زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:14
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
دانیال دروازے سے اندر آیا۔اس کے سفید کوٹ پر خون کے دھبے تھے۔
عروہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس پہنچی کیا ہوا دانیال یہ خون کیسے لگا وہ گھبرا کر بولی۔
دانیال نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہاتشویش چل رہی ہے مگر میں نے کچھ نہیں کیا عروہ۔
ماں بیگم نے لرزتی ہوئی آواز میں ہاتھ اٹھایایا اللہ میرے بچے کے مستقبل کی حفاظت فرما
رات کے تین بجے…پورا روشن ولا نیند میں ڈوبا تھا۔بس ایک کمرے کی لیمپ کی مدھم روشنی جل رہی تھی۔
عروہ چپ چاپ سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی تھی اس کے سامنے دانیال کے ہاسپٹل بیگ سے نکلی ہوئی رپورٹس چارٹس اور سرجری نوٹس پھیلے ہوئے تھے۔
امی کے الفاظ ذہن میں گونج رہے تھے:ڈاکٹر ہونا آسان مگر ڈاکٹر کی بیوی ہونا بہت مشکل ہے۔عروہ کو یاد آیاشادی والے دن دانیال دیر سے کیوں آیا تھا
کیونکہ وہ تین مریضوں کی جان بچا رہا تھا۔اس نے جلدی سے موبائل اٹھایا اور کال ملائی۔
ہیلو ایمن سوری تمہاری نیند خراب کی مگر مجھے صبح تک کا انتظار نہیں۔
ڈاکٹر ایمن ہلکی ہنسی کے ساتھ بولیں ارے نہیں میری نائٹ ڈیوٹی ہے میں ابھی وارڈ میں ہوں۔
عروہ نے گہری سانس لی ایمن مجھے دانیال کے کیس کے فوٹیجچاہیے۔
ایمن چونک گئیں یہ بہت بڑا رسک ہےمینجمنٹ نے سب اکسیس بلاک کر دی ہے۔
عروہ کی آواز کانپ گئی مجھے سچ جاننا ہے میں جانتی ہوں دانیال بے قصور ہے۔
کچھ لمحے خاموشی رہی پھر ایمن بولی کل آجانا میں تمہیں بیک اپ ہارڈ ڈرائیو دے دوں گی۔
عروہ نے رپورٹس سمیٹیں میں نے کہا نا صبح کا انتظار نہیں کر سکتی میں ابھی آرہی ہوں۔فون بند کیا عبایا نکالاحجاب باندھا نقاب کیاپہلی بار زندگی میں۔
یہ وہی عبایا تھا جو دانیال نے شاپنگ کے دوران محبت بھری ضد سے خریدا تھا۔پرس میں موبائل اور چابیاں رکھیں کچن سے کالی مرچوں کی برنی اٹھائی اپنی حفاظت کے لیے۔واش روم کی لائٹ آن کی تاکہ اگر دانیال جاگ جائےتو سمجھے وہ اندر ہے۔پھر آہستگی سے باہر نکلی۔
گارڈ نے گیٹ کھولااور عروہ پہلی بار خود گاڑی چلاتے ہوئےرات کی سڑکوں پر نکل پڑی۔
۔۔۔۔۔ہاسپٹل میں۔۔۔۔
کاریڈور نیم تاریک تھا۔ڈاکٹر ایمن اسے دیکھتے ہی بولی تم واقعی آگئی
میں رک نہیں سکتی تھی۔وہ دونوں آئی ٹی روم میں گئیں۔پاس ورڈ داخل کیا گیافائلز کھلیں اور آخرکار وہ ویڈیو سامنے آئی۔
اسکرین پر دانیال آپریشن کی تیاری کر رہا تھا
اور پھر ڈاکٹر رضا نےمریض کو زیادہ ڈوز کا انیستھیسیا دیا۔
فوٹیج میں سب صاف تھا۔
ایمن کے منہ سے نکلا او مائی گاڈ دانیال بے قصور ہے۔
عروہ نے فوراً فوٹیج موبائل میں منتقل کر لی۔
اگلی صبح…روشن ولا کے باہر میڈیا کا ہجوم تھا۔ڈاکٹر دانیال کا کریئر خطرے میں گھر والے خاموش کیوں ہیں کیمرے فلیش مار رہے تھے۔اسی وقت عروہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی لان میں گئی اور ایک رپورٹر کو اندر بلا لیا۔
ٹی وی آن ہوا یو ایس بی لگائی گئی اور وہ ویڈیو چلنے لگی جس میں سارا سچ واضح تھا۔
دانیال حیرت سے کھڑا ہو گیاآنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
یہ سب تم نے کیاوہ دھیمی آواز میں بولا۔
عروہ نے نم آنکھوں سے جواب دیاجی اپنے شوہر کے کریئر کے لیے۔
دانیال مسکرایاتم میری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ ہو
عروہ۔ٹی وی کی بریکنگ نیوز بدلی ڈاکٹر دانیال احمد بے قصور قراران کی بیوی عروہ احمد نے سچ سامنے لاکراپنے شوہر کا نام بچا لیا۔
شام کی پریس کانفرنس…لان میں دانیال وائٹ کوٹ پہنےاسٹیتھو اس کے گلے میں لٹکا ہوا۔
رپورٹر نے سوال کیا ڈاکٹر دانیال آپ آج بری الذمہ ہوگئےکیا کہنا چاہیں گے
دانیال نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ عروہ کو دیکھا جو پھولوں میں پانی ڈال رہی تھی۔
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ طاقت یونیفارم میں نہیں بلکہ پیار اور یقین میں ہوتی ہے۔
میری بیوی نے میرا سب کچھ بچا لیا۔
ایک رپورٹر بولا یعنی وہی بات ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے
دانیال نے جواب دیاجی ہاں عروہ میری زندگی ہے۔
کچھ دیر بعد لاؤنچ میں…سب شام کی چائے پی رہے تھے۔نگینہ بیگم نے عروہ کے سر پر ہاتھ رکھااللہ تم دونوں کے رشتے میں ہمیشہ یقین رکھے۔
ریحانہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں دانیال بیٹا اب تمہیں عروہ سے بچنا ہوگایہ تو سی آئی ڈی بن گئی ہے۔
دانیال نے امی کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہاامی کہیں یہ میرا ہی قتل نہ کر دے۔عروہ نے ٹرے اٹھاتے ہوئے اسے گھوراسب ہنس پڑے۔
لیکن سارہ کا چہرہ اتر گیا تھا۔اس نے شازین کو فون پر مسکراتے دیکھا
اور اسپیکر سے ایک نسوانی آواز آئی مسٹر شازین ڈونٹ فارگیٹ ٹومارو میٹنگ سارہ کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔
اس نے دل میں کہاسب کی زندگی میں سب پرفیکٹ نہیں ہوتا…پھر چپ چاپ کمرے میں چلی گئی۔
انسٹاگرام کھولا شازین کی نئی پوسٹ تھی۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
