زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:23
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
ظہر کا وقت تھا۔ عروہ نماز پڑھنے کے بعد کمرے میں بیڈ پر قبلہ رُخ بیٹھی قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہی تھی۔
وَمَن یَّتَّقِ اللَّهَ یَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ
جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
ترجمہ پڑھنے کے بعد وہ قرآنِ پاک کو جزدان میں لپیٹتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔یا اللہ، جب آپ کسی کو توڑتے ہیں تو جوڑ بھی دیتے ہیں۔
میں جانتی ہوں اس دکھ کے بعد میرے لیے بے شمار خوشیاں ہیں۔تبھی اسے قریب کی مسجد سے درسِ قرآن کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔جو بیوہ عورت شوہر کی وفات کے بعد اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہے، اللہ بھی اس کی حفاظت کرتا ہے۔
عروہ کا دل جیسے پھٹنے لگتا ہے۔ وہ جزدان کو چومتی ہے اور کھڑی ہو کر اسے شیلف پر رکھ دیتی ہے۔
یا اللہ، میں جانتی ہوں، میں کمزور نہیں ہوں۔وقت کا کام ہے گزرنا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی ماہ بیت گئے۔
شازین اسپتال کے کوریڈور میں چکر کاٹ رہا تھا جبکہ ریحانہ اور آمنہ بیگم بینچ پر بیٹھی تسبیحات پڑھ رہی تھیں۔
تبھی ڈاکٹر صاحبہ باہر آئیں، بہت بہت مبارک ہو، بیٹی ہوئی ہے۔یہ سنتے ہی آمنہ بیگم ریحانہ بیگم کو گلے سے لگا لیتی ہیں۔کچھ دیر بعد شازین ہاسپٹل روم میں داخل ہوتا ہے۔
نرس اس کی گود میں ننھی پری رکھتی ہے۔وہ کانپتے ہاتھوں سے بیٹی کو گود میں لیتا ہے۔ وہ ننھی پری بالکل سارہ کی طرح لگتی تھی جاری ہے۔۔۔
شازین اپنی بیٹی کو چومتا ہے اور سارہ کو دیتا ہے۔دیکھو، یہ ننھی پری بالکل اپنی ماما پر گئی ہے، تمہاری جیسی ہنسی، تمہاری جیسی آنکھیں، ناک سب کچھ۔
سارہ بیٹی کو سینے سے لگا کر مسکراتی ہے۔
بس بیٹا، اپنے بابا کی طرح ضدی مت بن جانا۔شازین مصنوعی غصے سے اسے گھورتا ہے، پھر مسکرا کر فیملی سیلفی لیتا ہے۔
سارہ، اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا ہے۔
جی، شازین، ہماری دنیا مکمل ہوگئی۔ سارہ خوشی سے بولتی ہے۔
دونوں اپنی بیٹی کو دیکھنے لگتے ہیں جو اب چین سے سو رہی تھی۔
آج عروہ کی عدت مکمل ہو چکی تھی۔وہ عبایا اور سفید حجاب میں قبرستان آئی تھی۔ ہاتھ میں پھولوں کا شاپر لیے وہ دانیال کی قبر پر پہنچی۔کانپتے ہاتھوں سے قبر پر پھول ڈالتی ہے، اگربتی جلاتی ہے، اور قبر کے قریب بیٹھ کر سورۂ یٰسین کی تلاوت کرتی ہے۔
دانیال، آج میری عدت مکمل ہوگئی۔ دادو کہہ رہی تھیں اب زندگی نارمل ہو جائے گی۔لیکن یہ بتاؤ، اب یہ زندگی کیا ہے؟
میرے زندہ رہنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟
پھر وہ قبر کو چھوتی ہے۔جانتے ہو، جب کسی عورت کے سر سے اس کے والی کا سایہ چلا جائے ناتو اس کی عزت، اس کا سکون، اس کا وجود سب کچھ کہیں کھو سا جاتا ہے۔
جیسے مرنے والے کو مرحوم کہہ کر پکارا جاتا ہے، ویسے ہی عورت کی پہچان بھی مر جاتی ہے۔بس اسے بیوہ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ لوگ تسلی نہیں دیتے بلکہ طعنے دیتے ہیں۔اس کے اکیلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بہت بے رحم ہے۔وہ نہیں سمجھتا کہ بیوہ عورت بھی ایک زندہ مخلوق ہے جو سانس لیتی ہے۔وہ روتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ، آپ کو جنت میں جگہ دے، اور مجھے صبر و ہمت دے کہ میں دنیا کے دیے زخم برداشت کرسکوں۔پھر عبایا سے مٹی جھاڑ کر کھڑی ہوتی ہے۔
دانیال، آپ تو چلے گئے، مگر مجھے تنہا کر گئے۔
جیسے ہی عروہ گھر آتی ہے، دیکھتی ہے کہ لاؤنج میں سب بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔
سارہ کی گود میں ایک پیاری سی بچی ہے۔
وہ ان کے پاس جاتی ہے مگر پھر خیال آتا ہے کہ وہ ابھی قبرستان سے آئی ہے، لہٰذا شاور لے کر نیچے آئے گی۔
وہ چپ چاپ اوپر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ شاور لے کر کالے رنگ کا سادہ سا جوڑا پہنتی ہے، بالوں کو تولیے سے سکھا کر سلجھاتی ہے، پھر کلچر لگا کر سر پر میچنگ دوپٹہ اوڑھتی ہے۔
اس کے گلے میں آج بھی وہی پینڈنٹ تھا جو دانیال نے منہ دکھائی پر دیا تھا۔ وہ پینڈنٹ کو حسرت سے چھوتی ہے۔
نیچے آتی ہے تو دیکھتی ہے باقی سب اپنے کمروں میں جا چکے ہیں، صرف سارہ اپنی بیٹی کو گود میں لیے بیٹھی ہے
جبکہ شازین ان دونوں کی تصویریں لے رہا ہے۔
عروہ ان کے قریب آ کر کہتی ہےبہت بہت مبارک ہو شازین بھائی، سارہ، تم دونوں کو اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔
شازین مسکراتے ہوئے بولا خیر مبارک، تمہارے تو اس بچی سے بہت رشتے ہیں، تائی بھی ہو، پھوپھی بھی، خالہ بھی، چن چن کر بدلہ لو گی میری بچی سے۔
عروہ مسکرا کر بولی نہیں، بلکہ میں ہر رشتے سے اس کے لیے دعا کروں گی کہ اس کا نصیب بہت اچھا ہو، آمین۔
سارہ نے اپنی بچی عروہ کی گود میں دے دی۔ عروہ بچی کی ناک چھو کر پیار کر رہی تھی کہ شازین کے آفس سے کال آ گئی، وہ معذرت کرتا ہوا لان میں چلا گیا۔عروہ بچی کو پیار کر رہی تھی، سارہ محبت سے دیکھ رہی تھی، تبھی آمنہ بیگم لاؤنج میں داخل ہوئیں۔
وہ تیزی سے آ کر عروہ کی گود سے بچی چھین لیتی ہیں۔
عروہ، تم بیوہ ہو۔ اپنی منحوسیت کا سایہ میری نواسی اور بیٹی پر ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔وہ غصے سے کہتی ہیں۔
عروہ خالی نظروں سے پھوپھو کو دیکھتی رہتی ہے، آنسو زار و قطار بہنے لگتے ہیں۔پھوپھو، میں تو صرف پیار کر رہی تھی، وہ روتے ہوئے بولی۔
آمنہ بیگم سپاٹ لہجے میں بولیں بس عروہ، بیوہ عورتوں کے نصیب میں آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں لکھا ہوتا۔
میں نہیں چاہتی کہ میری سارہ کی آنکھوں میں آنسو آئیں۔سارہ کو اگرچہ عروہ پسند نہیں تھی، مگر ماں کے الفاظوں نے اسے بہت دکھ پہنچایا۔ اس کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
بس کیجیے امی، وہ اتنا ہی کہہ پائی اور بچی کو گود میں لے کر اوپر چلی گئی۔آمنہ بیگم نے عروہ کو ایک سرد نگاہ سے دیکھا اور سارہ کے پیچھے چلی گئیں۔
عروہ دھک سے صوفے پر جا بیٹھی۔
روشن ولا کا لان فیری لائٹس سے جگمگا رہا ہے۔
بیچ میں ایک اسٹیج سجا ہے، جہاں صوفے پر سارہ اور شازین اپنی ننھی بچی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
گولڈ اور گلابی رنگ کے غبارے اور شامیانے لگے ہیں۔ بچی گلابی چادر میں لپٹی سو رہی ہے۔
سارہ نے پیچ کلر کی شیفون کی لانگ شرٹ اور تنگ پاجامہ پہن رکھا ہے، میچنگ دوپٹہ کندھے پر ہے، بالوں میں نرم کرلز ہیں۔ کانوں میں گولڈ کے جھمکے، ہاتھوں میں چوڑیاں، چہرے پر ہلکا میک اپ ہے۔
شازین سفید کرتا پاجامہ پہنے، رولیکس کی گھڑی لگائے، بال جیل سے سیٹ کیے ہوئے ہے۔
اب نگینہ بیگم اسٹیج پر آتی ہیں۔ انہوں نے ساڑھی پہنی ہوئی ہے۔ وہ مائک اٹھاتی ہیں، شازین انہیں اپنی بیٹی دیتا ہے۔
وہ بچی کو گود میں لے کر پیار کرتی ہیں۔
آج سے چوبیس سال پہلے میں نے بھی ایک ننھی پری کو گود میں لیا تھا، اور اعلان کیا تھا کہ اس کا نام عروہ فیضان ہے۔
اُس کے آنے سے گھر میں خوشیاں آئیں۔ اور آج، یہ بچی جو کاشف کی پوتی، میرے لاڈلے شازین کی بیٹی، اور میری پرپوتی ہے، اس کے آنے سے بھی روشن ولا میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں۔
لہٰذا میں آج اس بچی کا نام عائشہ شازین رکھتی ہوں۔
یہ کہہ کر وہ بچی سارہ کی گود میں دیتی ہیں، اس کا ماتھا چومتی ہیں، اور اسٹیج سے اتر جاتی ہیں۔
سب لوگ کھانا کھا رہے تھے۔
سارہ اسٹیج پر بیٹھی ننھی عائشہ کے لیے فیڈر بنا رہی تھی، جبکہ شازین کی گود میں عائشہ تھی۔
شازین نے مسکرا کر کہا دیکھ رہی ہو، آپ کی ماما کیسے تیار ہو کر آپ کے لیے فیڈر بنا رہی ہیں؟
اگر میں کہتا کہ مجھے چائے پینی ہے تو فوراً کہتیں میڈ سے بنوا لیں۔یہ سن کر ننھی عائشہ ہنسنے لگی۔
سارہ نے مسکراتے ہوئے کہاشازی، بس کیجیے، ننھی سی بچی کو ابھی سے ماں کے خلاف مت کیجیے، یہ آپ کی ہی نہیں، میری بھی بیٹی ہے۔
یہ کہہ کر وہ بچی کو اپنی گود میں لے کر فیڈر پلانے لگی۔
شازین نے مصنوعی خفگی سے کہا اور آپ شاید بھول رہی ہیں کہ آپ میری ڈئیرسٹ وائف بھی ہیں، ماں کا فرض نبھاتے نبھاتے مجھے تو بھول مت جائیے گا۔یہ سن کر عائشہ رونے لگی۔
شازین نے فوراً کہا دیکھا، ماں کی چمچی ہے، چاہتی ہے ماں کے پلو سے ہی بندھی رہے۔
سارہ نے ہنستے ہوئے کہا لگتا ہے عائشہ کو صدمہ ہوگیا ہے کہ اس کی کیوٹ سی مما شازین احمد جیسے کارٹون کی بیوی ہیں۔
یہ سن کر سب ہنسنے لگے۔
ماں بیگم جو انہیں دیکھ رہی تھیں، ان کے دل سے یہی دعا نکلی خدایا، ان کی جوڑی کو صدا سلامت رکھ، آمین۔
اب شازین لان میں کھڑا اپنے دوستوں سے باتیں کر رہا تھا، جبکہ سارہ خاندان کی چند خواتین سے محو گفتگو تھی۔
ننھی عائشہ، ریحانہ بیگم کی گود سے زارا، اور پھر زارا سے فرحت بیگم کی گود میں آئی۔عروہ، جو فرحت بیگم کے قریب کھڑی تھی، بچی کو اپنی گود میں لے لیتی ہے۔اس نے سبز رنگ کا نہایت سادہ سوٹ پہنا ہوا تھا۔
سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھے، کمر تک سیدھے کالے بال، چہرے پر سادگی کی روشنی، میک اپ کے نام پر صرف کاجل۔
ننھی عائشہ اس کے بال کھینچنے لگی۔ عروہ نے بال چھڑوائے مگر وہ دوبارہ کھینچنے لگی۔
عروہ مسکرا کر بولی ارے گنجی، میرے بالوں کو مت کھینچو۔ تم تو گنجی ہو کر بھی بہت کیوٹ لگتی ہو، اگر میں گنجی ہوگئی نا تو چڑیل لگوں گی۔
وہ ہلکے سے ہنسی۔
یہ منظر دیکھ کر آمنہ بیگم کا چہرہ تن گیا۔ہاۓ، دیکھو تو کیسے مسکرا رہی ہے، اتنا سج دھج کر آئی ہے، اس کا یہاں کیا کام تھا۔
ریحانہ بیگم، جو ان کے برابر کھڑی تھیں، نرمی سے بولیں آمنہ، وہ جوان ہے، آخر کب تک الگ تھلگ ہو کر بیٹھے گی۔
آمنہ بیگم نے زبردستی مسکرا کر بات بدل دی اور دونوں دوسری عورتوں سے گفتگو میں مصروف ہوگئیں۔
تھوڑی دیر بعد زارا آ کر بولی آپی، بے بی دے دیں، سارہ بھابھی منگوا رہی ہیں۔
عروہ نے مسکرا کر عائشہ کو زارا کے حوالے کیا اور دل میں کہایہ کتنی پیاری ہے، اسے گود میں لیا تو سارے غم اور تکلیفیں جیسے مٹ گئیں۔
اے خدا، اسے دنیا کی ہر تکلیف سے بچانا، آمین۔
نگینہ بیگم جو اندر جا رہی تھیں، ان کی نظر سارہ اور شازین پر پڑی، وہ دونوں مسکراتے ہوئے عائشہ کو گود میں لیے بیٹھے تھے۔
پھر ان کی نگاہ کمرے کے کونے میں بیٹھی عروہ پر گئی، جو اکیلی ایک کرسی پر خاموش بیٹھی تھی۔
ان کے دل سے خیال گزرا زندگی سب کو سب کچھ نہیں دیتی۔ کسی کو لاتعداد خوشیاں عطا کرتی ہے، کسی کو بے شمار دکھ۔
مگر دونوں کے پاس ایک روشنی ہوتی ہے، وہ روشنی جو دعاؤں کی روشنی ہوتی ہے۔یہ سوچ کر وہ آہستہ سے اندر چلی گئیں۔
باہر ہوا چل رہی ہے، کھڑکی کا پردہ مدھم لہروں میں ہل رہا ہے۔ کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
ٹیبل پر دانیال کا فوٹو فریم رکھا ہے، اور وہی خط جو اس نے طلاق سے پہلے لکھا تھا۔
مگر طلاق ہوئی نہیں تھی، شاید عروہ کی قسمت میں بیوہ ہونا ہی لکھا تھا۔وہ فریم اٹھا کر اس پر جمی مٹی صاف کرتی ہے۔
آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔
دانیال، میں بیوہ ہوں۔ میرا سایہ بھی اب سب کو برا لگتا ہے۔یہ کہتے ہوئے وہ فریم کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔
پھر صوفے پر رکھی اپنی ڈائری اٹھاتی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے قلم پکڑتی ہے۔
وائس اوور چلتا ہے۔زندگی ایک سفر ہے، اور عروہ فیضان کی زندگی، اس سفر میں بدل گئی ہے۔
لوگ کہتے ہیں جب شوہر مر جائے تو عورت کی زندگی برباد ہو جاتی ہے،لیکن میں کہتی ہوں، اگر شوہر مر جائے تو عورت ایک زندہ لاش بن جاتی ہے،ایسی زندہ لاش جو شاید وہیل چیئر پر بھی نہیں ہوتی۔
اس کے آنسو ڈائری کے صفحات پر گرتے ہیں۔ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے۔
دانیال، آپ کہتے تھے نا، عروہ تم پر مسکراہٹ اچھی لگتی ہے؟دیکھیں، میں آج بھی مسکرا رہی ہوں، اتنا درد سہہ کر بھی۔
یہ کہہ کر وہ ڈائری بند کرتی ہے۔
اور روتے روتے نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
