انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۱۷
حیات، جاؤ جا کے سب سے فارم لے لو، جن جن کو سائن کروا کے لانے کا کہا تھا۔
اچھا۔ اور صوفے سے اٹھ گئی۔۔
ہمم… اور تم اپنا فارم بھی دے دو۔
حیات نے نرمی سے کہا
حیات کے پاپا نے فارم پر سائن تو کر دیے ہیں، لیکن… حیات نہیں جا سکتی آپ لوگوں کے ساتھ۔
اَمن نے حیران ہو کر کہا
کیوں؟
حیات نے آہستہ سانس لیتے ہوئے کہا
بس… ایسی ہی پانی والی جگہ ہے نا، اسی لیے وہ منع کر دیے۔ آپ لوگ جائیے، انجوائے کیجیے۔ حیات تو اپنی یونی کی طرف سے ہی چلی جائے گی…
اَمن نے سنجیدہ انداز میں کہا
نہیں، میں بات کر لیتا ہوں تمہارے پاپا سے۔
حیات نے فوراً بولا
نہیں! کوئی فائدہ نہیں ہے، وہ نہیں مانیں گے۔ آپ فضول میں کال کر کے اپنا بیلنس ضائع کریں گے۔
اَمن نے نرمی سے مگر اٹل لہجے میں کہا
وہ میرا مسئلہ ہے مس حیات، آپ کا نہیں۔
حیات نے غصے سے کہا
عجیب! ایسے کیسے؟ یہ میرا ہی تو مسئلہ ہے۔۔۔
اَمن نے سخت لہجے میں کہا
میں نے آپ سے کچھ کام کہا ہے، شاید یاد ہو۔
حیات نے خفکی سے کہا
ہاں ہاں، جا رہی ہوں! عجیب! اپنی غلام سمجھتے ہیں یہ حیات کو، جو کہیں گے وہی ہو گا! ہونہہ! آئے بڑے… واہیات انسان۔۔۔
وہ بڑبڑاتی ہوئی تیز قدموں سے کیبن سے باہر نکل گئی۔
اَمن نے اپنا فون اٹھایا اور حیات کے والد کو کال ملایا
السلام علیکم ندیم انکل! کیسے ہیں آپ؟
میں ٹھیک بیٹا، تم سناؤ؟
میں بھی ٹھیک، الحمدللہ۔
اچھا، اور گھر میں سب خیریت ہے نا؟
جی جی، سب خیریت ہے۔
اچھا، ابھی آفس کے وقت میں کال کی ہے، خیریت؟ حیات نے کچھ کر دیا کیا؟
اَمن نے مسکرا کر کہا۔
نہیں نہیں انکل، وہ تو یہاں سیٹ ہے اور دل لگا کے کام کرتی ہے۔
اچھا؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ پھر کال کا مقصد؟
انکل، کل ہم آفس والوں کے ساتھ سی سائیڈ پکنک پر جا رہے ہیں۔ تو سب کے گھر والوں سے اجازت لی جا رہی ہے۔ سوچا آپ سے بھی پوچھ لوں کہ حیات کو ساتھ لے جاؤں نا، کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟
مسٹر ندیم نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں بیٹا، مجھے کیا مسئلہ ہو گا؟ حیات اگر جانا چاہتی ہے تو لے جاؤ۔ بس ذرا اُس کا خیال رکھنا، تھوڑی چلبلی ہے نا، اسی لیے..
اَمن نے احترام سے کہا
اچھا انکل، ٹھیک ہے۔ شکریہ۔۔۔
ارے نہیں بیٹا، اس میں شکریے کی کیا بات ہے۔
چلیے پھر، میں بعد میں آپ سے بات کرتا ہوں۔
ٹھیک ہے بیٹا، اللہ حافظ، اپنا خیال رکھنا۔
جی، اللہ حافظ۔۔۔
+++++++++++++
دروازہ دھڑاک سے کُھلا اور حیات، ہاتھ میں فارم لیے اندر داخل ہوئی
حیات نے بے پروا انداز میں کہا
لاؤ فارم، سائن کروایا ہوا ہے۔
زاویار نے غصے سے نظریں اٹھاتے ہوئے
او ہیلو! تمہیں کسی نے دروازہ نوک کرنا نہیں سکھایا؟
حیات نے کندھے اچکا کر کہا
بدقسمتی سے نہیں۔
زاویار نے طنزیہ کہا
تو سیکھ کے آؤ۔۔۔
حیات نے بے زاری سے کہا
او ہیلو، ٹائم ویسٹ نہ کرو، جلدی فارم نکالو۔۔۔
زاویار نے اکڑتے ہوئے کہا
مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، سمجھی؟
حیات نے آنکھیں گھما کر کہا
یہ میں نے نہیں پوچھا کہ ضرورت ہے یا نہیں، میں کہہ رہی ہوں فارم دو… بس۔۔۔
زاویار نے ناگواری سے کہا
تم کھانے میں گھاس وغیرہ کھاتی ہو کیا؟
حیات نے فوراً پلٹ کر کہا
نہیں، تمہاری طرح گائیں بکریاں نہیں ہوں میں۔۔
زاویار نے چونک کر کہا
او ہیلو…۔۔
حیات نے سخت لہجے میں کہا
واٹ؟ فارم دو! ٹائم ویسٹ نہ کرو میرا۔۔۔
زاویار نے چبھتے لہجے میں کہا
فی الحال تو تم میرا وقت ضائع کر رہی ہو۔۔
حیات جھنجھلا کر بولی
مرضی تمہاری! نہیں جانا پکنک پر تو سیدھا بولو، ڈرامہ کیوں کر رہے ہو؟
سارا ارینجمنٹ میں نے کروایا ہے… اور میں ہی نہ جاؤں گا؟ واہ۔۔۔
ہاں… ہو سکتا ہے۔
حیات نے ہاتھ باندھے آرام سے کہا
زاویار نے زچ ہو کر کہا
ارے جاؤ نا! کوئی اور کوئی نہیں ملا تمہیں جو یہاں آکے میرا دماغ کھا رہی ہو؟ بھائی کہاں ہے؟ ان کے پاس جاؤ، وہی ہینڈل کر سکتے ہیں تمہیں۔۔۔کیونکہ میرے اندر تو اتنے گٹس نہیں ہیں۔۔۔
حیات نے دانت پیستے ہوئے کہا
جسٹ شٹ اپ۔۔۔
سیم ٹو یو! اور وہ رہا جانے کا دروازہ۔۔۔
حیات نے زور سے قدم پٹختے ہوئے کہا
ہاں، جا ہی رہی ہوں! مجھے کوئی شوق نہیں ہے یہاں رہنے کا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ غصے سے دروازہ بند کرتی باہر نکل گئی
+++++++++++
یہ لیں… وہ سب کا فارم امن کے میز پر لا کر رکھی۔۔
امن نے بغیر سر اٹھائے قلم گھمایا۔ ہمم… اب چیک کرو، ان سب میں سائن ہیں کہ نہیں۔
حیات نے چونک کر دیکھا۔
ہیلو مسٹر، آپ کو نہیں لگتا کہ یہ آپ کا کام ہے؟
امن نے پرسکون انداز میں جواب دیا، نہیں…
ہہ؟
اس نے مسکرا کر نظر اٹھائی،
نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ یہ میرا کام ہے… اسی لیے تو میں نے تمہیں دیا ہے۔
حیات نے تنگ آ کر سانس بھری۔
بس! اوور ایکٹنگ کروالو ان سے کوئی۔۔
وہ منہ بسورتی ہوئی سارے فارم سمیٹ کر صوفے پر جا بیٹھی، اور ایک ایک کر کے چیک کرنے لگی۔
کچھ منٹوں بعد،
امن نے کہا
جاؤ، میرے لیے کافی لے آؤ۔
حیات نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا،
آپ کو دکھ نہیں رہا کہ میں کام کر رہی ہوں؟ جا کے خود لے لیں۔
امن کی نظریں اس کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔
تمہیں کبھی سمجھ بھی آتا ہے کہ تم کیا بولتی رہتی ہو؟
وہ فوراً تڑخ کر بولی،
جی، بالکل آتا ہے… آپ کی طرح بے مطلب کی باتیں نہیں کرتی میں۔
امن کی آنکھوں میں حیرت اور ہلکی سی مسکراہٹ ایک ساتھ ابھری۔
اچھا؟ میں بے مطلب باتیں کرتا ہوں؟
حیات نے فارم بند کیے،
جی، بالکل۔۔
پھر اٹھ کر تیز قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی۔
امن نے سر جھٹکا اور زیرِ لب بولا—
عجیب… پاگل لڑکی ہے۔
++++++++++
آفیس کی چھٹی کا وقت ہو چکا تھا۔
پورا اسٹاف ہلچل میں مصروف تھا، فائلیں بند ہو رہی تھیں، سارے اسٹاف اپنا سامان پیک کر کے نکل رہے تھے۔۔۔
اور جب سے وہ واقعہ ہوا تھا، جب حیات لفٹ میں بند ہوئی تھی، تب سے اب وہ امن کے ساتھ ہی نکلتی تھی۔۔۔ امن اُس کو اپنے ساتھ خود لے کر نکلتا تھا۔۔۔
ورنہ وہ پہلے ورکرز کے ساتھ ہی نکل جاتی تھی۔۔۔
حیات نے گھڑی دیکھی اور بے زاری سے کہا،
جلدی کریں نا! کتنا ٹائم لگاتے ہیں آپ… اوپر سے مجھے بھی روک رکھا ہے، عجیب۔۔
امن نے بغیر اس کی طرف دیکھے کہا،
چپ سے کھڑی رہو۔
حیات نے منہ بنایا۔
عجیب۔۔۔
اتنے میں زاویار امن کے کیبن میں آکر بولا۔۔
بھائی، چلیں؟ سب کام ہو گیا۔
اُس کے ساتھ ہی بھی تھی۔۔ نتاشا نے مسکرا کر کہا،
جی باس، چلیں؟
امن نے مختصر سا ہم، چلو کہا اور باہر بڑھ گیا۔
حیات نے تیز قدموں سے کہا،
جلدی جلدی چلیں نا…
زاویار نے ناگواری سے کہا
تمہیں تو بہت جلدی ہے گھر جانے کی۔ اوہ ہاں! گھر جا کے یہ بیس کلو کا میک اپ بھی تو اُتارنا ہوگا، ہے نا؟
حیات کی آنکھوں میں چمک سی لپکی۔
جسٹ شٹ اپ۔۔۔حیات فضول لوگوں کے فضول سوالات کا جواب نہیں دیتی۔۔
زاویار نے امن کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
تو بھائی نے تم سے کچھ پوچھا کب ہے؟
امن نے گھوم کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہلکا سا دبایا اور بولا،
یہ ہر بات میں میں کہاں سے آ جاتا ہوں؟
زاویار نے امن کا ہاتھ اپنے کندھے سے نیچے کرتے ہوئے کہا
بھائی کیونکہ آپ باس ہیں… بھائی ہیں… اسی لیے۔۔۔
امن نے سرد لہجے میں کہا،
چپ کر کے چلو۔۔ اور آگے بڑھ گیا۔۔۔
حیات بھی تیزی سے امن کی طرف قدم بڑھایا اور فوراً بولی،
یہ کہاں سے چپ ہوگا؟ اس کا تو میوٹ ریموٹ کہیں کھو گیا ہے، تب سے یہ بیچارہ بس بولے ہی جا رہا ہے۔
زاویار نے بھی تیز قدم بڑھایا اور امن کے بائیں جانب آیا بولا۔۔۔
میں انسان ہوں، کوئی روبوٹ نہیں، جو میرا ریموٹ ہوگا! خود ہی سینس لیس باتیں کر رہی ہو۔۔۔
حیات نے فخر سے کہا،
جی نہیں، حیات کبھی سینس لیس بات نہیں کرتی۔ کیوں باس؟ بتائیں اسے۔۔۔ وہ امن کے دائیں جانب چلتی امن کو دیکھتے بولی۔۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
ہاں ہاں، حیات کہاں کرتی ہے سینس لیس بات… میں کرتا ہوں نا! وہ تو بہت سینس والی باتیں کرتی ہے۔
پھر حیات کی طرف چہرا موڑ کہا
ٹھیک ہے؟ یا اور جھوٹ بولوں؟
کیا مطلب ہے آپ کا؟ اس نے گھورتے ہوئے کہا۔
زاویار نے دونوں کو دیکھا، آہستہ سے سر ہلایا۔
تم دونوں بس ایک دوسرے سے مطلب ہی پوچھتے رہنا، میں جا رہا ہوں گاڑی لینے۔ اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔
وہ سب بات کرتے کرتے پارکنگ تک پہنچ چکے تھے۔
نتاشا نے مسکرا کر کہا،
اچھا، میں چلتی ہوں اب۔ اللہ حافظ۔۔۔
اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی۔
امن نے رخ موڑ کر کہا،
میرا مطلب کچھ نہیں تھا۔ بس… کل ٹائم پہ آ جانا۔
حیات نے فوراً جواب دیا،
حیات نے کہا نا کہ حیات کے پاپا نے اجازت نہیں دی آنے کی، تو حیات کیسے آئے گی؟
امن پرسکون لہجے میں بولا،
میں نے حیات کے پاپا سے اجازت لے لی ہے… اور وہ مان گئے ہیں۔
حیات نے چونک کر دیکھا۔
کیوں؟ میں نے کہا تھا اجازت لینے؟
امن نے سنجیدگی سے کہا،
نہیں، آپ میری ایمپلائی ہیں۔ اتنا تو فرض بنتا ہے میرا۔
حیات نے ہونٹ بھینچے۔
بھئی، میں کہہ رہی ہوں نہ… نہیں آؤں گی۔
یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھی، دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئی۔
امن نے نظریں زمین پر جمائے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
آنا تو تمہیں پڑے گا…
زاویار گاڑی لے آیا۔
بھائی، چلیں؟
امن نے آہستہ سے سر ہلایا،
ہم، چلو…
امن کار میں بیٹھ گیا اور کار اپنے منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔۔۔
++++++++++
رات کے دو بج چکے تھے۔
کمرے میں ہلکی سی تاریکی تھی، صرف بیڈ کے قریب رکھا لیمپ مدھم سی سنہری روشنی پھیلا رہا تھا۔
امن بستر پر لیٹا مسلسل کروٹیں بدل رہا تھا۔
نیند جیسے اُس سے روٹھ گئی تھی۔
دل کے کسی کونے میں ایک انجانا سا خوف بیٹھ گیا تھا —
اگر کل واقعی حیات نہ آئی تو؟
وہ خود سے سوال کرتا،
پھر خود ہی جواب دیتا،
نہیں، ایسا نہیں ہوگا… وہ ضرور آئے گی۔
اس نے کروٹ بدلی۔ تکیے پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ بولا،
وہ پاگل ہے… ٹرپ پر نہ آئے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
لیکن اگلے ہی لمحے دل نے دھیرے سے سرگوشی کی —
لیکن کیا میں نے سی سائیڈ کا پلان بنا کر صحیح کیا۔۔۔ اُسے تو پارک جانا تھا۔۔۔
وہ انہی الجھنوں میں گھرا ہوا تھا کہ اچانک—
کمرے کے باہر سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔
امن ایک دم چونک گیا۔
یہ… یہ آواز کس کی تھی؟
وہ بیڈ سے اٹھا، ننگے قدموں قالین پر چلتا دروازے تک آیا۔ ہینڈل آہستہ سے موڑا،
اور دروازہ کھول دیا۔
باہر ہال میں مکمل خاموشی تھی۔
ہر طرف سناٹا تھا۔۔۔
امن کے چہرے پر ہلکی حیرت ابھری۔
رات کے دو بجے آخر کون…
وہ بڑبڑایا،
پھر رک کر چند لمحے خالی راہداری کو گھورتا رہا —
ایک لمحے کے لیے اسے لگا،
جیسے کوئی سایہ دیوار کے موڑ سے گزرا ہو…
لیکن جب اس نے پلک جھپکی،
وہ منظر غائب ہو چکا تھا۔
امن نے گہری سانس لی،
یہاں تو کوئی بھی نہیں… وہ دل ہی دل میں بولا، قدم ذرا آہستہ کرتے ہوئے۔
نہ کوئی سایہ، نہ کوئی آہٹ۔ اور نہ ہی آس پاس کوئی سامان گرا ہوا۔
وہ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ زینے کے قریب — دانیال کے کمرے کے دروازے کے پاس — ایک دھندلا سا وجود دکھائی دیا۔
یوسف۔
اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا۔
امن کے ماتھے کی رگ ذرا سی پھڑکی۔
کیا کر رہے ہو اتنی رات میں؟
وہ اس کے پاس اکر بولا
یوسف چونک کر مڑا، جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔
بھائی… تم اٹھے ہوئے ہو…
امن نے سنجیدگی سے کہا، نہیں، یہ میرا بھوٹ ہے۔
یوسف نے جھنجھلا کر کہا، ارے بھائی، یہ مذاق کرنے کا وقت ہے کیا؟
exactly
کیوں کہ اگر میں تمہیں یہاں کھڑا دیکھ رہا ہوں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ میں جاگ رہا ہوں،
یوسف نظریں چراتے ہوئے بولا، اچھا تو جاؤ، سو جاؤ نا…
وہ آگے بڑھنے لگا، مگر امن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روک لیا۔
اتنی رات میں دانیال کے کمرے کے باہر کیا کر رہے تھے؟ اور یہ… تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟
یوسف کی آواز ذرا لڑکھڑائی،
آ… آریے بھائی، کچھ نہیں۔ بس کمرے میں گھٹن ہو رہی تھی، تو ذرا باہر ہوا کھانے آ گیا تھا…
امن کی نظریں اس کے چہرے سے لے کر اس کے ہاتھ میں موجود باکس پر جا ٹھہریں۔
اچھا؟ اور یہ ہاتھ میں کیا ہے پھر؟
یوسف نے گڑبڑاہٹ میں کہا،
یہ… یہ بھائی، یہ تو کچرا ہے۔ باہر پھینکنے جا رہا تھا۔ جب بیڈ سے اٹھ ہی گیا تو سوچا ساتھ ہی یہ بھی پھینک دوں…
اس کی زبان ہچکچا رہی تھی۔
امن کی آنکھیں نیم تنگ ہوئیں۔ وہ اپنے بھائیوں کو بخوبی جانتا تھا — اور ابھی اس کی ادائیں صاف بتا رہی تھیں کہ کچھ تو غلط ہے۔
اور…؟ امن کے لہجے میں شک صاف تھا۔
اور کیا بھائی… کچھ نہیں، اب میں جا رہا ہوں۔
اور یہ کچرا…؟
امن نے آہستگی سے کہا، مگر اس کے چہرے کی سنجیدگی اب دھیرے دھیرے شک میں بدل چکی تھی۔
اگر واقعی یہ کچرا ہوتا — تو یوسف سو سوال کرتا کہ امن جاگا کیوں ہے، کہاں جا رہا ہے، کیا کر رہا ہے۔
لیکن اُس نے ایسا ویسا کوئی سوال نہیں کیا تھا، اس کا مطلب ہے یوسف کُچھ چُھپا رہا ہے۔۔۔
اب یقین پختہ ہو چکا تھا — یہ ڈبہ محض کچرا نہیں ہے۔
ہاں… ہاں یہ… یوسف نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا،
یہ میں بعد میں پھینک دوں گا، چھوڑیں نا بھائی…
اس نے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے کو ذرا سا پیچھے کیا، جیسے اسے نظروں سے چھپانا چاہتا ہو۔
نہیں، میں تو اٹھا ہوا ہی ہوں۔ ایک کام کرو، مجھے دے دو، میں پھینک دیتا ہوں۔۔
امن نے کہا اور اگلے ہی لمحے ہاتھ بڑھا کر ڈبہ جھٹکے سے چھین لیا۔
آ… آرے بھائی— یوسف نے روکنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔
آخر وہ امن کا بھائی تھا… اور امن کے سامنے یوسف کی ہمت ہمیشہ آدھی رہتی تھی۔
امن کے ہاتھ میں اب وہ ڈبہ تھا —
اب سچ سچ بتاؤ، اس میں کیا ہے… امن نے سنجیدگی سے کہا
یار بھائی… اُس نے آہستہ سے کہا،
یار وار نہیں، بتاؤ.۔۔ اَمن نے بات کاٹ دی، آنکھوں میں خفگی اور تجسس ایک ساتھ تھا۔
یوسف نے گہری سانس لی، اور جیسے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا،
جوتے ہیں…
اَمن کے چہرے پر ایک پل کے لیے حیرت اُتری،
ہاں تو اس میں چھپانے والی کونسی بات ہے۔۔ اُس نے عام لہجے میں کہا،
اُس نے نظریں جھکاتے ہوئے آہستہ، کپکپاتی آواز میں کہا—
بھائی… دانیال کے جوتے ہیں…
تم باز نہیں آؤ گے نا…
امن نے غصے سے کہا
یوسف نے فوراً صفائی دینے کی کوشش کی،
یار بھائی! کل پکنک میں جانا ہے نا، اسی لیے لیا ہوں… پہن کے جاؤں گا، پھر واپس رکھ دوں گا…
اَمن نے تیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھا،
تو اپنا پہنو۔۔
یوسف نے بےبسی سے کہا
یار بھائی، تمہیں تو پتا ہے نا میرے پاس اتنا اچھا جوتا نہیں ہے…
تو تم تمیز سے پہنتے بھی تو نہیں ہو۔ پچھلی دفعہ بھی اُس کا جوتا پتہ نہیں کسے دے کر آگئے تھے۔ اور تمہیں پتا ہے، اگر دانیال کا ایک جوتا بھی اِدھر اُدھر ہوا، تو اُس کو فوراً پتہ چل جاتا ہے۔ ابھی صبح اُٹھ کے پھر بوال کرے گا وہ۔۔۔
یوسف نے لاپروائی سے ہاتھ ہلایا،
ارے بھائی نہیں پتہ چلے گا نا…
اَمن نے تیکھی نظروں سے دیکھا،
اچھا؟ اور اگر پتہ چل گیا تو؟
یوسف نے مسکراتے ہوئے کہا،
نہیں پتہ چلے گا بھائی، ٹینشن نہ لو تم۔ اور اگر پتہ چل گیا تو تم میرا کریڈٹ کارڈ لے لینا۔۔۔
اَمن نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے بولا،
سوچ لو…
یوسف فوراً بولا،
ہاں نا بھائی، اب جوتا دو، ہو گئی نا انویسٹیگیشن، اب جانے دو مجھ غریب کو…
اَمن نے گہری نظر اُس پر ڈالی، پھر تھوڑا نرم لہجے میں کہا،
ہمم… جاؤ، اور اپنی بات یاد رکھنا۔
شکریہ۔۔۔
وہ دھیرے سے بولا
پھر اُس نے سکون کی ایک لمبی سانس لی، کندھے ڈھیلے کیے، اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
دروازہ بند کرتے ہی اُس نے جوتے احتیاط سے بستر کے نیچے سرکا دیے،
+++++++++++++
اگلی صبح —
سارا بیگم لونچ کے صوفے پر بیٹھی تسبیح گھما رہی تھیں کہ اتنے میں دروازے سے ایک خوش آواز آئی۔
السلام علیکم دادی۔۔۔بھائی کہاں ہیں۔۔۔؟؟
زاویار اندر آتے ہی مسکراتے ہوئے بولا۔
سارا بیگم نے سر اٹھایا،
ارے، یہ سورج آج مشرق سے نہیں بلکہ مغرب سے نکلا ہے کیا؟ صبح صبح آ گئے تم؟
بس دادی، پکنک کی پلاننگ کرنی تھی نا، تو سوچا بھائی سے بات کر لوں۔
ائے، ابھی تو امن اٹھا بھی نہیں ہوگا۔۔۔
تجھے تو پتا ہے نا، وہ پورے نو بجے سے پہلے آنکھ ہی نہیں کھولتا۔۔
زاویار نے فوراً ماتھے پر ہاتھ مارا،
ہاں دادی، میں تو بھول ہی گیا! ابھی تو آٹھ ہی بجے ہیں۔
سارا بیگم نے ذرا طنزیہ انداز میں کہا،
ہاں تو بیٹھ جا میرے پاس، کبھی اپنی دادی سے بھی بات چیت کر لیا کر…
جب دیکھو، اَمن اَمن کرتا رہتا ہے۔۔۔
زاویار نے سنجیدگی سے کہا
اَرے نہیں دادی، مصروف رہتا ہوں بس…
سارہ بیگم نے گہری سانس لے کر کہا،
ہاں، بہت مصروف… لیکن انسان کو اتنا بھی مصروف نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے گھر والوں کو ہی وقت نہ دے سکے۔
زاویار اُن کا سگا پوتا تو نہیں تھا، لیکن ان کے لیے سگوں سے بڑھ کر تھا۔
جہاں اَمن، اذلان اور دانیال کے لیے وہ ایک جیسی محبت رکھتی تھیں،
وہیں زاویار کو بھی وہ اپنے ہی پوتوں کی طرح چاہتی تھیں۔
حالانکہ دونوں سوتنوں میں ذرا بھی میل نہیں تھا، مگر دادی کے دل میں زویار کے لیے وہی جگہ تھی جو اپنے سگوں کے لیے تھی۔
اور زاویار بھی اُن کی ویسے ہی عزت کرتا تھا جیسے وہ اپنی سگی دادی کی کرتا تھا۔۔۔
اَرے دادی، بس کام ہی اتنا ہوتا ہے، وقت نہیں ملتا۔
سارہ بیگم نے انگلی اٹھاتے ہوئے کہا،
اَرے ہر اتوار آ جایا کر یہاں… چپ چاپ سے،
ورنہ تیرے گھر آ کے تجھے خود ماریں گے ہم۔۔
زاویار نے مسکراتے ہوئے شرارت سے کہا،
ہنہ۔۔ دادی، ایک ہی دن تو ملتا ہے مجھے آرام کا، اتوار کا…اب اُس دن بھی یہاں آ جاؤں؟
سارہ بیگم نے فوراً بھنویں چڑھائیں،
اَرے تو کیا ہم یہاں تجھ سے سارا گھر صاف کرواتے ہیں؟ جو اتنا ڈرامہ کر رہا ہے۔۔۔
اُنہیں زاویار کی یہ بات ذرا ناگوار گزری۔
زاویار نے فوراً ہنستے ہوئے کہا،
اَرے دادی، مذاق کر رہا ہوں میں۔۔۔
سارہ بیگم نے ناک سکیڑ کر کہا،
تیرا میرا مذاق کا رشتہ ہے کیا؟
زاویار فوراً بولا،
ہاں تو؟
سارہ بیگم نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا،
اَے ابھی دو تھپڑ لگائیں گے، ہم تیری دادی ہیں۔۔۔
زاویار نے ہنسی دباتے ہوئے کہا،
تو میں نے کب کہا آپ دادا ہیں؟
سارہ بیگم نے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے کہا،
ائے تُو پٹے گا اب۔۔
زاویار فوراً بول اٹھا،
ارے دادی…
سارہ بیگم نے بات کاٹی،
اَرے وے، ناشتہ کر کے آیا ہے؟
زاویار نے مسکراتے ہوئے کہا،
نہیں، آپ کے ہاتھ کا ناشتہ کروں گا، اسی لیے تو جلدی آ گیا ہوں۔۔۔
سارہ بیگم کے چہرے پر نرمی آ گئی۔
اَرے چل پھر، تُو بیٹھ، ہم تیرا ناشتہ لے کے آتے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ آہستہ آہستہ کچن کی طرف بڑھ گئیں۔
++++++++++++
کچھ دیر بعد۔۔۔
سارا بیگم کی آواز ڈائننگ روم سے گونجی —
اَرے آ جا، ناشتہ لگ گیا ہے۔۔
زاویار، جو ابھی صوفے پر بیٹھا موبائل میں مصروف تھا، بولا —
آ رہا ہوں دادی…
سارا بیگم غصے سے دروازے پر آ کھڑی ہوئیں، ہاتھ میں چپل لیے۔
اَرے تجھے آواز نہیں جا رہی کیا؟
زاویار نے سر اٹھایا، ہڑبڑا کر بولا —
اَرے دادی، بولا تو ہے کہ آ رہا ہوں…
اے ہم تیرے کو بولنے بولے تھے۔۔۔؟؟
سارا بیگم نے بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا۔
زاویار نے الجھ کر کہا، تو کیا بولتا…؟
ہم بولے ناشتہ لگ گیا ہے، آ جا! بہرا ہے کیا؟
اَرے دادی…
چل اب اُٹھ… اور یہ موبائل کو آگ لگا دے۔۔۔
زاویار فون جیب میں ڈالتا اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
اچھا، اور کچھ ملکہِ عالیہ؟
سارا بیگم نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا، نہیں، چل اب۔۔۔
یہ دونوں ابھی ناشتہ کی میز پر پہنچے ہی تھے کہ اُسی وقت اَمن بھی سیڑھیاں اترتے ہوئے آتا نظر آیا۔
اَے اُٹھ گیا تُو؟ سارا بیگم نے امن کو دیکھتے کہا
امن نے احترام سے کہا،
جی دادی… تُم کب آئے امن زاویار سے مخاطب ہوا۔
زاویار نے فوراً طنز کیا،
ہاں، میں آٹھ بجے سے بیٹھا ہوں یہاں، لیکن مجال ہے جو کوئی اُٹھا ہو! کسی کو وقت کی ذرّہ برابر بھی قدر نہیں ہے…
امن نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا،
اچھا؟ اور…؟
زاویار نے منہ پھیر کر کہا،
کچھ نہیں، اب میں جا رہا ہوں ناشتہ کر کے۔ تم لوگ سوتے رہو۔۔
وہ بولتا ڈائننگ ٹیبل کی کُرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔
امن بھی ساتھ ہی کُرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔
سب تیاری ہو گئی پکنک کی؟ امن نے پوچھا۔
سارا بیگم فوراً بولیں،
اَے ابھی تم دونوں کو ہم گھر سے نکال دیں گئے اگر یہاں آفس کی بات کی تو۔۔۔
دادی کا اپنا ‘delulu’ چل رہا ہے۔۔۔ زاویار مسکراتے ہوئے کہا
اَے ہم کو نہیں آتا ہے یہ ‘delulu’ چلانے۔۔۔۔
سارا بیگم نے ناگواری سے کہا
امن نے اپنی مسکراہٹ دبائی،
دادی، اُس کا مطلب وہ نہیں ہے…
اَرے چھوڑ، ناشتہ کر! جو بھی مطلب ہو اُس کا۔۔۔ سارا بیگم نے بات ختم کی۔
یہ سب ناشتہ کر ہی رہے تھے کہ اُسی وقت ازلان اور ابرار بھی وہاں آ گئے۔۔۔۔
ازلان نے کُرسی پر بیٹھتے ہی بولا ۔۔
اوہو! بھائی دیکھو، بڑے بڑے لوگ آئے ہیں ہمارے گھر۔۔۔۔
ابرار نے مسکراہٹ دبائی،
ہاں بات تو سچ ہے، پتا نہیں رات کو کونسا نیک کام کر کے سوئے تھے جو اِن کا دیدار نصیب ہوا ہے۔۔
ازلان نے ابرار کو ٹوکا
نیک نہیں، منحوس کام بولو۔۔۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
اب زیادہ ہو رہا ہے، ازلان۔۔۔
ازلان نے کندھے اچکائے،
اَرے بھائی، مذاق کر رہا ہوں۔۔۔
امن نے تنبیہی لہجے میں کہا،
تم مذاق بھی حد میں رہ کے کیا کرو۔۔۔
جی سرکار، جیسا آپ کہیں…
اب اگر اجازت ہو تو ناشتہ کر لوں؟
ہمم… کرو، میں نے کب روکا ہے؟
زاویار اُن دونوں سے مخاطب ہُوا۔۔
تم دونوں تو نہیں جا رہے ہو نا پکنک پر؟
ازلان نے کہا،
نہیں…
کیوں؟ چلو، ویسے بھی تو سارا دن گھر پہ ہی پڑے رہتے ہو۔۔۔
نہیں، میں نہیں جاؤں گا۔۔۔
تُو سارا دن گھر پہ رہ کے کرتا کیا ہے؟ جب دیکھو، یہی پڑا رہتا ہے۔۔۔
ازلان نے بے نیازی سے کہا،
میری مرضی۔۔۔۔
اتنے میں ازلان کا فون بجنے لگا۔
ہیلّو، کون ہے بے؟ اُس نے کال اٹھاتے ہی کہا۔
ساحل کی آواز آئی،
بھائی! آج کیا کر رہا ہے؟
یہ ازلان کا پرانا دوست تھا۔
ازلان نے چبا چبا کر کہا،
میں ابھی سو کے اُٹھا ہوں، دادی کے ہاتھ کا بنا مفت کا ناشتہ کر رہا ہوں،
پھر مفت کے پانی سے نہا کے، بھائی کے پیسوں سے خریدے ہوئے کپڑے پہن کے،
گھر والوں کے بیڈ پر لیٹ کے مفت کا وائی فائی چلاؤں گا۔
پھر دادی کی تھوڑی سی گالیاں کھاؤں گا، پھر سکون کی نیند سو جاؤں گا؛ پھر اٹھ کے دوبارہ فری کا کھانا کھاؤں گا، پھر اپنے دونوں چوٹے بھائیوں کو تھوڑی گالیاں دوں گا، پھر تھوڑا اور وائی فائی چلا کے وائی فائی کا پیسہ وصول کروں گا، پھر دوبارہ سو جاؤں گا، پھر اُٹھ کے دادی کی گالیاں کھاؤں گا، پھر دوبارہ فری کھانا کھا کے اور تھوڑی بھائی کی گالیاں کھا کے دوبارہ سو جاؤں گا… تُو بتا؟
ساحل نے الجھ کر کہا،
بھائی… میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔
اب تیرا جو بھی مطلب تھا، جا کے کسی اور کو سمجھا۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں،
So don’t disturb me۔۔۔
یہ کہہ کر ازلان نے فون بند کر دیا۔
امن غصے سے بولا،
یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا؟
جب ازلان نے فون رکھا تو دیکھا کہ امن کب سے اُسے گھور رہا تھا۔
ازلان نے بے نیازی سے کہا،
بھائی، میں ایسے ہی بات کرتا ہوں۔ تُم ناشتہ کرو…
سارہ بیگم نے منہ بنا کر کہا،
اَے یہ ہے ہی بے غیرت کام چور، اس کو چھوڑ تو ناشتہ کر۔۔۔
ازلان نے بےنیازی سے کہا
تھینک یو اتنے اچھے لقب کے لیے۔۔۔
زاویار نے فوراً کہا،
بے شرم بھی ہے۔۔۔
ازلان نے زاویار کی طرف ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
آپ کا بھی شکریہ، اب آپ بھی ناشتہ کریں… اور مجھے بھی کرنے دیں۔
Okay don’t disturb me۔۔۔۔
++++++++++++++
کچھ دیر بعد…
سب ناشتہ کر چکے تھے۔
ابرار اپنے آفیس کے لیے نکل گیا، اور ازلان بھی اُس کے ساتھ ساتھ باہر چلا گیا۔
زاویار نے صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے ہلکے کہا،
اب تو بات کر سکتے ہیں نا، دادی؟
سارا بیگم نے دوپٹے کا پلو سر پہ درست کرتے ہوئے کہا،
اَے ہاں، کرتے رہنا اب باتیں… ہم تو جا رہے ہیں اپنی سہیلی کے گھر۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اٹھیں، اپنے چشمے کو درست کیا، اور اپنے روم کے دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔
زاویار نے ہلکی ہنسی دبا کر کہا،
یار بھائی، پلان تو پکنک کا تھا… صبح کا ہی بنا لیتے، رات میں مشکل نہیں ہو جائے گا تھوڑا؟
امن نے پُرسکون لہجے میں کہا،
کیوں؟ کیا مشکل ہو گیا؟ پہلی بار تھوڑی جا رہے ہیں ہم لوگ؟
زاویار نے کندھے اچکائے،
ہاں، پتا ہے… لیکن پھر بھی۔
امن نے مسکرا کر کہا،
کچھ نہیں ہوگا۔ ٹینشن مت لو، سب ٹھیک رہے گا۔
زاویار نے سانس بھری،
ہاں، بس ہو ہی جائے سب صحیح سے۔۔۔
امن نے سر ہلاتے ہوئے کہا،
ہو جائے گا، تم فکر مت کرو۔
زاویار نے اپنے فون کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
میں سارا سامان منگوا چکا ہوں، بار بی کیو کا اور جا کے سی سائیڈ بھی بُک کروا دی ہے۔ تم بس گاڑی کا دیکھ لو۔
امن نے مختصر سا جواب دیا،
اچھا، وہ میں دیکھ لوں گا۔
زاویار نے اطمینان سے کہا،
ہاں، ٹھیک ہے۔۔۔۔
++++++++++++
حیات نے کلاس کے اختتام پر اپنا بیگ بند کیا۔۔اور کلاس سے باہر نکل گئی۔۔۔
کیا مجھے جانا چاہیے؟
وہ آہستہ سے بولی۔
کتنی عجیب بات تھی، دل کہہ رہا تھا نہ جاؤ — لیکن دماغ… وہ ضدی دماغ کہہ رہا تھا، جانا ہی پڑے گا۔۔۔
جانا تو چاہیے… لیکن حیات کو جانا نہیں ہے۔
مگر یہ پکنک ہے… جانا تو پڑے گا۔
اور… نتاشا کو بھی تو دکھانا ہے کہ حیات آخرکار پلان بنوا سکتی ہے۔
ہاں، میں جاؤں گی۔ بالکل جاؤں گی۔ کیونکہ حیات… سب کچھ کر سکتی ہے۔۔۔
وہ یہ کہتے ہوئے ایک چھوٹی سی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ یونیورسٹی سے باہر نکل آئی۔
کچھ دیر بعد…
دروازے کے کھلنے کی آواز آئی۔
ماما! میں آگئی ہوں… اور اب واپس جا رہی ہوں۔
وہ جلدی جلدی بولتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی، یونی کا بیگ صوفے پر پھینکا اور دوسرا پرس اٹھانے لگی۔
کچن سے برتنوں کی کھٹ پٹ کے ساتھ ایک نرم سی آواز آئی،
بیٹا، تم ابھی تو آئی ہو۔ اب کہاں جا رہی ہو؟
مجھے پکنک میں جانا ہے نا، آفس کی طرف سے۔ آپ بھول گئی کیا؟ تو بس اسی کی شاپنگ کرنے جا رہی ہوں۔ حیات نے فٹ سے جواب دیا، جیسے سب کچھ پہلے سے طے ہو۔
مسز ندیم نے چولہے کی آنچ ہلکی کرتے ہوئے کچن سے ہی آواز لگا کر کہا،
تم تھکتی نہیں ہو؟ ابھی آئی ہو، تھوڑا آرام کر لو۔ پھر چلی جانا۔ ویسے بھی پکنک پر تو کل جانا ہے۔
شاپنگ تم رات میں بھی کر سکتی ہو، یا شام میں۔ اتنی کیا جلدی ہے؟
حیات نے کچن کے اندر گھستی بولی
ہاں ہاں، حیات کو پتا ہے۔ لیکن حیات کو ابھی جانا ہے۔ اسی لیے حیات جا رہی ہے۔
مسز ندیم نے بے بسی سے سر ہلایا، حیات جو کبھی کسی کی سن لے۔۔۔
اچھا، کچھ کھا تو لو پھر جانا۔
نہیں ماما، ابھی موڈ نہیں ہے۔ اور اگر بھوک لگی بھی تو حیات باہر سے کچھ کھا لے گی۔ آپ ٹینشن مت لیجیے۔۔
یہ کہہ کر وہ کچن سے نکل گئی۔۔۔، قدموں میں عجلت لیے گھر سے نکل گئی ۔۔۔۔
دروازے کے بند ہونے کی آواز کے بعد مسز ندیم نے دھیرے سے سانس بھری۔
یہ لڑکی بھی نا… اپنے ابا پر گئی ہے۔ دل کی کرے گی، چاہے دنیا کچھ بھی کہے…
+++++++++++++
امن اپنی گھڑی پر نظر ڈالی — ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔
وہ اب تک نہیں آئی…
یہ سوچ کر اس کے ماتھے پر ہلکی سی لکیریں ابھریں۔
اُس نے فون اُٹھایا — چند لمحے نمبر دیکھتا رہا، پھر کال ملا دی۔
رِنگنگ… رِنگنگ…
جی فرمایئے… دوسری طرف سے مانوس سی شوخ آواز آئی۔
کہاں ہو تم؟ امن کی آواز میں تھوڑی سی خفکی شامل تھی۔۔
حیات کی طنزیہ آواز فون کے دوسری طرف سے سنائی دی آپ کو کیوں بتاؤں؟
آفس کیوں نہیں آئیں آج؟
کیونکہ حیات کو یونی جانا تھا، اسی لیے۔
تو تم ابھی یونی میں ہو؟
نہیں۔
تو پھر کہاں ہو؟
آپ کو کیوں بتاؤں؟
امن نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا،
حیات! بدتمیزی مت کرو۔ جو پوچھ رہا ہوں، اس کا سیدھا جواب دو۔
For your kind information,
حیات بدتمیزی نہیں کرتی۔۔۔۔
امن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی،
آفس آؤ، چپ چاپ۔
نہیں، میں تو بولتے ہوئے آؤں گی۔
پاگل لڑکی۔ اور امن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔۔
واہیات پارانی۔
دوسری طرف ہے ہمیشہ حیات نے چڑ کر جواب دیا۔۔
کوئی اپنے باس سے ایسے بات کرتا ہے؟
ابھی حیات آپ کے آفس میں نہیں ہے، اس لیے آپ کوئی باس ووس نہیں ہوئے، سمجھے؟
امن نے تھوڑا سا جھک کر موبائل کی اسکرین کو دیکھا،
اچھا؟ تو پھر میں کیا ہوں ابھی؟
واہیات پارانی۔۔
اور تم پاگل لڑکی۔
اب حیات کو ڈسٹرب مت کریں، فون رکھیے۔
کیوں؟ حیات ایسا بھی کون سا پہاڑ توڑ رہی ہے؟
آپ کو کیوں بتاؤں؟
اچھا، مت بتاؤ۔
ہممم، فون رکھیے۔
تم بھی تو رکھ سکتی ہو، میں کیوں رکھوں؟
کیونکہ کال آپ نے کی ہے، تو کٹ بھی آپ ہی کریں گے۔
نہیں، میں تو نہیں کر رہا۔
(وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اس وقت اتنی سی بات کے لیے حیات سے کیوں لڑ رہا ہے۔
بس… اُسے ایسا کرنا اچھا لگ رہا تھا۔)
ہاں تو پھر رکھیے مت، آن کال آپ کا ہی ڈیٹا ضائع ہوگا۔
میں اور دلوا لوں گا ڈیٹا۔
ہاں، آپ تو امبانی کی اولاد ہیں نا؟
امن نے چونک کر کہا
What the hell is Ambani ki aulad?
ایک تو آپ کو کچھ سمجھ بھی نہیں آتا۔ عجیب ‘band-buddhi’ ہیں آپ۔۔۔۔
اب یہ بند بدّھی کیا ہے؟ امن نے ناگواری سے کہا
بند بدّھی مطلب… جس کا دماغ بند ہو، جس کو بات سمجھنے میں صدیاں لگ جائیں۔
حیات نے امن کو اچھے سے سمجھایا ایک تو حیات اور حیات کے الٹے سیدھی ووڈز ۔۔
اچھا، میں بند بدّھی ہوں تو تم budhi-less ہو۔
وہ اُس سے اُسے کی طرح باتیں کیوں کرنے لگا تھا۔۔۔
زیادہ فری مت ہوں۔
میں فری ہوں بھی نہیں۔
زاویار کی لائن بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں تو بولوں گا۔۔۔
ہاں تو بولتے رہیے، مجھے کیا۔۔
(اور اس نے خود ہی کال کاٹ دی۔)
امن نے چند لمحے موبائل کی خاموش اسکرین کو گھورا۔
پھر ہلکا سا مسکرایا۔
عجیب پاگل لڑکی ہے…
یہ کہہ کر اس نے فون میز پر رکھا اور فائل کھول لی—
مگر دل کے کسی کونے میں وہ مکالمہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
