zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 15

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:15

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔

سارہ نے موبائل بیڈ پر پٹخا۔دروازہ کھلا اور شازین کمرے میں آیا۔ وہ اپنا لیپ ٹاپ چارچنگ پر لگانے لگا۔

شازین نے سارہ کے فون کی جانب دیکھا جس میں وہی پوسٹ دکھائی دے رہی تھی۔

شازین مسکرایا سارہ تم نے یہ پوسٹ دیکھ لی؟

مہک میری یونی فرینڈ ہے۔ اُس کے ڈیڈ کی بھی ایک کمپنی ہے تو اس نے ہماری کمپنی میں انویسٹ کیا ہے۔

سارہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

شازین نے اس کی طرف دیکھا مگر اس سے پہلے کہ کچھ کہتا سارہ کمرے سے باہر چلی گئی۔شازین نے اپنا سر پکڑ لیا۔

اگلے دن سارہ گاؤں چلی گئی۔اس کا کہنا تھا کہ اسے اپنی امی کی یاد آ رہی ہے مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ شازین سے علیحدگی کا فیصلہ کرچکی تھی۔

اس نے اپنی امی کو بھی سب سچ بتا دیا تھا۔

اسے وہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ایک شام وہ صحن میں بیٹھی تھی۔تبھی آمنہ بیگم چائے کی ٹرے لیے صحن میں آئیں۔ پلنگ پر بیٹھیں اور ایک کپ سارہ کی طرف بڑھایا۔

سارہ نے ان کی طرف دیکھا اور اپنے آنسو پونچھنے لگی۔آمنہ بیگم نے نرمی سے کہارو لو بیٹا کبھی کبھی آنسوؤں سے دل ہلکا ہوجاتا ہے۔سارہ نے نظریں چرائیں۔مجھے لگتا ہے کہ میں ہی غلط ہوں میں بہت زیادہ سوچتی ہوں پر کیا کروں شاہ زین سے محبت کرتی ہوں۔

آمنہ بیگم ہلکا سا مسکرائیں۔بیٹا ہر سوچ کا سچ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

سارہ نے اپنی امی کو دیکھا۔آمنہ بیگم نے بیٹی کے کندھے پر ہاتھ رکھابیٹا شک اور پیار کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ایک دل میں ہو تو دوسرا احساس نکل جاتا ہے۔سارہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

لیکن امی اگر سامنے والا آپ کے احساسات سمجھنا ہی نہ چاہے تو؟

آمنہ بیگم نے گہرا سانس لیا اور آسمان کی طرف دیکھاجہاں پرندے واپس اپنے گھونسلوں کو جا رہے تھے۔بیٹا شادی سمجھنے کا نہیں سمجھانے کا رشتہ ہوتا ہے۔عورت جب بیوی بنتی ہے نا تو اس کا نازک سا دل دو گھروں کا بوجھ اٹھاتا ہے ایک میکے کا ایک سسرال کا۔اور ان سب کے بیچ سب سے بڑا بوجھ ہوتا ہے اپنے جذبات کا۔سارہ حیرت سے اپنی امی کو دیکھنے لگی۔

آمنہ بیگم بولیں پیار عادتوں سے نہیں ہوتا عبادت سے ہوتا ہے۔ میں شرک نہیں کہہ رہی مگر اسی لیے شاید شوہر کو مجازی خدا کہا جاتا ہے۔اس میں جذبات بدلتے ہیں مگر رشتے نہیں۔

سارہ اپنی امی کی گود میں لیٹ گئی۔ آہستہ آہستہ اس کے آنسو خشک ہونے لگے تھے۔آمنہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔بیٹا میرا مشورہ یہی ہے کہ تم اپنے گھر واپس جاؤ۔ایک بیوہ ماں اپنی بیٹی کا گھر ٹوٹتے نہیں دیکھ سکتی۔

سارہ نے شازین کو کال کی اور شازین فوراً اُسے لینے آ گیا۔دو گھنٹے میں وہ دونوں روشن ولا پہنچ چکے تھے۔

سفر کے دوران دونوں خاموش رہے۔جیسے ہی سارہ اوپر کمرے میں آئی شازین بھی اس کے پیچھے آیا۔اس نے ایک گہرا سانس لیا پھر سارہ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور پردے کے پاس لے گیا۔

پردہ ہٹایا تو وہاں پینٹ برش کینوس اور آرٹ کا سارا سامان رکھا تھا۔سارہ کو ہمیشہ سے آرٹسٹ بننے کا شوق تھا مگر شہر اکیلے آنے کی اجازت نہ تھی اسی لیے اس کا خواب ادھورا رہ گیا تھا۔

سارہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔یہ بہت اچھا ہے وہ آہستگی سے بولی۔

شازین نے اسے سائڈ ہگ کیاتم دنیا جہان کی خوشیاں ڈیزرو کرتی ہو۔سارہ اپنی پہلی پینٹنگ بنا رہی تھی۔شازین بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ میں آفس کا کام کر رہا تھا۔بیڈ سے اٹھ کر چپل پہنی اور سارہ کے پاس گیا۔

سارہ نے پینٹنگ کا رخ موڑ دیا تاکہ وہ نہ دیکھ سکے مگر شازین نے پینٹنگ اپنی طرف کرلی۔پھر ہنس پڑا سارہ شاید تمہیں پینٹنگ عروہ سے سیکھنی چاہیے۔

اس نے زارا کو بہترین پینٹنگ سکھائی ہے تمہیں بھی سکھا دے گی۔یہ کہہ کر وہ واپس بیڈ پر بیٹھ گیا۔

سارہ کا چہرہ مرجھا گیا۔وہ بے دلی سے اپنی پینٹنگ مکمل کرنے لگی۔رات کے وقت سارہ بچا ہوا کھانا پلاسٹک باکسز میں رکھ رہی تھی

جبکہ عروہ دانیال کے لیے کافی بنا رہی تھی۔سارہ کافی مجھ سے زیادہ بن گئی تم پیو گی؟ عروہ نے پیار سے پوچھا۔سارہ کہیں کھوئی ہوئی تھی نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔

عروہ کافی لے جانے لگی تھی کہ سارہ کو دیکھا۔

کافی مگ وہیں سلیب پر رکھا تھا۔کیا ہوا؟ پریشان لگ رہی ہو؟

سارہ نے اسے گھوراعروہ بجو سچ بتائیں آپ اور شازین صرف بیسٹ فرینڈز تھے یا کچھ اور بھی؟

عروہ چونک گئی۔ہم صرف اچھے دوست تھے اور ہیں بس۔عروہ بولی اور کافی مگ اٹھایا۔

سارہ نے مگ واپس رکھانہیں عروہ بجو آج آپ مجھے سچ بتا ہی دیں۔یاد ہے آپ کی منگنی ٹوٹ گئی تھی وہ بھی اس لیے کہ آپ اور شازین ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔آپ نے ہمیشہ شازی پر اپنا حق جتایا ہے۔ جب بھی وہ آپ سے بات کرتے ہیں آپ کی طرف دیکھتے ہیں آپ کا ذکر کرتے ہیں میرا دل کٹنے لگتا ہے۔ لگتا ہے میں آپ دونوں کے بیچ آگئی ہوں۔

عروہ کے دل کو چوٹ لگی سارہ میں شادی شدہ ہوں۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہارا کچھ بگاڑ سکتی ہوں؟

Sensibleاور شازین بھائی کوئی بچے نہیں

ہیں۔یہ کہہ کر وہ کافی لے کر چلی گئی۔سارہ نے باکسز فریج میں رکھے اور اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔اس کی نظر عروہ اور دانیال کے بند کمرے پر پڑی۔

دل میں بولی عروہ تمہیں کسی سے کچھ چھیننے کی ضرورت نہیں پڑتی سب لوگ خود ہی تمہارے پیچھے چلے آتے ہیں۔

اگلی رات عروہ سادہ پیچ رنگ کے جوڑے میں کچن میں کھڑی تھی۔دوپٹہ کندھے پر لٹکا ہوا بالوں کا رف سا جوڑا بنا تھا۔وہ دانیال کے لیے کافی بنا رہی تھی۔کل رات سارہ کی باتیں بار بار ذہن میں گونج رہی تھیں۔اسی دھیان میں بوائل دودھ کافی مگ میں ڈالتے ہوئے دودھ اس کے ہاتھ پر گر گیا۔

وہ درد سے کراہی۔شازین جو لان میں فون پر بزنس کال کر رہا تھا بھاگ کر کچن میں آیا۔اس نے عروہ کا ہاتھ پکڑا اور سنک کے پاس لے گیانل کھولا اور پانی سے اس کا ہاتھ دھویا۔

اسی وقت دانیال سیڑھیاں اتر رہا تھا۔اس نے یہ منظر دیکھا تو قدم رک گئے۔

عروہ نے دانیال کو دیکھا اور ہلکا سا مسکرائی

مگر دانیال کے چہرے پر غصہ تھا۔وہ الٹے قدم اوپر چلا گیا۔

عروہ نے جلدی سے کافی بنائی اور اوپر گئی۔

دانیال کھڑکی کے پاس کھڑا لان کی طرف دیکھ رہا تھا۔

دانیال آپ کی کافی عروہ نے نرمی سے کہا۔دانیال نے اس کا وہی ہاتھ پکڑا جس پر ابھی جلا ہوا تھا۔

تمہیں شرم نہیں آئی؟ کیسے بھائی کو ہاتھ دیا ہوا تھا؟ وہ سخت لہجے میں بولا۔

عروہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔دانیال آپ غلط وہ بول بھی نہ پائی تھی کہ دانیال نے ہاتھ جھٹکے سے چھوڑا۔

میں غلط ہوں؟ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔آنکھیں جھوٹ نہیں بولتیں عروہ۔یہ جو زخم میرے دل پر لگا ہے نا کاش میں اس کی تصویر تمہیں دکھا پاتا۔وہ دو قدم پیچھے ہٹا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔

عروہ اس کے برابر میں آ کر بولی یہ ہاتھ دیکھیں یہ لال ہو رہا ہے۔ اس پر گرم دودھ گرا تھا۔شازین بھائی تو صرف میری چیخ پر آئے تھے۔انہوں نے بس پانی ڈالا تھا۔ میں نے آپ کو دیکھا تو سوچا آپ کو کافی کی طلب ہوگی جلدی سے بنا لائی۔

عروہ مسکرا کر بولی۔دانیال خاموشی سے اٹھا سائڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ باکس نکالابرن کریم لگائی اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

اس وقت اسے خود پر غصہ آرہا تھاکہ ایک پل میں اپنی بیوی کے کردار پر شک کر بیٹھا تھا۔

کیا بڑھ جائیں گے عروہ اور دانیال کے درمیان اختلافات؟

کیا سارہ اور شازین کے رشتے پر بھی دراڑ پڑے گی؟

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *