!بس زندہ ہوں
By Maham Shakeel
یہ تحریر اُن روحوں کے نام جنہوں نے زندگی سے سمجھوتہ کر لیا
کبھی کبھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم زندگی جی نہیں رہے، ہم بس اپنے دن کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم خود سے اتنا دور نکل آتے ہیں کہ ہم خود کو ہی بھول جاتے ہیں۔ زندگی نے ہمیں اتنا سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا ہوتا ہے کہ اب اسی کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
یہ تحریر ان لوگوں کے نام ہے جنہوں نے اپنے خوابوں پہ مٹی ڈال دی ہے، جو جینا تو چاہتے ہیں مگر وقت کی دھول سے ان کی سانسیں اٹکنے لگتی ہے۔
جن کو ہنستے ہوئے بھی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ جو ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے سمیٹتے خود کرچی ہو گئے ہیں۔
کا نام سنا ہے؟ Go with the flow
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہم جدوجہد روک لیتے ہیں تعاقب کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ہر چیز کو زبردستی سمجھنے کی کوشش بند کر دیتے ہیں۔
ہم بس ٹھہر جاتے ہیں اور زندگی کو ویسے ہی بہنے دیتے ہیں جیسے وہ بہنا چاہتی ہے۔ کوئی ضد نہیں، کوئی بحث نہیں، کوئی خواہش نہیں، کوئی خواب نہیں۔ ہم زخم بھرنے میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں، کچھ زخم صرف محسوس کرنے کے لیے ہوتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہو پاتے کبھی۔
کچھ خواب، خواب ہی رہ جاتے ہیں اور ہر سوال کا جواب کا ملنا ضروری نہیں ہوتا۔ ہم خود کو وقت کے پاس سرنڈر کر دیتے ہیں۔ ہم اس لمحے میں زندگی کو ویسا قبول کرنے لگتے ہیں جیسے وہ ہوتی ہے نہ کہ جیسے ہم چاہتے ہیں ہم اپنے ماضی سے جنگ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور وقت کے سفر پر بھروسہ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔
ہاں کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے جب ہم وہ مقامات وہ چیزیں وہ لوگ دوسروں کے پاس دیکھتے ہیں جن کا ہم نے کبھی تصور کیا تھا لیکن ہم میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ ہم دوبارہ ان سب کے لیے لڑیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے ہم خود سے باہر کھڑے ہو کر خود کو دیکھ رہے ہوں۔ ہاں کبھی کبھی ہم چاہتے ہیں کہ سب خاموش ہو جائے حتی کہ ہم خود بھی لیکن کیا کبھی ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہم خود سے فرار ہو رہے ہیں اور اگر ہو رہے ہیں تو کیوں ہو رہے؟ ہم خود سے کیوں نظریں چرا رہے ہیں؟
ہمارے دل کا ایک حصہ بہت شدت سے آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن ہم اتنے کرچھی ہوئے ہوتے ہیں کہ وہی ٹکڑے ہمیں پاش پاش کر دیتے ہیں۔
اس لیے نہیں کہ ہم کبھی ناکام ہوئے تھے مگر اس لیے کہ کبھی اس چیز نے ہمیں شدید دکھ دیا تھا۔ ہم خود کو اتنی دفعہ توڑ کے دوبارہ تراشا ہے کہ اب ہمیں اپنا اصل ہی یاد نہیں ہے۔ ہم دوسروں کو اتنے حوصلے اتنے سہارے دے چکے ہیں کہ اب خود کی آواز بھی نہیں سن پا رہے۔
ہمیں کیا لگتا ہے کہ ہم اپنے خوابوں, اپنی خواہشوں. اپنے گولز سے فرار پا کے دوسری چیزوں میں مصروف رہیں گے تو ہم وہ سب بھلا دیں گے؟
! بالکل نہیں
ہم فون کی اسکرین پر گھنٹوں گزار لیتے ہیں کہ اپنے اپ کو اپنی سوچوں کو اپنے جذبات کو حقیقت سے دور رکھیں مگر کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ سب چیزیں ہمیں اندر ہی اندر کھا رہی ہیں۔
ہم خود کے اوپر گڈ لسنر کا ٹیگ لگا کر دوسروں کے مسئلے دوسروں کی باتیں ان کے دکھ سن کے ہم ان کی نظر میں تو سرخرو ہو رہے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے اپنے جذبات اپنی کہانی اپنی سوچوں کو سنا ہے؟
! اگر نہیں تو آئیے آج سے شروع کریں
ختم شدہ۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
