Zindagi ke rang apno ke rang Written by syeda tooba batool Episode 10

زِندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر ۱۰ 

از قلم سیدہ طوبیٰ بتول 

ریحانہ بیگم اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھیں جبکہ کاشف صاحب دوسری طرف کروٹ لیے سو رہے تھے۔ اتنے میں شازین اور دانیال کمرے میں داخل ہوئے۔

مما آپ نے بلایا تھا؟ دانیال بولا اور آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ شازین بھی چپ چاپ اندر آیا اور بیڈ پر جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔

ریحانہ بیگم نے مسکرا کر دونوں بیٹوں کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
وقت کتنی جلدی گزر جاتا ہے کل تک تم دونوں میرے دوپٹے کا کونہ تھامے اس گھر میں ادھر ادھر پھرتے تھے۔

شازین اور دانیال نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر مسکرا دیے۔

ریحانہ بیگم نے نرمی سے کہا
بیٹو کل تم دونوں کسی کے شوہر بن جاؤ گے۔ دیکھو عموماً مائیں اپنی بیٹیوں کو سمجھاتی ہیں مگر آج میں وہ ماں ہوں جو اپنے بیٹوں کو سمجھا رہی ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ تم دونوں اپنی بیویوں کا بہت خیال رکھو۔ وہ اچھی بچیاں ہیں نازک دل رکھتی ہیں۔ ان کی باتیں سمجھو وقت دو۔

شازی سارہ تم سے سات سال چھوٹی ہے۔ اگر کبھی وہ کوئی بچکانی حرکت کر دے تو درگزر کر دینا۔
اور دانیال عروہ کا خاص خیال رکھنا۔ تم جانتے ہو کہ وہ ماں بیگم کو کتنی عزیز ہے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا اگر کبھی کوئی بات کرنی ہو تو مجھ سے ضرور کرنا۔

دونوں بیٹے آگے بڑھے اور ماں کو گلے سے لگا لیا۔

کاشیز بیوٹی سیلون
پھولوں اور مہنگے پرفیومز کی خوشبو فضا میں گھلی ہوئی تھی۔ بیک گراؤنڈ میں شادی کے گانے مدھم انداز میں بج رہے تھے۔
دو کرسیوں پر دو دلہنیں بیٹھی تھیں عروہ اور سارہ۔

عروہ نے گہرے مہرون رنگ کا برائیڈل لہنگا پہنا تھا جس پر گولڈن زردوزی اور دبکے کا نفیس کام ہوا تھا۔ اس کا نیٹ کا ڈوپٹہ چہرے پر ڈھکا ہوا تھا۔ جیولری میں روبیز اور پرلز کا بھاری چوکر چھوٹی بندیا اور گولڈن میک اپ سب کچھ کلاسک انداز میں تھا۔

سارہ نے گلابی رنگ کا لہنگا پہنا تھا جس پر سلور زردوزی اور دبکے کا کام تھا۔ اس کے سر پر منٹ گرین رنگ کا دوپٹہ سلور جھمکے اور میچنگ ماتھا پٹی تھی۔ اس کا میک اپ نرم گلابی شیڈز میں تھا چمکتے گال نرم لپ اسٹک اور لائٹ آئی شیڈو۔

عروہ سیلفی لے رہی تھی جبکہ سارہ بار بار اپنا دوپٹہ سیٹ کروا رہی تھی۔
عروہ بجو آپ کو ڈر نہیں لگ رہا میرے ہاتھ تو کانپ رہے ہیں
سارہ نے گھبرا کر پوچھا۔

عروہ مسکرائی فون رکھا اور بولی
ڈر کیسا میں انہی لوگوں کے درمیان جا رہی ہوں جن کے ساتھ بچپن گزرا۔ مجھے تو سکون مل رہا ہے۔

سارہ نے پاوٹ بناتے ہوئے سیلفی لی۔
سکون مجھے تو لگ رہا ہے جیسے امتحان دینے جا رہی ہوں سوال ہوگا شاہ زین اور ان کی فیملی۔

عروہ ہنسی
ریلیکس ڈرامہ کوئین اگر ایسے ہی بولا نا تو سب ہنسیں گے۔

اسی وقت میک اپ آرٹسٹ نے عروہ کا دوپٹہ واپس چہرے پر سیٹ کیا۔ دونوں کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
یقین نہیں ہوتا عروہ بجو کل تک میں نانو کے گھر چھیٹوں میں آتی تھی اور آج رخصت ہو کر جا رہی ہوں۔

تبھی زارا پیچ رنگ کے شرارے میں داخل ہوئی۔ اس کے لمبے بال کھلے تھے کانوں میں جھومر اور ماتھے پر تیکا جگمگا رہا تھا۔
چلیں جی اب ہال چلتے ہیں سب لوگ ویٹ کر رہے ہیں۔

عروہ نے اپنی پوٹلی اٹھائی اور سارہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی
چلو اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہیں۔
سارہ نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔

روشن ولا – شاہ زین کا کمرہ
کمرہ پھولوں کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔ شاہ زین سفید کرتے پاجامے میں شیشے کے سامنے کھڑا اپنی گولڈن شیروانی پہنے بال سیٹ کر رہا تھا۔
کم آن آج کوئی عام دن نہیں آج تیری شادی ہے شاہ زین احمد۔
اس نے آئینے میں خود کو دیکھا اور مسکرا دیا۔

آج کانفیڈنٹ لگنا ہے بس یہی یاد رکھنا ہے۔
اس نے زرار کا پرفیوم لگایا۔
شازی اب زندگی سیریس ورژن مانگ رہی ہے۔ سارہ اب صرف تمہاری ذمہ داری نہیں تمہاری مسکراہٹ کی وجہ بھی ہے۔

یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

دانیال کا کمرہ
دانیال نے بھی شاہ زین کی طرح شیروانی پہنی ہوئی تھی۔ وہ شیشے کے سامنے کھڑا تھا جب فون بجا۔ اسکرین پر ہاسپٹل لکھا تھا۔

کیا ابھی وہ چونک کر بولا۔
فوراً شیروانی اتاری سفید کرتا پاجامہ پہنا الماری سے اسٹیتھو اسکوپ نکالا والٹ اور چابی جیب میں رکھی اور نیچے کی طرف لپکا۔

آمنہ بیگم مٹھائی کی ٹوکریاں لیے کھڑی تھیں۔
ارے بیٹا تم تیار نہیں ہوئے شاہ زین تو بارات لے کر نکل گیا۔

دانیال نے جلدی سے جواب دیا
پھوپھو ہاسپٹل سے کال آئی ہے کسی کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ مجھے جانا ہوگا۔

آمنہ بیگم پریشان ہو گئیں
لیکن بیٹا سب لوگ ہال میں انتظار کر رہے ہیں۔
دانیال نے سنجیدگی سے کہا
وہ انتظار کر سکتے ہیں پھوپھو مگر زندگی انتظار نہیں کرتی۔

یہ کہہ کر وہ پھولوں سے سجی گاڑی میں بیٹھا اور تیزی سے نکل گیا۔

نکاح ہال
فیری لائٹس سے جگمگاتا ہوا ہال جیسمین اور گلاب کی خوشبوؤں سے بھرا ہوا۔
شازین اور سارہ آمنے سامنے بیٹھے تھے بیچ میں پھولوں کی چادر حائل تھی۔

قاری صاحب نے نکاح نامہ کھولا۔
شازین احمد ولد کاشف احمد آپ کا نکاح سارہ فاروق بنت فاروق احمد سے عوض دو لاکھ حق مہر پر کرایا جا رہا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟

شاہ زین کے دوست فہد نے سرگوشی کی
برو ابھی بھی وقت ہے بھاگ جا۔
شاہ زین نے ہنستے ہوئے کہنی ماری۔
قبول ہے۔

دوسری بار اس کی آواز بلند تھی
قبول ہے۔
سارہ کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔

تیسری بار اس نے پورے اعتماد سے کہا
قبول ہے۔
ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

اب سارہ کی باری تھی۔
قاری صاحب نے پوچھا
سارہ فاروق بنت فاروق احمد آپ کا نکاح شازین احمد ولد کاشف احمد سے عوض دو لاکھ روپے حق مہر پر کیا جا رہا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟

زارا نے جھک کر کان میں کہا
بول دیں سارہ آپی ورنہ شاہ زین بھائی انتظار کرتے کرتے بوڑھے ہو جائیں گے۔

سارہ نے اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی دیکھی جس پر شاہ زین لکھا تھا اور دھیرے سے بولی
قبول ہے۔

اس کے بعد اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائن کیا۔
آمنہ بیگم نے بیٹی کا ماتھا چوما آنکھوں میں نمی تھی۔

اب سارہ کو لال دوپٹے کے سایے میں زارا اور کزنز نے سٹیج پر بٹھایا۔ شاہ زین بھی آگے آیا۔
ریحانہ بیگم نے مرچوں سے نظر اتاری
خدا تم دونوں کو بے شمار خوشیاں دے۔

لیکن دوسری جانب عروہ کے نکاح کی باری تھی
دانیال ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔
عروہ اپنی جگہ بیٹھی رورہی تھی۔

کچھ عورتیں سرگوشی کر رہی تھیں
پتا ہے اس لڑکی کی منگنی بھی منگنی والے دن ٹوٹ گئی تھی۔
ہاں اور دیکھو آج شادی بھی ہوتے ہوتے رہ گئی۔

کیا دانیال وقت پر پہنچ پائے گا؟ کیا عروہ کی شادی ہو پائے گی؟
اپنی رائے کمنٹس میں ضرور دیں۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *