Zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 20…

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:20

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔

صبح کے سات بج رہے تھے ہوا چل رہی تھی جس کی وجہ سے روشن ولا کے لان میں پھولوں کی خوشبو پھیل رہی تھی

عروہ جسے ملازمہ ابھی ابھی لان میں چھوڑ کر گئی تھی ویل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا

شازین جو ابھی جاگنگ کرکے واپس آیا تھا ٹریک سوٹ پہنے پسینے سے شرابور ہاتھ میں واٹر بوتل لیے اپنا سانس بحال کر رہا تھا

تبھی اس کی نظر چائے پیتی عروہ پر پڑی وہ عروہ کے پاس آیا اور بینچ پر بیٹھ گیا

ہائے کیسی ہو تم سوری میں نے ایک بار بھی تمہاری خیریت نہیں پوچھی سچ کہوں تو دل کٹ رہا تھا

وہ نم آنکھوں کے ساتھ بولا عروہ نے خالی کپ اس کی طرف بڑھایا ٹھیک ہوں شازین بھائی بس نیند اڑ گئی ہے اور دل تو اب میرا کٹ سا گیا ہے اس فیصلے کے بعد سے

شازین چونک گیا فیصلہ کیسا فیصلہ کر لیا تم نے؟؟

عروہ تم پاگل ہو یہ کوئی حل نہیں ہے تم جانتی بھی ہو بھیا تم سے کتنا پیار کرتے ہیں عروہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے شازین بھائی میں انہیں آزاد کرنا چاہتی ہوں

شازین نے کپ کے ٹکڑے سمیٹنے شروع کیے عروہ میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں تم مضبوط ہو میں تمہیں ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا یہی وجہ تھی کہ میں نے ماں بیگم سے تمہاری شادی کی بات کی تھی کیونکہ میری وجہ سے تمہاری منگنی ٹوٹی تھی

عروہ نے رخ موڑ لیا اور خاموشی سے رونے لگی

دوپہر کے وقت روشن ولا کے لاؤنج میں سب جمع تھےعروہ ویل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی دانیال اسپتال گیا ہوا تھا

عروہ نے سب کو اپنی طلاق کے فیصلے کے بارے میں بتا دیا تھا لیکن سب کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر قائم تھی

تبھی وکیل صاحب وہاں آئےانہوں نے ماں بیگم کو سلام کیا

وکیل صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی آج تک آپ ہمارے بزنس ک معاملات سنبھالتے آئے ہیں لیکن آج آپ ہمارے رشتے توڑنے آئے ہیں نگینہ بیگم غصے سے بولیں

میڈم میں کیا کر سکتا ہوں میں پیشہ ور آدمی ہوں مس عروہ نے جو کہا وہی کر رہا ہوں پھر وہ بیگ سے طلاق نامہ نکال کر لائے میڈم آپ سائن کر دیں

عروہ کے ہاتھ کانپنے لگے دل پھٹنے کو تھا وہ سائن کرنے ہی والی تھی کہ اچانک دانیال آ گیا

وہ آگے بڑھا پین چھینا اور طلاق نامہ پھاڑ کر ٹکڑوں میں بکھیر دیا

عروہ شادی مذاق ہے کیا تم میری ذمہ داری ہو میری زندگی ہو تمہیں میری محبت پر بھروسہ نہیں

عروہ کے آنسو بہنے لگے دانیال میں ایک بوجھ ہوں بس چاہتی ہوں آپ خوش رہیں

دانیال نے اس کا دوپٹہ سلیقے سے اس کے سر پر رکھاعروہ تم بوجھ نہیں ہو میں ایک ڈاکٹر ہوں تمہارا خیال میرا فرض ہے اور میں تمہارا شوہر ہوں تم سے محبت کرتا ہوں

شازین نے سب کو اشارہ کیا کہ انہیں اکیلا چھوڑ دی

ںسب خاموشی سے وہاں سے چلے گئےشازین سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دل میں بولاشکر ہے میں نے صحیح وقت پر بھیا کو سب بتا دیا

شام ہو چکی تھی دانیال عروہ کی ویل چیئر دھکیلتا ہوا لان سے اندر لایااس کی فزیوتھراپی مکمل ہو چکی تھی دانیال نے پانی کا گلاس دیا

دانیال آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں

پاگل میں کبھی تم سے ناراض ہو ہی نہیں سکتا تمہارے لیے تو ہمیشہ دعائیں ہیں

عروہ مسکرا کر آنکھیں نم کر لیتی ہے دانیال اس کے آنسو صاف کرتا ہےاسی وقت فرحت بیگم اور ریحانہ بیگم کچن سے نکلتی ہیں بھابھی میں کہہ رہی تھی نا اللہ سب ٹھیک کر دیتا ہے جن رشتوں میں محبت ہو انہیں دنیا کا کوئی قانون نہیں توڑ سکتا

سارہ بھی کچن سے چائے لے کر آتی ہےسب ہنسی خوشی چائے پیتے ہیں

رات کے وقت عروہ لان میں بیٹھی دانیال کا انتظار کر رہی تھی شازین کی گاڑی آ کر رکیوہ آفس سے لوٹا تھا تم ابھی تک اندر نہیں گئیں وہ پوچھتا ہے

نہیں دانیال کا انتظار کر رہی ہوں شازین مسکرا کر بولا تم آج بھی بھیا کی کتنی پرواہ کرتی ہو اور تم تو راہیں جدا کرنے والی تھیں

عروہ کے ہاتھ کانپ گئےجب بھی اس بارے میں سوچتی ہوں جسم کانپ جاتا ہے ویسے شکریہ اگر میں بھیا کو نہ بتاتا تو شاید آج تم دونوں الگ ہوتےجب شازی جیسا دوست اور کزن ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا وہ مسکرا کر بولا

Because you know I’m your protector and your savior

عروہ بھی مسکرا دی برسوں بعد ہنسی چہرے پر لوٹی تھی لیکن اوپر چھت پر کھڑی سارہ کافی پیتے ہوئے یہ منظر دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں تپش تھی ناجانے اب روشن ولا میں کون سا طوفان آنے والا تھا

سارہ غصے میں اپنے کمرے میں آتی ہےشازین بیڈ پر لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی چوڑیاں اتار کر پھینک رہی تھی شازین اٹھا اس کے پاس آیا چوڑیاں اٹھائیں اور آہستگی سے اس کے ہاتھوں میں پہنائیں

یہ دوسری بار تھا مہندی کی رات اس نے مذاق میں کہا تھاچوڑیاں تو ایسی بھر بھر کر پہنی ہیں جیسے چوڑیاں بیچنے والی ہو مگر آج وہی شخص اپنی روٹھی ہوئی بیوی کو اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں پہنا رہا تھا

سارہ کی آنکھوں میں آنسو تھے شازین اگر آپ کو اپنی بیوی کے غصے کی اتنی پرواہ ہے تو عروہ سے دور رہیے اپنی حد میں رہیے میں آپ کی بیوی ہوں اور ابھی عروہ کا شوہر زندہ ہے وہ ہے اس کے آنسو پونچھنے کے لیےکم از کم آپ تو میری آنکھوں میں آنسو دینے کا باعث نہ بنیں

شازین نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا میں تمہاری آنکھوں میں آنسو کا باعث کبھی نہیں بننا چاہتا

کیا شازین اپنا وعدہ نبھا پائے گا

کیا عروہ اور دانیال ہمیشہ خوش رہ پائیں گے

یا روشن ولا ایک نئے طوفان کا سامنا کرے گا

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *