Taqdeer e azal Episode 11 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۱

کائنات کہاں ہے۔۔۔؟؟؟
وہ اب سب سے پوچھنے لگا تھا لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔

یہ ایسے کیوں چیخ رہا ہے؟
پریشے نے آہستہ نے اسوان کے کان میں سرگوشی کی…

اسوان نے مسکرا کر کندھے اچکائے، اور پریشے کی طرف رخ کیا جو اپنا ناشتہ چھوڑے زیدان کے غصے والے چہرے کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
اس کا مزاج ہی ایسا ہے… تمہیں پتا نہیں ہے نہ ابھی، غصہ اُس کے اندر اُبلتے لاوے کی طرح ہے۔

اچھا… پریشے نے بس اتنا کہا۔

فیضان صاحب نے چہرہ سکوڑ کر زیدان کو دیکھتے کہا،
کیوں چیخ رہے ہو؟ وہ نیچے آئی ہی نہیں، کمرے میں ہی ہوگی۔

ہاں، چیک کرو… شاید واش روم میں ہوگی۔۔
اسوان نے سادہ لہجے میں زیدان سے کہا۔

عائشہ بیگم فوراً بول اٹھیں،
میں دیکھ چکی ہوں، وہاں بھی نہیں ہے۔۔۔

مریم بیگم نے اضطراب سے دُپٹہ سنبھالا،
میں اُس کے کمرے میں دیکھتی ہوں، شاید ادھر ہو۔
وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھیں، مگر تھوڑی دیر بعد سر ہلاتی باہر آ گئیں۔۔۔
نہیں، وہاں بھی نہیں ہے۔

عدنان صاحب نے گہرا سانس لیا،
گھر میں ہی ہوگی، باہر گئی ہوگی تو گارڈ سے پوچھو، اُسے پتا ہوگا۔

ہاں، پوچھو گارڈ سے۔
فیضان صاحب نے کہا۔

زیدان نے جھنجھلا کر کہا،
جو بھی ہے، میں اندر جا رہا ہوں—کوئی میرے کمرے میں نہ آئے۔۔۔
اور وہ غصے سے دروازہ بند کر گیا۔

کچھ دیر بعد گارڈ آیا،
صاحب… میں نے کائنات بی بی کو صبح نو بجے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ میں نے پوچھا تو کہہ رہی تھی پیپر دینے جا رہی ہوں۔۔

مریم بیگم کا چہرہ سفید پڑ گیا،
یا اللہ… آج اُس کا پیپر تھا۔۔۔

حرکت دیکھی ہے آپ نے؟ کسی کو بتایا بھی نہیں اور نکل گئی۔۔۔۔
عائشہ بیگم نے خفگی سے کہا۔

پریشے نے رخ موڑ کر اسوان کو دیکھا،
کائنات کے پیپر ہو رہے تھے؟

ہاں۔۔۔۔
اسوان نے نارمل انداز میں جواب دیا جیسے یہ تو کوئی بڑی بات نہیں..

آپ لوگوں نے اُس کے پیپر کے دنوں میں شادی رکھ دی؟ پريشے نے حیرت سے کہا  اسوان کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن پریشے کے لیے تھی..

کیا کریں… زیدان کی ضد تھی۔۔۔

کیا مطلب؟ پریشے کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔

زیدان کائنات کو پسند کرتا تھا، اسی لیے نکاح کروا دیا۔

پریشے کی بھنویں اٹھ گئیں،
زیدان… کائنات کو پسند کرتا تھا؟

ہاں۔۔۔

اچھا… اور آپ کی بہن؟ پریشے کو یاد آیا کائنات کے علاوہ بھی اس گھر کی ایک اور لڑکی کا بھی تو نکاح ہوا تھا اُس کے ساتھ۔۔۔

کون بہن؟

ہمارے ساتھ جس کا نکاح ہوا تھا۔۔۔

وہ میری بہن نہیں ہے۔ اسوان نے سخت لہجے میں کہا

تو کون ہے وہ؟ پریشے نے حیرت سے پوچھا۔۔۔

اسوان نے سنجیدگی سے کہا
چچی کی بیٹی بس۔ میری بہن ایک ہی ہے اس پوری دنیا میں۔۔۔

پریشے نے حیرت سے کہا،
اور وہ کون ہے؟

اسوان نے مدھم آواز میں کہا،
کائنات…

اور باقی لڑکیاں؟ پريشے نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔۔۔

کوئی نہیں۔۔ اسوان نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔۔

وہ اسوان کو تیکھی نظروں سے دیکھنے لگی۔

ایسے مت دیکھو۔ تمہارے چکر میں دنیا کی ساری لڑکیوں کو بہن نہیں بنا سکتا۔۔۔

کیوں؟ پريشے نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔۔۔

بہن کا مطلب ہے رشتہ۔ بھائی بہن کا ایک رشتہ جڑ جاتا ہے۔۔ میں کیوں ہر کسی کو اپنی بہن بنا کر اس کے ساتھ رشتہ قائم کروں؟
اسوان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

بس بس، آپ کا اپنا عجیب لوجیک ہے۔
دِل ہی دِل میں وہ خوش تھی کہ بہن نہ صحیح پر اسوان کے لیے دوسری لڑکیاں کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔

تم بھی ہر کسی کو بھائی مت بنایا کرو۔
اسوان نے سرد لہجہ میں کہا

کیوں؟ میں تو بناؤں گی۔
پریشے نے شرارت سے کہا۔۔

جان سے مار دوں گا۔۔۔
اسوان نے سنجیدگی سے کہا۔۔

زیادہ فری نہیں ہوئے آپ، بھائی ہی بنا رہی ہوں،  بوائے فرینڈ نہیں۔۔
پریشے نے منہ بنایا کہا۔۔۔

بھائی بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے تمہیں۔۔
اسوان اب بھی سنجیدہ تھا۔۔۔

اچھا چھوڑیں… میں کہہ رہی تھی، جو آپ کی بہن ہے نا۔۔۔

وہ میری بہن نہیں ہے۔۔

اچھا تو اُس کا نام کیا تھا؟

زرتاشہ۔

ہاں وہی، زرتاشہ۔ اُس کا دولہا کون تھا؟

اُس کے دولہے سے تمہیں کیا کرنا ہے؟

بھائی بننا ہے…
پریشے نے شرارت سے کہا۔

اسوان نے اُسے گھورا،

پریشے فوراً پیچھے ہٹی،
اچھا اچھا، مزاق تھا۔۔ آنکھوں سے ہی جان لے لیں گے کیا؟ میں تو کہہ رہی تھی کہ اُس سے ملی تھی میں… اسپتال میں۔ جب پاپا کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ کیا نامِ بتایا تھا اُس نے اپنا۔۔۔
پریشے نے اپنے دِماغ پر زور دیا۔۔۔ یاد کرنے کی کوششں کی۔۔پھر بولی۔۔۔
ہاں۔۔۔ عبدل ہادی نام بتایا تھا۔۔۔

کیسا ملا تھا وہ؟

پاپا کو چیک کرنے جا رہا تھا، نرس روک رہی تھی کہ ابھی انٹرن ہے۔

ہاں، انٹرن تو ہے… چھوڑو، ڈاکٹروں کے معاملات ہیں۔ ہادی ہمارا رِشتہ دار ہے، کائنات کے تایا کا بیٹا ہے۔۔

اچھا… مگر اُس کی شادی بھی ہمارے ساتھ کیوں ہوئی؟

اُس کا بوائے فرینڈ نکل آیا تھا… اسی لیے جلدی سے شادی کر دی۔

کیا؟! پریشے کو شوک لگا۔۔۔

ہاں۔۔۔ اسوان نے نارمل انداز میں ہاں میں سر ہلایا ۔

تو ہادی اُس کا بوائے فرینڈ تھا؟

نہیں۔۔۔

تو پھر کسی سے بھی اچانک شادی کروا دی؟ اُس کے بوئے فرینڈ سے ہی کروانی تھی نہ۔۔۔

وہ بھاگ گیا تھا… اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

پریشے نے دھیرے سے کہا، اُسے زرتاشا کے لیے بُرا لگا۔۔
لڑکیوں کو کسی بھی لڑکے پر یقین نہیں کرنا چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی اچھا اور خاندانی کیوں نہ ہو۔

اسوان خاموش رہا۔ بس اتنا کہا،
چلو، اب ناشتہ ختم کرو۔ اب تو پتا چل گیا نا کہ کائنات کہاں گئی ہے۔۔

پھر اسوان نے رخ موڑ کر سب سے کہا سب اپنا ناشتہ ختم کرنے میں مصروف تھے۔۔۔
ویسے میں نے پریشے کے گھر والوں کو منع کر دیا ہے کہ وہ ناشتہ لے کر نہ آئیں۔

کیوں؟
پریشے نے چونک کر پوچھا۔

آج ولیمہ ہے۔ اور ولیمے کے بعد تم دو دن کے لیے وہیں رہنے چلی جاؤ گی۔ اب وہ لوگ ابھی صبح آتے، پھر جاتے، پھر ولیمے کی تیاری کرتے،فضول تھکن ہوتی۔
وہ پریشے کی فیملی کا کتنا خیال رکھتا تھا۔۔ پہلے اُن پر زیادہ بوج بھی نہیں ڈالا سارے فنکشن اپنے گھر پر کیے اور اب ناشتے کے لیے بھی مانا کردیا۔۔

لڑکیاں ولیمے کے بعد دو دن نہیں رہتیں مائکے میں۔۔
پریشے نے احتجاج کیا۔

لیکن تم رہو گی۔
اسوان نے سنجیدگی سے کہا

دس دن کی رسم ہوتی ہے۔
پریشے نے کہا

عائشہ بیگم ہنس دیں،
شکر کرو بیٹا، دو دن کی اجازت دے رہا ہے۔ ورنہ اس کا بس چلے تو تمہیں جانے ہی نہ دے۔

پریشے نے عائشہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔۔
آنٹی ابھی مُجھے آئے ہوئے چوبیس گھنٹے بھی پورے نہیں ہوئے اور یہ مُجھے پر ابھی سے حکم چلنے لگے ہیں۔۔

اسوان نے پریشے کو ٹوکا۔۔
میں امی کہتا ہوں۔۔۔

پریشے ٹھٹکی،
کیا؟

اسوان نے سنجیدگی سے کہا،
اَنٹی نہیں — امی، بولو ۔

پریشے بولی،
یہ دیکھیں، اَنٹی ایک اور فرمائش سن لو۔

عائشہ بیگم نے کر مسکرا کر کہا،
بس بیٹا اب تُم عادت ڈال لو۔۔۔ اور صحیح تو کہہ رہا اسوان۔۔۔ تم بھی امی کہو مجھے… جیسے اسوان کہتا ہے۔

جی۔۔۔ پريشے نے سر ہلادیا

فیضان صاحب کا ناشتہ ختم ہوچکا تھا۔۔وہ ہاتھ صاف کر کے اٹھتے اور بولے۔۔۔
چلو، میں چلتا ہوں، دیکھتا ہوں کیٹرنگ کا کیا سین ہے۔ شام کو آتا ہوں پھر تیار ہوں گے۔ چلیں، عدنان۔۔۔

عدنان صاحب بھی اُن کے ساتھ ہی ناشتے کی ٹیبل سے اُٹھ گیا۔۔۔
اور وہ دونوں اپنے کمرے کی طرف چل دیے —

اُن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد اسوان نے پریشے سے کہا
اچھا، تم بھی ابھی جاؤ آرام کرو، پھر تیاری کرنا۔ چار بجے تمہیں پارلر چھوڑ دوں گا۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔
اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی گئی،

+++++++++++++

دوپہر کا وقت تھا ، ایک بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔
زرتاشہ اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی۔
بوریت کبھی کبھار انسان کے اندر کی خاموش چیخ بن جاتی ہے،
سو وہ اٹھی، دپٹہ سنبھالا اور نیچے آ گئی۔

نیچے آتے ہی سائرہ بیگم نظر نہ آئیں،
مگر صوفے پر بیٹھا ارسم کتاب کے اوراق پلٹ رہا تھا۔
زرتاشہ لمحہ بھر کو رکی، پھر خود کو سنبھال کر آگے بڑھی۔

کیسے ہو؟
اس نے دھیرے سے کہا۔

ارسم نے نظریں اٹھائیں۔ زرتشا کی طرف دیکھا  آنکھوں میں زرتاشآ کے لیے حقارت تھی۔۔۔
تم اس گھر میں ہادی کی بیوی بن کر تو آ گئی ہو… اس نے سپاٹ لہجے میں کہا،
لیکن میں تمہیں بھابھی کبھی قبول نہیں کروں گا۔

زرتاشہ کو ارسم کی بات سے اندازہ ہوا کہ وہ اُس سے سخت خفا ہے۔۔
آئی ایم سوری، ارسم۔ لیکن وہ… وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں تھا۔

ارسم کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری،
یہی تو مسئلہ ہے زرتاشہ… کاش وہ تمہارا بوائے فرینڈ ہوتا۔۔۔۔

زرتاشہ چونکی، کیا مطلب؟

ارسم کی آنکھوں میں سرخی ابھر آئی۔
مجھے بتاؤ زرا — کائنات کی شادی زیدان سے کیوں کروائی گئی؟

زرتاشہ نے لمحہ بھر کو سوچا، پھر اُس نے وہی جھوٹ بول دیا جو گھر والے کائنات کے نکاح والے دِن سب سے کہہ رہے تھے، کہ زیدان کائنات کو پسند کرتا تھا اور وہ اُس کی ضد بن گئی تھی۔۔۔ اسی لیے جلدی شادی کروا دی، اور زیدان کے مزاج کا تو پورے خاندان والوں کو پتہ تھا اور یہ سنے کے بعد تو کِسی نے اور سوال کرنے کی ہمت بھی نہیں کی۔۔
کیونکہ زیدان، کائنات کو پسند کرتا تھا۔

یہ جھوٹ کسی اور سے کہنا۔
کائنات کی شادی زیدان سے تمہاری وجہ سے ہوئی۔
کائنات کی اُس حالت کی ذمہ دار تم ہو —
اور مجھے یہ ساری بات معلوم ہے۔۔۔

زرتاشہ کو ایک دم سے غصّہ آیا۔۔اور وہ چیخی،
اوہ ہیلو! کائنات کی شادی تو اسوان نے کروائی تھی۔۔۔

ارسم کا لہجہ لرز گیا، میں اسوان بھائی کو اپنا بھائی مانتا تھا۔
بہت بھروسہ تھا مجھ کو اُن پر…
اور تمہیں پتا ہے، میں نے خود اُنہیں بتایا تھا
کہ میں کائنات کو پسند کرتا ہوں۔
لیکن ان کی میرا ذرا بھی خیال نہیں آیا۔۔ ہادی صحیح کہتا ہے، منہ سے بھائی بولنے اور دِل سے بھائی ماننے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔
اُس نے ایک گہری سانس لی جیسے اندر کی آگ باہر نکلنے کو بے تاب ہو۔

زرتاشا نے دونوں ہاتھ باندھ کر سرد لہجے میں کہا،
تم سب نہیں جانتے اسوان کو — کوئی بھی نہیں جانتا۔ جانتے ہو، کون جانتا ہے اُسے؟ میں۔ میں اُسے بخوبی جانتی ہوں۔
وہ حد سے زیادہ خودپسند لڑکا ہے۔ اُسے اپنے مفاد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
اس کے لیے کوئی رشتہ، کوئی احساس معنی نہیں رکھتا۔
اُسے صرف اور صرف اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔۔۔وہ تھوڑی دیر روکی اور پھر بولی۔۔۔
تم ہی تو اُس کے پیچھے دم ہلاتے پھرتے تھے، ‘بھائی بھائی’ کرتے کبھی نہیں تھکتے تھے۔
لیکن تمہیں پتہ ہے؟ اگر اُس کی نظر میں اپنے سوا کوئی اور آ جائے، تو وہ کوئی اور کون ہوتا ہے؟ وہ ‘کوئی اور’ زیدان ہوتا ہے۔
اُس نے تو شروع سے ہی سب کچھ سوچ رکھا تھا
تب ہی تو کائنات کے سامنے اتنا اچھا بنتا تھا۔
میں سمجھتی تھی کہ وہ خود کائنات کو پسند کرتا ہے،
کیوں کہ کائنات اُس کی بیٹی کا اس قدر خیال رکھتی تھی۔
لیکن میں غلط تھی…
وہ تو دراصل اپنے بھائی کے چکر میں تھا۔۔

زرتاشا نے سرد مسکراہٹ کے ساتھ کہا
اب بتاؤ، کیا تم کبھی زیدان کی جگہ لے سکتے تھے؟

ارسم کی آنکھوں میں ایک ساتھ غم اور غصہ اُتر آیا۔
زیدان… زیدان تو کائنات کو پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ اُس نے اپنے سینے پر انگلیاں رکھتے ہوئے مزید کہا
لیکن میں… میں کرتا تھا اُسے پسند۔۔

پھر ارسم نے غصے سے زرتاشا کو گھورا بولا۔۔۔
لیکن یہ سب تُمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔تُم اُس کے ساتھ ایسا نہیں کرتی اُس پر الزام نہ لگتی تو وہ زیدان کی دلہن کبھی نہیں بنتی۔۔۔

الزام تو اُس پر سے ہاٹ ہی چُکا تھا لیکن شادی تو پھر بھی ہوگئی اُس کی۔۔۔ پیچھے تو پھر بھی کوئی نہیں ہٹا۔۔اور تمہیں جب سب پتہ چل ہی گیا تھا تو روک لیتے یہ شادی۔۔۔ زرتاشا نے سرد لہجہ میں طنز کیا۔۔۔

کاش۔۔۔ دِل کے اندر کچھ ٹوٹا تھا۔۔۔
میں نے ماما کو بول رکھا  تھا۔۔۔ لیکن تُم سب نے نکاح والے دِن ہی بتایا کہ اُس کا نکاح ہے پھر بھی ماما نے پھوپو سے بات کی تھی۔۔۔ لیکن کچھ نہیں ہوسکا۔۔۔

ہاں، یہ سب تو اسوان کا پلان تھا نا؟
اُس نے بڑی آسانی سے تمہیں کائنات کی زندگی سے آرام سے الگ کر دیا۔ زرتاشا نے تلخی سے کہا
لیکن تمہیں یہ سب کیسا پتہ۔۔۔؟؟

ماما نے نکاح والے دِن چاچی سے بات کی، اور تب چاچی نے اُنہیں سب کچھ بتایا۔
ماما اور بابا تو یہی سمجھتے رہے کہ وہ تمہارا بوائے فرینڈ ہے… غلطی سے کائنات کے روم میں چلا گیا تھا۔۔۔
لیکن میں — میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتا۔
تم خود بھی اگر مجھ سے کہو کہ وہ تمہارا بوائے فرینڈ تھا، تب بھی میں یقین نہیں کروں گا۔

زرتاشا نے حیرت سے کہا
کیوں…؟ (سارا خاندان تو یہی سمجھ رہا تھا پھر ارسم کیوں نہیں؟؟ )

کیوں کہ میں جانتا ہوں تُمہارا سٹینڈرڈ، اُس کی نہ شکل اچھی تھی نہ اُس کے جیب میں پیسے تھے۔۔ اور ایسا لڑکا زرتاشا شاہ کا اور بوفرینڈ ہو ہی نہیں سکا۔۔
دیکھا تھا میں نے اس کا مایوں والے دِن حلیہ۔۔۔ دو نمبر کا لوفر لگ رہا تھا۔۔۔

ابھی کوئی اور وقت ہوتا تو مجھے یہ بہت اچھا لگتا،
ذرتاشا نے نارمل انداز میں کہا

تُم نے کیوں کیا؟؟ تُم نے کائنات کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟؟ کیا بگاڑا تھا اُس نے تُمہارا۔۔؟ جو تُم نے اُس کی زندگی برباد کرنے کا سوچ لیا۔۔۔
ارسم نے صوفے سے اٹھتے اُس کی طرف دیکھتے سرد لہجہ میں کہا 

وہ مُجھے سے میری خوشیاں چھین رہی تھی۔۔۔
زرتشا نے نظرے چرائے کہا

تو یہ سب کرنے کے بعد تمہیں، تُمہاری خوشیاں مل گئی؟؟

زرتاشا نے ارسم کو دیکھا اور پھر نظرے جُھکا گئی۔۔۔ کاش ہادی کی جگہ ارسم ہوتا کاش ارسم اُس کی شادی کے لیے کہہ دیتا۔۔۔

تُم بہت گھٹیا عورت ہو زرتاشا بہت، میرا بھائی تمہیں ڈیسیورس نہیں کرتا ہے۔۔۔
ارسم کی زبان پر زہر تھا۔۔

زرتاشا کے دل کو کچھ ہوا لیکن ساتھ ہی اُسے بہت زیادہ غصّہ آیا۔۔۔
ہاں میں بہت گھٹیا ہوں۔۔ اتنی کہ جب جب کوئی میرے خوشیوں کے بیچ آیا گا تب تب میں گھٹیا بن جاؤں گی۔۔

اچانک ارسم کی آنکھیں سُرخ ہوگئی۔۔۔ زرتاشا کو اپنے کیے پر ذرا بھی پچھتاوا نہیں تھا۔۔۔
دوسروں کی خوشیاں کھانے والوں کو کبھی خوشی نہیں ملتی۔۔۔ تمہیں اور اسوان بھائی کو بھی نہیں ملے گی۔۔۔ جیسے تُم دونوں نے میرا گھر برباد کیا ہے نہ تم دونوں کا گھر بھی کبھی نہیں بسے گا۔۔
تم دونوں نے مل کر مجھ سے میری خوشیاں چھینی ہیں۔
تُم دونوں نے مل کر میرا گھر برباد کیا ہے۔۔۔
ایک دن تم دونوں کا بھی گھر برباد ہوگا۔۔
اُس دِن تُم دونوں کو احساس ہوگا۔۔ میرے درد کا۔۔۔
اور میری دعا ہے…
اللہ کائنات کو تم دونوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

وہ جانے کے لئے پلٹا، لیکن پھر رُکا
اور زرتاشہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا،
جیسے آج تم ذلیل ہوئی ہو نا،
ایک دن پھر ہوگی —
جس دن ہادی تمہارا ہاتھ پکڑ کر
خود تمہیں اس گھر سے نکال دے گا…
جب اسے پتا چلے گا کہ اس کی بیوی کتنی گھٹیا سوچ کی مالک ہے،
جو دوسروں کی عزت کا تماشہ بناتی ہے
صرف حسد میں، صرف مقابلے میں۔۔۔

یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا —
اس کے قدموں کی چاپ زرتاشہ کے کانوں میں گونجتی رہی،
حتیٰ کہ وہ آواز بھی جو خاموش ہو گئی تھی۔۔۔

زرتاشہ وہیں کھڑی رہی،
بے جان، پتھر بنی ہوئی۔
آنکھوں کے اندر کہیں کچھ ٹوٹ رہا تھا —
کچھ ایسا، جو اس نے خود نہیں بکھیرنا چاہا تھا۔

اسے پورا سچ نہیں معلوم تھا۔
یہ سب اس نے حسد یا دشمنی میں نہیں،
بلکہ محبت میں کیا تھا۔
اور محبت…
محبت تو ویسی بلا ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
وہ سب کچھ چھین لیتی ہے،
عقل، سکون، اور کبھی کبھی عزت بھی۔

اسی لمحے دروازہ کھلا۔
ہادی اندر آیا،
اور جب اُس کی نظر زرتاشہ پر پڑی،
وہ مسکرا کر آگے بڑھا۔

اُٹھ گئی آپ؟ ناشتہ کر لیا؟

زرتاشہ نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔
ارسم کے الفاظ گونجنے لگے
ایک دن ہادی تمہارا ہاتھ پکڑ کر خود تمہیں اس گھر سے نکال دے گا…

اُس کے لب ہلکے سے کانپ گئے۔
جواب دینا چاہا، مگر آواز کہیں راستے میں اٹک گئی
ہادی اُسے پسند تھا یا نہیں، یہ تو بعد کی بات تھی۔۔۔
لیکن فی الحال وہی اُس کا واحد سہارا تھا۔
اگر ہادی نے بھی اُس کا ساتھ چھوڑ دیا،
تو زرتاشہ کے پاس بچ ہی کیا جائے گا؟

++++++++++++

دوپہر کا وقت تھا۔ سورج کی ہلکی دھوپ صحن میں اتر رہی تھی۔ کائنات سفید یونیفارم میں، بالوں میں ایک سیدھی سی چوٹی بنائے، تھکے قدموں سے گھر میں داخل ہوئی۔ چہرے پر تھکن صاف جھلک رہی تھی،

وہ ابھی لاؤنچ کے دروازے تک ہی پہنچی تھی کہ رک گئی۔
سامنے راضیہ بیگم اور عائشہ بیگم صوفے پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھیں —

کائنات نے آہستہ سے سلام کیا،
السلام علیکم

راضیہ بیگم نے فوراً جواب دیا، مگر لہجہ نرم نہیں تھا،
وعلیکم السلام… ارے تُو صبح صبح بغیر بتائے پیپر دینے چلی گئی تھی؟ تُجھے ذرا سا بھی خیال نہ آیا کہ کسی کو بتا کر جائے، اوپر سے تیرا شوہر تو آگ بگولا ہوا جا رہا تھا۔ کم از کم اسے تو بتا کر جاتی۔۔۔۔

کائنات نے سپاٹ لہجے میں کہا
میں کون سا ہر دفعہ بتا کر جاتی ہوں جو آج بتا کر جاتی؟ پہلے تو کبھی آپ لوگوں کو میری فکر نہیں ہوئی… اب اچانک کیوں یاد آ گئی؟

عائشہ بیگم نے گہری سانس لی،
پہلے کی بات اور تھی، کائنات۔ اب تمہیں زیدان کا بھی خیال رکھنا ہے۔ وہ تمہارا شوہر ہے، اسے بتانا تمہاری ذمہ داری ہے۔

اسی لمحے مریم بیگم، جو کچن سے برتن سمیٹ رہی تھیں، جلدی سے باہر آئیں۔
بیٹا، کوئی اس طرح کرتا ہے بھلا؟ شادی کے دوسرے ہی دن بغیر بتائے چلی گئی؟ پیپر دینے جانا ہی تھا تو بتا کر جاتی نہ۔۔۔

کائنات کی آنکھوں میں حیرت اُتر آئی۔
یہی لوگ تھے نا، جو کبھی نہیں پوچھتے تھے کہ وہ کہاں جاتی ہے، کب آتی ہے؟
آج اچانک سب کو فکر ہونے لگی؟
وہ تو الزام لگانے کے بعد بھی تو کِسی کو بغیر بتائے اگلے دن پیپر دینے گئی تھی، تب تو کسی نے کچھ نہیں کہا تھا — یہاں تک کہ اس کی اماں نے بھی نہیں۔ نہ ہی وہ کبھی کہیں بھی اپنی اماں کو بتا کر جاتی تھی۔۔۔ نہ کبھی آج تک مریم بیگم نے اُس سے پوچھا تھا،

کائنات نے آہستہ سے نظریں اٹھائیں۔
ان کے چہروں پر فکرمندی تھی، مگر شاید وہ فکرمندی اُس کے لیے نہیں تھی…
بلکہ زیدان کے غصے سے بچنے کے لیے تھی۔۔
ضروری تھا پیپر دینا، اس لیے گئی تھی۔ اور بتانے کی بات رہی تو سب سو رہے تھے… جس نے پوچھا تھا، اُسے بتا دیا تھا میں۔

یہ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ عائشہ بیگم نے پھر سے ٹوکا۔
دیکھو بیٹا، اب ہم تم پر زیادہ سختی نہیں کریں گے، لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ اب تم کسی کی بیوی ہو۔ گھر سے کہیں بھی جانا ہو، اپنے شوہر کو بتا کر جانا، یا تو گھر میں سے کسی فرد کو، تم جانتی ہو اُس کے مزاج کو ،وہ فوراً چیخنے لگتا ہے۔۔۔

کائنات نے تھکی ہوئی آواز میں بس اتنا کہا،
اچھا، ٹھیک ہے۔
ابھی وہ بہت تھکی ہوئی تھی آرام کرنا چاہتی تھی، ابھی کچھ بولتی تو یہ لوگ اور بولتے اسی لیے خاموش ہوگئی۔۔۔

وہ جانے ہی لگی تھی کہ مریم بیگم پھر بول اٹھیں،
ادھر کہاں جا رہی ہو؟ اوپر جاؤ، اب تمہارا کمرہ اوپر ہے۔

کائنات کے قدم ٹھہر گئے۔ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
شادی کروا دی، کمرہ بھی بدل دیا، لیکن میرا سامان کون بھیجے گا؟ کیا کپڑے بھی میں شوہر کے پہنوں اب؟
(اس نے خفگی سے کہا — ایک تو وہ تھکی ہوئی تھی، اوپر سے سب کے منہ سے صرف شوہر، شوہر کی رت سن کر وہ تنگ آ چکی تھی۔)

عائشہ بیگم نے فوراً نرمی سے کہا،
غصہ کیوں کر رہی ہو؟ ابھی ملازموں سے کہہ دیتی ہوں، وہ تمہارا سامان اوپر پہنچا دیں گے۔
آج کل وہ کائنات کے ساتھ بہت نرمی برت رہی تھیں۔

راضیہ بیگم نے بھی جلدی سے کہا،
ہاں ہاں، جا، جلدی جا اوپر۔ کہیں وہ پھر شور نہ مچائے۔۔۔۔

کائنات نے پلٹ کر سب کی طرف دیکھا، ایک لمحے کے لیے۔
پھر اس کے چہرے کا سکون غصے کی چنگاری میں بدل گیا۔
اس نے لب بھینچ لیے۔
اب وہ کسی کے لہجے کی پروا نہیں کرے گی۔

+++++++++++

کائنات نے دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھا۔
زیدان بیڈ کے کنارے بیٹھا تھا، ہاتھ میں موبائل، انگلیاں سکرین پر چل رہی تھیں، چہرہ پر سکون، جیسے دنیا کی کوئی فکر نہ ہو۔

کائنات کے قدموں کی آہٹ پر اُس نے سر اٹھایا۔
سرد، بے تاثر نگاہیں، بس ایک لمحے کے لیے ، اس پر ڈالی۔ اور پھر ہٹا لی۔۔

کہاں گئی تھیں تم صبح صبح؟

کائنات کے ہونٹوں پر ہلکی سی تلخی اُبھر آئی۔
جہنم میں… آپ کو بھی جانا تھا کیا ساتھ؟
اور وہ دھپ سے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔ بیگ ایک طرف رکھا اور اپنے شوز اترنے لگی۔۔۔اور بولی
اور مُجھے یہ بتائیں، صبح صبح چیخ کیوں رہے تھے آپ؟

زیدان نے اپنا فون ایک طرف رکھا،
نظریں سیدھی اُس پر گاڑ دیں۔۔۔
سرد، تیز اور قابو میں۔

صبح صبح میرے کمرے سے کیوں نکلی تھیں تم؟
اور دروازہ کھول کر کیوں گئی؟
تمہیں پتا ہے نا مجھے کھلا دروازہ پسند نہیں…
میرے کمرے کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے۔

شوز اترنے کے بعد کائنات نے سر اٹھا کر اُسے دیکھا۔۔
زیدان کی نگاہیں برف کی طرح سرد تھیں۔۔۔
اُس کے دل میں عجیب سا خوف سا جاگا — غصّہ بھی آرہا تھا، مگر زبان بند رہی۔
کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اسی لیے خاموش رہی۔۔

کچھ دیر بعد زیدان نے پھر کہا،
اس بار لہجہ سخت تر تھا
میں پوچھ رہا ہوں، گئی کہاں تھیں؟

کائنات نے سانس کھینچی،
پھر تھکے ہوئے لہجے میں بولی
میں ابھی بہت غصے میں ہوں، مجھ سے بات نہ کریں۔

تو؟ جواب دو۔ مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔

اب کائنات کا ضبط ٹوٹا۔
وہ تیزی سے تیکھی نظروں سے زیدان کی طرف دیکھا۔
یہ یونیفارم دیکھ رہے ہیں آپ؟
یہ بیگ؟ امتحان دینے گئی تھی میں۔
تاکہ ایک دن ڈاکٹر بن سکوں…
اور اس گھر سے آزاد ہو سکوں۔

یہ کہہ کر وہ اٹھی،
اور سیدھی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔

اس کے دماغ کو کیا ہوا ہے…
(وہ خود سے بڑبڑایا، ابرو سکیڑے)
ایسے تو بات نہیں کرتی تھی یہ…

++++++++++++++

کہاں کھو گئی آپ؟
ہادی نے اُسے ہوش کی دنیا میں واپس لانے کے لیے اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا۔۔۔

زرتاشہ نے چونک کر پلکیں جھپکیں، نہیں… کچھ نہیں۔ تم بتاؤ، تم اسپتال سے اس وقت آتے ہو؟

ہادی نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے کہا،
نہیں، ابھی تو لنچ ٹائم ہے۔ یا تو کینٹین میں کچھ کھا لیتا ہوں، یا گھر آ جاتا ہوں۔ اسپتال کا کھانا تمہیں تو پتہ ہے، مریضوں کے لیے ہوتا ہے، اسی لیے میں گھر آجاتا ہوں

اور چھٹی کب ہوتی ہے تمہاری؟

ہادی نے تھوڑا سوچ کر کہا،
گیارہ بجے کے آس پاس۔ کبھی کبھی ایک، دو بھی بج جاتے ہیں۔

زرتاشہ نے نظریں موڑ لیں،
اسی لیے مجھے ڈاکٹر پسند نہیں۔

کیونکہ وہ دیر سے گھر آتے ہیں؟

زرتاشہ نے سنجیدگی سے سر ہلایا، ہاں، کیونکہ اُن کے پاس اپنے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔

ہادی نے اُس کی بات کو دھیرے سے کاٹا،
لیکن یہ بھی تو یاد رکھو، کہ ڈاکٹر کا پیشہ قابلِ احترام ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کی جان بچاتے ہیں۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔۔ ڈاکٹر بننا آسان نہیں ہوتا۔۔۔

زرتاشہ نے کندھے اچکائے، ہاں ہاں، معلوم ہے۔ اب تقریر مت کرو۔۔

ہادی نے مسکرا کر چھیڑا،
تو کیا آپ چاہتی ہیں میں اسپتال چھوڑ کر دکان پر بیٹھ جاؤں؟

زرتاشہ نے شک بھری نگاہ سے اُسے دیکھا،
سچ سچ بتاؤ، تم مجھے پہلے سے پسند کرتے تھے نا؟

ہادی نے فوراً کہا، نہیں۔۔۔

زرتاشہ نے ابرو چُکائے،
تو پھر میری خاطر ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟

ہادی نے گہری سانس لی،
کیونکہ بیوی ہیں آپ میری۔

زرتاشہ نے تلخی سے کہا،
ہاں، مگر کون سی پسند کی بیوی؟

ہادی نے نرمی سے جواب دیا،
بیوی… بیوی ہوتی ہے۔ چاہے پسند کی ہو یا نہیں، ہے تو میری ذمہ داری۔ اور ویسے بھی، بیوی کا خیال رکھنا فرض ہے۔
محمد ﷺ نے بی بی خدیجہؓ سے محبت کی شادی نہیں کی تھی۔۔ لیکن وہ اُن کا شادی کے بعد خیال رکھتے تھے،
بس میں بھی خیال رکھ رہا ہوں۔۔

زرتاشہ نے ہنستے ہوئے کہا،
اُف، میں تو بھول ہی گئی تھی تم حافظِ قرآن بھی ہو۔۔۔۔

پھر چھیڑتے ہوئے بولی،
ایک بات بتاؤ، تم حافظِ قرآن بھی ہو گئے، اور ڈاکٹر بھی؟ واہ، کتنے جینیئس ہو تُم، کہیں آئن اسٹائن سے بھی زیادہ تو نہیں؟

ہادی کے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی آئی،
آپ مجھ پر طنز کر رہی ہیں؟

ظاہر ہے۔۔۔۔ وہ ہنسی۔

یہ غلط بات ہے۔

اس میں کیا غلط بات ہے؟

چھوڑیں… وہ مسکرا دیا، ویسے ابھی میں اسپتال سے چھٹی لے کر آیا ہوں۔

زرتاشہ چونکی،
کیوں؟؟

آج اسوان بھائی کا ولیمہ ہے۔ وہاں نہیں جانا؟

اوہ ہاں، میں تو بھول ہی گئی تھی… لیکن…

لیکن کیا؟

زرتاشہ نے نظریں جھکائیں،
میرا دل نہیں کر رہا۔

ہادی نے نرمی سے پوچھا،
لوگوں کی باتوں سے ڈر رہی ہیں؟

زرتاشہ نے ہلکی آواز میں ہمم… کہا۔

اپنے کیے پر شرمندہ ہیں؟

زرتاشہ نے آہستگی سے سر ہلایا۔

تو معافی مانگ لیجیے… ہادی نے کہا۔

زرتاشہ نے چونک کر دیکھا، کس سے؟

اللہ سے… پھر اپنے ماں باپ سے۔

اللہ سے کیوں؟

ہادی نے نرمی مگر مضبوط لہجے میں کہا،
نافرمانی بھی تو سب سے پہلے اُس کی ہی کی تھی۔
اللہ نے فرمایا تھا، کہ جب کوئی تمہیں پسند آئے تو فوراً اُس سے نکاح کر لو۔
تو آپ نے پہلے نکاح کیوں نہیں کیا؟

زرتاشہ خاموش ہو گئی۔ نظریں نیچے جھک گئیں۔

کچھ لمحے بعد اُس کی دھیمی سی آواز سنائی دی،
تمہیں کبھی کسی سے محبت ہوئی ہے؟

ہادی رُک گیا۔
محبت؟

ہاں، محبت…

ہادی نے مسکرا کر سر جھٹکا،
آپ یہ مت کہیے گا کہ آپ کو اُس لڑکے سے محبت تھی۔ کیونکہ شادی سے پہلے محبت نہیں ہوتی… صرف وابستگی ہوتی ہے۔ لوگ پسند آتے ہیں، مگر محبت — نہیں۔۔

زرتاشہ نے الجھ کر کہا،
ہو جاتی ہے۔

نہیں۔ ہم اپنی وابستگی کو ہی محبت کا نام دیتے ہیں۔

اچھا چھوڑو، تم بتاؤ، تمہیں کبھی کسی سے محبت — یعنی وابستگی — ہوئی ہے؟

ہادی نے لمحہ بھر سوچ کر کہا،
نہیں… محبت نہیں، مگر کوئی پسند ضرور آئی تھی۔

زرتاشہ کے چہرے پر تجسس ابھرا،
واقعی؟ اور اُس سے شادی کیوں نہیں کی پھر؟

ہادی نے مدھم لہجے میں کہا،
دیر کر دی۔

کس چیز میں؟

یہی… کہ جب کوئی پسند آئے تو فوراً نکاح کر لو۔ میں نے نکاح کرنے میں دیر کر دی۔
ہادی نے سنجیدگی سے کہا

مطلب… اُس کی شادی کہیں اور ہو گئی؟

ہادی نے سر ہلایا،
ہاں۔

زرتاشہ نے ہلکی سی آہ بھری،
اور تمہیں کوئی غم نہیں ہوا؟ کوئی دکھ؟

ہادی نے مسکرا کر کہا،
دکھ تو ہے، مگر کیا اب ماتم مناؤں؟

زرتاشہ نے بے اختیار ہنسی دبا لی،
عجیب ہو تم بھی…

ہادی نے دھیرے سے کہا،
مجھے سمجھنے میں ابھی آپ کو وقت لگے گا۔
وہ یہ کہتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

++++++++++++

وہ جیسے ہی واش روم سے نکلی…
سامنے زیدان کھڑا تھا۔
ٹھنڈی، پتھریلی آنکھوں سے اُسے گھور رہا تھا
ایک لمحے کو کائنات کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔

کیا… ہوا…؟ وہ بمشکل ہونٹ ہلا پائی۔

زیدان نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک قدم بڑھایا — پھر دوسرا —
اور اگلے لمحے وہ اُس کے بے حد قریب تھا
اس کے ہاتھوں نے جھپٹ کر کائنات کے نازک ہاتھ پکڑے،
اور اسے واش روم کی سائڈ دیوار کے ساتھ زور سے ٹکا دیا۔
کائنات کی آنکھیں پھیل گئیں —
اور پھر… اس نے دیکھا —
زیدان کے دوسرے ہاتھ میں چمکتی ہوئی چُھری تھی۔

زیدان کے لہجے میں برف جمی ہوئی تھی۔
رات کو کہہ رہی تھی نہ… کہ جان لے لوں گی؟
تو ابھی تک لی کیوں نہیں؟

چھری کی نوک اس کے چہرے کے قریب آتے ہی کائنات نے سانس روک لی۔
الفاظ اس کے لبوں پر لرزنے لگے —
و۔۔۔ وہ۔۔۔ میں لینے والی تھی۔۔۔ مگر ۔مُجھے پھر ۔۔۔۔ نیند آگئی۔۔۔اور۔۔ پھر۔۔۔میں سو گئی۔۔۔

زیدان نے چھری اس کے چہرے کے قریب لاتے ہوئے کہا،
تو پھر لو اب… اس سے اپنی جان لے لو۔

آپ ایسا کیوں نہیں کرتے… وہ ٹوٹی ہوئی آواز میں بولی، کہ آپ ہی میری جان لے لیں؟

اچھا… میں لے لوں تمہاری جان؟
زیدان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا۔

کائنات کے لب لرزے،
ایک لمحے کو اس نے زیدان کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
پھر اپنی آنکھیں بند کرلی اور دھیرے سے بولی۔۔۔
ہاں… لے لیں…

زیدان اُس کے اس انداز سے محظوظ ہوا
اسی لمحے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
ٹک، ٹک، ٹک…

زیدان چونکا۔
کیا مصیبت ہے اب… وہ جھلّا کر چیخا۔
کائنات کے ہاتھ چھوڑے، دروازے کی طرف بڑھا،
اور جھٹکے سے دروازہ کھولا۔

سامنے عائشہ بیگم کھڑی تھیں۔
ان کے ہاتھوں میں کائنات کا کچھ سامان تھا —
اور اس کے سب سے اوپر رکھا تھا ایک خوبصورت جوڑا۔

یہ کائنات کا سامان… وہ دھیرے سے بولی۔۔۔

یہاں رکھ دیجیے اور دفع ہو جائیے…
زیدان نے سائڈ ہوتے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

وہ اندر آئی کائنات کا سارا سامان بیڈ پر رکھا پھر کائنات کو دیکھ کر کہا
یہ جو سب سے اوپر جوڑا رکھا ہے آج اسوان کے ولیمے میں یہ پہن لے نہ۔۔۔۔
انہوں نے مختصر انداز میں کہا،
اور خاموشی سے کمرے سے نکل گئیں۔

دروازہ بند ہوا تو لمحہ بھر کو کمرے میں پھر وہی خاموشی چھا گئی۔

کائنات نے دھیرے سے سر اٹھائے کہا،
وہ آپ کی امّی ہیں… ان کے ساتھ تو اچھا رویہ رکھا کریں…

زیدان نے ٹھنڈی سانس لی،
اور اتنے سرد لہجے میں بولا کہ کمرے کی ہوا بھی سن ہوگئی۔۔۔۔
سوتیلی امّی ہیں…
تم نہیں جانتیں… اِنہوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے…

کائنات نے ہلکے لہجے میں کہا،
ہُوا تو میرے ساتھ بھی بہت کچھ ہے…
ایک لمحے کے لیے زیدان نے نظریں اٹھائیں، مگر کائنات نے فوراً بات بدل دی۔
اچھا یہ بتائیں… آپ ولیمے میں جائیں گے؟

نہیں وہ سپاٹ لہجے میں کہتا بیڈ کے کنارے بیٹھ گیا۔۔۔اور فون دوبارہ اُٹھا لیا۔۔

کائنات نے سر ہلایا۔
ٹھیک ہے… میں یہ الماری میں رکھ دوں؟

زیدان نے چونک کر سر اٹھایا۔
کیا…؟

یہ اپنے کپڑے میں آپ کے الماری میں رکھ دوں؟ وہ نرمی سے بولی۔ جو بھی تھا اس کمرے کو وہ اپنا کمرہ نہیں سمجھتی تھی۔۔۔

زیدان نے ہلکی سی سانس لی،
جہاں مرضی رکھ دو… اور وہ جو ٹیبل پر زیور رکھا ہے، وہ بھی اندر رکھو۔۔۔

کائنات نے جی ٹھیک ہے کہا اور آہستہ آہستہ الماری کی طرف بڑھی۔

بیڈ کے دائیں جانب ایک ڈبل صوفہ رکھا تھا،
اور اُس کے ساتھ ہی درمیان میں ایک چھوٹی سی میز۔۔۔
جس پر کائنات کے زیور ویسے ہی بکھرے پڑے تھے،
جیسے زیدان نے اٹھا کر لاپرواہی سے رکھے تھے۔۔

صوفے کے پیچھے دیوار کے اندر ہی الماری بنی تھی۔
کائنات نے آہستگی سے اس کا دروازہ کھولا،
تو اندر کا منظر دیکھ کر اس کی پلکیں حیرت سے جھپک گئیں۔
زیدان کے سارے کپڑے بکھرے ہوئے تھے —
کہیں قمیض ٹنگی تھی، کہیں پینٹ مڑی ہوئی پڑی،
اور کچھ کپڑے تو یوں لگ رہا تھا جیسے بس جلدی میں پھینک دیے گئے ہوں۔

آپ سارے کپڑے ایسے ہی رکھتے ہیں؟
کائنات زیدان کی طرف مُڑی ہلکے حیرت سے کہا

زیدان نے کندھے جھٹکے۔
نہیں… بھائی کی شادی کی وجہ سے الماری خراب ہو گئی ہے۔

تو سیٹنگ کیوں نہیں کروائی؟
ویسے، آپ نے تو اسوان بھائی کی شادی کا کوئی فنکشن اٹینڈ نہیں کیا…تو پھر… یہ ایسے کیسے ہوگیا؟

بھائی مصروف تھے، اسی لیے اُنہوں نے میری الماری سیٹ نہیں کی، اسی لیے یہ ایسے ہی پندرہ دن سے پڑی ہے۔

کائنات کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
آپ کی الماری… اسوان بھائی سیٹ کرتے ہیں؟

زیدان کے لبوں پر ہلکی سی سنجیدگی آئی۔
صرف الماری نہیں… پورا کمرہ،
میری ہر چیز وہی سنبھال کر رکھتے ہیں۔

کائنات نے بات سمجھنے کی کوشش کی۔
کیوں؟ گھر میں اتنی ملازمائیں ہیں، اُن سے کروا لیا کریں۔

زیدان نے سرد لہجہ میں کہا، نظریے ابھی بھی فون کی سکرین پر جمی تھی۔۔
نہیں… مجھے پسند نہیں کہ میری چیزوں کو کوئی دوسرا چھوئے۔

کائنات نے ذرا سا تبسم کیا،
عجیب بات ہے… اسوان بھائی تو خود اٹھا کر ایک گلاس پانی تک نہیں پیتے،
اور آپ کی خدمتِ  کرتے ہیں؟

زیدان نے لاپروائی سے کہا
ہاں… کیا کریں، اُن کی مجبوری ہے۔

کائنات نے بھنویں چڑھائیں۔
کیسی مجبوری؟

میں ہوں اُن کی مجبوری۔۔۔۔
جب اُن کے بھائی کو یہ نہیں پسند کے اُس کی چیزوں کو کوئی دوسرا ہاتھ لگائے۔۔۔ تو اب اُنہیں یہ سب کچھ کرنا پڑے گا نہ۔۔۔
میں تو اُن سے کہتا ہوں کہ مُجھے باہر بھیج دیں پھر اُن کو یہ سب نہیں کرنا پڑے گا لیکن وہ میری سنتے ہی نہیں تو اب بھگت رہے ہیں۔۔۔

کائنات لمحہ بھر کو چپ رہی۔
پھر دھیرے سے پلٹا گئی، الماری کے اندر کپڑوں کی سمت ہاتھ بڑھایا —
پھر جیسے اچانک رک گئی، اور پھر پلٹی زیدان کو دیکھا۔ پھر دھیرے سے بولا۔
میں تو چھو سکتی ہوں نا؟

زیدان چونک گیا،
کیا…؟

آپ کے کپڑے۔۔۔

زیدان نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔
اور کائنات پلٹ کر الماری ٹھیک کرنے لگی۔۔۔

++++++++++++

کمرے کا دروازہ ہلکی سی دستک کے ساتھ کھلا۔
اسوان آہستگی سے اندر داخل ہوا۔ سامنے کائنات آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔

سفید دوپٹے کے کنارے کو ترتیب دیتی، اپنی نظر خود سے ہٹائے بغیر بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑس رہی تھی۔
اور دوسری طرف — بستر پر زیدان، ہمیشہ کی طرح، الٹا لیٹا ہوا۔

زیدان، اُٹھو… اسوان نے ہلکی سی سنجیدگی سے کہا۔

زیدان اُٹھا ہوا ہی ہے، بولو… اس نے بغیر دیکھے، چہرہ تکیے میں دباتے ہوئے کہا۔

تیار ہو جاؤ، میرے ساتھ چلنا ہے۔

کہاں؟

میرے ولیمے میں…

زیدان نے چہرہ موڑ کر اُسے دیکھا.۔ پھر نگاہ آئینے کے پار کائنات پر ٹھہری۔ وہ بدستور مصروف تھی، جیسے ان دونوں کی باتیں اس کے لئے صرف ہوا کی سرسراہٹ ہوں۔

زیدان نے لمبی سانس لی، پھر مسکرا کر بولا،
میں تمہاری بیوی نہیں ہوں… اپنی بیوی کو لے جاؤ۔

اسوان نے تیکھے لہجے میں کہا، اُسے بھی ابھی پارلر سے لے کر ہال لے کر جانا ہے، ابھی تم اُٹھو..

میں نہیں جا رہا… زیدان نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔

زیدان ضد مت کرو…
اسوان نے سنجیدگی سے کہا

ایک تو ایسے ہی بول بول کر مجھ سے نکاح کروا کے یہ آفت میرے گلے ڈال دی، اب ولیمے میں جانے کے لیے بھی گھسیٹ رہے ہو۔۔۔
وہ ناگواری سے بولا۔۔

زیدان کے کائنات کو “آفت” کہنے کے بعد اسوان نے فوراً کائنات کی طرف دیکھا۔
مگر کائنات… جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
نہ چہرے پر کوئی تاثر، نہ پلکوں میں جنبش۔
عجیب بات تھی — جتنی بھی وہ اپنی تیاری میں مصروف تھی، پر اس کے کان تو کھلے تھے نہ، آواز یقیناً اس تک پہنچی ہوگی۔
پھر بھی… خاموش تھی۔۔

تم اپنی بیوی کو آفت کہہ رہے ہو؟ اسوان نے ہلکا سا بھنویں چڑھاتے ہوئے پوچھا۔

زیدان نے طنزیہ انداز میں کہا میری بیوی ہے، جو چاہوں کہوں۔

اسوان نے آہستگی سے اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی،
یہ سُن نہیں رہی کیا؟

سُن رہی ہے… زیدان نے نارمل انداز میں کائنات کو دیکھتے کہا

اسوان نے سرگوشی جاری رکھی۔۔۔
تو پھر کوئی ری ایکشن کیوں نہیں دے رہی؟

زیدان کی آنکھوں میں چمک ابھری،
ابھی سکون میں ہے… گھر والوں نے ابھی تک کچھ کہا نہیں ہے نا… تم بولو ذرا، پھر دیکھو۔۔۔۔

اچھا۔۔۔ اسوان نے سرگوشی کی۔۔ پھیر سیدھا کھڑا ہوا اور کائنات کی طرف دیکھا اور بولا، کائنات…

کائنات پلٹی۔۔۔
جی…

یہ بال کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تمہارے…
اسوان نے نارمل انداز میں کہا

مجھے آپ کا دماغ بھی کچھ ٹھیک نہیں لگتا۔ میں نے کچھ کہا؟
کمپلائمنٹ نہیں مانا تھا میں نے آپ سے، اپنے کام سے کام رکھیں، مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازے سے باہر نکل گئی۔

دروازہ بند ہوا، اور کمرے میں زیدان کی کھلکھلاہٹ گونج اٹھی۔

اسوان نے حیرت سے کہا، اسے کیا ہوا ہے؟ یہ ایسی تو نہیں تھی۔۔۔۔

زیدان نے مسکراتے ہوئے کہا
اس کے دماغ کا میٹر گھوم چکا ہے۔

کیوں؟ اس کے دماغ کو کیا ہُوا؟

مجھ سے شادی جو کروا دی تم سب نے۔ اب سب سے یہ ایسے ہی خفا رہتی ہے۔

اسوان نے لمبی سانس کھینچی، اُف… یہ تو مسئلہ ہو گیا…

کیا مسئلہ؟ بہت اچھا ہے! تم سب اِسی قابل ہو۔
اور ابھی تو رکو… یہ تو صرف شروعات ہے، کلائمکس تو ابھی باقی ہے۔۔۔۔

اسوان نے ناگواری سے ابرو چڑھائے، پھر تمہیں اس نے کیوں کچھ نہیں کہا؟

زیدان نے آنکھ مارتے ہوئے کہا، مسکراتے ہوئے کہا
میں اس کا شوہر ہوں نا… اسی لیے۔
اُس کا یہ روپ کوئی اور دیکھ لیتا تو شاید بے ہوش ہی ہوجاتا، لیکن اُس کا یہ روپ اسوان کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔

اسوان نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے، استغفراللہ! اپنے بڑے بھائی کو آنکھ مار رہے ہو؟ اپنا یہ چھپری پن اپنے پاس رکھو، مجھ سے دور رہو….

زیدان مسکرایا، یہ تو نہ ہو پائے گا ہم سے…

اسوان نے جھنجھلا کر کہا، بس! اُٹھ جاؤ، فوراً تیار ہو جاؤ اور نیچے پہنچو۔

زیدان نے مسکرا کر آنکھ بند کر لی،
ہاں ہاں میرا بغیر تو جیسے ولیمہ ہونا ہی نہیں، دلہن سے زیادہ میرے ہونا اہم ہے۔۔۔

++++++++++++++++

ولیمے کی تقریب پورے عروج پر تھی۔
روشنیوں سے سجا ہال، چہل پہل، قہقہوں کی بازگشت —
سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔

کائنات جب آئی تھی تو بالکل ٹھیک تھی،
مگر اب… بے حد پریشان دکھائی دے رہی تھی۔
ایک تو عائشہ بیگم نے پتہ نہیں کیسا بھاری جوڑا دے دیا تھا۔۔۔۔
اتنا بھاری کہ چلنا مشکل ہو رہا تھا،
اوپر سے ہال کے ہجوم، میں ہر کوئی اُسے آواز دے کر بلاتا،
تو کوئی دور سے ہاتھ ہلا کر کچھ پوچھتا۔
ہر نیا آنے والا اُسی سے اُس کا حال پوچھنے لگتا۔۔۔۔
جیسے ساری محفل میں بس وہی غیر معمولی تھی۔
کائنات کے دل میں عجیب سی تھکن سرایت کر گئی تھی۔
پتہ نہیں لوگوں کو میری خیریت کا اچانک سے اتنا خیال کیوں ہونے لگا ہے…
اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔

ادھر زیدان بھی، اسوان کے اصرار پر، ہال میں آ چکا تھا۔
اسٹیج کے ایک طرف لگے خصوصی صوفے پر وہ تنہا بیٹھا تھا۔
صوفے کے آگے شیشے کی میز تھی جس پر اُس نے اپنے جوتوں والے پاؤں رکھے ہوئے تھے۔
ہاتھ میں فون، نظریں اسکرین پر،
اور انداز ایسا کہ جیسے دنیا کی کسی شے سے کوئی تعلق نہ ہو۔

کوئی اُس کے برابر بیٹھنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔
نہ دائیں طرف رکھے صوفے پر کوئی تھا،
نہ بائیں طرف۔

اسٹیج کی دوسری جانب پریشے کی فیملی بیٹھی تھی۔
عائشہ بیگم اور راضیہ بیگم بھی وہیں تھیں۔
زینب بیگم اپنے میکے والوں کے ساتھ۔
اور بیچاری کائنات —
نہ کسی نے ساتھ بیٹھنے دیا، نہ بات کرنے کی فرصت ملی۔

اسی دوران ایک بچے نے آ کر اُس سے کہا،
زیدان بھائی آپ کو بلا رہے ہیں…

کائنات نے بغیر کچھ کہے سر ہلایا،
اور تھکے قدموں سے چلتی ہوئی زیدان کے پاس آ کر اُس کے برابر آبیٹھی۔
وہ اتنی تھک چکی تھی کہ نہ دائیں دیکھا نہ بائیں
بس سر پچھے کی طرف ٹکا کر گہری سانس لی۔

زیدان نے اُس کی طرف دیکھا۔
فون میز پر رکھا، پاؤں نیچے کیے، اور سنجیدگی سے بولا
کیا ہوا؟

کائنات نے خفگی سے کہا،
پتہ نہیں لوگوں کو کیا پریشانی ہے۔
ہر کوئی بلا بلا کر یہی پوچھتا ہے، ‘بیٹا، تم ٹھیک تو ہو؟
دور سے میں انھیں ٹھیک نہیں دکھتی کیا؟
پہلے گھر والے، اب رشتے دار…
سب کو اچانک میری فکر ہونے لگی ہے۔

زیدان نے چپ چاپ سنا، پھر بولا،
تو سیدھا ان کے منہ پر کہہ دیتی نا یہی بات۔

نہیں، میں کسی سے بدتمیزی نہیں کرتی۔

تو پھر میں کر لوں؟ زیدان نے اس کی طرف دیکھتے کہا

کائنات نے چونک کر پوچھا، کیا؟

بدتمیزی… ان سب سے؟

کائنات نے غصے سے اس کی طرف دیکھا،
آپ خاموش رہیں، آپ ہیں ہی بدتمیز۔۔۔۔
اور ایک بار پھر وہ غصے میں اس پر برس پڑی،
میں کہہ رہی ہوں، آخر اس سب سوالات کی کیا تُک بنتی ہے؟

زیدان نے سنجیدگی سے کہا،
تُک تو بنتی ہے…

کیا مطلب؟ وہ سر صوفے کے پیچھے ٹیک لگائے بولی۔۔

یہی کہ زیدان سے شادی کے بعد بھی تم ابھی تک ٹھیک ٹھاک چل پھر رہی ہو…

کائنات نے چونک کر سیدھی ہوئی اُس کی طرف دیکھا۔اور وہ تو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ٹکرائیں —
اور اگلے ہی پل، کائنات نے بوکھلا کر نظریں جھکا لیں۔

یہی بیٹھی رہو میرے ساتھ۔
کوئی تمہیں آواز نہیں دے گا، نہ ہی کوئی بلائے گا۔

کائنات نے خاموشی سے ہلکی سی ہاں میں سر ہلایا۔
آواز نہ نکلی، بس گردن نے اُس کی رضا کی گواہی دی۔

اور اگر کوئی بلائے بھی… تو اٹھنا مت۔۔۔
یہ کہہ کر اُس نے دوبارہ فون اٹھایا،
پیر دوبارہ شیشے کی میز پر رکھے،
اور ایک بار پھر دنیا سے بےنیاز ہو گیا۔

کائنات ہاں میں سر ہلاتی رہی۔
سچ تو یہ تھا کہ اب اُس میں چلنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔
یہ بھاری جوڑا، اونچی ہیلس، میں پر چل بھی بھی سکتی تھی۔۔۔ اسی لیے یہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔

پھر ایک گہری، سکون بھری سانس لی۔
آنکھیں چند لمحوں کے لیے بند کیں —

مگر… سکون کے وہ چند لمحے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے۔

جب اُس نے آنکھیں کھولیں،
تو نگاہ سیدھی ہال کے دروازے کی سمت جا ٹکی۔
ایک جوڑا اندر داخل ہو رہا تھا —
چمکتی روشنیوں کے درمیان،
ہنستی ہوئی چہرے، خوشی سے بھرپور قدم…

کائنات کا دل جیسے ایک دم سے بیٹھ گیا۔
سانس گلے میں اٹک گئی۔
آنکھوں کے سامنے سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوئے بھی
اچانک الجھا سا محسوس ہونے لگا۔

اُس کا دل کڑوا ہو گیا۔
ایک ان کہی تلخی اُس کے لبوں پر اُتر آئی۔
ساری خوشیاں، سارے رنگ،
ایک لمحے میں بوجھ بن گئے۔
اور وہ خود…
ایک بار پھر اپنی جگہ اجنبی محسوس کرنے لگی۔

سب کچھ چل رہا تھا —
مگر اُس کے اندر…
کچھ ٹوٹ سا گیا تھا۔۔۔

++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *