زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:5
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
وہ نیچے اتری تو ماں بیگم اپنے کمرے سے باہر نکل رہی تھیں
انہوں نے عروہ کو دیکھا اور مسکرا کر اس کی ٹھوڑی کو چھوا بالکل پرستان کی پری لگ رہی ہو چندا
پھر وہ دونوں ایک ساتھ لان میں گئیں ماں بیگم تو مہمانوں سے ملنے لگیں جبکہ ریحانہ تائی آگے بڑھ کر عروہ کا ماتھا چومنے لگیں
اس کی امی فرحت بیگم نے اپنی آنکھ سے کاجل انگلی پر لگا کر اس کے کان کے پیچھے لگایاابا اور تایا جان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا جبکہ زارا نے اسے گلے سے لگایابہت اچھی لگ رہی ہیں آپی وہ سرگوشی میں بولی
کچھ ہی دیر بعد سب فیملی ممبرز ماں بیگم کے ساتھ باری باری تصویریں لے رہے تھےتبھی آمنہ پھوپھو اور ان کی اکلوتی بیٹی سارہ پھولوں کا بوکی لیے وہاں داخل ہوئیں
آمنہ بیگم کی شادی گاؤں میں نگینہ بیگم نے کرائی تھی اچھے بھلے کھاتے پیتے زمیندار لوگ تھےسارہ کی پیدائش کے چند سال بعد ہی آمنہ بیگم کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھاانہوں نے میکے آنے کے کئی جتن کیے مگر سسرال والوں نے آنے نہیں دیا کہ وہ مرحوم کی نشانی ہیں
لہذا وہ کبھی کبھار کسی موقع پر آ جایا کرتیں اور کچھ دن رک جاتیں سارہ زارا کی ہم عمر تھی مگر اس نے انٹر کے بعد ہی پڑھائی چھوڑ دی کیونکہ گاؤں میں کوئی یونیورسٹی نہ تھی اور آمنہ بیگم نے اسے شہر جا کر پڑھنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی
عروہ آگے بڑھی پھوپھو کے ہاتھ سے بوکی لیا اور سلام کیاا
نہوں نے جواب دیا پھر عروہ کو غور سے دیکھایہ تو اماں کا جوڑا ہے وہ چونک کر بولیں
جی پھوپھو دادو نے دیا ہے
عروہ جو اب سارہ سے گلے مل رہی تھی بولی سارہ نے اس کے کانوں کو چھواعروہ بجو یہ سونے کے جھمکے ہیں
عروہ نے بریسلیٹ والے ہاتھ سے جھمکے کو چھواجی ہاں امی ابو نے دئیے تھے
سارہ نے اس کا ہاتھ پکڑااور یہ بریسلیٹ یہ تو بہت پیارا ہے
واقعی شازی کا گفٹ جو ہے وہ مسکراتے ہوئے بولی
پھوپھو اب ماں بیگم کے پاس جا چکی تھیں اور ان سے گلے مل رہی تھیں جبکہ سارہ حیران ہو گئی مگر تمہیں کب دیا
عروہ مسکرائی جب اس نے فرسٹ بزنس ڈیل میں کامیابی حاصل کی تھی تمہیں اور زارا کو گھڑی دی تھی مگر مجھے یہ بریسلیٹ وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کی بیسٹ کزن اور بیسٹی ہوں تو اسپیشل گفٹ دیا
عروہ یہ کہہ کر اپنی امی کے پاس جا کھڑی ہوئی تھی اور سارہ اسے حسد بھری نظروں سے دیکھنے لگی
کچھ دیر بعد ماں بیگم نے کیک کاٹاعروہ نے پلیٹوں میں کیک نکال کر سب کو سرو کیاسب مہمان جا چکے تھےاب لان میں بڑی سی ڈائننگ ٹیبل سجی تھی جس کے دونوں جانب سب بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے
تبھی ماں بیگم نے گلا صاف کیاریحانہ کاشف فرحت فیضان دانیال اور عروہ مجھے تم سب سے کچھ ضروری بات کرنی ہے
کاشف صاحب جو ان کے بڑے بیٹے تھے نیپکن سے ہاتھ صاف کرنے لگےجی ماں جی بولیں
نگینہ بیگم نے ایک نظر سب پر ڈالی دیکھو میں نے آج تک جو فیصلہ کیا تم سب نے خوشی خوشی قبول کیااور آج میں ایک اہم فیصلہ رشتوں کو بدلنے کا کرنے جا رہی ہوں امید ہے تم سب میرا مان رکھو گے
ریحانہ بیگم مسکرا دیں ارے ماں جی آپ کے لیے تو ہماری جان بھی قربان ہے آپ حکم کیجیے
ماں بیگم نے عروہ اور دانیال کو دیکھامیں چاہتی ہوں کہ عروہ کی شادی ہمارے دانیال سے ہو جائےان کی بات پر کھانا کھاتی عروہ کے حلق میں نوالہ اٹک گیازارا نے جو اس کے برابر بیٹھی تھی فوراً اس کی کمر تھپکی شاہ زین نے جلدی سے پانی کا گلاس دیاعروہ نے ایک ہی سانس میں پانی پی لیا
دانیال کا ہاتھ کھانے کے دوران رک گیاسب ایک دوسرے کو دیکھنے لگےنہ جانے کب شاہ زین وہاں سے اٹھ کر جا چکا تھا
فیضان صاحب مسکرائے اور اپنی بیوی فرحت بیگم کی طرف دیکھاوہ بھی مسکرا دیں
ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر ہماری عروہ کو اعتراض نہ ہو توفرحت بیگم نے شوہر سے کہا
ماں بیگم نے شفقت سے عروہ کے سر پر ہاتھ رکھابتاؤ بیٹا تمہیں کوئی اعتراض ہےعروہ مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بولی
نہیں مجھے اعتراض نہیں جیسا آپ کہیں یہ کہہ کر وہ کھڑی ہوئی اور بھاگتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی۔
کیا اب عروہ کی زندگی کا سفر آگے بڑھ پائے گا۔ زندگی اسے کس موڑ پر لے جائے گی دانیال دوبارہ کھانا کھانے لگا تھا
کاشف صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھابیٹا تم راضی ہواس سوال پر دانیال نے صرف تائید میں سر ہلایا
عروہ اپنے کمرے میں آئی دروازہ زور سے بند کر کے لاک کیابالوں کو کیچر میں قید کیا ہیلز اتار کر شوز ریک پر رکھے
تبھی اس کی نظر اپنے خالی ہاتھ پر پڑی جہاں کچھ دیر پہلے بریسلیٹ پہنا تھا
اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر وہ کہیں نہ تھا۔جلدی سے گھر کی چپلیں پہنیں اور لان میں آگئی
جہاں سب لوگ اندر جا رہے تھے۔اس نے گھاس پر ادھر اُدھر دیکھا مگر بریسلیٹ نہ ملا۔
دادو ٹھیک کہتی ہیں، تحفے کھو جاتے ہیں مگر رشتے نہیں۔دادو نے میری شادی کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ یقیناً اچھا ہوگا۔یہ کہتے ہوئے وہ گھر کے اندر چلی گئی
سارہ اور پھوپھو نگینہ بیگم کے اصرار پر وہیں رک گئیں کیونکہ اب وہ اگلے مہینے عروہ کی شادی کرنا چاہتی تھیں
اور سب کا موجود ہونا ضروری تھا۔سارہ کافی بنا کر لان میں ٹہل رہی تھی۔تبھی اس کی نظر ایک چمکتی ہوئی چیز پر پڑی۔اس نے کافی مگ بینچ پر رکھا، آگے بڑھی تو دیکھا —پھولوں کے پاس عروہ کا بریسلیٹ پڑا ہے۔
ارے، یہ تو عروہ کا بریسلیٹ ہے! چلو، میں رکھ لیتی ہوں۔یہ کہہ کر اس نے بریسلیٹ مٹھی میں دبایا اور بینچ پر بیٹھ کر کافی پینے لگی۔کافی پینے کے بعد خالی کپ بینچ پر رکھا
اور بریسلیٹ پہن لیا۔وہ واقعی بہت خوبصورت تھا۔
کیا سارہ کا یہ قدم عروہ اور سارہ کے درمیان اختلاف پیدا کرے گا؟
یا شازین اور عروہ کے رشتے میں دراڑ ڈال دے گا؟
اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔
