دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۱۶
حارث۔۔۔ ماہی کی لرزتی ہوئی آواز نکلی، جیسے الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہوں۔
WHAT THE HELL!!
ایم۔ڈی کی گرجدار آواز پوری وادی میں گونجی، جیسے آسمان بھی اس لمحے لرز اٹھا ہو۔
حامد کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں، وہ جو منظر دیکھ رہا تھا، اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
جیک کی آنکھوں میں بھی ایک پل کے لیے حیرانی جھلکی۔
گن سے نکلی گولی ماہی کے لیے تھی… مگر اسے کسی اور نے اپنے سینے پر لے لیا تھا۔
وہ شخص، جو زمین پر گرا تھا… وہ کوئی اور نہیں، بلکہ حارث تھا۔۔۔۔
ماہی کی سانس جیسے رک سی گئی، دل کی دھڑکن تیز ہو کر گونجنے لگی۔
نہیں… ن-نہیں۔۔۔۔ وہ بدحواسی میں آگے بڑھی، جیسے وقت کو پلٹ دینا چاہتی ہو۔
حارث زمین پر پڑا تھا، اس کی سانسیں بوجھل ہونے لگیں، خون کی گرم دھار سرد زمین پر پھیلنے لگی…
یہ سب ایک پل میں ہوا تھا، مگر اس پل نے سب کچھ بدل دیا تھا۔
حارث… حارث۔۔۔۔ ماہی کی آواز لرز رہی تھی، اس کے الفاظ بین کی صورت فضا میں بکھر رہے تھے۔
پندرہ سال… پورے پندرہ سال بعد وہ رو رہی تھی۔
ماہی کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہنے لگے، جیسے ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے ہوں۔
ماں کی موت کے بعد اس نے رونا چھوڑ دیا تھا۔ اس دن کے بعد، وہ آنسوؤں کو کمزوری سمجھنے لگی تھی۔ کہ جو انسان روتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے۔۔
کیونکہ جو اسے چپ کرواتی… جو اس کے آنسو پونچھتی تھی… وہی تو اسے چھوڑ کر جاچُکی تھی۔
تو وہ کس کے لیے روتی؟
اور کون تھا جو اسے چپ کرانے والا ہوتا؟
لیکن آج… آج وہ خود کو روک نہ سکی۔
حارث… آنکھیں کھولو!! دیکھو، پلیز… مت کرو ایسے۔۔اس نے گھبرا کر حارث کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، اس کے گرم خون سے اپنے ہاتھ رنگتے دیکھے مگر پرواہ نہیں کی۔۔۔
حارث! آنکھیں کھولو… پلیز۔۔۔
ماہی کی بے قرار آواز فضا میں لرز رہی تھی، جیسے الفاظ بھی اس کی بے بسی کا ساتھ چھوڑ رہے ہوں۔
ہم ابھی ہسپتال جائیں گے، تم ٹھیک ہو جاؤ گے… تمہیں کچھ نہیں ہوگا، میں ہونے نہیں دوں گی۔۔۔
مگر…
حارث نے کوئی حرکت نہیں کی۔
اس کی پلکیں بند تھیں، سانسیں مدھم، جیسے وہ وقت کے بہاؤ سے کٹ چکا ہو۔
یہ لڑکی کون ہے؟ اور یہاں کیا کر رہی ہے؟!
ایم۔ڈی کی غصے میں بھری آواز بجلی کی طرح گونجی۔
اس نے جیسے ہی ماہی کے چہرے پر نظر ڈالی، اس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
تم…؟!
غصے سے بپھرتے ہوئے اس نے ایک جھٹکے سے ماہی کا بازو پکڑا اور اسے اپنے سامنے کھینچ لیا۔
یہاں کیا کر رہی ہو؟ کون ہو تم؟!
ماہی کے لیے ایم۔ڈی کی موجودگی سے زیادہ اہم کوئی اور چیز تھی… حارث۔
اس کی نظریں مسلسل زخمی وجود پر جمی تھیں، اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں، دل جیسے سینے سے باہر آنا چاہتا تھا۔
حارث…!!
اس کے لب کانپے، آنکھوں میں نمی اور خوف تیرنے لگا، مگر ایم۔ڈی کے غصے میں بھڑکتے چہرے کو دیکھ کر بھی وہ نہیں ڈری، کیونکہ اس کے دل میں صرف ایک خوف تھا- حارث کو کھونے کا۔۔۔
ایم۔ڈی نے اپنی سرخ آنکھوں سے حامد کی طرف دیکھا، اور حامد کی نظریں جھک گئیں۔
چھوڑو مجھے۔۔۔ ماہی نے ایک لمحے کا بھی انتظار نہیں کیا اور پوری طاقت سے ایم۔ڈی کے پیٹ میں گھونسا مار دیا۔
اور پھر…
فضا میں ایک زوردار تھپڑ کی گونج سنائی دی۔
ایم۔ڈی نے غصے میں اس کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا تھا۔
آج تو میں تمہیں زندہ جلا دوں گا!۔۔۔
اس کی دہکتی آنکھیں ماہی پر جمی تھیں، جیسے وہ واقعی اسے راکھ بنا ڈالے گا۔
آآآہہہہہ!
حارث کی آنکھیں بند تھیں، مگر وہ تکلیف کے مارے تڑپ رہا تھا۔ درد کی شدت ایسی تھی کہ اس کے لب کپکپا رہے تھے، سانسیں بے ترتیب تھیں، اور وہ بے بسی سے اپنی پلکیں میچے پڑا تھا۔
ایم۔ڈی نے ماہی کو ایک زوردار جھٹکے سے اپنے پیچھے کھڑے بندے کی طرف پھینک دیا۔ اگر وہ بندہ بروقت نہ پکڑتا، تو شاید وہ سیدھا زمین سے ٹکرا جاتی۔
یہ… یہ تم کیا کر رہے ہو؟ چھوڑو مجھے! نہیں! یہ مت کر۔۔۔
ماہی کی آواز بے بسی سے لرز رہی تھی۔ اس کی سمجھ سے سب کچھ باہر ہو رہا تھا- ایک طرف حارث کی جان خطرے میں تھی، اور دوسری طرف یہ لوگ نجانے اس کے ساتھ کیا کرنے والے تھے۔
اپنی خیر مناؤ، لڑکی۔۔۔ اُس بندے نے اس کے کان میں سرگوشی کی، تم نے ہمارے ایم۔ڈی کے غصے کو ہوا دے دی ہے، اب انجام بھگتو۔۔۔
نہیں… نہیں!! مجھے چھوڑو۔۔۔
لیکن کسی نے اس کی نہیں سنی۔ اگلے ہی لمحے…
اندھیرا چھا گیا۔
وہ بندہ اپنی پوری طاقت سے ماہی کو بے ہوش کر چکا تھا۔
اب وہ ایک بے جان گڑیا کی طرح ان کے ہاتھوں میں تھی۔
+++++++++++++
اندھیرے کمرے میں ہلکی سی روشنی کی کرن تھی …
ماہی کی آنکھیں بوجھل تھیں، جیسے کوئی بھاری پتھر ان پر رکھا ہو۔ جب اس نے پلکیں جھپکانے کی کوشش کی، تو ہر چیز دھندلی محسوس ہوئی۔ چند لمحے لگے خود کو سنبھالنے میں، لیکن جیسے ہی اس کا دماغ پوری طرح بیدار ہوا، ایک جھٹکے سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
یہ… یہ میں کہاں ہوں؟
اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ ایک بنی بنائی جگہ پر تھی، شاید کوئی بند کمرہ۔ دیواریں پتھر کی، دروازہ لوہے کا، اور روشنی کے لیے بس ایک مدھم بلب جو ہلکے ہلکے جھول رہا تھا۔
حارث…
اس کا نام جیسے ہی اس کی زبان سے نکلا، آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے گرنے لگے۔
یا اللّٰہ! نہیں…! حارث کہاں ہے؟ کیسا ہوگا؟ کیا یہ لوگ اسے اسپتال لے کر گئے تھے یا نہیں؟
اس کی سانسیں تیز ہونے لگیں، خوف اور بے بسی کا احساس اس پر حاوی ہونے لگا۔
کیا وہ ٹھیک ہوگا؟ کیا میں نے اسے ہمیشہ کے لیے کھو دیا؟
یہ سوچ کر اس کا دل مزید ڈوبنے لگا۔ پہلی بار… ہاں، پہلی بار ماہی کو کسی مصیبت میں پھنسنے کا افسوس ہو رہا تھا۔
ورنہ اس کی زندگی میں کتنی ہی مشکلات آئی تھیں، کتنی بار وہ خطرناک حالات میں رہی تھی، مگر کبھی اسے فرق نہیں پڑا۔ لیکن اب کی بار کچھ الگ تھا…
کوئی ہے؟!! وہ دروازے کی طرف لپکی اور زور زور سے بجانے لگی، مجھے باہر نکالو! سب مر گئے ہو کیا؟
حامد…! حامد!
ماہی کو سمجھ آ چکا تھا کہ وہ ایم۔ڈی کے قبضے میں ہے۔ اسی لیے اُس نے حامد حامد چلانا شروع کردیا ۔۔ اُسے کسی بھی صورت یہاں سے نکلنا تھا۔۔۔۔
وہ مسلسل چلائے جا رہی تھی، لیکن باہر سے کوئی جواب نہ آیا۔
مجھے باہر نکالو! سن رہے ہو؟
کافی دیر چلاتے چلاتے اس کی آواز مدھم پڑنے لگی۔ اس کا گلا خشک ہو چکا تھا، اور اب سر میں شدید درد بھی ہونے لگا تھا۔
دو دن بعد..
پورے دو دن بعد دروازے کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی۔۔۔
لوہے کا دروازہ دھیرے دھیرے چرچراتے ہوئے کھلا، اور روشنی اندر داخل ہوئی۔
حامد سامنے کھڑا تھا۔
ماہی نے کمزور نظروں سے اسے دیکھا، اور اس کی زبان سے بس ایک ہی لفظ نکلا-
حارث…؟
حامد کمرے میں داخل ہوا اور ماہی کے سامنے کھانے کی پلیٹ رکھ دی۔
یہ کھالو۔ اُس نے مختصر مگر سخت لہجے میں کہا۔
ماہی کی بھوک پیاس سب ختم ہوچکی تھی۔ اُس کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا، حارث…؟ حارث کیسا ہے؟ اُس کی آواز لرز رہی تھی۔
حامد نے ایک لمحے کو رُک کر ماہی کو دیکھا، پھر بے تاثر لہجے میں بولا، وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔
ماہی کی آنکھوں میں کچھ سکون آیا، مگر فوراً ہی حامد نے اپنا فون نکالا اور اسکرین اُس کے سامنے کر دی۔۔
اس لڑکی کو جانتی ہو؟ حامد نے تصویر کی طرف اشارہ کیا۔
ماہی نے حیرانی سے فون کی طرف دیکھا، یہ… اُس نے الجھن کے عالم میں بولنا شروع کیا، ہاں، یہ میری دوست ہے… بس، اس سے زیادہ نہیں جانتی میں کچھ۔۔۔
اور یہ دوست کب بنی؟ حامد نے گہری نظروں سے اُسے گھورا۔
ماہی نے بے چینی سے پہلو بدلا، مجھے نہیں پتا… حامد، مجھے یہاں سے باہر نکالو، مجھے حارث کے پاس جانا ہے۔۔۔
حامد نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا، ماہی، اگر تم مجھے سچ سچ اس کے بارے میں بتا دو، تو تمہارے لیے اچھا ہوگا۔۔۔
میں نے بتا دیا ہے! میری دوست ہے، بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی۔۔۔ ماہی جھنجھلا گئی۔
اور تمہارے پاس گن کہاں سے آئی؟ حامد نے ایک اور سوال داغا۔
ماہی نے لب بھینچ لیے، اس بار وہ خاموش رہی۔
حامد نے تاسف سے سر ہلایا اور طنزیہ لہجے میں بولا، اپنوں کو چھوڑ کر غیروں پر بھروسا کر رہی ہو؟
اُس کے لہجے میں واضح ناراضگی تھی، تمہاری وجہ سے سب کو نقصان اٹھانا پڑا، اور اوپر سے تم خود بھی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہو۔۔۔
ماہی نے جھنجھلا کر کہا، مجھے یہاں سے باہر نکالو۔۔۔
حامد نے اُس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا، کوئی بھی اتنا اچھا نہیں ہوتا کہ بار بار تمہارے لیے خود کو مصیبت میں ڈالے۔۔۔۔
حامد نے ایک نظر ماہی پر ڈالی، پھر اپنے فون پر کوئی نمبر ڈائل کیا اور موبائل اُس کے سامنے کر دیا۔
یہ ولید تم سے بات کرے گا۔ مجھے نہ سہی، اُسے ہی سچ بتا دینا… کیونکہ اس سے زیادہ تمہارے ساتھ کوئی مخلص نہیں ہے۔۔۔
فون کی اسکرین پر ولید کا نام جگمگا رہا تھا، حامد نے کال ریسیو کی۔ اور فون ماہی کے آگے بڑھ دیا۔۔فون اسپیکر پر تھا۔۔
السلام علیکم، ماہی، کیسی ہو؟ ولید کی نرم مگر سنجیدہ آواز سنائی دی۔
ماہی کی آنکھوں میں بے چینی جھلک رہی تھی، وہ فوراً بولی، میں ٹھیک ہوں… حارث کیسا ہے؟
وہ بالکل ٹھیک ہے، تم فکر مت کرو، میں اس کے پاس ہوں۔ ولید نے تسلی دی۔
ماہی نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں موند لیں، جیسے کسی بوجھ تلے دبی ہو، پھر فوراً بولی، اور وہاں… وہاں کیا ہوا تھا؟
بس تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تم لوگ ٹھیک ہو… ولید کی آواز میں تھکن اور سنجیدگی تھی، لیکن میری بات غور سے سنو، یہ نائلہ کون ہے، ماہی؟
وہ… میری دوست ہے۔
صرف دوست؟ ولید کے لہجے میں شک تھا۔
ہمم… ماہی نے آہستہ سے سر ہلایا۔
اُفف ماہی، اُفف… ولید کی جھنجھلائی ہوئی آواز آئی،
وہ تمہیں استعمال کر رہی ہے! مجھے نہیں پتا اُس نے تم سے کیا کہا، لیکن جو بھی کہا ہوگا، سب جھوٹ ہوگا۔۔۔
ماہی نے حیرانی سے آنکھیں پھیلائیں، کیا؟
تمہیں پھنسا رہی ہے، ماہی! وہ تمہیں ایم۔ڈی مافیا کی ساتھی قرار دینے والی ہے۔ ابھی جو ویڈیو حامد تمہیں دکھائے گا، اُسے دیکھو، اُس کے بعد کوئی بھی تم پر یقین کر سکتا ہے….
ولید، یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ وہ تو سیکریٹ ایجنٹ ہے! اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ ایجنسی کی ٹیم کے لیے کام کرتی ہے اور اُس کا ہدف ایم۔ڈی کا چہرہ بے نقاب کرنا ہے…
ولید نے سنجیدگی سے کہا ، تو یہ کہانی سنائی اس نے؟
ماہی کی سانس اٹک گئی، کیا مطلب…؟
اس نے تم سے اور کیا کیا کہا؟ اور تم سے کیا کیا کروایا؟ مجھے سب کچھ سچ سچ بتاؤ، ماہی… ولید کا لہجہ سخت ہو گیا۔
ماہی نے لب بھینچ لیے، اور خاموش رہی.۔۔
دوسری طرف ولید کو اندازہ ہوگیا اُس نے دوبارہ بولا۔۔۔
ماہی پلیز بتا دو۔۔ نہیں تو بہت بڑا نقصان ہوجائے گا۔۔
ماہی نے ایک پل کے لیے آنکھیں موندیں، جیسے کچھ یاد کر رہی ہو، پھر دھیرے دھیرے اُس نے ولید کو سب کچھ بتانا شروع کیا- کب وہ نائلہ سے ملی، کیسے اُس نے ایم۔ڈی کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اُس کا ساتھ دیا، کہاں کہاں گئی، اور کیا کیا کیا…
جب وہ سب کچھ کہہ چکی تو کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
حامد نے بے یقینی سے سر جھٹکا اور طنزیہ انداز میں بولا، اللہ، اللہ! کتنا جھوٹ بولا ہے اس لڑکی نے تم سے…
ماہی کا دل دھک سے رہ گیا۔ کیا مطلب؟ اُس کی آواز لرز گئی۔
مطلب یہ کہ وہ کوئی سیکرٹ ایجنٹ نہیں ہے، ماہی…
ولید کی آواز گونجی، جیسے کسی بم کا دھماکہ ہوا ہو۔
ماہی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔ کک… کیا؟ یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟
ولید نے گہری سانس لی، ہاں، ماہی! وہ نائلہ جسے تم اپنی دوست سمجھ رہی تھیں، جو تمہیں کہانیاں سنا رہی تھی، وہ حقیقت میں کسی ایجنسی کی ایجنٹ نہیں، بلکہ… وہ ایک دھوکے باز ہے..
ماہی کا ذہن چکرا گیا۔ نہیں! یہ سچ نہیں ہو سکتا… وہ جھوٹ نہیں بول سکتی، اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ ایم۔ڈی کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کر رہی ہے..
ولید کا لہجہ سخت ہو گیا، تو کیا تم نے کبھی اس سے کوئی ثبوت مانگا؟ کیا اس نے کبھی کسی ایجنسی کا نام لیا؟ کسی سینئر آفیسر سے ملوایا؟ یا پھر بس جو کہا، تم نے آنکھیں بند کر کے مان لیا؟
ماہی کے ذہن میں یادوں کا طوفان اٹھنے لگا۔ وہ نائلہ سے پہلی ملاقات، اس کا پُراسرار انداز، وہ سب باتیں جو اس نے کہی تھیں- سب کچھ ایک ایک کر کے سامنے آنے لگا۔
حامد کی آواز سخت اور تلخ تھی، اور سیکرٹ ایجنٹ ایسے نہیں ہوتے، ماہی! وہ اتنی آسانی سے کسی کو بھی اپنے بارے میں نہیں بتاتے، نہ ہی یوں کسی اجنبی کی مدد لیتے، سب کچھ اُگل کر جیسے نائلہ نے تم سے لیا…
ماہی نے بے یقینی سے سر جھٹکا، مگر… مگر اس نے کہا تھا کہ-
جو بھی کہا تھا، سب جھوٹ تھا… ولید نے بات کاٹ دی، وہ ایک چالاک دھوکے باز تھی، اور تم اس کے جال میں پھنس گئیں۔
ماہی کی آنکھیں نم ہونے لگیں، تو پھر اس نے مجھ سے یہ سب کیوں کروایا؟ وہ چاہتی کیا تھی؟
وہ جون کی بہن ہے۔ اور جون کون ہے، یہ بھی جانتی ہو؟
ماہی نے نظریں اٹھا کر حامد کی طرف دیکھا، جون کا اُسے اس لڑکی نے بتایا تھا۔۔
وہ جون وہی ہے جس سے حارث کی لڑائی ہوئی تھی۔۔ ولید کی آواز سنجیدہ تھی، اور اب اس کی بہن بدلہ لینے کے لیے تمہیں استعمال کر رہی ہے۔۔۔
نہیں… ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ ماہی کی آواز لرز گئی۔
کیوں نہیں ہو سکتا؟ حامد نے تیزی سے کہا، جو کچھ ہوا، وہ تمہارے سامنے ہے! پہلے اُس نے تمہیں اپنے جال میں پھنسایا، پھر تمہیں جرم میں ملوث کیا، اور اب تمہارے ذریعے حارث کو پھنسانا چاہتی ہے۔۔
ماہی کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے قدموں تلے زمین کھینچ لی ہو۔
ولید کی آواز سخت اور تلخ تھی، اور حارث سے بدلہ لینے سے پہلے وہ تمہارا استعمال کر رہی تھی! پہلے تمہیں پھنسائے گی، پھر تمہارے ذریعے حارث کو…
ماہی نے بے یقینی سے سر اٹھایا، یہ… یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟
جو سچ ہے، ماہی۔۔۔ حامد نے سرد لہجے میں کہا، یونیورسٹی میں آتے ہی جو تم نے اپنا پہلا کارنامہ کیا تھا، اس کے بعد تم حارث کی کرائم پارٹنر بن گئی اور تو اور یونیورسٹی میں سب کو ہی یہی لگ چُکا ہے کہ حارث تمہیں پسند کرتا ہے اسی لیے نائلہ نے تمہیں یوز کیا۔۔۔
پہلے اس نے تم پر الزام لگانا تھا کہ تم ایم۔ڈی مافیا کے لیے کام کر رہی ہو، اور پھر حارث کو بھی اس کھیل میں پھنسانا تھا۔
ماہی کا ذہن چکرا رہا تھا، لیکن وہ… وہ تو کہہ رہی تھی کہ وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ہے، وہ ایم۔ڈی کو بے نقاب کرنا چاہتی ہے۔۔
جھوٹ۔۔۔ حامد نے ویڈیو روک دی اور ایک تصویر پر انگلی رکھی، پہلے اس نے تمہیں کہاں بھیجا؟ ساؤتھ ہال! اور وہاں تم سے بم فٹ کروایا، پھر خود ہی اس کی ویڈیو بنالی۔۔
ماہی کے ہاتھ لرزنے لگے، یہ… یہ سچ نہیں ہو سکتا۔۔۔
یہی سچ ہے، ماہی۔۔۔ ولید کی آواز سخت تھی، تم اس کے جال میں پھنس چکی ہو، اور اب جو ہونا تھا، وہ ہو چکا ہے۔۔
ماہی کا سانس تیز ہو گیا۔ اس کی آنکھوں کے آگے نائلہ کا مسکراتا چہرہ گھوم گیا۔ کیا وہ واقعی دھوکہ دے رہی تھی؟ کیا وہ حقیقت میں ایک خطرناک سازش کا شکار ہو چکی تھی؟
ماہی نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا، لیکن وہ ڈیفیوزڈ بمب تھا۔۔۔
تم نے دیکھا ہے کبھی ڈیفیوزڈ بم۔۔۔ حامد نے غصے سے کہا ۔۔
وہاں بم ایم ڈی کے ہاتھوں نہیں تُمہارے ہاتھوں بلاسٹ ہوا ہے۔۔۔
ماہی کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے دماغ پر ہتھوڑا مارا ہو۔
یہ… یہ تم کیا کہہ رہے ہو، ولید؟ اس کی آواز سرسراتی ہوئی نکلی۔
جو حقیقت ہے۔۔۔ ولید کی آواز سخت تھی، وہ بم ڈیفیوزڈ نہیں تھا، ماہی! بم ڈیفیوز کیا جاتا ہے، پہلے سے بنا بنایا ڈیفیوزڈ بم نہیں ہوتا۔ اور سب سے بڑی بات، وہاں ایم ڈی نے کوئی بم نصب ہی نہیں کیا تھا۔
ماہی کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، نہیں، لیکن وہ دو آدمی… وہ ایم۔ڈی کے آدمی نہیں تھے؟
نہیں۔۔۔ حامد نے نفی میں سر ہلایا، وہ نائلہ کے کرائے کے لوگ تھے۔ اور تمہیں یاد ہے جس آدمی کو تم نے کلب سے بھگایا تھا؟ وہ بھی ایک کرمنل تھا۔ پولیس اس کے پیچھے تھی، اسی لیے وہ فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔۔۔
ماہی کو لگا اس کا دماغ مفلوج ہو رہا ہے، لیکن… لیکن نائلہ نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ ایم۔ڈی کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔۔۔
یہی تو دھوکہ تھا، ماہی۔۔ ولید نے جھنجھلا کر کہا، اس نے ویڈیو بھی ایسی بنائی کہ اس میں صرف تم ہی نظر آ رہی ہو! ایسا لگ رہا ہے جیسے تم اُس آدمی سے کوئی ڈیل کر رہی ہو۔۔۔
نہیں… یہ جھوٹ ہے۔۔ ماہی کے ہاتھ لرزنے لگے، یہ سب غلط فہمی ہے۔۔۔
نہیں، یہ حقیقت ہے۔۔۔ ولید کی آواز ٹھنڈی مگر زہریلی تھی، اب وہ اس ویڈیو کے ذریعے تمہیں ایم۔ڈی مافیا کی چھپی ہوئی ممبر ڈیکلیئر کرے گی، اور تم سیدھی جیل جاؤ گی۔ اور جب حارث یہ سب دیکھے گا، تو وہ ضرور کوئی ردِعمل دے گا۔ جیسے ہی وہ کچھ کرے گا، پولیس اس سب کا رخ حارث کی طرف موڑ دے گی۔۔۔وہ حارث کو ایم ڈی مافیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔۔۔
نہیں۔۔ ماہی کی سانسیں بے ترتیب ہوگئیں، یہ نہیں ہو سکتا… یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے؟
یہ سب نائلہ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔۔ ولید نے نرم لہجے میں کہا، لیکن ہاں، تمہاری ناسمجھی اور اندھے بھروسے نے اسے موقع دیا۔۔
ماہی کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔ کیا وہ واقعی ہمیشہ دھوکہ کھانے کے لیے ہی پیدا ہوئی تھی؟
ولید نے گہری سانس لی اور سنجیدگی سے کہا،
ماہی، میری بات غور سے سنو۔ اب تمہیں ویسے ہی کرنا ہوگا جیسے میں کہوں گا، ورنہ تم سیدھا جیل چلی جاؤ گی۔ اور میں یہاں کا وزیرِاعظم تو ہوں نہیں کہ تمہیں وہاں سے بھی بچا لونگا… لیکن ہاں، ابھی میں تمہیں بچا سکتا ہوں۔۔۔
ماہی نے بے بسی سے آنکھیں بند کرلیں۔ سب کی تو سن لی ہے، اب تمہاری بھی سن لیتی ہوں… بولو، کیا کرنا ہوگا؟
جس شخص سے ماہی کو سب سے زیادہ نفرت تھی، وہی شخص اس پوری دنیا میں اُس کے ساتھ سب سے زیادہ مخلص تھا کیا۔۔؟؟!
ولید نے بولنا شروع کیا۔۔۔
ابھی کے ابھی پاکستان چلی جاؤ! یہی تمہارے لیے سب سے بہتر ہے۔
ماہی نے غصے سے آنکھیں تنگ کرلیں، کیا؟ پاکستان؟ تم مجھے پاکستان جانے کو کیوں کہہ رہے ہو؟ ہر مسئلے کا حل یہی ہے کہ میں پاکستان چلی جاؤں؟
ہاں! کیونکہ یہی واحد راستہ ہے جس سے تم بچ سکتی ہو۔۔ ولید نے نرمی سے کہا
وہ تمہارا ملک ہے تُمہارا گھر، وہ ملک جیسا بھی ہو وہاں کتنے ہی کرائم کیوں نہ ہورہے ہوں لیکن وہ تمہارے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔۔ کیوں کہ وہ تمہارا ملک ہے۔۔۔
جیسے لندن میرا گھر ہے۔۔ میں یہاں رہ کر بڑی سے بڑی مصیبت سے آرام سے نکل سکتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں میرا ملک کیسا ہے۔۔؟
اور میرا ملک مُجھے جانتا ہے اور تمہارا ملک تمہیں جانتا ہے۔۔۔
اسی لیے میں بتا رہا ہوں یہاں کا قانون بہت سخت ہے۔ ایک دفعہ تُم جیل چلی گئی نہ تو باہر نہیں نکل پاؤں گی ۔۔ اور تُم اگر پاکستان ابھی چلی گئی تو تمہارا ملک تمہیں بچا لے گا۔۔۔
ماہی نے بے چینی سے سر جھٹکا، اور حارث؟ میں اسے اس حال میں چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں؟
ولید کی سانس بھاری ہوگئی، حارث ٹھیک ہو رہا ہے، اس کی فکر مت کرو۔ تمہارے یہاں رہنے سے تم اس کی مدد نہیں کر رہی، بلکہ اس کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہو۔ سمجھنے کی کوشش کرو، ماہی! نائلہ تمہیں ایم ڈی مافیا کا حصہ بنا کر پیش کرنے والی ہے، اور جیسے ہی وہ ویڈیوز پولیس تک پہنچیں گی، تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ پاکستان جانا ہی واحد حل ہے۔۔
ماہی کے دل میں عجیب سی کشمکش شروع ہوگئی۔ کیا واقعی اسے سب کچھ چھوڑ کر چلے جانا چاہیے؟ کیا یہ واقعی اس کا واحد راستہ تھا؟
مُجھے بس کچھ وقت چاہئے میں یہاں پر سب ٹھیک کردونگا پھر تُم واپس آجانا۔۔ ولید نے نرم لہجے میں سمجھایا۔۔۔
حامد نے سر ہلایا، اور جلدی کرو۔ ہمارے باس تم پر سخت غصے میں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بغیر کھانے پینے کے یہیں سڑنے دیا جائے۔
ماہی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں، مگر اب کی بار یہ آنسو کسی دکھ یا بے بسی کے نہیں تھے۔ یہ حقیقت کو تسلیم کرنے کی اذیت تھی۔
ٹھیک ہے… اس نے سر جھکا کر بمشکل کہا۔ میں چلی جاؤں گی پاکستان۔۔۔۔
تو پھر کب اور کیسے نکلنا ہے؟ ماہی نے چہرہ اٹھا کر ولید سے سوال کیا۔
ابھی۔ جتنی جلدی ہو سکے۔ ولید نے مختصر جواب دیا۔ حامد تمہیں نکال کر سیدھا ایئرپورٹ پہنچا دے گا۔ وہاں سے تمہاری فلائٹ ہوگی۔۔۔
ماہی نے ایک لمبی سانس لی، جیسے اپنے اندر کی تمام الجھنوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہو۔ ٹھیک ہے…
مگر دل میں کہیں ایک آواز اب بھی چیخ رہی تھی- کیا یہ واقعی صحیح فیصلہ ہے؟ کیا واقعی پاکستان واپسی ہی اس وقت واحد حل ہے؟
مگر اب فیصلہ ہوچکا تھا۔ اس کا جانا طے تھا۔
ماہی نے بے چینی سے کہا، پر میں یوں سیدھا سیدھا چلی جاؤں؟ خالہ اور باقی سب سے ملے بغیر؟
ولید نے سخت لہجے میں جواب دیا، نہیں ماہی! خطرہ ہے، میں کوئی رسک نہیں لے سکتا… پلیز۔۔۔
حامد جو قریب کھڑا تھا، دل ہی دل میں جھنجھلا کر سوچنے لگا،
یا اللہ! ایک تو میں اتنی مشکلوں سے یہاں سے نِکلا رہا ہوں، اور اسے خالہ سے ملنے کی پڑی ہے۔
ولید نے سنجیدگی سے کہا، اور سنو، میں جو بھی کہوں گا، وہی کرنا، بغیر کسی بحث کے۔۔۔
ماہی نے گہری سانس لی اور جواب دیا، ہاں، بولو۔
ولید نے ہدایت دیتے ہوئے کہا،
ائیرپورٹ سے نکلتے ہی سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرنا، پھر سیدھا اپنے والد کے گھر جانا، بغیر کچھ سوچے سمجھے، جیسے تم ہمیشہ ہر جگہ بنا سوچے سمجھے پہنچ جاتی ہو۔۔۔
ولید نے بات جاری رکھی،
جیسے ہی گھر پہنچو، مجھے میسج کرنا۔ اس کے بعد پھپھو سے بات کرنا، اور سب سے ضروری بات… کسی پر بھی بھروسہ مت کرنا۔۔۔
تم۔۔۔ وہ کچھ تلخ بولنے ہی والی تھی لیکن پھر رک گئی۔۔اچھا، ٹھیک ہے، اور کچھ؟
ولید نے گہری سانس لے کر کہا،
نہیں، بس اتنا کرلو… کرلو گی نا؟
ماہی نے بیزاری سے سر ہلایا، ہمم…
ولید نے کہا،
پرامس کرو۔۔۔
ماہی نے چڑ کر کہا، دو سال کی بچی نہیں ہوں میں! کہہ دیا نا ہاں، تو ہاں۔۔۔
ولید ہلکا سا مسکرا دیا، مگر اندر کہیں بےچینی باقی تھی…
حامد میری بات سنو۔۔۔۔ فون کو اسپیکر سے ہٹا کر کان میں لگاؤ۔۔۔
ہاں بولو۔۔ حامد نے فون کا اسپیکر بند کرتے فون کان میں لگایا ۔۔۔
ولید کی آواز سنجیدہ ہوگئی،
حامد، دھیان سے سنو۔ ماہی کو یہاں سے بحفاظت نکالنا ہے، لیکن خاموشی سے۔ کوئی شور نہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔
حامد نے گردن ہلائی، جیسے سامنے کھڑا ولید اسے دیکھ سکتا ہو،
ہاں، میں سمجھ گیا۔ لیکن تمہیں اندازہ ہے نا کہ باس پہلے ہی غصے میں ہیں؟ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ ہم ماہی کو نکال رہے ہیں تو مسئلہ ہوسکتا ہے۔
ولید کی آواز میں سختی آگئی،
اسی لیے کہہ رہا ہوں، چپ چاپ سب کرو۔۔
حامد نے گہری سانس لی، جانتا تھا کہ اگر حالات بگڑے تو اسے مشکل فیصلہ لینا پڑے گا۔
ہاں، سمجھ گیا۔ لیکن تونے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔ لیکن میں تیرے ساتھ اچھا کروں گا۔۔۔
ولید تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر ہلکی آواز میں بولا،
مجھے پتہ ہے، حامد۔ میں نے تجھے مشکل میں ڈالا، لیکن اس وقت ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
حامد ہلکا سا ہنسا، لیکن اس کی ہنسی میں تلخی نمایاں تھی۔
راستہ ہمیشہ ہوتا ہے، ولید۔ بس کچھ لوگ اپنے فائدے کے لیے دوسروں کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ لیکن خیر، چھوڑ… اب یہ کام میرا ہے، اور میں اسے پورا کروں گا، اپنی مرضی سے۔۔۔
حامد نے ایک نظر ماہی پر ڈالی اور سرد لہجے میں بولا،
چلو، نکلتے ہیں۔۔۔
فون بند ہو گیا۔اور حامد ماہی کو لیے کر یہاں سے نکل گیا۔۔۔
++++++++++++
ماضی ۔۔۔
گھر کی فضا سوگوار تھی۔ ہر کونے میں اداسی بسی ہوئی تھی، جیسے دیواریں بھی آنسو بہا رہی ہوں۔ ماہی کی ماں کی وفات کو آج ساتواں دن تھا، مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت وہیں ٹھہر گیا ہو۔
سونیہ نے بےچینی سے اپنے بھائی الیاس صاحب کی طرف دیکھا، جو افسردہ چہرہ لیے بیٹھے تھے۔
بھائی، میں کہہ رہی ہوں نا، ماہی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اسے میرے ساتھ جانے دیں۔
الیاس صاحب نے نم آنکھوں سے اپنی بہن کی طرف دیکھا،
کیوں؟ کیا ہوا ماہی کو؟ وہ تو ٹھیک ہے نا؟
سونیہ نے بےبسی سے سر ہلایا۔
نہیں بھائی، کہاں ٹھیک ہے وہ؟ صدمے میں ہے! ابھی اسے بہت پیار اور توجہ کی ضرورت ہے، اور اگر یہ یہاں اکیلی رہی، تو یہ صدمہ اس کی ذات پر مزید حاوی ہو جائے گا۔ بھابھی کی یاد اسے ہر لمحہ توڑ دے گی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ماہی اپنی ماں کے بہت قریب تھی، اور اس کا یوں چلے جانا اسے بکھیر سکتا ہے۔
سونیہ نے مزید کہا،
بھائی، میں نے ارشد سے بات کر لی ہے، انہیں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ ماہی کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ میں جس سوسائٹی میں رہتی ہوں، وہاں بہت سے بچے ہیں، ماہی ان سب میں گھل مل جائے گی۔
الیاس صاحب کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
لیکن میں اس کے بغیر کیسے رہوں گا؟ میری ایک ہی بیٹی ہے!
سونیہ نے اپنے بھائی کا ہاتھ تھاما،
میں جانتی ہوں بھائی، پر ابھی ہمیں ماہی کے بارے میں سوچنا ہے۔ وہ یہاں رہے گی تو کہیں اور بگڑ نہ جائے…
الیاس صاحب نے گہری سانس لی۔ وہ جانتے تھے کہ سونیہ جو کہہ رہی تھی، وہ حقیقت تھی۔ ماہی ابھی بہت چھوٹی تھی، اس کا دل اتنا مضبوط نہیں تھا کہ وہ یہ سب صدمے جھیل سکے۔ مگر ایک باپ کے لیے اپنی اکلوتی بیٹی کو خود سے دور بھیجنا بھی آسان نہیں تھا۔
سونیہ نے نرمی سے کہا،
بھائی، آپ بڑے ہیں، آپ صبر کر سکتے ہیں۔ لیکن ماہی ایک چھوٹی سی بچی ہے، وہ کیسے کرے گی؟ اسے بھابھی کی ہر لمحہ یاد آئے گی، اور وہ اور زیادہ ڈسٹرب ہو جائے گی۔
سونیہ نے اپنی بات جاری رکھی،
اور بھائی، میں ماہی کو کہیں بہت دور تو نہیں لے جا رہی۔ آپ جب چاہیں آ سکتے ہیں، جب دل کرے ماہی سے ملنے آ جائیے گا۔ مگر ابھی اسے تھوڑے چینج کی ضرورت ہے، ایک نئی فضا، نئے لوگ، تاکہ وہ کچھ دیر کے لیے اس غم سے باہر نکل سکے۔
الیاس صاحب کی آنکھوں میں ایک باپ کی محبت تھی، مگر ساتھ ہی بیٹی کے مستقبل کی فکر بھی۔ وہ جانتے تھے کہ سونیہ غلط نہیں کہہ رہی، مگر کیا وہ اپنی بیٹی کو خود سے دور کر پائیں گے؟
ماہی کے قدم دروازے پر رک گئے۔ وہ اندر آ ہی رہی تھی کہ ابّا کی آواز سن کر وہیں ٹھہر گئی۔
ٹھیک ہے، تم ماہی کو لے جاؤ، الیاس صاحب نے گہری سانس لے کر کہا۔ ان کے لہجے میں ایک باپ کی بےبسی جھلک رہی تھی، مگر وہ جانتے تھے کہ یہی ماہی کے لیے بہتر تھا۔
ماہی کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔
مجھے کہیں اور بھیج رہے ہیں؟ ابّا مجھے اپنے پاس نہیں رکھیں گے؟ اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔
اندر سونیہ کی آواز گونجی،
یہی بہتر ہے، بھائی۔ آپ دیکھنا، ماہی آہستہ آہستہ نارمل ہو جائے گی۔ ابھی اسے یہاں رہنے دینا صحیح نہیں ہوگا۔
ماہی کے دل میں بے شمار سوال ابھرنے لگے۔
امی تو چلی گئیں، اب ابو بھی مجھے چھوڑ رہے ہیں؟ میں نے ایسا کیا کیا کہ سب مجھ سے دور جا رہے ہیں؟
اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، مگر وہ ضبط کیے کھڑی رہی۔ اندر الیاس صاحب خاموش تھے، جیسے الفاظ ڈھونڈ رہے ہوں، اور سونیہ تسلی دے رہی تھی۔
الیاس صاحب نے گہری سانس لے کر کہا،
ویسے بھی، میں ماہی کو نہیں سنبھال سکتا… اس کی ماں ہی تھی جو اس کا اتنا خیال رکھتی تھی۔
پھر وہ سونیہ کی طرف دیکھ کر بولے،
اور تم ایسا کرنا، وہیں اس کا ایڈمیشن بھی کسی اسکول میں کروا دینا… میں یہاں کے اسکول سے اس کا نام کٹوا دوں گا۔
ماہی کی آنکھوں میں خفگی اور بے یقینی تھی۔ وہ اپنے والد کو دیکھ رہی تھی، جو سنجیدگی سے سونیہ پھپھو سے بات کر رہے تھے۔ جیسے ہی اس نے سنا کہ اس کا اسکول بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، اس کے دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیا۔
مطلب میں واپس نہیں آؤں گی؟ ماہی نے دھیرے سے کہا۔۔
سونیہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا،
ٹھیک ہے بھائی… اور آپ فکر نہ کریں، میں ماہی کا بہت خیال رکھوں گی۔
الیاس صاحب نے سر ہلایا، مگر ان کے چہرے پر عجیب سی بے بسی تھی۔
ماہی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹی، جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ اس کے بابا نے واقعی اسے بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ماہی کی آواز میں لرزش تھی، آنکھوں میں بے یقینی اور دل میں ایک انجانی سی بےچینی۔
پر آپ مجھے بھیج کیوں رہے ہیں؟
وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہیں رک گئی، نظریں اپنے ابّا پر جما دیں، جیسے ان کی آنکھوں میں اس فیصلے کی وجہ تلاش کر رہی ہو۔
الیاس صاحب نے ایک پل کے لیے نظریں اٹھائیں، مگر فوراً ہی دوسری طرف دیکھنے لگے۔
بیٹا، یہ تمہارے لیے بہتر ہے… انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
بہتر؟ ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، امی بھی چلی گئیں، اور اب آپ بھی مجھے بھیج رہے ہیں؟ کیا میں اتنی بوجھ بن گئی ہوں آپ پر؟
سونیہ نے نرمی سے ماہی کا ہاتھ تھاما،
بیٹا، ایسی بات نہیں ہے… تم ابھی بہت چھوٹی ہو، تمہیں ایک ماں جیسا سہارا چاہیے، اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہیں کبھی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گی۔
ماہی نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا، مجھے کسی کی ہمدردی نہیں چاہیے! مجھے اپنے ابّا کے ساتھ رہنا ہے۔۔۔
الیاس نے ایک گہری سانس لی، جیسے وہ خود بھی تکلیف میں تھے مگر کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ آخرکار، انہوں نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا،
بیٹا، میں تمہاری ماں نہیں بن سکتا… اور میں جانتا ہوں کہ میں تمہیں وہ محبت نہیں دے پاؤں گا جو تمہیں چاہیے۔ سونیہ تمہارا خیال رکھے گی، تمہیں ایک نئے ماحول میں لے جائے گی، جہاں تمہیں سکون ملے گا۔۔۔
ماہی نے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا، جیسے انہیں پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔
یا پھر حقیقت یہ ہے کہ آپ کو میری پرواہ ہی نہیں ہے…؟ اس کی آواز سرگوشی جیسی تھی، لیکن ان الفاظ میں اتنا درد تھا کہ کمرے میں موجود ہر شخص خاموش ہوگیا۔
ماہی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر اس نے ہونٹ بھینچ لیے تاکہ کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو۔
سونیہ نے نرمی سے ماہی کی طرف دیکھا اور سمجھانے والے انداز میں کہا،
دیکھو ماہی، تمہارے بابا کو دن میں دس کام ہوتے ہیں۔ ابھی تو ان کی چھٹی ہے، لیکن جلد ہی انہیں دوبارہ دفتر جانا ہوگا۔ ایسے میں تمہارا خیال کون رکھے گا؟ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ تم میرے ساتھ چلو، جہاں میں تمہارا پورا دھیان رکھ سکوں۔
اچھی خاصی بڑی ہوں میں، اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔۔۔ اس نے ضدی لہجے میں کہا۔
سونیہ نے ہنستے ہوئے کہا، ہاں ہاں، وہ تو میں جانتی ہوں، لیکن ماہی کو دوست کی بھی تو ضرورت ہوگی نا! اور مجھ سے اچھی دوست تمہاری بھلا کون ہو سکتی ہے؟ بتاؤ؟
الیاس نے نرمی سے کہا، ہاں ماہی، تمہاری پھوپو صحیح کہہ رہی ہیں… اور میں تم سے ملنے آتا رہوں گا نا۔ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔
ماہی نے بے زاری سے آنکھیں گھمائیں، نہیں، کوئی بڑی بات نہیں ہے، بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔
سونیہ نے شرارت سے کہا، چھوڑو یہ باتیں، چپ چاپ میرے ساتھ چلو، نہیں تو میں تمہیں اتنا تنگ کروں گی، اتنا تنگ کروں گی کہ تم… (وہ ماہی کو پکڑ کر اسے گدگدی کرنے لگی۔۔
ماہی ہنستے ہوئے چیخی، ہاہاہا! کیا ہے پھوپو، بس بھی کریں! ایک نمبر کی چڑیل لگ رہی ہیں… اور یہ اتنے بڑے ناخن، توبہ توبہ! اللہ معاف کرے۔۔ یہ کہہ کر ماہی نے دوڑ لگا دیا
سونیہ پیچھے سے ہنستے ہوئے کہا، رکو، تمہاری تو! مجھے چڑیل بول کر بھاگ رہی ہو۔۔۔
اس وقت تو ماہی پھوپو کے ساتھ چلی گئی تھی اور اپنے بابا سے ناراض تھی، لیکن اتنی نہیں… اصل میں ماہی اپنے ابّا سے تب بدگمان ہوئی جب انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ماہی کو پھر لگنے لگا کہ اسی وجہ سے بابا نے اسے گھر پر نہیں رکھا، پھوپو کے حوالے کر دیا… اور صرف یہی نہیں، شادی کے نئے نئے دنوں میں ماہی کے ابّا اس سے بہت روڈلی برتاؤ کرنے لگے تھے، جیسے بات بات پر اسے سناتے، اس پر غصہ کرتے۔
بس اسی وجہ سے ماہی نے ان سے بات کرنا ہی بند کر دیا… اور ساتھ ساتھ خاندان والوں کی باتیں بھی سننی پڑتیں:
تم ایسی ڈریسنگ کیوں کرتی ہو؟
تم اپنے بابا سے ملنے کیوں نہیں جاتی؟
تمہیں اپنے بابا کے ساتھ رہنا چاہیے۔
تم اپنی سوتیلی ماں سے ملی ہو؟ تم ان کے ساتھ کیوں نہیں رہتی؟
تمہیں وہ قبول ہی نہیں کرتی ہوں گی، ہے نا؟
تم ایسی ہو، تبھی تمہیں کوئی پسند نہیں کرتا اور نہ کوئی اپنے پاس رکھنے کا مان رکھتا ہے!
تمہارے سگے باپ نے جب تمہیں نہیں رکھا تو سوتیلی سے کیا ہی امید کرے بندہ!
تم خود کو بدل لو تو سب تمہیں پسند کریں گے!
یہ سب باتیں سن سن کر ماہی نے اپنے رشتہ داروں سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
ایسا نہیں تھا کہ وقت نے اسے بے تمیز، جذباتی، بے لحاظ، غصیلی، ٹوم بوائے، ضدی اور مغرور بنا دیا۔ وہ شروع سے ہی ایسی تھی… بس فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے وہ اتنی تند مزاج نہیں تھی۔
ایسا اسے اس کے خاندان والوں نے بنایا تھا — وہی طعنے، وہی طنز، وہی روایتی جملے جو بار بار اس کے کانوں میں گونجتے:
لڑکیاں ایسے نہیں بیٹھتیں!
یہ کیسا حلیہ ہے؟
یہ کیا بدتمیزی ہے؟
تمہیں تو لڑکیوں کی طرح نرمی سیکھنی چاہیے!
ایسے ضد کرو گی تو کوئی تمہیں اپنائے گا؟
یہ سب باتیں، سب رویے، سب طنز اس کے دل میں کہیں نہ کہیں زخم دیتے رہے۔
اور جب کوئی زخم بھرنے نہیں دیا جاتا، تو وہ سختی اختیار کر لیتا ہے — اور یہی ماہی کے ساتھ ہوا تھا۔
باقی اوور تھنکنگ تو وہ شروع سے ہی بہت کرتی تھی، تبھی تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر فوراً سے بدگمان ہو جاتی، اور پھر کسی کی نہیں سنتی تھی۔
ایک دفعہ جس سے بدگمان ہو گئی، بس ہو گئی۔
پھر چاہے کوئی کتنا ہی صفائی دے، کتنی ہی وضاحت کرے، اس کے دماغ میں جو ایک بار بیٹھ گیا، وہ پتھر کی لکیر بن جاتا۔
یہی عادت تھی جو اسے بار بار تکلیف دیتی، بار بار دُکھی کرتی، مگر وہ پھر بھی خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں تھی…
یا شاید بدلنا نہیں چاہتی تھی۔
+++++++++++++
جیسے ہی ماہی نے گھر کے اندر قدم رکھا، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ یہ گھر عام گھروں جیسا نہیں تھا، بلکہ ایک شاندار اور وسیع حویلی کی مانند تھا، جو اپنی خوبصورتی اور کشادگی میں بے مثال تھا۔
سامنے ایک بڑی، شفاف شیشے کی دیوار تھی، جس کے پار ایک وسیع سبز باغ نظر آ رہا تھا۔ باغ میں فوارے چل رہے تھے، اور رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو ہوا میں بسی ہوئی تھی۔ ایک طرف پتھر کی بنی ہوئی روشیں تھیں، جو سیدھا باغ کے بیچوں بیچ جا رہی تھیں۔
گھر کے اندر داخل ہوتے ہی ایک عالیشان ڈرائنگ روم تھا، جہاں بڑی بڑی گولڈن اور میرون رنگ کی سوفہ سیٹس رکھی تھیں۔ چھت پر شاندار جھاڑ فانوس لٹک رہا تھا، جو پورے ہال کو سنہری روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ دیواروں پر خوبصورت فن پارے آویزاں تھے، اور ایک دیوار پر ایک بہت بڑی فیملی فوٹو لگی ہوئی تھی، جس میں پھوپھا، سونیہ اور ان کے بچے نظر آ رہے تھے۔
ڈرائنگ روم کے بعد ایک وسیع لاونج تھا، جہاں ایک جدید انداز کا ایل ای ڈی لگا ہوا تھا، جس کے نیچے ایک نفیس لکڑی کا ٹیبل تھا۔ صوفے نہایت آرام دہ اور نرم تھے، اور ہر طرف خوبصورتی اور سلیقے کا ایک خاص امتزاج نظر آ رہا تھا۔
اوپر جانے کے لیے سنگ مرمر کی بنی ہوئی سیڑھیاں تھیں، جن کی ریلنگ سونے کے کام سے مزین تھی۔ جیسے ہی کوئی اوپر جائے، ایک لمبا اور کھلا کاریڈور آتا تھا، جہاں دائیں بائیں خوبصورت کمروں کے دروازے تھے۔
ماہی کے لیے جو کمرہ مختص کیا گیا تھا، وہ بھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے سے کم نہ تھا۔ ایک کونے میں ایک شاندار سنگھار میز تھی، دیوار پر خوبصورت سنہری پردے لٹک رہے تھے، اور سامنے ایک بہت بڑی کھڑکی تھی، جہاں سے باہر باغ کا دلکش نظارہ نظر آ رہا تھا۔ بستر پر سفید اور نیلے رنگ کی چادریں بچھی تھیں، اور ایک طرف ایک چھوٹا سا کتابوں کا شیلف بھی موجود تھا۔
پورے گھر میں ایک الگ ہی پرسکون اور شاہانہ ماحول تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ مکمل اور نفاست سے رکھی ہوئی تھی، جیسے یہاں کی ہر شے کسی خاص سوچ کے تحت رکھی گئی ہو۔ یہ گھر نہیں، بلکہ ایک خوابوں کا محل تھا، جہاں رہنے والے یقیناً خود کو کسی کہانی کا حصہ محسوس کرتے ہوں گے۔
ماہی کے بابا کے بانسبت، ماہی کی پھوپو کے پاس بہت پیسہ تھا۔ اور ان کا خرچہ ہی کوئی نہیں تھا — گھر میں دو لوگ، اور دونوں ہی اچھا خاصا پیسہ کماتے، تو غریبی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دیکھیں کون آیا ہے میرے ساتھ!.. وہ خوشی خوشی ماہی کو لے کر گھر میں داخل ہوئی۔
کون؟ لے آئی ماہی کو؟ وہ اسٹڈی روم سے باہر آتے ہوئے بولے۔ وہ پہلے سے جانتے تھے کہ سونیہ ماہی کو ساتھ لے کر آنے والی ہے، مگر جیسے ہی ماہی کو دروازے پر کھڑا دیکھا، ان کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ پھیل گئی۔
ہاں! ان کے چہرے کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی، وہ بےحد خوش تھیں۔ انہیں ماہی سے بےتحاشا محبت تھی، اور یہ محبت ان کی آنکھوں میں جھلک رہی تھی۔
السلام علیکم پھوپھا! ماہی نے ادب سے سلام کیا، آواز میں ہلکی سی جھجک تھی، مگر لہجے میں اپنائیت بھی تھی۔
وعلیکم السلام! آج سے یہ تمہارا ہی گھر ہے، یہ سب کچھ اب تمہارا ہے! وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب آئے، نیچے بیٹھے اور نرمی سے اس کے ماتھے پر محبت بھری پیشانی چومتے ہوئے بولے۔
ماہی نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا — اتنی اپنائیت… اتنی شفقت؟ کس لیے۔۔۔؟
سونیہ مسکراتے ہوئے بولی،
اور سنو، یہاں کوئی تمہیں مہمان نہیں سمجھے گا، نہ ہی کوئی تمہیں اجنبی ہونے کا احساس دلائے گا، سمجھیں؟
ماہی نے سر ہلا دیا، مگر دل میں کچھ تھا جو ابھی بھی بے یقینی کی گرفت میں تھا۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا واقعی یہ گھر اس کا بھی ہو سکتا ہے؟
ماہی اب پھوپو کے ساتھ آرام سے رہنے لگی تھی۔ یہاں اُسے کوئی پریشان نہیں کرتا تھا، نہ کوئی روک ٹوک تھی، نہ کوئی فضول سوال۔ وہ جو چاہتی، جب چاہتی، کر سکتی تھی۔
اور پھوپو؟ وہ تو جیسے اس کی ہر خواہش پوری کرنے کا عہد کرچکی تھیں۔ ماہی کی ہر ضد، ہر فرمائش، آنکھ بند کرکے پوری کی جاتی۔
لیکن اس دوران جب بھی اس کے بابا کی کال آتی، سب کچھ بدل جاتا۔ فون کی گھنٹی بجتی، اور ماہی کا دل جیسے کسی انجانے خوف میں گھِر جاتا۔ ہر بار جب وہ فون اُٹھاتی، لڑائی لازمی ہوتی۔ وہ ہمیشہ یہی کہتی
مجھے واپس لینے آجائیں، مجھے اپنے ساتھ لے جائیں!
حالانکہ یہاں اسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی — محبت، توجہ، کیئر، پیار — سب کچھ تو مل رہا تھا۔
لیکن باپ کی محبت… وہ جو شاید سب سے زیادہ ضروری تھی، وہی یہاں نہیں تھی۔
اس کی جگہ بس ایک خالی پن تھا، جو دن بہ دن بڑھتا جا رہا تھا۔
باپ کی محبت کی کمی کوئی اور محبت پوری نہیں کر سکتی تھی۔
پھوپو لاکھ چاہتیں، جتنا بھی پیار دیتیں، لیکن باپ کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا تھا۔
ماہی کے اندر ایک عجیب سی خلش تھی، ایک ادھورا پن، جو ہر بار بابا سے بات کر کے اور بڑھ جاتا۔
جب بھی بابا کی کال آتی، وہ یہی امید لگاتی کہ شاید آج وہ کہیں گے کہ
ماہی، میں تمہیں لینے آ رہا ہوں۔
لیکن ہر بار بات وہیں ختم ہو جاتی۔
بابا یا تو اسے سمجھانے لگتے یا پھر اس کی بات کو نظر انداز کر دیتے۔
بابا، آپ کب آئیں گے؟ مجھے واپس لے جائیں، میں یہاں نہیں رہنا چاہتی! وہ ہمیشہ یہی کہتی۔
ماہی، میں نے تمہیں تمہاری بھلائی کے لیے وہاں بھیجا ہے، وہاں تمہیں سب کچھ مل رہا ہے، تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں؟
بابا کی آواز ہمیشہ سرد اور جذبات سے عاری ہوتی۔
تکلیف؟ ہاں، ہے تکلیف! مجھے آپ کی یاد آتی ہے، مجھے لگتا ہے جیسے آپ نے مجھے چھوڑ دیا ہے، جیسے آپ کو میری پرواہ نہیں! وہ روہانسی ہو جاتی۔
ایسی باتیں مت کرو، تم جانتی ہو کہ میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں۔ بس کچھ وقت گزرنے دو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کچھ وقت؟ کتنا وقت؟ کون سا اور وقت آئے گا؟ اب تو میں نارمل بھی ہوگئی ہوں… ماما کو یاد کر کے بھی اتنا نہیں روتی… ماہی کی آواز میں تلخی گھل جاتی۔
یہی تلخی، یہی بدگمانی آہستہ آہستہ اس کے دل میں جڑ پکڑ رہی تھی۔
جتنا بابا اسے سمجھانے کی کوشش کرتے، اتنا ہی وہ خود کو ان سے دور محسوس کرتی۔
وہ چاہتی تھی کہ وہ ایک بار، بس ایک بار، ویسے ہی اس کے لیے بے قرار ہوں جیسے وہ ان کے لیے تھی۔
لیکن ایسا کبھی نہ ہوا۔
ماہی نے پھوپو کے گھر کو اپنا لیا تھا،
لیکن دل کے کسی کونے میں وہ امید اب بھی زندہ تھی کہ شاید بابا ایک دن اسے واپس لے جانے آئیں گے،
اور کہیں گے،ماہی، چلو گھر چلتے ہیں۔
+++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
