زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:21
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
اگلے دن سارہ شام کے وقت ڈریسنگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی۔ پھر اس نے پرفیوم چھڑکا، پیچ رنگ کی لپ اسٹک لگائی اور ہاتھ میں عروہ کا وہی بریسلیٹ پہنا۔
تبھی اس کی امی آمنہ بیگم کمرے میں آئیں اور بیڈ کی پائنتی پر بیٹھ گئیں۔ماشاءاللہ میری بچی تو بہت پیاری لگ رہی ہے آج۔ میں جا رہی تھی، سوچا تم سے ملتی چلوں۔
سارہ اٹھ کر ان کے گلے لگ گئی۔ امی آپ ہمارے ساتھ چلیں نا، میں اور شازین ڈنر پر جا رہے ہیں۔ آپ کو بس اسٹاپ کے قریب چھوڑ دیں گے۔
آمنہ بیگم نے تائید میں سر ہلایا۔ پھر ان کی نظر سارہ کی کلائی پر پڑی، جس میں عروہ کا بریسلیٹ تھا۔یہ گولڈ کا ہے، یہ کب لیا تم نے؟ بتایا نہیں۔یہ سنتے ہی سارہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر وہ پھیکی سی مسکرائی۔
امی یہ بریسلیٹ عروہ کا ہے، وہی جو نانو کی سالگرہ والے دن پہنا ہوا تھا۔ شاہ زین نے جب مجھے اور زارا کو گھڑی گفٹ کی تھی، تب یہ بریسلیٹ گر گیا تھا۔ میں نے اٹھا لیا۔
آمنہ بیگم حیران ہوئیں، وہ سب تو ٹھیک ہے، مگر بیٹا کسی کی چیز چراناوہ بات پوری بھی نہیں کر پائیں کہ سارہ نے کاٹ دی
امی وہ عروہ بھی تو ایک نمبر کی چالاک ہے، کیسے بیچاری بن کر سب کا دل جیت لیتی ہے۔ وہ میرا شوہر چھیننا چاہتی ہے۔ اگر میں نے اس کا بریسلیٹ رکھ لیا تو بڑی بات نہیں۔ ویسے بھی، میں نے شازین سے شادی پیسوں کے لیے کی ہے۔
تبھی دروازہ کھلا اور شازین اندر آیا۔ اس کے چہرے پر غصے کے آثار تھے۔سارہ اور آمنہ بیگم ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ آمنہ بیگم کمرے سے چلی گئیں جبکہ سارہ ہڑبڑا گئی۔
آپ آگئے؟ وہ بولی۔
شازین آگے بڑھا، ہاں اور حیران تو مجھے ہونا چاہیے، تمہیں نہیں۔ کیونکہ تم تو مجھ سے پیار ہی نہیں کرتیں، پیسوں کے لیے شادی کی تھی نا مجھ سے۔
سارہ ایک قدم پیچھے ہوئی، آپ غلط سمجھ رہے ہیں، میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔
شازین نے گہرا سانس لیا اور اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑی، نہیں سارہ، تم کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتیں۔ وہ بریسلیٹ تم نے کہا تھا عروہ نے دیا ہے، مگر تم نے تو چوری کی ہے۔پھر وہ اس کے ہاتھ سے بریسلیٹ کھینچ کر اتارتا ہے اور ہاتھ جھٹکے سے چھوڑ دیتا ہے۔
سارہ کے ہاتھ پر سرخ نشان پڑ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔شازین کمرے سے باہر چلا جاتا ہے جبکہ سارہ زمین پر بیٹھ کر رونے لگتی ہے۔
عروہ گیسٹ روم میں بیٹھی اسکیچ بنا رہی تھی جب دروازہ ناک ہوا۔ شازین اندر آیا اور اس کی گود میں بریسلیٹ رکھا۔یہ تمہارا بریسلیٹ ہے، ماں بیگم کی سالگرہ والے دن گر گیا تھا نا، یہ لو۔
عروہ مسکرائی، یہ آپ کو کہاں ملا۔
شازین ہلکا سا مسکرایا، جہاں بھی تھا، اب اپنے اصل حق دار کے پاس آگیا۔
وہ چلا گیا جبکہ عروہ مسکراتے ہوئے بریسلیٹ پہن لیتی ہے۔عروہ کے حادثے کو تین مہینے گزر چکے تھے۔ آج وہ لان میں تھی اور دانیال بھی اس کے ساتھ۔
صبح کے سات بج رہے تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، پرندے چہچہا رہے تھے۔عروہ نے ہلکے گلابی رنگ کا لان سوٹ پہنا ہوا تھا، بال چٹیا میں بندھے تھے۔
عروہ ڈرو نہیں، شاباش، ہمت کرو دانیال نے کہا۔
اور اگر میں گر گئی تو۔جب تک دانیال احمد ساتھ ہے، عروہ دانیال کبھی نہیں گر سکتی۔عروہ نے آیت الکرسی پڑھ کر ویل چیئر کے ہینڈل پکڑے اور کھڑی ہوگئی۔
ایک لمحے کو درد اٹھا مگر دانیال نے سہارا دیا۔کچھ دیر بعد ملازمہ اسٹک لے کر آئی اور عروہ نے وہ تھام لی۔
میں چل سکتی ہوں دانیال، میں معذور نہیں ہوں۔ وہ خوشی سے چلتے ہوئے بولی۔دانیال کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
عروہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا،آپ رو رہے ہیں۔کس نے کہا مرد روتے ہیں، یہ تو خوشی کے موتی ہیں۔
اوپر ٹیرس پرشازین اور سارہ کافی پی رہے تھے۔
سارہ مسکرائی، دیکھا شازین، سچا پیار اسی کو کہتے ہیں۔
آج دانیال بھائی کی محبت کی وجہ سے عروہ چلنے لگی ہے۔شازین نے شوخی سے کہا، میڈم، یاد رکھیں پیار میں ڈنڈے بھی پڑتے ہیں، جیسے آپ کو مجھ سے اور بھیا کو عروہ سے پڑنے والے ہیں۔
دونوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگتے ہیں۔کچھ ہفتے بعد، عروہ بغیر سہارے کے چلنے لگی تھی۔
اس کی سالگرہ تھی، سب جمع تھے۔ جب وہ نیچے اتری تو سب نے دعائیں دیں۔زراء strong girl نے کہا، آپی، آپ تو اب افیشلی
بن چکی ہیں۔سب نے کیک کاٹا، خوشیاں منائیں۔
مگر جیسے ہی عروہ سارہ کو کیک کھلانے آئی، سارہ اچانک بے ہوش ہو گئی۔ڈاکٹر نے بتایا، آپ کی مسز ماں بننے والی ہیں۔
یہ خبر سن کر شازین خوشی سے اچھل پڑا۔
عروہ بیڈ پر بیٹھی اپنی سیلفیاں لے رہی تھی جب دانیال آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک گولڈ بریسلیٹ پہنایا —جس کے لاک میں دو ٹوٹے دل جڑ کر ایک بن جاتے تھے۔
عروہ نے مسکرا کر اس کے کندھے پر سر رکھا،دادو صحیح کہتی ہیں دانیال — زندگی کبھی رکتی نہیں، ہر مشکل کے بعد آسانی ہی آتی ہے، اور کچھ اپنے ہی ہماری خوشیوں کا سبب بنتے ہیں۔
دانیال نے مسکرا کر اس کی بات پر آمین کہا۔
روشن ولا پھر سے خوشیوں سے بھر گیا تھا۔
عروہ اور سارہ لاؤنچ میں بیٹھی تھیں جب عروہ کا فون بجا۔اس نے کال ریسیو کی، مگر جیسے ہی دوسری طرف کی آواز سنی، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
کیا ہوا بجو سارہ نے پوچھا۔
د۔۔۔د۔۔۔۔ دانیال کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔کچھ ہی دیر بعد سب اسپتال میں تھے۔ڈاکٹر نے کہا، ان کا بہت بلڈ لاس ہوا ہے، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
بس دعا کریں۔
رات کے آخری پہر عروہ پرئیر روم میں سجدے میں گری رو رہی تھی، دانیال کی زندگی مانگ رہی تھی۔
مگر شاید کچھ دعائیں آزمائش کے بعد ہی قبول ہوتی ہیں۔
کیا عروہ اور دانیال کا ساتھ یہیں ختم ہو جائے گا
یا مل جائے گی دانیال کو نئی زندگی
جاری ہے۔۔۔۔
