زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:13
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
عروہ ناشتہ کر رہی تھی جب دانیال نے اسے دیکھا۔مسز دانیال اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو مجھے پیالی میں ذرا سا حلوہ نکال دیں۔
عروہ نے مسکراتے ہوئے حلوہ نکالا۔
نگینہ بیگم نے ان دونوں کو دیکھا تو دل ہی دل میں سوچا،یہی تو اصلی خوشی ہوتی ہے جو اپنوں کے سنگ ہوتی ہے۔
دانیال نے چمچ سے عروہ کو ایک نوالہ خود کھلایا،وہ نظریں جھکا کر شرما گئی، اسے ویسے بھی میٹھا زیادہ پسند نہیں تھا۔
شاہ زین نے اپنا بچا ہوا پراٹھا سارہ کو دیا،سارہ نے منہ بنا کر وہ پراٹھا واپس اس کی پلیٹ میں رکھ دیا،اور دونوں یہی حرکت بار بار دہرا رہے تھے۔
نگینہ بیگم نے مسکراتے ہوئے دعا دی،اللہ تعالیٰ ان چاروں کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔سب نے ایک ساتھ آمین کہا اور ناشتہ جاری رکھا۔
کچھ دن بعد شادی کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔
شاہ زین نے آفس جوائن کر لیا تھا اور دانیال ہاسپٹل واپس چلا گیا تھا۔
شام کا وقت تھا۔سارہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی کانوں میں جھمکے پہنے جا رہی تھی،وہ ہمیشہ شاہ زین کے آنے سے پہلے یوں ہی تیار ہو جاتی تھی۔
تبھی زارا اور فرحت بیگم کی آوازیں دروازے کے باہر سے سنائی دیں۔
زارا بیٹا وہ شادی شدہ ہے، ایسا مت کہو۔فرحت بیگم نے ڈانٹا۔
نہیں امی، میں بک شاپ پر کتابیں لینے گئی تھی،میں نے خود شازین بھائی کو دیکھا،وہ ایک لڑکی کے ساتھ بہت فرینڈلی لگ رہے تھے۔
زارا بولی اور وہ دونوں آگے بڑھ گئیں۔
مگر سارہ کے کانوں میں صرف ایک جملہ گونجتا رہا،بہت فرینڈلی لگ رہے تھے وہ۔وہ بیڈ پر بیٹھی موبائل دیکھ رہی تھی،مگر دماغ کہیں اور تھا۔
اسی لمحے شاہ زین مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا،اس کے ہاتھ پیچھے چھپے ہوئے تھے۔دیکھو میں کیا لایا ہوں۔وہ خوشی سے بولا
سارہ نے آنکھوں میں نمی لیے کہا،مجھے سب پتا ہے، زارا نے سب بتا دیا ہے۔
شاہ زین چونکا، کیا بتا دیا زارا نے۔کہ آپ بک شاپ پر کسی لڑکی کے ساتھ تھے،بہت فرینڈلی لگ رہے تھے۔میں تو سمجھتی تھی آپ صرف عروہ بجو کے ساتھ ہی فرینڈلی ہیں۔ وہ روہانسی ہو گئی۔
شاہ زین نے گہرا سانس لیا،سارہ، تم مجھے اتنا کم ظرف سمجھتی ہو۔وہ افسردگی سے بولا۔
سارہ نے چوڑیاں اتار کر غصے میں میز پر پھینک دیں۔
شاہ زین نے فوراً انہیں زمین پر گرنے سے بچایا،اور احتیاط سے دوبارہ رکھ دیا۔وہ لڑکی بک شاپ پر فریمز بیچنے آئی تھی،میں نے تمہارے لیے فوٹو فریم خریدا تھا،اور تمہاری ہی بات کر رہے تھے ہم۔اس نے مسکرا کر پیچھے سے فریم نکالا۔
سارہ کی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی۔
شاہ زین بیڈ کے کنارے بیٹھا،اس کے آنسو صاف کیے۔
جیلس بیوی۔وہ ہنسا اور اس کے ہاتھوں میں دوبارہ چوڑیاں پہنائیں۔
سارہ نے شرما کر ہلکا سا مسکرا دیا۔
اسی رات فیضان صاحب اور کاشف صاحب ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے،ریحانہ بیگم اور فرحت بیگم ڈائننگ ٹیبل پر راشن کا حساب لکھ رہی تھیں،جبکہ ماں بیگم اور عروہ صوفے پر بیٹھ کر میگزین پڑھ رہی تھیں۔اچانک ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلی۔
مشہور سرجن ڈاکٹر دانیال احمد پر ایک ہائی پروفائل سرجری میں غفلت کا الزام لگایا گیا ہے۔مریض کی حالت تشویشناک ہے، تفتیش جاری ہے۔کمرے کی فضا ایک دم ساکت ہو گئی۔
عروہ نے ٹی وی بند کر دیا۔یہ میڈیا والے بھی نا، ریٹنگ کے لیے کچھ بھی بنا دیتے ہیں۔
فیضان صاحب نے گہری نظر سے اسے دیکھا۔لیکن یہ خبر ہاسپٹل کے ذرائع سے آئی ہے،باقاعدہ مریض کی حالت بھی دکھائی گئی ہے۔
عروہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ریحانہ بیگم بولیں،میرا بیٹا کبھی کسی کی زندگی سے نہیں کھیل سکتا،وہ کہتا تھا زندگی امانت ہے۔
فرحت بیگم نے عروہ کا ہاتھ تھاما،بیٹا، ڈاکٹر ہونا آسان ہے،مگر ڈاکٹر، آرمی آفیسر یا سیاستدان کی بیوی ہونا بہت مشکل۔وہ دنیا سے لڑتے ہیں،اور ان کی بیویاں دنیا کے طعنوں سے۔
دانیال کی جانب دانیال سنسان سڑک پر گاڑی سے اترا،چپ چاپ چلنے لگا۔اس کے ذہن میں ماضی کی یادیں گردش کرنے لگیں،ایم ڈی کیٹ کا امتحان،طویل راتوں کی محنت،میڈیکل کی موٹی موٹی کتابیں،اور والدین کی آنکھوں میں خواب۔اب سب کچھ خطرے میں تھا۔
وہ ایک گاڑی کے بونٹ پر بیٹھ گیا،سوچنے لگا کہ اب آگے کیا ہوگا۔اسی وقت اس نے ایک شخص کو سڑک کنارے گرتے دیکھا۔فوراً بھاگ کر گیا، شکر تھا کہ معمولی چوٹ تھی۔
دانیال نے اپنی گاڑی سے فرسٹ ایڈ کٹ نکالی،زخم صاف کیا، پٹی باندھی۔وہ شخص بولا،شکریہ بیٹا، اللہ تمہیں کامیاب کرے۔اور چلا گیا۔
دانیال نے آسمان کی طرف دیکھا،کبھی کبھی کچھ لوگ فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں،جو ہمیں ہمت اور دعائیں دے جاتے ہیں۔
یہ سوچ کر وہ گاڑی میں بیٹھا،اور روشن ولا کی طرف روانہ ہو گیا۔
جاری ہے۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
