوتے ہیں تو محبت کی تکمیل ہوتی ہے۔

ختم شدہ۔۔۔

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *