زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:24
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
اگلے دن جب عروہ کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ اٹھ کر کھڑکی کے پردے کھینچتی ہے۔ تبھی اس کی نظر لان میں کھڑے شاہ زین پر پڑتی ہے جو ٹریک سوٹ میں ملبوس تھا اور ننھی عائشہ کو گود میں لیے پیار کر رہا تھا۔
وہ مسکرائی اور صوفے پر بیٹھ کر دانیال کا فوٹو فریم اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتی ہے۔ ماضی کی یادوں کا ایک لمحہ اس کے ذہن میں ابھرتا ہے۔
عروہ کی سالگرہ والے دن جب وہ دانیال کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی عروہ میں تایا بننے والا ہوں بہت خوش ہوں ویسے سوچ رہا ہوں جب میں باپ بنوں گا تو خوشی کا کیا عالم ہوگا دانیال مسکراتے ہوئے بولا
واہ دانیال آپ تو بلش کر رہے ہیں عروہ ہنستے ہوئے بولی
ہاں سوچ رہا ہوں اگر ہماری بیٹی ہوئی تو وہ بالکل تم جیسی ہوگی فوٹو فریم اس کے ہاتھ سے گرنے ہی والا تھا جب وہ حال میں واپس لوٹی
گھر میں سب ناشتہ کر رہے تھے۔
رمیز صاحب جو فیضان صاحب کے ہم عمر تھے اور کاشف فیضان صاحب اور آمنہ بیگم کے ماموں زاد کزن تھے کچھ عرصہ پہلے شادی پر آئے تھے
پھر دانیال کے جنازے پر اور اب شازین کی بیٹی عائشہ کی چھٹی میں موجود تھے۔ وہ گیسٹ روم سے سیدھا نگینہ بیگم کے کمرے کی طرف گئے۔
وہاں ملازمہ صغریٰ صفائی کر رہی تھی۔ارے صاحب جی سب ناشتہ کر رہے ہیں آپ بھی کر لیجیے صغریٰ بولی
جی وہ پھوپھو کی دوا کھانے کا وقت ہے نا آج سے انہوں نے نئی دوا شروع کرنی ہے انہوں نے جیب سے دوا کا پتا نکال کر صغریٰ کو دیا اور چلے گئے۔ صغریٰ نے وہ دوا دواؤں کے ڈبے میں رکھ دی۔
ناشتے کے بعد نگینہ بیگم نے کمرے میں بیٹھ کر دوائیں کھائیں۔ تبھی ان کی نظر نئی دوا کے پتے پر پڑی۔
یہ دوا کون سی ہے انہوں نے صغریٰ کو آواز دی
بیگم صاحبہ یہ وہی دوا ہے جو رمیز صاحب لائے تھے
نگینہ بیگم کچھ دیر سوچتی رہیں پھر بولیں یاد نہیں آ رہا خیر یہ کھڑکی کے پاس دیکھو کتنے جالے لگے ہیں صاف کرو صغریٰ جالے صاف کرنے لگی۔
اتنے میں نگینہ بیگم نے وہ دوا بھی کھالی۔ کچھ دیر بعد وہ بیڈ پر بے ہوش ہو کر گر گئیں۔
صغریٰ کے ہاتھ سے کپڑا گرا وہ بھاگ کر ان کے پاس گئی آوازیں دیں تو سب لوگ دوڑ کر آگئے۔
اب منظر ہسپتال کا ہے۔
دادی آئی سی یو میں ہیں۔
ڈاکٹر باہر آتا ہے نگینہ بیگم کے خون میں ایک ایسا مادہ پایا گیا ہے جو ان کے لیے زہریلا ہے ہم نے خون کا نمونہ لیب بھیج دیا ہے جلد پتا چل جائے گا انہیں اینٹی ٹاکسن دے دیے ہیں
ان شاءاللہ وہ بہتر ہو جائیں گی مگر ان کی عمر کے حساب سے صحتیابی میں وقت لگے گا۔
رات کے وقت روشن ولا کے لان میں عروہ ٹہل رہی ہوتی ہے جب رمیز صاحب آتے ہیں۔
دادو کی دواؤں میں ملاوٹ آپ نے کی تھی نا عروہ نے کہا تو رمیز صاحب پلٹ کر ہنسنے لگے
تو صغریٰ نے تمہیں بتا ہی دیا
انکل آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں رمیز قہقہہ لگاتا ہے یہ تو صرف شروعات ہے بیٹاپھر کہانی ماضی میں جاتی ہے — چالیس سال پہلے۔
روشن ولا تب بن رہا تھا۔ نگینہ بیگم جوان تھیں اور ان کے شوہر غلام رسول صاحب بھی۔
رمیز اس وقت بچہ تھا اپنی ماں کے ساتھ روشن ولا آیا۔
آپی مدد کر دیں بھائی کی نوکری چلی گئی ہے اس کی ماں روتی ہوئی بولی نگینہ بیگم نے کچھ پیسے دیے میرے پاس ابھی اتنے ہی ہیں غلام صاحب کو نہ بتانا وہ ناراض ہوں گے
رمیز کی ماں نے پیسے لیے شکریہ کہا اور چلی گئی۔راستے میں بارش ہو رہی تھی۔ رمیز کی ماں کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ گاڑی والا بھاگ گیا۔
زمین پر تڑپتی ماں کو دیکھ کر رمیز چیخا کاش پھوپھو ہمیں اپنے گھر میں پناہ دے دیتیں تو آج میری ماں زندہ ہوتی اسی دن سے رمیز کے دل میں نفرت کا بیج بو دیا گیا۔
سالوں بعد وہ بڑا ہوا اور فیضان صاحب نے اسے اپنے دفتر میں نوکری دی۔لیکن رمیز اپنے دل میں بدلے کی آگ لیے آیا تھا۔
اب حال میں نگینہ بیگم گھر واپس آ چکی تھیں۔
عروہ دادی کے لیے گرم دودھ لے کر ان کے کمرے میں گئی۔وہاں رمیز دادی کی کنپٹی پر بندوق رکھے کھڑا تھا۔
اس کے ہاتھ سے گلاس گر گیا دودھ فرش پر پھیل گیا۔
کیوں کیوں آپ نے میری ماں کی فریاد نہیں سنی تھی رمیز چیخاسب لوگ کمرے میں پہنچے۔
شاہ زین آگے بڑھا انکل گن نیچے رکھیےہوش میں تو میں اب آیا ہوں رمیز چیخاوہ ٹریگر دبانے والا تھا کہ عروہ بھاگ کر آگے بڑھی۔
دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا ایک گولی چلی اور پھر خاموشی چھا گئی۔
نگینہ بیگم کے سینے پر گولی لگی تھی۔
عروہ چیخ اٹھی میں نے نہیں مارا میں تو دادو کو بچانا چاہتی تھی
دادی بمشکل بول پائیں عروہ سچ ہی جیتتا ہےاور ان کی تسبیح زمین پر گر گئی۔تسبیح زمین پر گر کر بکھر گئی بالکل ایسے ہی جیسے ان کے جانے کے بعد سب لوگ بکھرنے والے تھے۔
عروہ دادی کا ہاتھ چومتی ہے
دادی مجھ سے کتنا پیار کرتی تھیں میں نے ہی ان کی جان لے لی یا اللہ یہ مجھ سے کیا ہوگیا وہ روتے ہوئے بولی
رمیز کو پولیس پکڑ کر لے جا رہی تھی وہ پلٹ کر سب کی طرف دیکھتا ہےمیں اپنا بدلہ پورا کر گیا
کراچی کی سٹی کورٹ میں میڈیا رپورٹرز اور پولیس گارڈز جمع تھے۔ جج صاحب اپنی کرسی پر آ کر بیٹھے۔
کیس نمبر47
عروہ ایک کٹہرے میں کھڑی تھی جبکہ رمیز دوسرے کٹہرے میں دونوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔
سب گھر والے بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔
وکیل صاحب کھڑے ہوئے یور آنر کل پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کیا ہے ایک کا نام رمیز ہے جو نگینہ بیگم کا بھتیجا ہے اور دوسری یہ عروہ جو ان کی پوتی ہے گن پر دونوں کے فنگر پرنٹس کے نشانات موجود ہیں اور یہاں تمام گواہ بھی موجود ہیں۔
یہ کہہ کر وکیل صاحب بیٹھ گئے۔
جج صاحب نے سارہ کو بلایا۔ سارہ عروہ کے برابر کٹہرے میں آ کر کھڑی ہوئی۔
جی ہم سب نے دیکھا تھا کہ ان دونوں میں چھینا جھپٹی ہوئی اور نانو کو گولی لگ گئی۔
یہ کہہ کر سارہ نیچے اتر کر شازین کے برابر جا کر بیٹھ گئی۔
پھر دوسرے وکیل جو نگینہ بیگم کے ذاتی وکیل تھے اور جنہیں عروہ نے اپنی اور دانیال کی طلاق کے لیے ہائر کیا تھا کھڑے ہوئے یور آنر یہ صرف ایک حادثہ تھا عروہ میڈم نے گن صرف چھیننے کی کوشش کی تھی کیونکہ رمیز صاحب پہلے سے ہی نگینہ بیگم کی کنپٹی پر گن رکھے کھڑے تھے۔
یہ سنتے ہی عروہ کے کانوں میں دادی کے آخری الفاظ گونجنے لگےعروہ بیٹی سچ ہی جیتتا ہے
جج نے عروہ کی طرف دیکھا آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں گی
عروہ نے نظریں جھکائیں میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میری پرورش اور تربیت دادو نے ہی کی ہے میں تو صرف انہیں بچانا چاہتی تھی لیکن اگر قانون کے مطابق میری سزا بنتی ہے تو جو بھی سزا دیں مجھے منظور ہے
کورٹ میں سناٹا چھا گیا۔پھر جج صاحب نے رمیز کی طرف دیکھارمیز صاحب آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں گے
رمیز نے عروہ کی طرف دیکھا گولی میری ہی بندوق سے چلی تھی یہ سچ ہے عروہ صرف پھوپھو کو بچانا چاہتی تھی ساری غلطی میری ہے یہ سنتے ہی عدالت میں دوبارہ سناٹا چھا گیا۔
جج صاحب نے فیصلہ سنایا رمیز نے اقرار جرم کر لیا ہے لہٰذا عدالت اسے پھانسی کی سزا دیتی ہےاور عروہ فیضان کو تمام تر الزامات سے بری کیا جاتا ہے
عروہ کی بے گناہی کی گواہی اللہ بھی دے رہا تھا تبھی عدالت میں عصر کی اذان کی آواز گونج اٹھی۔
عروہ اپنے کمرے میں کھڑی تھی نہا کر آئی تھی اور بال سلجھا رہی تھی۔اسی وقت فرحت بیگم جوس لے کر آئیں اور سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
انہوں نے عروہ کا گال چھوا میری معصوم بچی یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔عروہ دیوار پر لگی اپنی اور نگینہ بیگم کی تصویر کو دیکھنے لگی
دادو آپ کو ابھی نہیں جانا چاہیے تھا میں اکیلی ہو گئی ہوں وہ روتے ہوئے بولی۔روشن ولا کے لاؤنج میں سفید چاندنیاں بچھی تھیں۔
عورتیں قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں۔ آج نگینہ بیگم کا سوئم تھا۔
کچن میں عروہ سفید کپڑے اور سفید دوپٹہ اوڑھے کھڑی تھی۔ آنکھوں میں آنسو تھے وہ فاتحہ کے لیے حلوہ بنا رہی تھی۔
دوسری طرف سارہ رنگین لباس میں تھی بال بندھے ہوئے دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ فروٹ کاٹ رہی تھی۔
اسی وقت شازین سفید شلوار قمیض پہنے عائشہ کی خالی فیڈر لیے کچن میں آیا
عروہ ذرا یہ پتیلا خالی کر دو اس میں عائشہ کا دودھ گرم کرنا ہے
عروہ نے سر ہلایا اور حلوہ ڈالنے لگی۔
تبھی گرم حلوہ اس کے ہاتھ پر گر گیا۔
اللہ وہ درد سے کراہی اور ٹشو سے ہاتھ صاف کرنے لگی۔
سارہ گھبرا کر پیچھے مڑی مگر اس سے پہلے شازین آگے بڑھا
فرسٹ ایڈ باکس نکالا اور اس کے ہاتھ پر برن کریم لگانے لگا۔
سارہ کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔
وہ جلدی سے آگے بڑھی شازین کا بازو کھینچا
اور عروہ کے ہاتھ پر خود کریم رگڑنے لگی شازین آپ کو عروہ کا درد تو نظر آ گیا وہاں میری بچی بھوکی بیٹھی ہے جائیں اسے فیڈر بنا دیں
عروہ نے خاموشی سے پتیلا دھو کر شازین کو دیا۔شازین دودھ نیم گرم کر کے فیڈر میں ڈالنے لگا۔
سارہ تم زیادہ ہی ری ایکٹ کر گئی ہووہ بولا اور جانے لگا۔
سارہ نے غصے سے گھورتے ہوئے کہامیں تمہاری بیوی ہوں تمہارے لیے کنسرن رکھتی ہوں مجھے تو لگتا ہے تم دونوں کے بیچ کچھ اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرتی
شازین نے ایک زور دار تھپڑ مارا۔
سارہ نے آنکھوں میں آنسو لیے اپنا گال تھاما۔
بس میں بہت برداشت کر چکا ہوں آئندہ ایسی بات کی تو یاد رکھنا میں مرد ہوں ہر وقت کا شک اچھا نہیں ہوتا سارہ
ماں بیگم نے کہا تھا نا شک رشتوں کو توڑ دیتا ہے تم کیوں نہیں سمجھتی ہو وہ غصے سے بولا اور کچن سے باہر چلا گیا۔
عروہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔یہ سب میری وجہ سے ہوا دانیال کی موت ہو گئی دادو بھی چلی گئیں
اور آج سارہ کو بھی میری وجہ سے تھپڑ پڑ گیاپھوپھو صحیح کہتی ہیں میں منحوس ہوں شازین نے اس کی طرف دیکھا
نہیں عروہ تمہارا کوئی قصور نہیں بس وقت برا ہے
کیا عروہ کی منحوسیت کا سایہ واقعی سارہ اور شازین کے رشتے پر اثر ڈالے گا
جاری ہے۔۔۔
