Dil ya dharkan Episode 18 written by siddiqui


دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی)

قسط نمبر ۱۸

اندھیرے میں، ایک خاموش سایہ دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ وہ ایک مجسمہ بنی کھڑی تھی، جیسے اپنے قدموں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو، مگر دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔

کون ہے؟ اندر سے آواز آئی۔

ماہی نے لب بھینچ لیے۔ وہ پہلی بار اپنی بات سے پیچھے ہٹ رہی تھی۔ پہلے اس نے کہا تھا کہ وہ کبھی ولید سے بات نہیں کرے گی، مگر حارث کی وجہ سے اسے بات کرنی پڑی۔ اب ولید کی وجہ سے، وہ اپنے والد کے دروازے پر کھڑی تھی۔

دل نے سرگوشی کی، یہ کیسے ممکن ہے، ماہی؟
پرانے زخم پھر سے ہرے ہونے لگے۔ اس نے آنکھیں بند کیں، دل کی تکلیف کو برداشت کیا اور مڑنے لگی، مگر عین اسی لمحے دروازہ کھل گیا۔

ماہی؟ ایک حیران اور جذباتی آواز سنائی دی۔
تم ماہی ہو نا؟

ماہی نے سر اٹھایا، سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو بالکل اس کی ہم عمر لگ رہی تھی۔ شلوار قمیض میں ملبوس سر پر دوپٹہ جمعے وہ سیدھی سادی سی معصوم لڑکی لگی ماہی کو۔۔۔
اندر آؤ، باہر کیوں کھڑی ہو؟ اور تم یو کے سے کب آئی؟ وہ لڑکی اس کا ہاتھ تھامے اندر لے گئی۔

ماما، بابا دیکھیں، کون آیا ہے۔۔ نور نے خوشی سے پکارا۔

اندر، ماہی کے والد بے یقینی سے کھڑے تھے۔ جیسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ کر پا رہے ہوں کہ ان کی ضدی بیٹی ان کے سامنے موجود ہے

کون ہے نور۔۔۔۔؟ حفصہ بیگم بھی نور کی آواز پر کچن سے نکل آئی۔

ارے ماہی بیٹا۔۔۔تُم کیسی ہو۔۔۔؟ وہ بھی حیران تھیں ماہی کو دیکھ کر، لیکن الیاس صاحب سے زیادہ نہیں۔

نور نے حیرانی سے ماں کی طرف دیکھا۔ ماما، یہ کیا کہیں سے آپ کو بیمار لگ رہی ہے؟ دیکھیں تو، بالکل ٹھیک ہے۔

الیاس صاحب کی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی، مگر وہ مہارت سے اپنے جذبات چھپا رہے تھے۔
یہاں کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے مشکل سے الفاظ ادا کیے۔

ماہی کچھ نہیں بولی، بس خاموش کھڑی رہی، جیسے کوئی مجسمہ ہو۔

نور نے سنجیدگی سے کہا، کیسے آنا ہوا؟ یہ اس کے باپ کا گھر ہے۔ جب چاہے آ سکتی ہے، ہے نا، ماہی؟ ماہی، کچھ تو بولو۔

ماہی کے دل میں ایک بار پھر وہی سوال ابھرا،
میں یہاں آئی ہی کیوں ہوں؟ دل کی اس بے آواز پکار نے اسے پلٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے قدم دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔

ماہی، کہاں جا رہی ہو؟ نور کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔

ماہی۔۔۔ ماہی روکو۔۔۔
دروازے پر رک کر ماہی نے آخری بار پلٹ کر نور کی طرف دیکھا۔ اس کی سوتیلی بہن۔۔۔ لمبا قد، سفید رنگت، سیاہ آنکھیں، لمبے سیدھے سیاہ بال۔ نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس اور دوپٹہ سلیقے سے سر پر جمع تھا۔۔۔

ماہی کو یاد آیا، جب اس کی ماں کا انتقال ہوا، وہ سات سال کی تھی۔ دو سال بعد، اس کے والد نے شادی کر لی، تو اس کی بہنیں اس سے چھوٹی ہونی چاہئیں، پھر یہ اس کی ہم عمر کیسے؟

تُم کون ہو؟ ماہی نے سوال کیا۔

نور نے مسکراتے ہوئے کہا، میں نور ہوں۔

زینب بیگم نے وضاحت کی، یہ میری بیٹی ہے۔

ماہی نے چونک کر انہیں دیکھا۔ آپ کی بیٹی؟ مطلب؟ آپ دونوں کی…؟

زینب نے سر ہلایا۔ نہیں، یہ صرف میری بیٹی ہے۔ ہم دونوں کی بیٹی ماہ نور ہے، وہ بارہ سال کی ہے۔

ماہی کی آنکھیں حیرت میں پھیل گئیں۔ اس کی نظریں کبھی اپنے والد پر جاتیں، کبھی نور پر، اور کبھی اپنی سوتیلی ماں پر۔۔۔

نور نے سر جھٹکا۔ تمہیں یہ سب معلوم نہیں تھا کیونکہ تم کبھی ہم سے ملنے نہیں آئیں، مگر ہمیں تمہارے بارے میں سب معلوم ہے۔

ماہی نے بے نیازی سے کہا، میں جن سے نفرت کرتی ہوں، ان کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت نہیں سمجھتی۔

نور نے نرم لہجے میں جواب دیا، مگر ہم جن سے محبت کرتے ہیں، ان کے بارے میں سب جاننا ضروری سمجھتے ہیں۔

آپ پھوپو کو میرے اخراجات کے پیسے کیوں دیتے ہیں؟ اس نے نور کی باتوں کو نظر انداز کیے سخت لہجے میں پوچھا۔

الیاس صاحب نے گہرا سانس لیا اور کہا، اوہ، اب میں سمجھا کہ تم یہاں شکایت کرنے آئی ہو۔

جواب؟ ماہی کی آواز میں سختی تھی۔

الیاس صاحب نے بھی سخت لہجے میں کہا، کیونکہ تم میری بیٹی ہو، اس لیے دیتا ہوں، اور کوئی مسئلہ ہے!

ماہی نے تیز لہجے میں کہا، ماہی کو ضرورت نہیں ہے آپ کے خیرات کی۔۔۔

مگر مجھے خیرات دینا اچھا لگتا ہے۔ الیاس صاحب نے بھی تیز لہجے میں کہا۔

ماہی نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور پھر صاف انداز میں کہا، جب ماہی نے کہہ دیا ہے کہ میرے معاملات سے دور رہیں، تو آپ کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی؟

الیاس صاحب کی آواز میں ایک گہرا ٹھہراؤ تھا۔ انہوں نے ماہی کی طرف نگاہ دوڑائی اور پھر دھیرے سے کہا، نہیں رہ رہا دور… اب بولو… کیا تم اپنے نام کے آگے سے میرا نام ہٹا سکتی ہو؟ نہیں نا؟ ویسے ہی میں تمہارے معاملات سے اپنے آپ کو دور نہیں کر سکتا۔

ماہی کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہو گئے۔ مجھے غصہ مت دلائیں، ورنہ میں یہ بھی کر سکتی ہوں۔۔

الیاس صاحب نے ماہی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دھیمے مگر گہرے لہجے میں کہا، اور تُمہاری رگوں میں جو میرا خون دوڑ رہا ہے اُس کا کیا کرو گی۔۔۔

حفصہ بیگم نے نور کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔
نور نے اپنے لب کاٹے۔
اسی لمحے، اچانک نور نے مزاحیہ انداز میں کہا، ماما، پاپ کارن لے آئیں، یہ ٹام اینڈ جیری کا شو چل رہا ہے۔۔

اُن دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر گھور کر اسے دیکھا۔

حفصہ بیگم نے مصنوعی ناراضی سے کہا، میں کہوں، ماہی اتنی بدتمیز کیوں ہے؟ بالکل اپنے باپ پر گئی ہے۔

نور نے ہنستے ہوئے کہا، ہاں، اور ماما دیکھیں، غصہ بھی ایک جیسا ہے۔ دونوں مجھے کیسے گھور رہے ہیں۔۔

حفصہ بیگم نے مسکرا کر کہا، میری بیٹی کو یوں گھورنا بند کرو، دونوں ایک دوسرے کو گھورو۔

الیاس صاحب نے سنجیدگی سے کہا، ماہی کو دیکھ کر تم دونوں کچھ زیادہ ہی نہیں بولنے لگی؟

حفصہ بیگم نے آنکھیں موندیں۔ ہماری تو چلتی نہیں، تو سوچا، ماہی کو ہی آگے کر دیں۔

نور نے جوش سے کہا، ہاں! یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے، ماما۔ اب ماہی ہمارا ساتھ دے گی اور ہم اپنا بھی سارا بدلا لے لیں گے بابا سے۔

ماہی کی آنکھوں میں ایک لمحے کو حیرت کی جھلک ابھری، مگر وہ جلدی سے سنبھل گئی۔
میں کسی کا ساتھ دینے نہیں آئی یہاں۔ اس نے دھیمی مگر کٹیلی آواز میں کہا،
اور قدم دروازے کی طرف مڑنے ہی والے تھے کہ نور نے اسے پھر سے روک لیا۔
کیا تم چائے پی کر جاؤ گی؟

ماہی نے عجیب نظروں سے نور کو دیکھا۔ چائے؟ تمہیں لگتا ہے اس وقت چائے پینا مناسب ہے؟

نور نے کندھے اچکائے۔ اس گھر میں ہر مسئلے کا حل چائے ہے۔

الیاس صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا، یہ بات سچ ہے۔

ماہی کی نظریں نور پر جم گئیں۔
ٹھیک ہے۔ ایک کپ چائے۔

نور خوشی سے بولی، ماما! ماہی چائے پیے گی۔۔

زینب بیگم نے پلٹ کر کچن کی راہ لی۔

الیاس صاحب نے کہا، چائے میں شکر زیادہ ڈالنا، اس کے چہرے پہ جو کڑواہٹ ہے، شاید ذرا کم ہو جائے۔

ماہی نے بے ساختہ مسکرانے کی کوشش کی، مگر ہونٹوں تک آ کر مسکراہٹ تھم گئی۔

نور نے قریب آ کر آہستہ سے کہا، تم چاہو تو ہم دوست بن سکتے ہیں، بہن ہونا تو قسمت کا فیصلہ تھا۔

نہیں، شکریہ ماہی دوست نہیں بناتی۔۔۔
ماہی نے کہا اور اپنا رخ موڑ لیا۔۔۔

++++++++++++

کمرے میں چائے کی خوشبو پھیل گئی تھی، حفصہ بیگم نے چائے کی ٹرے میز پر رکھی، ہر ایک کے سامنے پیالی رکھ دی۔ ماہی نے چپ چاپ پیالی اٹھائی، مگر لبوں تک لاتے ہوئے ایک لمحے کو ٹھٹھک گئی۔

شکر تو آپ نے ویسے ہی زیادہ ڈال دی، جتنی باتوں میں تھی۔
ماہی نے حفصہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا،

حفصہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا، ہم عورتیں دل کی تلخیوں کا علاج شکر سے ہی کرتی ہیں۔

نور نے اپنی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ہنسی دبائی۔ مگر کبھی کبھی چینی کم ہو تو بہتر ہوتا ہے، کم از کم ذائقہ تو اصلی رہتا ہے۔

ماہی نے نظر بھر کر اسے دیکھا۔ تم ہمیشہ ایسے باتیں کرتی ہو؟ یا آج خاص مہمان کی آمد پر تیار کی ہیں؟

نور نے مسکرا کر کہا، میں ہمیشہ ایسی ہی ہوں، تم ہی  ملنے نہیں ائی کبھی۔۔۔۔

الیاس صاحب اپنی چائے میں چمچ ہلاتے ہوئے خاموش بیٹھے تھے، جیسے کسی پرانی کتاب کا ایک باب پھر سے کھل گیا ہو، جسے وہ بند کر چکے تھے۔ اچانک انہوں نے سر اٹھایا۔
ماہی، یہ گھر تمہارا ہی ہے۔ جو تم نے چھوڑ دیا تھا۔ اور تُمہارے کمرے میں آج بھی تمہاری چیزیں ویسے کی ویسے رکھی ہیں۔

ماہی نے چونک کر باپ کی طرف دیکھا۔ میں نے کہا تھا، کچھ مت بدلنا؟

ماہی، کیوں خود کو اور اپنے بابا کو تکلیف دے رہی ہو؟ دل میں نفرت رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دل سے نفرت نکال کر دیکھو، سکون ملے گا۔ حفصہ بیگم نے نرمی سے کہا۔

ماہی کی آنکھوں میں بے بسی تھی۔ وہ اپنے والد کے بارے میں کبھی سوچنا نہیں چاہتی تھی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں بدل سکتی۔ پھر بھی، اس کی زبان سے ایک سوال نکل آیا، میرے بابا نے ہمیشہ مجھے چھوڑا، ہمیشہ میری محبت کو نظرانداز کیا۔ کیسے معاف کر دوں؟

حفصہ بیگم نے نرمی سے کہا، کیا پتہ تُمہارے بابا نے صرف تُمہارا ہی سوچا ہو۔۔۔؟

نور نے بھی سر ہلایا، ہاں، دیکھو، ہماری کہانی ایک جیسی ہے۔ پہلے میں بھی اپنی ماں سے بہت ناراض تھی، لیکن پھر میں نے معاف کر دیا۔ ہمیں کبھی کبھار سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔

ماہی خاموش ہو گئی۔ اس کے دل میں ابھی بھی ایک تنازعہ تھا۔

حفصہ بیگم نے پھر سے بات کی، تمہارے بابا نے مجھ سے شادی تمہارے لیے کی تھی، تاکہ تمہاری زندگی بہتر ہو سکے۔ وہ تمہارے بارے میں سوچتے تھے، ان کے لیے تمہاری خوشی سب سے اہم تھی۔

ماہی نے آنکھیں موند کر ایک گہرا سانس لیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی دھندلی تصویر ابھرنے لگی تھی۔ جب وہ چھوٹی سی تھی، اور جب اس کی ماں کا انتقال ہوا تھا۔ اس کے بعد اُسے پھوپو کے گھر بھیج دیا۔۔۔ پھر کبھی واپس لے کر نہیں آیا ۔۔ اس کے بعد شادی کرلی۔۔۔۔ پھر کہا واپس چلو۔۔۔ اِس سب میں کہاں تھی ماہی کی خوشیاں۔۔۔

حفصہ بیگم نے نرم لہجے میں کہا، اور تمہیں پتا ہے کہ تمہارے بابا نے مجھ سے شادی تمہاری وجہ سے کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ تم ہمارے پاس آ جاؤ گی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اکیلے تمہیں نہیں پال سکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے تمہیں پھوپھو کے پاس بھیج دیا، کیونکہ تم بچی ہو، اپنے دکھوں سے نکل کر زندگی گزار سکو۔

ہاں خود سے دور کر کے دُکھ دے کر دُکھ سے نکال رہے تھے۔۔۔

حفصہ بیگم نے اس کی بے چینی کو محسوس کیا اور کہا، ہاں، یہ تو ان کی غلطی تھی، وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اکیلے تمہیں نہیں سنبھال سکیں گے، کیونکہ وہ خود بھی غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پھر انھوں نے مجھ سے شادی کی۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ میری بھی پہلے سے ایک بیٹی تھی، اور وہ چاہتے تھے کہ میں تمہیں سمجھ سکوں، تمہارے دل کی بات جان سکوں، اور ایک ماں کی محبت دے سکوں۔ اور میں نے بھی اپنی بیٹی کا سوچ کر شادی کی۔ ہم نے تم لوگوں کے لیے یہ سب کیا، تاکہ تمھارے لیے کچھ بہتر ہو۔

حفصہ بیگم نے ایک گہری سانس لی، ہم نے تمہیں قبول کرنے کی کتنی کوششیں کیں، لیکن تم ہمارے پاس نہیں آئی، ہم نے تمہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کتنی کوششیں کیں، پھر بھی تم ہم سے دور رہیں۔ لیکن اب اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ ہم وہ سب یاد کریں، جو گزر چکا۔ ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا ہے، اور اپنے دل کو صاف کرنا ہے۔

ماہی نے اپنے دل میں ایک لمحے کے لیے ان الفاظ کو جذب کیا۔ اس کے دماغ میں ولید کی باتیں گونجنے لگیں کیا پتہ انھوں نے تمہارے لیے شادی کی ہو؟ کوئی مجبوری ہو گی؟

اس کے ذہن میں سوالات کی ایک لڑی لگ گئی، اور وہ دھیرے دھیرے اپنے والد کی طرف مڑی۔ وہ آنکھیں جہنيں کبھی وہ محبت سے دیکھتی تھی، کبھی نفرت سے، اور کبھی وہ آنکھیں اُسے خوف سے بھر دیتی تھیں۔ مگر اب ان آنکھوں میں وہ سب کچھ تھا جو اسے کبھی نہیں نظر آیا تھا – محبت، خلوص اور ایک ایسی گہری پیاری وابستگی، جو وقت کی دہائیوں میں کہیں چھپ گئی تھی۔

انسان کو دوسروں کی آنکھوں میں وہی نظر آتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔
جب ماہی کے دل میں بدگمانی تھی، جب وہ اپنے والد کے بارے میں ہمیشہ یہ سوچتی آئی تھی کہ وہ اس کی اہمیت نہیں سمجھتے، اُس وقت اُسے اپنے بابا کی آنکھوں میں بھی وہ سب کچھ نظر آ رہا تھا جو وہ دیکھنا چاہتی تھی۔ اُسے ان کی آنکھوں میں صرف بے پرواہی اور لا تعلقی نظر آتی تھی، جیسے وہ کبھی اس کی فکر نہ کرتے ہوں، جیسے وہ کبھی اس کی موجودگی کو اہمیت نہ دیتے ہوں۔

لیکن اب، جب اُس کے دل سے بدگمانی کی دھند چھٹ رہی تھی، جب وہ خود کو اور اپنے احساسات کو واضح دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی، تو اُسے اپنے بابا کی آنکھوں میں وہ سب کچھ نظر آ رہا تھا جو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ آنکھیں اب محبت سے بھری ہوئی لگ رہی تھیں، جیسے وہ اس کی ہر حرکت کو اہمیت دیتے ہوں، جیسے وہ اس کی واپسی کا انتظار کر رہے ہوں۔

ماہی کے دل میں ایک عجیب سا خلا پیدا ہوا۔ کیا یہ سچ ہے؟ کیا وہ واقعی ماہی سے بہت محبت کرتے ہیں؟ اس کے دماغ میں اتنے سوالات چل رہے تھے، اور آنکھوں میں نم ہو گئے تھے، جیسے اس کی ساری دنیا الٹ پھیر کے سامنے آ چکی ہو۔

ہمارے ماں باپ بس ہمیں سمجھ نہیں پاتے ورنہ وہ ہم سے محبت بہت کرتے ہیں۔۔۔ اُسے ولید کی بات یاد آئی۔ ماہی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، اُس وقت نہ وہ اپنے بابا کو سمجھ سکی نہ اُس وقت اُس کے بابا اُسے سمجھ سکے۔

کبھی وہ ہمیں نہ سمجھے تو ہمیں اُنہیں سمجھ لینا چاہیے۔۔۔

اُس کے بابا نے تو اُسے نہیں سمجھا، لیکن وہ اپنے بابا کو سمجھ سکتی تھی۔ پہلے نہیں سمجھ سکی تو کیا اب تو سمجھ سکتی ہے نہ۔۔۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔

حفصہ بیگم نے نرمی سے کہا، ہم تمہیں کبھی مجبور نہیں کرنا چاہتے تھے، ماہی۔ ہم جانتے تھے کہ تمہیں وقت چاہیے تھا، اور تمہیں اپنے مسائل کا سامنا کرنا تھا۔ لیکن تمہاری ماں کے بعد، تمہاری زندگی کی اہمیت ہمیں بھی بہت زیادہ تھی۔

ماہی کی آنکھوں میں نمی تھی، اور دل میں ایک گہرا دکھ تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے والد کو گلے لگا کر سب کچھ کہہ دے، سب کچھ صاف کر دے، مگر کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کے اندر کی بے چینی اور غم کی لہر ایک بار پھر اُبھری، اور وہ بہتے ہوئے آنسو روک نہ پائی۔

نور نے دلجمعی سے کہا، اور تمہیں پتہ ہے کہ ان دونوں نے ہماری چھوٹی بہن کا نام بھی ہمارے نام سے ملا کر رکھا؟ ماہ نور یہ دونوں کتنے obsessive ہیں ہمارے لیے۔۔۔ وہ مسکراتی ہوئی کہہ رہی تھی، مگر اس کا چہرہ بھی ہلکا سا سنجیدہ تھا۔

الیاس صاحب ہنستے ہوئے نور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، نہیں نہیں، یہ نہ بتاؤ، ورنہ وہ کہیں گے، نور کا پورا نور رکھ دیا اور ماہی میں سے ماہی کا ی کہاں گیا! اب وہ اپنی بیٹی کو ایسے روتا ہُوا بھی تو نہیں دیکھ سکتے تھے۔

ہاں اب اس پر تو لڑائی ہوسکتی ہے۔۔۔ وہ ہلکا سے مسکراتی کہتی، اور پھر اٹھ کر اپنے والد کی طرف بڑھ گئی۔ وہ خاموشی سے ان کے سامنے کھڑی ہو گئی، اور پھر بغیر کچھ کہے، آہستہ سے ان کا گلے لگ کر رونے لگی۔ اس کا دل اتنی شدت سے ان کے لیے روتا تھا، اور وہ احساسات جو کبھی اندر دباتی تھی، اب باہر آ گئے تھے۔

بدگمانی ایک دم سے پیدا نہیں ہوتی،
دھیرے دھیرے پلتی ہے،
لفظوں کے درمیان خاموشیوں میں،
نظروں کے بدلتے زاویوں میں۔
مگر…
بدگمانی ایک دم سے ختم ہو جاتی ہے،
کسی سچ کی روشنی سے،
کسی معافی کی نمی سے،
یا ایک گلے سے جو دیر سے آیا ہو،
لیکن دل سے لگا ہو۔

++++++++++++

دو دن بعد

ماہی کی انگلیاں فون کی سکرین پر رکیں، کچھ لمحے تذبذب میں گزرے، پھر اس نے ٹیکسٹ بھیج دیا۔۔
میں پاکستان پہنچ گئی ہوں، ولید…
(ماہی کو اب خیال آیا کہ اسے ولید کو اطلاع دینی چاہیے تھی، شاید پہلے ہی۔)
پیغام بھیجنے کی دیر تھی کہ فوراً جواب موصول ہوا۔
ابھی کہاں ہو تم؟

ماہی کو حیرت بھی ہوئی اور دل کو سکون بھی ملا کہ وہ اسے اتنی اہمیت دیتا ہے۔
اپنے بابا کے گھر پر ہوں… اور حارث کیسا ہے؟

وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اور تم اب کہاں رہو گی؟

کیا مطلب کہاں رہوں گی؟ میں اب اپنے بابا کے ساتھ رہوں گی…
تُم ٹھیک کہتے تھے، بابا نے واقعی میری وجہ سے دوسری شادی کی تھی…
اور تمہیں پتہ ہے، یہاں سب بہت اچھے ہیں۔
بابا کی بیوی بھی بہت اچھی ہیں۔
یہاں نور بھی ہے، وہ بھی بہت اچھی ہے۔
اور ماہ نور، میری چھوٹی بہن، وہ تو بہت کیوٹ اور پیاری ہے…
یہاں سب مجھ سے پیار کرتے ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔

کچھ لمحے بعد جواب آیا، مگر وہ الفاظ ماہی کے دل کو چیر گئے۔
یہ سب ٹھیک ہے، لیکن تم وہاں نہیں رہ سکتی ہو ماہی…

ماہی کے چہرے کا رنگ یکدم بدل گیا۔
کیوں؟
پہلے تم کہتے تھے بابا سے بات کرو،
اب جب سب ٹھیک ہے، تو کہہ رہے ہو وہاں نہ رہوں؟
تم بہت عجیب ہو، میری سمجھ سے باہر۔
اتنی مشکل سے تو مجھے میرے بابا واپس ملے ہیں،
اب میں ان کے ساتھ نہ رہوں؟

کچھ لمحے بعد جواب پھر آیا…
ہاں، نہیں رہو گی… کیونکہ تم وہاں نہیں رہ سکتی ہو…
اور میں تمہیں اُن سے رشتہ ختم کرنے کا نہیں کہہ رہا، ماہی…
تم وہاں رہو، لیکن صرف کچھ دن… صرف چند دن۔
پھر پھوپھو کے گھر چلی جانا۔ اُن سے ملو، باتیں کرو، لیکن تم مستقل طور پر اپنے بابا کے گھر میں نہیں رہ سکتی…

ماہی کے چہرے پر حیرت، الجھن، اور تھوڑا سا غصہ بھی نمایاں تھا۔
وجہ بتاؤ گے؟ آخر کیوں نہیں رہ سکتی میں وہاں؟
اُس نے فوراً مسیج ٹائپ کیا۔

ہاں، مجھے پتہ ہے تم ابھی بھی میری کوئی بھی بات ویسے نہیں مانو گی…
(ولید کا فوراََ ریپلائے آیا جسے وہ اسی کے لیے تو فارغ بیٹھا تھا۔۔۔)

ہاں تو اب بولو…؟

کچھ لمحوں کے بعد ولید کا میسج آیا،
ابھی تمہیں وہاں سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہوگا…
لیکن جیسے ہی تم وہاں رہنے لگو گی،
تُم بھی اُس گھر کی ایک فرد بن جاؤ گی…
پھر تمہیں وہ توجہ، وہ محبت الگ سے نہیں ملے گی جو اب مل رہی ہے۔
تمہارے بابا اور اُن کی بیوی کی اب صرف تم ایک بیٹی نہیں ہو،
دو اور بھی ہیں…
وہ اب تین بیٹیوں کو برابر محبت دیں گے۔
اور تم سے یہ دیکھا نہیں جائے گا…
کیوں کہ جب تم اپنے بابا کے ساتھ تھیں، تب تم اکیلی تھیں،
پھر جب پھوپھو کے پاس گئیں، تب بھی اکیلی تھیں۔
تمہیں جتنی بھی زندگی میں محبت ملی،
اُس میں تمہارا کوئی شریک نہیں تھا۔
تمہیں محبت بانٹنے کی عادت نہیں ہے، ماہی…

ماہی کی انگلیاں موبائل اسکرین پر تھرتھرا رہی تھیں، جیسے الفاظ کے جواب میں دل کی دھڑکنیں بھی پیچھے نہ رہیں۔
ویسے بھی تم ذرا سی بات پر اپنوں سے بدگمان ہو جاتی ہو…
اور تمہیں جس سے محبت ہو، اُس کے معاملے میں تم ویسے ہی بہت حساس ہو…

اتنا جانتے ہو مجھے؟
ماہی نے میسیج لکھا۔۔۔

کہاں، یہ تو سب ہی جانتے ہیں تمہارے بارے میں…
ولید کا فوراََ جواب آیا۔۔۔

پر میں پھوپھو کے پاس نہیں جا رہی، میں اُن سے ناراض ہوں…

کس بات پر؟
ماہی کی سانس جیسے بھاری ہوگئی ہو۔ ماہی کچھ ٹائپ کرتی اس سے پہلے ہی ولید کا ایک اور میسیج آیا۔۔۔
جن سے دُور رہنا چاہیے، اُن سے تم دور نہیں رہتی…
اور جو تم سے محبت کرتے ہیں، اُن سے ناراض ہو کر بیٹھ جاتی ہو…
اب بابا والی غلطی دوبارہ دہرا رہی ہو…
جاؤ، جا کر پھوپھو سے معافی مانگو…
اور معاف کرنا سیکھو ماہی،
اور جو وعدہ کیا ہے اُن سے، وہ نبھاؤ…

کون سا وعدہ…؟
ماہی نے حیرانی سے پھر میسیج بھیجا

یہی کہ تم اُن کی کمپنی سنبھالو گی… ولید کا جواب آیا

تمہیں یہ بھی پتہ ہے؟! ماہی نے حیرانی سے دوبارہ ٹائپ کیا۔۔۔

کہاں، یہ تو سب کو پتہ ہے… ولید کا فوراََ میسیج آیا۔۔

ماہی کو سمجھ نہیں آیا وہ اس شخص کو کیا بولے۔۔۔ یہ شخص اُس کی سمجھ کے باہر تھا۔۔۔

اچھا، اور اپنے خاندان میں جن جن سے ناراض ہو، اُن سے جا کر ملو…
اچھی طرح بات کرو۔
ویسے بھی معافی تو تُم مانگ نہیں سکتی تم سے ہوگا نہیں،
تو کم از کم دل سے اچھے سے بات ہی کر لو۔
پھر دیکھنا، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا…
کچھ نہ سوچو، بس وہاں وہاں جاؤ جہاں کبھی نہ جانے کی قسم کھائی تھی تم نے…

چلی جاؤں گی…
لیکن اگر کسی نے مجھے کچھ بھی بولا نا،
تو میں چپ نہیں رہوں گی…
(ماہی نے بگڑے موڈ کے ساتھ میسیج ٹائپ کیا۔۔۔)

تم آ کر مجھے باتیں سنا دینا…
(ولید کا فوراََ ریپلائے آیا۔۔)

طنز مار رہے ہو…

نہیں تو… حل بتایا ہے…

یہ حل تھا…
(مسکراہٹ اور نمی، دونوں کا رنگ ایک سا ہوتا ہے بعض اوقات)

ہاں…

بس رہنے دو… ماہی نے ناگواری سے میسیج بھیجا
تمہیں فوراً برا لگ جاتا ہے…

مجھے کب لگا برا؟

جب میں نے تمہیں عذاب کہا تھا…

ایک لمحے کو چیٹ اسکرین ساکت ہوگئی۔
ولید خاموش تھا، آگے سے اُس کا فوراََ ریپلائے بھی نہیں آیا۔۔۔
کبھی کبھار ایک لفظ، ایک خاموشی… ہزار باتیں کر جاتی ہے…

بہت دیر بعد ولید کا میسیج آیا۔۔۔
ہاں لگا تھا بُرا لیکن پھر میں نے تمہیں معاف کر دیا۔۔۔

ماہی نے یہ میسیج پڑھا، دل میں ایک عجیب سی اُداسی محسوس ہونے لگی۔
لیکن میں نے تو معافی نہیں مانگی تھی…

وہ کبھی تم مجھ سے مانتی بھی نہیں…
(ولید کا فوراََ جواب آیا ۔۔)

پھر کیوں کیا معاف؟
(ماہی کو اُلجھن ہوئی — کیا انسان تھا یہ؟ سمجھ کے باہر۔۔۔)

اسی لیے تو کہہ رہا ہوں۔۔۔ تُم اپنا سارا غصّہ مُجھے پر نکل سکتی ہوں۔۔۔
میں تمہیں بنا معافی مانگے معاف کر سکتا ہوں۔۔۔ بلکہ کر دیتا ہوں۔۔۔

کچھ لمحوں تک وہ اس میسیج کو دیکھتی رہی۔ جیسے لفظوں کے بیچ کوئی چھپی ہوئی حقیقت تلاش رہی ہو۔ لیکن جتنا وہ سوچتی، اتنا ہی الجھتی چلی جاتی۔ ولید واقعی ایک اچھا انسان تھا، بے لوث، سمجھدار، اور برداشت کرنے والا۔ مگر ماہی کے دل میں اُس کے لیے کوئی جگہ نہیں بن پائی تھی۔
نہ دوستی کا جذبہ،
نہ رشتے کی گرمجوشی،
نہ ہم دردی کا کوئی گوشہ۔
بس ایک عجیب سا خالی پن تھا۔ جیسے کوئی شخص تمہارے ساتھ ہو، لیکن تمہارے اندر کہیں نہ ہو۔

کیا میں بے حس ہوں؟ اُس نے دل میں سوچا، خود سے سوال کیا۔
لیکن پھر اُس کے دل کے ایک کونے سے آواز آئی،
نہیں… جذبات کا نہ ہونا بے حسی نہیں ہوتا، یہ بس دل کا سچ ہوتا ہے۔

ماہی نے فون سائیڈ پر رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی، کچھ لوگ چاہ کر بھی ہمارے دل میں جگہ نہیں بنا پاتے، اور کچھ لوگ بنا کہے، ہمیشہ کے لیے بس جاتے ہیں۔
ولید جیسے لوگ شاید محبت کے قابل ہوتے ہیں،
لیکن ضروری نہیں کہ ہر دل انہیں چاہ لے۔

++++++++++

حفصہ بیگم کی آواز میں ہلکی سی گھبراہٹ تھی، جب نور نے بتایا کہ ماہی جا رہی ہے ۔۔۔

تم کہاں جا رہی ہو، ماہی؟

ماہی نے نظریں جھکاتے ہوئے نرمی سے جواب دیا،
وہ… پھوپو کے گھر۔

تو اب کیا تم ہمارے ساتھ نہیں رہو گی، بیٹا…؟ حفصہ بیگم نے سوال کیا ۔۔

دل میں محبت ہونی چاہیے، ساتھ رہنے یا نہ رہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اور میں آپ سب سے ملنے آتی رہوں گی…
یہ میرا ہی گھر ہے، جب دل چاہے گا، آ جاؤں گی۔

نور جو پاس ہی کھڑی تھی، جلدی سے بولی۔۔۔
پر تم ہمارے ساتھ رہو نا ماہی…

پھوپو سے ماہی نے وعدہ کیا ہے نا، نور… وعدے نبھانے ہوتے ہیں۔

حفصہ بیگم پھر دھیرے سے بولیں،
اچھا ماہی… تمہاری جہاں رہنے میں خوشی ہے، وہیں رہو۔
مگر اگر تم ہمارے پاس رہتیں… تو زیادہ اچھا ہوتا۔

ماہی نے سب کی طرف ایک بار دیکھا۔
رشتے ساتھ نہ بھی ہوں، دل میں ہوں تو بچھڑتے نہیں…

پھر ماہی نے جیسے ہی ماہ نور کو منہ بنائے بیٹھے دیکھا، فوراً اس کے قریب آ کر پوچھا،
تمہیں کیا ہوا ہے؟

آپا، ابھی تو آپ آئیں تھیں… اور اب جا رہی ہیں؟ This is not fair!
ماہ نور نے خفگی سے کہا،

ماہی ہنس پڑی، اور نرمی سے بولی،
ارے پاگل، ماہی ابھی گھومنے آئی ہے نا۔ ابھی تو دو دن تمہارے ساتھ رہوں گی، پھر دو دن پھوپو کے پاس رہوں گی، پھر واپس چلی جاؤں گی۔ ابھی آپا کی پڑھائی باقی ہے نا، ابھی تو چھٹیوں پر آئی ہوں۔ جب آپا کی پڑھائی مکمل ہو جائے گی، تو پھر تمہارے ساتھ بہت دن رہوں گی، پکا وعدہ۔ اور ابھی پھوپو سے ملنے جانا بھی ضروری ہے، نہیں تو وہ ناراض ہو جائیں گی کہ ماہی ان سے ملی ہی نہیں۔

ماہ نور نے فوراً ہاتھ آگے بڑھا دیا،
پرومیس کرو، جب آپ کی پڑھائی مکمل ہو جائے گی، تو پورے دو ہفتے میرے ساتھ رہیں گی!

ماہی نے اس کا ہاتھ تھام کر مسکرا کے کہا،
پرومیس۔

حفصہ بیگم نے حیرت سے پوچھا،
تمہاری پڑھائی ابھی باقی ہے؟

ہاں، ابھی ایک سال ہے۔

تو ابھی تم کتنے دن یہاں رہو گی پھر چلی جاؤ گی؟ نور نے تجسس سے پوچھا،

ماہی نے لمحہ بھر رُک کر مسکراتے ہوئے کہا،
بس… جب تک ولید کا میسج نہیں آتا، تب تک یہیں رہوں گی۔

حفصہ بیگم کا ماتھا کچھ شکن آلود ہوا،
ولید کون؟

وہ اس کی خالہ کا بیٹا ہے… اور خالہ لندن میں رہتی ہیں۔ الیاس صاحب نے وضاحت دی،

حفصہ بیگم کی آنکھوں میں ہلکی سی روشنی آئی،
اچھا؟ تو تم لندن میں اپنی خالہ کے پاس رہتی ہو؟ Well, good! یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ وہاں بھی تمہاری فیملی ہے۔

نور نے فوراً فقرہ کسا،
ویسے ماہی تم تو بہت لکی ہو… جہاں سب کی پھوپھو اتنی بدمعاش ہوتی ہیں، ایک تمہاری پھوپو ہیں جو تم پر جان وارتی ہیں، اور اوپر سے خالہ بھی اتنی اچھی! ورنہ یہ دونوں تو دنیا کی سب سے فسادی عورتیں مانی جاتی ہیں۔۔۔۔

ماہی ہنستے ہنستے دوہری ہو گئی،
ہاہاہا! لگتا ہے تمہیں تمہاری پھوپو اور خالہ دونوں ہی اچھی نہیں ملیں۔۔۔

ہاں، اور نہیں تو کیا! نور نے خفا سا منہ بنایا،

نور، ایسے نہیں کہتے اپنوں کے بارے میں۔ حفصہ بیگم نے فوراً سنجیدگی سے تنبیہ کی،

اچھا ماما… نور نے سر جھکایا،

الیاس صاحب نے اپنی چابیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا،
چلو ماہی، میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں۔

ماہی نے بیگ اٹھایا، اور مسکرا کے کہا،
چلیں…۔

+++++++++++++

پھوپوووو… ماہی آ گئی!
ماہی نے اندر قدم رکھتے ہی آواز لگا دی تھی۔۔۔

لانچ میں کھڑے ارشد صاحب، جو شاید کہیں جا رہے تھے، ماہی کی آواز سن کر وہیں رک گئے۔
تم کب آئی؟
انہوں نے حیرت سے پوچھا، اور مسکرانے لگے۔ پھر اس کی نظر الیاس صاحب پر گئی۔۔۔
بھائی صاحب آپ؟

الیاس صاحب نے آگے بڑھ کر ارشد کے کندھے پر ہاتھ رکھا،
سونیا کو میرا سلام کہنا۔ ابھی مجھے کام پر جانا ہے۔ رات کو واپس آ کر ملوں گا اس سے۔
یہ کہتے ہوئے وہ ہلکے سے سر ہلا کر نکل گئے۔

ارشد صاحب نے پلٹ کر ماہی کو دیکھا،
تم اپنے ڈیڈ کے ساتھ آئی ہو؟

ماہی نے اثبات میں سر ہلایا،
ہاں، پھوپو کہاں ہیں؟ پھوپووو…!
پھر ایک بار تیز آواز لگائی،
ماہی آ گئی ہے۔۔۔۔

اُسی لمحے کمرے کا دروازہ کھلا، اور سونیا پھوپو باہر آئیں۔ ان کی نظریں جیسے پل بھر کو ٹھٹک گئیں۔

ماہی نے بازو پھیلاتے ہوئے کہا،
Surprise!
اور دوڑتی ہوئی پھوپو کے گلے لگ گئی۔

سونیا پھوپو کے چہرے پر حیرت اور خوشی کا ایک انوکھا امتزاج تھا۔ انہوں نے محبت سے ماہی کو اپنے سینے سے لگا لیا،

ماہی نے مسکرا کر کہا،
آئیں، بیٹھیں۔ مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، اور بہت کچھ سنانا بھی ہے۔

وہ سونیا پھوپو کا ہاتھ پکڑ کر انھیں صوفے پر بٹھاتی، اور خود بھی قریب بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، چہرے پر ایک خاص سی روشنی تھی۔

سونیا پھوپو نے حیرت سے پوچھا،
یہ معجزہ کیسے ہو گیا؟ تم تو اپنی پھوپو سے ناراض تھیں نا؟

تھی… ناراض، لیکن اب نہیں ہوں۔ ماہی نے نرمی سے کہا،

سونیا پھوپو کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری،
تم یو کے سے کب آئی، ماہی؟

پرسوں رات کو۔

ارشد صاحب جو ساتھ ہی بیٹھے تھے، فوراً بولے،
اور کہاں تھیں؟ پرسوں آئی تھیں تو اب آ رہی ہو؟

اپنے بابا کے گھر تھی۔

پھوپو نے ذرا سنبھل کر پوچھا،
تو بات ہو گئی تمہاری بھائی سے؟ ناراض نہیں ہو اب اُن سے؟

ماہی کا چہرہ ایک عجیب سی چمک سے روشن ہو گیا۔
نہیں… وہ سب ماہی کی ہی غلط فہمی تھی۔ وہاں سب بہت اچھے ہیں۔ میری نئی مما، میری دونوں بہنیں، بابا… سب بہت محبت کرتے ہیں مجھ سے۔
پھر اُس نے پھوپو کی آنکھوں میں جھانک کر مسکرا کر کہا،
اور سب سے اچھی بات آپ کو پتا ہے کیا ہے پھوپو…؟
کہ وہ لوگ ماہی سے بہت محبت کرتے ہیں… بہت زیادہ…

سونیا پھوپو نے دھیرے سے ماہی کا ہاتھ تھاما۔ آنکھوں میں نمی سی تیر گئی۔
شاید یہ خوشی کا وہ لمحہ تھا، جس کی ماہی اور اس کی پھوپو دونوں کو برسوں سے تلاش تھی۔

اور شاید… یہ پہلی بار تھا کہ ماہی واقعی خوش تھی، دل کی گہرائیوں سے، بے حساب، بے حد۔

یہ سب تو غلط ہو گیا تھا…
اب ماہی اپنے باپ کے پاس واپس چلی جائے گی۔۔۔ ارشد جبیل نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔۔۔ وہ تو پچھلے پندرہ سال سے یہی کوشش کرتے آئے تھے کہ ماہی اپنے باپ کے قریب نہ جا سکے… کہ کہیں وہ لوٹ نہ جائے، کہیں سچ سامنے نہ آ جائے۔

لیکن اب… ایک ہی دن میں سب کچھ بدل گیا تھا۔
جتنی بدگمانیاں، جتنے اندیشے، جتنے جھوٹ… سب جیسے ایک جھٹکے میں ختم ہو گئے تھے۔

ارشد نے دبے دبے لہجے میں، شاید دل میں اٹھتی کسی انجانی گھبراہٹ کے ساتھ پوچھا
تو اب تم ان کے ساتھ رہو گی؟

بھلا کیوں؟ وہاں کیوں رہنے لگوں؟
ماہی کا جو گھر ہے، ماہی وہیں رہے گی… ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

سونیا پھوپو نے ہنستے ہوئے پوچھا،
اچھا؟ تو بھلا بتاؤ تو، ماہی کا گھر کون سا ہے؟

ماہی نے آہستہ سے اردگرد نظریں دوڑائیں…
پھر صوفے پر بیٹھی اپنی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
یہ… جہاں ماہی اس وقت بیٹھی ہے۔
پھر ایک پل رُکی، اور سونیا پھوپو اور ارشد صاحب کو دیکھتے ہوئے یاد دلانے لگی
آپ دونوں کو یاد ہے نا… جب میں اسکول سے آ کر روتی تھی، کہتی تھی کہ میرا کوئی گھر نہیں… سب لڑکیاں کہتی ہیں کہ ان کا اپنا گھر ہے…
تو آپ دونوں نے کہا تھا،
‘کس نے کہا؟ تُمہارا کوئی گھر نہیں یہ ہے نا ماہی کا گھر۔۔۔

ماہی کی آواز دھیرے سے مگر پُر یقین ہو گئی
تو ماہی کا گھر… اب یہی ہے۔
اور اب ماہی کو یہاں سے کوئی نکال نہیں سکتا۔
ماہی کوئی بات بھولتی نہیں۔
آپ لوگوں کو بھی اپنی بات سوچ سمجھ کر کہنی چاہیے تھی…

سونیہ پھوپو نے مصنوعی حیرت سے کہا،
اوہووو ارشد… یہ تو ہمارا بہت بڑا نقصان ہو گیا!
اچھا خاصا گھر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا…
اب تو یہ گھر ماہی کا ہے۔ پتہ نہیں ماہی ہمیں یہاں رہنے دے گی بھی یا نہیں!

ارشد صاحب نے گہری سانس لیتے ہوئے سر جھکا دیا،
ہاں… سچ کہہ رہی ہو۔
ہمیں واقعی سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے تھا۔

ماہی کی یہ بات سن اُن کی جان میں جان آئی تھی۔۔۔ شُکر ہے ماہی یہ گھر چھوڑ کر نہیں جا رہی۔۔۔

ماہی نے نرمی سے مسکرا کر کہا،
اب ماہی اتنی ظالم نہیں ہے…
جو آپ دونوں کو بے گھر کر دے۔
پھر فوراً رخ موڑ کر پھوپو کا ہاتھ تھام لیا،
اچھا پھوپو، یہ سب چھوڑیں…
مجھے آپ کو بہت ضروری بات بتانی ہے۔
وہاں لندن میں ماہی کے ساتھ کیا کیا ہوا… آپ کو سب کچھ بتانا ہے۔

پھر اُس نے سر موڑ کر ارشد صاحب کی طرف دیکھا، آنکھوں میں ایک شریر سی چمک تھی۔۔
پھو پھا…؟

ارشد نے فوراً ہاتھ اُٹھا دیے،
اوکے، اوکے… جا رہا ہوں میں۔
تم دونوں بیسٹ فرینڈ لگی رہو۔
میں نہیں آ رہا تم دونوں کے رازوں کے بیچ۔
رات کو آ جاؤں گا… تب تک بات ختم ہو جانی چاہیے۔
ورنہ مت کہنا کچھ، میں روم سے نہیں جاؤں گا!
میرے گھر کے ساتھ ساتھ میری بیوی پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔۔۔

سونیہ پھوپو نے ہنستے ہوئے کہا،
اب جائیں بھی، چلیے۔۔۔

ارشد صاحب نے ہار مانتے ہوئے دروازے کی طرف قدم بڑھایا،
جا رہا ہوں…

چلو بتاؤ… اب تو وہ چلے گئے،
پر یہ تو بتاؤ، تم اچانک یہاں کیوں آ گئی؟
ابھی تو لاسٹ ایئر کی پڑھائی باقی ہے نا؟

ماہی نے سانس کھینچا، جیسے سینے کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو۔
وہاں… ماہی پھنس گئی تھی پھوپو…
بہت بُری جگہ پر۔
میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
مجھے… ولید کی بات ماننی پڑی، تبھی مُجھے یہاں آنا پڑا۔

ماہی کی آواز میں تھکن تھی، اور آنکھوں میں ایک انجان سا خوف۔
پھوپو… جس سے میں نفرت کرتی تھی… اسی نے میری مدد کی…
باقی سب نے… دھوکہ دیا۔

کیا مطلب؟ دھوکہ کیسا؟

ماہی نے آنکھیں جھکا لیں۔
پھوپو، آپ کو پتہ ہے… میں نے ولید کو کتنا بار برا بھلا کہا۔
دل سے، زبان سے… اور شاید آنکھوں سے بھی۔
لیکن پھر بھی… وہی ولید میری بات پر کھڑا رہا۔
اگر وہ نہ ہوتا… تو آج ماہی جیل میں ہوتی…

سونیا پھوپو کی آنکھوں میں تشویش گہری ہونے لگی۔
یہ سب کیا کہہ رہی ہو ماہی؟

پھوپو، سب کچھ ایم ڈی سے شروع ہوا…
مجھے وہاں پتہ چلا کہ ایم ڈی لندن کا ایک انڈر کور مافیا ڈان ہے۔
میں نے ولید کے دراز میں لینس دیکھے۔۔۔

سونیا پھوپو نے چونک کر کہا
کہا  تُم نے ولید کے دراز میں لینس دیکھے؟

ہاں، اور اسی لمحے… میرے دل میں ایک عجیب سا شک بیٹھ گیا۔ولید پر۔
پھر ایک پارٹی میں… میں ایم ڈی مافیا سے ملی…
مگر میں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکی،
بس اُس کی آنکھیں دیکھیں…
وہ آنکھیں، پھوپو…
ایسی وحشت زدہ، جیسے کوئی درندہ جھانک رہا ہو…
جیسے کسی کو دیکھ کر لمحے میں خوف جڑوں تک اتر جائے۔۔

پھر وہ آگے کہتی گئی اور سونیہ کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہوتی گئیں۔

سونیا پھوپو نے چونک کر کہا تو تم نے نائلہ کو بتا دیا… کہ تمہیں اپنے کزن پر شک ہے؟

نہیں پھوپو… ماہی نے نہیں بتایا اُسے۔
کیونکہ ماہی کو صرف شک تھا…
اگر یقین ہوتا تو ضرور بتا دیتی۔

سونیا پھوپو گہری نظر سے ماہی کو دیکھتے ہوئے بولی
اچھا، پھر کیا ہوا؟

ماہی نے گہری سانس لی اور پھر سے کہنا شروع کیا۔
پھر اُس نے کہا…
‘تم یہاں جو بھی کرنے جا رہی ہو، بہت احتیاط سے کرنا۔
اور جب کبھی مصیبت میں پھنس جاؤ…
تو مجھے یاد کر لینا۔
اور جب لگے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان تمہارے بھروسے کے لائق نہیں رہا…’

سونیا پھوپو نے نرمی سے، آنکھوں میں ہمدردی لیے کہا۔
تو مجھ پر بھروسا کرنا ہے نا؟… اُس نے یہ کہا نہ؟

ماہی نے آنکھیں جھکائے، آواز میں ندامت لیے کہا۔
نہیں پھوپو… اُس نے نہیں کہا کہ مجھ پر بھروسا رکھو،
بلکہ اُس نے کہا تھا
‘اُس رب پر بھروسا رکھنا… پھر وہ تمہیں راستہ دکھا دے گا۔’
لیکن وہ میرے ساتھ مخلص تھا نا پھوپو؟
تو پھر اُس نے ایسا کیوں کہا؟
کیوں نہیں کہا کہ مجھ پر یقین رکھو؟

سونیا پھوپو نے نرمی سے، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
بیٹا، انسانوں کے دل بدل جاتے ہیں…
ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ کون کب مخلص ہے…
لیکن اللہ جانتا ہے۔
اسی لیے اُس نے کہا کہ اپنے رب پر بھروسا رکھو،
کیونکہ جب تم مشکل میں ہوگی،
تو وہی رب تمہیں صحیح راستہ دکھائے گا۔
ہاں… اور اگر ولید کہتا کہ مجھ پر بھروسا رکھو…
اور وہ کسی دن مجھے نہ بچا پاتا، تو؟
اس لیے کہ وہ جانتا تھا، انسان خطا کا پتلا ہے۔
اور صرف رب ہی ہے… جو کبھی خطا نہیں کرتا۔
بالکل… شاید اسی لیے اُس نے تمہیں اللہ پر چھوڑ دیا،
کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ واقعی مخلص ہے،
تو اللہ خود اُسے تمہاری مشکل کا وسیلہ بنا دے گا۔
اور اگر نہیں، تو وہ کسی اور کو وسیلہ بنا دے گا۔

ہاں پھوپو، وہ کہتا تھا
مشکل وقت میں سب سے پہلے اللہ پر بھروسا کرو…
پھر وہ رب خود ہی کسی کو مدد کے لیے بھیج دیتا ہے۔
اور جب اللہ کی طرف سے مدد آئے،
تو اُس وسیلے پر بھروسا رکھنا چاہیے،
کہ وہ رب نے ہمارے لیے بھیجا ہے۔

چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔

ماہی نے دھیمے، نادم لہجے میں کہا۔
پھوپو…
مجھے اب احساس ہو رہا ہے…
مجھے سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگنی چاہیے تھی۔
میں نے نائلہ کو وسیلہ سمجھا… اور اسی پر یقین کر لیا…
جبکہ شاید، مجھے ولید پر یقین رکھنا چاہیے تھا…
یا کم از کم اللہ سے دعا مانگنی چاہیے تھی کہ
یا اللہ، جو سچ ہے، اُس کو میرے سامنے لے آ…
لیکن میں نے… میں نے ایک بار بھی اللہ سے مدد نہیں مانگی۔

سونیا پھوپو نے ماہی کا چہرہ تھام کر، آنکھوں میں شفقت لیے کہا۔
کوئی بات نہیں بیٹا…
اب توبہ کر لو… دیکھو اللہ نے پھر بھی تمہیں بچا لیا،
اور آج تم بالکل سلامت میرے سامنے بیٹھی ہو۔
یہ اُس رب کی رحمت ہے۔
الحمدللہ…

ماہی کی آنکھیں بھیگ گئیں…
اب وہ سمجھ چکی تھی کہ پاکستان پہنچتے ہی
ولید نے اُسے اللّٰہ کا شکر ادا کرنے کا کیوں کہا تھا
کیونکہ ولید اُس کی کیفیت کو ماہی سے زیادہ سمجھتا تھا۔
ماہی دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگی…
دل سے… پورے یقین سے۔

پھر آگے کیا ہوا؟

ماہی تھوڑا رک کر پھر سے کہنا شروع کیا۔۔۔
ماہی کہتی گئی اور سونیا خاموشی سے سنتی رہی…
سونیا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن پھر تمھارا شک ختم ہوا؟

ماہی نے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا
نہیں پھر میں اور ولید،
اس جگہ پہنچے جہاں ایم ڈی مافیا اور دشمنوں کے درمیان جنگ ہو رہی تھی… اور پھوپو… وہاں میں نے ایم ڈی مافیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پھر میں نے ولید کو دیکھا… جو میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

سونیا پھوپو چونک کر کہا۔۔۔
تو… ولید مافیا نہیں تھا؟

ماہی مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا
نہیں پھوپو…
آپ کو بھی لگا نا کہ وہی ہوگا؟
لیکن وہ نہیں تھا…

ہاں… سن کر تو مجھے بھی لگا تھا وہی ہے…
لیکن اگر میں تمھاری جگہ ہوتی، تو کبھی یقین نہ کرتی… چاہے میرے سامنے ہزار ثبوت رکھ دیے جاتے… پھر بھی نہ۔

ماہی حیرت سے کہا
کیوں پھوپو؟

سونیا نے نرمی سے کہا
کیونکہ… وہ میرا کزن ہوتا نا۔

بس؟ اتنی سی بات پہ یقین نہ کرتیں؟ ماہی کو حیرت ہوئی

نہیں بالکل نہیں… خون کا رشتہ ہوتا نہ۔

پھوپو… آپ نا بالکل پاگل ہیں! ماہی مسکرانے لگی۔۔

سونیا نے چھیڑنے کے انداز میں کہا
اچھا یہ بتاؤ… تم نے حارث پہ شک کیوں نہیں کیا؟
حالانکہ اگر مجھے یاد ہے، تو اُس کی تو بھوری آنکھیں ہیں… ہیں نا؟

ماہی نے آہستگی سے کہا
ہاں…

سونیا نے نرمی سے طنز کرتے ہوئے کہا
تو سب سے پہلے شک تمہیں اسی پر کرنا چاہیے تھا نا؟

ماہی کے چہرے پر بے یقینی اور دکھ کے سائے لہرائے
آہہ پھوپو… یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟
ماہی اُس پر کیسے شک کر سکتی تھی؟
وہ ماہی کا کزن تھا… کرائم پارٹنر…
ماہی اُسے اچھی طرح جانتی تھی…

تو کیا ولید تمھارا کزن نہیں تھا؟
تمھارا دوست نہیں تھا؟
تمھارا بچپن کا ساتھی نہیں؟

ماہی پھوپو کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔
اُس کی نظریں جیسے سوالوں سے بھر گئیں ہوں…
لیکن زبان خاموش تھی…
اور دل میں ایک شور مچ رہا تھا…

سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا
تو تم نے اس پر شک اس لیے کیا کہ وہ تمہیں پسند نہیں تھا؟ نہ کہ اس کے خلاف کوئی ثبوت تھا؟

ماہی نے شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
ہاں… وہ ماہی کو اچھا نہیں لگتا تھا۔
کیونکہ وہ ہر وقت ماہی کو روکتا تھا، ٹوکتا تھا…
‘یہ مت کرو، وہ نہ کرو، ایسے نہ بولو، ایسا نہ کرو…’
بس! وہ حد سے زیادہ سیریس تھا!

بس! اسی لیے شک کر لیا؟
تمہیں لگا کہ جو انسان تمہیں اچھا نہیں لگتا،
وہ اچھا انسان بھی نہیں ہو سکتا؟

ماہی نے سر جھکا لی
غلطی کی تھی نا پھوپو…
ولید پر شک کر کے۔
جب اُسے پتا چلا تو اُس کا ردِعمل بھی بہت سخت تھا…
ماہی نے اُسے ہرٹ کیا،
لیکن اُس نے پھر بھی کچھ نہیں کہا۔
خاموش رہا… بس ماہی سے نظریں چُرا لی تھیں…

سونیا پھوپو نے نرمی سے، فخر کے ساتھ کہا
کیوں؟ کیونکہ وہ ایک اچھا انسان ہے نا ماہی…
اور اچھے لوگ الزام کا جواب الزام سے نہیں دیتے،
بلکہ برداشت سے دیتے ہیں۔

چھوڑو جو ہو گیا، وہ ہو گیا…
یہ بتاؤ اب کیسا لگتا ہے ولید تمہیں؟

ماہی نے مسکرا کر، لیکن تھوڑا سا گھور کر کہا
اب… اچھا لگتا ہے۔
ہاں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ لگنے لگا ہے…
وہ اب بھی وہی ولید ہے… اور اُس کی کچھ عادتیں آج بھی ایسی ہیں جو ماہی کو کبھی بھی پسند نہیں آئیں گی!

سونیا پھوپو نے ہنستے ہوئے کہا
تو پھر؟ کیا کرو گی؟

ماہی نے آنکھوں میں شرارت لیے، پُر سکون لہجے میں کہا
ماہی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ…
ماہی ولید کے معاملے میں تھوڑا سا کمپرومائز کر لے گی…

سونیا پھوپو نے حیرانی سے کہا۔۔۔
اوہ ہو! کیسا کمپرومائز؟

بس… جو اس کی بری عادتیں ہیں، انہیں ماہی نظرانداز کر دے گی
اور صرف اس کی اچھی باتیں یاد رکھے گی… بس!

سونیا نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا
واہ!
میری ماہی تو اکیلی رہ کر بہت سمجھدار ہو گئی ہے!

یہ دونوں ابھی اپنی باتوں میں گم تھیں کہ اچانک موبائل کی بیل سنائی دی
کس کی کال ہے، پھوپو؟

سونیا نے فون اسکرین دیکھ کر ہلکی سی آہ بھرتے ہوئے کہا
آفس سے ہے… لگتا ہے کوئی پرابلم ہو گئی ہے۔
ارشد تو گئے ہیں، لیکن لگتا ہے مجھے بھی جانا پڑے گا…

ماہی نے تھوڑی ناراضگی سے، آنکھوں میں بےچینی لیے کہا
پر ابھی تو ماہی کی باتیں ختم نہیں ہوئیں…

سونیا پھوپو چہرے پر نرم مسکراہٹ لیے کہا
ارے کہیں نہیں جا رہی میں، تم کرو نہ باتیں۔

ماہی نے تھکن سے سر پیچھے ٹکاتے ہوئے کہا ۔۔
اچھا نہیں پھوپھو… آپ چلی جائیں،
ماہی نے ویسے بھی تھوڑا سونا ہے۔
رات کو بتاؤں گی… آرام سے،
ابھی ماہی تھک گئی ہے تھوڑا۔

سونیا پھوپو نے فون بند کرتے ہوئے، نرمی سے کہا
نہیں میری جان، ارشد ہیں آفس میں، سب سنبھال لیں گے۔
میں نہیں جا رہی کہیں۔

تو پھر آپ یہیں بیٹھیں، ماہی تو جا رہی ہے سونے۔
ماہی صوفے سے اٹھی بولی۔۔۔

سونیا پھوپو ہنستی ہوئی، ہلکی سی جھپکی مار کر کہا
بدمعاش! میں یہاں تمہارے لیے آفس نہیں جا رہی
اور تم مجھے چھوڑ کر خود سونے جا رہی ہو؟

ماہی شرارتی انداز میں کہا
ہاں، اب پھوپو ماہی تھوڑی ہے نا، ماہی تو ماہی ہے!

سونیا پھوپو نے چونک کر ہنستے ہوئے کہا
اچھا اچھا!
کچھ کھا پی کر سونا، اور دروازہ صحیح سے لاک کر لینا۔

اور ماہی اپنے روم کی طرف چل دی اور سونیا پھوپو اپنے آفس۔۔۔

++++++++++

ماہی کمرے میں آ کر دھیرے سے دروازہ بند کیا وہ قدموں کی نرمی سے چلتی، اور بستر پر آ کر لیٹ گئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے، تکیے میں چہرہ چھپالیا، اور پھر موبائل اٹھایا۔
اسکرین آن ہوتے ہی… وہی ایک خیال، ایک چہرہ  حارث۔

پتا نہیں… حارث کیسا ہوگا؟
کہیں تکلیف میں تو نہیں؟
اس کے زخم… ٹھیک تو ہو رہے ہوں گے نا؟

یہ سوال اُس کے دل کے سب سوالوں پر بھاری تھا۔
آنکھوں کے سامنے وہی منظر دوبارہ ابھرا۔۔۔
گولی اس کی طرف بڑھی تھی… اور حارث نے ماہی کے آگے آ کر گولی کھا لی تھی۔

کیا میں واقعی اس کے لیے اتنی خاص ہوں؟
کہ اس نے اپنی جان کی پروا بھی نہ کی؟

کمرہ خاموش تھا، لیکن ماہی کے دل میں ایک طوفان برپا تھا۔
اس نے سونیا پھوپو کو ابھی تک نہیں بتایا تھا…
نہ حارث کے بارے میں، نہ اپنے دل کے حال کے بارے میں۔

ماہی کو ابھی پھوپو کو بھی بتانا تھا حارث کے بارے میں۔۔۔
کہ ماہی کو حارث بہت پسند ہے۔
اور جسے ماہی پسند کرتی ہے… اُس نے ماہی کے لیے گولی کھائی ہے۔
ایسی قربانی ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔

کسی انجانی خوشبو کی طرح، آج ماہی کو اپنی دنیا اچانک بہت حسین لگنے لگی تھی۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے خوشیاں، جو برسوں چھن گئی تھیں،
اب اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔

کیا ماہی کو بھی خوش رہنے کا حق ہے؟
کیا ماہی کو بھی محبت ملنے کا حق ہے؟
ہاں… ماہی کو بھی جینے کا حق ہے!

دل نے گواہی دی —
محبت تو اسے حارث سے تب ہی ہو گئی تھی
جب حارث نے کہا تھا :
‘سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے…’

وہ جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
مجھے پھوپھو کو سب کچھ بتانا ہے۔
یہ کہنا ہے کہ حارث دنیا کا وہ واحد لڑکا ہے
جس سے ماہی شادی کرنا چاہتی ہے۔

پھر اچانک وہ کچھ پرانی باتیں یاد کرنے لگی۔۔۔
حارث کے ساتھ گزرے وہ چند سال۔۔۔
ماہی کو حارث کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ یاد تھا۔۔۔

سات سال پہلے…
جب حارث اور ولید پاکستان آئے تھے،
تو وہ ماہی کے گھر ہی ٹھہرے تھے۔

ماہی تب بھی ویسی ہی تھی — تھوڑی ضدی، تھوڑی خاموش، لیکن اندر سے بے حد حساس۔
رات کے دو بج رہے تھے۔
سارا گھر گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا،
لیکن ماہی کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔

بیڈ پر لیٹے لیٹے اُس نے فون اٹھایا۔
دل میں نہ جانے کیا آیا
ایک ٹیکسٹ بھیجا
مجھے نیند نہیں آ رہی… باہر چلیں؟

کچھ لمحے بعد فون کی اسکرین پر جواب چمکا
ابھی؟ اس وقت؟

ماہی نے ہنستے ہوئے لکھا
ہاں، ابھی ہی تو مزا آئے گا۔۔۔

ایک لمحے کی خاموشی… پھر اگلا میسج
اوکے، چلو…

تھوڑے ہی دیر میں دونوں گھر کے قریب ہی سڑک پر ٹہل رہے تھے۔
سناٹا ایسا کہ اپنے قدموں کی آہٹ بھی کچھ کہتی محسوس ہو۔
ٹھنڈی رات تھی، ہلکی سی ہوا چل رہی تھی جو ماہی کے بالوں کو بار بار چہرے پر بکھیر دیتی،
اور وہ اپنے بالوں کو بار بار کان کے پیچھے کر رہی تھی۔۔
اوپر آسمان پر بے شمار ستارے چھائے ہوئے تھے۔
چاند مکمل نہیں تھا، لیکن اُس کی روشنی بھی کافی تھی،

تمہیں کیا پسند ہے، ماہی؟ حارث نے ماہی کی طرف دیکھ پوچھا۔۔
ماہی نے اُس کی طرف دیکھا، پھر نظریں آسمان کی طرف کر لیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر تھی،
مجھے اندھیری رات، کالے بادل، اور بارش پسند ہے…

اپنا پاؤں تو دکھاؤ ذرا… کہیں الٹے تو نہیں؟
حارث شرارت سے کہتا جھک کر اُس کے پاؤں دیکھنے لگا۔۔۔

پاگل ہو! ماہی نے حارث کے کندھے میں ایک ہاتھ مارتے کہا۔۔۔

اب تم ایسی باتیں کرو گی تو کوئی بھی آرام سے تمہیں چڑیل بول سکتا ہے۔ حارث نے ہستے ہوئے کہا۔

ماہی نے آنکھیں گھمائیں
تو اب مجھے یہ سب اچھا لگتا ہے، تو؟

حارث شرارتی انداز میں کندھے اچکائے
ہاں، تو کس نے کہا تھا چُڑیلوں والی پسند رکھو اپنی؟

ماہی نے تھوڑا سا منہ بنایا، پھر اُس کی طرف دیکھ کر کہا
چھوڑو، تم اپنا بتاؤ… تمہیں کیا پسند ہے؟
حارث وہ واحد انسان تھا جس کی الٹی سیدھی باتوں پر ماہی اُس پر کبھی غصّہ نہیں کرتی تھی لیکن ابھی حارث کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ماہی ہرگز برداشت نہ کرتی۔۔۔

حارث نے ہنستے ہوئے کہا
مجھے… ولید پسند ہے۔۔۔۔

ماہی نے فوراً پلٹ کر گھورا
تمہیں ولید کے علاوہ کوئی نظر آتا بھی ہے یا نہیں؟

حارث نے ایک دم سے سنجیدہ ہو کر کہا
ہاں نا، تم نظر آتی ہو…

یہ جملہ سیدھا دل پر لگا… لیکن اس سے پہلے کہ ماہی کچھ کہتی، سامنے سے ایک جانا پہچانا چہرہ غصے سے ان کی طرف بڑھا۔
تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو؟

دونوں چونک کر رک گئے۔ وہ دونوں اپنی ہی دُھن میں، ایک دوسرے میں گم، سڑک پر چلے جا رہے تھے کہ اچانک سامنے سے ولید آ گیا۔
وہ غصے سے گھور رہا تھا

تمہیں یہ جن پتہ نہیں کیوں پسند ہے… ماہی نے ہلکے سے زیرِ لب کہا، جسے صرف حارث سن سکا ۔۔

حارث نے مسکرا کر جواب دیا
بس کیا کریں، میری پسند ہی ایسی ہے…
مجھے جن، بھوت اور چُڑیلیں پسند آتی ہیں…

ماہی نے اُس کی طرف ایک نظر دیکھی، پھر بے اختیار مسکرا دی۔

شاید یہی وہ لمحہ تھا جہاں دل نے چپکے سے تسلیم کر لیا تھا —
کہ یہ پاگل، یہ حارث، ماہی کی زندگی میں کچھ خاص ہے…

ماہی اپنے کمرے میں بیڈ پر نیم دراز تھی۔
ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر تھی، دل میں وہی پرانی یادیں تازہ ہو رہی تھیں۔۔
فون پر ریلز اسکرول کرتے کرتے وہ ایک پل کے لیے خود سے بے خبر سی ہو گئی تھی۔

اچانک…
ٹِن
فون پر ایک ای میل کا نوٹیفکیشن آیا۔

ماہی نے بے دھیانی میں ای میل کھولی…
لیکن اگلے ہی لمحے اُس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔

یہ… یہ کیسے ہو گیا…؟

دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔
سانس جیسے اٹک گئی ہو۔

وہ جس کا کبھی وہم تک نہیں کیا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
نہیں… یہ خواب ہو سکتا ہے… یا شاید کوئی غلط فہمی…

لیکن ای میل بار بار ایک ہی حقیقت چیخ چیخ کر سنا رہی تھی —
سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔

ماہی نے جلدی جلدی فون میں ولید کی چیٹ کھولی،
ایک طویل میسج ٹائپ کیا،
لیکن انگلی رک گئی۔
سانس تھم گئی۔
دل نے روکا۔

نہیں… ابھی نہیں۔

اس نے ٹائپ کیا ہوا سارا میسج ڈیلیٹ کر دیا۔
لیکن اب اندر کچھ ٹوٹ چکا تھا…
کوئی دھاگہ، کوئی بھروسہ، کوئی خواب۔

اب غصہ اُبھر رہا تھا… شدید، بے قابو، جلتا ہوا غصہ۔

میں ہی کیوں؟
میں ہی کیوں آ جاتی ہوں لوگوں کی باتوں میں؟
میں ہی کیوں کر لیتی ہوں سب پر بھروسہ؟

اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اسی وقت جا کر نائلہ کا گلا دبا دے۔
وہ لڑکی، جسے اُس نے کبھی دوست سمجھا،
وہی اُس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکی تھی۔

ماہی کی چار سال کی محنت، اُس کے سپنے، اُس کی دعائیں…
سب ایک ای میل کی نظر ہو چکی تھیں۔

ایسا لگا جیسے ای میل نہیں آئی،
آسمان اُس پر گر پڑا ہو۔

اب وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔
اس نے تپتی انگلیوں سے دوبارہ فون اُٹھایا
اور ولید کی چیٹ کھولی….

+++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *