Antal hayat Episode 15 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو

قسط نمبر ۱۵

تم خاص ہو ،کسی یاقوت کی مانند،
تم اہم ہو کسی باغ کے اکلوتے پھول جیسے۔۔۔۔

دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پہچان صرف اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنے کام سے بناتے ہیں…
اور انہی میں سے ایک نام ہے — امن جنید خان۔۔۔

وہی امن…جس کے خون میں کامیابی، وقار اور عزم وراثت میں ملا —
کیونکہ وہ جنید خان کا پوتا تھا،
ایک ایسا نام جس نے اپنے وقت میں عزت، دیانت اور وقار کی نئی مثالیں قائم کیں۔

جنید خان
ایک ایسا باوقار شخص جس کی زندگی دو راستوں پر چلی…
ایک طرف ان کی پہلی بیوی سلمیٰ جنید — صبر، محبت اور وقار کی علامت۔
اور دوسری طرف سارہ جنید — ایک خود مختار، مضبوط ارادوں والی عورت جس نے زندگی ہمیشہ اپنی شرائط پر گزاری۔

سلمیٰ جہانگیر کے دو بیٹے ہیں —
شہزیب خان اور شعیب خان۔

شہزیب خان کی شادی سوہا شہزیب سے ہوئی۔
ان کی دو بیٹیاں تھی — نتاشا اور ناتالیہ۔
ناتالیہ اپنے والدین کے ساتھ دبئی میں رہتی تھی،
جبکہ نتاشا اپنے دادا، دادی کے ساتھ ملائیشیا میں۔

دوسری جانب شعیب خان کی زندگی کی ساتھی سنیہ شعیب تھی
دونوں کا ایک ہی بیٹا تھا — زاویار خان
جو اس وقت ملائیشیا میں ہی رہائش پذیر تھا۔

سارہ خان جنید صاحب کی دوسری بیوی کا اکلوتا بیٹا تھا — تیمور خان۔
ایک ایسا شخص جس نے زندگی میں چار شادیاں کیں، اور ہر شادی نے اسے ایک نیا رشتہ، ایک نیا بیٹا دیا۔

پہلی بیوی: روخسار تیمور — ان سے ایک ہی بیٹا، امن جنید خان۔۔۔

دوسری بیوی: نہا تیمور — ان سے دو بیٹے، ابرار جنید خان (AR) اور یوسف خان۔

تیسری بیوی : آمنہ تیمور — ان سے بھی دو بیٹے،
ارسل جنید خان ارحم جنید خان ( جڑواں)

چوتھی بیوی : منتہا تیمور — ان سے دو بیٹے، ازلان جنید خان اور دانیال امن جنید خان۔

امن جہانگیر کے سات بھائی، اور یہی ساتوں اس کی جان، امن ان سے بےحد محبت کرتا ہے، اتنی کہ اپنی جان بھی قربان کر دے۔
اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی یہی بھائی ہیں،
اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی۔

۔۔۔۔۔ فلیش بیک ۔۔۔۔۔۔

دادی… مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ رُخسار بیگم نے سارا بیگم کے پاس آتے ساتھ کہا

سارا بیگم نے نظرے اٹھائے رُخسار بیگم سے کہا
ائے تو کر…نا۔۔

وہ میں کہہ رہی تھی کہ…

ائے جلدی بول نا۔۔

میں کہہ رہی تھی کہ انہوں نے جس لڑکی کا رشتہ امن کے لیے بتایا تھا… انہوں نے بولنا شروع ہی کیا کے سارا بیگم نے ان کی بات کاٹ کر کہا

ائے اُس کا نام حیات ہے۔۔۔

ہاں، وہی حیات… اُس نے تو ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ اور امن نے بھی ابھی تک اُس سے شادی کے لیے ہاں نہیں کی۔

تو؟

اماں، آپ مجھے پوری بات تو کہنے دیں…

ائے تو بول نا! جلدی جلدی…

جی… تو میں کہہ رہی تھی کہ حیات کے گھر سے ابھی تک کوئی صاف جواب نہیں آیا، اور امن نے بھی حیات کو ‘اپروو’ نہیں کیا۔ تو… میری بہن کی بیٹی  ہے، حورین ، میں سوچ رہی تھی اُسے دیکھ لیجیے امن کے لیے۔ رُخسار بیگم نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی

ائے نا! امانوا کا شادی حیات سے ہی ہوگا۔ تو اپنی بہن کی بیٹی کے لیے کسی اور کو دیکھ لے
سارا بیگم نے دوٹوک مانا کردیا

نہیں، مجھے لگتا ہے کہ میرے بیٹے کے لیے حورین ہی ٹھیک رہے گی۔ دادی، دیکھیے نا، وہ گھر گرہستی والی لڑکی ہے۔ گھر میں آئے گی تو سب کو سمجھے گی بھی۔ اور اگر کوئی باہر کی لڑکی آ گئی، تو بِلَا وجہ کا فتنہ کھڑا کر دے گی۔ اور آپ کو تو پتا ہے کہ ان بھائیوں میں کتنی محبت ہے۔ کہی ایسا نہ ہو کہ حیات آ کر ان بھائیوں کو الگ کرنے لگے… رخسار بیگم نے سارا بیگم کو سمجھنا چاہا

سارا بیگم نے صاف لہجے میں کہا
ائے نا، امانوا کے دادا بول دیے ہیں کہ اُس کی شادی حیات سے ہوگی… تو اب حیات سے ہی ہوگی۔۔۔

رُخسار بیگم نے ہلکا سا تیکھا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا
تو آپ حیات کی شادی ابرار سے کروا دیں، یا کسی اور پوتے سے…

ائے نہ! امانوا میرا پہلا پوتا ہے… اور اُس کی شادی وہیں ہوگی، جہاں ہم چاہیں گے۔۔ سارا بیگم اپنی بات پر قائم تھی۔۔

نیہا  بیگم جو راہداری میں سے گزرتے ہوئے سُن چکی تھیں، اب لاؤنج میں قدم رکھتی ہیں، چہرے پر صاف غصہ تھا
تو اماں! آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابرار اور یوسف آپ کے پوتے نہیں ہیں۔۔۔۔

اے میرا مطلب وہ نہیں تھا، نیہا…

نیہا بیگم نے بغیر سارا بیگم  کی طرف دیکھے کہا
مجھے اچھی طرح پتا ہے آپ کا مطلب کیا تھا۔ میں بہری نہیں ہوں۔ میں نے سنا ہے آپ نے کہا کہ آپ کا پوتا صرف امن ہے۔۔۔

سارا بیگم  کی آواز تھوڑی سخت ہوگئی
ائے بس کر، بات کو بلا وجہ نہ بڑھا۔ ہم بول رہے ہیں نا کہ ہمارا مطلب وہ نہیں تھا۔۔۔

بس بس! اب اور وضاحت کی ضرورت نہیں۔ مجھے صاف صاف سمجھ آ گیا ہے کہ آپ میرے بیٹوں کو اپنا خون نہیں سمجھتیں۔۔۔ نیہا بیگم اگ بگولا ہوچکی تھی

سارا بیگم نے تیور چڑھا کر کہا
چپ رہ! زیادہ زبان نہ چلا۔ اپنا کام کر جا کے۔۔۔

نیہا بیگم  نے آنکھوں میں آنسو، آواز میں طوفان تھا
آپ نے جو کہا ہے، اس کا ہرجانہ دینا ہوگا آپ کو۔

سارا بیگم نے اونچی آواز میں، غصے سے کہا
زیادہ میری ماں بننے کی کوشش مت کر، نیہا! ہم تیری ساس ہیں، تُو میری ساس نہیں ہے۔۔۔

نیہا بیگم ٹھنڈی مگر کٹیلی آواز میں کہا
ٹھیک ہے! اب میں بھی دیکھتی ہوں، کہ آپ کیسے امن کی شادی حیات سے کرواتی ہیں۔۔۔۔

سارا بیگم  اُٹھ کھڑی ہوئی۔
اب تو دیکھے گی، امانوا کا شادی تو حیات سے ہی ہوگا! ہم بول دیے ہیں۔۔۔
اور پھر وہ لونچ سے نکل گئی۔کیوں کہ اب اُن کے نماز کا وقت ہوچکا تھا۔۔

نیہا بیگم بھی، مٹھیاں بند کرتی ہوئی، تیز قدموں سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ اور زور سے دروازہ بند کیا تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ وہ ناراض ہیں

رُخسار بیگم خاموشی سے لاؤنج سے اٹھی ، ان کی آنکھوں میں خفگی تھی۔
عجیب لوگ ہیں، اپنی بات پوری بھی نہیں کرنے دیتے…

لونچ میں بیٹھی آمنہ بیگم نے  غصے سے  کہا
افف… عجیب گھر ہے، ہر وقت کوئی نہ کوئی کَلَیش لگا رہتا ہے۔ سکون تو جیسے حرام ہو گیا ہو۔۔۔
اور بڑبڑاتی ہوئی اٹھی ، بالوں کو سنوارتی ہوئی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل گئی،۔ لیکن ابھی وہ دہلیز تک بھی نہیں پہنچتیں کہ دوسرے کمرے کا دروازہ کھلا

آمنہ بیگم دوپٹہ کاندھے پر ڈالا ، چہرے پر غصہ تھا
یہاں کب کوئی دن بغیر جھگڑے کے گزرا ہے؟ تنگ آ گئی ہوں، میں تو جا رہی ہوں اپنے میکے۔۔۔

منتہا بیگم جو ابھی اپنے روم سے نکلی تھی بلا تاثر، تھکی ہوئی آواز میں کہا
ہاں ہاں، تو جا، روکا کس نے ہے؟

آمنہ بیگم نے اب اور زیادہ غصے میں کہا
ہاں، جا رہی ہوں۔۔۔
اور غصے سے نکل گئی۔۔۔

منتہا بیگم نے آہستگی سے، جیسے خود سے مخاطب ہو
اس گھر میں کسی کے مزاج کسی سے نہیں ملتے… جیسے ہر کوئی بس کسی موقع کی تلاش میں بیٹھا ہے بھڑکنے کے لیے…

وہ بھی سر جھٹکتی ہوئی، خود کو پرسکون کرنے کے لیے شاید، کچن کی طرف بڑھ گئی۔

حال ۔۔۔۔

یوسف نے منہ بنا کر، قدرے ڈرامائی انداز میں کہا
اسی لیے پورے گھر میں ماتم سا چھایا ہوا ہے…

اتنے میں ابرار اور ارسل اور ارحم  بھی دروازہ دھکیل کر اندر آئے، دونوں کے چہروں پر تجسس چھپا نہ تھا۔

ارسل نے ابرو اچکا کر کہا
تو ناراض کون ہے؟

یوسف پلکیں جھپکاتا پوچھا
مطلب؟

مطلب یہ کہ ناراض  نیہا ماما ہیں یا دادی؟

یوسف نے شانے اچکاے کہا
اب یہ تو جا کے دادی سے پوچھو، مُجھے تو نہیں پتہ۔۔

امن  نے سنجیدگی سے کہا
تو کیا کرنا ہے پھر؟

ازلان نے آنکھیں موند کر، جیسے سب بکواس ہو
کرنا کیا ہے… کمبل لو، تکیہ سنبھالو، اور سو جاؤ۔

اس سے پہلے کہ میں تمہیں تھپڑ مار دوں، تم ایک کام کرو… تم چلے ہی جاؤ یہاں سے۔۔۔ امن نے سنجیدگی سے کہا

اچھا… اذلان خاموشی سے سیدھے ہو کر بیٹھ گیا

ابرار نے تھوڑا نرم لہجے میں، مگر بات سمجھانے کی نیت سے کہا
ویسے بھائی…

کیا؟

یہ گھر کا معاملہ ہے… دادی اور ماما لوگ ہیں، وہ سنبھال لیں گی۔ تم اتنا بیچ میں کیوں پڑ رہے ہو؟

ارحم ابرار کی تائید کرتے ہوئے
ہاں بھائی، ابرار ٹھیک ہی کہہ رہا ہے۔۔۔

ارسل نے  نرمی اور فکر کے امتزاج سے کہا
اور پھر اگر تم بیچ میں پڑے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ چھوٹا سا معاملہ بڑا فسانہ بن جائے۔ یہ ماما لوگوں کا مسئلہ ہے، انہیں خود سلجھانے دو۔۔

سب کی باتوں میں وزن تھا، اور امن جانتا تھا کہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔

امن مختصر سا ہمم کہا
میں… اپنے کمرے میں جا رہا ہوں…
پھر اور وہ آہستگی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا

یوسف نے ہنستے ہوئے کہا
واہ بھائی، اتنی جلدی مان گئے؟  مجھے نہیں لگا تھا بھائی تم لوگوں کی بات مانیں گے۔۔۔

وہ صرف تیری، ازلان کی، اور دانیال کی بات نہیں مانتے کیونکہ تم تینوں کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب کیا بول دو۔۔۔ ابرار نے یوسف کو سچائی کا آئینہ دیکھایا

چل نکل… آیا بڑا، جیسے تیری بات تو بھائی بہت مانتے ہیں۔۔ اذلان نے غصے سے کہا

ابرار نے دھیرے سے مسکرا کر کہا
ایگزامپل تیرے سامنے ہے۔

ازلان نے زور سے چڑ کر کہا
اوکے ناچ اب۔۔۔۔
یہ کہہ کر غصے میں پیر پٹختا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا

اسی لمحے…

دانیال واش روم کا دروازہ آہستہ سے کھول کر جھانکتے ہوئے، دھیرے سے کہا
بھائی چلے گئے کیا؟

ہاں، چلے گئے۔۔۔ ارحم نے جواب دیا

دانیال نے  سکھ کا سانس لیتے ہوئے، واش روم سے باہر آ کر کہا
شکر…
جیسے ایک جنگ سے بچ گیا ہو۔

ارحم نے سنجیدگی سے کہا
جب بھائی سے اتنا ڈر لگتا ہے تو بدتمیزی کرتا کیوں ہے؟”

کیونکہ…

ارزان ابرو اٹھاتے ہوئے
کیوں؟

دانیال نے چہرے پر ڈھیٹ پن کی جھلک لیے کہا
کیونکہ میری مرضی۔۔۔

ارحم سخت لہجے میں، جاتے جاتے کہا
سُدھر جا تُو، ورنہ بھائی سے بہت بُرا پٹے گا…
یہ کہہ کر وہ ارسل کو ساتھ لے کر کمرے کی طرف روانہ ہوگیا

دانیال نے آہستہ سے ، تھوڑے دکھ بھرے انداز میں کہا
عجیب… سب کو بس میں ہی ملتا ہوں باتیں سنانے کے لیے…

یس۔۔۔
یوسف دانت نکلتا شوخی سے کہتا فوراً یہاں سے غائب ہوگیا

میری کوئی عزت نہیں ہے…عجیب… ایک دن چلا جاؤں گا نا، تب پتا چلے گا ان سب کو…
وہ خود سے بڑبڑاتا اپنے فون کی طرف متوجہ ہُوا ۔۔

+++++++++++++

صبح کی دھیمی دھیمی روشنی کھڑکیوں کے شیشوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔ اور ہمیشہ کی طرح آفیس میں مکمل خاموشی تھی۔۔۔

مس حیات، یہ فائل باس کو دے دیجیے گا۔ سی ای او نے حیات کو اپنے کیبن میں بُلا کر کہا

حیات نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا،
خود جا کر دے دیں ناں؟ مُجھے تنگ کیوں کر رہے ہیں۔۔

مس، یہ میرا کام نہیں ہے۔ یہ آپ کا کام ہے، اور آپ ہی کریں گی۔
اس کے لہجے میں وہی روایتی دفتری سنجیدگی تھی جو حیات کو سخت ناپسند تھی۔ وہ کرسی سے اٹھ کر بے دلی سے چلتی ہوئی، آہستہ آہستہ ایگزیکٹو کیبن کی طرف بڑھی۔

اندر آ کر فائل میز پر رکھی اور بنا اجازت کے الفاظ ادا کیے یہ لیں۔

یہ کیا ہے؟ امن نے نظرے اُٹھا کر حیات کو دیکھا

مجھے کیا پتا، کھول کر دیکھ لیں۔۔

کیا مطلب؟ تمہیں نہیں پتا؟

اسی لمحے کیبن کا دروازہ ہلکی سی دستک ہوئی
مے آئی کم اِن سر؟

ہاں، آؤ۔

نتاشا نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی
باس، ایک گڈ نیوز ہے۔۔۔۔

کیا؟

ہماری جو 150 نیو ڈیزائنز والی بڑی ڈیل پینڈنگ تھی، وہ آج فائنلی کنفرم ہو گئی ہے۔ نتاشہ نے پُر جوش لہجہ میں کہا

اچھا… امن نے نارمل لہجے میں کہا

حیات نے تیزی سے کہا کیا مطلب اچھا؟

اچھا کا مطلب اچھا ہی ہوتا ہے، مس حیات۔

حیات  نے تیور چڑھا کر کہا اتنی بڑی ڈیل کنفرم ہو گئی، آپ کو خوش ہونا چاہیے، کہنا چاہیے واہ، فائنلی ڈیل کنفرم ہو گئی… لیکن نہیں، آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے کسی نے آ کر بتایا ہو کہ بارش ہو گئی ہے۔۔ ویسے تو حیات بارش کا سُن کر بھی بہت زیادہ خوش ہوجاتی ہے۔۔۔۔ اور ایک آپ ہیں۔۔۔

آمن نے نظر ناتاشا کی طرف موڑتے ہوئے کہا
نتاشا، تم جا کر ابرار کو کال کر کے یہ خبر دے دو۔۔۔ ( ابرار اس ڈیل کیا انویسٹر تھا)

جی باس۔۔۔
وہ سر ہلا کر خاموشی سے واپس چلی گئی

امن نے فائل پر ایک نظر ڈالی،
یہ فائل تم جا کے مسٹر احمد کو دے دو۔ اور کہنا کہ باس نے کہا ہے کہ آج ہی یہ فائل ری چیک ہو جانی چاہیے۔ اور اگر ری چیک کے بعد باس کو کوئی غلطی ملی، تو اچھا نہیں ہوگا۔۔

یہ آخری جملہ وہ نہیں تھا، جو حیات سننا چاہتی تھی۔ اس کی نظریں لمحے بھر کو ٹھہر گئیں، اور پھر زیرلب کچھ بڑبڑائی
یہاں کسی کے ساتھ اچھا ہوتا کب ہے…

امن  نے سر اٹھا کر کہا  کچھ کہا کیا؟

کچھ نہیں، جا رہی ہوں۔
اور پھر وہ فائل ہاتھ میں لیے باہر نکل گئی۔

حیات مسٹر احمد کے پاس آتے ساتھ کہا
یہ لیں، آپ کو یہ فائل ری چیک کرنی ہے۔ اور باس نے کہا ہے کہ اچھے سے ری چیک کیجیے گا، اگر کوئی غلطی ہوئی، تو باس آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔

مسٹر احمد نے فائل کی طرف دیکھا، پھر جیسے کسی بچے سے کوئی کھلونا چھین لیا گیا ہو، ویسا منہ بنایا۔
عجیب مطلب حد ہے یار۔ ابھی تو ایک ڈیل کنفرم ہوئی ہے ہماری، کوئی خوشی منانے کا موقع نہیں، اُلٹا اور کام دیے جا رہے ہیں باس…

حیات کرسی کے ہتھے پر ٹیک لگا کر مسکرا رہی تھی، جیسے کوئی خواب بن رہی ہو جو اس بےرنگ دنیا میں رنگ بھر دے۔
ہاں، عجیب ہی ہیں سب… ویسے میں سوچ رہی تھی، اگر اس ڈیل کی خوشی میں پارٹی ہو جائے آفس میں، تو مزا ہی آ جائے، ہے نا؟

مسٹر احمد نے جیسے فائل بند کی ہو، ویسے ایک پرانی یاد کھول دی۔
مس، یہ ہم سب کا خواب ہی رہے گا۔ اس سے بڑی بڑی ڈیلز ہوئی ہیں یہاں، باس نے کی ہیں، لیکن پارٹی؟ کبھی نہیں ہوئی اس آفس میں…

شیروز جو کب سے خاموش بیٹھا سن رہا تھا، اب گفتگو میں شامل ہوا۔
ہاں، مجھے یاد ہے، یہاں صرف ایک بار پارٹی ہوئی تھی، وہ بھی جب آفس رینیو ہوا تھا۔ اور وہ بھی دانیال اور یوسف کی وجہ سے… اُس دن کے بعد تو پارٹی کرنا تو دور، کسی نے پارٹی کا نام تک نہیں لیا۔

حیات نے آنکھیں پھیلا کر کہا ہیں…؟

ہاں۔ یہاں سارے اتنے ‘سینئر’ اور ‘گرے شیڈز’ والے ایمپلائز ہیں، اُن کے ساتھ مل کر انسان پلان بھی نہیں بنا سکتا۔۔۔ شیروز نے منہ بناتے کہا

اور مجھے تو لگتا ہے باس نے جان بوجھ کے ایسے بڑے لوگ رکھے ہیں، تاکہ کوئی پارٹی وارٹی کا نہ سوچے۔۔۔ احمد نے کہا

ہاں، جب بھی کوئی بڑی ڈیل ہوتی ہے، خوشی کے نام پر ہمیں بس ایک بونس تھما دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم سب روبوٹ ہیں… شیروز نے کہا

حیات نے آنکھوں میں چمک، چہرے پر عزم لیے کہا
کوئی بات نہیں، تم لوگ پریشان نہ ہو۔ یہاں پہلے ‘حیات’ نہیں تھی… اب ہے۔ اور جہاں حیات ہو، وہاں زندگی بھی ہو گی۔ اگر پارٹی نہیں بھی ہوئی، تو کم از کم ایک ہفتے کی چھٹی تو میں کروا ہی سکتی ہوں۔

اسی لمحے پیچھے سے آواز ائی
نتاشا نے سنجیدگی سے، کہا
او لڑکی، تمہیں اندازہ بھی ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟

حیات نے مڑ کر، نگاہیں مستقیم لیے کہا
وہی جو تم سن رہی ہو۔

نتاشا نے تلخی سے کہا
ایسا کبھی ممکن نہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی… نہ پارٹی ہوئی، نہ چھٹی ملی۔

حیات نے نرمی سے مگر پورے یقین کے ساتھ کہا
لیکن حیات کروا کے رہے گی۔

نتاشا نے چیلنج بھری نظروں سے کہا
دیکھتے ہیں۔

حیات نے پلٹ کر چلتی ہوئی، دھیمی آواز میں کہا
ہاں، دیکھ لینا…

آفس کی خاموش راہداریوں سے نکل کر جب حیات کینٹین میں داخل ہوئی،
تھوڑی دیر بعد
وہ سفید مگ ہاتھ میں لیے، کافی مشین کے سامنے کھڑی تھی۔ چہرہ تھکا نہیں تھا، لیکن الجھنیں اس کے ماتھے پر لکھی جا سکتی تھیں۔

حیات  نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کہا
وہاں سب کو تو میں بول آئی ہوں کہ میں اُن خروس باس کو منا لوں گی… لیکن مناؤں گی کیسے؟ خود تو مُردہ ہیں، دوسروں کو بھی مُردہ ہی سمجھتے ہیں…

ابھی وہ اپنے خیالات میں گم تھی کہ پیچھے سے ایک مانوس، دھیمی سی آواز نے اس کے خیالات کی ڈور کھینچ لی۔
ارے بیٹا، تم کیوں کافی بنا رہی ہو؟ میں بنا دیتی ہوں۔۔۔

حیات نے ذرا سا چونک کر، بوا کو دیکھا پھر کہا
نہیں، میں بنا لوں گی۔ آپ اپنا کام کریں۔۔۔

بُوا نے ہلکی سی ہنسی میں لپٹی ہوئی سادگی سے کہا
بیٹا، میرا کام ہی یہی ہے۔

کیا؟ مجھے تنگ کرنا؟

بُوا نے ہنستے ہوئے کہا
نہیں بیٹا… کافی بنانا۔

حیات نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا
اوہ ہاں… لیکن ابھی میں بنا رہی ہوں نا۔

بُوا نے محبت سے مسکراتے ہوئے کہا
اچھا تو بنا لو۔۔۔

ہاں۔۔
+++++++++++

دن کی روشنی کھڑکیوں سے اندر آ رہی تھی، مگر آمن کا دھیان اب بھی اسکرین پر تھا۔ انگلیاں کی بورڈ پر چل رہی تھیں،

دروازہ ہلکے سے کھلا، اور حیات اندر داخل ہوئی۔ ہاتھ میں دو کافی کے مگ، جن میں سے ایک اُس نے بنا کسی لفظ کے آمن کی میز پر رکھ دیا۔
یہ لیں…

آمن نے نظریں اسکرین پر جمائے ہوئے کہا 
تھینک یو…

حیات نے نرمی سے کہا ویلکم…

پھر وہ آہستہ قدموں سے امن کے میز کے سامنے صوفے کی طرف بڑھی اور دھیرے سے بیٹھ گئی۔

امن نے کچھ پل اور کام میں مصروف رہ کر، اچانک نظریں اسکرین سے ہٹائیں، اور حیات کو غور سے دیکھا۔ تمہیں کیا ہوا؟

کچھ نہیں…

کچھ تو ہوا ہے…

حیات نے آہستگی سے نظریں اٹھائیں۔
میں ایک بات سوچ رہی تھی…
ہماری کمپنی کو اتنا فائدہ ہوا ہے، اتنی بڑی اچیومنٹ ملی ہے…

تو…؟

حیات نے آنکھیں پھیلا کر، کہا
تو آپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں اس اچیومنٹ کو سیلیبریٹ کرنا چاہیے؟

امن نے صاف انکار کیا۔
نہیں، مجھے نہیں لگتا۔

حیات کا اب غصہ چہرے سے صاف جھلکنے لگا۔
عجیب انسان ہیں آپ۔۔۔

امن نے بہت سکون سے، جیسے پتھر بھی شرما جائے۔
میں ایسا ہی ہوں۔
پھر اس نے دوبارہ اپنے لیپ ٹاپ پر نگاہیں جما دیں۔

حیات اُٹھ کر کھڑی ہو گئی، جیسے جذبات اب تھمے نہیں جا رہے۔
مجھے نہیں پتا آپ آفس میں پارٹی کریں یا کہیں گھمانے لے کر جائیں — لیکن کچھ تو ہونا چاہیے۔۔۔

امن نے بغیر نظر اٹھائے کہا۔
تم پاگل ہو گئی ہو…

حیات نے آنکھیں گھما کر کہا۔
ہاں، آپ کے ساتھ رہتی ہوں، اثر تو آئے گا ہی۔۔

امن نے سخت لہجے میں کہا۔
جا کے کام کرو۔

حیات نے ضد میں آ کر، بازو باندھ کر کھڑی ہو گئی۔
مجھے نہیں پتا، ہمیں کہیں گھمانے لے کر چلیں۔

امن نے اب کے تھوڑا طنزیہ انداز میں کہا۔
اچھا… اور میڈم کہاں جانا چاہتی ہیں گھومنے؟

حیات نے بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔
Amusement park!

امن –
چپ کر کے کام کرو۔

پلیز نہ۔۔۔۔ لے کر چلیں نا…
اب وہ مکھن لگا رہی تھی،

نہیں!

حیات آنکھیں جھپکاتے ہوئے۔
پلیز۔۔۔۔۔

امن نے آہستگی مگر قطعی انداز میں کہا۔
مس حیات، ‘نہیں’ کا مطلب نہیں ہوتا ہے۔

حیات نے اب کے واقعی غصے سے بھری ہوئی، منہ پھلا کر کہا۔
ہُوں! بھاڑ میں جائیے۔۔۔
اور وہ تیزی سے کیبن سے باہر نکل گئی۔

دروازہ بند ہوا، اور امن نے سر جھٹکا، جیسے دل میں ہلکی سی مسکراہٹ آئی ہو مگر اُسے باہر نکلنے کی اجازت نہ دی۔

باہر نکلتے ہی حیات نے خود سے بڑبڑانا شروع کر دیا۔
حیات نے ناک سکیڑ کر، جیسے کوئی بیزار سی بلی ہو۔
عجیب فالتو انسان ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے اندر کوئی فیلنگز ہی نہیں ہیں۔ خیر… مجھے کیا، میں تو امایہ کو لے کر خود ہی چلی جاؤں گی پارک! رہیں یہ مرُدہ بن کر!
اور پھر وہ بڑی شان سے اپنی ہی پلاننگ میں گم ہو گئی،

+++++++++++++++

ایک بیپ… دو بیپ… فون بجا —
اور امن نے تھکے تھکے انداز میں فون اٹھایا۔

ہیلو…؟

بھائی کہاں ہو تم؟

گھر پہ…

ہیں؟ بھائی میں بھی تو گھر پہ ہوں، لیکن تم تو نہیں دکھ رہے؟

جب تمہیں پتہ ہے کہ میں آفس میں ہوں، تو پوچھ کیوں رہے ہو؟

کیونکہ…

…کیونکہ؟؟

میری مرضی

پھر اچانک پیچھے سے یوسف کی آواز آئی،
ارے کام کی بات کرو، ٹائم کیوں ضائع کر رہے ہو؟

امن نے سرد لہجے میں کہا
جلدی بولو، کال کیوں کی ہے؟

دانیال نے لہجے میں ہچکچاہٹ لیے کہا
بھائی… میری جو بڑی اماں ہیں، اور تمہاری جو سگی اماں ہیں نا…

ہاں…؟

دانیال نے سنبھل کر، مگر فکر میں ڈوبا ہوا کہا
وہ گھر چھوڑ کے چلی گئی ہیں…

امن نے چونک کر، بے یقینی سے کہا
کیا؟!

ہاں...

کیوں…؟

وہی رات والی بات پر…

اچھا، میں آ رہا ہوں… رُکو۔۔۔

دانیال نے معصومیت سے کہا
میں تو رکا ہی ہوا ہوں بھائی…

کال کٹو۔۔۔
کیوں بھائی؟ تم نہیں کاٹ سکتے؟

اوہ ہاں…
اور فوراً فون کاٹ کر تیزی سے کیبن سے نکلا۔

++++++++++++++

امن نے جیسے ہی گھر کا دروازہ پار کیا،
لاؤنج کے صوفے پر سب ایک ہی وقت میں ایک ہی ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔

رخسار بیگم نے اونچی آواز میں، آنکھوں میں انا کی چمک کہا
بس میں نے کہہ دیا ہے، آمن میرا بیٹا ہے، اور اس کی شادی میری بہن کی بیٹی حورین  سے ہی ہوگی۔۔۔۔

سارا بیگم نے کہا
اور ہم بھی کہہ دئیے ہیں! آمنوا ہمارا پوتا ہے، اور اس کی شادی حیات سے ہی ہوگی۔۔۔

نیہا بیگم نے اپنی آواز کو زہر میں بجھا کر کہا
اور اس بیٹے کا کیا جس کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے؟

آمنہ جہانگیر نے سر جھٹک کر، جیسے سب کی باتوں سے بیزار ہو
ارے بس کرو، ایسے بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ چھری نکالو، اور ایک دوسرے کے پیٹ میں گھسا دو۔

منتہا بیگم نے ناک چڑھا کر کہا
تم تو چپ ہی رہو آمنہ۔۔۔

آمنہ نے بے نیازی سے کہا
کیوں؟ تمہیں کیا تکلیف ہو رہی ہے؟ اپنا کام کرو۔۔۔

منتہا نے منہ بنا کر، جلی ہوئی آواز میں کہا
ہاں، مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم جیسوں سے الجھنے کا۔۔۔

کیا ہو رہا ہے یہاں؟!” امن اندر داخل ہوتے ہی بولا

سارا بیگم نے جھٹ سے کہا
اپنی ماں سے پوچھ۔۔۔

رخسار بیگم فوراً بولیں
بیٹا دیکھو۔۔۔

امن نے اب کے سنبھل کر، لیکن سختی سے کہا
مجھے سب پتا ہے، ماما! آپ کیوں فضول میں بات کو الجھا رہی ہیں؟ حورین کی شادی ہو جائے گی… کہیں بھی! لیکن میرے ساتھ؟ نہیں۔۔۔

رخسار بیگم نے لہجے میں اصرار لیے کہا
لیکن وہ میری اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی ہے۔۔۔
میں اور میری بہن چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر میں ہی رہے…

دانیال نے جھٹ سے کہا
ہاں، تو شادی کروا کے اس کے شوہر کو مروا دو، پھر وہ بیوہ ہو جائے گی، ساری زندگی گھر میں ہی رہے گی!

امن نے غصے سے دانیال کو گھورا
دانیاللللل۔۔۔!

دانیال نے معصومیت سے کہا
کیا؟ اتنا اچھا تو آئیڈیا دے رہا ہوں

اپنے روم میں جاؤ! ابھی!! امن نے سرد لہجہ میں کہا

دانیال نے ناک چڑھا کر، قدم گھسیٹتے ہوئے کہا
اچھا جا رہا ہوں…
اور خود سے بڑبڑاتا، جیسے وہی دنیا کا مظلوم ترین کردار ہو۔

امن نے گہرا سانس لیتے ہوئے، نرمی مگر تھکن سے کہا
ماما، آپ بھی کمرے میں جائیں… ہم اس بارے میں رات کو بات کریں گے۔

رخسار بیگم نے اب کے ضدی لہجے میں، جیسے برسوں کا خواب ٹوٹنے لگا ہو، کہا
بات کرنے کا فائدہ نہیں، امن…
تمہیں شادی تو حورین سے ہی کرنی ہوگی۔

امن نے صبر سے جواب دیا
ہاں ہاں… ابھی کے لیے آپ بس کمرے میں چلی جائیں، پلیز۔

ازلان نے درمیان میں ٹپک پڑتے ہوئے کہا
ہاں، اور جاتے ہوئے اپنا بوریہ بستر بھی لیتے جائیں…

رخسار بیگم نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا
چپ کرو تم۔۔۔۔
اور وہ پیر پٹختی، تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

امن نے سرد لہجے میں، آنکھیں ازلان پر ٹکائے کہا
ازلان، اپنی زبان پر کنٹرول رکھا کرو۔

ازلان نے کندھے اچکاتے، کہا
اوکے بھائی…
اور پھر بے فکری سے چلتے ہوئے اپنے کمرے کی راہ لے لی۔

امن نے سب کی طرف نگاہ ڈالی
باقی سب بھی جائیں، جب رات کو ڈیڈ آئیں گے، تب بات ہوگی۔

اور سب خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف پڑھ گیا۔۔

اور امن بھی چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا
دروازہ بند کیا، اور جیسے ہی بستر پر بیٹھا، حیات کا چہرہ اس کی نظروں میں گھومنے لگا…

+++++++++++++++

کچھ وقت بعد…
دادا کے کمرے میں…

کمرے میں نیم تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ باہر مغرب کی اذان کی گونج باقی فضا کو کسی نا مکمل دعا کی طرح گھیرے ہوئے تھی۔

جنید صاحب نے صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ کہا
اچھا تو تم کیا چاہتے ہو، میں کیا کروں؟

اُن کے سامنے بیٹھا امن بیٹھا تھا
پھر  وہ مدھم آواز میں بولا
مجھے نہیں پتہ دادا، بس… اب روز کی اس چیخ پکار سے تنگ آ گیا ہوں۔ آپ ہی کوئی حل نکالیں۔
یہ کوئی آج کی بات نہیں تھی۔۔۔ امن کے شادی کو لے کر پچھلے دو سال سے یہیں سلسلہ چلتا آرہا تھا اور ابھی تک امن کی ایک لڑکی ‘decide’ نہیں ہو پارہی تھی جو لڑکی سب کو پسند آئے۔۔۔

جنید صاحب ہلکا سا مسکرائے —
دیکھو بیٹا، یہ عورتوں کا معاملہ بڑا نازک اور الجھا ہوا ہوتا ہے۔ ان کا تو شاید کام ہی ایک دوسرے سے الجھنا ہے… اور تم تو جانتے ہو، سوتنیں کبھی بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتیں۔

امن خاموش رہا، جیسے وہ یہ سب پہلے بھی سن چکا ہو… شاید سینکڑوں بار۔

تو…؟
صرف ایک لفظ… مگر اس ایک لفظ میں کتنے سوال تھے،

جنید صاحب نے گہری سانس لی
تم گھر کے بڑے بیٹے ہو۔ میرے بعد ساری ذمہ داریاں تمہارے کاندھوں پر ہوں گی۔ خود کو مضبوط بناؤ، بیٹا۔ ہر حال کا سامنا کرنا سیکھو۔ اور سب سے اہم بات… دل کی سنو۔

ان کی آواز اب مدھم ہوتی گئی، مگر الفاظ جیسے وقت میں گونجنے لگے
اگر تمہارا دل حورین کے لیے راضی ہے، تو اُس کے حق میں فیصلہ کر لو۔
اور اگر حیات کے لیے راضی ہو تو اُس کا ہاتھ تھام لو۔
درمیان میں دونوں کو لٹکانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
یہ فیصلہ کسی اور کے لیے نہیں، تمہارے اپنے سکون کے لیے ہے۔ وہ اس گھر میں کسی کی بہو، کِسی کی بھابھی بن کر بعد میں آئے پہلے وہ تمہاری بیوی بنے گی۔۔۔

امن نے خاموشی سے جنید صاحب کو دیکھا۔
اُن کی باتوں کا وزن اُس کے دل کے کسی گوشے میں اتر گیا تھا۔

سوچتا ہوں، دادا…
وہ دھیمے لہجے میں بولا، اور پھر بغیر کوئی اور بات کیے اُٹھ کر وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے دروازہ آہستہ سے بند کیا۔ باہر اندھیرا ہو چکا تھا، اور اندر… ایک فیصلہ آنے سے پہلے والی گہری خاموشی طاری تھی۔

آئینے کے سامنے کھڑا وہ شخص، جو بظاہر سب کے لیے مسئلے حل کرتا تھا، آج خود ایک مسئلہ بن گیا تھا۔

ویسے تو مجھے دونوں میں سے کوئی بھی اتنی زیادہ پسند نہیں ہے… نہیں ہے نا؟
وہ آہستگی سے بولا، جیسے خود سے سوال کر رہا ہو…

اسی لمحے، جیسے کسی نے سینے میں تیز خنجر مار دیا ہو، حیات کی یادیں یکدم دل و دماغ پر حملہ آور ہوئیں — اُس کی ہنسی، اُس کی ضد، اُس کی خاموشیاں، اُس کی اُلٹی سیدھی باتیں،

پاگل لڑکی۔۔۔۔
وہ اُسے سوچتا بڑبڑایا، پھیر مُسکرا دیا۔۔۔

لیکن اب بھی وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا —
حیات یا حورین؟

کیوں کہ حورین اُس کی ماں کی پسند تھی،
اور حیات… اُس کے ڈیڈ کی۔
مگر سوال یہ تھا —
وہ خود کس کو پسند کرتا تھا؟

وہ دیر تک خاموش رہا۔ خود کو آئینے میں دیکھا رہا۔۔۔
پھر جیسے خود سے بات کرتے ہوئے بڑبڑایا
حورین تو بہت میچور ہے… سمجھدار ہے، سیدھی ہے…
الفاظ نکلتے گئے، مگر دل نے کوئی تاثر نہ دیا —

پھر خیال کا رُخ حیات کی طرف مڑ گیا۔
اور حیات…
اُس نے خود سے کہا، اور ہلکا سا مسکرایا۔
وہ انمیچور ہے، نہیں… وہ چائلڈِش ہے، نہیں وہ تھوڑی بیوقوف ہے…
اچانک اُس نے خود کو روکتے ہوئے سر جھٹکا،
نہیں، نہیں — وہ معصوم ہے…
معصوم استغفراللہ نہیں، بہت بے تمیز ہے…
اور اگلے ہی لمحے ہنسی دبا نہ سکا،
نہیں… ارے، وہ کیا چیز ہے؟
پاگل ہی ہے وہ پوری پاگل،

لیکن میں ماما کا کیا کروں میں؟؟

یہی سوچتے سوچتے اب وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا۔۔۔
اور نیند کی وادی میں اُتر گیا۔۔۔

+++++++++++++

صبح… آفس میں

دھوپ کھڑکی کے پردوں سے جھانک رہی تھی، جیسے اجازت مانگ رہی ہو اندر آنے کی۔ امن کی میز پر دھری گھڑی نے آٹھ بجے کا الارم خاموشی سے عبور کیا تھا۔ وہ اپنی کرسی پر نیم دراز بیٹھا تھا، اور نگاہیں کہیں اور تھیں… شاید کسی اور جگہ… یا شاید کسی اور شخص پر۔

انٹرکام پر انگلی رکھتے ہی اُس کی آواز میں وہی سنجیدگی لوٹ آئی جو اکثر اُس کی آنکھوں سے غیر حاضر رہتی تھی۔
زارا، حیات کو بھیجو میرے آفس میں۔

انٹرکام کی دوسری جانب زارا نے فوراً جواب دیا،
سر، اُنہوں نے بتایا تھا کہ وہ آج لیٹ آئیں گی۔

امن کی ابرو تھوڑا سا چڑھی۔
کیوں؟

سر، اُنہوں نے کہا ہے کہ اُنہیں آج یونیورسٹی جانا ہے کسی اہم کام کے سلسلے میں۔ شاید بارہ بجے تک آئیں۔

کچھ لمحے امن خاموش رہا۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو…۔

اچھا ٹھیک ہے، جب آئے تو میرے پاس بھیج دینا۔

جی، بھیج دوں گی۔

ہم…
اور اُس نے کال کاٹ دی۔

مایا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
تمہیں نہیں لگتا کہ باس کچھ زیادہ ہی ‘حیات حیات’ کرتے ہیں؟

زارا نے چونک کر اُسے دیکھا،
نہیں، کیوں؟

مایا نے گردن ایک طرف جھکا کر کہا ،
دو منٹ حیات نظر نہ آئے، تو فوراً کال گھما دیتے ہیں، پوچھتے ہیں کہاں ہے حیات…

زارا نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا،
ہاں، یہ تو ہے۔ شاید وہ باس کی پی اے ہے، اس لیے کام رک جاتا ہو اُس کے بغیر۔

مایا نے فوراً بات کاٹ دی،
ہاں، پی اے ہی ہے۔ مگر کرتی کیا ہے؟ زیادہ سے زیادہ… کافی دیتی ہے یا فائلز ادھر اُدھر لے جاتی ہے۔

زارا نے قدرے سنجیدگی سے کہا،
تمہیں نہیں لگتا کہ ہم باس کے پرسنل معاملات میں بہت زیادہ دخل دے رہے ہیں؟

مایا نے  چہرہ دوسری طرف کر لیا،
تم بہت بیوقوف ہو، تم نہیں سمجھو گی…

اور وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

++++++++++++
دوپہر کے بارہ بجے…

تمہیں پتہ ہے؟ تمہیں پتہ ہے؟
حیات جیسے خوشی کے بادل پر سوار تھی۔ وہ تیزی سے آفیس میں داخل ہوتے اور سیدھا ریسپشن پر کھڑی زارا سے مخاطب ہوئی۔

زارا نے حیرت سے ہنستے ہوئے کہا،
آپ بتائیں گی تو مجھے پتہ چلے گا نا۔۔۔

ہاں ہاں، بتاؤں گی! تمہیں کیا، میں تو پورے آفس کو بتاؤں گی۔۔۔
وہ چمکتی آنکھوں اور گالوں پر پھیلی چمک کے ساتھ بولی، جیسے کسی بچے کو کوئی قیمتی کھلونا ملا ہو۔

لیکن… ابھی نہیں۔ پہلے تم مجھ سے سائن کروا لو۔ پھر آ کے پوری تفصیل دوں گی۔ پر فی الحال یہ خوشخبری پہلے اُنہیں دینی ہے… اپنے باس کو۔

زارا نے ہنستے ہوئے سر ہلایا،
ٹھیک ہے، جیسا آپ کو مناسب لگے۔

حیات نے سر کو ہلکا سا خم دیا،
ہممم…

پھر جلدی سے کاغذات پر سائن کیے، اور پھر اپنی مخصوص خوش باش چال میں، ایک دھنک کی طرح اُچھلتی ہوئی، امن کے آفس کی طرف چل دی۔

دروازہ کھٹکھٹانے کی زحمت بھی نہ کی۔

دروازہ بغیر اجازت کھلا۔ امن نے سر اٹھا کر دیکھا—اور وہی چہرہ، وہی شوخ مسکراہٹ، اور وہی قدم جنہیں شاید خود کو روکنا کبھی سیکھا ہی نہیں گیا تھا۔

تمہیں تمیز سے چلنا نہیں آتا؟
امن نے ایک نظر میں اُس کی بے قابو چال پر تبصرہ کر ڈالا۔

حیات نے لمحہ بھر کو رُک کر، گردن تھوڑی سی ایک طرف کی، جیسے سوال میں شوخی چھپی ہو،
نہیں، آپ سِکھا دیں۔

امن کی بھنویں اُٹھیں،
ہںمم…؟

حیات فوراً پلٹی،
کچھ نہیں۔

امن نے دوبارہ اُس کی طرف دیکھا، چہرے پر سنجیدگی تھی
کیا بات ہے؟ بہت خوش لگ رہی ہو…

ہاں! بات ہی ایسی ہے۔ اوہ… ہاں، میں آپ کو بتانا بھول گئی کہ مجھے ایک ہفتے کی چھٹی چاہیے۔۔

ایک ہفتے کی؟
امن کی آواز میں حیرت کی لکیر ابھری۔

جی، ایک ہفتے کی۔

کیوں؟

وہ ذرا… پرسنل ہے۔ میں نہیں بتا سکتی۔

امن نے نظریں گاڑتے ہوئے کہا،
بتاؤ۔

حیات نے آنکھیں سکیڑ کر کہا،
آپ بہرے بھی ہیں کیا؟ اوہ ہاں… عمر کا تقاضہ ہے یہ تو۔۔۔۔
پھر مزید زور سے چِلّاتے ہوئے،
میں کہہ رہی تھی کہ وہ پرسنل ہے۔۔۔۔

امن نے سکون سے قلم رکھ کر کہا،
نہیں ملے گی چھٹی۔ بات ختم۔
اور وہ دوبارہ فائل کی طرف متوجہ ہو گیا۔

حیات کی آنکھوں میں غصے کی بجلی کوندی،
ایسے کیسے نہیں ملے گی؟ مجھے چاہیے چھٹی، آپ کو دینی پڑے گی۔۔۔

امن نے آنکھیں اٹھائے بغیر کہا،
باس میں ہوں یا تم؟

حیات نے بھی وہی انداز اپناتے ہوئے،
اسسٹنٹ میں ہوں یا آپ؟

امن نے سر اُٹھا کر سنجیدگی سے پوچھا،
یہ کیسا سوال ہے؟ اوبویسلی تم ہو۔

ہاں تو آپ نے بھی تو فضول سا سوال کیا! ظاہر ہے آپ باس ہیں، تبھی تو چھٹی مانگ رہی ہوں… ورنہ میں تو آپ کو منہ بھی نہ لگاؤں۔۔۔

امن نے چونک کر نظریں اٹھائیں،
کیا؟

حیات فوراً پیچھے ہٹی، ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے،
کچھ نہیں کچھ نہیں… پلیز آپ چھٹی دے دیں…

ابھی وہ اپنی ضد کی پینگ پر چڑھ ہی رہی تھی کہ اچانک اُس کے فون پر ایک کال آنے لگی۔
امایہ کی کال…
وہ بڑبڑائی،

فون کان سے لگاتے ہی حیات نے چڑ کر کہا
ہیلو! بولو، کیا کام ہے؟

اس کے لب ابھی مکمل نہ ہوئے تھے کہ امن نے لمحوں میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اُس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا۔ حیات نے چونک کر پیچھے قدم ہٹائے، لیکن دیر ہو چکی تھی۔ امن نے فون کا اسپیکر آن کر دیا۔

“یا ہوا؟ چھٹی دی تیرے باس نے؟ اب یہ مت بولنا کہ وہ چھٹی نہیں دے رہے۔ یار! پلان کینسل ہو جائے گا ورنہ۔ میں نے اتنی مشکل سے منایا ہے اپنے گھر والوں کو، تجھے تو پتہ ہے نا، میرے گھر والے مجھے اکیلے جانے ہی نہیں دیتے… اور وہ بھی پورے ایک ہفتے کے لیےم۔۔ بہت مشکل سے مانے ہیں! تو بھی منا لے یار جلدی۔۔۔

حیات نے گھور کر امن کی طرف دیکھا،
یہ کیا بدتمیزی ہے؟!

امایہ کی آواز اسپیکر پر اب بھی رواں تھی،
کیا؟ ابھی میں نے بدتمیزی کی کہاں ہے؟

حیات غصے سے پھنکار اُٹھی،
تجھے نہیں بول رہی ہوں! کال بند کر۔۔۔

تو پھر کس کو بول رہی ہے؟

حیات کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں،
کال بند کر رہی ہے یا میں موبائل کے اندر گھس کے چماٹ ماروں تجھے؟

کر رہی ہوں، کر رہی ہوں۔۔۔
امایہ نے فوراً ڈر کر کال کاٹی۔

فون بند ہوتے ہی امن نے موبائل میز پر رکھا، اور نظریں حیات کے چہرے پر جما دیں۔ آواز میں غصہ اور آنکھوں میں وہ خفا سا سوال تھا جس کا جواب وہ فوراً چاہتا تھا۔
کہاں جانے کا پلان ہے؟

حیات نے زور سے ناک سکیڑا کر کہا
کیوں بتاؤں آپ کو؟

امن نے اب ایک قدم آگے بڑھایا، آواز نیچی لیکن لہجہ سخت،بتا رہی ہو یا نہیں؟

بتا رہی ہوں، بتا رہی ہوں۔۔۔۔
حیات نے جیسے غصے اور بے بسی کے بیچ ہار مان لی ہو۔

امن نے میز سے جھک کر اُس کی طرف دیکھا،
جلدی…

وہ…

ہم ہم… میں سن رہا ہوں۔

حیات نے زیرِلب کچھ بڑبڑایا۔
کیوں سن رہے ہیں؟ میں نے تو کہا ہے کہ سائڈ پہ ہٹیں۔۔۔

لیکن، جیسے ہمیشہ، امن نے وہ بھی سن لیا۔

کچھ کہا کیا؟

نہیں نہیں…

تو پھر بتاؤ…

حیات نے ناک سکیڑا، پلکیں جھپکائیں، جیسے ہار مانتے ہوئے کہنا پڑے گا
آپ تو پکنک پہ لے کے جا نہیں رہے…

امن نے پلکیں جھپکائیں،
یہ بیچ میں پکنک کہاں سے آ گئی؟

بیچ میں ہے تو آئے گی ہی۔۔۔

آ گئی؟ تو اب آگے بولو۔

حیات نے جلدی جلدی کہا، جیسے بات جلدی نکل جائے تو معاملہ ٹل جائے گا
تو آپ تو پکنک پہ لے کے جا نہیں رہے، تو میرے یونی والے مہربان ہمیں ایک ہفتے کے لیے کوٹا کِنا بالو ( یہ ملیشیا کی ریاست صباح (Sabah) کا دارالحکومت ہے، جو بورنیو جزیرے پر واقع ہے۔)  لے کے جا رہے ہیں ٹرپ پہ… تو آپ تو نہیں لے کے جا رہے نا، تو میں اب یونی والوں کے ساتھ ہی جاؤں گی نا۔۔۔

وااااااٹ؟

اب اوور ایکٹنگ نہ کریں۔۔
حیات نے فوراً ہاتھ اٹھا کر کہا، جیسے وہ ری ایکشن پہلے ہی پڑھ چکی ہو۔

لیکن امن نے چہرے پہ سختی لا کر کہا،
تم کہیں نہیں جا رہی ہو۔

ارے… جاؤں گی میں!
My life… My rules!
اس نے چیخ کر کہا، جیسے اپنے فیصلے پر کوئی مہر لگا رہی ہو۔

امن نے آہستہ سے آنکھیں سکیڑیں، آواز دھیمی مگر تیز دھار والی تھی ہممم؟؟؟

یہ سوال نہیں تھا… یہ انتباہ تھا۔

حیات کی آواز تھوڑی سی کانپ گئی تھوڑا سا بچاؤ چاہا…
میرا مطلب… میرے باس کے رولز… باس کے رولز۔۔۔

اور امن نے اپنا رخ جلدی موڑ لیا اور واپس اپنی کرسی پر جا بیٹھا، تاکہ حیات اُس کے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ نہ دیکھ سکے۔

لیکن… میں جاؤں گی! مجھے نہیں پتا…
حیات اب بھی ڈٹی ہوئی تھی۔

نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے۔

پلیز نا… معصوم شکل بنا کر کہا

نہیں۔

تو ٹھیک ہے… میں جا کے اپنے بابا کو بولوں گی۔ وہ بات کریں گے نا آپ سے، تب تو آپ کو ماننا ہی پڑے گا۔۔۔

امن نے بغیر پلک جھپکائے کہا
میں پھر بھی نہیں مانوں گا۔۔۔

حیات نے ایک لمحہ اسے ایسے گھورا پھر دھیمی مگر بھری آواز میں بولی
آپ کو پتا ہے… دنیا میں آپ سے زیادہ بےحس انسان کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔

امن نے مسکرا کر، پورے سکون سے جواب دیا
اچھا جی؟ تھینک یو۔۔۔۔

آپ ایک نمبر کے… دِش ہیں۔۔۔۔

تھینک یو۔۔۔۔
وہ طنزیہ سا جھک کر بولا، جیسے اعزاز قبول کر رہا ہو۔

آآآآہ! میں آپ کا سر پھوڑ دوں گی۔۔۔
وہ غصے سے تنگ اکر بولی۔۔۔

پھر جیل بھی چلی جانا۔ امن نے آرام سے کہا

مر جائے۔۔۔۔ امن کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا

اوکے۔۔۔

اللہ پوچھے گا آپ سے تو!!
یہ آخری جملہ کچھ زیادہ ہی درد سے نکلا تھا۔
اور پھر… وہ اپنا پاؤں زور سے زمین پر مارتی، بھاپ کی طرح اٹھتی، اُس کے کیبن سے باہر نکل گئی۔

امن نے اپنی فائل بند کی۔ پین کو میز پر رکھا اور گھڑی کی طرف دیکھا۔
اب یہ کون سی نئی مصیبت ہے… عجیب۔۔۔
وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔ اس کے ماتھے پر ہلکی سی شکن آئی، جیسے کوئی انجانی بےچینی دل کی دیواروں پر دستک دے رہی ہو۔

ویسے… ایک ہفتہ بہت کم ہے، مادام جی کے لیے۔ پورا ایک مہینہ جانا تھا نا؟
زبان طنزیہ تھی، مگر لہجہ تھکا ہوا…

میرا کیا ہے؟ میری تو کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں… بس سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔۔۔۔

ایک لمحے کو اُس نے اپنی کرسی گھمائی، کھڑکی کے پار آسمان کو دیکھا، جیسے وہاں کوئی جواب لکھا ہو۔

لیکن ایسے کیسے… میں اُسے اکیلے جانے دے سکتا ہوں؟

اچانک، چہرے کی سختی نرم پڑی، جیسے دل نے تھپکی دے کر کچھ یاد دلایا ہو۔

ویسے ہی یہ اتنی پاگل ہے… وہاں جا کے اور دوستوں کے ساتھ پاگل بن جائے گی، اور وہاں اُسے سنبھالے گا کون؟ اُس کے پیرنٹس بھی نہیں جا رہے… اور اُس کی دوستیں؟

اُس نے امایا کے بارے میں سوچا، جو حیات کی ہی طرح آدھی پاگل تھی۔۔۔

اُس کی دوستیں تو خود اس قابل نہیں کہ اُس کا خیال رکھ سکیں۔

پھر اُس نے سر جھکا لیا، جیسے اندر کوئی فیصلہ پکتا جا رہا ہو۔

مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا…
خاموشی کے اندر ایک ارادہ بول پڑا۔
اب وہ سوچنے لگا — کیسے روکے؟

++++++++++

کیبن کا دروازہ آہستہ سے کھلا۔
یہ لیں…
وہ دھیرے سے بولی، اور اس کے لہجے میں ایک اجنبی سی شناسائی تھی۔

آمن نے نگاہیں اٹھائے بغیر کہا،
ہاں، رکھ دو۔

اس نے خاموشی سے کافی ٹیبل پر رکھی۔ کچھ پل خاموشی میں گزر گئے۔

پھر وہ رکی نہیں… رک گئی۔
نگاہیں، جو لفظوں سے زیادہ بولتی ہیں، آمن کے چہرے پر ٹک گئیں۔

کیا ہوا اب؟
امن نے بغور اسے دیکھا،

آپ بتائیے… کیا سوچا؟
اس کی آواز نرم تھی،

کس بارے میں؟
امن کا انداز بے نیاز تھا، جیسے وہ جان کر بھی انجان بنا ہو۔

حیات کے پکنک کے بارے میں…

امن نے ایک لمحے کو نگاہ جھکائی، پھر دوبارہ بلند کی۔
میں نے اُس وقت بھی ‘نہ’ کہا تھا، اب بھی ‘نہ’ ہی کہہ رہا ہوں۔

کیوں؟ آپ کو کسی نے ‘ہاں’ بولنا سکھایا ہی نہیں کیا…؟

++++++++++++++

یوسف نے جھنجھلا کر کہا
اوئے بھائی! کریڈٹ کارڈ میں پیسے نہیں آرہے، کیا کریں اب؟ کب سے ان کو میسج اور کال کر رہا ہوں لیکن مجال ہے جو کال اٹھا لیں…

دانیال نے دھیمے انداز میں کہا
تو اب…؟

یوسف نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی —
تو تُو بھی وہی سوچ رہا ہے جو میں سوچ رہا ہوں؟

دانیال نے مسکرا کر جواب دیا
آہاں… تو چلو…

یوسف نے فوراً کہا
چل۔۔۔۔

++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *