زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:2
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔
عروہ اسٹڈی ٹیبل کی کرسی کھسکا کر بیٹھی تھی۔ تبھی ملازمہ اس کے لیے کھانا لے کر آئی۔ اس کے جانے کے بعد عروہ نے کھانے کو دیکھا۔ روٹی کا ایک نوالہ لے کر بسم اللہ پڑھ کر کھایا، مگر نہ جانے کیوں وہ روہانسی ہوگئی۔ وہ بیمار بھی ہوتی تھی تب بھی ہمیشہ سب کے ساتھ کھانا کھایا کرتی تھی، مگر آج وہ اپنے کمرے میں اکیلی کھانا کھا رہی تھی، شاید یہی وجہ تھی۔
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند نوالوں سے زیادہ وہ کھانا نہ کھا سکی۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کھانا اس کے حلق میں اٹک جائے گا۔ بس اس نے پانی پیا، ہاتھ دھوئے اور اپنا یونیورسٹی کا اسائنمنٹ تیار کرنے لگی۔
شام کے وقت جب شاہ زین آفس سے واپس آیا تو اوپر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا، مگر نہ جانے کیا سوچ کر الٹے قدم سیڑھیاں اتریں اور سیدھا ماں بیگم کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ماں بیگم کندھے پر شال ڈالے آرم چیئر پر بیٹھی سو رہی تھیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرے ہاتھ میں عینک۔شاہ زین نے آہستگی سے کتاب ان کے ہاتھ سے لی اور بک شیلف میں رکھ دی۔ پھر عینک لے کر ماں بیگم کی شال کے کونے سے صاف کی اور اس کے کیس میں رکھ کر سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھی۔
اس نے شال کو ماں بیگم کے شانوں پر درست کیا۔ وہ جانے ہی والا تھا کہ ماں بیگم کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
وہ پلٹا اور ماں بیگم کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔کیا بات ہے، آج میرا بچہ میرے کمرے میں آیا ہے؟
کچھ کام ہے؟ماں بیگم نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے پوچھا۔
شاہ زین نے ان کے ہاتھ تھام کر چوما۔آپ جانتی ہیں، عروہ بے قصور ہے۔ پھر آپ کیوں اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں؟ میں جانتا ہوں آپ اسے سب سے زیادہ چاہتی ہیں۔شاہ زین ہمیشہ عروہ کے معاملے میں اس کا وکیل بن جاتا تھا۔ وہ اس کا بہترین دوست اور قریبی کزن تھا۔
ماں بیگم نم آنکھوں سے بولیں،بیٹا، شکر کرو کہ میں اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہوں… کیونکہ میں اسے دنیا کی نفرت بھری نگاہوں سے بچا رہی ہوں۔
شاہ زین نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے اور انگوٹھوں سے نرمی سے صاف کیے۔ماں بیگم نے ایک گہرا سانس لیا اور بولیں بیٹا، عروہ پر پابندیاں لگانا کوئی سختی نہیں بلکہ میرا پیار ہے۔ تم جانتے ہو ہمارا معاشرہ کیسا ہے۔ اگر عورت پر ایک الزام بھی لگ جائے تو چاہے وہ آب زم زم سے غسل کر لے، لوگوں کی نظر میں داغ دار ہی رہتی ہے۔ اگر گھر سے بھاگ جائے تو کہتے ہیں والدین نے روک ٹوک نہیں کی۔ اگر منگنی ٹوٹ جائے تو کہتے ہیں لڑکی میں کوئی عیب ہوگا۔ اگر طلاق ہو جائے تو کہتے ہیں گھر بسانا نہیں آتا۔ عورت کی زندگی ماں کی گود سے قبر تک ایک آزمائش ہے۔اور جہاں تک تہمت کی بات ہے، مجھے اپنے بچوں پر یقین ہے۔ مگر بیٹا، یہ وہی دنیا ہے جہاں بی بی مریمؑ پر الزام لگایا گیا، جناب یوسفؑ پر تہمت لگی… تو ہم تو ان کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔
یہ کہہ کر ماں بیگم نے ایک گہری سانس لی۔شاہ زین کا دل مطمئن ہوگیا کہ ماں بیگم دل سے بدگمان نہیں ہیں۔ وہ مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
رات کے وقت فرحت بیگم اپنے کمرے میں بیٹھی لوشن لگا رہی تھیں، جب کہ بیڈ کی دوسری طرف ان کے شوہر فیضان صاحب عینک لگائے کتاب پڑھ رہے تھے۔
بیگم، یہ عروہ نے رات کا کھانا کھا لیا؟وہ عینک اتارتے ہوئے بولے۔
فرحت بیگم نے لوشن کی بوتل بند کرتے ہوئے جواب دیاجی، کھا لیا۔ جانتے ہیں دوپہر کا کھانا بھی چند لقمے ہی کھایا تھا، اور شام کی چائے بھی دو بار گرم کرکے بھیجی تھی۔ رات کو بھی زارا نے بڑی مشکل سے آدھی روٹی کھلائی۔ میرا نہیں خیال نگینہ خالہ نے جو کچھ کیا ہے، وہ صحیح ہے۔ آپ کچھ بولیں نا ان سے۔فرحت بیگم ماں بیگم کی بہن کی بیٹی تھیں، اسی لیے انہیں خالہ کہا کرتی تھیں۔
فیضان صاحب نے کنپٹی دبائی۔آپ تو جانتی ہیں، بیگم، ماں جی کے آگے کوئی بول نہیں سکتا۔ اور پھر جو بھی انہوں نے کیا، وہ صحیح سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔ بس یہ عروہ کا آخری سمسٹر ختم ہونے میں ایک مہینہ رہ گیا ہے۔ جیسے ہی ختم ہو، میں اس کی شادی کر دوں گا۔
یہ کہہ کر انہوں نے کتاب بند کی، سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔فرحت بیگم تلملا گئیں۔
آپ باپ ہیں، اپنا فریضہ نبھائیں — سختی دکھائیں — لیکن میں ماں ہوں، اپنا فرض نرمی سے نبھاؤں گی۔
یہ کہہ کر انہوں نے ٹیبل لیمپ بجھا دیا۔
اگلے دن عروہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہورہی تھی۔
وہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بھورے بال سلجھا رہی تھی۔ وہ ابھی نہا کر آئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
کم اِن کہہ کر اس نے سوٹ کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ گلے میں ڈالا۔
فرحت بیگم ناشتہ کی ٹرے لیے کھڑی تھیں۔ انہوں نے ٹرے بیڈ پر رکھی۔عروہ بھاگ کر ان کے گلے لگ گئی۔امی، میں غلط نہیں ہوں نا؟
آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے نا؟وہ روہانسی سی ہو رہی تھی۔
فرحت بیگم نے شفقت سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔عروہ کے دل میں ایک سکون سا اتر آیا۔
میری جان، ناشتہ کر لو۔ آج میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کے لیے لچھا پراٹھا بنایا ہے۔
وہ مسکراتے ہوئے عروہ کے ماتھے پر پیار کرنے لگیں۔عروہ چپ چاپ بیڈ پر بیٹھ گئی۔فرحت بیگم نے اسے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کھلایا۔
ناشتہ ختم کرنے کے بعد انہوں نے عروہ کے ہاتھ تھامےعروہ بیٹی، جانتی ہو سب لوگ تمہیں ہی غلط کیوں سمجھ رہے ہیں؟ کیونکہ عورت اور مرد کے کردار میں فرق ہے۔
مرد کے کردار پر الزام لگے تو وہ کالے کپڑے کی مثال ہے — جس پر خون کا داغ بھی چھپ جاتا ہے۔اور عورت سفید کپڑے کی مانند ہے — اس پر پانی کا قطرہ بھی نمایاں ہوجاتا ہے۔
عروہ نے خاموشی سے سر ہلایا اور آئینے کے سامنے جا کر بالوں کی چوٹی بنانے لگی، جبکہ فرحت بیگم ٹرے اٹھا کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔
جاری ہے۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
