زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر ۹
از قلم سیدہ طوبیٰ بتول
زارا اور اس کی چند سہیلیاں جن میں سارہ کے دھدیالی بھی شامل تھے آ کر شازین اور سارہ پر پھول برسانے لگیں۔
رات کے تین بج رہے تھے۔
عروہ کا لہنگا بیڈ کے ایک کنارے پر پھیلا ہوا تھا جبکہ وہ گھر کے سادہ سے جوڑے میں اپنی امی فرحت بیگم کے زانو پر لیٹی ہوئی تھی۔
فرحت بیگم اس کے بالوں کو آہستگی سے سہلا رہی تھیں۔
باہر ہلکی ہوا چل رہی تھی جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔
امی کل سب بدل جائے گا۔
عروہ نے مہندی لگے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
فرحت بیگم مسکرائیں
ہاں بیٹا سب بدل جائے گا مگر میرا پیار کبھی نہیں بدلے گا۔
عروہ نے گہرا سانس لیا۔
امی مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میں اس گھر کی بیٹی ہوں مگر کل سے اسی گھر کی بہو بھی بنوں گی۔
فرحت بیگم چند لمحے خاموش رہیں پھر نرمی سے بولیں
دیکھو عروہ بیٹی اور بہو میں فرق صرف ذمہ داریوں کا ہوتا ہے۔
عروہ نے نم آنکھوں سے اپنی امی کو دیکھا۔
جب تم صرف اس گھر کی بیٹی تھیں تو سب تمہیں سنبھالتے تھے۔
مگر اب جب تم بہو بنو گی تو تمہیں ان سب کو سنبھالنا ہے۔
بیٹی گھر والوں سے پیار لیتی ہے اور بہو بن کر تمہیں پیار لٹانا ہوگا۔
یہ کہہ کر انہوں نے عروہ کے گال سے آنسو صاف کیے۔
لوگ کہتے ہیں بیٹی بہو بن کر بدل جاتی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔
بیٹی صرف اپنی جگہ بدلتی ہے۔
بس تم میں وہی مسکراہٹ وہی نرمی برقرار رہے جو ہمیشہ سے تمہاری پہچان ہے۔
عروہ روہانسی سی ہو گئی۔
اور اگر کچھ مشکل ہوا تو؟
فرحت بیگم کی آنکھوں میں نمی آ گئی مگر چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
یاد رکھنا تمہاری یہ مسکراہٹ اگر چہرے پر سجی ہو تو گھر خود بخود چمک اٹھتا ہے۔
اور میں تمہاری ماں میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔
عروہ اٹھ کر بیٹھی اپنی ماں سے لپٹ گئی۔
اس کی مہندی فرحت بیگم کے دوپٹے پر ایک نشان چھوڑ گئی۔
فرحت بیگم نے اس کا ماتھا چوما۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا
بہو بن جانا مگر بیٹی بننا کبھی مت چھوڑنا۔
اپنی روح کو کبھی گھائل نہ ہونے دینا۔
عروہ سر ہلا کر دوبارہ ان کے زانو پر لیٹ گئی۔
گھڑی کی سوئیاں آہستہ آہستہ چل رہی تھیں جیسے وقت بھی رک کر ماں بیٹی کو دیکھ رہا ہو۔
سارہ سادے سے لان کے جوڑے میں آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی۔
تبھی اس کی امی آمنہ بیگم دودھ کا گلاس لیے کمرے میں آئیں۔
سارہ نے بالوں کا جوڑا بنا کر کیچر لگایا پھر ہلکا سا مسکرا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
آمنہ بیگم بھی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولیں
دودھ پی لو پھر سوجاؤ۔
سارہ نے خاموشی سے دودھ پیا گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھا اور اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
آمنہ بیگم نے اس کے بالوں کو سہلانا شروع کیا۔
امی شکریہ۔ اگر آپ نانو سے بات نہ کرتیں تو میں کبھی بتا ہی نہ پاتی کہ میں شاہ زین سے محبت کرتی ہوں۔
آمنہ بیگم مسکرائیں
بیٹا ماں اپنی اولاد کی خوشیاں ہی تو چاہتی ہے۔
لیکن جس بندھن میں تم بندھنے والی ہو وہ صرف پیار کا نہیں عادتوں کا بھی رشتہ ہے۔
وہاں روٹھنا منانا برداشت کرنا سب سیکھنا پڑتا ہے۔
سارہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
لیکن امی اگر ہماری سوچیں الگ نکلیں تو؟
آمنہ بیگم نے اس کے ہاتھ تھام لیے
یاد رکھنا دو لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
پیار سے سب جیتا نہیں جاتا کبھی کبھی سمجھنا بھی پڑتا ہے۔
اگر کبھی غصہ آئے تو چپ رہ جانا۔
خاموشی وہ باتیں کہہ دیتی ہے جو الفاظ نہیں کہہ پاتے۔
سارہ نے نظریں جھکا لیں۔
آمنہ بیگم نے نرمی سے کہا
شاہ زین تمہارا شوہر ہوگا مگر اس سے پہلے وہ کسی کا بیٹا ہے ایک انسان ہے۔
اس سے دل کا رشتہ رکھنے سے پہلے انسانیت کا رشتہ رکھنا۔
اور اگر کبھی ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھ ہی نہ پائیں تو؟
سارہ نے دھیرے سے پوچھا۔
آمنہ بیگم کی آنکھوں میں چمک اور نمی ایک ساتھ ابھری۔
تب یاد رکھنا پیار کا مطلب سمجھانا نہیں محسوس کرانا ہے۔
جیسے میں تمہیں پیار دیتی ہوں بغیر کسی حساب کتاب کے۔
سارہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ چپل اتار کر بیڈ پر آ گئی اور ماں کے زانو پر سر رکھ دیا۔
امی اگر بابا ہوتے تو خوش ہوتے نا؟
آمنہ بیگم مسکرائیں
ہاں بہت خوش ہوتے اور مجھ سے جھگڑ رہے ہوتے کہ شادی گاؤں میں کیوں نہیں کی۔
لیکن بیٹا میں تمہارے دھدیال والوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی۔
وہ لوگ ہمارا خیال اس لیے رکھتے ہیں کہ کہیں ہم یتیم اور بیوہ ہونے کے ناتے نظر انداز نہ ہو جائیں۔
سارہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
آمنہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
سارہ نے ان کے دوپٹے کے کونے سے وہ آنسو پونچھے۔
دوپٹے پر مہندی کا ہلکا سا داغ رہ گیا۔
آمنہ بیگم نے وہ داغ دیکھا پھر بیٹی کے ہاتھوں پر نظر ڈالی۔
بیٹا شادی کے بعد پیار مہندی کی طرح ہوتا ہے
شروع میں ہلکا مگر وقت کے ساتھ گہرا ہوتا جاتا ہے۔
بس خلوص کے ساتھ نبھانا تو یہ رشتہ زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ بن جائے گا۔
سارہ نے اپنی امی کو گلے لگا لیا۔
آپ فکر نہ کریں امی میں اس رنگ کو کبھی پھیکا نہیں پڑنے دوں گی۔
آمنہ بیگم مسکرائیں
مجھے پتا ہے میری بیٹی کے ہاتھوں پر سب سے گہری مہندی لگے گی۔
