زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:17
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
رات کا وقت تھا، گھر کے سب افراد اپنے اپنے کمروں میں سو چکے تھے۔
عروہ اچانک جاگی، جلدی سے چپل پہنی، جوڑا باندھا، ڈوپٹہ گلے میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلی۔
کچن میں جا کر اس نے لائٹ آن کی۔ چند لمحوں میں کچن کاونٹر میدے، چاکلیٹ، کوکو پاؤڈر اور دیگر چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔
عروہ نے تیزی سے بیٹر تیار کیا اور اسے اوون میں رکھا۔
اس نے گھڑی دیکھی — رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ کچن سمیٹ ہی رہی تھی کہ اسے احساس ہوا کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
وہ مڑی تو کاؤنٹر کے ساتھ ٹیک لگائے دانیال کھڑا تھا، ہاتھ میں خالی بوتل لیے۔
عروہ چونکی، “دانیال، آپ یہاں؟
وہ مسکرا دیا، جی مسز، آپ کا شوہر پیاسا تھا، پانی لینے آیا تو اپنی بیوی کو دیکھ لیا۔
عروہ دھیرے سے مسکرا دی۔دانیال بولا، تم جانتی ہو، جب تم ہنستی ہو تو میں بھی خوش ہوتا ہوں۔پھر وہ ڈسپنسر سے پانی کی بوتل بھرنے لگا۔
عروہ نے اوون سے جلنے کی ہلکی سی خوشبو محسوس کی، فوراً اوون کھولا — کیک بس تھوڑا سا جلا تھا۔اس نے کیک نکالا، کاؤنٹر پر رکھا۔
اوپر چاکلیٹ سے لکھا تھا
Happy Birthday Daniyal
دانیال نے دیکھا تو مسکرا دیا۔ عروہ نے موم بتی جلائی، چھری دی۔
دانیال نے کیک کاٹا، پہلا پیس عروہ کو کھلایا۔
Thank you…
تمہیں یاد تھا؟”عروہ مسکرائی، “جی، مجھے یاد تھا۔
دانیال کی آنکھوں میں نرمی تھی۔ عروہ۔ میں نے برسوں سے اپنی برتھ ڈے نہیں منائی، لیکن تم نے آج یہ دن خاص بنا دیا۔
thanks…
عروہ نے نرمی سے کہا، لیکن آپ برتھ ڈے کیوں نہیں مناتے؟ دادی کو دیکھیں، وہ ہر سال خوشی سے اپنی برتھ ڈے مناتی ہیں۔
یہ سنتے ہی دانیال کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ںدیکھو عروہ، اس دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنی سالگرہ منانا بھول جاتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جنہیں وقت نے بچپن میں ہی بڑا کر دیا، کچھ وہ جو اپنے خواب پورے نہ کر سکے۔ لیکن شاید یہی لوگ ہر سال خود سے ایک وعدہ کرتے ہیں — کہ اس سال ہم نئے سرے سے زندگی جئیں گے۔
کوئی بچپن مانگتا ہے، کوئی خواب، اور کوئی میری طرح صرف انسانیت کو جینے کی دعا مانگتا ہے۔عروہ اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوئی۔
اگلے دن دوپہر کے کھانے پر سب ہمیشہ کی طرح اپنی اپنی نشستوں پر تھے۔ عروہ نے سب کے لیے کھانا بنایا تھا۔
تائی امی، یہ کوفتے ٹرائی کیجیے، آپ کے فیورٹ ہیں۔
ریحانہ بیگم نے نوالہ بنایا، “بہترین، ماشاءاللہ!”عروہ نے دانیال کے لیے بریانی، زارا اور سارہ کے لیے شامی کباب رکھے۔
پھر کٹوری میں کھیر نکال کر شازین کے سامنے رکھی۔شازین نے پہلا چمچ کھایا، واہ عروہ، ذائقہ ہے تمہارے ہاتھوں میں!یہ سنتے ہی سارہ کا موڈ بگڑ گیا۔
شازین، آپ نے کبھی میرے ہاتھ کے کھانے کی تعریف نہیں کی، اور اب عروہ بجو کی کھیر کھا کر آپ دیوانے ہوگئے؟
دانیال نے یہ بات سنی، چپ چاپ اٹھا، ہاتھ نیپکن سے صاف کیے، عروہ کو ایک نظر دیکھا اور اوپر چلا گیا۔
شازین نے سارہ کو گھورا، تم ایسا بی ہیو کیوں کر رہی ہو، سارہ؟ تم اتنی ان سیکیور کیوں ہو؟
سارہ غصے میں بولی، میں ان سیکیور؟ آپ کو میری فکر نہیں ہے!یہ کہہ کر وہ بھی اٹھ گئی۔
عروہ افسردہ سی کھڑی تھی، جانے لگی تو نگینہ بیگم نے کہا، بیٹا، بیٹھ جاؤ، کھانا کھاؤ۔عروہ مسکرا کر واپس بیٹھ گئی۔
دانیال صوفے پر بیٹھا مریضوں کی رپورٹس دیکھ رہا تھا۔
عروہ کھانے کی ٹرے لیے اندر آئی۔
دانیال، پلیز کھانا کھا لیجیے گا۔اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور شیشے کے سامنے ائیررِنگز اتارنے لگی۔
دانیال نے اس کی طرف دیکھا، پھر کھانا شروع کیا۔دانیال، آپ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں؟
اس کے سوال پر وہ رکا، پھر بولا،بھروسہ صرف لفظ نہیں، احساس ہوتا ہے۔ اور تم کبھی یہ مت سمجھنا کہ میں تم پر شک کروں گا۔ تم میری زندگی کا وہ حصہ ہو جہاں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
عروہ مسکرائی، مگر آنکھیں نم تھیں۔تو پھر آپ نے سب کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھایا؟
کیونکہ سارہ کی باتیں اچھی نہیں لگیں۔ کبھی کبھی الفاظ دل پر لگ جاتے ہیں۔
عروہ خاموش رہی۔ پھر برتن سمیٹے،آپ اپنا کام مکمل کر لیجیے، پھر نیچے دادی کے پاس آجائیے گا، وہ بلا رہی تھیں۔
دانیال نے سر ہلایا، وہ چلی گئی۔سارہ بیڈ پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی، ہاتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ۔ قدموں کی آہٹ پر جلدی سے پیکٹ دراز میں رکھ دیا۔
دروازہ کھلا، شازین اندر آیا۔ ہاتھ میں پلیٹ تھی — سینڈوچ کے ساتھ۔میڈم، آپ کے فیورٹ براؤن سینڈوچ حاضر ہیں
سارہ نکھرے انداز میں بولی، اس کی ضرورت نہیں تھی، میں پاپ کارن کھا لیتی… مطلب اگر بھوک ہوتی تو۔
شازین مسکرایا، دراز کھولی، پاپ کارن نکالے اور کھانے لگا۔سارہ ہنس دی۔
پھر شازین سنجیدہ ہوا، سارہ، جب تم اتنی اچھی ہو تو مجھ پر شک کیوں کرتی ہو؟
سارہ اداس، کیونکہ تم کبھی یہ فیل نہیں کرواتے کہ میں تمہاری زندگی کا حصہ ہوں۔
شازین نے اس کے ہاتھ تھامے،پاگل، تم ہی تو میری زندگی ہو، میرا جہاں۔ چلو، سینڈوچ کھاؤ، پھر ماں بیگم کے پاس چلتے ہیں۔
کمرے میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز گونج رہی تھی۔ وہ فیملی فوٹوز دیکھ رہی تھیں۔
شازین اور سارہ کی شادی کی تصویر پر مسکرائیں،شازین میری آنکھوں کا تارا ہے، اور سارہ اچھی بچی۔ مگر محبت میں شک سب سے بڑا امتحان ہے…پھر عروہ اور دانیال کی تصویر پر نگاہ ڈالی،دانیال سمجھدار، اور عروہ وہ روشنی جس نے اس گھر کو جگمگا دیا۔ بس یہ روشنی ہمیشہ برقرار رہے۔
دروازہ کھلا، عروہ دودھ کا گلاس لیے اندر آئی۔دادی، یہ دودھ پی لیجیے، آپ نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا تھا۔
نگینہ بیگم نے گلاس لیا، مسکرائیں۔بیٹا، یاد رکھو، رشتوں میں بوجھ نہیں آنا چاہیے۔ گھر تبھی گھر ہوتا ہے جب دلوں میں رشتہ ہو۔
عروہ بولی، مگر دادی، دل کے رشتے نبھانا سب سے مشکل کام ہے۔
نگینہ بیگم نے اس کے ہاتھ تھامے، مشکل ضرور، مگر ناممکن نہیں۔ اگر دل سے نبھاؤ تو طوفان بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
عروہ نے سر ان کے کندھے پر رکھ دیا۔
اسی وقت دانیال اندر آیا،جی دادی، آپ نے بلایا؟
ہاں بیٹا، میں یہی کہہ رہی تھی — رشتہ صرف ساتھ رہنے کا نہیں، ایک دوسرے کو سمجھنے کا نام ہے۔
پھر نرمی سے بولیں،بیٹا، کھانے پر سب کے سامنے تمہیں عروہ کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔ مرد اگر بیوی کا دفاع کرے تو کمزور نہیں ہوتا، بلکہ رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔
پھر سارہ اور شازین بھی اندر آئے۔آؤ بچوں، بیٹھو۔سب بیٹھ گئے۔
نگینہ بیگم بولیں،رشتوں میں تھوڑا سا شک محسوس ہو رہا ہے۔ سارہ بیٹا، یاد رکھنا — شک ایک زہر ہے، جو انسان کے دل کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
سارہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔نانو، میں کوشش کرتی ہوں مگر ڈر لگتا ہے… اپنے کو کھونے سے۔
ڈر اور شک دونوں انسان کے دشمن ہیں، بیٹا۔ اگر تمہارا شوہر تمہیں عزت دیتا ہے تو یہ اس کا پیار ہے۔
شازین نے ٹشو پکڑ کر سارہ کو دیا،ماں بیگم صحیح کہتی ہیں، تمہیں مجھ پر بھروسہ ہونا چاہیے، باقی دنیا بھاڑ میں جائے
سارہ ہنس دی، سب مسکرا دیے۔
نگینہ بیگم بولیں،زندگی گلے شکوے رکھنے کے لیے نہیں، گلے لگانے کے لیے ہوتی ہے۔
سارہ نے عروہ کو گلے لگایا، معاف کر دو، عروہ بجو
عروہ نے اس کے آنسو صاف کیے، سب بھول جاؤ، سارہ
دانیال نے شازین کو گلے لگایا۔بھیا
میرا ضدی چھوٹو بھائی
دادی نے مسکراتے ہوئے دعا دی،خدا کرے یہ محبتیں ہمیشہ قائم رہیں، کسی کا بھروسہ نہ ٹوٹے۔سب مسکرا دیے۔
شازین نے کہا، چلو اب ٹرپ پلان کرتے ہیں — سوئٹزر لینڈ چلیں؟
دادی ہنسیں، ارے پاگل، پاکستان ہی گھوم لو — کشمیر، حنزہ، ناران، مری، یہی تمہارا سوئٹزر لینڈ ہے
سب ہنسنے لگے۔بس میرے بچوں، چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رکھو۔ دکھ آتے جاتے ہیں، مگر زندگی خوشی کا نام ہے۔
آپ سب کو ماں بیگم کی نصیحتیں کیسی لگیں؟
کیا واقعی ان سب کے درمیان محبتیں بڑھ جائیں گی؟
کیا یہ رشتوں کا مان رکھ پائیں گے؟
جاری ہے۔۔۔
