زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ ( از قلم سیدہ طوبیٰ بتول)
قسط نمبر ۸
شادی کی بات پکی ہونے کے بعد روشن ولا میں خوشی کا سماں تھا۔ شادی میں اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا تھا لہٰذا تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ روشن ولا میں مہمانوں کی آمد سے مزید رونق لگ گئی تھی۔
آج مہندی کا دن تھا روشن ولا کے لان میں ہی انتظامات کیے گئے تھے۔ لان زرق برق لائٹوں سے جگمگا رہا تھا۔ سامنے دو پھولوں سے سجے جھولے رکھے ہوئے تھے جہاں ایک جھولے پر عروہ بیٹھی تھی۔
عروہ پیلے اور ہرے لہنگے میں ملبوس تھی سر پر پیلا کرن والا دوپٹہ تھا۔ اس نے چٹیا باندھی ہوئی تھی اور آگے کی لٹیں کرل کی ہوئی تھیں۔ ہاتھوں میں گجرے تھے اور مہندی بھی لگی تھی۔
اس کے ساتھ ہی دانیال بیٹھا تھا — ہرے کرتے اور سفید شال کندھے پر ڈالے۔ کیمرہ مین ان دونوں کی تصویریں لے رہا تھا۔
لگتا ہے تم پہلے ماڈل رہ چکی ہو! دانیال نے کان کے قریب سرگوشی کی۔
عروہ نے دانت پیسے۔ اور تم نے یہ مرتسم جیسا لک کیوں بنایا ہوا ہے؟ تیرے بن کے سیزن ٹو کے ہیرو تم ہی ہو کیا؟
دانیال نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ اور تم نے جو دانت پیسے ہیں نا لگتا ہے ولن کا رول ہی ملے گا تمہیں!
عروہ نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔ لگتا ہے ریونج لینا ہی پڑے گا! وہ مسکرائی۔
دانیال نے اس کی مہندی کی طرف دیکھا۔ آئی نو تم عروہ صدیقی ہو۔ تم کیا ہی کرسکتی ہو مہندی میں میرے نام کے ڈی کے آگے ڈونٹ ٹاک ٹو می لکھ سکتی ہو شاید!
عروہ ہنس دی۔ نہیں کیونکہ کہتے ہیں مہندی کا رنگ گہرا آئے تو شوہر زیادہ پیار کرتے ہیں… اب آپ کا امتحان لینا بھی تو ضروری ہے!
وہ مسکرا کر سامنے دیکھنے لگی جہاں سب ہنس بول رہے تھے۔
مسز دانیال! آپ میرا viva لے رہی ہیں کیا؟
جی! اب تو آپ کی ساری زندگی میرے viva میں ہی گزرے گی!
دونوں ہنس پڑے۔
دوسرے جھولے پر سارہ بیٹھی تھی — آف وائٹ لہنگا جس کے بارڈر پر گلابی کام تھا بال کھلے ہوئے اور کرل کیے ہوئے تھے ہاتھوں میں چوڑیاں بھری تھیں۔
اس کے برابر میں شازین بیٹھا تھا ہرے رنگ کے کرتے اور پیلی واسکٹ میں۔
شازین نے ایک نظر اس کی مہندی پر ڈالی۔
یہ مہندی ہے یا گوگل میپ؟
سارہ نے منہ بنایا۔ یہ مہندی کا ڈیزائن ہے آرٹسٹک ٹیسٹ ہونا چاہیے!
شازین نے ہنستے ہوئے کہا ٹیسٹ تو دکھ رہا ہے — یہ لہنگا کم مینگو ملک شیک زیادہ لگ رہا ہے!
سارہ نے منہ پھلایا۔ اور آپ ایسے لگ رہے جیسے کلر کی بالٹی میں گر گئے ہوں!
شکر کرو تم تو دیکھو — چوڑیاں ایسی بھری ہیں جیسے چوڑیاں بیچنے والی ہو!
اور آپ ملٹڈ آئس کریم لگ رہے ہیں!
اور تم تو ڈیزرٹ لگ رہی ہو پیاری سی… خطرناک سی!
خطرناک تو میں تب لگوں گی جب آپ کا موبائل چیک کروں گی!
شازین ہلکا سا ڈرا۔ مہندی کے دن ہی دھمکیاں؟ ایسے ہی چلی تو میں بھاگ جاؤں گا!
سارہ مسکرائی۔ جی جی ضرور بھاگیں مما آپ کو ڈرون سے ڈھونڈ لیں گی!
دونوں ہنس پڑے۔ زارا نے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر دیں۔
لائٹس مدھم ہوئیں تو ڈی جے نے اناؤنس کیا
اب ڈانس ہوگا!
یہ سنتے ہی عروہ شرما گئی جبکہ دانیال فلور پر آ چکا تھا۔
میں ڈالوں تال پر بھنگڑا
تو بھی بھنگڑا پالا
چل ایسا رنگ جما دیں ہم
کہ بنے سب متوالے 🎵
دانیال نے عروہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا
🎵 ان ہاتھوں پر چاند رکھوں
اس مانگ پہ بھردوں تارے 🎵
پھر زارا بھی اسٹیج پر آ گئی اور عروہ کو اپنے پاس کھینچا۔
🎵 ہیلو ہیلو تو فلور پہ کب ہے آئی
یہ لو یہ لو بڑی سالڈ مستی چھائی! 🎵
دانیال کا منہ بن گیا اور وہ نیچے آ بیٹھا۔ دونوں جھولے پر واپس آ گئے۔
اسی دوران شازین فلور پر آیا اور ڈانس کرنے لگا۔ سارہ ہنستی ہوئی بولی
شازین! آپ ڈانس کر رہے ہیں یا ریسلنگ؟
شازین آ کر جھولے پر بیٹھا اور کہنی مارتے ہوئے بولا
میں جو بھی کروں تم تو ایسے بولتی ہو جیسے تمہیں کوریوگرافی کا ایوارڈ دینا ہے مجھے!
