Mai Mera dil Or tum Ep 10 written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۰

باب سوم : چال ، پھندا

روشنی ہلکی تھی۔
مشینوں کی بیپ بیپ میں زندگی کی لہر بہہ رہی تھی۔
نہات کے آس پاس خاموشی تھی…
اور اس خاموشی میں ایک چہرہ بار بار آنکھوں کے پردے پر اُبھرتا، مٹتا تھا۔

آئره دروازے کے پاس کھڑی تھی، اُس کے چہرے پر احتیاط کا خول تھا، لیکن اندر اضطراب…

نہات کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔۔۔
مشین پر دل کی رفتار ایک دم بدلی، نرس فوراً قریب آئی۔
سر… پیشنٹ ریسپانڈ کر رہا ہے۔

چند لمحوں بعد… اُس نے آنکھیں کھولیں۔
دھند… ہلکی ہلکی روشنی… اور پھر چہرے… آہستہ آہستہ واضح ہونے لگے۔
یہ… کون؟ کہاں ہوں میں؟

نہات… شُکر ہے تمہیں ہوش آیا۔

نہات نے آنکھیں بند کیں۔ جیسے کچھ یاد آنے لگا ہو۔
چہرے پر ایک تکلیف بھری لہر آئی۔

++++++++++++++++

ریپر کا نیا وار امن کی سیاسی پارٹی کے وہ تمام سرکردہ لوگ، اسپانسرز، اور حمایتی—
جن کے دم پر امن کا جھنڈا بلند تھا۔
اگلی صبح— الگ الگ لوکیشنز
ایک سیاستدان کی گاڑی میں۔۔۔
کار اسٹارٹ کرتے ہی، ڈیش بورڈ پر ایک چھوٹا سا لفافہ رکھا ملا۔
لفافے میں ایک چھوٹی سی تصویر — اُس کے بیٹے کی اسکول سے نکلتے وقت کی، نیچے صرف ایک
لائن اگلی بار وہ اسکول واپس نہیں آئے گا… امن سے فاصلہ رکھو۔
دوسرے سیاستدان کے دفتر میں
ای میل آئی — کوئی اَن ناؤن ایڈریس۔
Subject: “Next”
ای میل میں ایک ویڈیو کلپ تھی — چند سیکنڈز کی، جس میں اس کا اپنا گھر چھت سے فلمایا گیا ہے۔
پارٹی کا ایک مرکزی فنانسر (Investor):
اُسے اُس کی فیکٹری کی CCTV فوٹیج پر ایک سایا نظر آیا۔۔
اور پھر ایک پیغام۔۔۔
سرمایہ بچانا چاہتے ہو؟ امن سے تعلق ختم کرو۔

++++++++++++

دوپہر ڈھل چکی تھی۔
اور دروازے کے پار کھڑی انیسہ بیگم، نم آنکھوں سے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔
نہات وہی تھا… مگر پھر بھی کچھ بدلا ہوا۔
چہرہ زرد، کندھے جھکے ہوئے، بوجھل آنکھیں…
انیسہ بیگم دو قدم آگے بڑھیں،
میرا بچہ…

انھوں نے اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
نہات نے پہلی بار نظر اُٹھا کر انیسہ بیگم کو دیکھا
اور بس ایک دھیمی سی مسکراہٹ دی،

امل دوڑ کر آئی،
بھائی… کیسے ہو؟ درد تو نہیں ہو رہا؟

نہیں… میں بلکل ٹھیک ہوں

آپ لوگ اس کا خیال رکھ لیں گی نا؟
امن نے آہستہ سے پوچھا، جیسے ایک ذمہ داری کسی اور کے کندھے پر منتقل کر رہا ہو۔

ہاں ہاں، امل نے فوراً کہا، آواز میں محبت تھی، مگر آنکھوں میں ایک دھندلی سی فکر۔
ہم نہیں رکھیں گے تو اور کون رکھے گا اُس کا خیال؟ ان کے گھر میں تو ویسے بھی کوئی نہیں ہے ان کا خیال رکھنے والا

انیسہ بیگم نے نہات کا بازو تھام کر اُسے صوفے پر بٹھایا۔
گولی سینے میں لگی تھی… خطرہ شدید تھا، مگر اللہ کا کرم تھا کہ جان بچ گئی۔

ہاں، اسی لیے تو اسے میں یہاں لے آیا… ورنہ یہ تو اپنے گھر جانے کی ضد کر رہا تھا، امن نے دھیمے سے کہا اُس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے…
اور قمیض پر شکنیں بتا رہی تھیں کہ وہ دو دنوں سے ہسپتال میں تھا۔ نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ جذباتی طور پر بھی اُسی وارڈ کے در و دیوار میں قید رہا۔

دوست کی خدمت ہوگئی ہو تو… پارٹی پر بھی دھیان دے دو،
افتخار صاحب کی آواز میں وہی ٹھہرا ہوا جبر تھا، جو برسوں کی سیاست نے اُن کے لہجے میں بسا دیا تھا۔
صرف چار دن رہ گئے ہیں الیکشن ہونے میں۔

امن نے آہستہ، مگر پُر اعتماد لہجے میں کہا
مجھے معلوم ہے، دادا۔
وہ صوفے پر بیٹھا تھا، نگاہیں نہات پر، مگر آواز سیدھی افتخار صاحب تک جا رہی تھی۔
لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جو دوست خون بہا کر میرے ساتھ کھڑا ہے…
اس کا ہاتھ تھامے بغیر، اسٹیج پر کھڑا ہونا میرے لیے سیاست نہیں… بے وفائی ہوگی۔

افتخار صاحب نے کچھ پل اُسے دیکھا۔
چشمے کے پیچھے آنکھیں سخت تھیں،
اور اگر تمھاری یہ وفاداری ہمیں ہارا دے تو؟

امن نے پلکیں جھپکائیں، پھر آہستہ سے کہا
تو میں وہ ہار قبول کر لوں گا… لیکن دوستی کو ہارنے نہیں دونگا۔۔۔

اب جیلس مت ہوئیے گا، افتخار صاحب۔
نہات نے مُسکرا کر افتخار صاحب کی طرف دیکھا،
جس پر افتخار صاحب جل بھن کر رہ گئے۔

میں؟ جیلس؟ تم جیسے بچوں سے؟ اتنے برے دن نہیں ائے ابھی میرے۔۔۔ وہ زیرِ لب بڑبڑائے۔

امن نے نظریں نیچی کیں تاکہ ہنسی چھپ سکے،
امل نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی،
جبکہ انیسہ بیگم نے مسکرا کر تسبیح گھمانا جاری رکھا۔

جیلس نہیں تو پھر یہ ماتھے کی رگ کیوں پھڑک رہی ہے، افتخار صاحب؟
نہات نے شرارت سے کہا اور آہستہ آہستہ انیسہ بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا،

افتخار صاحب کا چہرہ غصے اور لاچاری کا عجیب امتزاج بن گیا۔
امن! یہ بدتمیزی کر رہا ہے ہم سے، کچھ کہو اِسے!

امن نے بے نیازی سے کہا،
دادا، بیمار ہے… معاف کر دیں۔
ویسے بھی… زبان سے نہیں، گولی سے زیادہ مار کھا چکا ہے۔

کمرے میں ہلکی ہنسی کی لہر دوڑ گئی۔
افتخار صاحب نے چہرہ موڑ لیا
مگر سب جانتے تھے… وہ اندر ہی اندر جل رہے تھے۔

++++++++++++++

کمرۂ میٹنگ، دن کے 11 بجے
کمرہ مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ تھا، مگر ماحول میں ایک عجیب سی گھٹن تھی۔
امن بالکل تیار، نیوی بلیو کوٹ پینٹ، سفید شرٹ، اور کلائی میں وہی سادہ گھڑی…
چہرے پر ہلکی سی تازگی، مگر آنکھوں میں وہی پرانی تھکن۔
دو دن کی نیند اور دو دن کا سکوت… اب الفاظ کا وقت تھا۔
وہ میز کے صدر مقام پر بیٹھا،
ارد گرد پارٹی کے تمام اہم عہدیدار موجود تھے،
مگر آج اُن کے چہروں پر وہ روایتی اعتماد نہیں تھا۔
چند لمحے خاموشی رہی،
پھر سب سے پرانا اور تجربہ کار رکن انور ندیم بول اٹھا۔
امن، ہم میں سے پانچ لوگوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم سیاست چھوڑ رہے ہیں۔

کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
امن نے نظریں گھما کر سب کو دیکھا—
پانچ چہرے جھکے ہوئے تھے۔

کیا ہوا؟ کوئی وجہ تو ہوگی؟
امن کی آواز میں حیرت کم، سنجیدگی زیادہ تھی۔

دھمکیاں مل رہی ہیں، کھلے عام۔
ہماری فیملیز ٹارگٹ ہو رہی ہیں۔
ریپر کا اگلا وار ہم میں سے کسی پر بھی ہو سکتا ہے۔

ایک ایک کر کے سب بولنے لگے۔
کسی نے کہا فون کالز آ رہی ہیں، کسی نے کہا گاڑی فالو کی گئی ہے،
کسی کے بچوں کی تصاویر دروازے پر پھینکی گئی ہیں۔
امن نے آنکھیں بند کیں…
پھر آہستہ سے بولا
ڈرانا… یہی تو چاہتا ہے وہ۔
اگر ہم آج پیچھے ہٹ گئے،
تو کل کوئی اور کھڑا نہیں ہوگا۔
یہ سیاست نہیں، جہاد ہے— اپنے ملک کو اندر سے بچانے کا۔

انور ندیم نے گہری سانس لی،
ہم آپ کے جذبے کو سمجھتے ہیں، امن…
مگر ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائیں۔

امن خاموشی سے سر جھکائے سب کی بات سنتا رہا
پھر آہستہ سے بولا
ٹھیک ہے۔
آپ جا سکتے ہیں۔
لیکن یاد رکھیے گا…
یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی۔
اور میں، اکیلا سہی، یہ لڑائی لڑوں گا۔

+++++++++++++

گھر کے اُس مخصوص حصے میں ہلکی مدھم روشنی تھی۔
نہات سوفے پر بیٹھا تھا، دوائیں وقت پر کھا چکا تھا۔
سینہ اب بھی کبھی کبھار دکھتا تھا، مگر آنکھوں میں پہلے جیسی چمک لوٹنے لگی تھی۔
امن دروازے کے کنارے کچھ دیر کھڑا رہا… پھر خاموشی سے اندر آیا۔
نہات نے مسکرا کر کہا
آگئے؟ آج کے غداروں کی کونسل ختم ہو گئی؟

امن نے ہلکا سا ہنسا، پھر آہستہ آ کر نہات کے سامنے بیٹھ گیا۔
پانچ لوگ چھوڑ کر چلے گئے…
پانچ وہ، جو دعویٰ کرتے تھے کہ میرا سایہ ہیں۔
اور آج، ایک سایہ بھی ساتھ کھڑا نہ رہا…

نہات نے آہستہ سے کہا
لیکن میں کھڑا ہوں۔ زخمی ضرور ہوں، مگر ٹوٹا نہیں۔

امن نے سر جھکا کر کہا
یہی بات تو ڈراتی ہے نہات…
میں نہیں چاہتا کہ جو میرے ساتھ رہے، وہ قربان ہو۔

تو کیا اب رک جاؤ گے؟ نہات نے پوچھا

نہیں… رکنا نہیں چاہتا۔۔۔ میرا دل نہیں مانتا اگر میں سیاست بنا کوششں کیے چھوڑ دوں، اگر میں کراچی میں امن نہیں لاسکا، تو میں پھر جی نہیں سکو گا۔۔۔

نہات نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
پھر کیوں گھبرا رہے ہو، لڑو جو جا رہے جانے دو،
ایک دفعہ الیکشن جیت گئے ہم، تو سب کچھ تو ویسے ہی ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔

امن یہ سنے کے بعد خاموشی ہوگیا نہ آنکھوں میں اُس کے کوئی تاثر تھا نہ چہرے میں لیکن نہات جانتا تھا۔۔۔ پھر نہات نے مسکراتے ہوئے کہا
اگلی بار ریپر اگر مجھ پر دوبارہ حملہ کرے، تو یاد رکھنا…
میں بھی گولی کھا لوں گا، مگر گرنے نہیں دوں گا تمہیں۔

امن نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
بس تم رہو… باقی سب مینج ہو جائے گا۔
جو دنیا کے سامنے مضبوط نظر آتا تھا—
سہارا دینے والا، گرنے سے بچانے والا، ہر طوفان میں سب کا ہاتھ تھامنے والا۔
چہرے پر ہمیشہ ایک ٹھہرا ہوا سکون، ایک غیر متزلزل اعتماد۔
ایسا کہ جیسے کچھ بھی ہو جائے، وہ ہلے گا نہیں۔
جیسے زندگی کے کسی زخم نے اُسے کبھی چھوا ہی نہ ہو۔
جیسے ہر درد اس کے لمس سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہو۔
مگر وہ…
اپنی کمزوری کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔
نہ آنکھ سے، نہ آواز سے، نہ لفظوں سے۔
کیونکہ اُسے معلوم تھا—
اگر وہ ٹوٹ گیا،
تو بہت سے لوگ بکھر جائیں گے۔
اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں نا…
جنہیں رونا بھی اجازت سے پڑتا ہے۔۔۔

اسی لمحے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
امن نے چونک کر گردن موڑی—
اور یُسرٰی اندر داخل ہوئی۔
ہاتھ میں سادہ سفید ٹرے،
جس میں ایک پیالہ دھواں دیتا سوپ رکھا تھا۔
چہرے پر خاموش سی مسکراہٹ لیا
وہ میں سوپ لے کر آئی ہوں۔

نہات نے ایک بھنویں اُچکائی،
سوپ کیوں؟

دادی جان نے کہا ہے آپ کو سوپ دے آؤں…

دادی جان؟ واہ بھئی واہ… آج تک کسی اور كو تو دادی کو دادی جان کہتے نہیں سُنا… دادی کو دادی جان تو ہم بھی نہیں کہتے۔۔

یُسرٰی کی نگاہ جھک گئی،
مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولی
وہ… میں دادی جان کو بہت پسند ہوں نا…

نہات نے اس کی طرف دیکھا،
تو اس میں مسکرانے والی کون سی بات تھی؟

اب اِس کے پیچھے مت پڑ جانا، تُم لاو اِدھر اُسے سوپ دے دو۔ امن نے  نہات کو سمجھتے یسریٰ کی طرف دیکھ کر کہا

ہاں…
وہ سوپ کا باؤل نہات کو پکڑانے کے بعد جانے کے لیے مُڑی ہی تھی کہ رُک کر مُسکرا کر بولی
اور کچھ چاہیے؟

ہاں۔ نہات نے کہا

کیا؟

جواب۔

کون سا جواب؟

وہی… اُس پر مسکرانے والی کون سی بات تھی؟

جانے دو ناں، کیوں تنگ کر رہے ہو اِسے… امن نے نہات کو ٹوکا

نہات نے معصومیت سے کندھے اچکا کر کہا
میں کب روک رہا ہوں؟ میں تو بس جواب مانگ رہا ہوں…

آپ دادی جان سے پوچھ لیں۔ یُسرٰی نے معصومیت سے کہا اور دروازے سے نکل گئی۔

تمہیں کیا مزا ملتا ہے لڑکیوں کو تنگ کرنے میں؟
امن نے اسے گھورتے ہوئے کہا،

نہات نے آنکھوں میں شرارت لیے، بے ساختہ انداز میں کہا،
لڑکیوں کو نہیں، معصوم لڑکیوں کو تنگ کرنے میں مزا آتا ہے۔
(نہات ایسی باتیں بھی کرتا تھا اگر اُس کے ساتھ کام کرنے والے یہ دیکھ لیتے تو یقین نہیں کرتے)

امن نرمی سے بولا
تو پھر کر لو کسی معصوم لڑکی سے شادی… ساری زندگی یونہی تنگ کرتے رہنا۔
بظاہر یہ دو دوستوں کے بیچ عام سے گفتگو ہوگی لیکن ان کے بیچ نہیں تھی،
امن یہ بات بہت سنجیدگی سے کی تھی اُسے نہات کا اکیلا پن برداشت نہیں ہوتا تھا۔۔۔

نہات ہنسا،
اس جنم میں تو نہ ہو پائے گا…

امن نے سنجیدگی سے اُس کی طرف دیکھا۔
کیوں؟ کیا کمی ہے تم میں؟
تم جس لڑکی پر ہاتھ رکھو گے… وہ تمہاری ہو جائے گی۔

اپنا حال نہ سنائیں حضور۔
یہ بات تو آپ پر فٹ بیٹھتی ہے۔
امن حنان جس لڑکی پر ہاتھ رکھے گا، وہ اُس کی ہو جائے گی۔
آپ پر تو پورا کراچی مرتا ہے حضور۔
وہ ابھی بھی مذاق کے موڈ میں تھا۔

امن نے گہری سانس لی۔
میں اپنی نہیں، تمہاری بات کر رہا ہوں…
میرا وقت جب آئے گا، میں شادی کر لوں گا۔

نہات نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا،
کیا اب کون سا وقت آئے گا؟ بڈھے ہو گئے ہو حضور۔

تو بڈھی سے شادی کر لوں گا۔ امن نے عام انداز میں کہا

کیا مطلب ہے آپ کا؟ آپ ساری جوان لڑکیوں کا دل توڑ دیں گے؟

امن نے سنجیدہ ہو کر کہا
نہات… میں کہہ رہا ہوں، شادی کر لو۔

اس دنیا میں میرا جوڑا نہیں بنا حضور،
میری شادی تو اب سیدھا جنت میں ہی ہو گی۔

کرلو شادی نہات، اکیلے رہتے ہو تم۔ ایک بیوی آجائے گی تو وہ خیال رکھے گی تمہارا۔
امن نے سنجیدگی سے کہا

نہات نے مسکرا کر کہا،
تم ہو نہ… میرا خیال رکھنے کے لیے؟

مسئلہ کیا ہے شادی کرنے میں؟

مسئلہ یہ ہے کہ کوئی تم جیسی وائف میٹریل نہیں ملتی…
آج کل کی لڑکیاں گولڈ ڈگرز ہیں۔

شادی نہیں کرنی، مت کرو…
لیکن ساری لڑکیوں کی توہین مت کرو،
سب ایک جیسی نہیں ہوتیں۔
امن نے سنجیدگی سے کہا

اوکے… نہیں کر رہا شادی۔
وہ لاپروائی سے بولتا سوپ پینے لگا۔۔۔

نہات… میں کب تک تمہارے پیچھے اکیلا لگا رہوں گا؟ کر لو شادی… میرے لیے ہی سہی۔

نہات کی مسکراہٹ ہلکی پڑ گئی۔
جیسے ہی کوئی تم جیسی لڑکی ملی، فوراً کر لوں گا۔

کسی بھی معصوم لڑکی سے شادی کر لو…
وہ میری طرح ہی تمہارا خیال رکھے گی۔

نہات کی آواز دھیمی پڑ گئی۔
کیا لگتا ہے تمہیں؟
کوئی بھی لڑکی…
میرا اتنا دھیان رکھ سکتی ہے…؟
ایسی، جو میں کہوں ‘جاؤ’…
تو وہ آ جائے۔
میں کہوں ‘مجھے تمہاری ضرورت نہیں’…
تو وہ پھر بھی پاس رہے۔
میں بیمار ہوں اور کہوں ‘میں ٹھیک ہوں’…
تو وہ سمجھ جائے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔
ایسی… جو میری آنکھیں پڑھ لے، میرے بنا کہے۔

امن نے سنجیدگی سے نہات کی بات سنی پھر بولا
چلو، میں ڈھونڈتا ہوں کوئی سائیکولوجسٹ لڑکی تُمہارے لیے، جو تمہارا دماغ پڑھ سکے۔۔۔

نہات سنجیدہ ہو گیا۔
یار… سیریسلی؟
تم مذاق سمجھ رہے ہو؟

ہاں۔۔ میں سمجھ گیا ہوں تمہاری بات…
تم سائیکولوجسٹ ہی چاہتے ہو، جو بنا بولے تمہاری بات سمجھ جائے، جو تمہارا دماغ پڑھ لے۔

او بھائی، ایسا کب کہا میں نے؟ تم نے ہزار کتابیں پڑھ لی ہیں لیکن محبت کے معاملے میں بالکل پھوار ہو۔
This… this is called love.

امن کی آنکھوں میں وہ ٹھہری ہوئی سنجیدگی تھی،
دیکھو، یہ جو تم ‘لوو’ کی بات کر رہے ہو نا… یہ سب کتابوں میں اچھا لگتا ہے، حقیقت میں نہیں۔
ریئل لائف میں اگر تم کسی سے کہو گے کہ چلے جاؤ — تو وہ چلا جائے گا۔
اگر تم کہو گے کہ تم ٹھیک ہو — تو وہ سمجھے گا تم واقعی ٹھیک ہو۔
کیونکہ لوگ لفظ سنتے ہیں، دل نہیں پڑھتے۔
وہ صرف وہی دیکھتے ہیں جو تم دکھاتے ہو، وہی سمجھتے ہیں جو تم کہتے ہو۔
اگر تم اندر سے ٹوٹ رہے ہو، لیکن چہرے پر مسکراہٹ ہے… تو دنیا یہی مانے گی کہ تم خوش ہو۔

جاؤ یار… سارا موڈ خراب کر دیا۔
سمجھ گیا… میں محبت کے معاملے میں بہت پھوار ہوں تم۔
نہات نے جلدی سے اپنا سوپ ختم کیا، خالی پیالہ سائیڈ پر رکھا اور چپ چاپ کمبل میں سمٹ گیا۔
امن اُسے دیکھ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ باہر نکل گیا۔

+++++++++++

امن فریش ہو کر جب واش روم سے نکلا، تو اچانک میڈیا کی چیختی سرخیاں اُس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔
جبار کی ویڈیو… جو ابھی تک اپلوڈ نہیں ہوئی تھی۔
رؤف صاحب کی موت… جس کی کوئی خبر نہیں آ رہی تھی۔

یہ سب ایک لمحے میں اُسے یاد آیا۔
وہ گھبرا کر فوراً فون کی طرف لپکا۔

نیوز ایپس اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ اُس اور نہات پر حملے کی خبریں چھائی ہوئی تھیں۔
پھر اُس نے ایک پچھلی خبر کھولی —
جبار کی ویڈیو کسی اَن نون آئی ڈی سے اپلوڈ ہو چکی تھی۔

ویڈیو نے سب سچ واضح کر دیا تھا۔
امن پر لگے الزامات ختم ہو چکے تھے،
اور میڈیا میں اب اُس کی صفائی کے چرچے ہو رہے تھے۔
رؤف صاحب کی موت کو پولیس خودکشی قرار دے رہی تھی۔

امن بس خاموشی سے، خالی نظروں سے اس اسکرین کو دیکھتا رہا،
جہاں اُس کی زندگی لمحوں میں بدل رہی تھی۔۔
بغیر اُس سے پوچھے۔
وہ حیرانی اور الجھن کے بیچ کھڑا تھا۔
میں نے تو جبار کی ویڈیو اپلوڈ نہیں کی… تو پھر… یہ کس نے؟
وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔

دماغ possibilities میں الجھنے لگا۔

کیا جبار نے خود اپلوڈ کی؟
پھر فوراً نفی میں سر ہلایا،
ہاں، اُس نے ہی کیا ہوگا… کیونکہ جبار اور میرے علاوہ اس ویڈیو کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا۔

پھر اُس نے جلدی سے جبار کو ایک میسج لکھا۔۔
تھنک یو
اور سینڈ کر دیا۔

لیکن اگلے ہی لمحے ایک اور خیال اُس کے دماغ میں بجلی کی طرح کوندا۔۔۔
رؤف صاحب؟ افسر ظفر تو اِس کو دھمکیاں دے کر گیا تھا…

امن کا دل دھڑکنے لگا۔
وہ لمحہ بھر کو ساکت ہوا، پھر جیسے کچھ یاد آ گیا۔۔۔ دادا…؟

وہ دوڑتا ہوا کمرے سے نکلا۔
دادا…؟ دادا…؟

انیسہ بیگم نے اُسے اس طرح پکارے سنا تو کچن سے باہر آئیں۔
اے، کیا ہوا امن؟

امن سیدھا اُن کے قریب پہنچا،
دادا کہاں ہیں؟

وہ تو ابھی گھر پر نہیں ہیں۔

کب آئیں گے؟

کل…

کل کیوں؟

ارے، اپنے بھائی کے گھر گئے ہیں نا کچھ دیر کو۔۔۔

امن نے جیب سے فون نکالا، ایک جھٹکے میں کان سے لگایا۔ دو بیپ، اور کال ریسیو ہو گئی۔

کہاں ہیں آپ؟ فوراً گھر آئیں۔

خیریت؟ ہم بختیار کے گھر ہیں، کیا ہوا؟

دادا، مجھے آپ سے فوری بات کرنی ہے۔

تو تم خود آ جاؤ یہاں، بات کر لینا۔

امن نے تھوڑی دیر خاموشی اختیار کی، پھر بولا
ٹھیک ہے، میں آ رہا ہوں۔

انیسہ بیگم نے گھبرا کر کہا،
اے، کیا ہوا؟ کل بات کر لینا اُن سے۔۔۔

امن نے اُنہیں دیکھا، اُس کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا۔
دادی، مُجھے ابھی اسی وقت دادا سے بات کرنی ہے۔
بس آپ دعا کیجیے کہ میں جو سوچ رہا ہوں، وہ غلط ہو…
نہیں تو بہت بُرا ہو جائے گا۔

وہ بس اتنا کہہ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
انیسہ بیگم ہکا بکا اُسے جاتے دیکھتی رہ گئیں۔

باہر نکلا تو گیٹ پر موجود گارڈز فوراً الرٹ ہوگئے۔
سر، آپ کو کہیں جانا ہے؟ میں پرسنل سیکیورٹی کو کال کر دوں؟

امن نے تیز قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے کہا،
نہیں، تم سب ہو نا؟ کافی ہو۔
بس جلدی گاڑی نکالو… اور چلو۔

گارڈ نے فوراً گاڑی کی چابی گھمائی، دروازہ کھولا۔
امن اگلی سیٹ پر بیٹھا، اور گاڑی گیٹ سے نکلتی گئی۔

++++++++++

گاڑی رات کے سنّاٹے میں اندھیرے راستوں پر برق رفتاری سے جا رہی تھی۔ امن کی آنکھیں سڑک پر مرکوز تھیں، دماغ افتخار صاحب تک پہنچنے کی بےچینی میں الجھا ہوا تھا۔
اچانک، ایک موڑ پر جیسے سناٹا چیخ اُٹھا۔
ٹھاہ۔۔۔۔۔
ایک زور دار آواز کے ساتھ دائیں طرف کی کھڑکی لرز اُٹھی۔ گاڑی جھٹکے سے لڑکھڑائی۔

سر! کسی نے فائر کیا ہے۔۔۔ ڈرائیور نے چیخ کر کہا۔
پھر ایک کے بعد ایک…
تڑ تڑ تڑ تڑ۔۔۔۔۔
گولیاں چلنے لگیں۔ گاڑی کے پچھلے شیشے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے۔ ایک گولی ڈرائیور کے بازو کو چھوتی ہوئی نکل گئی — وہ درد سے کراہا مگر گاڑی پر گرفت مضبوط رکھی۔

نیچے ہو جاؤ سر۔۔۔۔ ایک سیکیورٹی گارڈ نے امن کو ڈھانپتے ہوئے فائرنگ کا جواب دینا شروع کیا۔
گاڑی اب زِگ زیگ میں دوڑ رہی تھی، ایک اور فائر  گولی سیدھی فرنٹ ٹائر میں لگی۔
فِس سس… پھاڑ۔۔۔۔
گاڑی اسپن ہوئی، کنٹرول کھو بیٹھ گئی، اور زور سے ایک درخت سے ٹکرا گئی۔
سناٹا۔
دھواں۔
خون

امن نے زخمی حالت میں بمشکل آنکھ کھولی، ہر طرف دھند تھی۔
ایک سایہ اُس کے قریب آیا — چہرہ نہیں دکھا، بس آواز آئی
قانون؟ انصاف؟
یہ سب کتابوں میں ہوتا ہے، امن…
اصل دنیا میں بس طاقت چلتی ہے…
اور تم نے غلط لوگوں سے ٹکراؤ لے لیا۔۔۔۔

اچانک امن کی آنکھوں کے سامنے منظر دھندلا ہونے لگا۔ کچھ تھا جو اسے یاد آ رہا تھا… کچھ بہت پرانا… اور بہت خونی۔

وہی خاموشی… وہی سنّاٹا۔
وہی تاریک رات، جب وہ کار کی پچھلی سیٹ پر وہ خاموش بیٹھا تھا۔

ڈرائیونگ سیٹ پر مرتضیٰ صاحب تھے، چہرے پر ہمیشہ کی طرح پُرسکون تاثرات۔
ان کے ساتھ والی نشست پر کلثوم بیگم بیٹھی تھیں۔
گاڑی کے پیچھے سکیورٹی کی دو جیپیں… سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔

تبھی جیسے موت نے رخ موڑا۔

پہلا فائر —
ٹھاہ
گولی مرتضیٰ صاحب کے بازو کو چھوتی ہوئی نکلی۔
وہ کراہے، مگر اسٹیئرنگ پر گرفت مضبوط رکھی۔

گاڑی ہچکولے کھاتی آگے بڑھی۔
پھر ایک اور فائر —
اس بار نشانہ ٹائر تھا۔

فِسسس… پھاڑ
گاڑی اسپن ہوئی، اسٹیئرنگ بے قابو… اور لمحے بعد درخت سے ٹکرا گئی۔

دھواں… خون… سناٹا۔

مرتضیٰ صاحب نیم بیہوش، کلثوم بیگم کی پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔
امن — پچھلی سیٹ کے نیچے جھکا ہوا — مکمل خاموشی میں چھپا تھا۔

پھر ایک سایہ…
گاڑی کی طرف بڑھتا ہوا، جیسے موت خود چل کر آئی ہو۔

دروازہ کھلا —
ایک شخص، سیاہ کپڑوں میں ملبوس، چہرے پر نقاب۔
وہ مرتضیٰ صاحب کے قریب رکا، جھکا، اور آہستہ سے بولا
قانون؟ انصاف؟
یہ سب کتابوں میں اچھا لگتا ہے، مرتضٰی۔
اصل دنیا میں صرف ایک چیز چلتی ہے — طاقت۔
اور تم نے غلط لوگوں سے ٹکر لی ہے…

امن کی سانس جیسے سینے میں اٹک گئی۔
وہ لمحہ… اُس رات کی چیخ… وہ خون…
سب کچھ واپس آ رہا تھا۔

پھر اُس شخص کی نظر امن پر گئی۔
وہ چونکا — مگر ہل نہ سکا۔

پھر اُس نے امن کی گردن ایک جھٹکے سے موڑی،
اُسے گاڑی سے باہر نکالا…
اور زمین پر پٹخ دیا۔

امن نے بمشکل ہوش سنبھالا،
مگر اُس کے ہاتھ، پیر کپکپا رہے تھے۔

وہ شخص گاڑی کی طرف پلٹا،
اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی بوتل نکالی۔۔۔
مائع گاڑی کے فرش اور سیٹوں پر چھڑکا،
پھر لائٹر جلایا۔
فشششش… بھاااااڑ۔۔۔۔

شعلے بھڑک اٹھے۔
اندر دھواں، کراہیں، اور موت کی بو پھیل گئی۔

امن نے چیخ کر کہا
پاپا۔۔۔ ماما۔۔۔۔

وہ شخص… خاموش کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔
امن چیختا، تڑپتا، زمین پر رینگتا۔۔۔
مگر اُس کے بازو پر اُس شخص کی گرفت مضبوط تھی،
جیسے وہ اُسے مرنے بھی نہ دے،
بس جلتی ہوئی حقیقت دکھاتا رہے۔

پھر وہ اُس کے کان کے قریب جھک کر بولا
اب اگر زندہ بچ گئے… تو صرف اپنے نصیب سے۔۔۔۔

امن رو رہا تھا، تڑپ رہا تھا،
کار کے اندر جانا چاہتا تھا، اپنے پاپا ماما کو بچانا چاہتا تھا —
مگر وہ ہاتھ… وہ گرفت…
اُسے بس زندہ رہنے کی سزا دے رہی تھی۔

امن کو لگا وقت نے خود کو دہرایا ہے…
نہیں، وقت نہیں، ظلم نے خود کو دہرایا ہے۔
وہی رات، وہی سڑک، وہی چیخیں…
بس اس بار گاڑی جلتی آنکھوں کے سامنے تھی
اور دل، ایک بار پھر راکھ ہو رہا تھا۔
امن کی سانس جیسے رکنے لگی —
آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں، جسم لرز رہا تھا،
مگر زبان ساکت تھی…
صرف دل دھڑک رہا تھا، تیز، بے قابو،
جیسے سینہ پھاڑ کر باہر آ جائے گا۔
پاپا…
وہ بےآواز چیخا۔
ماما…
آنسو آنکھوں سے نہیں، روح سے بہہ رہے تھے۔
آگ، اُس کی یادوں کو کھا رہی تھی…
وہ رات…
جب وہ پچھلی سیٹ کے نیچے چھپا تھا۔
خون سے لت پت ماں…
بازو میں گولی کھائے باپ…
اور ایک سیاہ سایہ — جو اُس کی پوری دنیا نگل گیا تھا۔
اب، بیس سال بعد،
وہی سایہ، اُسے پھر سے جلتی ہوئی حقیقت دکھا رہا تھا۔
وہ شخص جو اُس کے بازو کو جکڑے کھڑا تھا،
بس اتنا بولا،
اب اگر زندہ بچ گئے… تو صرف اپنے نصیب سے۔۔۔
امن کی ٹانگیں زمین پر تھیں، مگر دل — دل بھسم ہو چکا تھا۔

اس نے آگ کی روشنی میں اُس سائے کا کالر دبوچا
زخمی جسم، کپکپاتے ہاتھ، خون میں لتھڑا چہرہ
مگر آنکھوں میں… غصّہ
میں… میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔۔۔۔
اُس کی آواز گھٹی ہوئی تھی، چیخ جیسی، زخم جیسی… وہ خود پر قابو نہیں رکھ پا رہا تھا۔

اور اُس کے سامنے کھڑا شخص…
بس ہلکا سا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
ایسی مسکراہٹ، جیسے وہ سب کچھ جانتا ہو… اور کچھ بھی محسوس نہ کرتا ہو۔
تمہارے اندر واقعی اتنی ہمت ہے…
وہ آہستہ بولا،
کہ تم اپنے ماں باپ کے قاتل کا گریبان پکڑ سکو؟
امن کی آنکھوں میں جیسے کوئی پرانا زخم پھر سے رسنے لگا۔
تم نے کیوں مارا انہیں…؟
کیا بگاڑا تھا میرے ماں باپ نے…؟
اس کی آواز ٹوٹ گئی تھی۔
کیا غلط کیا تھا انہوں نے…؟  میرے پاپا کو تو سیاست سے بھی سخت نفرت تھی۔۔۔۔

اور پھر، ایک جملہ…
ایسا جملہ جو اُس کے وجود کو جھنجھوڑ گیا۔۔
کس نے کہا تمہیں… کہ ریپر نے تمہارے والدین کو مارا؟
وقت جیسے لمحہ بھر کو رک گیا۔
ہوا تھم گئی۔
امن کی گرفت ڈھیلی پڑی۔
اُس کے ہونٹ کھلے… مگر الفاظ نہیں نکلے۔
تو… تو پھر… کس نے…؟
امن کا جملہ ابھی مکمل بھی نہ ہو پایا تھا…
تبھی…
ایک تیز سا درد اس کے بازو میں اُترا —
ریپر نے ایک انجیکشن اُس کی رگ میں اتار دیا تھا۔
ساری دنیا گھومنے لگی…
تو… کس… نے… مارا…
جملہ ہوا میں معلق رہ گیا،
اور امن… نیم بے ہوشی کی حالت میں اُس سائے کے کندھے پر گر گیا۔
سناٹا…
فقط دور جلتی کار کی آگ کا شور باقی تھا…
اور ریپر کی آواز۔۔۔۔
تم مرو گے… مگر مرنے سے پہلے، میں تمہیں توڑوں گا۔
ذہن سے… یادداشت سے… یقین سے۔
تم بچو گے تو بس اپنے نصیب سے۔
یا شاید… تم مر جاؤ، اپنے ہی سوالوں میں۔۔۔

++++++++++++++++++

امن کی پلکیں دھیرے دھیرے کھلیں۔
روشنی ہلکی تھی، شاید شام کا وقت تھا۔

اُس نے چونک کر اُٹھنے کی کوشش کی مگر جسم کی کمزوری اُسے فوراً واپس لیٹا دیا۔۔۔ سر میں شدید درد تھا اور پورا جسم بخار میں ٹاپ رہا تھا
تبھی، ماتھے پر کسی چیز کی ٹھنڈک محسوس ہوئی
آہستہ سے نگاہ دائیں طرف موڑی تو… امّل کو پایا۔
وہ اُس کے سر پر جھکی ہوئی، تھندے پانی سے پٹّی کر رہی تھی۔
اُس کے چہرے پر پریشانی، محبت اور آنکھوں میں نیند کی سرخی تھی۔
پھر امن کی نظریں دھیرے سے یُسرہ پر پڑیں، جو ایک طرف باؤل لیے کھڑی تھی۔۔۔

امّل…
امن کی آواز کمزور، مگر ہوش میں تھی۔۔

امّل چونکی،
بھائی! آپ کو ہوش آ گیا؟! آپ ٹھیک ہو؟

امن نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔

چند لمحے خاموشی کے گزرے… پھر اُس نے ایک سانس لے کر کہا
امّل… مجھے کچھ یاد آیا ہے۔

یُسرہ اور امّل دونوں چونکیں۔

کیا بھائی؟ کیا یاد آیا؟ امل فوراََ بولی

امّن کی سانس بھاری ہو رہی تھی، جیسے کوئی بوجھ اندر ٹوٹنے کو ہو ۔۔
ماما… پاپا…

کیا بھائی؟ کیا بچپن کا کوئی منظر یاد آیا؟ یا… سب کچھ یاد آ گیا؟

امن نے آنکھیں بند کر لیں، پلکوں کے کونے گیلی ہونے لگے۔
سب کچھ تو نہیں… بس…
وہ پھر رُک گیا۔
ایک جھجک… ایک خوف…
کیا امّل کو یہ سب بتانا ٹھیک ہو گا؟
کہ ماما پاپا کا کوئی معمولی ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی۔۔۔ امل کا یہ سب سنے کے بعد کیا ریکشن ہوگا۔۔۔
امّن کی آنکھیں امّل کی طرف اٹھیں، اُس کی چھوٹی بہن، جس کے چہرے پر معصوم سوال جھلک رہے تھے۔۔
اس نے آہستہ سے کہا
کچھ۔۔۔ کچھ چیزیں یاد آئی ہے۔۔۔

بھائی۔۔ انشا اللہ ایک ڈن آپ کو سب کچھ یاد آجائے گا۔۔۔ لیکن بھائی آپ کو اکیلے نہیں جانا تھا باہر… اُوپر سے آپ نے اپنے پرسنل گارڈز کو بھی ساتھ نہیں لے گئے…
اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو؟
امّل کی آواز میں فکرمندی، ناراضی اور آنکھوں میں بےاختیار آنسو تھے۔
آپ اتنی لاپرواہی کیوں کرتے ہیں؟
اس کی پلکیں بھیگنے لگیں۔

اُس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ امّل کے ہاتھ پر رکھا
کمزور، کپکپاتا ہوا… مگر بھرا ہوا احساس سے۔
مجھے معاف کردو…
وہ صرف اتنا ہی کہہ پایا۔
میں ہمیشہ سب کچھ سنبھالنے کی کوشش کرتا ہوں…
مگر شاید… خود کو سنبھالنا بھول گیا ہوں۔
یہ کہہ کر اُس نے ایک گہری سانس لی۔۔
پھر نظر امّل کے چہرے پر جم گئی۔
اب کچھ چیزیں واضح ہو رہی ہیں، امّل… بس تُم مُجھے ایسے ہی سپورٹ کرتی رہنا۔۔۔ ہر حال میں کچھ بھی ہو بس اپنے بھائی کا ساتھ دینا۔۔

اس کی پلکیں لرزیں… اور لب بھی۔
ہمیشہ…
وہ آہستہ سے بولی، جیسے وعدہ لکھ رہی ہو۔
جب تک میں ہوں، آپ اکیلے نہیں ہیں۔
امن کا دل ایک پل کو تھما، اور پھر جیسے دھڑکنے لگا… نئی امید سے۔

++++++++++++

اندھیرا… دیواروں پر کالی اسکرینز…
کیٹی آہستگی سے ریپر کے سامنے آ کر رُکی۔
یسریٰ کی دی گئی معلومات اب وہ ریپر کے سامنے رکھ رہی تھی
سر… امن کو ہوش آ چکا ہے۔
ریپر کرسی پر جھکا، جیسے کوئی پرانا راز دوبارہ جاگا ہو۔
ایک انگلی اسکرین پر رکھی، جس پر امن کا لائیو فوٹیج چل رہا تھا — بےہوشی سے بیداری کی طرف آتا ہوا،
مگر اب… وہی آنکھیں بدل چکی تھیں۔

ریپر نے خاموشی سے کہا
اس کا وقت ہو چکا ہے۔
ایک ہار، یادداشت کی تھی…
دوسری ہار… جذبات کی ہوگی۔

اس نے انگلی سے ایک اور اسکرین پر کلک کیا..
امّل کی تصویر اُبھری…
ریپر نے کیٹی کی طرف دیکھے بغیر کہا
اب تمہیں معلوم ہے نہ  آگے کیا کرنا ہے؟؟

کیٹی نے ایک نظر ریپر کو دیکھا جی یہ کہتی وہ نکل گئی۔۔۔

++++++++++++

امّل جا چکی تھی۔
کمرے میں مدھم روشنی، ایک آدھ لیمپ جل رہا تھا۔
یُسرٰی کمرے کو ترتیب دے رہی تھی۔ ہلکے یہ سب اس کا کام نہ تھا پھر بھی وہ کر رہی تھی۔۔۔ وہ یہی سب تو کرنے آئی تھی یہاں۔۔۔

امن، بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔
اس کے ہاتھ میں دلیے کا باؤل تھا، مگر نظریں یُسرٰی کے ہاتھوں کی حرکت پر جمی تھیں۔
چند لمحے بعد اس نے نظریں نہ ہٹاتے ہوئے کہا
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے…
کہ تم یہاں کسی مقصد کے تحت آئی ہو؟

یُسرٰی کی انگلیاں دوا کے ڈبے میں رک گئیں۔
وہ آہستہ سے مڑی…
کس مقصد کے تحت؟؟

یہ تو تمہیں پتہ ہوگا.. امن کی نظر اب بھی اُس پر ہی تھی

یُسرٰی آہستہ سے مسکرائی، پھر بولی
مجھے تو نہیں معلوم کہ میں یہاں کس مقصد کے تحت آئی ہوں، آپ کو کیا لگتا ہی میں یہاں کس مقصد کے تحت آئی ہوں۔۔۔

امن آہستہ سے مسکرایا۔۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے تُم یہاں مُجھے ایمپریس کرنے آئی ہو اور دیکھو ابھی بھی تُم وہ کام کر رہی ہو جو کام تُمہارا نہیں ہے۔۔۔

یُسرٰی نے دوا کا ڈبہ واپس سمیٹا اور دھیمی آواز میں بولی
میں اگر اِمپرَیس کرنے آئی ہوتی… تو دلیہ نہیں، کافی لے کر آتی۔

امن  نے چمچ باؤل میں رکھ کر اُس نے آہستہ کہا
تو مطلب… اُس دِن تُم کافی لے کر آئی تھی  مطلب اُس دِن تُم مُجھے ایمپریس کرنے آئی تھی؟

نہیں تو۔۔۔ وہ فوراً بولی۔۔۔
وہ تو میرا کام تھا۔۔۔

نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔۔۔ بھلا مُجھے آپکو ایمپریس کر کے کیا ملے گا۔۔۔

وہ تو تمہیں معلوم ہوگا۔۔۔ امن نے سنجیدگی سے کہا

اچھا یہ بھی آپ ہی بتا دے کے مجھے کیا ملے گا۔۔؟؟ آپکو ایمپریس کر کے۔۔۔

وہ میں سوچ کر بتاؤ گا۔۔۔
اس نے باؤل سائڈ ميز پر رکھتے ہوئے کہا

ختمِ کرلیا دلیہ؟؟ اور کچھ چاہیے؟؟
یسریٰ نے امن سے پوچھا۔۔ اور دلیہ کا باؤل اٹھا لیا۔۔۔

نہیں۔۔۔ بس تُم مُجھے ایمپریس کرنے کے چکر میں میرے آگے پیچھے رہنا چھوڑ دو۔۔۔۔ امن نے سنجیدگی سے کہا اور کمبل ٹھیک کرتا لیٹنے لگا۔۔

یسریٰ نے خفکی سے امن کو گھورا۔۔۔
میں آپکو ایمپریس کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہوں۔۔۔

ٹھیک ہے ٹھیک ہے جاؤ اب۔۔۔۔
امن بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلی۔۔۔

ہنہ۔۔۔ یہ خاموش ہی زیادہ اچھے لگتے ہیں۔۔۔
وہ خود سے بڑبڑاتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔

++++++++++++++

اندھیرے میں کمپیوٹر اسکرین کی روشنی میں
ریپر بیٹھا، یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس لسٹ کھولے ہوئے تھا
ایک فوٹو پر کرسر رُکا ہوا تھا
Amal Eman — Chemistry Dept.

ریپر کی انگلیاں کی بورڈ پر چلی۔۔۔
یونیورسٹی کی ویب سائٹ ہیک،
کلاس کا جعلی میسج خود generate،
صرف ایک نمبر پر بھیجا گیا — امل کا۔
اس کی آواز دھیمی سرگوشی میں گونجی
اب تم خود چلو گی…
اپنی تباہی کی طرف —
قدم بہ قدم،
اپنی مرضی سے۔۔۔۔۔
++++++++++

کمرے میں ہلکی مدھم روشنی ہے، موبائل کی چمک اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی
امل انسٹاگرام پر کسی میک اپ ٹیوٹوریل میں کھوئی ہوئی تھی، جب اچانک موبائل پر یونیورسٹی کا میسج آیا
کل آپ کی کیمسٹری کلاس ہے، اور ہر اسٹوڈنٹ کی حاضری لازمی ہے۔

امل نے چونک کر موبائل کو گھورا۔
اب یہ کیا مصیبت ہے…
وہ کچھ لمحے ساکت بیٹھی رہی
پھر جیسے کوئی پرانا جملہ ذہن میں گونجا۔۔۔
افتحار صاحب کی آواز
جب تک الیکشن نہیں ہو جاتے، تم کسی صورت یونیورسٹی نہیں جاؤ گی، سمجھیں؟

امل نے پلکیں جھپکیں، موبائل سائیڈ پر رکھا،
ایک گہری سانس لی، اور خود سے بڑبڑائی
اتنے دن ہوگئے… اب کیا ہو جائے گا؟ وہ جب سے یونیورسٹی نہیں گئی تھی جب سے امن پولیس اسٹیشن گیا تھا۔۔

کوئی نہیں… صبح بھائی سے پوچھ لوں گی۔
وہ کروٹ لے کر لیٹ گئی،
اور دوبارہ انسٹاگرام کی دنیا میں کھو گئی۔۔۔

+++++++++

صبح کی روشنی کھڑکی سے چھن چھن کر اندر آ رہی تھی۔ سب ناشتے کی میز پر موجود تھے
افتخار صاحب کے ہاتھ میں اخبار تھا،
انیسہ بیگم نے چائے کی پیالی تھام رکھی تھی۔۔۔
امل خاموشی سے بیٹھے چمچ ہلا رہی تھی،
امن کے چہرے پر زردی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں نیند کا بوجھ، اور اب بھی اس کا سر کچھ بوجھل تھا،
نہات بھی موجود تھا — بازو پر بلَسٹر،
میں گھر کیسے پہنچا؟ امن نے دھیمے آواز میں کہا

اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر افتخار صاحب بولے:
کسی گارڈ نے آئرہ گارڈ کو کال کی… وہ تمہیں اسپتال لے آئی۔ پھر اُس نے ہمیں اطلاع دی۔
ڈاکٹرز نے بتایا کہ تمہیں انجیکشن دیا گیا تھا… بے ہوشی کا۔ کچھ دیر میں ہوش آجائے گا۔۔۔وہاں چھوڑنا محفوظ نہیں تھا… ہم تمہیں گھر لے آئے۔

امن نے آہستہ سے کہا
لیکن درد… اور یہ بخار؟

نہات نے لقمہ دیا۔
سائیڈ ایفیکٹ ہو گا انجیکشن کا۔

اچھا… وہ فقط اتنا ہی کہہ سکا، جیسے سوال ختم نہیں ہوا تھا… بس مؤخر ہوا ہو۔

افتخار صاحب نے نگاہ اُس پر گاڑی،
تم بہت لاپروا ہو، امن… اپنے معاملے میں۔۔
ہم نے گارڈز کس لیے رکھوائے تھے؟
انہیں ساتھ لے کر نکلنا چاہیے تھا تمہیں…
ہم سے ہی غلطی ہو گئی، جو تمہیں بلوا لیا…
ہم خود آ جاتے تو یہ سب نہ ہوتا۔

امن نے ایک گہرا سانس لیا —
جو ہونا ہوتا ہے… وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔
اس میں کسی کی غلطی نہیں، دادا۔

اتنے میں امل نے آہستہ سے کہا
بھائی…؟

ہاں، بولو۔

یونیورسٹی سے میسج آیا ہے…
آج کیمسٹری کی کلاس ہے، سب کی حاضری لازمی ہے۔

افتخار صاحب نے فوراً سختی سے کہا
ہم نے تم سے کہا تھا… الیکشن کے بعد یونیورسٹی جانا۔۔۔

کیا؟ امن چونکا۔

تم اتنے دنوں سے یونیورسٹی نہیں جا رہی؟

نہیں بھائی… وہ آہستہ سے بولی،

دادا کیوں؟ آپ اسے کیوں روک رہے ہیں؟

افتخار صاحب نے گہری نگاہ سے امن کو دیکھا،
تم اپنی بہن کو جانتے ہو، امن۔ یونیورسٹی میں ہزار طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ہزار باتیں کریں گے تمہارے خلاف…
وہ سن کر آئے گی، پھر ڈسٹرب ہو جائے گی ۔
اور ریپر…؟ اس کا خطرہ اب بھی ہے۔

ریپر سے اسے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اس کا سیاست سے کیا لینا دینا…؟ وہ تو مجھے مارنا چاہتا ہے… امن نے سنجیدگی سے کہا

تو پھر نہات پر حملہ کیوں کیا اُس نے؟
جب سیدھی راہ سے کام نہیں بنے گا، تو ریپر اُلٹے راستے سے وار کرے گا۔
امل کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، مگر وہ تمہاری بہن ضرور ہے۔ جیسے نہات پر حملہ ہوا، ویسا ہی اِس پر بھی ہو سکتا ہے۔
ہم کیوں خطرہ مول لیں؟
اور بیٹیوں کے معاملے میں… ہم خطرہ نہیں لیتے، امن۔

انیسہ بیگم فوراً بول اٹھیں
ہاں، ہاں رہنے دے تو نہ جا۔۔۔۔

امن نے تھوڑے وقفے کے بعد کہا
نہات پر حملہ اس لیے ہوا کیونکہ وہ میرے ساتھ کام کرتا ہے… وہ میرا پرسنل اسسٹنٹ ہے۔
اور مجھے لگتا ہے ریپر کا مقصد کچھ اور ہے…
وہ مجھے مارنا نہیں چاہتا —
وہ مجھ سے… کچھ اور چاہتا ہے۔

نہات فوراً بولا
بھائی، مجھے بھی یہی لگتا ہے…
لیکن وہ چاہتا کیا ہے؟

امل زیرِ لب بولی۔۔
خبیث… منحوس… اللہ پوچھے گا اُسے۔

کسی کو ایسے نہیں بولتے، امل… امن نے نرمی سے کہا تمہیں یونیورسٹی جانا ہے؟ واقعی کوئی اہم کام ہے تو چلی جاؤ۔۔۔ یا اگر تُمہارا دِل چاہ رہا ہے تو بھی چلی جاؤ ریپر سے ڈر کر گھر میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

جی بھائی ٹھیک ہے۔۔۔ وہ کہتی اُٹھ گئی اور اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔۔

یُسرٰی، جو ایک کونے میں خاموش کھڑی تھی۔۔
امل کے پیچھے جانا چاہتی تھی،
مگر یہاں جو باتیں ہو رہی تھیں… وہ سنی جانی چاہیئں تھیں۔
امن کچھ بولنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر یُسرٰی پر پڑ گئی۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ تم شیف ہو نا؟ تو اس وقت کچن میں ہونا چاہیے تھا…
کچن کے علاوہ تم ہر جگہ کیوں نظر آتی ہو؟

یسرٰی کچھ کہنے والی تھی کہ انیسہ بیگم بول اٹھیں
اے ہاں، وہ اسی لیے… کہ اِسے کھانا بنانے کے سوا کچھ اور آتا ہی نہیں۔
جب رخسانہ اِسے لے کر آئی تھی، تب یہاں پہلے سے دو شیف موجود تھیں۔
اسی لیے اِسے ہم نے اَمل کے لیے رکھ لیا۔۔
اُسے تو روز روز کچھ نیا، کچھ انوکھا کھانے کا دل کرتا ہے،
جو اُن دونوں کو سمجھ ہی نہیں آتا۔
یہی سمجھتی ہے، اور سچ کہوں تو بناتی بھی بہت اچھا ہے۔۔۔

دادی… امن نے انیسہ بیگم کو آنکھوں ہی آنکھوں سمجھایا ( ایک تو انیسہ بیگم کو تو ہر کسی پر ترس آ جاتا ہے… جب وہ شیف تھی تو پھر اِسے رکھا ہی کیوں؟)

اے چپ رہ، گھر کے معاملات میں نہ بول۔۔۔ انیسہ بیگم نے سختی سے کہا

امن نے تھکا ہوا سا سر ہلایا۔۔۔۔ مجال ہے جو انیسہ بیگم کبھی جو اُس کی بات کو سمجھ جائے

ٹھیک ہے، پھر آپ جاکے دیکھیں، امل یونی جا رہی ہے یا نہیں۔

انیسہ بیگم بڑبڑاتی ہوئی اٹھیں
ہاں، ہاں…

اب امن کی نگاہ یُسرٰی کی طرف پلٹی۔۔۔
جاؤ… میرے لیے کچھ بنا کر لاؤ۔
میں بھی دیکھوں، کیسی شیف ہو تم۔

جی… یسرٰی خاموشی سے پلٹ گئی

بھائی… کیا بات ہے؟ نہات نے نرمی سے پوچھا،

امن کی نظریں میز پر جم گئیں۔ پھر اچانک اس نے سر اٹھایا، اور براہِ راست افتخار صاحب کی طرف دیکھا۔
دادا؟ آپ نے ظفر کو پیسے دیے؟ رشوت؟

فضا میں جیسے ساکت لمحہ اتر آیا۔ افتخار صاحب نے نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں، بنا پلک جھپکائے، وہی مشہور سیاسی انداز میں کہا
بالکل بھی نہیں۔
جھوٹ کہتے ہوئے اُن کے چہرے پر ذرہ برابر شکن نہ تھی۔ وہی پرسکون لہجہ، وہی گہری آنکھیں—جنہیں سچ چھپانے کی پرانی عادت تھی۔

دادا؟،

ہم نے پیسے نہیں دیے۔ تمہیں یقین نہیں تو خود معلوم کرلو۔

اور… آپ نے کہا تھا کہ میرے ماں باپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا؟

ہاں۔
امن کا سانس بھاری ہوگیا۔ لفظ اس کے ہونٹوں سے آہستہ آہستہ پھسلے، جیسے ہر حرف ایک یاد کو جنم دے رہا ہو۔
نہیں دادا… اُن کا ایکسیڈنٹ نہیں… اُن کا قتل ہوا تھا۔

نہات کا چمچ ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ وہ چونک کر بولا
بھائی! آپ کو یاد آ گیا؟

ہاں…
کل رات… حادثہ ہوا… اور مجھے ایک لمحہ یاد آگیا… بس اتنا ہی۔

افتخار صاحب نے کرسی کی پشت سے ٹیک ہٹائی، اور گہری سانس لے کر بولے
دیکھو امن… ہم نے تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ تمہیں جو یاد تھا، ہم نے وہی دُہرایا۔ ڈاکٹروں نے منع کیا تھا کہ تمہیں صدمہ نہ دیا جائے… اگر ہم وہ سب کچھ بتاتے، تو شاید تمہارا دماغ اس کا بوجھ نہ اٹھا پاتا۔

نہات آہستہ سے بولا
بھائی… اُسی حادثے کی وجہ سے تو آپ کی یادداشت چلی گئی تھی۔ اور ابھی تک پوری واپس نہیں آئی… کیا آپ کو بچپن کا کچھ یاد آیا؟ اسکول، امی ابو، کے ساتھ گزرا ہُوا لمحہ؟

امن نے آہستہ سے سر ہلایا۔
نہیں… بس کل رات… صرف وہی منظر… وہ چیخ… وہ اگ کے شولے یاد آئے

نہات نے نظریں جھکا لیں۔  امن کو پوری طرح کچھ یاد نہیں آیا تھا وہ یہ سُن  اداس ہوگیا تھا۔۔
تو… کس نے قتل کیا؟
امن کی نظریں اب دادا پر مرکوز تھیں۔

فکر نہ کرو… افتخار صاحب نے ٹھہرے انداز میں کہا، ہم نے بدلہ لے لیا ہے۔ ارتضیٰ تھا…مرتضیٰ کا بھائی… جائیداد کے لالچ میں اندھا ہو گیا تھا۔

کیا؟ امن کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔

ہاں… اسے جیل بھجوا دیا۔ اپنا خون تھا… مار تو نہ سکتے تھے… مگر اُس نے جیل میں خودکشی کر لی… اور اُس کی بیوی بھی صدمے سے چل بسی۔
امن کی نگاہیں میز پر جم گئیں… دل ابھی تک ماننے کو تیار نہ تھا۔

مجھے یقین کیوں نہیں آ رہا؟ آپ مجھے سے جھوٹ تو نہیں کہہ رہے؟

افتخار صاحب کی آواز میں اب خفگی تھی، شاید تھکن بھی۔
ہاں، تمہیں ہم جھوٹے لگتے ہیں نا؟ جاؤ… خود پتہ کرلو… چاہو تو پولیس اسٹیشن چلے جاؤ… یا چھوٹے دادا سے پوچھ لو۔
ہم صرف سیاست میں تھوڑے سے خودغرض ہیں… کیونکہ سیاست میں ایسا ہی چلتا ہے۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم قاتل ہیں، یا جھوٹے۔
یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے اُٹھے، اور نکل گئے…

نہات نے آہستہ سے پوچھا
بھائی…؟
everything is okay

امن نے سر نہیں ہلایا۔
نہ ہاں، نہ ناں۔
بس ایک لمحے کو خاموشی طاری ہو گئی…
پھر اُس نے آہستہ سے ظریں اُٹھائیں، اور نہات کے چہرے پر جم گئیں۔
اُس کی آنکھیں سرخ تھیں —
نہ نیند سے، نہ رو لینے سے…
بلکہ اُس اندر کی آگ سے جو انسان کو باہر سے نہیں، اندر سے جلا دیتی ہے۔

کچھ بھی… اوکے نہیں ہے، نہات…
امن کی آواز بہت مدھم تھی، لیکن ہر لفظ اپنی پوری شدت سے گونجا۔
جس لمحے سے مجھے وہ یاد واپس آئی ہے نا…
میں سو نہیں پایا۔
وہ رُکا… جیسے لفظوں کا بوجھ اٹھانا بھی مشکل ہو رہا ہو۔
وہ رات…بو وہ منظر…
جیسے میرے دل پر کسی نے دوبارہ چلایا ہو…
جیسے میں دوبارہ اُس لمحے میں تھا…
اور میں…
ہمیشہ کی طرح کچھ بھی نہیں کر سکا۔
اُس نے نظریں نیچے کر لیں، جیسے خود سے نظریں ملانا بھی گوارا نہ ہو۔

نہات کی آنکھوں میں بےبسی چھلکنے لگی۔
وہ اپنے مضبوط، خاموش بھائی کو ٹوٹتا ہوا دیکھ رہا تھا، اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسے لمحوں میں کیا کہا جاتا ہے۔

امن کے لفظوں میں وہ بوجھ تھا… جو برسوں سے دل میں دبا تھا،
اور اب جب وہ یاد واپس آئی،
تو زخم پھر سے تازہ ہو گئے تھے۔
کچھ زخم… وقت نہیں بھرتا —
بس ہمیں اُن کے ساتھ جینا سکھا دیتا ہے۔
لیکن جب وہ زخم دوبارہ کُھل جائیں…
تو ہر سانس… چبھتی ہے۔

کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ یُسریٰ، دوبارہ ڈائننگ ٹیبل پر نمودار ہوئی۔ اُس کے ہاتھ میں سفید ٹرے تھی، اور ٹرے میں رکھے دو کپ… جن سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

امن اُس کی آمد سے چونکا۔ جلدی سے اپنی آنکھوں کی تھکن چھپائی اور خود کو نارمل کرتے ہوئے نظریں یُسریٰ کی طرف موڑیں۔
تم پھر آ گئی؟

اتنی جلدی بن بھی گیا؟ نہات نے حیرت سے پوچھا۔

یُسریٰ نے کندھے ہلائے۔ ہاں، اور نہیں تو کیا؟ پھر اُس نے نرمی سے ایک کپ ٹرے سے اٹھا کر نہات کے سامنے رکھا۔ یہ آپ کے لیے…

اور دوسرا کپ امن کے سامنے رکھتے ہوئے وہ تھوڑا سا جھک کر بولی
اور یہ… ‘جنابِ اعلیٰ’ کے لیے۔
لہجے میں شوخی تھی، اور آنکھوں میں ایک عجیب سی بےنیازی۔

امن نے کپ کو دیکھا، پھر اُسے۔ مگر میں نے تو تمہیں ‘کچھ’ بنانے کا کہا تھا۔

یُسریٰ نے بےحد معصومیت سے کہا تو وہی تو بنایا ہے… کافی۔۔۔

میں نے ‘کھانے’ کا کچھ بنانے کو کہا تھا۔

کیا آپ اس وقت واقعی کچھ کھاتے؟ یسریٰ نے نرمی سے سوال کیا

امن تھوڑا چونکا، پلکیں سکیڑیں۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟

مطلب یہ کہ… آپ ناشتہ کر چکے ہیں، تو ناشتے کے بہانے تو کچھ بننے سے رہا… اور دوپہر کے کھانے میں ابھی دیر ہے۔ اب اگر میں کچھ اور بناتی بھی، تو آپ شاید اسے چھوتے بھی نہیں… اس لیے، کافی۔ کیونکہ اس وقت اگر آپ کچھ پی سکتے ہیں، تو صرف یہی۔

نہات نے  کا گھ سونٹ لیتے ہوئے سر ہلایا،
کتنی ریسرچ کر رکھی ہے بھئی بھائی پر… اُس نے آہستگی سے کہا۔

یسریٰ نہات کی اچانک بات پر کچھ پل کو بوکھلا سی گئی۔
اُسے ایک لمحے کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔ نظریں چُرائیں۔ لبوں پر ایک بےچین سی مسکراہٹ آئی، جو فوراً غائب بھی ہو گئی

ہمم… تنگ مت کرو نہ اسے۔۔۔
اَمن نے نرمی سے ٹوکا،

نہات کچھ بولا نہیں، بس خاموشی سے کافی پنی لگا

امن کافی کا سیپ لیٹے پھر بولا۔۔۔
تو تم نے ٹھان لی ہے کہ مجھے ایمپریس کر کے ہی دم لینا ہے؟

یُسرٰی کو جیسے اچانک جھٹکا سا لگا تھا۔
ایک لمحے کو اُس کے چہرے پر حیرت کا عکس پھیل گیا، پلکیں جھپکنا بھی بھول گئی وہ۔
کیا وہ پھر سے مذاق کر رہا ہے؟ کیا واقعی سنجیدہ ہے؟
ایک تو اُس کے لہجے اور چہرے سے اُسے کبھی کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔
وہ مذاق بھی سنجیدگی سے کرتا تھا۔
نہ چہرے پر کوئی شوخی، نہ لبوں پر مسکراہٹ،
نہ آنکھوں میں کوئی چمک…
بس ایک سیدھی، ساکت سی نظر،
جب کہ نِہات مذاق کرتا، یا اُسے تنگ کرتا،
تو اُس کے چہرے پر صاف صاف لکھا ہوتا تھا کہ وہ مذاق کر رہا ہے۔
آنکھوں میں شوخی ہوتی، لبوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ،
اور آواز میں وہ مخصوص شرارت —
مگر یہ شخص؟
اَمن؟
نہ چہرے پر ہنسی،
نہ آنکھوں میں چمک،
نہ لہجے میں کوئی اتار چڑھاؤ — جیسے وہ ہر بات ایک ہی لہجے میں کرتا ہو، چاہے مذاق ہو یا اعتراف۔
اُسے سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کب وہ سنجیدہ ہے اور کب بس… اُسے الجھا رہا ہے۔
یُسرٰی کو لگا جیسے وہ لفظوں کے کانٹے چن رہی ہو
ہر جملے کو پرکھ رہی ہو،
ہر نظر کو تول رہی ہو…
مگر جواب پھر بھی صفر۔

اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو؟
تم نے ہی تو کہا تھا… کہ اگر ایمپریس کرنے کی کوشش کرتی تو کافی لاتی۔ لو… اب لا کر پلا بھی رہی ہو۔

یُسرٰی نے گھبرا کر نظریں نیچی کیں،
پھر جلدی سے کہا،
نہیں… میرا مطلب وہ نہیں تھا…
اللہ… میرا کہنا یہ تھا کہ…

ہاں، ہاں، بولو… میں سن رہا ہوں۔
کیا مطلب تھا تمہارا؟ امن نے یسریٰ کی طرف نظرے جمائے کہا

یُسرٰی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے، کیسے کہے۔
کیا وضاحت دے؟
بالآخر، ہمت کرکے کہنے لگی
میرا مطلب یہ تھا کہ میں آپ کو ایمپریس کیوں کروں گی؟
آپ سے میرا کیا رشتہ ہے؟

نہات نے بے ساختہ ہنسی دباتے ہوئے کہا
ارے! رشتہ بنانے کے لیے ہی تو ایمپریس کر رہی ہو۔۔۔
(وہ خود بھی حیران تھا کہ امن، جو صرف اُس اور اَمل کے ساتھ ہی casual ہوتا تھا،
آج کسی اور سے بھی چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا! فحال امن کو تھوڑا سا ریلکس کرنے کا یہی ایک راستہ تھا۔۔ یسریٰ کو تنگ کرنا۔۔۔)

یُسرٰی نے فوراً پلٹ کر جواب دیا
میں ان سے رشتہ کیوں بناؤں گی؟

نہات نے دھیمے مسکراہٹ کے ساتھ یسریٰ کو دیکھا۔۔
کیا میں ‘کیوں’ کا جواب دے دوں؟

یُسرٰی نے دونوں ہاتھوں سے کانوں کو پکڑ کر کہا
اوہ بھائی! ایک منٹ… ایک منٹ… آپ دونوں مجھے جان کر تنگ کر رہے ہیں، نا

امن نے سنجیدہ انداز میں کہا
نہیں، میں تو بس اپنے سوال کا جواب چاہتا ہوں۔

یُسرٰی نے ایک گہرا سانس لیا،
پھر بولی
ابھی اگر آپ سیاستدان نہ ہوتے نا،
اور یُسرٰی آپ کے گھر میں کام نہ کر رہی ہوتی،
تو یُسرٰی آپ کو بتاتی — وہ بھی اچھی طرح۔۔۔

نہات نے منہ چھپا کر زور سے ہنسی دبائی
ارے بھئی! چِڑیا تو ناراض ہو گئی۔۔

امن نے بھی مسکرا کر سر جھٹکا
اوہ ہو…

یُسرٰی نے فوراً گردن گھما کر نہات کو گھورا
چِڑیا کسے کہا؟

نہات نے بے فکری سے کہا
آپ کو۔۔۔۔

یُسرٰی کے چہرے پر ایک دم ناراضی چمکی،
تم چِڑیا، تمھارا سارا خاندان چِڑیا۔۔۔۔

نہات نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں
ہائیں۔۔۔۔

نِہات نے انتہائی معصومیت سے بولا
بھائی یہ لڑکی تو پورے خاندان کو بیچ میں لا رہی ہے۔ بیچارے میرے پورے خاندان کو چریا بنا دیا۔۔۔
اَمن نے سنجیدہ مگر نرمی سے کہا
غلط بات ہے ، یُسرٰی خاندان کو بیچ میں نہیں لیتے۔۔۔

یُسرٰی نے ناراضی اور معصوم غصے کے بیچ کہا
تو پھر اِس نے مجھے چِڑیا کیوں کہا؟

نِہات نے کندھے اچکائے
کیونکہ تم ہو… چِڑیا۔۔۔

یُسرٰی نے ناک پھُلا کر، بازو سینے پر باندھتے ہوئے کہا
یُسرٰی بھی پھر تمہیں اور تمہارے سارے خاندان والوں کو چِڑیا بولے گی۔۔۔ ہنہ۔۔۔۔

اَمن کی ہنسی دبی دبی سی نکلی، مگر وہ فوراً چہرے کو سنجیدہ بنا لیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

نِہات بے ساختہ ہنسا
بھائی کیا پاگل پیس ہے یہ۔۔

امن بھی اب دھیمِ سے مُسکرا رہا تھا۔۔۔ اور وہ منہ فولاتی یہاں سے نکل گئی۔۔۔ امن کا موڈ ٹھیک کرنے آئی تھی خود کا موڈ خراب کروا کر چلی گئی۔۔۔

امن نے کافی کا آخری گھونٹ لیا…
کافی تو واقعی اچھی بنی ہے۔۔۔۔ امن نے اعتراف کیا

واقعی۔۔۔۔ نہات نے بھی تقیق کی۔۔۔

یسریٰ کے ہاتھوں میں جادو تو تھا۔۔۔

++++++++++++++

کمرے میں ہلکی سی تاریکی تھی۔
پردے گِرے ہوئے تھے، صرف ایک کونے میں رکھا ٹیبل لیمپ جل رہا تھا جس کی مدھم زرد روشنی میں ریپر کا چہرہ نیم سائے میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس کا رنگ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
دانت بھینچے گئے تھے اور انگلیاں کرسی کے بازو پر انگلیوں کی پوروں سے چٹخ رہی تھیں۔

کیٹی کمرے میں قدرے فاصلے پر کھڑی تھی۔
نہایت سنجیدگی سے، دبے لہجے میں بولی
ریپر …  امل یونیورسیٹی نہیں گئی۔۔۔

ریپر نے چونک کر گردن موڑی۔
آنکھوں میں وہی پرانی سفاکی… اور ماتھے پر ایک دم سلوٹیں نمودار ہوئیں۔
کیا؟

آواز میں حیرت کم، غصہ زیادہ تھا۔
ہاں، یسریٰ نے بتایا۔
افتخارِ صاحب  نے اُسے منع کر دیا ہے۔۔۔
اُنہیں شک ہو گیا تھا… اور امل ڈر رہی ہے۔
اب وہ الیکشن کے بعد ہی گھر سے باہر نکلے گی۔

ڈر؟
ریپر کے لہجے میں ایک سرد ہنسی سی شامل ہو گئی۔
مجھ سے ڈر رہی ہے وہ؟

کیٹی نے آہستگی سے سر ہلایا۔
جی… اُس ڈر ہے کہ… آپ اُس پر بھی حملہ کروا سکتے ہیں۔

چند لمحے خاموشی چھائی رہی۔
پھر اچانک، کرسی پر بیٹھے ریپر نے مٹھیاں بھینچیں اور کرسی کے کونے پر جھکتے ہوئے غرایا
Shit…!!
اب وہ گھر سے نکلے گی ہی نہیں،
تو ہم اُسے اغوا کیسے کریں گے؟

فضا میں تناؤ کی شدت بڑھ گئی۔
مُجھے نہیں معلوم جیسے بھی کر کے اُسے میرے پاس لاؤ۔۔

کیٹی نے محتاط انداز میں ایک قدم آگے بڑھایا:
ریپر… اُس کے گھر میں بہت سیکیورٹی ہے۔
گھر سے اغوا کرنا بہت رسکی ہوگا۔
ہم پکڑے جا سکتے ہیں
ریپر نے اس بار کرسی سے اُٹھتے ہوئے میز پر گھونسہ مارا۔
مجھے نہیں معلوم کیسے کرو…
چاہے گھر سے کرو یا اُس کے کمرے سے،
لیکن اُسے لے کر آؤ!
کسی بھی قیمت پر۔

ریپر نے اچانک گردن اُٹھائی۔
آواز دبی ہوئی تھی مگر ایک زہریلی سرد مہری سے لبریز
امل گھر سے نہیں نکل رہی نا؟

کیٹی نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔

ریپر کی آنکھوں میں ایک خبیث سی چمک ابھری۔
وہ سیدھا ہوا، کرسی کی پشت پر ہاتھ ٹکایا اور پھر ایک ایک لفظ چبا کر بولا
تو اُسے گھر سے ہی اٹھا لو۔۔۔
اور اِس میں یسریٰ کی مدد لو۔

کیٹی کے قدم جیسے زمین میں جم گئے۔
ی۔۔۔ یسریٰ؟
وہ واقعی حیران تھی۔
مگر وہ تو اُن کے ساتھ۔۔

اور اسی لیے۔۔۔
ریپر نے بات کاٹی۔
آنکھوں میں فتور، الفاظ میں زہر۔
کیوں کہ وہ اُن کے قریب ہے۔ اُن کے گھر کے اندر ہے۔
جو کام باہر سے نہ ہو سکا، اب اندر سے ہوگا۔۔۔
اور اگر ہم نے امل کو اُس کے ہی کمرے سے اٹھا لیا۔۔۔
وہ لمحہ بھر کو رُکا، پھر سرگوشی جیسی آواز میں کہا
تو ریپر کا خوف لوگوں کی رگوں میں اُتر جائے گا…

کیٹی نے آہستہ سے پوچھا
اگر یسریٰ نے انکار کر دیا تو…؟

ریپر کا چہرہ مزید تاریک ہو گیا۔
پھر اُسے مجبور کرو… اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

کیٹی نے سر ہلایا اور یہاں سے نکل گئی۔۔

+++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *